اسلام اور مغرب کی ترجیحات: ایک موازنہ
محترم جناب عزیز الرحمٰن کے مضمون کی محدث میں اشاعت کے دوران چند نکات ذہن میں پیدا ہوئے جنہیں تحریر کرتے ہوئے زیر نظر مضمون بن گیا۔ اس مضمون سے قبل جناب عزیز الرحمٰن کے مضمون کا مطالعہ بھی مناسب رہے گا۔ اُمید ہے قارئین اس بے ساختہ تبصرہ کو فائدہ سے خالی نہیں پائیں گے۔
زندگی کے مختلف اُمور کے بارے میں اسلام اور مغرب میں جداگانہ نقطہ نظر پایا جاتا ہے، جس کی بنا پر دونوں کے نتائج اور رجحانات میں بھی بہت زیادہ فرق ہے۔ ایجادات و اکتشافات کے میدان میں یورپ کی موجودہ محیر العقول ترقی کا اہل مغرب کے اس نظریے اور فلسفے سے گہرا تعلق ہے جو وہ زندگی کے بارے میں رکھتے ہیں۔ جبکہ ایک مسلمان کے ہاں انسانی زندگی کے بارے میں عقیدہ و نظریہ عام یورپی آدمی سے یکسر مختلف ہے۔ چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ علوم وفنون میں مسلمان بالفرض اپنے کھوئے ہوئے مقام کو دوبارہ حاصل کر لیں تو ان کی متعارف کردہ ترقی اور ایجادات کے موضوع وہ نہیں ہوں گے جو اہل مغرب کے زیر سایہ موجودہ سائنس و ٹیکنالوجی نے اختیار کر رکھے ہیں۔ اس کی تفصیلات حسبِ ذیل ہیں:
(1) تصورِ دنیا
یورپ کی موجودہ ترقی کا اہم پہلو انسان کی ضروریات کو مشینوں اور آلات کے ذریعے پورا کرنا ہے۔ ٹیکنالوجی کا اہم ترین موضوع یہی دنیاوی آسائش و آرائش ہے۔ اہل مغرب نے ترقی کی چند صدیوں میں سفری سہولیات، رابطہ کے آلات اور موسمی تغیرات سے محفوظ رہنے کے علاوہ جن بیسیوں میدانوں میں ترقی کی ہے، ان سب کا تعلق دنیاوی زندگی سے ہے۔ عموما مسلمانوں پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ ان میدانوں میں ملنے والی سہولیات میں وہ بھی اہل مغرب کی ترقی اور ٹیکنالوجی سے ہی فائدہ اُٹھاتے ہیں اور اس میدان میں انہوں نے نمایاں کارنامے انجام نہیں دیے۔ ہماری نظر میں اس کی اہم وجہ ایک مسلمان اور غیر مسلم کی ترجیحات کا اُصولی فرق ہے جو اس کے عقائد و نظریات کی بنا پر ٹھوس حقیقت رکھتا ہے۔
اسلام کا دنیاوی زندگی کے بارے عقیدہ یہ ہے کہ وہ اس کو چند روزہ زندگی قرار دے کر آخرت کو دائمی مسکن ( ) و مستقر قرار دیتا ہے۔ موجودہ زندگی کی قدر و قیمت اسلامی عقائد کی روشنی میں اسی قدر ہے کہ یہ ایک امتحان کی تیاری کے لئے ملنے والی مہلت ہے اور دنیا میں انسان کو اعمال کی آزمائش ( ) کے لئے بھیجا گیا ہے۔ قرآنِ کریم دنیا میں انسان کی آمد کا مقصد اللہ کی ( ) عبادت قرار دیتا ہے۔ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو آخرت کے لئے کھیتی اور اس آرام سے تعبیر کیا ہے جسے ایک مسلمان دورانِ سفر تھوڑا سا سستانے ( ) کے لئے اختیار کرتا ہے۔
یوں تو دنیاوی زندگی میں آرام و سکون کے حصول کو اسلام حرام قرار نہیں دیتا کیونکہ دنیا ضرورتوں اور مسرتوں کو اسلام میں نظر انداز نہیں کیا گیا۔ بلکہ قرآنِ کریم میں مسلمانوں کو سکھائی جانے والی دعا میں خیر و فلاح بھی اللہ سے ( ) مانگی گئی ہے۔ لیکن ایک مسلمان اور غیر مسلم کی سوچ کا بنیادی فرق یہ ہے کہ مسلمان کے نزدیک خیر و فلاح کا مکمل تصور دنیا سے وابستہ نہیں بلکہ دنیا کے بعد ایک ایسی زندگی آنے والی ہے جہاں ابد الآباد تک انسان کو رہنا ہے۔ اس میں کامیابی اور اس کے لئے محنت اس زندگی کا مقصد ہے۔
اسلام میں دنیاوی چین و سکون کو بقدرِ ضرورت ہی اختیار کرنے کا تصور موجود ہے۔ دنیاوی آسائش کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنا اور اس کی جستجو میں رہنا صحابہ کرام کی نظر میں ایسا امر تھا جس کا کم از کم نتیجہ آخرت میں دنیا وی لذات کے بقدر انعام سے محرومی ہے چنانچہ تفسیر ابن کثیر (4/160) میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ عادت ذکر کی گئی ہے کہ وہ دنیا میں نعمتوں اور لذتوں سے استفادہ سے اس بنا پر گریز کرتے کہ روزِ قیامت انہیں اس کا نتیجہ ان نعمتوں سے محرومی کی صورت میں نہ ملے اور قرآن کریم کی یہ آیت پڑھا کرتے:
﴿أَذهَبتُم طَيِّبـٰتِكُم فى حَياتِكُمُ الدُّنيا وَاستَمتَعتُم بِها فَاليَومَ تُجزَونَ عَذابَ الهونِ بِما كُنتُم تَستَكبِرونَ فِى الأَرضِ بِغَيرِ الحَقِّ ...﴿
٢٠﴾... سورة الاحقاف
"تم نے اپنی نیکیاں دنیا کی زندگی میں ہی برباد کر دیں اور ان نعمتوں سے دنیا میں ہی فائدہ اٹھا چکے۔ پس آج تمہیں ذلت کے عذابوں کی سزا دی جائے گی۔"
دوسری طرف ایک غیر مسلم نہ صرف دنیاوی فلاح کو ہی اپنے پیش نظر رکھتا ہے بلکہ دنیا میں مال و دولت اور سکون و تعیشات کے جملہ اسباب حاصل کرنا ہی اس کی تمام تر جدوجہد، مساعی کا محور اور مقصدِ حیات ہے۔ دنیا چونکہ دارالاسباب ہے اور جو آدمی جس شے کے اسباب پیدا کرتا ہے، اس کو عموما حاصل بھی کر لیتا ہے۔ اسی لئے بظاہر اس کے نتائج بھی ان کے ہاں دکھائی دیتے ہیں۔ دنیا کی چند روزہ آسائش کے حصول کے بارے میں قرآنِ کریم مسلمانوں کی درج ذیل تربیت کرتا ہے:
﴿مَن كانَ يُريدُ العاجِلَةَ عَجَّلنا لَهُ فيها ما نَشاءُ لِمَن نُريدُ ثُمَّ جَعَلنا لَهُ جَهَنَّمَ يَصلىٰها مَذمومًا مَدحورًا ﴿
١٨﴾ وَمَن أَرادَ الءاخِرَةَ وَسَعىٰ لَها سَعيَها وَهُوَ مُؤمِنٌ فَأُولـٰئِكَ كانَ سَعيُهُم مَشكورًا ﴿
١٩﴾ كُلًّا نُمِدُّ هـٰؤُلاءِ وَهـٰؤُلاءِ مِن عَطاءِ رَبِّكَ وَما كانَ عَطاءُ رَبِّكَ مَحظورًا ﴿
٢٠﴾... سورة الإسراء
"جس کا ارادہ اس دنیا کا ہی ہو، ہم یہاں جس قدر، جسے چاہیں دنیا میں ہی عطا کر دیتے ہیں۔ آخر کار اس کے لئے ہم نے جہنم مقرر کیا ہے جہاں وہ برے حالوں دھتکارا ہوا داخل ہو گا۔ اور جس کا ارادہ آخرت کا ہو اور اس کے لئے وہ اپنی سی کوشش کرے اور وہ صاحب ایمان ہو، پس یہی لوگ ہیں جن کی کوشش کی اللہ کے ہاں پوری قدر دانی کی جائے گی۔ ہر ایک کو ہم تیرے پروردگار کے انعامات سے عطا کئے جاتے ہیں، اُنہیں بھی اور اِنہیں بھی۔ اور تیرے رب کی بخشش رکی ہوئی نہیں ہے۔ دیکھ لے کہ ہم نے انہیں ایک دوسرے پر کس طرح فضیلت دے رکھی ہے اور آخرت میں زیادہ درجات ہیں اور یہ وہی بڑی (حقیقی) فضیلت ہے۔"
اس آیتِ کریمہ میں اہم نکتہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا چاہنے والے کو اس قدر دنیا کے اسباب و وسائل دیتے ہیں جتنا اس کی مشیت میں ہو۔ ایسا نہیں کہ لازما اس کی چاہت پوری ہو جائے، جبکہ آخرت کی طلب رکھنے والا اگر اپنے اعمال سے بھی اس کی تائید مہیا کر دے تو اس کی محنت قطعا رائیگاں نہیں جاتی۔ دنیا میں لوگوں کو دیا ہوا مال و دولت صرف اللہ تعالیٰ کی خاص عطا ہے اور بعض کو دوسروں سے دنیاوی اسباب کا حاصل ہو جانا اللہ کے فضل کا ہی مرہونِ منت ہے۔ جبکہ غیر مسلموں کو دنیاوی آسائشوں کی فراوانی کے پس پردہ اللہ تعالیٰ کی دیگر متعدد مشیتیں بھی کارفرما ہیں۔ تاکہ ان کے ذریعے دین داروں کے خلوص کی بھی آزمائش ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے متاثر نہ ہونے کی تلقین کی:
﴿وَلا تَمُدَّنَّ عَينَيكَ إِلىٰ ما مَتَّعنا بِهِ أَزوٰجًا مِنهُم زَهرَةَ الحَيوٰةِ الدُّنيا لِنَفتِنَهُم فيهِ وَرِزقُ رَبِّكَ خَيرٌ وَأَبقىٰ ﴿
١٣١﴾... سورة طه
"اور ان چیزوں کی طرف ہرگز اپنی نگاہوں کو نہ اٹھائیں جو ہم نے انہیں دنیا کی نعمتوں کی چمک دمک عطا کی ہے تاکہ ہم انہیں دنیا کی آزمائش میں مبتلا کریں۔ تیرے رب کا عطا کردہ رزق ہی بہت بہتر ہے اور اسے ہی بقا ہے۔"
اس سے ملتی جلتی بات یہ ہے کہ حضرت موسیٰ نے اللہ تعالیٰ سے اس امر کا شکوہ کیا کہ باری تعالیٰ! تو نے اپنے نافرمانوں کو دنیا کی فراوانی اس لئے دی ہے، تاکہ وہ تیرے فرمانبرداروں بندوں کو آزمائش میں ڈالیں:
﴿رَبَّنا إِنَّكَ ءاتَيتَ فِرعَونَ وَمَلَأَهُ زينَةً وَأَموٰلًا فِى الحَيوٰةِ الدُّنيا رَبَّنا لِيُضِلّوا عَن سَبيلِكَ رَبَّنَا اطمِس عَلىٰ أَموٰلِهِم وَاشدُد عَلىٰ قُلوبِهِم فَلا يُؤمِنوا حَتّىٰ يَرَوُا العَذابَ الأَليمَ ﴿٨٨﴾... سورة يونس "یا رب! تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو دنیا میں آسائش اور مال و دولت اس لئے عطا کئے ہیں کہ وہ لوگوں کو تیرے راستے سے گمراہ کر دے۔ اے ہمارے رب! ان کے مال تباہ کر اور ان کے دل اس قدر سخت کر دے کہ درد ناک عذاب سے قبل انہیں ایمان لانا نصیب نہ ہو۔" قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے کفار کو ملنے والی ان نعمتوں کے بارے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا:
﴿لا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذينَ كَفَروا فِى البِلـٰدِ ﴿
١٩٦﴾ مَتـٰعٌ قَليلٌ ثُمَّ مَأوىٰهُم جَهَنَّمُ وَبِئسَ المِهادُ ﴿
١٩٧﴾ لـٰكِنِ الَّذينَ اتَّقَوا رَبَّهُم لَهُم جَنّـٰتٌ تَجرى مِن تَحتِهَا الأَنهـٰرُ خـٰلِدينَ فيها نُزُلًا مِن عِندِ اللَّهِ وَما عِندَ اللَّهِ خَيرٌ لِلأَبرارِ ﴿
١٩٨﴾... سورة آل عمران
"تجھے کافروں کی یہ چلت پھرت فریب میں مبتلا نہ کر دے، یہ تو معمولی فائدہ ہے پھر ان کا ٹھکانہ جہنم ہے جو بہت بری جگہ ہے۔ لیکن جن لوگوں نے اپنے رب کا تقویٰ اختیار کیا، ان کے لئے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے سے نہریں چلتی ہیں۔ اس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ تیرے رب کی مہمان نوازی ہے۔ اور تیرے رب کے پاس نیکوکاروں کے لئے بہت بہتر (انعام) ہے۔"
اس پہلے نکتے کا حاصل یہ ہے کہ ایک مسلمان اور غیر مسلم کا زندگی کے بارے میں عقیدے اور نظریے کا اس کے طرزِ عمل اور رویے سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ موجودہ سائنسی ترقی جن رجحانات اور تعشات کی مظہر ہے، چونکہ ایک مسلمان کا یہ کلی مقصد نہیں ہو سکتا، یہی وجہ ہے کہ مسلمان سائنس دان انہی مقاصد کو اپنی تحقیق کا واحد موضوع نہیں بنا سکتے، اور اس سلسلے میں اسلام کا مجموعی مزاج ان کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔
٭ اس کے بالمقابل ایک مسلم سائنس دان کی دلچسپی و توجہ کا زیادہ مظہر اس کائنات کے ایسے اکتشافات ہو سکتے ہیں جن میں تفکر و تدبر کرنے کا ہمیں قرآن حکم دیتا ہے اور قرآن ہم سے بار بار مظاہر فطرت میں غور کرنے، ان کا بغور مشاہدہ کرنے کی ترغیب ( ) دیتا ہے۔ اس کا بھی بنیادی مقصد اپنے رب کی کامل معرفت اور اس کی ذات پر ایمان و ایقان میں اضافہ کا حصول ہے۔ ایک مسلم سائنس دان جب انفس و آفاق میں اللہ کے متحیر معجزات کا مشاہدہ کرتا ہے تو اپنے رب پر اس کے ایمان میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ لیکن مسلمان سائنس دان کی زیادہ تر دلچسپی ان رازوں کی دریافت سے رہتی ہے، ان رازوں کی بنا پر اللہ کی خلقت میں تغیر و تبدل سے وہ اپنے عقائد کی رو سے بعض تحفظات رکھتا ہے اور اس کا رویہ ان سے گریز کا ہی ہوتا ہے۔ چنانچہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے جن و اِنس کو یہ چیلنج کیا کہ
﴿يـٰمَعشَرَ الجِنِّ وَالإِنسِ إِنِ استَطَعتُم أَن تَنفُذوا مِن أَقطارِ السَّمـٰوٰتِ وَالأَرضِ فَانفُذوا لا تَنفُذونَ إِلّا بِسُلطـٰنٍ ﴿
٣٣﴾... سورة الرحمان
"اے جن و اِنس کی جماعت! اگر زمین و آسمان کی حدوں سے تمہیں باہر نکلنے کی طاقت ہے تو نکل کر بھاگ جاؤ۔ غلبہ اور طاقت کے بغیر تم ہرگز نہیں نکل سکتے۔"
اس بنا پر ایک مسلم سائنس دان آسمان و زمین سے باہر نکلنے پر غور و فکر اور اس کی کوشش سے عقیدتا گریز کرنے کا رجحان رکھتا ہے۔ اس طرح تخلیق کا الٰہی عقیدہ رکھنے کی وجہ سے تخلیق کے عمل میں انسانی کاوش کے ذریعے بعض تبدیلیاں کرنے مثلا کلوننگ کی تکنیک کو بروے کار لانے سے بھی وہ گریز کر سکتا ہے۔ مزید برآں سائنس دانوں کا یہ دعویٰ کہ وہ انسان کی زندگی کا ایسا کوڈ دریافت کرنے میں سرگرداں ہیں جو عمر میں کمی بیشی کا سبب ہوتا ہے، ایک مسلم سائنس دان کے لئے اس عقیدہ کے سبب زیادہ دلچسپی نہیں رکھتا کہ اللہ ہی موت و حیاہ کا خالق ہے، ہر جان کی موت اس کے قبضہ قدرت میں ہے اور اس پر اللہ کی تقدیر غالب ( ) رہتی ہے۔
الغرض ایک مسلم و غیر مسلم سائنس دان کی ترجیحات کا فرق یہ ہے کہ مسلم سائنس دان دنیاوی سہولیات کی ایجاد و اختراع کے بجائے دریافت اور رب کی معرفت جیسے انکشافات میں اپنے عقیدے کے سبب زیادہ دلچسپی رکھتا ہے، جبکہ ایک غیر مسلم سائنس دان ہر شے کو سبب اور مسبب کے مشینی انداز میں دیکھتا ہے۔ اس کا یہ نتیجہ تو ہے کہ اس سے غیر مسلم سائنسدان زیادہ بے دھڑک ہو کر اور زیادہ یکسوئی سے آگے بڑھتا ہے، بالکل ایسے ہی جیسے ایک غیر مسلم تاجر حق و باطل کی پرواہ کئے بغیر ہر طریقہ سے ایک مسلم تاجر کی بہ نسبت زیادہ مال و دولت اکٹھا کر لیتا ہے یا ایک ذخیرہ اندوز یا سود خور لوگوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر زیادہ مال تو جمع کر لیتا ہے لیکن اسلام کی نظر میں یہ سہولیات اور مال کا زیادہ حصول چونکہ مقصد ہی نہیں، بلکہ دنیا میں انسان کی آمد کا مقصد اور ہے، اس لئے مسلمان اسی میں اپنی توجہ صرف کرتا ہے۔ سائنس کی دریافت کے پہلو کی اسلام میں نہ صرف تحسین بلکہ جا بجا تلقین پائی جاتی ہے۔ قرآن میں کافروں کی مذمت ان الفاظ سے کی گئی ہے:
﴿يَعلَمونَ ظـٰهِرًا مِنَ الحَيوٰةِ الدُّنيا وَهُم عَنِ الءاخِرَةِ هُم غـٰفِلونَ ﴿
٧﴾... سورة الروم
"وہ دنیا کی ظاہری زندگی پر ہی نظر رکھتے، جانتے ہیں اور آخرت سے بالکل بے خبر ہیں۔"
(2) تصورِ جنگ
موجودہ سائنس کا ایک اہم مظہر حربی آلات کی جدید ٹیکنالوجی ہے۔ جن کی بدولت مغربی اقوام کو دنیا پر سیاسی برتری حاصل ہے۔ ہولناک اور خوفناک صلاحیت رکھنے والے جنگی آلات اور ہتھیار اس سائنسی صلاحیت سے ہمیں حاصل ہوئے ہیں جس کو غیر مسلموں نے پروان چڑھایا۔ یہاں بھی مسلم اور غیر مسلم حربی نقطہ نظر اور تصورات کا فرق نتائج میں بہت بعد پیدا کر دیتا ہے۔ مسلمان موجودہ ٹیکنالوجی پر قبضہ و اختیار کے باوجود اپنے عقائد اور دینی ہدایات کی رو سے ایسے ہولناک ہتھیار بنانے سے گریز کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتا ہے۔
مغربی اقوام 'تنازع للبقا' کے فلسفے پر یقین رکھتی ہے۔ غیر مسلم اقوام کے ہاں جنگ میں مدمقابل پر ہر طرح کا ظلم و ستم جائز ہے۔ مقابل کو خوفناک ہلاکت سے دوچار کرنا، شہروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دینا اور خون کی ندیاں بہا دینا غیر مسلموں کا جنگی اُسلوب تو ہو سکتا ہے، اسلام تو جنگ میں بھی مختلف انداز سے امن و سلامتی اور احترام کے اُصول ہمیں عطا کرتا ہے۔
عہدِ نبوی، خیر القرون اور اسلامی تاریخ میں مسلمان فاتح کا اپنے مفتوح سے حسن سلوک پر مبنی تعلق ایسا امتیاز ہے جن کا منصف مزاج مؤرخین نے ہمیشہ اعتراف کیا ہے۔ اسلام جنگ میں درختوں کو آگ ( ) لگانے بچوں اور عورتوں کو ہلاکت سے دوچار ( ) کرنے اور غیر مقاتلین کے قتل عام اور مثلہ ( ) سے ہمیں منع کرتا ہے۔ یہاں دنیا کی مہذب قوموں کی تہذیب پسندی کا پردہ چاک ہوتا ہے کہ وہ اپنے مقابل کو کوئی انسانی رو رعایت دینے کو تیار نہیں۔ اس بربریت و وحشت کی تازہ مثالیں اس جدید ترین دور میں افغان و عراق کی امریکی جارحیت اور ہیروشیما و ناگاساکی کی تباہی میں بخوبی موجود ہیں۔
مسلمان اپنے عقائد و نظریات اور اسلامی ہدایات کی رو سے ایٹمی صلاحیت کے حامل ایسے ہتھیار جو انسانیت کو عبرت آمیز ہلاکت سے دوچار کر دیں، بنانے پر قادر نہیں۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ مسلمان مقابل کی جنگی قوت کا دفاع نہ کر سکیں بلکہ اسلام مسلمانوں کو اس قدر جنگی طاقت حاصل کرنے کا پابند قرار دیتا ہے جس سے مخالف پر دھاک جمی رہے اور مسلم اقوام کا رعب قائم رہے۔ ( ) اسلام مقابل کے خلاف حتیٰ المقدور جنگی تیاری کا مسلمانوں کو پابند ٹھہراتا ہے۔ (ایضا) اس لحاظ سے مسلمانوں کی موجودہ برتر حربی صلاحیتوں کا حصول اس دفاعی حکمتِ عملی کا حصہ ہے جو ان کے پُرامن وجود کے لئے ضروری ہے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام بھی جارحانہ کی بجائے دفاعی ہے تاکہ غیر مسلموں کو مسلمانوں پر زیادتی کا موقع نہ مل سکے۔
غرض موجودہ جنگی سائنسی ترقی بھی، جو مقابل کو عبرت آموز ہلاکت سے اور ایسے قتل عام سے دوچار کر دے کہ اس سے ان کی آئندہ نسلیں مسخ ہو جائیں، اسلام اور مسلمانوں کے مزاج سے لگا نہیں کھاتی۔ یہ صلاحیت اور اس کا استعمال انسانی حقوق کے چمپئن امریکہ اور اس کے حواریوں کو ہی مبارک ہو۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مسلمان دفاعی تیاری بھی نہ کریں۔ بلکہ اسلام تو انہیں اس حد تک اقدامی تیاری رکھنے کا پابند ٹھہراتا ہے جس سے (تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّـهِ وَعَدُوَّكُمْ) اور نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِيرَةَ شَهْرٍ (بخاری: 335) کے الٰہی و نبوی فرامین کے تقاضے پورے ہو جائیں۔
(3) تصورِ فلاح
اسلام کا تصور فلاح اہل یورپ کے تصورِ فلاح سے یکسر مختلف ہے۔ تصور فلاح کا یہ فرق بھی دونوں قوموں (اسلام اور کفر) کے رجحانات میں زمین و آسمان کا فرق پیدا کر دیتا ہے۔ اول تو اسلام میں کامیابی کا تصور صرف دنیاوی نہیں بلکہ اس میں دنیا کو متاعِ قلیل اور مستقر الی حین ( ) اور آخرت کو دارالقرار ( ) قرار دیا گیا ہے اور قرآن کی رو سے کامیاب وہ ہے جو
﴿فَمَن زُحزِحَ عَنِ النّارِ وَأُدخِلَ الجَنَّةَ فَقَد فازَ وَمَا الحَيوٰةُ الدُّنيا إِلّا مَتـٰعُ الغُرورِ ﴿
١٨٥﴾ لَتُبلَوُنَّ فى أَموٰلِكُم وَأَنفُسِكُم وَلَتَسمَعُنَّ مِنَ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ مِن قَبلِكُم وَمِنَ الَّذينَ أَشرَكوا أَذًى كَثيرًا...﴿
١٨٦﴾... سورة آل عمران
"پس جو آگ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کر دیا گیا گویا وہی کامیاب ہو گیا۔ اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کا ہی سامان ہے۔ یقینا تمہارے مالوں اور جانوں میں تمہاری آزمائش کی جائے گی۔ اور ضرور تمہیں سابقہ اہل کتاب اور مشرکین سے اذیتیں اور تکالیف اُٹھانا ہوں گی۔"
اسلام کا یہ تصورِ فلاح صرف اُخروی نہیں بلکہ اس میں دنیا کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا۔ لیکن یہاں دنیا کبھی کل مقصد نہیں رہی۔ جہاں تک اسلام کے دنیوی تصور فلاح کا تعلق ہے تو وہ بھی موجودہ مغربی تصورِ کامیابی سے سراسر مختلف ہے۔
جدید دنیا میں کامیابی اور فلاح کا تصور یہ ہے کہ مال و دولت اور سامانِ تعیشات کی فراوانی ہو۔ دنیاوی لذتوں سے فیض اُٹھانے کے کھلے اور بے روک ٹوک مواقع میسر ہوں۔ ( )
اس تصورِ فلاح کے سب سے زیادہ حقدار شاہانِ وقت قرار پاتے ہیں گو کہ موجودہ حکمران نہیں، چند صدیاں قبل کے حکمران اس کے درست مصداق بنتے ہیں۔ لیکن ذرا غور کریں تو اندازہ ہو گا کہ اس ظاہری مسرت اور فلاح کے پس پردہ کتنی محرومیاں اور بے سکونیاں مچل رہی ہوتی ہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ مالدار شخص جن ذرائع سے مال حاصل کرتا ہے، اس کے حصول کے دوران دوسرے سے روا رکھی جانے والی زیادتی اس کے ضمیر پر کچوکے لگاتی رہتی ہے۔ مالدار اشخاص عموما دلی سکون و اطمینان سے محروم ہوتے ہیں۔ دولت کی یہ فراوانی ہوس میں اضافہ کرتی اور دل کا سکون چھین لیتی ہے۔ اور مالدار شخص ہر دم مال کے اضافے ( ) کی جستجو میں رہتا ہے۔ مالدار لوگ اپنے مال سے فیض اُٹھانے کی صلاحیت سے محروم بھی ہوتے ہیں۔
موجودہ زمانے میں فلاح کا تصور مال و دولت کے ساتھ اختیارات سے بھی وابستہ ہے۔ برتر اختیارات رکھنے والا ایسا شخص بھی بڑا کامیاب تصور کیا جاتا ہے جس کے حکم یا سفارش کے بیسیوں لوگ منتظر رہتے ہیں۔ جبکہ اسلام فلاح کے ان ظاہری تصورات کو قبول نہیں کرتا اور نہ ہی اختیارات کے حصول کی جدوجہد کرتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی رو سے مالداروں کا حساب روزِ قیامت اس قدر طویل ہو گا کہ وہ دنیا میں اس مال کے نہ ہونے کی آرزو کریں گے۔ اسلام میں مال و دولت کو فتنہ قرار دیا گیا ہے اور اللہ کی یاد سے غفلت ( ) کا سبب بتایا گیا ہے۔ اسی طرح اسلام میں اختیارات کا حصول بھی پسندیدہ امر نہیں۔ اسلام اول تو اختیار کے بجائے مسئولیت اور ذمہ داری کا اُسلوب اختیار کرتا ہے اور اسلام کی رو سے ہر شخص اپنے ماتحت پر مسئول ہے۔ ( ) ثانیا اسلام اختیارات ان لوگوں کو نہیں دیتا جو خواہاں ہوں اور اس کے حصول کی تدبیر کریں۔ ( )
اگر جدید دور کا متعارف کردہ فلاح کا تصور مان لیا جائے تو اس مزعومہ تصورِ فلاح پر خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور دورِ خلافت راشدہ پورا نہیں اُترتا جبکہ یہ ادوار مسلم تاریخ کے زریں ادوار ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذاتی طور پر مالدار ( ) نبی بننا پسند نہ کیا۔ اور اپنی تمام تر زندگی انتہائی سادگی میں گزاری حتیٰ کہ وفات کے وقت بھی آپ کی زرہ رہن ( ) رکھی ہوئی تھی۔
اسلام جس دنیوی زندگی کو کامیابی اور فلاح قرار دیتا ہے، وہ پرسکون زندگی ہے۔ پرسکون زندگی کے اہم کوائف درج ذیل ہیں:
(1) انسان کا تعلق رب تعالیٰ سے قائم ہو۔ اس کے بغیر فطرتِ انسانی ہر دم تشنہ رہتی ہے۔ رب کے تعلق سے جڑنے والا انسان زندگی کی ہر آزمائش کو ہنسی و خوشی گزار لیتا ہے۔
(2) انسان کا اپنے عزیز و اقارب اور معاشرے سے تعلق حسن معاملت اور محبت و اخلاق کی بنیاد پر استوار ہے۔ کیونکہ انسان کی فطرت اجتماعیت پسند ہے، کوئی شخص اکیلا حقیقی مسرت حاصل کرنے پر قادر نہیں، کسی پر زیادتی ( ) نہ ہو اور دوسروں کے لئے خیرخواہی ( ) ہو۔
(3) انسان صحت مند ہو، اپنے اور دوسروں کے لئے مفید ہو۔ اس کا ہر دم کسی مفید مصروفیت میں صرف ہو۔ یہ وقت اور صلاحیتوں کا ایسا حق ہے جس کی بابت روزِ قیامت ( ) سوال کیا جائے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: دو نعمتوں کا اکثر لوگ حق ادا نہیں کرتے، صحت اور فراغت ( ) دوسروں کے کام آنے والے کے نہ صرف اللہ تعالیٰ کام مکمل ( ) کرتے ہیں بلکہ دوسروں کے لئے نفع مند شخص کو دوام ( ) عطا فرماتے ہیں۔
(4) دولت کو جائز طریقوں سے حاصل کیا جائے، اور اس کا حق ( ) ادا کیا جائے۔ ورنہ یہ مال و دولت روزِ قیامت اپنے مالک کی گردن پر سوار ( ) ہو گا۔
ایک فلاحی معاشرہ اور فلاح یافتہ انسان کی خصوصیات بےشمار ہو سکتی ہیں جن میں عدل و انصاف بھی شامل ہے۔ لیکن اختصار کے پیش نظر انہی پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ ان چند نکات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں کا تصورِ فلاح، مغرب کے تصورِ فلاح سے مختلف ہے۔ بالخصوص مغرب میں روحانیت، عزیز و اقارب سے ہمدردانہ سلوک اور مال و دولت کا جائز حصول اور اس کو جائز مقام دینا وغیرہ اسلام سے یکسر مختلف ہیں۔ اسلام کا تصورِ فلاح ایک لفظ میں سما سکتا ہے کہ اس کی رو سے ایک مطمئن و پرسکون شخص ایک کامیاب ( ) آدمی ہے۔ اور انسان کو اطمیان اپنی فطرت میں پوشیدہ تقاضوں کی تکمیل سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ اسلام کی بنیاد بھی فطرت پر ہے۔
اگر کوئی شخص اسلام کے بغیر سکون و اطمینان کا دعویٰ کرے تو یا تو اس نے اپنی فطرت کو مسخ کر لیا ہے یا اپنی شخصیت کے تشنہ پہلوؤں کو وہ دوسروں بلکہ اپنے آپ سے چھپا رہا ہے یا اس نے اسلام کے بعض اُصولوں کو اپنی زندگی میں اختیار کر رکھا ہے گو کہ عقلی حوالے سے سہی، مذہب کے طور پر نہ سہی۔ ان اُصولوں کو اپنانے کی حد تک وہ مطمئن ہے، باقی اُمور میں وہ بھی تشنہ کام ہے۔
اسلامی تصورِ فلاح کا یہ مطلب نہیں کہ اسلام معاشرے کے افراد محتاج اور دوسروں کے دست نگر ہوتے ہیں۔ اول تو اسلام میں محنت کا ایسا جامع تصور اور احساس موجود ہے کہ کوئی نفس اس سے گریز کئے بنا مجبور و محتاج نہیں رہتا۔ اس کے باوجود رزق کی تقسیم اللہ کی تقدیر کے مطابق ہے۔ ( ) جس کے لئے زکوٰۃ کا اجتماعی نظام موجود ہے جس میں مستحقین کی ذمہ داری ان کے غنی مسلمان بھائیوں پر ڈالی گئی ہے۔ خیر القرون کے اس فلاحی معاشرے کی یہ خصوصیت بھی تاریخ میں موجود ہے کہ اس دور میں ڈھونڈنے سے زکوٰۃ لینے والا نہیں ملتا تھا۔
٭ اسلام اور کفر کے اس تصورِ فلاح کا بہت سا اثر ان کے رجحاناتِ زندگی پر پڑتا ہے۔ اہل یورپ کی نظر میں فلاح کے جو بنیادی اسباب ہیں، ان کی تمام تگ و تاز بھی انہی کے حصول میں لگی نظر آتی ہے۔ جبکہ اسلام کے نام لیوا اپنی کوششوں کا محور و مرکز ان اسباب کو بناتے ہیں جو ان کے تصورِ فلاح کی تکمیل کر دیں۔
یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے احیاءِ علوم کے اپنے سنہرے دور میں جن موضوعات اور علوم کو رواج دیا وہ ان کے تصورِ فلاح سے مطابقت رکھتے تھے۔ عباسی دورِ خلافت جو مسلمانوں میں علوم کا زریں عہد کہلاتا ہے، میں مسلمان اہل علم نے علومِ شریعت کو اپنی محنت کا مرکز و محور قرار دیا۔ قرآن اور احادیث کے دو بنیادی مآخذِ وحی کے حوالے سے تمام تر علوم کی تدوین اسی دور میں ہوئی۔ مسلمانوں نے حدیثِ نبوی کی حفاظت کے حوالے سے ایسا فن تحقیق مدون کیا جس پر دنیا آج بھی انگشت بدنداں ہے کہ اس قدر گہرے اُصولِ تحقیق اتنی صدیاں قبل نہ صرف دریافت ہوئے بلکہ ان پر کماحقہ عمل بھی کر لیا گیا۔
مسلمانوں نے اپنے سیاسی اور عمرانی افکار میں اسلام کی مشعل تھام کر ترقی کی ایسی منازل طے کیں کہ آج کی جدید ترقی یافتہ دنیا بھی اس اسلامی معاشرے کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ ابتدائی چار صدیوں میں مسلمانوں نے اسلام کے حوالے سے اتنے متنوع موضوعات پر دادِ تحقیق دی اور اتنے علوم و فنون کو مدون کیا کہ جدید عقل و دانش اس پر متحیر ہے۔ قرآن کریم اور سنتِ نبوی کا مفہوم سمجھنے کے لئے مسلمان اقوام نے عربی لغت اور قواعد نگاری میں ایسا شاندار کام کیا کہ کئی یورپی ماہرین کے نزدیک انگریزی لغت کے قواعد کا اس کے مقابلے میں ہونا یا نہ ہونا برابر ہے۔
ابن ندیم معروف وراق اور کتب فروش نے چوتھی صدی ہجری میں بغداد میں پائی جانے والی کتب کی نشاندہی پر مبنی الفهرسة نامی کتاب تصنیف کی جس میں اس دور میں علم کی شاخوں اور رجحانات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ بعد کے ادوار میں مسلمانوں پر فتنہ تاتار کی یورش نے ان میں سے اکثر کتب کو دجلہ و فرات کی بپھری لہروں کے سپرد کر کے صفحہ ہستی سے مٹا دیا اور اس کتاب میں موجود 80 فیصد کتب کے صرف نام اب باقی ہیں، دنیا میں ان کا کوئی وجود نہیں۔ جرمن پروفیسر جوزف ہیل اپنی تصنیف 'عرب تہذیب' میں ان ادوار کی دانش گاہوں میں مذہب کو سب سے بڑا مرتبہ حاصل تھا کیونکہ مذہب ہی نے پہلے پہل حصولِ علم کے راستے کھولے تھے۔ تعلیم القرآن، علم حدیث اور فقہ کو ان درس گاہوں میں امتیازی حیثیت حاصل تھی۔ یہ اسلام ہی کا کارنامہ ہے اور یہ فخر مسلمانوں ہی کے لئے مقدر ہو چکا تھا۔"
یہاں اس نکتہ کا ذکر بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ ابتدائی دور میں مسلمانوں کی زیادہ تر توجہ علومِ شریعت کی طرف رہی اور شریعت اسلامیہ کے ذریعے انہوں نے زندگی کے مختلف پہلوؤں اور فرد و معاشرہ کے مختلف حوالوں پر تحقیقی و تدوینی کام کیا۔ قدرے بعد کے ادوار میں مسلمانوں نے ان علوم پر بھی توجہ دی جنہیں آج سائنس کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ عباسی خلافت میں ہی اس کی داغ بیل تو ڈالی جا چکی تھی لیکن پہلے پہل مسلمانوں کے ہاں ترجیح بہرحال علومِ شریعت کو حاصل رہی۔ مسلمانوں نے جدید علوم پر اس وقت کام کیا جب وہ دینی سرمایہ پر غیر معمولی کام مکمل کر چکے تھے۔ مزید برآں جن لوگوں نے جدید سائنس پر ابتدائی نوعیت کا بنیادی کام کیا جس کی بدولت آج یورپ اس غیر معمولی ترقی تک پہنچا ہے، ان میں اکثریت بھی ایسے لوگوں کی تھی جو دیندار رجحانات سے ممتاز نہ تھے، بلکہ بعض سائنسدانوں پر منحرف عقائد کا الزام بھی کتبِ تاریخ میں ملتا ہے۔
بعض دانشوروں کے نزدیک جدید سائنسی علوم کے قرآن و احادیث میں موضوع نہ بنائے جانے کی وجہ دراصل یہ ہے کہ ایسے علوم کو مشاہدے اور دیگر انسانی صلاحیتوں کے سہارے حاصل کرنا ممکن ہے جبکہ اجتماعی و عمرانی علوم کا حصول انسانی صلاحیت سے بڑھ کر ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے انہیں بطورِ وحی نازل کیا۔ چنانچہ انبیاء جس علم کو لے کر آتے ہیں وہ علم لدنی ہوتا ہے، ان کا کسبی علم نہیں ہوتا ۔۔۔!!
اس کے بالمقابل اگر مغرب میں نشاۃِ علوم کی تحریک کا جائزہ لیں تو علوم کی یہ نشاۃِ ثانیہ ان کے تصورِ فلاح اور مقصد و منزل سے مطابقت رکھتی ہے۔ اس تحریک میں ادب اور طبعی سائنسز کو خصوصی اہمیت حاصل ہوئی۔ طبعی سائنسز جن کا زیادہ تعلق مشاہدہ اور تجربہ سے ہے اور دو ٹوک نتائج کی وجہ سے انہیں حقیقی سائنسز (Actual Sciences) بھی قرار دیا جاتا ہے کو جدید مغرب میں وہ قبولِ عام حاصل ہوا کہ انہوں نے ابتدائے کار اجتماعی، عمرانی اور سیاسی علوم کو حقیقی معنوں میں سائنس (علم) قرار دینے سے ہی انکار کر دیا۔ یورپ کی موجودہ ترقی بھی دراصل ٹیکنالوجی کی برتری جسے اقبال رحمہ اللہ نے 'مشینوں کی حکومت' قرار دیا ہے، میں مضمر ہے۔ جبکہ انسانی اور اجتماعی علوم ہی وہ حقیقی اور برتر علوم ہیں، بطورِ انسان جن کی ضرورت اور اہمیت زیادہ مسلم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں آج تک حکومتیں اور اختیارات کسی سائنس دان یا موجد و دریافت کنندہ اور کسی فنکار کو نہیں ملتے رہے ( ) بلکہ آج تک دنیا پر عمرانی علوم کی حکومت ہے۔ معاشرے کا اجتماع اور قوت ان سے وابستہ ہے اور قوموں کی زمامِ کار ان کے ہاتھ میں ہے۔ اسلام بنیادی طور پر انفرادئی اور اجتماعی حیثیت سے زیادہ بحث کرتا ہے اور ان کو منصفانہ بنیادوں پر قائم رکھنے کی زیادہ تلقین کرتا ہے۔ اسلام میں انہی کی بابت زیادہ ہدایات موجود ہیں۔ اس کا ثمرہ یہ ہے کہ اپنی تمام تر برتری کے باوجود اس محکومی کے دور میں بھی مسلمان معاشروں کا سکون یورپ کا ایسا حسین خواب ہے جو شرمندہ تعبیر نہیں ہو رہا۔ مسلمان اپنے رہن سہن میں ان خصوصیات سے مالامال ہیں، محبت و اپنائیت کی وہ قدریں ابھی قائم ہیں جن کا یورپ میں وجود بھی عنقا ہے۔
معروف مسلم انگریز دانشور اور نامور مترجم قرآن مارما ڈیوک پکتھال لکھتے ہیں:
"مسلمان آج بھی دنیا میں ایک عظیم الشان، فقید المثال اور وسیع ترین انسانی برادری ہیں۔ اسلامی برادری اس حسد و رقابت اور باطنی نزاع سے پاک ہے جو مغربی معاشرے کے وجود کے لئے مستقل خطرہ بنا رہتا ہے ۔۔۔ مغرب طبعی علوم میں محیر العقول کامیابیوں کے باوجود سیاسی اور معاشرتی علوم میں ایسے مسائل حل کرنے میں ناکام رہا ہے جن کا حل اسلام نے صدیوں پہلے پیش کر دیا تھا ۔۔ مسلمانوں کو یورپ سے علومِ طبعی تو ضرور سیکھنے چاہئیں لیکن سیاسات و عمرانیات میں یورپ آج بھی ان کے اُستاد ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ ان میدانوں میں اسلام نے تیرہ صدیوں قبل ہی امن و سلامتی کی وہ راہ تلاش کر لی تھی جسے پانے کے لئے عیسائیت آج تک بھٹک رہی ہے۔" (اسلامی ثقافت اور دور جدید، خطباتِ پکتھال: ص 181، 183)
ترکی شہزادہ سعد حلیم پاشا اپنی کتاب "اسلام شسمق" میں لکھتے ہیں:
"مغرب کے علومِ طبعی کی ترقی ہر چند کہ صحیح طریقے پر ہوئی ہے لیکن اس کے سماجی اور سیاسی نظام کی نشوونما اُلجھے ہوئے اور پیچیدہ طریقے سے ہوئی ہے۔ مغرب کے سیاسی اور سماجی نظام کی بنیادیں قابل مشاہدہ حقائق پر ہیں بلکہ ناقابل قبول مفروضات پر قائم ہوئی ہیں۔"
(بحوالہ اسلامی ثقافت اور دورِ جدید۔ ص: 182)
مغرب میں انسانی علوم پر بھی بہت کام ہوا ہے لیکن اس کے پس پردہ بھی انسانیت کے جوہر کی بجائے مادیت کا عنصر کارفرما ہے۔ اس طرح مغرب میں ادب اور فنونِ لطیفہ کو انسانی قدروں پر بھی برتری حاصل رہی ہے۔ اس سلسلے میں برطانیہ کے ایک مشہور مباحثہ کا حوالہ دینا مناسب ہو گا جس میں اخبارات کے ذریعے قارئین کو ایک معمہ حل کر دینے کی دعوت دی گئی۔ وہ معمہ یوں تھا:
"فرض کیجئے کہ ایک کمرے میں یونانی صناعی کا ایک نادر و بے مثال مجسمہ رکھا ہے، اس کمرے میں ایک بچہ بھی سو رہا ہے۔ اگر اس کمرے میں آگ لگ جائے اور دونوں میں سے صرف ایک کو بچانا ممکن ہو تو آپ کی رائے میں کسے بچانا چاہیے؟
اخبارات کے برطانوی قارئین جن میں اکثر صاحبِ فہم و ادراک، تعلیم یافتہ اور روشن خیال لوگ بھی موجود تھے میں سے اکثریت کا جواب یہ تھا کہ
"بچے کو بےشک جل جانے دیا جائے لیکن مجسمے کو بچا لیا جائے۔"
جناب مارما ڈیوک نے اس مباحثے کے تذکرہ کے بعد اس پر تبصرہ یوں تحریر کیا:
"اس ظالمانہ اور خود غرضانہ فیصلے کی یہ تاویل دی گئی ہے کہ بچے تو روزانہ ہزاروں پیدا ہوتے رہتے ہیں لیکن یونانی صناعی کے ایسے بے بدل اور نایاب مجسمے دنیا کو دوبارہ حاصل نہیں ہو سکتے۔ مسلمان کسی ایسے بے رحمانہ اور ظالمانہ فیصلے کے بارے میں سوچنے کا خیال بھی دل میں نہیں لا سکتا۔ اس قسم کی باتوں کو دورِ حاضر کی مذہب بت پرستی ہی کہا جا سکتا ہے۔" (ایضا: ص 27)
اس تبصرے پر ہم یہ اضافہ کریں گے کہ اسلام تو ایک انسان کی جان ( ) بلکہ عزت کی پامالی کو بھی بیت اللہ جیسی اہم ترین اسلامی عمارت اور الٰہی شعار سے زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ اسلام ہی انسانیت کے احترام، سکون و اطمینان اور حقیقی مرتبہ کا حامل واحد دین ہے۔
(4) تصورِ علم
اسلام اور مغرب میں رجحانات اور عقائد و نظریات کے فرق پر مبنی اس بحث کو سمیٹتے ہوئے ہم آخری نکتہ یہ ذکر کریں گے کہ مغرب کے جس علم و فن کی برتری کا بہت چرچا ہے اور اسلام کو اس سلسلے میں کوتاہی سے مطعون کیا جاتا ہے، علم کے باب میں بھی اسلام اور مغرب کے تصور میں بعد المشرقین پایا جاتا ہے۔
اسلام میں علم انسانی ذہن کی معراج ہے۔ کائنات میں معارفِ ربانی کی جستجو کو علم کا نام دیا گیا ہے۔ اسلام میں علم کو اس قدت تقدس حاصل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معلمی کو اپنی بعثت کا امتیاز ( ) بنا کر پیش کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور مقام پر فرمایا کہ
(إن العلماء ورثة الأنبياء إن الأنبياء لم يورثوا دينارا ولا درهما وأورثوا العلم) (ترمذی 2682) "بلاشبہ علماء ہی انبیاء کے وارث ہیں۔ انبیاء کرام درہم و دینار کی وراثت نہیں چھوڑتے، ان کی میراث تو علم ہوتا ہے۔"
اسلام سب سے پہلے اس علم کو اہمیت دیتا ہے جو اس کو اپنی ذات کی معرفت دے اور اپنے خالق کی آگاہی عطا کرے۔ اس کو دنیا میں اپنی کوتاہیوں کی پرکھ کا سلیقہ اور دوسروں سے چلنے اور برتاؤ کرنے کا ڈھنگ آ جائے۔ اپنے نفس کی معرفت، مقصدِ تخلیق کا شعور اور اپنے رب سے وابستگی پیدا ہو جائے۔ اپنے خالق کی پہچان اور اس کی معرفت حاصل ہو کر انسان اس کے حقوق کی ادائیگی کے قابل ہو جائے۔ قرآنِ کریم اہل علم کی یہ شان اور نشانی قرار دیتا ہے کہ وہ اللہ کی خشیت اختیار کرتے ہیں۔ ( ) پہلی وحی 'اقْرَأْ' جو پڑھنے کے حکم پر مبنی ہے، میں بھی اللہ نے صرف پڑھنے کا حکم دینے کی بجائے اُس رب کے نام سے پڑھنے کا حکم دیا جس نے انسان کو عدم سے وجود بخشا۔ ( ) قرآن نے عالم اور جاہل کو برابر قرار دینے پر تعجب ( ) کا اظہار کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے علم کو مسلمانوں پر فرض قرار دیا اور اس کے لئے اہل علم نے دور دراز کے سفر اختیار کئے۔
ان شاروں سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام میں علم ایک مقدس فرض ہے اور معلمی و مبلغی ایک نبوی منصب کی تکمیل ہے۔( ) اسلام کی نظر میں قرآن کے معلم و متعلم دنیا کے بہترین انسان ہیں۔( ) خود اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو انسانیت کا معلم قرار دیا ( ) اور نبی کریم کا مقصدِ بعثت تزکیہ و تعلیم قرار دیا: ﴿وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ﴾ (آلِ عمران: 164)
اس کے بالمقابل مغرب میں علم کو یہ تقدس سرے سے حاصل نہیں۔ مغرب کا علم ایک مادی وجود بنیاد رکھتا ہے جو انسانی ضرورتوں سے وابستہ ہے۔ چونکہ یہاں روحانی ضرورت سے انحراف پایا جاتا ہے، اس لئے روحانی علوم (مذہب و دین) کو سرے سے علم ہی نہیں مانا جاتا۔ ( )
مغرب میں علم انسانی فرض کی تکمیل کی بجائے مادی ضروریات کی تکمیل کے واسطے پڑھا جاتا ہے۔ جدید مغربی یونیورسٹیوں میں تحصیل علم کا عمل دراصل مستقبل کی وہ سرمایہ کاری ہے جس کی بنیاد پر آئندہ پرآسائش زندگی کی تجارت کی جاتی ہے۔ یہاں انہی علوم کی اہمیت ہے جن کی بنا پر تحصیل علم کے بعد بازار میں اچھا دام لگنے کی گنجائش ہے۔ مغربی یونیورسٹیاں اور ان کی دیکھا دیکھی مسلم ممالک کی جدید یونیورسٹیاں ایسے علوم کی فروخت کرتی ہیں جن سے اچھی ملازمتوں کا حصول ممکن ہو سکے۔ ایسی ڈگریوں کے لئے ان یونیورسٹیوں میں جم غفیر لاکھوں روپے کی فیس دینے پر آمادہ ہے۔ چنانچہ تمام پرائیویٹ کالجز بھی ایسی ہی تعلیم کا بیوپار کرتے ہیں جن ڈگریوں کی بازار میں مانگ ہے گویا پرائیویٹ کالجوں نے تو ان علوم کا ٹھیکہ لیا ہے جن کی بازار میں بولی لگتی ہے جبکہ سرکاری یونیورسٹیوں کے وہ شعبے ویران ہیں جہاں کسی جدید فن کی تعلیم نہیں ہوتی۔ اس کی دلیل ان شعبوں کی رسمی فیس اور ناگفتہ بہ انتظامات ہیں۔
اسلام میں علم دنیا کمانے کا ذریعہ نہیں بلکہ علم اور مال و دولت کو دو مختلف میدان قرار دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منسوب معروف اشعار قابل مطالعہ ہیں:
رضينا قسمة الجبار فينا
لَنا عِلْمٌ ولِلْجُهَّالِ مَالُ
فإنَّ المَالَ يَفْنَى عَنْ قَرِيْبٍ
وإنَّ العلم باقٍ لا يزالُ
"اللہ تعالیٰ کی اس تقسیم پر ہم راضی برضا ہیں کہ ہم تو علم کے حامل ہو جائیں اور جاہلوں کو اللہ تعالیٰ مال و دولت عطا کر دے۔ مال کو عنقریب فنا ہو جانا ہے جبکہ علم کو ایسی دائمی بقا حاصل ہے جس میں زوال کا امکان نہیں۔"
ان اشعار میں مال و دولت اور علم کو مدمقابل پیش کیا گیا ہے اور مال و دولت کو جاہلوں کے ساتھ خاص کیا گیا ہے۔ یہاں علم سے مراد بھی دینی علم ہی ہے گویا دینی علم ہی اسلام کی نظر میں حقیقی علم کہلانے کا اصل مستحق ہے۔
اسلامی معاشروں میں تعلیم نہ صرف مفت ہوتی ہے بلکہ اس کے لئے وظائف ( ) دئیے جاتے ہیں۔ علم و تعلم سے وابستہ افراد کا احترام ان کی مالی حیثیت سے نہیں بلکہ معاشرتی مقام و مرتبہ سے ہوتا۔ یہاں علم کو روحانیت و تقدس حاصل تھا اور علم کو مادی ضرورت کے بغیر روحانی اور انسانی بنیادوں پر پروان چڑھایا جاتا تھا۔ کیونکہ اس علم کے فروغ کی ذمہ داری نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سپرد کی تھی اور علم کی یہ صفت خالق کائنات نے اپنی ذات کے لئے پسند فرمایا تھا۔
مغربی معاشروں میں علوم کو مادی ضروریات کے سہارے سیکھا پڑھا جاتا ہے۔ یہاں پہلے ضرورت اور اس ضرورت کی مادی پیمائش ہے، جس علم کی کسی طبقہ زندگی میں ضرورت پیدا ہوتی ہے، وہاں اس کی مانگ میں اضافہ ہو جاتا ہے اور ہر شے تجارتی ضابطے "ڈیمانڈ اینڈ سپلائی" کے اُصول پر چلتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ روحانی، انسانی، اجتماعی اور اخلاقی علوم کی ضرورت روز بروز کم ہوتی جاتی ہے، دوسری طرف معلمی کو بھی ایک معاشی کارکن کا درجہ مل گیا ہے جسے اسلام میں نبوت کا تقدس حاصل تھا۔ ان محروم توجہ علوم سے بے اعتنائی کا نتیجہ یہ ہے کہ آج مغرب میں روحانی خلا ہے اور فطرت سے ا نحراف، بے اطمینانی، بے سکونی اور ذہنی بیماریاں، خود کشیاں روز افزوں ہیں۔ غرض اسلام میں علم کا فہم اور ہے اور اہل مغرب کے ہاں اور!!
گذشتہ صفحات میں جن چند نکات کی صورت میں حاصل فکر پیش کیا گیا، ان کے دلائل کا مطالعہ مزید بہت سی جہتوں کو کھولنے کا سبب بن سکتا ہے۔ طوالت کے پیش نظر ضروری دلائل کو حواشی میں درج کرنے پر اکتفا کیا گیا ہے۔ ان نکات میں فرق کا اثر اسلامی اور مغربی معاشرے میں بخوبی دکھائی دیتا ہے۔
علم کا یہ تو وہ تصور ہے جو اسلامی نظریات میں موجود ہے۔ لیکن جس طرح اسلام اور مسلمانوں کے طرزِ عمل میں بہت فرق پایا جاتا ہے۔ اسلام جن اُمور کا ہم سے تقاضا کرتا ہے، مسلمان اس سے کوسوں دور ہیں۔ عین اسی طرح علم کے اس مقدس اسلامی تصور کا وجود بھی مسلمانوں کے ہاں معدوم ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان میں علوم کے احیا کی تحریک پیدا ہو، مغرب کی موجودہ تمام تر برتری اس کی علمی برتری کی مرہونِ منت ہے جس کے مختلف مظاہر سیاسی، معاشرتی، اقتصادی، حربی، فکری اور ابلاغی تسلط و تحکم کی صورت میں نمایاں ہیں۔ مسلمانوں کی موجودہ پستی کی وجہ علم کے ان نبوی فرامین سے انحراف ہے جن کا اسلام ہم سے تقاضا کرتا ہے!!
اس ساری بحث کے تناظر میں یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام اور مغرب میں بنیادی فرق روحانیت اور مادیت کا ہے۔ ہمارے پیش کردہ نکات اسی ایک نکتہ کے ہی مختلف پہلو ہیں۔