انسانی حقوق اور قانونِ توہین رسالت!
جب سے امریکہ میں نئی قدامت پرست عیسائی حکومت (Neo-Con) برسراقتدار آئی ہے صدر امریکہ جارج ڈبلیو بش نے اپنی حکومت کو ساری دنیا کے حقوق انسانی کا علم بردار اور نگران (Watch Dog) ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ سب سے پہلے ہم اس امر کا جائزہ لیں گے کہ حقوقِ انسانی کا سب سے بڑا علمبردار کون ہے؟
سال 1948ء میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے عالمی حقوق انسانی کا اعلان کیا جن کے چند متعلقہ آرٹیکل یہ ہیں کہ "ہر انسان آزاد پیدا ہوا ہے، ہر شخص کو آزادی اور تحفظِ جان و مال کا حق حاصل ہو گا، ہر انسان کو بلا امتیازِ رنگ و نسل اور قوم یکساں حقوق حاصل ہوں گے۔ کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہو گا کہ وہ کسی انسان کے ساتھ ظالمانہ اور غیر انسانی سلوک کرے۔"
تاریخ کی کسی جرح سے نہ ٹوٹنے والی یہ شہادت موجود ہے کہ دنیا میں سب سے پہلے آج سے چودہ سو سال قبل پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمانِ الٰہی کی تعمیل میں انسان کو انسان کی اور ہر طرح کی غلامی سے آزاد کر دیا۔ اسے تحفظِ جان و مال کی ضمانت عطا کی اور اس دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے اپنے الوداعی خطاب میں آزادی اور حقوقِ انسانی کا وہ ہمہ گیر چارٹر کرہ ارض پر بسنے والے تمام انسانوں کو عطا فرمایا جس کے سامنے انگلستان کا میگنا کارٹا، فرانس کا معاہدہ عمرانی، امریکہ کا بل آف رائٹس (Bill of Rights) اور یو این او کا موجودہ عالمی حقوقِ انسانی کا منشور سب نقشِ نا تمام نظر آتے ہیں جس کا دیگر مذاہب، عالم کے اکابرین نے برملا اعتراف کیا ہے۔ اس تاریخی حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ مشرق ہو یا یورپ، جب کبھی اور جہاں کہیں بھی مسلمانوں نے حکمرانی کی ہے، اسلام کے اس ہمہ گیر حقوق انسانی کے چارٹر کی مکمل پاسداری نہ صرف سٹیٹ پالیسی کے طور پر، بلکہ اسے اپنے دین و ایمان کا بنیادی عقیدہ سمجھتے ہوئے کی ہے۔
اسلام کے عالمی منشور کی بات تو بہت اونچی ہے۔ یورپ اور خاص طور پر امریکہ کے ان نام نہاد علم برداروں نے حقوقِ انسانی کو جس طرح پامال کیا ہے، اس کی مثال بھی تاریخ کے کسی دور میں چنگیز خان کی ہلاکت آفرینوں اور اسپین کی رسوائے زمانہ کلیسائی عدالتوں کی مسلمانوں اور یہودیوں کے ساتھ خون آشام کاروائیوں کے علاوہ اور کہیں نظر نہیں آتی۔ امریکہ نے گوانتاموبے کے بےگناہ زندانیوں کو جس طرح قیدوبند کی بھیانک صعوبتیں دی ہیں اور انہیں کسی عدالت کے سامنے اپنی شکایتیں تک پہنچانے کا حق بھی دینے سے انکار کر دیا۔ اس طرح اس نے انسانی حقوق و انصاف کے پرخچے اُڑا دئیے ہیں۔ یہ سلسلہ دراز یہیں تک ختم نہیں ہوا، عراق کے جیتے جاگتے شہروں کو بےلگام نیو کلئیر طاقت کے زور پر کھنڈروں کے قبرستان میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ وہاں کے ابو غریب جیل میں بچے، بوڑھے، جوان اور دوشیزاؤں کے ساتھ جس طرح بہیمانہ، شرم ناک اور لرزہ خیز جرائم کا ارتکاب کیا ہے اور ان پر خونخوار درندوں کو چھوڑ دیا جاتا رہا ہے، اس پر انسانیت ہمیشہ ماتم کناں رہے گی!!
'نیو کون' امریکہ کو اس کی پرواہ نہیں کہ وہ حقوقِ انسانی کی عالمی عدالت کا اشتہاری ملزم ہے۔ سب سے زیادہ ڈھٹائی کی اور حیران کن بات یہ ہے کہ حقوقِ انسان کی اس کھلی توہین کے باوجود اسی امریکہ کے جمہوریت نواز ہیومن رائٹس بیورو نے بین الاقوامی مذہبی آزادی کے نام سے سالِ گذشتہ کے آخر میں ایک رپورٹ شائع کی ہے جو سال 2004ء میں منظر عام پر آئی ہے۔ اس رپورٹ میں مسلمان ملکوں کی اچھی طرح خبر لی گئی ہے اور خاص طور پر پاکستان میں مذہب کی بنیاد پر حقوقِ انسانی کی خلاف ورزیوں پر انتہائی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ ان میں نمایاں طور پر قانونِ توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم، حدود آرڈیننس اور خواتین کے خلاف قوانین کو ہدفِ تنقید بنایا گیا ہے۔ غالب نے غالبا اسی موقع کے لئے کہا تھا: "خامہ انگشت بدنداں ہے، اسے کیا لکھئے؟" اس رپورٹ میں یہ نہیں بتلایا گیا کہ اقلیت اور خواتین کے وہ کون سے حقوق ہیں جو ان قوانین کی وجہ سے پامال ہو رہے ہیں۔ پاکستان کی کس اقلیت کو قانونِ توہین رسالت یا حدود آرڈیننس کے ذریعہ اس کے مذہب میں دخل اندازی کی گئی ہے۔
٭ بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ رپورٹ کے فاضل مصنفین کو خود اپنے ملک یا برطانیہ اور یورپ کے دیگر ملکوں کے قانونِ توہین مذہب اور وہاں کی اعلیٰ ترین عدالتوں کے فیصلوں کا علم نہیں۔ امریکہ جو ایک سیکولر ریاست ہے وہاں 'بلاس فیمی لاء' (Blasphemy Law) یعنی توہین مسیح علیہ السلام کا قانون موجود ہے۔ وہاں کی سپریم کورٹ نے واضح طور پر مشہور موکس کیس (Mockus Case) کے بارے میں یہ فیصلہ دیا ہے کہ امریکہ کے صدر مملکت، اس کی کانگریس کے اراکین، عدلیہ اور انتظامیہ سب بائبل مقدس پر اپنے عہدوں کا حلف لیتے ہیں۔ وہاں کی ریاستوں کی آبادی اسلام یا بدھ مت کی مذہبی اقلیت کی نہیں بلکہ عیسائی مذہب کی پیروکار ہے۔ مسیحیت کی وجہ سے ریاست کی اجتماعی قوت برقرار ہے، ان حالات میں کسی کو خدائے مسیحیت (اصل الفاظ: (God of Christcan religion ie Jesuschrist جناب مسیح علیہ السلام کی شان میں گستاخی کی اجازت نہیں دی جا سکتی کیونکہ اس کی وجہ سے مملکت کی بنیادوں میں رخنہ اندازی ہو سکتی ہے، اس لئے بلاس فیمی لاء کسی صورت میں بنیادی حقوقِ انسانی کے ہرگز خلاف نہیں۔
٭ برطانیہ میں قانونِ توہین مسیح علیہ السلام وہاں کا کامن لاء (Common Law) ہے جس کے لئے پہلے سزائے موت تھی اور اس جرم پر عربوں کو آگ میں زندہ جلا دیا جاتا تھا۔ لیکن چونکہ اب وہاں سزائے موت کا قانون موقوف ہے، اس لئے بلاس فیمی کے سنگین جرم کی انتہائی سزا سزائے عمر قید کر دی گئی ہے۔ انگلستان میں راقم الحروف کے قیام کے دوران (1986ء) لندن کے ایک میگزین 'گے نیوز' کے ایڈیٹر کو توہین مسیح علیہ السلام کے جرم میں سزا دی گئی تھی۔ ایڈیٹر نے اپنی صفائی میں یہ دلیل دی تھی کہ اس کی نیت کبھی بھی توہین مسیح علیہ السلام کی نہیں تھی اور نہ ہو سکتی تھی بلکہ اس میگزین میں شائع شدہ نظم صرف تفریحِ طبع کے لئے لکھی گئی تھی۔ عدالت کے فیصلہ میں کہا گیا کہ بلاس فیمی میں نیت و ارادے کو نہیں دیکھا جائے گا بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ کیا ان الفاظ سے توہین مسیح علیہ السلام کے جرم کا اظہار ہوا ہے؟ جیوری کی رائے کہ ان الفاظ سے توہین مسیح ظاہر ہوئی ہے، اس لئے اسے یہ سزا دی گئی ہے، اس فیصلہ کے خلاف اپیل دائر کی گئی جو خارج کر دی گئی۔ پھر اس کے خلاف انگلستان کی سب سے بڑی عدالت کوئینز بنچ (Quens Bench) میں یہ مقدمہ گیا جہاں بھی سال 1990ء میں ابتدائی عدالت کا فیصلہ برقرار رہا۔
٭ برطانیہ میں دیگر مقدمات کے فیصلوں کے ایک اور مقدمہ میں یہ بھی فیصلہ دیا گیا ہے کہ توہین مسیح علیہ السلام کے علاوہ کسی اور مذہب (مثلا اسلام) کے رہنما اور پیغمبر کی گستاخی کو 'بلاس فیمی' تصور نہیں کیا جائے گا۔ امریکہ اور برطانیہ کی ریاستوں میں مسلمان اور دیگر مذاہب کے پیروکار وہاں کے شہری ہیں لیکن بلاس فیمی کی موجودگی سے وہاں کی اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔ پھر کیا صرف اسلامی مملکت پاکستان جہاں کا سپریم لاء قرآن اور سنت ہے، اس کے لئے ہی یہ امر لازم قرار دیا گیا ہے کہ وہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی پر کوئی سزا نہ دی جا سکے، جبکہ پاکستان کے اس قانون میں نہ صرف نبی کریم کی توہین بلکہ دیگر انبیاء کرام کی توہین پر بھی سنگین سزا قرار دی گئی ہے۔
راقم الحروف کے مقدمہ "محمد اسمٰعیل قریشی بنام حکومتِ پاکستان" کی سماعت کے دوران تمام مکاتبِ فکر کے علما کے متفقہ بیان کے بعد بلاس فیمی لاء قرآن و سنت اور اجماعِ اُمت کے عین مطابق ہے۔ یہ فیصلہ فیڈرل شریعت کورٹ پاکستان نے سال 1990ء میں صادر کیا ہے۔ اس کی اپیل بھی سپریم کورٹ سے خارج کر دی گئی ہے۔ اور یہ قانون اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پارلیمنٹ نے بھی منظور کیا ہوا ہے۔ اس کے بعد امریکہ کے کسی ڈیپارٹمنٹ کو یہ اجازت کیسے دی جا سکتی ہے کہ وہ یہاں پر لوگ قانونِ توہین رسالت اور اس کے بارے ملک کی اعلیٰ ترین عدالتوں کے فیصلہ پر نکتہ چینی کرے اور انہیں ہیومن رائٹس کے خلاف قرار دے۔ جبکہ بلاس فیمی لاء خود امریکہ کے اندر نیز برطانیہ اور یورپ کے دوسرے ملکوں میں موجود ہے۔ ایسی رپورٹ کی وجہ سے یہاں کی نوے فیصد اکثریت کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ پاکستان کے عوام امریکہ کے شہریوں کے جذباتِ حریت اور احترامِ انسانیت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، لیکن ان شہریوں کو امریکہ کے مسلمانوں پر صریح ظلم کا بھی نوٹس لینا چاہیے۔ اسی طرح موجودہ برسر اقتدار حکومت کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ ایسی کاروائیوں سے اپنے خلاف نفرت کو انگیز کرے۔ (اس موضوع پر محدث کے درج ذیل مضامین کا مطالعہ مفید ہو گا۔ ادارہ)