مغرب کا سائنسی و نفسیاتی زاویہ فکر: تدریج و ارتقا
جوں جوں انسان مادی ترقی کے مدارج و منازل طے کر رہا ہے، اسی رفتار سے اس کی ذہنی و نفسیاتی کشمکش اور اس کا روحانی اضطراب بھی مسلسل بڑھ رہا ہے، اور اس میں مزید اضافے کا رجحان ہے۔ نفسیاتی امراض کے حوالے سے ہونے والے سروے، مختلف تحقیقی رپورٹیں اور مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والے نتائج متواتر اس امر کی جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ مادیت کی دوڑ میں جو جس قدر آگے ہے (الا ماشاءاللہ) وہ اسی قدر روحانی و نفسیاتی اعتبار سے بے اطمینانی و بے سکونی، روحانی صدمے، بے چارگی، اور اتنی ہی زیادہ تنہائی کی کیفیات سے دوچار ہے، حالانکہ اس بھری پُری کائنات میں کسی انسان کا تنہا ہونا ویسے ہی کسی لطیفے سے کم نہیں، اسی لئے راقم نے صرف تنہائی نہیں 'کیفیتِ تنہائی' کا ذکر کیا ہے، جسے 'احساسِ تنہائی' کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔
اگر غور کیا جائے تو یہ کیفیات اور انسان کو لاحق ہونے والے یہ جدید مسائل سائنسی ترقی کی مکمل نفی کرتے نظر آتے ہیں۔ اور اگر نرم الفاظ استعمال کیے جائیں، تب بھی ان حالات کو سائنسی ترقی کے لئے سب سے بڑا چیلنج قرار دینے میں تو شاید کسی کو اختلاف نہ ہو گا، وہ سائنسی ترقی جس کا مقصد ہی انسان کو اس مادی دنیا میں تمام سہولتوں اور آسائشوں سے مالا مال کرنا اور اسے ہمہ جہت پر آسائش زیست سے روشناس کرنا تھا۔ (1)
اہل بصیرت اور اصحابِ علم و فضل کے نزدیک اس نفسیاتی الجھن اور ذہنی کشمکش کا بنیادی سبب اللہ تعالیٰ سے، اپنے خالق و مالک اور معبودِ حقیقی سے علمی و عملی طور پر مکمل و مستقل جدائی و انحراف کے بعد یہ ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی نے انسان سے اس کا مقصدِ حیات چھین کر اس مشینی زندگی میں خود اسے بھی ایک مشین کا درجہ دے دیا ہے، بلکہ مشین کے بھی ایک پرزے کا، فقط ایسا پرزہ جو اگر حسبِ توقع کام نہ کرے تو اسے تبدیل کر دیا جائے۔ ( ) اس المیے کا احساس خود اہل مغرب کو بھی ہے، ایک معروف مغربی مفکر برٹرینڈ رسل (Bertrand Russel) نے تو یہ تک کہہ ڈالنے میں کوئی عار محسوس نہیں کی کہ
"اس کرہ ارض پر انسانیت کا شاید یہ آخری دور ہے، اور سائنس ہی اسے معدوم کرنے پر تلی ہوئی ہے۔" وہ تو یہ تک کہتا ہے کہ
"وہ مشین جس کی اس حد تک توقیر کی جا رہی ہے وہ عصر جدید کا شیطان ہے۔" (2)
حالانکہ یہی رسل اس سے قبل خود اس زندگی کو بے مقصد اور اندھی طاقتوں کا تماشا تسلیم کر چکے ہیں۔ ایک اور مفکر اور انگلینڈ کا معروف فاضل الڈوس ہکسلے (Aldous Huxley) کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر صاف صاف کہتا ہے:
"اس سائنس نے جو تمام اخلاقی قیود و اقدار سے ہر طرح آزاد ہے، انسان سے اس کی آزادی اور اس دنیا سے امن، دونوں چیزیں چھین لی ہیں۔" (3)
یہ آرا اس امر کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ سائنس کا تفوق اپنے اثبات کے بعد اب اپنی بقا کے لئے سرگرداں ہے، اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اسے خطرہ کسی اور سے نہیں، انسانی زندگی پر اس کے اپنے بڑھتے ہوئے اثرات سے ہے ۔۔!!
یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ خود اہل مغرب نے اس پر غور کیا ہے اور نہ صرف غور کیا ہے بلکہ سائنسی ترقی کے شانہ بہ شانہ پروان چڑھنے والے نفسیاتی و فکری انتشار کو سمجھنے کی اور اس کا حل پیش کرنے کی کوشش کی ہے، مگر وہ اس میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہو سکے، ہاں جزوی کامیابی ضرور ہوئی ہے جس کی مثال خود رسل ہے۔ اس نے دائمی مسرت کے حصول (4) (Conquest of Happiness) کے سلسلے میں بہت سے عنوانات کے تحت بحث کی ہے اور اس میں شک نہیں کہ بہت سی نفسیاتی و ذہنی الجھنوں اور عوارضات کا صحیح تجزیہ کیا ہے، لیکن چونکہ وہ اور دوسرے تمام غیر مسلم مفکرین انسان اور اس کے مقصدِ حیات کے بارے میں مخصوص زاویہ نظر رکھتے ہیں جو اسلامی تعلیمات سے ہٹا ہوا اور بعض مرحلوں میں اس سے یکسر مختلف و متضاد ہوتا ہے، اس لئے ان کی ساری تگ و دو یک رخی ہو جاتی ہے، اور ان کے لئے صحیح توجہ اور صحیح علاج تجویز کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
ان سطور میں مغرب کی انہی چند نفسیاتی کش مکشوں اور سائنسی زاویہ فکر کے مختلف ارتقائی مراحل کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں چند نکات پیش کئے جائیں گے۔
سائنس اور مذہب کا تصادم: مغرب کی ایک نفسیاتی کشمکش
مذہب ایک انسانی ضرورت ہے۔ انسان نفسیاتی طور پر ایک ایسے سہارے کا متلاشی رہتا ہے جو اسے مشکلات میں سہارا دے سکے اور جسے انسان اپنی عقیدتوں کا محور قرار دے سکے، 'اسلام' اس فطری ضرورت اور نفسیاتی احتیاج کو فطری طریقے سے ہی پورا کرتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس اقوامِ مغرب خصوصا جدید سائنسی تمدن کی حامل اقوام جن کا غالب مذہب رسمی طور پر 'عیسائیت' ہے، مذہب کی اس ضرورت کو عقلی اور عملی طور پر تسلیم کرنے سے انکاری رہے ہیں۔
ان کا خیال خواہ عقل و دانش کی نظر میں کتنا ہی غیر منطقی کیوں نہ ہو، ان کی اس فکری لغزش کی بنیاد ضرور موجود ہے، وہ بنیاد کلیسا اور اہل سائنس کا فکری تصادم ہے جس کی وجہ یہ تھی کہ بائبل کی محرف روایات جدید سائنسی تقاضوں، روایات اور انکشافات سے براہِ راست ٹکراتی تھیں، ( ) اور کلیسا نے اس سے اپنے وجود کے لئے خطرہ محسوس کیا، اس لئے جب تک وہ طاقت ور رہا، اس نے سائنس کو رد کرنے اور سائنسی فکر کے حامل افراد کو کچلنے میں اپنی ساری قوت صرف کر دی، نتیجتا جب سائنس کے علما اور آزاد خیال اسکالر طاقت ور ہوئے تو انہوں نے کلیسا کو زیر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
سائنس اور مذہب کے تصادم کی اصل بنیاد اور اصل سبب صرف اسی قدر تھا، اگر سائنس سے وابستہ مفکرین اس حقیقت کو اس کے صحیح تناظر میں دیکھتے تو ان کا تصادم دیگر مذاہب خصوصا اسلام سے ہو ہی نہیں سکتا تھا، مگر ان کو پڑنے والی مار اس قدر شدید تھی کہ وہ مذہب سے اس قدر متنفر ہوئے کہ انہوں نے درست سمت میں سوچنا ہی چھوڑ دیا، بلکہ یوں کہنا نامناسب نہ ہو گا کہ روشن خیالی کو بنیاد بنا کر کلیسا سے ٹکر لینے والے سائنسئ مفکرین بعد میں اس انتہا پسندی تک چلے گئے کہ روشن خیالی کی ساری حدود انہوں نے اپنے لئے ممنوع قرار دے دیں اور اپنے حصار میں محدود ہو گئے، گو کہ یہ ان حالات کا ردِ عمل تھا، جو ان کے ساتھ ماضی میں پیش آ چکے تھے، مگر انہیں اپنے اس انتہا پسند ردِ عمل میں، جس میں انہوں نے سرے سے مذہب ہی کو خود اپنے الفاظ میں دیس نکالا دے دیا، اس لئے حق بجانب قرار نہیں دیا جا سکتا کہ ان کے سامنے اسلام کی تعلیمات واضح صورت میں موجود تھیں، ضرورت صرف اس قدر تھی کہ انہیں پڑھتے، ان میں غور فکر کرتے، پھر کوئی نتیجہ اخذ کرتے، جس پر ان کے ردِ عمل کا انحصار ہوتا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہر آنے والا دن اور مشرق کے افق پر طلوع ہو رہا ہے، اور یوں قرآن کی یہ پیش گوئی پوری ہو رہی ہے:
﴿سَنُريهِم ءايـٰتِنا فِى الءافاقِ وَفى أَنفُسِهِم حَتّىٰ يَتَبَيَّنَ لَهُم أَنَّهُ الحَقُّ ...﴿
٥٣﴾... سورة فصلت
"عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں اور خود ان کے اندر، حتیٰ کہ ان پر ظاہر ہو جائے کہ وہ حق ہے۔"
اس لئے سائنس کی ایجادات، اور جدید سائنسی انکشافات و اکتشافات اسلام کے خلاف نہیں بلکہ اس کے حق میں ہیں، اور غور کیا جائے تو اس کے اثبات و تبلیغ کے لئے ممد و معاون ہیں۔ مذہب کے بارے میں مغرب کا نظریہ اب اس حد تک باغیانہ ہو چکا ہے کہ جولین ہکسلے یہ کہتے ہوئے بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتا کہ
"خدا کا تصور اپنی افادیت کے آخری مقام پر پہنچ چکا ہے، وہ مزید ترقی نہیں کر سکتا۔ مافوق الفطرت طاقتیں دراصل مذہب کا بوجھ اٹھانے کے لئے انسانی ذہن نے اختراع کی تھیں، پہلے جادو پیدا ہوا، پھر روحانی تصرفات نے اس کی جگہ لی، پھر دیوتاؤں کا عقیدہ اُبھرا اور اس کے بعد ایک خدا کا تصور آیا، اس طرح ارتقائی مراحل سے گزر کر مذہب اپنی آخری حد تک پہنچ کر ختم ہو چکا ہے۔ کسی وقت یہ خدا ہماری تہذیب کے ضروری مفروضے اور مفید تکیلات تھے، مگر اب جدید ترقی یافتہ عہد میں وہ اپنی ضرورت اور افادیت کھو چکے ہیں۔" (6)
حالانکہ جس مرحلے کو یہ ترقی یافتہ کہہ رہا ہے، شاید وہ خود نہیں جانتا کہ اس کے ارتقائی سفر کا یہ بھی محض ایک مرحلہ ہی ہے، اور بالآخر اُس سمیت ساری کائنات کو ایک آخری نکتے پر آنا ہے، جو فطرت کا تقاضا اور انسان کے اندر کا مطالبہ ہے، اور جہاں پہنچ کر انسانیت کے مذہبی تصورات کے بارے میں اس کے تراشے ہوئے یہ دیو مالائی تصورات خود بخود پاش پاش ہو جائیں گے۔
عضویات کا ایک پروفیسر اس معاملے میں ہکسلے سے بھی ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے یہ کہتا ہے، حالانکہ یہ کہنے کے لئے اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے کہ
Science Has Shown religion to be history's Cruelest and wickedest Hoax (7)
"سائنس نے ثابت کر دیا کہ مذہب تاریخ کا سب سے زیادہ درد ناک اور سب سے بدترین ڈھونگ تھا۔"
اس نکتہ نظر کے مخالف اسلام کا نقطہ نظر ہے جو یہ کہتا ہے کہ خالق کائنات نے جب انسان کو وجود بخشا اور اسے کائنات میں بھیجا تو جہاں اس کی مادی ضرورتوں کا خیال رکھا، وہیں اس کی روحانی ضرورتوں اور ہدایت کے لئے بھی پورا نظام وضع کیا۔ یہ نظام رسالت و نبوت کہلاتا ہے، اس کا آغاز حضرت آدم علیہ السلام سے ہوا، اور اس کا اختتام ختمی مرتبت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوا۔ اس دوران جب بھی خدا کی مخلوق میں گمراہی پھیلی اور وہ راہِ فطرت چھوڑ کر باطل راستوں پر گامزن ہوئی تو ان کی ہدایت و راہنمائی کے لئے پیغمبر مبعوث کئے، ان تمام انبیا کی تعلیمات یکساں تھیں، اور جزوی و فروعی فرق کو چھوڑ کر جو وقت اور حالات اور اقوام کے اعتبار سے تھا اور معمولی تھا، ان کی تعلیمات کی اساسیات میں کوئی فرق نہ تھا۔ بعد میں ان آسمانی مذاہب کے ماننے والوں نے ان میں تغیر و تحریف سے کام لے کر ان کا حلیہ تبدیل کر دیا۔ 'اسلام' البتہ خود اللہ تعالیٰ کے اس اعلان کے سبب کہ
﴿إِنّا نَحنُ نَزَّلنَا الذِّكرَ وَإِنّا لَهُ لَحـٰفِظونَ ﴿
٩﴾... سورة الحجر
"ہم نے ہی یہ ذکر (قرآنِ کریم) نازل کیا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔"
محفوظ رہا اور تا قیامِ قیامت اس نے محفوظ رہنا ہے کہ یہی آخری، ابدی اور فطری دین ہے، اور اس کے سوا، اس سے ہٹ کر، اس کے علاوہ کہیں اور کوئی راہِ نجات نہ موجود ہے نہ ممکن ہے۔ لیکن مذہب کے بارے میں مغرب کا رویہ اب لچک کھاتا دکھائی دے رہا ہے، ایک مغربی مفکر شمٹ کہتا ہے:
"اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ انسان کے ابتدائی تصور کی اعلیٰ ترین ہستی فی الحقیقت توحیدی اعتقاد کا خداے واحد تھا، اور انسان کا دینی عقیدہ جو اس سے ظہور پذیر ہوا وہ پوری طرح ایک توحیدی دین تھا۔" (9)
لیکن ان بھی غالب اکثریت کا یہی رجحان ہے کہ وہ مذہب کو اور موجودہ حالات میں اسلام کو اپنا حریف سمجھے ہوئے ہیں، حالانکہ ان کو ان حالات میں اگر کوئی چیز تحفظ دے سکتی ہے تو وہ فقط اسلام ہے، یہ حقیقت ان کی فہم کو جس قدر جلد قائل کر لے اسی قدر ان کا فائدہ ہے، کیوں کہ مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ کے بقول:
"فلسفہ شک کا دروازہ کھول دے گا، اور پھر اسے بند نہیں کر سکے گا۔ سائنس ثبوت دے گا مگر عقیدہ نہیں دے سکے گا لیکن مذہب ہمیں عقیدہ دیتا ہے، اگرچہ ثبوت نہیں دیتا۔ اور یہاں زندگی بسر کرنے کے لئے صرف ثابت شدہ حقیقتوں کی ہی ضرورت نہیں ہے بلکہ عقیدے کی بھی ضرورت ہے۔ ہم صرف انہی باتوں پر قناعت نہیں کر سکتے جنہیں ثابت کر سکتے ہیں اور اس لئے مان لیتے ہیں۔ ہمیں کچھ باتیں ایسی بھی چاہئیں جنہیں ثابت نہیں کر سکتے، لیکن مان لینا پڑتا ہے۔" (10)
اخلاقیات: مادیت کی لپیٹ میں
جدید سائنس کے آغاز سے ہی انسانی و سائنسی نفسیات مادیت کے دھندلکوں کا شکار ہونا شروع ہو گئی تھی، ان اثراتِ بد نے انسانی نفسیات کو اُلٹ کر دکھ دیا، اور انسان کے روحانی وجود کو مفلوج کر ڈالا، اس کا ثمرہ یوں سامنے آیا کہ وہ انسان جو آفاقی سوچ، بلند اخلاقی قدروں، ربانی قوتوں اور ارفع انسانی صفات کا حامل تھا، محض ایک مشینی پرزہ بن کر رہ گیا۔ اس کی تمام امتیازی صفات رفتہ رفتہ اس سے رخصت ہو گئیں، اور ان کی غیر موجودگی میں پیدا ہونے والا خلا نری حیوانی صفات اور خالص غیر انسانی اخلاقیات کو پر کرنا پڑا، جب انسان کا اپنے مرکز و محور سے ناتا ٹوٹا تو اس کی نفسیات نے تمام حدود پامال کر ڈالیں، اور وہ کچھ ہو گیا جس کا دو صدی قبل تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا، اور پھر لطف کی بات یہ ہے کہ یہ تمام تر جاہلانہ رویے 'علم' کے نام پر اور سارے غیر اصلاحی اقدام ترقی پسندی کے عنوان سے روا رکھے گئے، یہ وہی بات تھی جسے شاعر نے اپنے انداز میں یوں بیان کیا۔
خرد کا نام جنون رکھ دیا، جنوں کا نام خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے!
اس ساری تگ و دو کا نتیجہ یہ ہوا کہ انسان کا وقار خاک میں مل گیا، اور اس کا امتیاز تباہ ہو کر رہ گیا، اور انسانی حقوق کاغذوں میں تو بڑے نمایاں ہو گئے، مگر درحقیقت ذبح کر کے رکھ دئیے گئے، اور بقول شخصے:
"مادہ پرستانہ فکر نے سائنس اور منطق کا جامہ پہن کر نفسیات کو آمریت، سرمایہ دارانہ نظام اور آمرانہ جمہوریت کے لئے ایک آلہ کار بنا دیا۔" (11)
مغرب کا فلسفہ اخلاق جن بنیادوں پر استوار ہے، اس کو ان دو عنوانات کے تحت تقسیم کیا جا سکتا ہے: (1) لذتیت (2) افادیت
پھر افادیت کے تحت وہ تمام اقسامِ مادیت آ جاتی ہیں جن میں انسان کو اس جہاں کے اعتبار سے کوئی فائدہ محسوس ہوتا ہے، درحقیقت لذتیت بھی افادیت ہی کی ایک قسم قرار دی جا سکتی ہے۔ ان ہی نفسیاتی لغزشوں کا ثمرہ ہے کہ آج یورپ کے ہاں فطرت سے مراد بھی فطرتِ حیوانی ہے، فطرتِ انسانی نہیں۔ وہ جن چیزوں کو فطرت قرار دے رہے ہیں، ان سے فطرتِ سلیمہ اِبا کرتی ہے اور مغرب کی مزعومہ 'فطرت' ہر قسم کے لطیف احساسات، منصفانہ خیالات، پاکیزہ جذبات، اخلاقی ضمیر، قلبِ سلیم، ذوقِ لطیف اور عقل سلیم، ان سب سے آزاد اور بے نیاز ہوتی ہے۔ وہ صرف حقوق کی خواہاں ہے، فرائض سے اسے کوئی سروکار نہیں، اسے پابندیوں اور حدود و قیود سے سخت متنفر ہے، کیوں کہ یہ بھی فرائض کی یاد دلاتے ہیں۔ یہ نفسیات جو بدیہی طور پر جدید اصطلاح میں سائنٹزم کی پیداوار ہے، ہمہ جہت اخلاقی انقلاب کا سبب بنی، لیکن مکمل طور پر ایک سلبی و منفی انقلاب جس سے انسانیت کو حاصل کچھ نہیں ہوا جبکہ کھونا بہت کچھ پڑا۔ مستقبل کا مؤرخ جب حتمی نتائج اخذ کرے گا تو اسے نفع کے خانے کو مکمل طور پر خالی رکھنا پڑے گا۔
مغرب کی اس نفسیاتی لغزش کے بارے میں ایک مغربی نو مسلم جناب محمد اسد کا تبصرہ پرمغز مدلل اور گہرا ہے۔ قدرے طویل اقتباس ملاحظہ فرمائیے، وہ کہتے ہیں:
"(یورپ میں) انسانوں کی ایک ایسی قطع پیدا ہو گئی ہے، جس کی اخلاقیات عملی افادیت کے سوال کے اندر محصور ہے۔ اور جس کے نزدیک خیر و شر کا بلند ترین معیار مادی کامیابی ہے، مغرب کی معاشرتی زندگی موجودہ زمانے میں جس گہری تبدیلی سے گزر رہی ہے، اس میں نئی اخلاقی افادیت روز بروز زیادہ سے زیادہ نمایاں ہوتی جا رہی ہے، وہ تمام محاسن سوسائٹی کے مادی مفاد پر براہِ راست اثر انداز ہوتے ہیں، مثلا صنعتی قابلیت، وطن پرستی، قوم پرستانہ احساسِ جماعت، ان کی عظمت بڑھتی جا رہی ہے، اور ان کی قیمت میں بعض اوقات غیر معقول طریقے پر مبالغہ کیا جاتا ہے۔ اس کے مقابل میں وہ محاسن جن کی ابھی تک محض اخلاقی حیثیت سے قیمت تھی، مثلا محبتِ پدری یا ازدواجی وفاداری وہ بڑی سرعت کے ساتھ اپنی اہمیت کھو رہے ہیں، اس لئے کہ وہ سوسائٹی کو کوئی نمایاں مادی فائدہ نہیں پہنچاتے۔
اس زمانے کی جگہ جس میں خاندانی روابط کا استحکام ہی خاندان اور قبیلے کی خیر و فلاح کے لئے ضروری تصور کیا جاتا تھا، مغربِ جدید میں اس زمانے نے لے لی ہے جو وسیع تر عنوانات کے تحت اجتماعی تنظیم کرتا ہے۔ ایک ایسی سوسائٹی میں جو بنیادی طور پر صنعتی ہے اور جس کی تنظیم بڑی تیز رفتاری کے ساتھ خالص میکانکی خطوط پر کی جا رہی ہے، ایک فرد کا برتاؤ اپنے والد کے ساتھ کوئی معاشرتی اہمیت نہیں رکھتا، جب تک کہ یہ افراد اس عام معیارِ شرافت کے حدود کے اندر ایک دوسرے سے برتاؤ کرتے ہیں جو سوسائٹی نے افراد کے باہمی برتاؤ کے لئے مقرر کر دیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ یورپین باپ کا اقتدار اپنے بیٹے پر برابر کم ہوتا جا رہا ہے، اور بیٹے کے دل میں اپنے باپ کی طرف سے عزت و احترام کا جذبہ روبہ انزال ہے۔ ان دونوں کے باہمی تعلقات تیزی کے ساتھ قابو سے باہر ہوتے جاتے ہیں، اور عملا ایک ایسی مشینی سوسائٹی کے ذریعے ان تعلقات کا خون ہو رہا ہے، جس میں افراد کے باہمی حقوق کے منسوخ کر دینے کا رجحان پایا جاتا ہے اور جس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ خاندانی رشتہ داری کے پیدا کئے ہوئے حقوق بھی ختم ہوتے جاتے ہیں۔" (12)
اس موضوع پر گفتگو کا اختتام ایک اور مسلم مفکر کے خیالات پر کرتے ہیں، جن کی لمحہ بہ لمحہ 'تبدیل ہوتی ہوئی مغربی نفسیات اور مغرب کے افکار و اقدار' پر گہری نظر ہے۔ پروفیسر معزز علی بیگ اس تمام صورت حال پر یوں تبصرہ کرتے ہیں:
"سائنس اور منطق کا یہ جامہ دراصل بھیڑ کی وہ کھال ہے، جس میں وہ بھیڑیا خود کو چھپائے ہوئے ہے جو اس انسان دشمن اور خدا بیزار تہذیب کا پروردہ ہے جس کی بربریت نے اسیریا اور روم سے اپنا لوہا منوا منوا لیا ہے۔ یہ انسان دشمن بازاری تہذیب اس 'عدوِ مبین' کی وہ سازش ہے جو انسانیت کو نذرِ آتش کرنے جا رہی ہے، چنانچہ اس نے اسی سازش کے تحت نفسیاتی اور عمرانی علوم کو اپنا آلہ کار بنا لیا۔ لیکن قرنِ ماضی کے دوسرے نصف حصے میں ایک فکری انقلاب نے ہمیں یہ بتا دیا کہ یہ سائنس ایک جعلی اور مصنوعی سائنس یا سائنٹزم (Scientism) ہے، اور یہ منطق یا اس کی منطق حقیقت کی نفی ہے، یہ ایک دوئی (Dualism) سے ٹوٹے ہوئے تصورِ حقیقت (Outology)، ایک تضاد سے بکھرے ہوئے نظریہ علم (Epistemdagy)، اور بازاریت کی متعفن چادر میں لپٹے ہوئے نظامِ اقدار کی پیداوار ہے۔ اس فکری انقلاب نے جو راستہ کھولا ہے، اس نے نفسیات کو انسانیت کی تعمیر نو کے لئے تیار کر دیا ہے، جو موجودہ صدی میں ہمارئ سامنے کچھ نتائج لائے گا۔" (13)
سائنسی ترقی، مگر اخلاقی تنزل
ایک جانب جہاں بجا طور پر سائنسی ترقی کا غلغلہ اور اس کی دھوم بپا ہے، دوسری جانب اس کے بالکل متضاد صورت سامنے آتی ہے، اور درحقیقت وہ اس قدر تکلیف دہ ہے کہ خود مغرب بھی اب اس سے خائف ہونے لگا ہے، وہ ہے اخلاقی تنزل کا معاملہ ۔۔!!
اخلاقیات پر سائنٹزم کی بدولت مادیت کی مار ہی کیا کم تھی کہ رہی سہی کسر اخلاقی قدروں کے زوال اور اخلاقی انحطاط نے پوری کر دی ہے، حالات تیزی سے وہ رخ اختیار کر رہے ہیں کہ ارفع و اعلیٰ اخلاقی اقدار و افکار کی بات قصہ پارینہ ہو کر رہ گئی ہے، جس کا نتیجہ اس کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ مغربی اخلاقی تنزل کی سلسلے میں ذیل میں کچھ اعداد و شمار بوسنیا کے صدر علی عزت بیگووچ کی معروف 'اسلام اور مشرق و مغرب کی تہذیبی کشمکش' سے پیش کئے جاتے ہیں، یاد رہے کہ اس کتاب کی اشاعت کے فورا بعد فرانس نے اس پر پابندی عائد کر دی تھی:
٭ امریکہ میں 1965ء میں پچاس لاکھ جرائم کئے گئے، وہاں آبادی میں شرحِ اضافہ کی بہ نسبت جرائم میں اضافے کا تناسب چودہ گنا زیادہ تھا، آبادی میں شرح اضافہ 13 فیصد اور جرائم میں اضافے کی شرح 178 فیصد تھی۔
٭ امریکہ میں اس وقت جرائم کی صورت حال یہ ہے کہ ہر بارہ سیکنڈ بعد کوئی نہ کوئی جرم سرزد ہوتا ہے، ہر ایک گھنٹے بعد ایک قتل ہو جاتا ہے، ہر پچیس منٹ کے بعد زنا کا واقعہ پیش آتا ہے، ہر پانچ منٹ کے بعد ڈاکہ پڑتا ہے اور ہر منٹ کے بعد کار چوری ہو جاتی ہے۔
٭ امریکہ میں قتل ہونے کی شرح میں سولہ سال میں تین سو فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔
٭ مغربی جرمنی میں 1966ء میں بیس لاکھ جرائم درج ہوئے تھے اور 1970ء میں چوبیس لاکھ جرائم درج ہوئے، پچھلے دس برسوں میں قتل کئے جانے والے افراد کی تعداد میں 35 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
٭ اسکاٹ لینڈ میں اس مدت میں خوفناک جرائم کی شرح میں سو فیصد اضافہ ہوا۔
٭ فرانس میں بھی یہی صورت حال ہے، 1950ء سے 1960ء تک چوریوں کی تعداد میں 170 فیصد اضافہ ہوا، اور بلجیم میں 1960ء سے 1978ء تک جرائم میں دگنا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
٭ برطانیہ میں 1973ء میں چار لاکھ شرابی تھے، جن میں 80 ہزار عورتیں تھیں، نیز ان میں سے ہر دوسری عورت نفسیاتی ہسپتال کی مریض بن جاتی ہے اور ہر تیسری عورت خودکشی کر لیتی ہے۔
٭ سویڈن میں مرد و عورت میں سے ہر دسواں شخص کثرتِ شراب نوشی کا عادی ہے۔
٭ نفسیاتی امراض کے حوالے سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ معیارِ زندگی جہاں بہتر ہو رہا ہے، وہیں قلبی اطمینان بھی رخصت ہو رہا ہے، خودکشی کے واقعات اور نفسیاتی مسائل وہیں پر کم تعداد میں ہیں، جو علاقے زیادہ ترقی یافتہ نہیں ہیں۔
٭ امریکہ میں ہر ہزار میں سے چار افراد دماغی ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔
٭ سویڈن میں 1967ء میں ایک ہزار سات سو خود کشیاں رجسٹرڈ ہوئیں، جو 1966ء کی بہ نسبت 9 فیصد زیادہ تھیں، اور 1960ء کی بہ نسبت 30 فیصد زیادہ۔
٭ 1968ء میں ہونے والے ایک جائزے سے معلوم ہوا کہ خودکشی کی بلند شرح کے حساب سے ابتدائی آٹھ ممالک یہ ہیں: (1) مغربی جرمنی، (2) آسٹریا، (3) کینیڈا، (4) ڈنمارک، (5) فن لینڈ، (6) ہنگری، (7) سویڈن، (8) سوئزر لینڈ۔ (14)
اگر یہ بات ذہن نشین رہے کہ یہ اعداد و شمار کوئی 30، 35 برس قبل کے ہیں تو حالات کی سنگینی کا تصور کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس موضوع پر بحث سمیٹنے سے قبل ہم اس ضمن میں مزید کچھ اعداد و شمار پیش کرنا چاہیں گے، جو کہ نسبتا حالیہ دور کے ہیں:
٭ امریکہ میں ایک تحقیق کے مطابق عصمت دری کا شکار 50 فیصد خواتین کی عمر 18 سال سے کم ہے، اور 25 فیصد تو 12 سال سے بھی کم عمر کی بچیاں ہیں۔
٭ زیادہ اندوہناک صورت حال یہ ہے کہ ان 12 سال سے کم عمر بچیوں میں سے 20 فیصد اپنے باپوں کی ہوس کا شکار ہوئیں۔ 46 فیصد کو ان کے رشتے داروں اور 30 فیصد کو دوستوں نے شکار کیا، صرف 4 فیصد ایسی تھیں جن کی عصمت دری غیروں نے کی۔ (15)
8 برلن پولیس کے مطابق شہر میں ہونے والے 45 فیصد متشددانہ جرائم 14 سے 18 سال کی عمر کے بچے کرتے ہیں۔ (16)
٭ لندن میں فحاشی کے کاروبار میں 1990ء کے مقابلے میں 1992ء میں 35 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جبکہ ویسٹ یارک شائر، مانچسٹر اور کلیولینڈ میں یہ اضافہ 80 فیصد تک تھا۔ (17)
٭ برطانیہ میں جسم فروشی کے ذریعے ماڈل گرلز سالانہ 80 سے 90 لاکھ پونڈ تک کماتی ہیں جو کہ کسی بڑے بزنس مین کی آمدنی سے کم نہیں۔ (18)
٭ چند مزید اعداد و شمار دیکھئے: امریکہ کے حوالے سے سالانہ 20 لاکھ ناجائز بچے، 25 لاکھ غیر شادی شدہ مائیں، 15 لاکھ مطلقہ عورتیں، ہائی اسکول کی 86 فیصد نو عمر حاملہ طلبات، (19)
اخلاقی تنزل کی یہ چند مثالیں پیش کی گئیں، ورنہ اس کی فہرست تو اس قدر طویل ہے کہ اس کا استقصا ممکن ہی نہیں۔
تعلیمی نظریات: مغرب کا ایک اور نفسیاتی بحران
تعلیم فی نفسہ اس طرح کی کوئی مقصود چیز نہیں، جس کا کسی سے کوئی تعلق ہی نہ ہو۔ یہ نظامِ حیات سے مربوط ہے، اس لئے ٹھوس نظریات اور مستحکم اور واضح مقاصد رکھتی ہے، اسلام کا تعلیمی نظام اس کے تعمیری افکار سے منسلک اور اس کے نظامِ حیات سے مربوط ہے، اس لئے وہ واضح اہداف اور روشن مقاصد کا حامل ہے، لیکن مغرب کی مادیت پرستانہ نفسیات نے تعلیم کو بھی اپنا شکار کر لیا، اور وہ اس ضمن میں بھی کوئی اعلیٰ و ارفع مقاصد و افکار پیش نہ کر سکی، ان کی ساری تگ و دو کا محور چند ٹکوں کا حصول قرار پایا، میکالے نے ہندوستان میں جو نظامِ تعلیم رائج کیا وہ محض کلرک پیدا و تیار کرنے تک محدود تھا۔ (20) خود مغرب میں جب سائنسی علوم و افکار کا غلبہ ہوا تو معاشرتی علوم تحقیر کا شکار ہو گئے، اور انہیں ثانوی حیثیت کا حامل قرار دے دیا گیا، (21) اور پھر نت نئے مگر زمینی حقائق سے دور خیالات کی بھرمار ہو گئی۔ (22) ان آزادانہ تعلیمی افکار کا نتیجہ یہ ہوا کہ نئی آنے والی نسل ہر اعتبار سے اخلاقی قدروں سے بے نیاز اور مثبت اسلوبِ زیست سے کنارہ کش ہو گئی، اسے خود اس کا علم نہیں رہا کہ زندگی کے ناگزیر معاملات میں اس کا رد عمل کیا ہونا چاہیے؟ اور کار زارِ حیات میں اس کا کردار کیا ہے؟ یہ بے مقصدیت مغربی نفسیات کا ایک خطرناک رجحان تھا، جس نے اس کی معاشرتی اقدار کو تہس نہس کر کے رکھ دیا، اب اس کا احساس بھی مغرب میں پیدا ہو رہا ہے، لی کومٹ (Le Comte) لکھتا ہے:
"بچے کو فکری غذا دے دینا اور تھوڑی سی معلومات دے دینا، اور اس سے قبل اسے کوئی مضبوط اخلاقی بنیاد فراہم نہ کرنا جو اس کے فکری سفر کو برداشت کر سکے، یہ ساری تگ و دو ریت پر محل تعمیر کرنے کے مترادف ہے۔ عمارت جتنی اونچی ہو گی، گرنے کا اندیشہ اتنا ہی زیادہ قوی ہو گا (اگر بنیاد گہری و مستحکم نہ ہو)۔" (23)
لادینیت اور سائنٹزم کی چھاؤں میں پروان چڑھنے والے اس نظامِ تعلیم کے ثمرات پر گفتگو کرتے ہوئے مشہور مغربی اہل قلم والٹر لپ مین (Walter Lipman) نے کہا تھا:
"اسکول اور کالج دنیا میں ایسے افراد بھیج رہے ہیں، جو اس معاشرے کے ان تخلیقی اُصولوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں، جس میں انہوں نے رہنا ہے۔ اپنی ثقافتی روایات سے نابلد، نئے تعلیم یافتہ افراد اپنے ذہن و جذبات میں مغربی تہذیب کے تصورات، اُصول اور بنیادوں کا، نیز اس کی منطق و استدلال کا کوئی احساس اور شعور نہیں رکھتے، اگر یہی نہج رہی تو موجودہ تعلیم آخر کار مغربی تہذیب کو تباہ کر دے گی۔" (24)
سر والٹیر موبرلے (Sir Walter Moberly) برطانیہ کے تعلیمی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے کہتے ہیں:
"ہم جس الجھن میں گرفتار ہیں وہ یہ ہے کہ ہماری جامعات سے فارغ ہونے والے زیادہ تر طلبا کو کوئی ایسا موقع پیش نہیں آتا جب وہ حقیقی اہمیت کے عظیم مسائل پر اپنا ذہن استعمال کر سکیں۔ تعلیمی غیر جانبداری کے زیر اثر وہ موجودہ سیاسی اور سماجی ماحول کے آگے سپر ڈال دینے اور سوچ بچار کی زحمت نہ اُٹھانے کے عادی ہو جاتے ہیں، اسی طرح وہ لادینیت کو بھی تسلیم کرتے ہیں ۔۔ ساری تعلیم حاصل کر لینے کے بعد وہ بنیادی طور پر غیر تعلیم یافتہ ہی رہتے ہیں۔" (25)
خود برٹرینڈرسل اس امر کا خطرہ صاف محسوس کرتا ہے کہ موجودہ نہج پر چلتے ہوئے سائنسی تہذیب ترقی نہیں پا سکتی، بالفاظِ دیگر اسے موجودہ نفسیاتی پس ماندگی سے نکلنا ہو گا، ورنہ سائنسی تہذیب کی بالادستی کو خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا، اس کے الفاظ ملاحظہ کیجئے:
"اگر سائنسی تہذیب کو برتر تہذیب بننا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ معلومات میں اضافے کے ساتھ ساتھ حکمت میں بھی اضافہ ہو۔ حکمت سے میری مراد زندگی کی غایات کا صحیح تصور ہے، مگر یہ وہ چیز ہے جس کو سائنس مہیا نہیں کر سکتی۔" (26)
یہ کس قدر واضح اور کھلا اعتراف ہے مذہب کی بالادستی کا، اس کی موجودہ سائنسی دور میں فعالیت اور ضرورت و اہمیت کا، اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ موجودہ حالت میں کوئی بھی دوسرا مذہب 'اسلام' کے سوا یہ راہنمائی اور صحیح فطری تصور حیات و نظامِ حیات نہیں عطا کر سکتا۔ اور آخر میں پروفیسر ہیرالڈ ایچ ٹٹس (Herold H. Titis) کی رائے ملاحظہ کیجئے، لکھتے ہیں:
"تعلیم نے اپنے آپ کو ماضی کے روحانی ورثے سے الگ کر لیا، مگر اس کا کوئی مناسب متبادل دینے میں ناکام رہی ہے، نتیجتا تعلیم یافتہ افراد بھی ایقان و ایمان و زندگی کی قدر کے درست احساس اور دنیا کے بارے میں کسی ناقابل شکست ہمہ گیر نقطہ نظر سے عاری ہیں۔" (27)
مغربی مفکرین و ماہرین تعلیم کے یہ خیالات اپنی جگہ، جو خود بھی خدا ناشناسی کے سبب ادھورے اور نامکمل ہیں، مگر مغرب نے ان پر بھی غور نہیں کیا اور اپنے حالات کا ازسرنو جائزہ لے کر اسے سنوارنے کے لئے کوئی پیش رفت نہیں کی۔
سائنسی تحقیق کے میدان اسلامی اور مغربی نفسیات: ایک تقابل
تحقیق کے میدان میں بھی مغرب کی نفسیات علیحدہ مزاج رکھتی ہے، جو مسلمانوں کے اُسلوبِ تحقیق سے جداگانہ ہے، اور اس کے تقابل سے بھی کئی ایک انکشافات ہوتے ہیں۔
مسلمان محققین کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے خصوصا سائنسی تحقیق میں عملی اقدامات کو متعارف کرایا اور اسے برابر کی اہمیت دی، مسلم محققین کا دوسرا امتیازی وصف یہ ہے کہ انہیں اپنے پیش رؤوں سے استفادہ کرنے میں جھجھک نہیں تھی، لیکن جو چیز جس سے لی اس کا بھرپور اعتراف بھی کیا، پھر اچھے محققوں کی مانند ان کی آرا کو تحقیق و تنقید کے اُصولوں پر پرکھا، اگر انہیں اپنے پیش رؤوں کی رائے سے اتفاق تھا تو اس کا ذکر کیا، اگر اختلاف ہوا تو اس کا بھی اظہار کیا، مگر پورے احترام کے ساتھ، اور اگر ان کی تحقیق یا فکر میں کوئی کمی محسوس کی تو اسے پورا کر دیا، البیرونی اس طریقہ کار کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتا ہے:
"میں نے وہی کیا ہے، جو ہر انسان پر واجب ہے کہ اپنے فن میں کرے، یعنی اس فن میں جو لوگ اس سے پہلے گزر چکے ہیں، ان کے اجتہادات کو قبول کرے، اور اگر کچھ خلل پائے تو بے جھجھک اس کی اصلاح کر دے، اور جو کچھ خود اسے سوجھے اسے اپنے بعد آنے والے متاخرین کے لئے بطور ایک یادداشت محفوظ کر جائے۔" (28)
ویڈیمان مسلمانوں کے اندازِ تحقیق کے بارے میں اپنی رائے یوں ظاہر کرتا ہے:
"یونانیوں کے ہاں نتائج تحقیق ہمارے سامنے اپنی آخری کلاسیکی شکل میں آتے ہیں، چنانچہ بعض استثنائی صورتوں کے علاوہ ہمارے لئے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ ہم ان کی اُٹھان کا سراغ لگا سکیں، لیکن عربوں (مسلمانوں) کے ہاں صورتِ حال یکسر مختلف ہے، عرب جس کام میں ہاتھ ڈالتے ہیں، اس کے قدم بہ قدم ارتقا کی وضاحت کرتے ہیں، کچھ اس طرح جیسے آج ہمارے بعض محققین کرتے ہیں، ان کی اس وضاحت کے پیش نظر ہم یہ محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ ان کی طبیعتوں میں اپنے کام کی قدم بہ قدم پیش رفت پر اطمینان و سرور کی ایک کیفیت پائی جاتی ہے۔" (29)
اس کے برعکس مغرب کا طریقہ تحقیق یہ ہے کہ لاطینیوں نے مسلمان محققین سے جو کچھ اخذ کیا اس کا وہ اپنی نفسیاتی اُلجھنوں کے سبب اعتراف نہ کر سکے، اور اسے انہوں نے اپنی جانب منسوب کر لیا، بلکہ مسلمانوں کے علوم سے لاطینیوں کے عمل استفادہ نے سرقے کی صورت اختیار کر لی، انہوں نے بہت سی کتب کو مکمل طور پر ترجمہ کر کے اپنی جانب منسوب کر لیا، اور انہیں اپنی طبع زاد تصنیف تالیف قرار دیا، یا یہ کہا کہ یہ یونانی مشاہیر مثلا ارسطو، جالینوس، روفوس وغیرہ کی کتب ہیں، اس کی بہت سی مثالیں سامنے آ چکی ہیں۔ (30)
مثال کے طور پر راے منڈس لولس (Raymundus Lullus) کی کتنی ہی کتب کیمیا کے حوالے سے مغرب میں متداول رہیں، مگر بعد میں یہ عقدہ کھلا کہ وہ عربی کتب کا سرقہ تھیں، اسی طرح ابن سینا کی 'کتاب الشفا' کا حصہ معدنیات کئی صدیوں تک مغرب کے سائنس دانوں کے ہاں ارسطو کی تحریر سمجھا جاتا رہا۔ (31)
ان کے ان غیر اخلاقی اقدامات کا سبب بھی ان کی نفسیاتی کشمکش تھی جو سائنس ایسے خالص تحقیقی معاملات میں بھی ان کو راہِ راست پر نہ چلا سکی، مسلمانوں نے جن سے بھی اخذ و اکتساب کیا، وہ ان کے بارے میں کسی قسم کے منفی خیالات کا شکار نہیں تھے۔ اس کے برعکس لاطینی جب مسلمانوں سے اخذِ فیض کر رہے تھے، تو وہ اسی لمحے مسلمانوں کو اپنا حریف اور مدمقابل بھی قرار دے رہے تھے، اس بنا پر وہ غیروں اور مخالفوں سے اخذ و اکتسا ب کرنے میں تردد و تامل کا شکار تھے، ان کی اس نفسیاتی اُلجھن نے اس صورت حال کا حل سرقہ نویسی کی صورت میں تلاش کر لیا جب کہ مسلمانوں کا اخلاقی نظام بھی انہیں اس قسم کے ناروا اور غیر دیانت دارانہ اقدامات سے باز رکھنے کا اہم سبب تھا، جس سے مغرب کل بھی محروم تھا، اور آج بھی محروم ہے۔
ترقی و تفوق کی نفسیات
مغرب نفسیاتی طور پر غلبے، ترقی اور تفوق کے احساسات و کیفیات کا بھی شکار ہے، یہ کیفیات ایک دن میں پیدا نہیں ہوئیں، ان میں اس کی پے در پے سائنسی و مادی کامیابیوں کا بھی بڑا دخل ہے، مگر اب یہ تفوق ایک نفسیاتی عیب کی شکل اختیار کر گیا ہے، مشرق کے حوالے سے دیکھا جائے تو اس تفوق کا اظہار انگریزی عہد میں لاڈ میکالے (Lad Macualay) کی زبان سے ہوا، اور اس بارے میں اس نے پاک و ہند میں، خصوصا یہاں کے تعلیمی حلقوں میں انگریزی تفوق کی بدنام مثال کی صورت اختیار کر لی ہے، وہ متحد ہندوستان کے مسلمانوں اور ان کے علمی سرمائے کے بارے میں کیا رائے رکھتا تھا؟ چند نگارشات ملاحظہ کیجئے:
1۔ احیا اور فروغ سے مراد انگریزی ادب ہے، اور ذی علم ہندوستانیوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو ملٹن اور ہابس لاک کو پڑھ چکے ہیں۔
2۔ ہدایہ اور شاستر کو پڑھنا حماقت ہے۔
3۔ یورپ کے کسی اچھے کتاب خانے کی ایک الماری، عرب اور ہندوستان کے سارے ادبی سرمائے پر بھاری ہے۔
4۔ قدیم کتب کی اشاعت کے بارے میں فرمایا:
"ہم ایسی منڈلی بن گئے ہیں، جو رویے کا ضیاع کر رہی ہے، ایسی کتابیں شائع کر رہی ہے۔ جن کے چھپنے سے کاغذ کی قیمت اتنی بھی نہیں رہتی جتنی کہ چھپنے سے قبل تھی۔"
5۔ مقامی زبانوں کے متعلق فرمایا:
"ان میں سے کسی میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ علوم و فنون کے لئے ذریعہ تعلیم بن سکے۔" (32)
لیکن یہاں پر یہ بحث بھی دلچسپی کا باعث ہو گی کہ اس احساسِ تفوق کی حقیقت کیا ہے؟ اس جانب سطورِ بالا میں اشارہ کیا جا چکا ہے کہ مغربی علوم میں بہت سا حصہ مشرق اور علمائے اسلام کی کتب سے سرقہ شدہ ہے، چند مثالیں مزید پیش کی جاتی ہیں:
سائنس دانوں کے ہاں یہ بات معروف تھی کہ بصریات کے میدان میں حجرہ تاریک (Camera Idscurd) کو دریافت کرنے اور چاند کے مشاہدے کے سلسلے میں اس کو استعمال کرنے والا لیوی (Lewi) ہے، لیکن اب یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ یہ کارنامہ دراصل ابن الہثیم کا ہے، جو لیوی کی جانب غلط طریقے سے منسوب کر دیا گیا۔ (33)
نیز 'مثلثاتِ کرویہ' کی دریافت بھی لیوی کی طرف منسوب کی گئی ہے، حالانکہ اب یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ اس کا سہرا چوتھی صدی ہجری کے النحجندی، ابو الوفا الوزجانی اور ابو نصر بن عراقی کے سر ہے۔ (34)
مغرب کی یہ سرقہ گیری خود مغرب کے منصف مزاج قلم کاروں سے بھی پوشیدہ نہیں رہی، اور انہوں نے اس کا برملا اعتراف کیا ہے، امریکی مصنف ڈریپر لکھتا ہے:
"مجھے اس بات پر بے حد افسوس ہے کہ یورپ کے مصنفین نے بڑی باقاعدگی کے ساتھ دیدہ دانستہ مسلمانوں کے اس احسان کو چھپانے کی کوشش کی ہے جو یورپ والوں کی گردن پر ہے۔ عربی علوم کی ان نشانیوں سے جو اب تک باقی رہ گئی ہیں، ہمیں مسلمانوں کے عروجِ ذہنی کا پتہ چلتا ہے، حالانکہ ان کی بہت سی کتابیں فنا ہو چکی ہیں، اور بہت سی قصدا فنا کر دی گئی ہیں۔" (35)
اور بریفالٹ لکھتا ہے:
"سائنس سے تحقیق کی نئی روح، تفتیش کے نئے طریقے، پیمائش اور مشاہدے کے لئے نئے اُسلوب مراد ہیں جن سے یونانی بے خبر تھے، یورپ میں اس روح اور ان اسالیب کو رواج دینے کا سہرا عربوں کے سر ہے۔" (36)
مغرب کے ذہنی اور علمی تفوق کی اس نفسیات کی حقیقت پر سب سے عمدہ اور برمحل تبصرہ خود ڈاکٹر فواد سیز گین کا ہے، جنہوں نے اس سلسلے میں وقیع تحقیق اہل علم کے سامنے پیش کی ہے، وہ کہتے ہیں:
"جوں جوں انسان یورپ کے اصل ماخذ کی گہری تحقیق کرتا ہے، اس کے ہاں یہ تصور تقویت پکڑتا چلا جاتا ہے کہ وہاں کی نام نہاد تحریک اِحیا اس بچے سے از حد مشابہت رکھتی ہے، جسے اس کے حقیقی بچے کی بجائے کسی اور کی طرف منسوب کر دیا گیا ہو۔" (37)
سائنسی ترقی خود مغرب کی نظر میں
اس مضمون کے اختتام سے قبل ہم لندن یونیورسٹی میں فلسفے کے اُستاد پروفیسر جوڈ (Joad) کی رائے جو قدرے طویل اقتباسات کی صورت میں ہے، پیش کرنا چاہیں گے۔ انہوں نے بے لاگ طریقے سے مغرب کی سائنسی تری اور نفسیاتی تضاد کا جائزہ لیا ہے، وہ کہتے ہیں:
"ہماری حیرت انگیز صنعتی فتوحات اور ہمارے شرمناک اخلاقی بچپن کے درمیان جو تفاوت ہے، اس سے ہمارا سابقہ ہر موڑ پر پڑتا ہے، ایک طرف ہماری صنعتی تری کا یہ حال ہے کہ ہم بیٹھے بیٹھے سمندر پار سے، اور ایک براعظم سے دوسرے براعظم کے لوگوں سے بے تکلف باتیں کر سکتے ہیں، سمندر کے اوپر اور زمین کے نیچے دوڑتے پھرتے ہیں، ریڈیو کے ذریعے سیلون میں گھر بیٹھے، لندن کے بڑے گھنٹے (Big Ben) کی آواز سن سکتے ہیں، بچے ٹیلیفون کے ذریعے ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہیں، برقی تصویریں آنے لگی ہیں، بغیر آواز کے ٹائپ رائٹر چل گئے ہیں، بغیر کسی درد تکلیف کے دانت بھرے جا سکتے ہیں، فصلیں بجلی سے پکائی جاتی ہیں، ربڑ کی سڑکیں بنتی ہیں، ایکسرے کے ذریعے ہم اپنے جسم کے اندرونی حصے کو جھانک کر دیکھ سکتے ہیں، تصویریں بولتی اور گاتی ہیں، لاسلکی (وائرلیس) کے ذریعے مجرموں اور قاتلوں کا پتہ چلایا جاتا ہے، برقی موجوں سے بالوں میں پیچ و خم پیدا کیا جاتا ہے، آبدوز کشتیاں، قطبِ شمالی تک اور ہوائی جہاز قطبِ جنوبی تک اُڑ کر جاتے ہیں، لیکن اس سب کے باوجود ہم سے اتنا نہیں ہو سکتا کہ ہم اپنے بڑے بڑے شہروں میں کوئی ایسا میدان بنا دیں جس میں غریب بچے آرام و حفاظت کے ساتھ کھیل سکیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ سالانہ دو ہزار بچوں کی جانیں ضائع ہوتی ہیں اور نوے ہزار زخمی ہو جاتے ہیں۔ ایک مرتبہ ایک ہندوستانی فلسفی سے میں اپنے تمدن کے عجائبات کی تعریف کر رہا تھا۔ اسی زمانے میں ایک گاڑی چلانے والے نے Pendinsands میں تین یا چار سو میل کی مسافت ایک گھنٹے میں طے کر کے ریکارڈ قائم کیا تھا، اور ایک ہوا باز نے ماسکو یا نیو یارک کی مسافت بیس یا پچاس گھنٹے میں طے کی تھی۔ میں جب سب کچھ کہہ چکا تو ہندوستانی فلسفی نے کہا: ہاں یہ صحیح ہے کہ تم ہوا میں چڑیوں کی طرح اُڑتے اور پانی میں مچھلیوں کی طرح تیرتے ہو، مگر تمہیں ابھی تک زمین پر انسانوں کی طرح چلنا نہیں آیا۔" (38)
امن و سکون، ہمدردی و خیر خواہی کے زمانے سے اٹھ جانے پر وہ یوں ماتم کرتا ہے:
"جہاں تک ہمارے زمانے کی سوسائٹی کا تعلق ہے تو واقعہ یہ ہے کہ ہمارا اعتقاد ہے کہ تمدن نام ہے سرعت کا۔ سرعت موجودہ زمانے کے نوجوان کا دیوتا ہے، اس کے آستانے پر وہ سکون، راحت، امن اور دوسروں کے ساتھ مہربانی کو بڑی بے دردی کے ساتھ پھینٹ چڑھا دیتا ہے۔" (39)
وہ مزید لکھتا ہے:
"اس میں شک نہیں کہ زمین کی طنابیں کھنچ گئی ہیں، قومیں ایک دوسرے کے قریب ہو گئی ہیں، اور ان کے پاؤں ایک دوسرے کی دہلیز پر ہیں، مگر اس کا نتیجہ یہ ہے کہ قوموں کے آپس کے تعلقات پہلے سے زیادہ ناخوش گوار ہیں۔ وہ وسائل جن سے ہم اپنے ہمسایہ قوموں سے براہِ راست واقف ہوتے ہیں، انہوں نے اُلٹا دنیا کو جنگ کی آگ میں جھونک دیا ہے، ہم نے آواز پہنچانے کا آلہ ایجاد کیا، اور اس کے ذریعے اپنی ہمسایہ قوموں سے باتیں کیں، لیکن اس کا انجام یہ ہے کہ آج ہر قوم ہوا کی پوری طاقت کے ساتھ اپنی ہمسایہ قوم کو چھیڑنے اور دق کرنے کا کام لے رہی ہیں، وہ اس کوشش میں رہتی ہے کہ وہ دوسری قوم کو اپنے سیاسی نظام کی برتری کا قائل ومعتقد بنا دے۔(40)
خاتمہ کلام
اس تمام گفتگو کا خلاصہ یہ بنتا ہے کہ مغرب اپنی موجودہ سائنسی ترقی اور مادی فتوحات کے باوجود اس وقت بلکہ ماضی سے ہی ایک مختلف النوع اور کثیر الجہت نفسیاتی اُلجھن، تضاد اور کشمکش کا شکار ہے، اس فلسفی کی مانند جس کے ہاتھ سے ڈور کا سرا جاتا رہا ہو اور وہ اُلجھے ہوئے دھاگے کو سلجھانے کی فکر میں غلطاں ہو، مغرب کا المیہ بھی یہی ہے کہ ہدایت کی ربانی و آسمانی رسی حبل اللہ اس کے ہاتھ سے چھوٹ چکی ہے۔ نتیجتا طرح طرح کے عوارض اسے لاحق ہو رہے ہیں۔ فکری، علمی و عملی کجیوں، کجرویوں اور اُلجھنوں کے سمندر میں ڈوبتے ہوئے اسے سہارے کی تلاش ہے، یہ سہارا قرآنِ کریم کی صورت میں اس کے سامنے موجود ہے، مگر اس کی توجہ مادیت کے طوفان میں بھٹک رہی ہے، اب اہل اسلام کا فرض ہے کہ وہ اپنی تمام تر صلاحتیں اس پیغام ربانی کو غیر مسلموں تک پہنچانے کے لئے وقف کر دیں، اسلام کا نظامِ اخلاق اور نظامِ معاشرت خصوصیت کے ساتھ غیر مسلموں، خصوصا مغرب کے لئے ذریعے ہدایت، اور وجہ سکوں و عافیت ثابت ہو سکتا ہے۔
اس کے علاوہ اس بحث میں ہمارے لئے مقام فکر و عبرت یوں بھی ہے کہ جن خصوصیات اور تاریخی حقائق پر ہم آج فخر محسوس کر رہے ہیں، ان کا تسلسل آج سے بہت پہلے منقطع ہو چکا ہے اور یہ روایات ہمارے جن قابل قدر اسلاف کی تھیں ہم ان کے جانشین کہلانے کے حق دار نہیں سمجھے جا سکتے۔ ہمیں غور کرنا ہو گا کہ آخر وہ کیا وجوہات ہیں جن کے سبب ہم تعلیمی و تحقیقی تفوق کی بلندیوں سے گر کر پستی کی انتہاؤں کا شکار ہو گئے ہیں۔ ایک وقت وہ تھا جب مغرب ہماری روایات اور تحقیقات کو کسی بھی صورت میں اپنانے کو اپنی ضرورت سمجھتا تھا، بلکہ اس میں فخر محسوس کرتا تھا، اور آج ہم صحیح معنی میں ان کو کاپی کرنے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتے۔ یہ وہ مسائل ہیں جو ہم سے فوری اور بھرپور توجہ طلب کر رہے ہیں۔ سو کیا ہم اس سلسلے میں وقت کی پکار پر لبیک کہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟
اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ زبانی دعوت کے اہم فریضے کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ ہمیں خود اپنی زندگیوں کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالنا ہو گا، تاکہ ہر مسلمان اپنی اپنی جگہ خود بھی سراپا دعوتِ اسلام ہو، اس میں اتنی جاذبیت ہو جو غیر مسلموں کو اسلام کی جانب راغب کرے، یہی اسلام کا موجودہ حالات میں مسلمانوں سے مطالبہ ہے اور یہی حالات کا تقاضا ہے۔ وما علينا الا البلاغ المبين
حواشی و حوالہ جات(1) فرانسس بیکن، 1626-1561ء (Francis Bacon) نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ "جب سائنس کو مذہب پر غلبہ حاصل ہو جائے تو یہ دنیا جنتِ ارضی میں تبدیل ہو جائے گی"۔ ملاحظہ کیجئے: پروفیسر سید محمد سلیم رحمہ اللہ، مغربی فلسفہ تعلیم کا تنقیدی مطالعہ، ادارہ تعلیمی تحقیق، لاہور 1981، ص 62
(2) ملاحظہ کیجئے رسل کی کتاب THE IMPACT OF SCIENCE ON SOCIETY GEORGE ALLEN & UNWIN. LONDON. 1952
(3) دیکھئے: SEINCE LIBERTY AND PEACE. CHATTS & WINDUS LONDON. 1950
(4) برٹرینڈرسل کی کتاب اسی نام سے ہے: 'دائمی مسرت کا حصول' (CONQUEST OF HAPPINESS) اس کا اُردو ترجمہ جمیل زبیری کے قلم سے مکتبہ دانیال، کراچی سے 1998ء (اشاعت و علم) شائع ہوا ہے۔
(5) القرآن، سورہ حم سجدہ، آیت 53
(6) MAN IN THE MODREN WORLD. P.131
(7) C.A COULSN. SCEINCE AND CHIRISTIAN BELIEF
(8) الحجر: آیت 9
(9) Schmidt, P.W. The Origin and Growth of Religion. P.262.
(10) مولانا ابوالکلام آزاد، فلسفہ، مطبوعات چٹان، لاہور، ص 24
(11) نفسیات اکیسویں صدی میں، پروفیسر معزز علی بیگ، مشمولہ معارف، ماہنامہ، شمارہ مئی 2001، ص 325
(12) مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ، انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر، مجلس نشریاتِ اسلام، کراچی، ص 300 تا 302
(13) نفسیات اکیسویں صدی میں، ص 336
(14) علی عزت بیگ وچ، اسلام اور مشرق و مغرب کی تہذیبی کشمکش، اردو ترجمہ ص 124 تا 134
(15) ماہنامہ بیدار ڈائجسٹ لاہور، ستمبر 1994ء ص 40
(16) ایضا، جون 1995ء ص 37
(17) روزنامہ جنگ لندن، 6 اگست 1993ء
(18) بیدار ڈائجسٹ اکتوبر، 1995ء ص
(19) روزنامہ دن لاہور، اگست 1998ء
(20) دیکھئے: پروفیسر سید محمد سلیم رحمہ اللہ، مغربی فلسفہ تعلیم کا تنقیدی مطالعہ، ص 136
(21) ایضا، ص 137 ملاحظہ کیجئے۔
(22) مذکورہ بالا کتاب، ص 141 تا 205
(23) Human Destiny by. Le Comte. P.146
(24) Walter Lipman The State of Education in this troubeled world, P.200
(25) Sir walter Mobely, The Crisis in the University London 1949, P.70
(26) Bertrand Russel. Sveintfic thought. P.12
(27) Harold H Titus. Lieing Issues in Philosophy, Newyoek. 1953. P.420
(28) بیرونی، القانون، ج 1، ص 4،5
(29) ڈاکٹر فواد سیز گین، خطبات، تاریخ علوم میں تہذیب اسلام کا مقام، ترجمہ: ڈاکٹر خورشید رضوی، ادارہ تحقیقاتِ اسلامی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد، 1994ء ص 30
(30) ایضا ص 32
(31) ایضا ص 76
(32) پروفیسر سید محمد سلیم رحمہ اللہ، مسلمان اور مغربی تعلیم، ادارہ تعلیمی تحقیقی، لاہور، 1985ء ص 172
(33) فواد سیز گین ص 125
(34) ایضا
(35) مغربی فلسفہ تعلیم کا تنقیدی مطالعہ، ص 224
(36) رابٹ بریفالٹ، تشکیل انسانیت، ترجمہ: عبدالمجید سالک، لاہور، ص 247
(37) فواد سیز گین، ص 128
(38) Prof Joad Gulde to Modrn wickendness. London. P.262.263
(39) ایضا، ص 241
(40) ایضا، ص 247