دینی مدارس کی اسناد کی منظوری ؟

وفاق ہائے مدارس کی تازہ پیش قدمی کا جائزہ
’’ہرچند کہیں کہ ’ہے‘، نہیں ہے!‘‘
اسلام اللہ کی طرف سے ملنے والے علم اور اس پر عمل کا نام ہے۔ پہلی وحی میں علم سیکھنے، علم کے آداب، معلم حقیقی اللہ عزوجل کا تعارف اور علم کے موضوع کا تذکرہ کیا گیا ہے۔نبی کریمﷺ کی حیاتِ طیبہ اس علم وحی کو لینے، اس پر عمل کرنے اور اس کو سکھانے ،آگے پھیلانے کے گرد مرکوز ہے۔
انسانیت پر سب سے بڑا احسان اس کو ہدایتِ حقیقی کی تعلیم وتربیت دینا ہے جو انبیا ے کرام کا مشن ہے۔ جس طرح انبیا کی ذات وصفا ت سب سے ارفع واعلیٰ ہیں، اسی طرح انبیا کے علوم بھی سب سے بلند وبالا ہیں جودراصل خالق کے عطا کردہ علوم یعنی ’علومِ الٰہیہ‘ ہیں۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ نے بذاتِ خود ’دار ِ ارقم‘ اور درسگاہِ صفہ میں اس نظام تعلیم کا آغاز کیا، اس تعلیمی ادارے کے اوّلین معلّم آپﷺ اور اس کے پہلے متعلّم صحابہ کرام﷢ تھے۔ اسی نظام تعلیم نے دنیا کو تاریخ کی نامور اوّلین یونیورسٹیاں جامعہ زیتونہ، تیونس(120ھ؍ 737ء) جامعہ قرویین، مراکش(٢٤٥ھ ؍859ء)، جامعہ ازہر، مصر (359ھ ؍975ء)،جامعہ نظامیہ،بغداد (٤٥٩ھ؍ ١٠٦٦ء) دیں اور انسانیت کو علم کی روشنی سے آراستہ کیا۔ بڑے بڑے نامور علما یہاں سے تیار ہوئے اور اُنہوں نے سیکڑوں جلدوں پر مشتمل کتب بھی لکھیں اورعلوم کا سنہرا دور متعارف ہوا۔ جبکہ حالیہ مغرب اس وقت جہالت کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا اور اس کی مشہور یونیورسٹیاں ان اسلامی جامعات سے استفادہ کرتے ہوئے آکسفورڈ (1096ء )  ،کیمبرج (1209ء) اور ہارورڈ (1867ء) کے ناموں سے کئی سال بعد آہستہ آہستہ قائم ہوتی رہیں ۔
اسلام میں علم اور عالم کے بے پناہ فضائل ہیں اور ہر مسلمان کے لئے علم سیکھنا لازمی ہے۔ مسلم معاشرے میں ہرفرد پردین کا’ضروری علم‘ سیکھناواجب ہےجسے ’فرضِ عین‘[1] کہتے ہیں، جبکہ دین کا گہرا علم معاشرے کے ہر طبقے میں اتنے اشخاص کے لئے لازمی ہے جو پورے معاشرے کی رہنمائی کرسکیں اور یہ علم ’فرضِ کفایہ‘[2] کہلاتا ہے۔ ایسے علم کے ماہرین دراصل انبیا کے وارث ہیں، اور قرآنِ کریم نے ان کو ’علماے ربانی‘ قرار دیا ہے۔ بلکہ اسلام کے نظریاتی معاشرے کے قائدین یہی علما ے کرام ہیں جو نہ صرف عامۃ المسلمین کو اسلامی اقدار پر گامزن کرتے بلکہ حکام (اُولی الامر)کو شریعت کی راہوں پر قائم رکھتے ہیں تاکہ وہ عدل وانصاف کا فریضہ انجام دیں، اس طرح مسلم فرد اور اسلامی معاشرہ خیروبرکت کا گہوارہ بن جاتا ہے ۔
حقیقت یہی ہے کہ قوموں کے عروج وزوال کی بنیادیں علم وتعلیم سے اُٹھتی ہیں۔ عہدِ نبوی سے لے کر جب اور جہاں تک تعلیم وتعلّم کا دور دورہ رہا ، علوم نبوت   میں رسوخ اور ان پر تمام سماجی وسائنسی علوم کی اساسات قائم کی جاتی رہیں تو مسلمان دنیا کی قیادت کرتے رہے۔ بانگِ درا میں مفکر ِپاکستان علامہ اقبال  کہتے ہیں:
یقین محکم ، عمل پیہم، محبت فاتح عالم                               جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
متذکرہ اسلامی جامعات کا طرّۂ امتیاز یہ تھا کہ وہ جامع مساجدکے گرد قائم کی جاتیں، یہاں جملہ علوم کی تعلیم بلامعاوضہ دی جاتی اورقرآ ن وسنت کی تعلیم وتربیت کے ساتھ معاشرتی ضروریات کے دیگر علوم بھی قرآن وسنت کی روشنی میں سکھائے جاتے رہے۔ اسی نظامِ تعلیم کے تحت اَندلس کی درس گاہوں میں شریعت وزبان کے ساتھ ساتھ سائنسی علوم: کیمیاChemistry، فلکیاتAstronomy، ہندسہ Engineering، ریاضی Mathematics، طبMedical، نباتیاتBotany، حیاتیات Biology اور فلسفہ Philosophyومنطق Logicکی تعلیم بھی دی جاتی تھی، جبکہ برصغیر میں انہی علوم پر مشتمل ’شعبۂ حکمت‘ درسِ نظامی کا ایک لازمی حصہ تھا، جوطب، ریاضی اور فلسفہ کے مجموعہ پر مشتمل[3] تھا۔یعنی میڈیکل، انجنیئرنگ اور عقلی علوم بھی ہمارے روایتی مدارس کا لازمی حصہ رہے ہیں۔ ماضی قریب میں علماے کرام قرآن وسنت کے علوم کے ساتھ علوم حکمت کے بھی ماہر ہوتے حتیٰ کہ انہیں ان علوم کے بیشتر متون بھی زبانی حفظ[4] ہوتے تھے۔کیونکہ اسلام کی رو سے ’’دین ودنیا کی کوئی ثَـنَویّت نہیں ہے۔ دنیاوی زندگی میں درکار ہر علم اگر قرآن وسنت کی رہنمائی میں پڑھا جائے تو وہ فضیلت والا علم ہے اور اس کو سیکھنا کارِ ثواب ہے۔ البتہ اسلام میں علوم کی تقسیم نافع اور غیر نافع کی ہے۔ ‘‘
برصغیر میں جب برطانوی استعمار نے اپنے ڈیرے ڈالے تو اپنے سیکولر[5] نظریات کے زیر اثر پورے معاشرے کو دین ودنیا کے دو خانوں میں بانٹ دیا۔ اور سامراج نے معاشرے کا مرکزی دھارا؍ نظام، دین اور اس کے علوم کو نظرانداز کرکے خالص سیکولر بنیادوں اور انگریزی زبان وتہذیب پر تشکیل دیا ، اگرچہ ایک مختصر دائرے میں مشرقی زبانوں ؍علوم کو سیکھنے کی اجازت گوارا کی۔ چنانچہ 1840ء کے بعد متعصّب انگریز جنگجو مفکر لارڈ تھامس میکالے(م1859ء) کے زیر نگرانی سرکاری انگریزی تعلیمی نظام کو مرکزی حیثیت دیتے ہوئے، استعمار نےصرف اس کی اسناد کو قبول ومنظور کیا، بلکہ مسلمانوں کے قدیم سے چلے آنے والے تعلیمی نظام کےسرپرست اوقاف کےذرائع آمدن پر بھی قبضہ کر لیا اور ان کی اسنادِ فضیلت کو بے وقعت قرار[6] دے دیا۔ ان کے اس عمل کے نتیجے میں جبری طور پر معاشرے میں مسلمانوں کے تعلیمی مدارس لارڈمیکالے کے قائم کردہ مرکزی تعلیمی دھارے سے علیحدہ ہوکر روایتی دینی علوم تک محدود ہوگئے اور انگریز سرکار کے زیر سایہ تعلیمی ادارے، سیکولرعلوم کے ادارے بن کر اپنی اسناد کی منظوری سے معاشرے کو افراد ِکار مہیا کرنے لگے۔یہ وہ مرحلہ ہے جب سیاسی جبر اور عوامی رجحانات کے زیر اثر دینی مدار س کا تعلیمی کردا ر محدود ہوگیا ۔ گویا ہمارے معاشرے کی دینی ودنیاوی تقسیم انگریز کے سیکولر نظریات کا تقاضا تھی، جس نے ماضی کے برعکس مسلم معاشرے کو ’مسٹر‘ و’ملاّ‘ کے دو طبقات میں بانٹ دیا۔
جب برطانیہ جنگِ عظیم دوم کے بعد اپنی استعماری طاقت برقرار نہ رکھ سکا، تو انگریز کو اپنے وطن مالوف تک سمٹنا پڑا، اورقائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت اور مسلمانوں کی لازوال جدوجہد کے نتیجے میں بالآخر اسلام کے نام پر ’پاکستان‘ وجود میں آگیا۔ جس کا مقصد معاشرے کی سیاست وعدالت، تعلیم وابلاغ اور معیشت ومعاشرت میں استعمار کے اثرات کا خاتمہ کرکے اس کو اسلام کا نمونہ اور قلعہ بنانا تھا۔ اس عظیم مقصد کو قراردادِ مقاصد[7] (1949ء)اور بعد ازاں دستور پاکستان (1973ء) میں قانونی بنیاد بھی مہیا کردی گئی۔[8]
بلاشبہ کسی مسلم حکومت کا بنیادی فریضہ ’’علوم نبوت کا احیا کرکے معاشرے میں ان کے ماہرین فراہم کرنے کے ذریعے، اس کو نبوی تعلیمات کے مطابق استوار کرنے کی جدوجہد کرنا ہے۔‘‘ کیونکہ مسلم حکومت کے قیام کا آغاز احیاے علوم دینیہ سے ہی ہوتا ہے ۔ چنانچہ امام الہند شاہ ولی اللہ دہلوی ﷫ (م1762ء؍1176ھ) مسلم حکومت کی تعریف اور اس کا طریقہ کار یوں بیان کرتے ہیں:
هي الرياسة العامة في التصدي لإقامة الدين بإحياء العلوم الدينية واقامة أركان الاسلام والقيام بالجهاد وما يتعلق به من ترتيب الجيوش والفروض للمقاتلة وإعطاءهم من الفيء والقيام بالقضاء وإقامة الحدود ورفع المظالم والأمر بالمعروف والنهي عن المنكر نيابةً عن النبي ﷺ[9]
’’یہ ایسی وسیع ترحکومت ہے جو نبی مکرمﷺ کی نیابت میں نفاذِ ؍اقامتِ دین کے فرض کو پورا کرتی ہے کہ (1) وہ دینی علوم کا احیا کرے، (2) ارکانِ اسلام (توحید ورسالت، نماز ، روزہ ، زکوٰۃ اور حج) کو قائم کرے، (3) جہاد کو جاری کرے، متعلقہ لشکروں کی تنظیم کرے،وجوبِ جہاد کا اعلان اور مجاہدین میں مالِ فے وغنیمت تقسیم کرے، (4) شرعی نظامِ عدل کو قائم کرے، حدود کا نفاذ کرے،احتسابی نظام سے افسران کے مظالم کی بیخ کنی کرےاور معاشرے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو جاری کرے۔‘‘
یہی بات اس سے سات صدیاں قبل سیاسہ شرعیہ کے عظیم ماہر، خلافتِ عباسیہ کے نامور جسٹس وفقیہ، امام ابوالحسن علی الماوردی (م1058ء؍ 450ھ) بھی حاکم کے 10 ؍فرائض گنواتے ہوئے سرفہرست لکھ چکے ہیں:
(1) حِفْظُ الدِّينِ وَالْحَثُّ عَلَى تَطْبِيقِهِ، وَنَشْرُ الْعِلْمِ الشَّرْعِيِّ وَتَعْظِيمُ أَهْلِهِ وَمُخَالَطَتُهُمْ وَمُشَاوَرَتُهُمْ.
(2) حِرَاسَةُ الْبِلاَدِ وَالدِّفَاعُ عَنْهَا، وَحِفْظُ الأَمْنِ الدَّاخِلِيِّ... الخ[10]
’’حاکم کا پہلا فرض یہ ہے کہ دین کی حفاظت کرے او راس کو نافذ کرنے کی جستجو کرے۔ علوم شرعیہ کو سکھانے کا انتظام کرے، اور علوم شرعیہ کے حامل علما کی عزت کرے، ان سے میل جول رکھے اور ان سے مشاورت کرتا رہے۔ اس کا دوسرا فرض یہ ہے کہ شہروں کی حفاظت اور ان کا دفاع کرے اور داخلی امن کو قائم کرے.... الخ ‘‘
یاد رہے کہ دستور پاکستان بھی قوم کی تعلیمی ضروریات کو پوری کرنا حکومت کی ذمہ داری قرار دیتا ہے :
’’آرٹیکل 25(الف): ریاست پانچ سے سولہ سال تک کی عمر کے تمام بچوں کے لئے مذکورہ طریقہ کار پر جیسا کہ قانون کے ذریعے مقرر کیا جائے، مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرے گی۔ ‘‘
گویا تعلیم پہلے ہی حکومتی ذمہ داری ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ذمہ داری کو دینی تعلیم تک وسیع کیا جائے اور دینی تعلیم کی بنیادی قابلیت کی بجائے معاشرے کو اس کے ماہرین بھی فراہم کئے جائیں تاکہ پاکستان کا اسلامی معاشرہ اور نظریاتی ریاست اسلام کی سمت تیز ی سے پیش قدمی کرسکے۔
اُصولی طور پر جب دینی مدارس میں علم کی سب سے بلند ؍مستند قسم کو سکھایا جاتا ہے   اورعلوم نبوت کے ماہرین تیار کرنا مسلم معاشرے کا ملّی اوردینی فریضہ ہے تو لازمی ہے کہ اس کومتعارف ومروّج کرنے کے لئے مسلم حکومتوں کی طرف سے اقدامات بھی کئے جائیں تاکہ مسلم معاشرے کی تشکیل میں علماء کو ضروری کردار ادا کرنے کا موقع ملے۔اور مسلم حکومت کی طر ف سے علوم اسلامیہ وشرعیہ کو سیکھنے کی اجازت ہی کافی نہیں بلکہ ان کا فروغ اور اس میں رسوخ بھی حکام کی مسلّمہ شرعی ذمہ داری ہے، جیساکہ فوج وپولیس یا عدلیہ قائم کرنا اور ان کی معیاری اعلیٰ تعلیم کا انتظام کرنا حکومتی فریضہ ہے۔
ایک صدی سے زیادہ عرصہ انگریز سامراج کےپیدا کردہ فرقہ وارانہ تعصّب کے سائے تلے گزارنے کے باوجود علمائے کرام اور ان کے قائم کردہ تعلیمی اداروں نے پاکستان میں بڑی حدتک اسلامی تعلیمی خدمات کی ذمہ داری قبول کی، حالانکہ درحقیقت یہ فریضہ اصلاً پاکستان کے حکام کا تھا کہ وہ دیگر علوم کی طرح علوم نبوت کے نامور ماہرین بھی معاشرے کو فراہم کرتی۔ نیز مدارس ِ دینیہ نے قومی تعمیر میں کردار ادا کرنے کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اپنے فضلا کو معاشرے کے مختلف میدانوں میں اپنی صلاحیتیں کھپانے کی کوششیں بھی کیں  جس کے لئے پہلا قدم یہی تھا کہ مدارس کی اسناد کو سرکاری طورپر قبول ومنظور کیا جاتا کیونکہ اسناد کے بغیر معاشرتی عمل بالخصوص سرکاری وقومی اداروں میں فرائض منصبی کی ادائیگی ممکن ہی نہیں ۔
وفاق المدارس کے پلیٹ فارم سے اسناد کی منظوری کی جدوجہد میں تمام مکاتبِ فکر کے مدارس کا بلاامتیاز شریک ہونا اس امرکا غماز ہے کہ مدارسِ دینیہ پاکستانی معاشرے کو سیکولر نظریہ کے مطابق دینی ودنیاوی دائروں میں بانٹ کررکھنا نہیں چاہتے اور مؤثر معاشرتی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔
لیکن افسوس ناک امر ہے کہ علوم نبوت کی تعلیم کو اسلامی جمہوریہ پاکستان   میں کبھی تعلیمی سرگرمی ہی نہیں مانا گیا، اور اُنہیں زیادہ سے زیادہ وزارت مذہبی امور کے تحت ایک مذہبی سرگرمی کے طور پر یا وزارتِ داخلہ کے تحت امن وامان کے لئے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ جنرل محمد ضیاء الحق  کے دور میں جاری ہونے والا پہلا نوٹیفکیشن بھی وزارتِ مذہبی امور کے ایک محترم ڈائریکٹر حج کی کاوشوں کا نتیجہ تھا۔حال ہی وفاقی وزیر مملکت برائے تعلیم نے بھی اُس وقت دینی مدارس سے ایک مبینہ معاہدہ کیا ہے، جب اٹھارویں ترمیم کے بعد وزارت ِ تعلیم وفاق سے نکل کر صوبائی حکومتوں کے دائرہ اختیار میں آچکی ہے۔تفصیلات آگے ملاحظہ کریں۔
پہلا مرحلہ: جنر ل محمد ضیاء الحق مرحوم کا دور
ایک اسلامی ریاست ہونے کے ناطے پاکستان میں قانون وتعلیم کے میدانوں میں بھی اسلامی روایات واقدار کا احیا کرنا ہمارا قومی وآئینی فریضہ تھا۔تیس سالوں کے بعد جب جنرل محمد ضیاء الحق کے دور میں حکومت نے پاکستان کے مقصدِ وجود کی طر ف سنجیدہ پیش قدمی کی اور زندگی کے متنوع میدانوں میں اسلامی اصلاحات کو تدریجا ًمتعارف کرانا شرو ع کیا،تو دینی مدارس کو معاشرے کے مرکزی تعلیمی نظام میں واپس لانے اور استعمار کے اثرات کو کم کرنے کے لئے ان کی اسناد کوجزوی طور پر منظور کرنے کا حکم نامہ جاری کیا گیا۔ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن( UGC)کے نوٹیفکیشن نمبر 8-418/Acad/82/128 مجریہ 17 نومبر 1982ء کے مطابق:
’’موضوع: یونیورسٹی ڈگری کے ساتھ دینی اسناد کا معادلہ(Equivalence) [11]
یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نے مذکورہ موضوع پر درج ذیل اعلان کیا کہ
دینی وفاق ہائے مدارس کی آخری سند کو کالج ویونیورسٹی میں اسلامیات اور عربی کے مضامین کی تدریس اور ان میں مزید تحقیق کے لئے ایم اے اسلامیات اور عربی کے مساوی تسلیم کیا جاتا ہے ۔
جبکہ تدریس کے علاوہ کسی اور میدان میں ملازمت حاصل کرنے کے لئے یہ سند پانے والے طلبہ کے لئے لازمی ہو گا کہ بی اے درجہ کے (عربی اور اسلامیات کے ماسوا) کسی بھی یونیورسٹی سےدو اختیاری مضامین کا امتحان پاس کریں۔مزید برآں اُنہیں حال ہی میں متعارف کرائے جانے والے بی اے درجہ کے مطالعہ پاکستان اور اسلامیات کے لازمی پیپرز بھی پاس کرنے ہوں گے۔ ‘‘
درج ذیل وفاق ہائے مدارس اور دینی مدارس[12] کی آخری سند (العالمیہ) کومنظور کیا گیا:
وفاق المدارس عربیہ، ملتان                                        دیوبندی؍ حنفی
2۔ دار العلوم کورنگی، کراچی                                                               دیوبندی؍ حنفی
3۔ جامعہ اشرفیہ ، لاہور                                                        دیوبندی؍ حنفی
تنظیم المدارس اہل سنت، لاہور                                 بریلوی؍ حنفی
5۔ دار العلوم محمدیہ غوثیہ، بھیرہ                                           بریلوی؍ حنفی
6۔ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن،لاہور                                بریلوی؍ حنفی
وفاق المدارس السّلفیہ، فیصل آباد                                 اہل حدیث
8۔ جامعہ تعلیمات اسلامیہ، فیصل آباد                   اہل حدیث
وفاق المدارس شیعہ، لاہور                                          اہل تشیع
10۔ رابطۃ المدارس الاسلامیہ،منصورہ،لاہور  جماعتِ اسلامی
واضح رہے کہ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے اس حکم نامے میں صرف ایم اے کی سند کوقبول کیا گیا تھا، اور ان سالوں میں صرف وفاق کی آخری سند الشهادة العالمية ہی ایم اے اسلامیات وعربی کے لئے کافی سمجھی جاتی رہی۔اور اس امر کا قوی امکان تھا کہ اعلیٰ ترین تعلیمی سند منظور ہونے کے بعد ایم اے کے نچلے مراحل بھی آہستہ آہستہ منظور و معتبر ہوتے جائیں گے۔
تاہم اس موقع پر ایم اے کی سند کو ’ہر طرح کی قابلیت‘ کے لئے منظور نہ کیا گیا تھا بلکہ ہر طرح کی مسلمہ اہلیت کے لئے بی اے درجہ کے چار مضامین پاس کرنا ضروری قرا ردیے گئے تھے :
اسلامیات اور عربی کے سوا کوئی سے دو اختیاری مضامین           (جیسے اُردو ،معاشیات، سیاسیات وغیرہ )
اسلامیات اور مطالعہ پاکستان کے لازمی[13] مضامین
چنانچہ اس سہولت سے استفادہ کرتے ہوئے الشهادة العالمية کے سند یافتہ بہت سےطلبہ نے سرکاری یونیورسٹیوں میں بی اے کے امتحان میں شرکت کی اور ان مضامین کا امتحان پاس کرکے، ایک طرف بی اے کی ڈگری سرکاری یونیورسٹی سے حاصل کرلی تو دوسری طرف ا ن کی الشهادة العالمية بھی دیگر میدانوں کے لئے معتبر قرار پاگئی۔2006ء میں پنجاب یونیورسٹی کے تحت منعقد ہ،ایسا امتحان دینے والے طلبہ کی سند کا متن یو ں دیکھا گیا:
’’تصدیق کی جاتی ہے کہ ...بن ....از.... نے   الشهادة العالمية في العلوم العربية والإسلامية پاس کرنے کے بعد پہلا سالانہ امتحان ....... منعقدہ ......... میں اضافی مضامین: علوم اسلامیہ، ومطالعہ پاکستان، پنجابی اور سیاسیات میں کامیابی حاصل کی ہے۔ نمبر حاصل کردہ 500؍.....‘‘
پنجاب یونیورسٹی کے تحت ہونے والے اس امتحان کے رزلٹ کارڈ کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ طالب علم نے وفاق سے عالمیہ کا امتحان پاس کرنےکے بعد کل 500 نمبروں کا مزید امتحان دیا ہے، جن میں 200 ، 200 نمبروں کی سیاسیات اور پنجابی شامل ہیں۔ جبکہ بطور لازمی مضامین: مطالعہ پاکستان ؍اسلامیات لازمی کے 50 ، 50 نمبروں کے دو مضامین کا امتحان دیا گیا ہے۔گویا انگریزی کے علاوہ کل چار مضامین کے امتحان کے بعد
اوّلاً:   ایم اے علوم اسلامیہ کی سند ہرمیدان میں فرائض منصبی کی ادائیگی کیلئے کامل اور اہل قرار پائی۔
ثانیاً:   سند پر مذکور ’بی اے (وفاق المدارس) ‘ سے پتہ چلا کہ اب یہ طالب علم بی اے کا بھی سند یافتہ ہے۔
واضح رہے کہ 1982ء کے نوٹیفکیشن میں مذکور اس طریقہ کا ر کو اختیار کرتے ہوئے ، ایم اے کو جامع تر کرنے اور بی اے کی سرکاری سند حاصل کرنے کے لیے انگریزی کی کوئی تعلیم لازمی نہیں ہے۔
دوسرا مرحلہ : جنرل پرویز مشرف کا دور
جنرل محمد ضیاء الحق کے بعد آنے والی پاکستانی حکومتیں پھر اپنے دینی فریضہ سے غافل ہوگئیں، حتیٰ کہ جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں مدارسِ دینیہ کی اس سندپر بعض پابندیاں عائد کر دی گئیں تاکہ وفاق کی اسناد کی ترویج میں رکاوٹیں ڈالی جائیں۔ اس سے قبل مدارس کے آخری تعلیمی مرحلہ کا ہی امتحان لیا جاتا تھا، اور اس کی سند جاری کردی جاتی تھی۔ جبکہ اعلیٰتعلیم کے وفاقی ادارے (ہائرایجوکیشن کمیشن )کی طرف سے نوٹیفکیشن نمبر 8-16/HEC/A&A/2005مجریہ 20؍ اگست 2005ء میں قرار دیا گیا کہ
’’موضوع: دینی اسناد کی منظوری Recognition
HEC   وفاق ہائے مدارسِ دینیہ کی اسناد کو عربی واسلامیات کی تدریس وتحقیق کے لئے ایم اے اسلامیات وعربی کے مساوی تسلیم کرتا ہے ۔ تاہم ان وفاقوں کی عالمیہ کی سند کی منظوری کے لئے ضروری ہے کہ اس سند کا حامل درج ذیل تعلیمی مراحل کو پاس کرچکا ہو:
                        مڈل سکول سرٹیفکیٹ (متوسطہ)                   8 سالہ تعلیم جو درج ذیل میں داخلہ کا تقاضا ہے:
                        شہادۃ ثانویہ عامہ        (میٹرک)                   2 سالہ تعلیم
                        شہادۃ ثانویہ خاصہ       (انٹر میڈیٹ)                              2 سالہ تعلیم
                        شہادۃ عالیہ                 (بی اے)                    2 سالہ تعلیم
                        شہادۃ عالمیہ                               (ایم اے)                   2 سالہ تعلیم
اس طرح ایم اے تک کل تعلیمی دورانیہ 16 سال پورے ہوتے ہیں جو ایم اے (اسلامیات وعربی)کی ڈگری کا قانونی تقاضا ہے۔
تدریس کے علاوہ کسی اور میدان میں ملازمت حاصل کرنے کے لئے ایم اے کی یہ سند پانے والے طلبہ کے لئے لازمی ہو گا کہ وہ کسی بھی یونیورسٹی سے بی اے درجہ کے (عربی اور اسلامیات کے ماسوا( دواختیاری مضامین کا امتحان پاس کریں۔مزید برآں اُنہیں بی اے درجہ کے اسلامیات اور مطالعہ پاکستان کے لازمی امتحان (Compulsory Subjects)بھی پاس کرنا ہوں گے۔
چنانچہ وفاق کے کسی بھی سند یافتہ کو معادلہ کا لیٹر، انفرادی طور پر مطلوبہ اسناد کی فراہمی کے بعد ، طے شدہ فارم نمبر E-02 بھرنے پر ہی جاری کیا جائے گا۔‘‘
اس طرح مدارس کو اس امر کا تو پابند کیا گیا کہ وہ ایم اے کی سطح کے امتحان سے قبل میٹرک(ثانویہ عامہ)، ایف اے(ثانویہ خاصہ) اور بی اے (شہادۃ عالیہ)کے امتحان بھی منعقد کرائیں، اور ان میں ضروری دورانیہ بھی ملحوظ رکھیں، نیز طلبہ کے لئے مڈل کی سند پیش کرنا بھی ضروری قرار پائی۔ لیکن سابقہ امتحانات کے انعقاد اور ان کی پابندی کے باوجود ان کی اسناد کی منظور ی کو نظرانداز کردیا گیا۔ اس اقدام کا مقصد مدارس کو قومی دائرے میں لانے کی بجائے، معاشرے میں تقسیم کو مزید گہرا کرنا تھا، اس لئے پابندی اور رکاوٹ پر ہی اکتفا کیا گیا۔
ایچ ای سی کے مذکورہ بالا نوٹیفکیشن کا مقصد صرف اتنا تھا کہ ایم اے کی سند کو مشروط طور پر معتبر قرار دلوانے کے لئے بھی دفتر وفاق کو طالب علم کے سابقہ تین امتحانات اور مڈل کا ریکارڈ پیش کرنا ضروری ہے۔ اور اس سند کو اُصولی طور پر معتبر قرار دینے کے بجائے مطلوبہ پرفارما پر انفرادی ریکارڈ پیش کرنے پر ہی متعلقہ اُمیدوار کی ایم اے کی سند مشروط طور پر تدریس وتحقیق کے لئے معتبر قرار دی جائے گی۔ یاد رہے کہ اس مرحلے میں بھی ایم اے کو جامع تر کرنے کے لئے انگریزی کی کوئی تعلیم لازمی قرار نہیں دی گئی۔
اعلیٰ عدالتوں کے فیصلے
مدارس کی آخری سند کی مشروط منظوری کے باوجود ، ان کی میٹرک اور ایف اے کی اسناد قومی نظام تعلیم میں معتبر نہ سمجھی جاتی تھیں۔ ان کی منظوری کی طرف پیش قدمی کی بجائے مشرف حکومت کا اُلٹا موقف یہ بھی رہا کہ جب ان کی نچلی سندیں معتبر نہیں ، توپھر ایم اے کی سند کی منظوری کا بھی خاتمہ ہونا چاہیے؟
1.  چنانچہ 2005ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے سامنے صوبہ سرحد میں ہونے والے ناظم اور نائب ناظم کے انتخابات میں اُمیدواروں کی اہلیت پر اعتراض کیا گیا تو جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں 4؍اگست 2005ء کو سہ رکنی بنچ نے یہ فیصلہ دیا کہ
’’مدارس کی سندیں رکھنے والوں کو مشروط طور پر انتخابات لڑنے کی اجازت ہے ،تاہم اس کا حتمی فیصلہ ابھی ہونا باقی ہے۔ ‘‘
2.  اس دور میں پارلیمنٹ میں متحدہ مجلس عمل سے تعلق رکھنے والے ستّرارکان دینی مدارس سے فارغ التحصیل تھے۔ چنانچہ یہی مسئلہ دوبارہ سپریم کورٹ میں چند روز بعد 16؍اگست 2005ء کو پھر پیش آگیا تو دورانِ سماعت اٹارنی جنرل مخدوم علی خان نے عدالتِ عظمی سے کہا کہ
’’جب کوئی شخص میٹرک پاس ہی نہیں تو الشہادۃ العالمیہ کی سند کو بی اے یا ایم اے کے مساوی کیسے مانا جاسکتا ہے؟ پانچ دینی وفاق ایسے ہیں جن کو HECنے سندیں دینےکا اختیار دیا ہے اور اُنہیں تین لازمی مضامین پاس کرنے کے بعد ہی میٹرک یا انٹرمیڈیٹ کے برابر تسلیم کیا جاتا ہے۔‘‘
اور سپریم کورٹ کے بنچ   نے چیف جسٹس افتخار چودھری کی سربراہی میں یہ تبصرہ کیا کہ
’’ صرف انہی دینی مدرسوں کی سندیں قابل قبول ہوں گی جو ہائر ایجوکیشن کمیشن HECسے منظور شدہ ہوں اور یہ سندیں میٹرک کے مساوی اس وقت سمجھی جائیں گی جب طالب علم نے کسی بورڈ سے انگلش، اردو اور مطالعہ پاکستان کے لازمی مضامین پاس کیے ہوں۔‘‘
3.  اور اس موقع پر سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ کیا کہ
’’دینی اسناد کے بی اے کے برابر ہونے کا فیصلہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں ہوگا، اوروہ جس سند کو بی اے کے برابر قرار دے گا، اسی اُمیدوار کو الیکشن لڑنے کی اجازت ہوگی۔‘‘[14]
سپریم کورٹ کے اس فیصلہ سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ عدالتِ عظمی نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلہ کی تصدیق کردی ہے اور پشاور ہائی کورٹ کے فیصلہ کو مسترد کردیا ہے۔[15]
ظاہر ہے کہ سپریم کورٹ کسی بھی فیصلہ سے قبل مجاز سرکاری اداروں سے جملہ تفصیلات اور قوانین طلب کرتی ہے۔ اس فیصلہ سے معلوم ہوا کہ وفاق کے تحت میٹرک، ایف اے کے امتحان سرکاری طور پر دو شرائط کے تحت معتبر ہیں: اوّل تو یہ امتحان ’منظور شدہ پانچ وفاقات یا مدارس‘ کے تحت ہو نے چاہئیں۔ دوم : ان کے ساتھ انٹربورڈ سے انگریزی، اردو اور مطالعہ پاکستان کے مضامین کا امتحان بھی پاس کرنا ضروری ہے۔
4.  اس کے دوسال بعد دینی مدارس کی اسناد کی بنا پر سیاست میں حصہ لینےوالوں کو ماضی کے عدالتی فیصلہ کے برعکس واضح طور پر یوں منع کردیا گیا:
’’لاہور ہائیکورٹ کے الیکشن ٹربیونل کے دو جج صاحبان جسٹس محمد مزمل خاں اور جسٹس سردار محمداسلم نے اپنے فیصلہ میں یہ قرار دیا کہ الیکشن 2008ء میں دینی مدارس کی اسناد کو تسلیم نہیں کیا جائے گا اور ایسے اُمیدوار الیکشن لڑنے کے سلسلے میں نااہل تصور ہوں گے۔ یاد رہے کہ گزشتہ انتخابات کے موقع پر 25؍ جولائی 2002ء کو ایک عدالتی فیصلہ کی رو سے دینی اسناد کے حامل اُمیدواروں کو الیکشن لڑنے کی اجازت دی گئی تھی جس فیصلہ کو عدالت ِعالیہ نے اُسی الیکشن کے ساتھ مخصوص قرار دیتے ہوئے آئندہ انتخابات کے لئے ایسے اُمیدواروں کو نااہل قرار دیا۔‘‘[16]
فاضل عدالت نے یہ قرار دیا کہ ’’صرف ایسے اُمیدوار انتخابات لڑنے کے اہل ہیں جنہوں نے دینی اسناد کے ساتھ بی اے کی انگریزی اور ایک مضمون کا سرکاری امتحان بھی پاس کیا ہو۔ ‘‘
لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کی بنیاد واضح نہیں ہے کہ انہوں نے کیوں کر بی اے کی انگریزی اور ایک مضمون کا سرکاری امتحان پاس کرنے کی شرط پیش کی؟ جبکہ 1982 ء کے نوٹیفکیشن میں تو کوئی سے دو اختیاری اور دو لازمی مضامین کے سرکاری امتحان دینے کی بات کی گئی تھی اور اختیاری مضامین   میں انگریزی کو لازمی کرنے کی قانونی بنیاد واضح نہیں۔ غالباً لاہور ہائیکورٹ نے عمومی بی اے کے لازمی مضامین (انگریزی، اسلامیات اور مطالعہ پاکستان ) کی قومی تعلیمی پالیسی یہاں لاگوکردی ، جبکہ وفاق کے تحت متوازی نظام جس کو ایم اے (وفاق) اور بی اے (وفاق المدارس) کے طورپر لیا جاتا ہے ، کو پیش نظر نہیں رکھا جو دینی مدارس کے لئے خاص ہے۔
معادلہEquivalence اور الحاق Affiliationمیں فرق
فاضل عدالتِ عالیہ کے اس فیصلہ کے مستقبل میں سنگین اثرات مرتب ہوئےاور طلبہ مدارس کے لئے مزید اُلجھنیں پیدا ہوئیں۔جبکہ پیش نظر فیصلہ میں   منظوری Recognition کے دو مروّجہ نظاموں میں فرق کو ملحوظ نہیں رکھا گیا اور مشرف دور کے سیاسی دباؤ، اور امریکی امداد کے عین عروج کے دور میں معادلہ Equivalence کے تصور کو قومی نظام تعلیم سے الحاق Affiliation کے ساتھ خلط ملط کردیا گیا۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ قومی نظام تعلیم کے تقاضے اور ڈھانچہ مقرر کرنے کا حق ہر قوم کو حاصل ہے۔ لیکن ہر نظام تعلیم میں کسی بھی متوازی نظام تعلیم کو قانوناًمعتبر قرار دینے اور اس کو مستند حیثیت دینے میں طے شدہ مضامین سے بڑھ کر تعلیمی دورانیہ اور اس کے ہم پلہ مضامین کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ مثلاً پاکستان میں میٹرک وانٹر کی سطح پر اسلامیات ومطالعہ پاکستان لازمی مضامین ہیں، لیکن پاکستان میں ہی برطانوی نظام تعلیم کے اے اور او لیول کے نصابِ تعلیم میں یہ لازمی مضامین (طے شدہ سرکاری نصاب کے ساتھ) شامل نہیں، اس کے باوجود ان کے تعلیمی نظام کا تقابل وتجزیہ کرتے ہوئے، اے لیول کو ایف اے اور او لیول کو میٹرک کا معادلہ Equivalence دے دیا جاتا ہے ۔اسی طرح پاکستان کی قومی تعلیمی پالیسی میں بی اے کی سطح پر لازمی مضامین میں مطالعہ پاکستان اور اسلامیات لازمی کے ساتھ، انگریزی بھی لازمی ہے۔ لیکن جو طلبہ سعودی یونیورسٹیوں سے بی اے کے سند یافتہ ہوتے ہیں، ان کو انگریزی کے بغیر بھیHEC کی طرف سے بی اے کے معادلہ کا سرٹیفکیٹ جاری کیا جاتا ہے۔ یہی صورت حال دینی مدارس کے وفاقات کی ہے کہ چونکہ اس میں سرکاری خزانے سے کچھ خرچ نہیں کیا جاتا ، اس لئے اس میں قومی تعلیمی پالیسی کونافذ کرنے کی بجائے اس کو فی الوقت ایک متوازی پرائیویٹ نظام تعلیم کی حیثیت حاصل ہے اور اس بنا پر اس کے تعلیمی دورانیے اور نصابات کا جائزہ لیتے ہوئے، قومی تعلیمی پالیسی سے قطع نظر ان کے فضلا کو ایم اے کے مساوی Equivalence قرار دیا جاتا رہا ہے(جیسا کہ 1982ء کا نوٹیفکیشن بھی اپنے عنوان میں ہی Equivalence کا لفظ لکھتے ہوئے اس کو ایک متوازی نظام تعلیم قرار دیتا ہے )۔
جبکہ قومی سرکاری نظام تعلیم اور پالیسی یا تو پارلیمنٹ سے چارٹر ہونے والی یونیورسٹیوں میں لاگو ہوتی ہے یا پبلک یونیورسٹیوں اور ان کے ماتحت چلنے والے الحاق شدہ Affiliatedکالجوں میں۔ اس کی ایک آسان مثال یہ بھی ہے کہ کیا جرمنی سے بی اے کرنے والے سندیافتہ کو پاکستان میں جاہل تصور کیا جائے گا؟ یا بعض ضروری جائزوں کے بعد ایف اے یا بی اے کے مساوی ؍ہم پلہ قرار دیا جائے گا، جبکہ اس جرمن طالب علم نے بی اے کے پاکستان میں منظور شدہ لازمی مضامین سے کچھ بھی نہیں پڑھے ہوں۔ یہی صورتحال دینی مدارس کے فضلا کی ہے کہ ان پر قومی پالیسی جاری کرنے کی بجائے، ان کے تعلیمی دورانیے اور نصابات کی اہمیت ووقعت کو دیکھا جائے۔ اندریں صورتحال ضرورت اس امر کی ہے کہ اس عدالتی فیصلہ پر مزید قانونی چارہ جوئی کرتے ہوئے ، فضلاے مدارس کو میسّر سہولت جاری رکھی جائے۔
5.  لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے ان دنوں راقم نے اپنے مضمون میں لکھا تھا :
’’ گزشتہ 5 سالوں میں 64 ارکانِ اسمبلی انہی دینی اسناد کی بنا پر منتخب ہوکر اسمبلیوں میں پہنچے تھے لیکن حالیہ فیصلہ کے بعد اَب ایسے امیدوار الیکشن لڑنے کے اہل نہیں رہے۔ تقریباً دوبرس قبل 2005ء میں یونین کونسلوں کے انتخاب کے موقع پر سپریم کورٹ کے سامنے بھی یہی مسئلہ پیش آیا تھا تو اس وقت دینی اسناد کے بارے میں سپریم کورٹ نے واضح موقف اختیار کرنے کی بجائے اس امر کا فیصلہ کیا تھا کہ دینی اسناد کے بی اے کے برابر ہونے کا فیصلہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں ہوگا، اوروہ جس سند کو بی اے کے برابر قرار دے گا، اسی اُمیدوار کو الیکشن لڑنے کی اجازت ہوگی۔ اس اُصولی فیصلہ کے بعد ماہِ جون 2006ء کے وسط میں قومی اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ ضلع ژوب کے ناظم سمیت ۱۶؍ ناظمین کو اُن کے عہدے سے صرف اس بنا پر ہٹا دیا گیا کہ ان کے پاس محض دینی تعلیم کی اَسناد تھیں اور انگریزی ومطالعہ پاکستان کا امتحان انہوں نے پاس نہ کیا تھا۔ ان ناظموں کی جگہ پر دوسرے نمبر پر آنے والے اُمیدواروں کو عہدۂ نظامت سپرد کردیا گیا۔ اب لاہور ہائیکورٹ کے اس واضح اور دوٹوک فیصلہ کے بعد عملاً دینی مدارس کی اسناد کی قومی حیثیت کو بالکل بے وقعت کردیا گیا ہے۔‘‘[17]
افسوس ناک امر یہ ہے کہ دینی تعلیم کی ان اسناد کو علمی قابلیت کے لحاظ سے فروتر قرار دیا گیا، جبکہ ان کی علمی قابلیت کا اعتراف تو 1982 ء کے نوٹیفکیشن میں ہوچکا تھا اور سیاست کے لئے یہی علمی اہلیت ہی درکار تھی، جس کو ملازمت کےتصورات سے خلط ملط کرکے ان اسناد کو بالکل بے وقعت قرار دے دیا گیا۔ یہ مشرف کی امریکہ نواز   حکومت اور عالمی اداروں کی تائید سے چلنے والے HEC کی غلط تشریحات کا برا نتیجہ تھا۔
تیسرا مرحلہ: وزیر اعظم نواز شریف کا تیسرا دورِ حکومت
مدارس کی اسناد کی منظوری کا تیسرا مرحلہ حالیہ سالوں میں پھر پیش آیا۔ جب مسلم لیگ ن کی حکومت میں وزیر مملکت (برائے وفاقی وزارتِ تعلیم وپیشہ وارانہ تربیت) انجنیئر بلیغ الرحمٰن کے ساتھ اتحادِ تنظیماتِ مدارسِ دینیہ نے وفاق کی اسناد کو مؤثر کرنے کے لئے متعدد اجلاس کیے۔ان اجلاسوں کے نتیجے میں اتحادِ تنظیمات اور حکومت کے مابین ایک معاہدہ طے پایا جس کو قومی اخبارات نے جولائی 2016ء میں یوں رپورٹ کیا:
’’مدارس کے طلبا کو مختلف مراحل میں جدید سائنسی مضامین، انگلش اور مطالعہ پاکستان کے مضامین پڑھائے جائیں گے۔ اس کے بدلے میں حکومت ان طلبا کے امتحانات کے بعد انہیں سرکاری تعلیمی اداروں کی تعلیم کے مساوی تسلیم کرے گی۔ وہ حکومت کی تسلیم شدہ اسناد حاصل کر سکیں گے۔ مدارس کی تعلیم کو ’ایکٹ آف پارلیمنٹ‘ کے تحت تسلیم کیا جائے گا۔ ملک بھر کے 35 ہزار سے زائد مدارس کے نصاب میں اصلاحات لائی جائیں گی۔ 8 سالہ درس نظامی کورس میں تمام لازمی جدید علوم پڑھائے جائیں گے۔ اس حوالے سے تفصیل کے مطابق ثانویہ عامہ، ثانویہ خاصہ، شہادۃ عالیہ اور شہادۃ عالمیہ کو بالترتیب میٹرک، انٹرمیڈیٹ، گریجویشن اور ماسٹر ڈگری کے برابر تسلیم کیا جائے گا۔ اسلام آباد سے نامہ نگار کے مطابق مدارس کے طلباکو میٹرک،ایف اے، بی اے کے مساوی اسناد جاری کی جائیں گی۔ اتحاد تنظیمات مدارس کے رکن پانچوں بورڈز اپنے نظام تعلیم میں وفاقی بورڈ اور یونیورسٹی کے لازمی مضامین ہر سطح پر بتدریج شامل کریں گے۔
وفاقی وزارتِ تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت کے کمیٹی روم میں وزیر مملکت انجینئر بلیغ الرحمٰن کے زیر صدارت اہم اجلاس ہوا جس میں اتحاد تنظیمات مدارس کے قائدین مفتی منیب الرحمٰن، مولانا قاری حنیف جالندھری، مولانا یاسین ظفر، ڈاکٹر عطاءالرحمٰن اور مولانا غلام باقر نجفی نے شرکت کی جبکہ حکومت کی جانب سے وفاقی سیکرٹری وفاقی وزارتِ تعلیم وپیشہ وارانہ تربیت ہمایوں، کوآرڈی نیٹر نیکٹا احسان غنی، ڈاکٹر اللہ بخش ملک ایڈیشنل سیکرٹری، ڈاکٹر اکرام علی ملک چیرمین وفاقی تعلیمی بورڈ، وزارتِ مذہبی امور کے ایڈیشنل سیکرٹری محمد خان کھچی، رضاچوہان ڈی جی HECسمیت دیگر افراد شریک ہوئے۔ اجلاس میں پانچوں تنظیمات کے بورڈز کو قانونی شکل دینے کے بارے میں غور ہوا۔ وزیر مملکت نے کہا کہ اس سلسلے میں امتحانی بور ڈز کے ڈھانچے کو پورا کرنا ہو گا، ان کی وزارت اور وہ ذاتی طور پر بورڈز کو قانونی شکل دینے کے بارے میں ضروری مراحل طے کرنے کے لیے مکمل تعاون کریں گے، اس میں غیر ضروری تا خیر نہیں کی جائے گی۔ اتفاقِ رائے سے طے پایا کہ اتحاد تنظیماتِ مدارس کے رکن پانچوں بورڈز اپنے نظام تعلیم میں بورڈز اور یو نیورسٹی کے لازمی مضامین کو ہر سطح پر بتدریج شامل کریں گے اور اس کے لئے وفاقی تعلیمی بورڈ کا نصاب اور نصابی کتب ہی رائج کی جائیں گی، اس طرح بی اے کی سطح پر مطالعہ پاکستان، انگریزی اور دو اختیاری مضامین کا امتحان دینا ہو گا۔ وزیر مملکت نے ہدایت کی کہ وفاقی وزارتِ تعلیم وپیشہ وارانہ تربیت کے زیر انتظام Tutorial تربیت اور پرچے مرتب کرنے اور جانچنے کے بارے میں جو تربیتی ورکشاپ منعقد کی جائیں گی، پانچوں تنظیمات کی نمائندگی ان کے حجم کے مطابق رکھی جائے گی۔ اجلاس میں طے پایا کہ شہادۃ العالمیہ کے معادلہ (Equivalence) کے لئے ایچ ای سی نے متوسطہ؍مڈل کے لیے اسلامیات لازمی کی شرط عائد کی ہے ،اسے ختم کرنے کی سفارش کی جائے گی۔ وفاقی وزارتِ تعلیم وپیشہ وارانہ تربیت اس سلسلے میں ایچ ای سی کو سفار ش کرے گی۔ وزیرمملکت نے کہا کہ اتحادِ تنظیمات مدارس کے بورڈز کو قانونی درجہ دینے کے لئے بھی معاونت کریں گے۔‘‘[18]
اس معاہدے میں تو بہت سے وعدے کئے گئے، جن میں بطور ِخاص مدارس کے وفاقات کو ایکٹ آف پارلیمنٹ کے تحت لاکر قانونی درجہ دینے کی بات ہے، او رتمام اسناد کی منظوری کا کہا گیا ہے، لیکن عملاً جب یہ معاملہ ایچ ای سی کے پاس آیا تو ایچ ای سی کی ’اسناد کو مساوی اور معتبر قرار دینے والی کمیٹی‘ (Equivalence and Accreditation Committee)نے اپنے چھٹے اجلاس منعقدہ 2؍فروری 2017ء میں اس کے بارے میں فیصلہ کیا، اور اس فیصلہ کو نوٹیفکیشن نمبر 8(61)/A&A/2017/HEC           مجریہ 13؍ اکتوبر 2017ء کی صورت میں یوں جاری کیا:
’’موضوع: منظور شدہ دینی اداروں کی شہادہ عالیہ [بی اے ]کا معادلہ
1۔الشهادة العالية في العلوم العربية والإسلامية ایچ ای سی کی جانب سے بی اے (پاس ) کے مساوی تسلیم کی جائے گی، اگر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی یا کسی بھی چارٹرڈ یونیورسٹی سے بی اے کی سطح کے انگریزی ومطالعہ پاکستان کے لازمی مضامین پاس کر لئے جائیں ، بشرطیکہ آئی بی سی سی [19]شہادۃ ثانویہ عامہ وثانویہ خاصہ کا معادلہ جاری کردے ۔ اورآئی بی سی سی شہادۃ ثانویہ عامہ و ثانویہ خاصہ کا معادلہ اپنی سفارشات کے مطابق ہی جاری کرے گا۔
2۔متعلقہ وفاق اپنے طور پر (یعنی متوسطہ مساوی درجہ مڈل) طالب علم کو شہادہ ثانویہ عامہ میں داخل کریں گے، اور ایچ ای سی دینی اسناد کے حاملین سے مڈل سکول سرٹیفکیٹ طلب نہیں کرے گا۔
3۔ اگر کوئی طالب علم کسی یونیورسٹی میں اسلامیات وعربی کے علاوہ کسی اور مضمون میں باضابطہ ماسٹرز کرنے کا خواہش مند ہو تو وہ (ایسے ایم اے میں) داخلہ کے لئے شہادہ عالیہ کے بعد لازمی مضامین (Compulsory Subjects)کے ساتھ،عربی اور اسلامیا ت کےماسوا دو اختیاری مضامین (Elective Subjects) کا امتحان بھی پاس کرے گا۔ ‘‘
تجزیہ
1.     اس نوٹیفکیشن میں نکتہ نمبر 2 کے تحت ایم اے کے معادلہ (Equivalence)کے لئے مشرف دور میں مڈل کی سند پیش کرنے کی شرط ختم کرنے کی بات کی گئی ہے ، حالانکہ اس کے خاتمے کی وجہ یہ ہے کہ مڈل کے امتحان کا ایسا کوئی مستند سرکاری نظام تاحال موجود نہیں جس کی پابندی ہر مڈل کرنے والے طالب علم پر ضروری ہو، بلکہ پرائیویٹ سطح پر بھی مڈل کا امتحان دیا جاسکتا ہے۔نیز میٹرک کے پرائیویٹ امتحان کے لیے مڈل سرٹیفکیٹ کا مطالبہ ہی نہیں کیا جاتا، یعنی مروّجہ قومی نظام تعلیم میں بھی میٹرک کی سند کے حصول کے لئے مڈل پاس کرنا ضروری نہیں ہے۔
2.  نکتہ نمبر 3 کے تحت وفاق ہائے مدارس کی عالیہ کی سند پر کسی اور مضمون میں باضابطہ ایم اے میں داخلہ کے لئے درج ذیل مضامین کو پاس کرنا ضروری ہوگا :
1.      عربی واسلامیات کے علاوہ کوئی سے دو اختیاری مضامین  
2.      لازمی مضامین : یعنی انگریزی لازمی،مطالعہ پاکستان لازمی،اسلامیات لازمی
3.      متعلقہ ایم اے میں داخلہ کے لئے بی اے سطح کا لازمی مضمون
نوٹیفکیشن کے نکتہ نمبر 3میں صرف لازمی مضامین (in addition to Compulsory Subjects) کا جملہ درج ہے۔ اور اس کی کم ازکم مراد انگریزی لازمی اور مطالعہ پاکستان لازمی ہیں، جیساکہ اسی نوٹیفکیشن کے نکتہ نمبر 1   میں اور لاہور ہائیکورٹ اپنے فیصلہ 2008ء میں قرار دے چکی ہے ۔ اس طرح کل چار مضامین کا سرکاری امتحان ضروری ہوا۔ اور اگر بی اے کی سطح کے لازمی مضامین کو مطلق طورپر دیکھا جائے تو 50 نمبر کی اسلامیات بھی لازمی ہے، جیسا کہ 2005ء کے HECنوٹیفکیشن میں اسے بھی لازمی مضامین میں شمار کیا گیا ہے۔ اور اگر یونیورسٹیوں میں جاری پریکٹس کو دیکھا جائے تو کسی بھی مضمون کے ایم اے میں داخلہ حاصل کرکے ریگولر پڑھنے کے لئے اس مضمون میں بی اے کی سطح کا مضمون پڑھنا بھی لازمی سمجھا جاتا ہے۔ اس بنا پر لازمی مضامین کے لفظ کو کم ازکم دو یا زیادہ سے زیاد چار لازمی مضامین + دو اختیاری مضامین (یعنی کل چھ مضامین ) تک وسیع کیا جاسکتا ہے ۔
یاد رہے کہ عام بی اے میں کل تین مضامین 200+ 200 +200نمبرز(جن میں ایک 200 نمبرکی انگریزی لازمی ہونی چاہیے) اور اسلامیات لازمی ؍مطالعہ پاکستان لازمی کے 50 + 50 نمبر اور ایک آپشنل پرچہ 100 نمبرز کے کل چھ مضامین ہی شامل ہوتے ہیں اور اس کے کل نمبر 800 ہوتے ہیں۔ نکتہ نمبر 3 میں مذکور لازمی مضامین کے ہردوپہلو (دو یا چار مضامین) کو دیکھا جائے تو یہ امر افسوسناک اور غور طلب ہے کہ مدارس کی آٹھ سالہ ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کو بی اے میں آخر کیا حیثیت اور وزن دیاگیا ہے؟
نکتہ نمبر 3 میں دی جانے والی یہ سہولت دراصل سابقہ 1982ء اور 2005ء کے نوٹی فکیشنز میں مذکور اسی نظام کا دوسرا پہلو ہے جس میں کہا گیا تھا کہ اگر وفاقہاے مدارس کی عالمیہ کی سند کو تدریس کے علاوہ دیگر میدانوں میں ملازمت کے لئے معتبر قرار دینا ہو تو بی اے سطح کے تین مضامین (دو اختیاری اور ایک 100 نمبر کے اسلامیات ؍مطالعہ پاکستان) پاس کئے جائیں۔ تاہم اب اس میں ایم اے ریگولر میں داخلہ کے لئے مزید لازمی مضمون (انگریزی لازمی ) اور متعلقہ ایم اے کے لازمی مضامین کا بھی اضافہ کرکے، اسے چار سے چھ مضامین تک وسیع کردیا گیا ہے۔
3.  جہاں تک اس نوٹیفکیشن میں مدارس کی شہادۃ عالیہ (بی اے ) کی منظوری کا تعلق ہے تو ایک طرف
a.   اس نظا م میں 2005ء والا HEC کا نظام ہی پختہ کیا گیا ہے کہ پچھلی اسناد: شہادۃ ثانویہ عامہ اور ثانویہ خاصہ کو بھی پیش کیا جائے ۔
b.   اور جب یہ ثانویہ اسناد آئی بی سی سی سے، ان کے داخلی نظام کے مطابق معادلہ حاصل کرلیں گی، تب ہی شہادہ عالیہ پر بی اے کی سند جاری کی جائے گی۔گویا بی اے کی یہ سند شہادہ عامہ وخاصہ کے انٹربورڈ کے معادلے سے بھی مشروط ہے۔
c.   اور اس بی اے کی سند کے حصول کے لئے وفاق کی شہادہ عالیہ پر بی اے درجہ کی انگریزی اور مطالعہ پاکستان کے دو لازمی مضامین کا کسی بھی سرکاری یونیورسٹی سے امتحان پاس کرنا ضروری ہے۔
اس نوٹیفکیشن کا موضوع منظور شدہ دینی اداروں کی شہادۃ عالیہ کی منظوری ہے، تاہم اس میں شہادۃ عالیہ کے حصول کے لئے جو طریقہ کار پیش کیا گیا ہے، وہ اس قدر طویل اور پیچیدہ ہے کہ اس میں انگریزی لازمی کا اصل امتحان بھی باقی رہا اور یہ میٹرک اور ایف اےکی معادلہ کی اسناد سے بھی مشروط ہے۔ ظاہر ہے کہ بورڈ ز کی کمیٹی بھی شہادۃ ثانویہ عامہ اور خاصہ کا معادلہ جاری کرنے کے لئے اپنے لازمی مضامین ضرور شامل کرے گی۔ اس بنا پر یہ طویل اور پیچیدہ نظام کسی خاطر خواہ سہولت کی بجائے، ماضی کے دونوں نوٹی فکیشنز میں کوئی رعایت نہیں دیتا، بلکہ اس طریقہ کا رکےمطابق بی اے کی سند کا حصول ماضی کی بہ نسبت مشکل تر ہوگیا ہے اور اس کو تسلیم کرکے جاری کردیا جائے تو سابقہ آسان نظام سے بھی ہاتھ دھونا پڑیں گے۔
کیونکہ 1982ء میں جاری ہونے والے پہلے نوٹیفکیشن کے مطابق وفاق کی شہادۃ عالمیہ کی بنا پر تین مضامین (انگریزی کو چھوڑ کر) کے امتحان سے بی اے کی کسی سرکاری یونیورسٹی کی سند حاصل کی جاسکتی ہے، جس کے بعد بی اے کی سند بھی معتبر ہوتی اور ایم اے بھی تمام مقاصد کے لئے معتبر ومستند ہوجاتا۔ جب بی اے کی ایسی کوئی سند مل گئی تواس کی بنا پر اب سیاست وملازمت کے کسی میدان میں جانا بھی ممکن ٹھہرا۔ اور اس کے لئے میٹرک اور ایف اے کی معادلہ شدہ اسناد کی شرط بھی نہیں تھی۔ سابقہ بی اے کی سند کا یہ نظام حالیہ طریقہ کار کی بہ نسبت بہت آسان، جامع اور مفید ہے۔
ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ اب ا س نئے نظام کی بنا پر سابقہ آسان تر نظام پر کوئی پابندی نہ لگا دی جائے۔  بعض اوقات سرکاری یونیورسٹیاں اس سابقہ نظام پر بلاوجہ الجھن ڈال دیتی ہیں جس کی پریکٹس ماضی میں بخوبی جاری رہی ہے۔ یونیورسٹیوں کے ایسے اقدام کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے ان پر اس سابقہ نظام کو جاری رکھنے کا دباؤ ڈالنا چاہیے جبکہ اُصولاً دونوں ہی نظام جاری ہیں، کیونکہ سابقہ نوٹیفکیشن ایم اے کی سند اور اس کی بنیاد پر بی اے کے حصول کا تھا، اور حالیہ نوٹیفکیشن بی اے کی سند کے بارے میں مخصوص ہے یا ایم اے میں داخلہ کا طریقہ کار ہے۔ سو دونوں نوٹیفکیشن کا موضوع علیحدہ ہونے کی بنا پر فی الوقت دونوں ہی جاری وساری ہیں اور دونوں کو جاری رہنا بھی چاہیے۔[20]
اس نوٹیفکیشن کے بارے میں اخبارات میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ ا س کے ذریعے ’’ایچ ای سی نے وفاق کی شہادہ عالیہ کو بی اے کے مساوی تسلیم کرلیا ۔‘‘ چنانچہ روزنامہ ’نوائے وقت ‘کی خبر ہے:
’’مدارس کے طلبہ و طالبات پر یونیورسٹیز کے دروازے کھل گئے۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے مدارس کی شہادۃ العالیہ کی سند کو گریجویشن کی ڈگری کے مساوی تسلیم کر لیا۔ شہادۃ العالیہ کی سندکے حامل طلبہ و طالبات سرکاری جامعات کے لئے بھی اہل ہوں گے۔ اعلامیہ جاری کردیا گیا ہے۔ کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ ڈگری کے ساتھ انگلش اور مطالعہ پاکستان کو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی یا کسی دوسری یونیورسٹی سے پاس کرنا ہو گا۔ اس طرح مدارس کے ایسے طلبہ وطالبات جن کے پاس شہادت العالیہ کی سند ہوگی، ضروری تقاضے پورے کرنے پر یونیورسٹیزمیں داخلے لے سکیں گے۔ ثانویہ عامہ، ثانویہ خاصہ کی اسناد انٹر بورڈ کمیٹی دے گی۔ ‘‘[21]
اسی سے ملتی جلتی خبر وفاق المدارس العربیہ ، ملتان کے میڈیا سنٹر نے 15؍ اکتوبر کو جاری کی، جس کی رو سے
’’مولانا محمد حنیف جالندھری اور اتحادِ تنظیمات مدارس کے دیگر قائدین کی کوششوں سے مدارس کی درجہ عالیہ کی سند کو بی اے کے مساوی تسلیم کرلیا گیا۔ صرف دو لازمی مضامین کا امتحان پاس کرنا ہوگا۔حکومتی ذمہ داران کی طرف سے دینی مدارس کے فضلا سے امتیازی سلوک روا نہیں رکھا جائے گا۔ اس سے قبل دینی مدارس کے فضلا کی صرف عالمیہ کی سند کو ایم اے عربی اور اسلامیات کے مساوی تسلیم کیا جاتا تھا، لیکن عالیہ کی سند کی سرکاری طور پر کوئی حیثیت نہیں تھی جس پر برسوں سے کوشش جاری تھی۔ اس ریلیف کی اطلاع پر ملک بھر کے دینی مدارس کے فضلا میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ اور ان کی دیرینہ مشکلات میں کمی کی جانب واضح پیش رفت ہوئی۔ ‘‘
اوپر ہم اصل نوٹیفکیشن اور سابقہ صورت حال کے تقابل وتجزیے کے بعد بخوبی واضح کرچکے ہیں کہ حالیہ نوٹیفکیشن کا تاثر تو بہتر ہے، لیکن عملاً اس میں کسی سمت کوئی پیش قدمی نہیں ہوسکی، بلکہ نکتہ نمبر 3 میں ایم اے میں داخلہ کے لئے مزید دومضامین کا بوجھ طالب علم پر ڈال دیا گیا ہے۔ نیز حالیہ طریقے میں ابھی انٹربورڈ کی طرف سے دو اسناد کی منظوری بھی باقی ہے جبکہ یہ انٹربورڈ کمیٹی ، میٹرک کی سند جاری کرنے کے لئے از خود مڈل سرٹیفکیٹ کو لازمی قرار دے دے، تو پھر نکتہ نمبر 2 کی گنجائش بھی مشکوک ہوجاتی ہے۔ کیونکہ ہائر ایجوکیشن کمیشن HEC ، انٹربورڈ چیئرمین کمیٹی IBCCکے مستقل سرکاری ادارے کے طے شدہ طریقہ کار میں اُصولی تبدیلی کرنے کی مجاز نہیں ہے۔اور انٹربورڈز اپنے ضوابط خود وضع کرتا اور ان کی پابندی کراتا ہے۔ الغرض نکتہ نمبر 1 میں شہادۃ عالیہ کو دی جانے والی منظوری کا طریقہ کار اس قدر پیچیدہ اور طول طویل ہے جس کے مقابلے میں 1982ء سے موجود بی اے کا طریقہ کار ہی کافی سہل اور قابل عمل ہے۔
مزید مشکلات میں اضافہ
مزید برآں  HEC کی طرف سے شہادہ عالیہ یعنی بی اے کا یہ حالیہ جامع نظام؍ ہدایت نامہ آجانے کے بعد اب وفاق المدارس کے تحت شہادۃ عالمیہ کی سند حاصل کرنے کے لئے ماضی کے برعکس اسی نئی HECکی منظور شدہ شہادہ عالیہ کو حاصل کرنا ہی ضروری ہوگا۔ اگر کسی موقع پر HEC کا کوئی افسر، ایم اے کے معادلہ کی منظوری کے لئے   اس نوٹیفکیشن 2017ء کے تحت ہونے والی شہادہ عالیہ کو ہی طلب کرلیتا ہے، تو پھر وفاق ہاے مدارس کا پورا نظام ِ امتحان ہی خدانخواستہ زمین بوس ہوسکتا ہے۔افسر شاہی اور HEC کے سابقہ تیور دیکھتے ہوئے یہ امکان بعید نہیں اور مختلف قوانین کو ایک دوسرے کی تشریح کرتے ہوئے سمجھنا ایک عام رویہ ہے۔
جب حکومت اور تنظیماتِ مدارس دینیہ کے مابین حالیہ معاہدہ اور اس کے بعد HECکا نوٹیفکیشن (اکتوبر 2017ء )آیا تو اسی موقع پر والدِ گرامی مدیر اعلیٰ’ محدث‘ مولانا حافظ عبد الرحمن مدنی ﷾ نے وفاق ہاے مدارس کے ذمہ داران کو متوجہ کیا کہ اس طرح کسی مثبت پیش قدمی کی بجائے دراصل HEC نے مدارس کی سابقہ ایم اے سند کی منظوری 1982ء کو بھی منظور شدہ بی اے سے مشروط کردینا ہے اور یہ کسی کامیابی کی بجائے ناکامی اور مزید رکاوٹوں کا اضافہ بنے گا، لیکن اس موقع پر ان کی تنبیہ پرخاطر خواہ اقدام نہ کیا گیا اورذمہ دارانِ وفاق کامیابی اور خوشخبری بانٹتے رہے۔ ابھی یہ خوشی پوری بھی نہ ہوئی تھی کہ وہی ہوگیا جس کا اندیشہ تھا، چنانچہ وفاق المدارس العربیہ کے میڈیا سنٹر، اسلام آباد نے 31؍ جنوری 2018ء کو اپنا پریس ریلیز یوں جاری کیا:
’’1۔ پنجاب حکومت کی طرف سے تمام مکاتب فکر کے دینی مدارس کی اسناد کو مسترد کرنے کا طرز عمل افسوس ناک ہے ۔                                2۔ مدارس کے فضلاکے ساتھ امتیازی سلوک بند کیا جائے ۔
3۔ عربی ٹیچرز کی اسناد کے ساتھ بی اے کی اضافی شرط غیر ضروری ، ملکی قوانین کی خلاف ورزی اور طے شدہ معاہدوں سے انحراف ہے ۔
4۔ آرٹس ٹیچرز کےلیے شہادۃ العالمیہ کو قبول نہ کرنا مدارس کے فضلا کی حق تلفی اور قوم کے ہزاروں بچوں کو مین اسٹریم میں آنے سے روکنے اور احساسِ محرومی کو اُجاگر کرنے کے مترادف ہے ، جبکہ اس پالیسی کے تحت آرٹس ٹیچرز کی اسامیوں کے لیے یونیورسٹی وکالج سے پاس شدہ ایم ۔اے اسلامیات حضرات کو اہل قرار دیا گیا ہے ۔‘‘
ان خیالات کا اظہار وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے جنرل سیکرٹری مولانا محمد حنیف جالندھری نے اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ اُنہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت کی طرف سے حالیہ دنوں میں ایجوکیٹرز کی بھرتی کا سلسلہ شروع ہوا ۔ تمام مکاتبِ فکر کے مدارس کے فضلا اور شہادۃ العالمیہ کے جملہ حاملین اس ناانصافی کا شکار ہوئے ہیں ۔ مولانا محمد حنیف جالندھری نے کہ اس صورتحال پر ہم نے اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان کی قیادت سے مشاورت کی ، مشترکہ لائحہ عمل کے تحت کئی اقدامات اُٹھانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس سلسلے میں پنجاب حکومت کے محکمہ تعلیم کے ذمہ داران سے بات ہوئی تو اندازہ ہواکہ آرٹس ٹیچرز کے لیے جہاں یونیورسٹی اور کالج سے پاس شدہ ایم اے اسلامیات قابل قبول ہے، وہیں شہادۃ العالمیہ جو ایچ ای سی کے نوٹیفکیشن کے مطابق ایم اے اسلامیات کے مساوی ہے، کو تسلیم نہیں کیا جارہا ، جو ہمارے لیے باعثِ تشویش ہے ۔ مولانا جالندھری نے کہا کہ دینی مدارس کے فضلا آرٹس کے دیگر مضامین بھی پڑھانے کی اہلیت رکھتے ہیں، انہیں صرف اسلامیات ہی نہیں دیگر مضامین کی تدریس کے مواقع بھی مہیا کیے جانے چاہئیں اور باقی امیدواروں کے ساتھ دینی مدارس کے فضلا کو بھی میدان میں اُترنے کا موقع دیا جانا چاہیے ۔ مولانا محمد حنیف جالندھری نے کہا کہ حکومتی بدنیتی اس بات سے واضح ہوتی ہے کہ عربی ٹیچرز کے لیے بی اے کی اضافی شرط عائد کر دی گئی جبکہ ایچ ای سی نے کسی قسم کی اضافی شرط کے بغیر دینی مدارس کی ڈگری کو تسلیم کر رکھا ہے ۔ مولانا محمد حنیف جالندھری نے کہا کہ پنجاب کی حکومت سے ہمارے چاراصولی مطالبات ہیں: (1) عربی ٹیچرز کے لیے بی اے کی شرط فی الفور ختم کی جائے ،(2)تمام وفاقوں کے فضلا سے امتیازی سلوک بند کیا جائے ، (3)پہلے کی طرح اسلامیات ٹیچرز کی آسامیوں کا الگ سے اعلان کیا جائے اور حیلے بہانوں سے اسلامیات ٹیچرز کے طور پر مدارس کے فضلا کی بھرتیاں بند نہ کی جائیں اور نمبر (4) یہ کہ آرٹس ٹیچرز کے طور پر بھی دینی مدارس کے فضلا کو درخواستیں ، اسناد اور خدمات پیش کرنے اور دیگر امیدواروں کی طرح مقابلے میں حصہ لینے کا موقع فراہم کیا جائے۔‘‘
ایسا ہی پریس ریلیز اور شکوہ وفاق المدارس السّلفیہ کے ذمہ داران نے بھی   کیا ، جو مختلف اخبارات ورسائل میں شائع ہوچکاہے۔ اس نئی اُفتاد کی وجہ وہی ہے کہ وفاق ہاے مدارس کے ذمہ داران بیوروکریسی کے طریق کار اور قانونی پیچیدگیوں سے قطع نظر، مختلف نئے معاہدوں میں اپنے آپ کو اُلجھاتے جارہے ہیں اور بظاہر پیش قدمی کے نام پر، ماضی میں حاصل کردہ کامیابیوں سے بھی اپنے ہاتھوں دستبردار ہوتے جارہے ہیں۔
وفاق ہائے مدارس کو فوری طور پر اس امر کی ضرورت ہے کہ ایک طرف نئے منظور شدہ بی اے کو سابقہ ایم اے کے نوٹیفکیشن سے واضح طور پر علیحدہ کرنے کا حتمی فیصلہ کرائے کیونکہ پیچھے بیان کردہ سرکاری نوٹیفکیشن دراصل علیحدہ علیحدہ اسناد کے نظام کی بات کرتے ہیں : 1982ء والا نوٹیفکیشن ایم اے کی سند کے بارے میں ہے اور 2017ء والا نوٹیفکیشن بی اے کی سند کے بارے میں ہے جیسا کہ ان کے عنوانات سے بھی ظاہر ہے، اور دونوں کو ایک دوسرے سے ملا دیا جائے تو پھر عملاً وفاقات کا سارا نظام زمین بوس ہوجاتا ہے ۔
دوسری طرف اعلیٰ عدالتوں کے فیصلے میں اس کوتاہی کو نکھارا جائے کہ جج حضرات نے معادلہ اور قومی نظام تعلیم کے جدا تصورات کے نظرانداز کرکے سرکاری یونیورسٹی سے ہونے والا آسان بی اے کا نظام معطل کررکھا ہے۔ اس کے لئے عدالتوں سے مزید ایسے فیصلے حاصل کئے جائیں، جو سابقہ غلطی کا ازالہ کرتے ہوں۔
پس چہ باید کرد؟
جو معاہدہ وفاقی وزارتِ تعلیم اور مدارس تنظیمات کے مابین کیا گیا تھا، اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے HEC نے مدارس کو کوئی کامیابی نہیں دی بلکہ مزید رسمی تقاضوں میں اُلجھا کر امکانات کو محدود کردیا ہے۔ اس سلسلے میں اہم اور بڑی کامیابی جنرل محمد ضیاء الحق کے دور ہی میں حاصل ہوئی تھی، اور آج تک اس پر رکاوٹوں کا ہی اضافہ ہوا ہے۔ اب شہادہ عالیہ کے معادلہ پر اتنی شرائط کو متعین کرکے گویاپہلے سے موجود آسان طریقہ کار پر بھی مزید پابندیاں اور رکاوٹیں قائم کردی گئی ہیں۔ اور اب اس کو عملاً ختم کرنے پر ہی زور دیا جارہا ہے ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی حکومت سے ہونے والے معاہدے کو آگے بڑھاتے ہوئے مدارس کے بورڈز کو براہِ راست قانون سازی کے ذریعے پارلیمنٹ سے منظور کرانے کابل پیش کیا جائے اور موجودہ حکومت ، جس کی وفاقی وزارت تعلیم نے اس کا معاہدہ کیا ہے، اس کو منظورکرانے کی جدوجہد کرے۔یہی درست راستہ ہے، وگرنہ HECجیسے ادارے رسمی تقاضوں کے پیش نظر قومی ضروریات کو نظر انداز کرتے ہی رہیں گے۔
اگر اس سمت کامیاب پیش قدمی ہوجاتی ہے تو اس طرح معاشرے میں دینی ودنیاوی طبقات کی تفریق پر ضرب کاری لگےگی، اور قومی یک جہتی کی مضبوط بنیاد پڑے گی، یہ قیام پاکستان کے مقاصد کی طرف اہم پیش قدمی سمجھی جائے گی۔ جیسا کہ شروع میں ذکر ہوچکا ہے کہ اصولی طور پر مدارس کو قومی تعمیر میں کردار ادا کرنے میں کوئی نظریاتی رکاوٹ نہیں، اور تمام مدارس کا اسناد کی منظوری کا متفقہ مطالبہ اسی کا غماز ہے اور مدارس؍ حکومت کا حالیہ معاہدہ بھی مدارسِ دینیہ میں جدید علوم کی تدریس کے وعدہ کی یاددہانی کراتا ہے۔ اب ضرورت ہے تو حکومت کو اپنا فرض پورا کرنے کی کہ وہ اسلامی علوم کی تدریس کو قبولیت دینے اور ان کو معاشرے کی تعمیر میں مناسب کردار دینے کے فریضہ کو پورا کرتے ہیں یا ابھی تک انگریز استعمار کے ڈھب پر ہی دین ودنیا اور ان کی تعلیم واداروں کو بانٹ کر اور اس کے نتیجے میں پاکستانی معاشرے کو تقسیم کر کے رکھنا چاہتے ہیں۔
ان سطور کی تحریر کے دوران ہی ’اتحاد تنظیمات مدارس کی مربوط حکمتِ عملی ‘(15؍جنوری 2018ء) بھی سامنے آئی ہے جس کے متن کو آخر میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اس پر بھی پانچوں وفاقات کے ذمہ داران کے دستخط ثبت ہیں۔ اس حکمتِ عملی میں وفاقوں کو باقاعدہ پارلیمنٹ سے منظور کرانے کا نکتہ تو قابل قدر ہے، لیکن اس کے ساتھ نکتہ نمبر 6، 7 میں دوبارہ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کی سطح پر چار تا پانچ مزید بھاری بھرکم مضامین کو شامل کرنے کی متفقہ تجویز پیش کی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس طرح میٹرک او رایف اے کے مرحلے میں دینی طالب علم کے علوم اسلامیہ کے بھاری بھرکم نصاب کو بالکل کوئی حیثیت نہیں دی جارہی ، اور بی اے کے امتحان میں بھی انگریزی کی ادبی قابلیت کو لازمی کردیا گیا ہےجو عدالتی فیصلے کی ہی بازگشت ہے۔ ہماری گذارش ہے کہ ذمہ دارانِ وفاقات کو گہرے غور وخوض سے پہلے ایک صحیح اور مبنی بر انصاف موقف کا تعین کرنا چاہیے ، مدارس دینیہ سے مشاورت کرکے ان کو جائز حق دلوانے کی پرزور جدوجہد کرنی چاہیے۔ وگرنہ اس ’مربوط حکمت عملی‘ کی منظوری مدارسِ دینیہ کے ثانویہ عامہ اور خاصہ کے رہے سہے امتحانات کا بھی بوریا بستر لپیٹ دے گی۔
وفاقہاے مدارس کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ان کو ماضی میں بھی کامیابی معادلہ Equivalenceکے تصور سے ہی ملی تھی اور تینوں نوٹیفکیشن معادلہ کی ہی بات کرتے ہیں۔ مستقبل میں بھی یہی متوازی نظام ہی ان کی طاقت او رمقصدہے اور یہی اسلام اور ہماری قدیمی روایات کا تقاضا ہے جس کی بہترین میسّر مثال برادر اسلامی ملک   سعودی عرب میں زیر عمل ہے۔ پاکستان ایسی نظریاتی ریاست کے پورے قومی نظام تعلیم کی منزل ایسا ہی اسلام پر قائم نظام تعلیم ہے جو دین ودنیا کا جامع ہو۔ اگر غیرمشروط طور پر موجودہ سیکولر نظام تعلیم کا ہی حصہ بن جایا جائے تو ایک طرف حکومت کو سکول وکالج کی طرح اس کے سارے تعلیمی اخراجات برداشت کرنا ہوں گے اور دوسری طرف مدارسِ دینیہ کی صدیوں پر محیط کوششوں کا انجام اسلامیہ یونیورسٹی، بہاولپورسے مختلف نہ ہوگا۔
انگریزی زبان کی تعلیم
جب ڈیڑھ صدی قبل انگریز استعمار نے برصغیر میں نیانظام تعلیم متعارف کرایا تو دین بیزاری (سیکولرزم) کے ساتھ ساتھ اس میں ، حاکمانہ برتری کے اظہار کے لئے انگریزی زبان کو بھی لازمی قرار دیا جس کا مقصد یہ تھا کہ تعلیمی صلاحیت کا کوئی دعویٰ انگریزی کی مہارت کے بغیر ناقابل قبول ہے۔ جبکہ یہ امر ظاہر ہے کہ کوئی زبان بھی تعلیمی ترقی کی دلیل نہیں ہوتی، بلکہ علم زبانوں سے ماورا افکار ونظریات کو جاننے اور انہیں استعمال کرنے کی صلاحیت کا نام ہے۔ اور انسان جس طرح اپنی مادری زبان میں علم کو آسانی سے سمجھ سکتا ہے، کسی دوسری زبان میں اس کی یہ صلاحیت توجہ بٹنے کی بنا پر لازماً متاثر ہوتی ہے۔
اسی طرح انگریزی زبان کو جدید علم کے طور پر بھی متعارف کروایا جاتا ہے ، جبکہ نری زبان کوئی علم نہیں ہوتی۔ اگر مدارس میں معاشرتی یا جدید علوم متعارف کرانے ہوں تو اسلامی اساسات پر قائم سیاسیات ومعاشیات اور سائنس جیسے مضامین کی بات ہونی چاہیے جبکہ استعمار کے متعارف کردہ نظام تعلیم میں جدید علوم کا مصداق صرف انگریزی زبان کو قرار دے دیا گیا ہے اور اس کی معیاری اہلیت ہی بی اے کی معتبر قابلیت قرار پائی ہے۔
یہاں یہ مفروضہ پروان چڑھایا گیا کہ انگریزی سائنس اور ترقی کی زبان ہے اور اس کے بغیر ترقی نہیں کی جاسکتی۔ حالانکہ اوّل تو اُردو زبان میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ ہر طرح کے افکار ونظریات کو سمو سکے، بیان کرسکے ۔ بالخصوص اُردو زبان کی دیگر زبانوں سے ہم آہنگی کی صلاحیت غیر معمولی ہے۔
ثانیاً: سائنسی ترقی کے لئے دنیا کی ترقی یافتہ قوموں نے اپنی مادری زبان کو اختیار کیا ہے، چنانچہ فرانسیسی، جرمنی، جاپانی ، چینی اور روسی اقوام کی ترقی انگریزی زبان کی مرہونِ منت نہیں ہے۔
ثالثاً: اگر سائنس وٹیکنالوجی میں دنیا کی موجودہ ترقی کوسیکھنا ہو،یا عالمی تجارت میں پیش قدمی کرنا ہو تو یہ سب پاکستانیوں کی مجبوری نہیں ہے۔ بلکہ ا س مقصد کے لئے متعلقہ ماہرین کو سائنسی ترقی کی کوئی ایک زبان کو ضرور سیکھ لینا چاہیے،اور عالمی تجارت جس ملک سے درپیش ہو، اس ملک کی زبان کو بھی متعلقہ تاجروں کو جاننا چاہیے۔ جبکہ پوری قوم کو کسی حاکم قوم کی زبان سیکھنے کے بخار میں مبتلا کرکے، خواندگی کی سطح کو متاثر کرنا کوئی عقل مندی نہیں ہے۔ اس مقصد کے لئے جنرل سائنس، جنرل ریاضی ، جغرافیہ کی سطح پر اردو زبان میں ہی تعلیم کو متعارف کرانا چاہیے۔
پاکستان بننے کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حاکمیت(ولایت) کی علامت انگریزی زبان سے پیچھا چھڑایا [22]جاتا اور قومی تعلیمی نظریہ میں اسلامیات اور مطالعہ پاکستان کی لازمی تعلیم پر ہی اکتفا کیا جاتا اور جنر ل ضیاء الحق کے دور حکومت میں قائم کردہ ’اُردو سائنس بورڈ‘ [23]وغیرہ جیسے سرکاری اداروں کی خدمات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اردو زبان میں سائنسی تعلیم کو فروغ دیا جاتا۔ لیکن افسوس کہ آئین پاکستان کے برخلاف[24] پورے تعلیمی نظام میں انگریزی کی حاکمیت کو اس طرح مسلط کردیا گیا ہے کہ کسی بھی تعلیمی مرحلہ میں اصل قابلیت یہی انگریزی زبان ہی بن گئی۔ دینی مدارس کی اسناد میں بھی یہی انگریزی زبان ہی اہلیت کی اصل رکاوٹ ہے۔ اور میٹرک، ایف اے، بی اے کی سطح پر اس کی وجہ سے بے شمار طلبہ اگلے تعلیمی مرحلہ میں پیش قدمی سے محروم ہوجاتے ہیں۔ اب بھی HEC کے آخری نوٹیفکیشن میں شہادہ عالیہ کی بطور بی اے منظوری میں اصل رکاوٹ انگریزی زبان کی ڈگری (صرف انگریزی زبان نہیں بلکہ بی اے درجہ کی اعلیٰ ادبی مہارت)ہے، جو ہر جگہ تعلیم کا معیار سمجھی جاتی ہے ۔ جبکہ اس کی بدولت ہمارے بے شمار قابل افراد قومی دھارے میں شرکت سے محروم ہوجاتے ہیں۔ نیز یہ کہ دینی علوم کے ماہرین کے لئے انگریزی زبان کی اعلیٰ مہارت کوئی لازمی امر نہیں، اُنہوں نے کونسے سائنسی میدان میں ترقی اور دریافتیں کرنا ہوتی ہیں۔ تاہم اگر انہیں کسی ایجاد کی شرعی حیثیت کے بارے میں رہنمائی کرنا پڑے تو وہ اپنے مسلمان سائنسی ماہرین کے تعاون سے ایسا بخوبی کرسکتے ہیں۔
جہاں تک مدارس میں عربی زبان کی تعلیم کی بات ہے تو اُصولاً تعلیم کو مادری(اُردو) زبان میں ہی ہونا چاہیے لیکن چونکہ قرآن و حدیث اور ائمہ کرام کی سب تحقیقات عربی زبان میں ہیں، اس لیے مسلمانوں اور علوم اسلامیہ کے ماہرین کے لئے عربی زبان کی اہمیت  دو چند ہوجاتی ہے :
اوّل: عربی زبان کسی محکومیت کی یادگار نہیں بلکہ قرآن کریم اور ہمارے پیارے نبی محمدﷺ کی زبان ہے اور ان سے محبت کرنے والے مسلمان ان کی زبان بلکہ ہرہر اَدا سے محبت کرتے ہیں۔
ثانیاً: ہر مسلمان کیلئے عربی زبان میں عبادات اور اللہ کے کلام کو سمجھنے کے لئے بنیادی اہلیت ہونا ضروری ہے۔
ثالثاً: عربی اور اردو زبان میں یکساں رسم الخط کے ساتھ ذخیرہ الفاظ میں بھی 70 فیصد تک اشتراک پایا جاتا ہے۔
رابعاً: مدارس میں بھی عربی زبان کو اسی حد تک پڑھا جاتا ہے جو قرآن وحدیث کی تفہیم کے لئے ضروری ہے، نہ کہ عربی ادب وانشا اور عربی بول چال یا بلاوجہ عربی زبان کی کتب کا بوجھ طلبہ پر مسلط کردیا جاتا ہے، کیونکہ یہ مسلّمہ تعلیمی نظریہ ہے کہ مادری زبان میں ہی انسان کے لئے علم کو سیکھنا آسان اور تیز تر ہوتا ہے۔
جہاں تک فارسی زبان کی بات ہے ، تو عرصہ ہوا کہ مدارس میں یہ زبان متروک ہوتی جارہی ہے، اور اس کی جگہ اُردو کتب نے لے لی ہوئی ہے۔
دینی نظام تعلیم اور وفاق کی اسناد میں مزید کیا حاصل کرنا باقی ہے؟
اُصولاً تو ملک بھر میں نظام تعلیم کو سیکولرزم کے دو دھاروں کی بجائے ایک وحدانی نظام تعلیم کی صورت میں چلنا چاہیے جیسا کہ بلادِ عرب وبلاد مشرقِ اقصیٰ (سعودی عرب، مصر، امارات، ملائشیا، انڈونیشیا وغیرہ) میں ایک قومی نظامِ تعلیم ہی پایاجاتا ہے، اور پاکستان میں بھی جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے اسی نظام تعلیم کی علم بردار ’انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی‘ کو قائم کردیا تھا۔اور یہی اسلامی حکومت کا فریضہ اور مسئلے کا مکمل حل ہے۔ تاہم عبوری طور پر مدارس کے فضلا کو زیادہ سے زیادہ قومی دھارے میں لانے کے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں :
1.     دینی مدارس کے بورڈ کو مستقل طور پر پارلیمنٹ سے منظور ہونا چاہیے، اس میں فقہ الواقع (واقعاتی صورتحال) کو سمجھنے کےلئے معاشرتی اور سائنسی علوم کو ڈالا جاسکتا ہے، جیسا کہ 1982ء کے نوٹیفکیشن میں موجود تھا۔تاہم HEC والی انگریزی میں ادبی مہارت کی شرط ختم ہونی چاہیے۔
2.     وفاق کی اسناد صرف تدریس وتحقیق کے لئے معتبر ہیں، جبکہ ان کو مسلمہ قابلیت نہیں سمجھا جاتا ۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست میں ان اسناد کی بنا پر اہلیت کو تسلیم نہیں کروایا جاسکا۔ جیسا کہ لاہور ہائی کورٹ کے دو واضح فیصلے آچکے ہیں۔ پہلا فیصلہ 2005ء میں اور دوسرا 2008ء میں   جسٹس محمد مزمل خاں اور جسٹس سردار محمد اسلم کا ۔ تاہم پارلیمنٹ سے قانون پاس ہونےیا قانونی چارہ جوئی پر یہ عدالتی فیصلے بھی غیرمؤثر ہوسکتے ہیں۔
3.     ثانویہ عامہ اور خاصہ کی اسناد کی منظوری بھی ضروری ہے کیونکہ صرف عالمیہ کرنے والے کی نچلی اسناد غیر معتبر ہوتی ہیں، اور اس بنا پر مزید تعلیم یا کسی بھی سرکاری ملازمت کے حصول میں رکاوٹ پیش آسکتی ہے۔ان مراحل کو ’انٹر بورڈ ز‘کے سپرد کرنے کی بجائے ، ان کے لئے بھی خصوصی نصاب ونظام متعارف کرانا چاہیے۔کیونکہ مڈل کے بعد سے سائنس گروپ علیحدہ ہوجانے کی طرح علوم اسلامیہ کی مہارت بھی، اسی مرحلہ سے خصوصی تعلیم وتربیت کی متقاضی ہے۔
4.  دینی مدارس کے لئے یونیورسٹیوں میں خصوصی نصاب اور خصوصی گروپ کو متعارف کرانا چاہیےجیسا کہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ہاں ’درسِ نظامی گروپ‘ پایا جاتا ہے، اور اس کو مزید بہتر کیا جانا چاہیے۔
5.  اس طرح مدارس کو قومی یونیورسٹیوں کے ساتھ ملحق کرنا چاہیے۔ کم ازکم دیگر سرکاری یونیورسٹیوں کی طرح انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد کو بھی ملک بھر میں اپنی شاخوں کو پھیلانا اور اپنی شرائط پر دوسرے تعلیمی اداروں کو الحاق Affiliation کی سہولت ضرور دینی چاہیے۔
6.  حکومت کو خود اعلیٰ دینی تعلیم کے معیاری ادارے قائم کرنے چاہئیں   اور اسلام کی تعلیم وتحقیق اور اس کے بعد اس پر عمل درآمد کو اپنی بنیادی ذمہ داری سمجھنا چاہیے۔ کیونکہ دینی مدارس کو ملنے والا فنڈ اور طلبہ واساتذہ، استعمار کی کئی سالہ جدوجہد کے نتیجے میں مخصوص فرقہ وارانہ دباؤ کا شکار ہیں ، جس کے خاتمے کے لئے مسلسل اور منظم کوششیں بروئے کار لانا ضروری ہیں۔ چنانچہ اگر حکومت قومی خزانے سے فرقہ واریت سے بالاتر، قرآن وسنت اور ان کی روشنی میں فقہ اسلامی کی معیاری تعلیم کے ادارے قائم کرے ، جیسا کہ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اس ضمن میں ایک بہترین مثال ہے، تو اس سے حکومت کا دینی علوم کے فروغ کا فریضہ احسن طور پر پورا ہوگا، اور معاشرے میں فرقہ واریت کے خاتمے کی بہتر مثال بھی قائم ہوگی۔ ایسے ہی قومی نوعیت کے ادارے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اسلامی نظریے اور اس کے شہریوں کی حقیقی اسلامی خدمت کرسکتے ہیں۔ اسی طرح ہی پاکستان کے کامیاب اسلامی   فلاحی معاشرہ ہونے کا خواب پورا ہوسکتا ہے ۔٭٭                                                                                                               
(ڈاکٹر حافظ حسن مدنی)
مدیر التعلیم، جامعہ لاہور الاسلامیہ
حوالہ جات:
[1]    «طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ»، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ( سنن ابن ماجہ:224)
[2]    ﴿فَلَولا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرقَةٍ مِنهُم طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهوا فِى الدّينِ وَلِيُنذِروا قَومَهُم إِذا رَجَعوا إِلَيهِم ...﴿١٢٢﴾... سورة التوبة
[3]    مولانا ابو الحسن علی میاں ندوی  كے والد اور نزهة الخواطرکے مصنف مولانا عبدالحئی حسنی نے لكھا کہ’’ ہندوستان کے نصابِ تعلیم کے تیسرے دور (١٥٨٣ء؛ دورِ اکبری) میں درسِ نظامی میں ہی علم طب، علم ہیئت اور علم ریاضی جیسے سائنسی علوم کا بھی اضافہ کیا گیا۔ انہی علوم میں سے موجودہ دینی مدارس میں آج بھی علم ہیئت کی کتاب شرح چغمینی (فلکیات) اور اُقلیدس (علم ہندسہ) درسِ نظامی میں شامل نصاب ہے۔ ‘‘           ( مجلّہ ’الندوة ‘:١٩٠٩ء )
[4]    والدِ گرامی مولاناڈاکٹر حافظ عبدالرحمٰن مدنی﷾بتايا كرتے ہیں کہ ان کے والد محترم شیخ التفسیر حافظ محمد حسین امرتسری (م1959ء) صحیح بخاری کےچھ پاروں کے حافظ اور ان کے بڑے بھائی حافظ عبد اللّٰہ محدث روپڑی (م 1964ء) كو ریاضی ؍ ہندسہ کی درسی کتاب اُقلیدس کے كئی مقالات زبانی حفظ تھے۔ ایسے ہی شیح الحدیث حافظ محمد گوندلوی ﷫ (م1985ء) بھی ان علوم حكمت کے جامع وحافظ تھے۔ رحمہم اللّٰہ اجمعین
[5]    ’سیکولرزم‘ دین ودنیا یا چرچ وسٹیٹ(مذہب وریاست) کی تقسیم كا مغربی کفریہ نظریہ ہے جسے فرانسیسی مفکر وولٹائر 1778ء ،امریکی دستور کی پہلی ترمیم1802ء، اور برطانیہ میں جارج جیکب نے 1851ء میں بطورِ نظام متعارف کرایا۔ یہ نظریہ دین ودنیا کی صرف تقسیم کا داعی نہیں،بلکہ اجتماعیت کے تمام دائروں میں مذہب کا داخلہ منع کرکے پوری سیاسی، قانونی، تعلیمی اور ابلاغی قوت سے مذہب کو فرد کی ذاتی زندگی(عبادات وعقائد اور رسوم ورواج) تک مقید کرنے کے قانون بناتا اورریاستی طاقت سے نافذ کرتا ہے۔لبرل حکومتی جبر کے نتیجے میں آخر کار معاشرہ لادینیت   کا شکار ہوجاتا ہے اور سیکولر لوگ آزادئ اظہار کے نام پر فرد کے مذہبی تصورات پربھی حملہ آور ہوجاتے ہیں۔ اسی نظریہ کا نتیجہ ’اسلام کی بنا پر تعلیم وسیاست کی تشکیل ‘ کا انکار اور دینی ودنیاوی تعلیم کے جداگانہ ادارے ہیں۔
[6]    تھامس میکالے 1834ء میں حکومتِ ہند کے نئے رکن قانون کی حیثیت سے مدراس میں وارد ہوا اور اسے ’مجلس تعلیماتِ عامہ‘ کا صدر بنایا گیا۔ اس نے 1835ءکی تعلیمی رپورٹ میں یہ قطعیت سے لکھا کہ ’’کمپنی کو اپنا تعلیمی بجٹ صرف اور صرف انگریزی تعلیم پر خرچ کرنا چاہیے اور کمپنی کو روایتی و مقامی مدارس کی مالی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لینا چاہیے۔‘‘ میکالے نے دھمکی دی تھی کہ اگر اُس کی تجاویز پر عمل نہ کیا گیا تو وہ مجلس تعلیماتِ عامہ سے استعفا دے دے گا۔ یہ دھمکی کارگر رہی اور 1835ءسے انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنا دیا گیا۔اس میں کسی شک کی گنجایش نہیں کہ انگریزی نظام تعلیم ایک نئی ہندوستانی اشرافیہ پیدا کرنے کی غرض سے رائج کیا گیا جو باہر سے ہندوستانی، مگر اندر سے انگریز ہو۔ نئی ہندوستانی اشرافیہ کی دو غلی شخصیت نوآبادیاتی ضرورت تھی۔ (’’انگریزوں نے ہندوستان کو کیسے ذہنی غلام بنایا ؟‘‘از پروفیسر ناصر عباس نیّر چیئرمین ’اُردو سائنس بورڈ‘، مجلّہ تعلیمی زاویے2016ء ، لاہور)
[7]    قرارداد مقاصد کو 1949ء میں دستور کا دیباچہ بنایا گیا، لیکن 1985ء میں اس کو باقاعدہ دستور کا حصہ قرار دے دیا گیا ہے۔
[8]    افسوس كہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی فل بنچ نے ڈاکٹر نسیم حسن شاہ کی سربراہی میں مارچ1992ء   كواس بنیاد کو بری طرح متاثر کيا ۔
[9]    ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء از شاہ ولی اللّٰہ دہلوی :1؍5
[10] الاحکام السلطانیہ از امام ابو الحسن ماوردی: 15 بحوالہ موسوعہ فقہیہ، کویت: 25؍304
[11] مضمون میں بیان کردہ سرکاری نوٹی فکیشنز کا ان کے اصل انگریزی متن کو سامنے رکھتے ہوئے عام فہم ترجمہ کیا گیاہے۔جبکہ اصل چھ انگریزی دستاویزات کو محدث كےانٹرنیٹ ایڈیشن کے آخر میں ملحق کردیا گیا ہے جنہیں حسبِ ضرورت دیکھا جاسکتاہے ۔
[12] 1982ء میں چاروں وفاق ہائے مدارس (نمبر1، 4، 7 اور 9) کو منظور کیا گیا جبکہ باقی کی منظوری کچھ عرصہ بعد عمل میں آئی۔
[13] 1982ء كے 1صل نوٹی فکیشن میں ’حال میں ہی متعارف کرائے گئے اختیاری Electiveمضامین‘ اسلامیات اور مطالعہ پاکستان درج ہیں، جبکہ یہاں اختیاری کا لفظ ٹائپنگ کی غلطی ہے، کیونکہ   2005ء میں ایچ ای سی کی طرف سے جب اسی نوٹیفکیشن کو آگے بڑھایا گیا تو وہاں اسی عبارت کی اصلاح کرتے ہوئے اختیاری کی بجائے لازمی مضامین لکھ دیا گیا۔دیکھیں اگلا نوٹیفکیشن 2005ء
[15] ايضاً
[16] روزنامہ ’پاکستان‘ :13 ؍دسمبر2007ء
[17] مضمون’تعلیم کے نام حکومتی جبر ‘از راقم : شائع شده ماہنامہ محدث لاہور: جنوری 2008ء، شمارہ نمبر 317 ، ص 4
[18] روزنامہ نوائے وقت: 14؍ جولائی 2016ء
[19] IBCC انٹربورڈ چیرمین کمیٹی کا مخفف ہے، جو انٹردرجہ کے مختلف بورڈز کے چیئرمین حضرات پر مشتمل ایسا بورڈ ہے جو میٹرک اور ایف اے مرحلہ کی اسناد کے معادلہ (Equivalence)کی منظوری وغيره دیتا ہے ۔
[20] کل چار طرح کے قوانین ہوئے: پہلا: شہادۃ عالمیہ کا معادلہ 1982ء، دوسرا: شہادۃ عالمیہ کو جامع کرنے کا طریقہ1982ء، تیسرا : شہادۃ عالیہ کا معادلہ 2017ء، چوتھا: ریگولر ایم اے میں داخلہ کا طریقہ2017ء           اور چاروں قوانین ہی فی الوقت جاری وساری ہیں۔
[21] روزنامہ نوائے وقت: 14؍اکتوبر 2017ء
[22] ایران کے قومی ادارے ’ہائی ایجوکیشن کونسل‘ کے سربراہ مہدی نوید ادھام نےسركاری ٹی وی پر بتایا کہ سرکاری اور غیر سرکاری سکولوں کے نصاب میں انگریزی پڑھانا قاعدے اور قانون کی خلاف ورزی ہے۔ملک کے پرائمری سکولوں میں انگریزی زبان پڑھانے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای نے اساتذہ سے خطاب کے دوران کہا کہ ’’اس کا مطلب غیر ملکی زبانوں کو سیکھنے کی مخالفت کرنا نہیں بلکہ غیرملکی ثقافت کو ملک کے بچوں، نوجوانوں اور نوجوان نسل میں فروغ دینے کی مخالفت کرنا ہے۔‘‘          (http://www.bbc.com/urdu/world-42596753   مؤرخہ: 8 جنوری 2018ء)
[23] یہ ادارہ 31؍اکتوبر 1982ء میں ’مرکزی اردو بورڈ برائے ترقی اردو‘ سے سائنسی كتب كے تراجم کے لئے تشکیل پایا۔
[24] دستور پاکستان کے آرٹیکل 251 کا متن : (1) ’’پاکستان کی قومی زبان اُردو ہے اور یوم آغاز [یعنی1973ء]سے پندرہ برس کے اندر اندر اس کو سرکاری ودیگر اغراض کے لئے استعمال کرنے کے انتظامات کئے جائیں گے۔ ‘‘                عرصہ ہوا کہ 15 برس پورے ہوچکے ۔