1۔مسئلۂ حیاتِ مسیح و رفع آسمانی یہ عقیدہ چودہ سو 37سال سے مسلم چلا آ رہا ہے کہ ’’حضرت عیسیٰفوت نہیں ہوئے بلکہ ان کو زندہ ہی آسمان پر اُٹھالیا گیا اور قیامت کے قریب اُن کاآسمان سے دنیا میں نزول ہو گا اور ان کے ذریعے سے شریعت کا احیا اورنفاذ عمل میں آئے گا۔ ‘‘
یہ عقیدہ اہل سنت کا مسلّمہ عقیدہ ہے جو قرآن و حدیث کی واضح تصریحات سے ثابت ہے ۔ اس بارے میں احادیث بھی متواترہ ہیں جو تقریباً 85صحابہ سے مروی ہیں اور ان کے علاوہ آثارِ صحابہ بھی دو درجن سے زیادہ ہیں۔ اس کی تفصیل راقم نےاپنی کتاب’فتنہ غامدیت ‘ میں بیان کی ہے ۔ نیز علماے اسلام کی یہ تصریحات بھی ذکر کی ہیں کہ اس عقیدے کا منکر ملحد اور زندیق ہے ۔
متحدہ ہند میں ،جب یہاں انگریز کی حکومت تھی، متنبیٔ قادیان مرزا غلام احمد قادیانی نے سب سے پہلے اس مسلّمہ اسلامی عقیدے کا انکار کیا اور دعویٰ کیا کہ مسیح تو فوت ہو چکے اور احادیث میں جس مسیح کی آمد کی پیش گوئی کی گئی ہے، وہ میں ہی ہوں۔ تو علماے اسلام کی طرف سے اس کی تردید میں اور حضرت عیسیٰکی حیات (یعنی زندہ آسمان پر اٹھا لیے جانے) اور قیامت کے قریب دوبارہ آسمان سے نزول کے اثبات میں دو چار نہیں،بیسوں کتابیں لکھی گئیں جن کی تفصیل’احتسابِ قادیانیت‘ میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے ۔
یہ کتاب جس کی ساٹھ جلدیں چھپ چکی ہیں، اس میں ردقادیانیت پر لکھی گئی ساری کتابیں جمع کردی گئی ہیں۔ اس میں وہ ساری علمی کاوشیں ، کتاب اوراس کے مؤلف کےناموں کے ساتھ شامل ہیں جو صرف مسئلہ زیر بحث پر کی گئی ہیں ۔ ان کی تعداد ہی درجنوں میں ہیں۔
رفع آسمانی کا اثبات اصلاحی صاحب نے حضرت عیسیٰکےرفع آسمانی کااثبات کیا ہے ۔ گویا وہ اس عقیدے کے قائل ہیں ۔ اور قرآن مجید کی آیت
﴿إِنّى مُتَوَفّيكَ وَرافِعُكَ إِلَىَّ﴾[1] کی تفسیر میں بڑے زور دار انداز سے اس عقیدے کا اثبات کیا ہے اور حضرت عیسیٰ ؑکی وفات کاانکار اور’اُٹھا ئے جانے‘ کا بڑی وضاحت سے اعتراف کیا ہے، یہ بحث تقریباً چار صفحات پرمحیط ہے ۔
[2] سورۃ النساء کی آیت : 156تا 158
﴿وَما قَتَلوهُ وَما صَلَبوهُ...بَل رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيهِ ﴾ کی تفسیر میں بھی اسی موقف کا مختصراً اثبات کیا ہے ۔
[3]مذکورہ عقیدے کے دوسرے حصے (آسمان سے نزول) کاانکارتاہم علماے اسلام اوراُمّت ِمسلمہ کامتفقہ عقیدہ یہ ہے کہ رفع آسمانی کامطلب ،زندہ اُٹھانا ہے نہ کہ موت سے ہم کنار ہونا۔ اس عقیدے کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ جب حضرت عیسیٰ کو زندہ آسمان پراٹھا لیا گیا ہے (جس کو اصلاحی صاحب نے بھی تسلیم کیا ہے ) تو اُن کو موت کب آئے گی؟ جب کہ قرآن کریم
[4]کی رو سے ہرانسان کے لیے موت لازمی ہے کسی انسان کو موت سے استثنا حاصل نہیں ہے ۔ اس کا حل يا جواب احاديثِ صحیحہ متواترہ میں موجود ہے اور وہ یہ کہ
’’قیامت کے قریب حضرت عیسیٰؑ کا نزول ہو گا اور انہی کے ہاتھوں سے دجال کا قتل ہو گا ، ان کے ذریعے سے شریعتِ اسلامی کا احیا اورنفاذ بھی عمل میں آئے کا اور پھر وہ موت سے ہم کنار ہوں گے ۔‘‘اصلاحی صاحب کا فرمان ہے کہ
’’اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰکو اس طرح باعزت طریقے سے اٹھا لیا جس طرح حضر ت محمد رسول اللّٰہﷺ کو اُٹھا لیا ،سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر کواُٹھا لیا اور اپنے تمام باعزت بندوں کو اٹھا لیتا ہے ۔‘‘[5]قارئین کرام اندازہ لگائیں کہ ’اُٹھائے جانے‘ کا اثبات تو خوب زور شور سے کیا۔ لیکن حضرت عیسیٰکےدوبارہ نزول کا انکار بھی اسی زور شور سے ہے جب کہ احادیث سے نزول کا اثبات ہو رہا ہے ؟ علاوہ ازیں اٹھا ئے جانے سے مراد تفسیر میں تو اللّٰہ کا اپنی طرف اُٹھانا لیا ہے لیکن شرح صحیح بخاری کے اقتباس میں طبعی موت مراد لیا ہے ۔ یہ کیسا عجیب تضاد ہے یا انکارِ حدیث کا کیسا واشگاف اعلان و اظہار ہے ۔
پتہ نہیں اتنی واضح گمراہی اور مسلمہ عقیدے کےانکار کو اصلاحی صاحب کا حلقۂ ارادت تسلیم کرتا ہے یا بدستور ان کی مدح و توصیف اور ’تدبر قرآن‘ کے گن ہی گاتا ہے؟
حلقۂ ارادت سے چند سوال بہر حال ہمارے اصلاحی صاحب کے تلامذہ اور حلقۂ ارادت سے چند سوال ہیں :
1. پہلا سوال یہ ہے کہ قرآن مجید میں تو حضرت عیسیٰکے رَفع (اُٹھائے جانے) کاواضح الفاظ میں ذکر ہے بلکہ ’اپنی طرف‘ کی بھی صراحت ہے
﴿وَرافِعُكَ إِلَىَّ﴾[6] ﴿بَل رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيهِ﴾[7] کیا محمد رسول اللّٰہﷺاور ابوبکرؓ وعمر ؓ اوردیگر باعزت بندوں کو بھی اللّٰہ تعالیٰ نے ’اپنی طرف ‘ یعنی آسمان ہی پر اُٹھا دیا ہے اور اس کے اُٹھانے کا یہی طریقہ ہے ؟ یا کیا مطلب ہے؟
2. دوسرا سوال یہ ہے کہ ’باعزت بندوں ‘ کو تو اللّٰہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ کی طرح اپنی طرف اُٹھا لیتا ہے تو دوسرے بندوں کو جو ’باعزت ‘ نہیں ہوتے ،کس طرح اٹھا تا ہے ؟
3. تیسرا سوال یہ ہے کہ اپنی طرف اُٹھانے سے مراد اگر موت ہے تو موت تو ہر شخص کو آتی ہے ۔اور آتی ہے تو ’باعزت‘ اور ’بے عزت‘ کی تفریق کیا مطلب ہے ؟ کیا ان دونوں کو اُٹھانے کا مطلب ایک دوسرے سےمختلف ہے ۔
4. چوتھا سوال یہ ہے کہ قرآن مجید میں حضرت عیسیٰ کے لیے دو جگہ ’وفات‘ کالفظ استعمال ہوا ہے ۔
﴿اِنِّيْ مُتَوَفِّيْكَ ﴾[8] ﴿ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ ﴾[9] تمام مفسرین اُمت نے کہا ہے کہ وفات کے مجازی معنی ’موت‘ کے اور حقیقی معنی ’پورا پورا لینے ‘کے ہیں۔ اور قرآن کےان دونوں مقامات پر وفات کے معنی ’پورا پورا لینے‘ کے ہیں کیونکہ قرآن میں حضرت عیسیٰ کے لیے دو مقامات’اپنی طرف‘ اُٹھانے کی صراحت ہے ۔
[10] قرآنِ کریم کی یہ صراحت حضرت عیسیٰکی وفات کو آسمان پر اٹھانے (پورا پورا لینے) کے معنی کو متعین کر دیتی ہے۔ اصلاحی صاحب نے بھی ان دونوں مقامات پر وفات کےمعنی اٹھانے ہی کے کیے ہیں۔ اور اپنی طرف اٹھانے کا مطلب آسمان پر اُٹھانا ہی ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ آسمان پر اُٹھانا توتسلیم ہے تو اس کے بعد کیا ہوا ؟ یا کیا ہو گا؟ اس کی وضاحت مطلوب ہے ۔ اُمتِ مسلمہ تو تسلیم کرتی ہے کہ حضرت عیسیٰ آسمان پر زندہ ہیں اور قیامت کے قریب ان کا نزول ہو گا۔ لیکن فراہی گروہ اس نزول کا منکر ہے کیونکہ وہ حدیث کامنکر ہے ۔ تو اس سوال کاجواب ان کے ذمّے ہے کہ اگر وہ آسمان پراٹھا لیے گئے(جیسا کہ متفقہ عقیدہ ہے ) تو اب وہاں وہ کس طرح ہیں؟ کیا وہاں وہ زندہ ہیں یا وہاں موت سے ہم کنار ہو چکے ہیں؟
تفسیر’تدبر قرآن‘ اور اصلاحی صاحب کی ’شرح صحیح بخاری‘ میں اس کی بابت متضاد صراحت ہے ۔حلقۂ اصلاحی اور طائفۂ فراہی دونوں اس سوال کی وضاحت فرمائیں۔کیونکہ محض نزولِ مسیح کی احادیث کے انکار سے بات مکمل نہیں ہوتی، جب تک یہ صراحت نہیں کی جاتی کہ رفع آسمانی کے بعد کیا صورت حال ہے یا کیا ہو گی؟ نیز اُٹھائے جانے کا مطلب اللّٰہ تعالیٰ کا اپنی طرف اُٹھانا ہے جیسا کہ ’تدبر‘ میں ہے،یا اس سے طبعی موت مراد ہے جیسا کہ شرح صحیح بخاری میں صراحت ہے ؟
دوسرے الفاظ میں قرآن کے اس ’ابہام‘کو دور کرنا اصلاحی و فراہی گروہ کی ذمے داری ہے ۔ اُمّتِ مسلمہ کے نزدیک تویہ مسئلہ ’مبہم‘ نہیں ہے بلکہ واضح ہے کیونکہ قرآن کےاجمالات کی تفصیل احادیث میں موجود ہےاورامّت کےنزدیک قرآن کا اجمال اور حدیث میں اس کی تفصیل دونوں ہی یکساں طور پر حجت ہیں۔ لیکن احادیث کےانکار سے جو ’ابہام ‘ پیدا ہوا یا کیا گیا ہے ، اسے دور کرنا انہی منکرین حدیث کی ذمے داری ہے جو احادیث کے بغیر نہ صرف قرآن کی تفسیر کےقائل ہیں، بلکہ انہوں نے بڑے دھڑلے سے اس جسارت کا اظہار کیا ہے کہ ’’اسباب نزول سے متعلقہ صحیح احادیث ’نظم قرآن‘ کو سب سے زیادہ درہم برہم کرنے والی ہیں۔‘‘
نعوذ بالله من هذه الجسارة الجريمة الكبيرة!﴿وَإِن مِن أَهلِ الكِتـٰبِ إِلّا لَيُؤمِنَنَّ بِهِ قَبلَ مَوتِهِ﴾ کی تفسیر میں حدیث سے گریز اس آیت کا ترجمہ حسبِ ذیل ہے :
’’ اور ان کی موت سے پہلے تمام اہل کتاب ان پر ایمان لائیں گے اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہی دیں گے ۔ ‘‘
اس آیت میں دو ضمیریں ہیں: ایک
لَيُؤْمِنَنَّ بِهٖ میں اور دوسری قَبْلَ مَوْتِهٖ١ۚ میں، ان دونوں ضمیروں کےمراجع کون ہیں ، یعنی یہ ضمیریں کس کی طرف لوٹ رہی ہیں یا بالفاظِ دیگر ان کا مصداق کون ہے ؟ یا کون کون ہیں ؟
ان ضمیروں کے مصداق میں اختلاف کی وجہ سے اس کی تفسیر میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ۔
پہلی رائے : پہلی یہ ہے کہ دونوں ضمیروں کا مرجع (مصداق) حضرت عیسیٰہیں۔ اس اعتبار سے اس آیت کی تفسیر ہوگی کہ حضرت عیسیٰکی موت سے پہلے تمام یہودی اور عیسائی حضرت عیسیٰپر ایمان لے آئیں گے،یعنی مسلمان ہو جائیں گے۔ یہودی ،جو حضرت عیسیٰکو رسول نہیں مانتے ،بلکہ نعوذ باللّٰہ ان کو صحیح النسب تک تسلیم نہیں کرتے اور عیسائی انہیں ’اللّٰہ‘یا ’ابن اللّٰہ‘ قرار دیتے ہیں ، دونوں فرقے افراط وتفریط سے تائب ہو کر ان کو اللّٰہ کا رسول تسلیم کر لیں گے۔ یا اسلام کا ایسا غلبہ ہو جائے گا کہ کوئی یہودی یہودی رہے گا ، نہ عیسائی عیسائی رہے گا بلکہ یہ سب یا تو مسلمان ہو جائیں گے یا مسلمانوں کےہاتھوں قتل ہو جائیں گے۔ جیسا کہ حضرت عیسیٰکے نزول کےبعد ہو گا جس کی پیش گوئی احادیث میں فرمائی گئی ہے ۔
اس آیت کی یہ تفسیر سب سے زیادہ صحیح ہے کیونکہ اس کی وضاحت احادیثِ صحیحہ میں موجود ہے ۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حدیث ہے ، نبی کریم ﷺنے فرمایا:
«وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيُوشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمْ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَدْلًا فَيَكْسِرَ الصَّلِيبَ وَيَقْتُلَ الْخِنْزِيرَ وَيَضَعَ الْجِزْيَةَ وَيَفِيضَ الْمَالُ حَتَّى لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ حَتَّى تَكُونَ السَّجْدَةُ الْوَاحِدَةُ خَيْرًا مِنْ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا ثُمَّ يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ وَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا»[11]’’اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ عنقریب ابن مریم تمہارے درمیان نازل ہوں گے انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے والے ہوں گے صلیب توڑ ڈالیں گے، خنزیر کو قتل کر ڈالیں گے جزیہ ختم کردیں گے (کیونکہ اس وقت سب مسلمان ہوں گے) اور مال کی اتنی بہتات ہو جائے گی حتیٰ کہ کوئی اس کا لینے والا نہ ملے گا۔ اس وقت ایک سجدہ دنیا و مافیہا سے بہتر سمجھا جائے گا ۔پھر ابوہریرہ کہتے ہیں اگر اس کی تائید میں تم چاہو تو یہ آیت پڑھو ﴿ وَ اِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهٖ قَبْلَ مَوْتِهٖ﴾کہ کوئی اہل کتاب ایسا نہیں ہوگا جو عیسیٰ کی وفات سے پہلے ان پر ایمان نہ لے آئے اور قیامت کے دن عیسیٰ ان پر گواہ ہوں گے۔ ‘‘اس حدیث میں حاکم (حَکَم) سےمراد شریعتِ اسلامیہ کےمطابق فیصلہ کرنے والے ہیں کیونکہ حضرت عیسیٰکا نزول بہ حیثیت نبی کے نہیں ہو گا بلکہ نبی کریمﷺکےاُمتی کی حیثیت سے ہو گا اور آپ کے ذریعے سے قیامت کے قریب شریعتِ محمدیہ کا نفاذ اور اسلام کا غلبہ ہو گا کہ تمام ادیان ختم ہو جائیں گے اور صرف اسلام کا بول بالا ہو گا ۔
یہ احادیث اتنی کثرت سے آئی ہیں (صحیحین میں بھی ہیں) کہ اُنہیں تواتر کادرجہ حاصل ہے اور انہی متواتر صحیح روایات کی بنیاد پر اہل سنت کے تمام مکاتبِ فکر کامتفقہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ آسمان پر زندہ ہیں اور قیامت کے قریب دنیا میں ان کا نزول ہو گا اور دجال کا اور تمام ادیان کاخاتمہ فرما کر اسلام کو غالب فرمائیں گے۔ ان احادیث میں اس امر کی بھی صراحت ہے کہ یاجوج وماجوج کاخروج بھی حضرت عیسیٰہی کی موجودگی میں ہوگا او رانہی کی دعا کی برکت ہی سے اس فتنے کا بھی خاتمہ ہو گا۔
ان احادیث سے یہ بھی واضح ہے کہ نزولِ دنیا کے بعد ہی آپ کو موت آئے گی جب کہ یہودی اور عیسائی بھی آپ پر ایمان لے آئیں گے یعنی مسلمان ہو کر حضرت عیسیٰکی بابت وہی عقیدہ اپنا لیں گے جو مسلمانوں کا ہے ۔اس لحاظ سے آیت
﴿وَإِن مِن أَهلِ الكِتـٰبِ إِلّا لَيُؤمِنَنَّ بِهِ قَبلَ مَوتِهِ وَيَومَ القِيـٰمَةِ يَكونُ عَلَيهِم شَهيدًا ﴿١٥٩﴾... سورةالنساء. کی زیادہ صحیح تفسیر یہی ہے کہ دونوں ضمیروں کامصداق حضرت عیسیٰ ہیں یعنی
ليؤمنن بعيسىٰ قبل موت[12]امام ابن جریر طبری اور امام ابن کثیر نے بھی اسی کو اولیٰ الاقوال (سب سے بہتر رائے) قرار دیا ہے ۔
دوسری آرا : دوسری آرامیں سے ایک رائے یہ ہے کہ بِهٖ میں ضمیر کا مرجع حضرت عیسیٰ اور مَوْتِهٖ میں ضمیر کا مرجع اَحَد (محذوف) مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ ہے۔اس کامطلب ہو گا کہ اہل کتاب میں سے ہر ایک اپنی موت سے پہلے حضرت عیسیٰپر ایمان لے آتا ہے گو اس وقت ان کا ایمان لانا ان کے لیے نافع نہیں ہوتا ۔ کیونکہ آثارِ موت دیکھ لینے کے بعد ایمان لانا غیر مقبول ہے ۔
ایک رائے یہ ہے کہ بِهٖ میں ضمیر کا مرجع حضرت محمد رسول اللّٰہﷺاور مَوْتِهٖ میں ضمیر کا مرجع کِتَابِي ہے۔ مطلب ہو گا کہ ہر یہودی اور نصرانی اپنی موت سے پہلے محمد رسول اللّٰہﷺپر ایمان لے آتا ہے ۔ گو یہ ایمان بھی غیر نافع ہے ۔
اصلاحی صاحب نے ان تینوں رایوں سے الگ ایک چوتھی رائے یہ اختیار کی ہے کہ پہلی ضمیر کا مرجع قرآنِ مجید ہے اور دوسری ضمیر کا مرجع آنحضرتﷺ ہیں۔ اور مطلب یہ بیان کیا ہے کہ آج تو یہ یہودی اور عیسائی قرآنِ مجید اور محمد رسول اللّٰہﷺکی صداقت کو تسلیم نہیں کر رہے ہیں لیکن وہ وقت دور نہیں ہے جب یہ قرآن اور پیغمبر کی کہی ہوئی ایک ایک بات واقعات کی شکل میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے ۔( خلاصہ )
[13]اس رائے کو موصوف نے سلف میں سے حضرت عکرمہ کی رائے قرار دیا ہے جب کہ ان کی رائے اس سے مختلف ہے اور وہ پہلی ضمیر کا مرجع قرآن کریم کونہیں ،بلکہ محمد رسول اللّٰہﷺ کو اور دوسری ضمیر کا مرجع ’کتابی‘ کو قرار دیتے ہیں جیسا کہ ہم نے اسے تیسری رائے کے طور پر نقل کیاہے ۔
[14] گویا اصلاحی صاحب کی رائے کا سلف میں سے کوئی بھی قائل نہیں ۔
بہر حال اس تفصیل سے ہمارا اصل مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ زیر بحث آیت جس سیاق میں ہے، وہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ اہل کتاب (یہود) کےاس موقف کی نفی فرما رہا ہے کہ اُنہوں نے حضرت عیسیٰکو سولی پر چڑھا کر قتل کر دیا ہے بلکہ اللّٰہ تعالیٰ نےان کے مکر کو ناکام فرما کر آسمان پر اٹھا لیا ۔(اورحدیث میں اس کی مزید وضاحت یہ آئی ہے کہ ) ایک وقت آئے گا کہ وہ قیامت کے قریب آسمان سے دنیا میں آ ئیں گے (گویا وہ اب تک زندہ ہیں ، ان کو موت نہیں آئی) آ کر دجال کوقتل کریں گے ،اسلام کو غالب کریں گے اور جب ان کو موت آئے گی تو اس سے پہلے پہلے اہل کتاب ان پرایمان لا چکے ہوں گے۔گویا قرآن کا یہ سیاق ،یعنی نظم حضرت عیسیٰ کی موت کی نفی اوردوبارہ نزول کے بعد موت کا اثبات کر رہا ہے ۔
اور اصلاحی صاحب’نظم قرآن‘ کی تمام تر دہائی کے باوجود’نظم‘کےخلاف اُن کی موت کا موقف اختیار کر کے’نظم قرآن‘ کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں۔
قرآن کریم کی ’نظم کشائی‘ کا کیا خوب مظاہرہ ہے ؟
فَاعْتَبِرُوْا يٰۤاُولِي الْاَبْصَارِ2۔حدیث کی حجیت واہمیت کا اقرار بھی اوراس کا انکار بھیحدیث کےبارے میں بھی اصلاحی صاحب کا رویہ سخت تضاد پر مبنی ہے جس کی وجہ سے لوگ اُنہیں حامیٔ حدیث ہی سمجھتے ہیں کیونکہ ان کے افکار کی پٹاری میں دونوں قسم کی چیزیں ہیں، حمایت والی بھی اور حدیث سے بغض و عناد والی بھی۔ بہت سے لوگ ، جو اُن کے صرف ایک ہی پہلو پر نظر رکھتےہیں ،یا ان کی عقیدت مندی دوسرے پہلو کو دیکھنے ہی میں مانع ہے، یا جنہوں نے صرف ان کی گمراہی سے پہلے کی کتابیں اورتحریریں پڑھی ہیں، ایسے تمام لوگ ان کے گمراہانہ افکار کو سمجھنے ہی سے قاصر ہیں یا ان سے ناآشناے محض ہیں ۔
گزشتہ تفصیلات اور مباحث سے روزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ موصوف احادیث کےانکار میں نہایت بےباک ہیں حتی کہ احادیثِ صحیحہ سےثابت مسلمات ِاسلامیہ کے بھی وہ منکر ہیں جس کا تصور ایک حامی حدیث سے نہیں کیا جا سکتا ۔ یہ پہلو تو الحمد للہ ہماری وضاحتوں اور حوالوں سے واضح ہے جس کا انکار آفتاب نصف النہار کے جھٹلانے کے مترادف ہے ۔
دوسرار خ ،حدیث کی حجیت کا اعتراف اس لیے اب ہم ان کادوسرا چہرہ پیش کریں گےجس کی وجہ سے لوگ ان کو’حامیٔ حدیث‘ ہی سمجھتے ہیں۔ حدیث کی حجیت واہمیت کی بابت ان کی صراحتیں ملاحظہ ہوں:
سورۃ بقرہ کی آیت:129 میں دعائے ابراہیمی
﴿يَتلوا عَلَيهِم ءايـٰتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الكِتـٰبَ وَالحِكمَةَ ...﴿١٢٩﴾... سورةالبقرة. کی تفسیر میں اصلاحی صاحب لکھتے ہیں :
’’اب آئیے تعلیم کتاب و حکمت کےالفاظ پرغور فرمائیے۔یہ بات بالکل واضح ہے کہ تعلیم تلاوت سے ایک بالکل مختلف چیز ہے۔ تلاوتِ آیات تو یہ ہوئی کہ رسول نے لوگوں کو آگاہ کر دیا کہ خدا نے اس کے اوپر یہ وحی نازل کی ہے ۔ تعلیم یہ ہے کہ نہایت شفقت و توجہ کے ساتھ ہر استعداد کےلوگوں کے لیے اس کی مشکلات کی وضاحت کی جائے،اس کے اجمالات کی تشریح کی جائے ، اس کے مقدرات کھولے جائیں اور اس کے مضمرات بیان کیے جائیں اور اس توضیح و بیان کے بعد بھی اگر لوگوں کے ذہنوں میں سوالات پیدا ہوں تو ان کے سوالوں کےجواب دیے جائیں ۔مزید برآں لوگوں کی ذہنی تربیت کے لیے خود ان کےسامنے سوالات رکھے جائیں اور ان کےجوابات معلوم کرنے کی کوشش کی جائے... یہ ساری باتیں تعلیم کے ضروری اجزامیں سے ہیں ... اور آپ نے اپنے صحابہ کے لیے تعلیم کتاب کے یہ تمام طریقے اختیار فرمائے ۔
تعليم كے ساتھ یہاں دو چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے : ایک کتاب کا ،دوسری حکمت کا ۔کتاب سے مراد تو ظاہر ہےکہ قرآن مجید ہے ...حکمت کا ذکر یہاں کتاب کےساتھ اس بات پر دلیل ہے کہ تعلیم
حکمت ،تعلیم کتاب سے ایک زائد شے ہے اگرچہ یہ حکمت سرتا سر قرآن کریم ہی سےماخوذ و مستنبط ہو، اس وجہ سے ہمارے نزدیک جو لوگ
حکمت سے حدیث مراد لیتے ہیں، ان کی بات میں بڑا وزن ہے۔ ‘‘
[15]دیکھ لیجئے الفاظ کی حد تک یہاں اس بات کا اعتراف ہے کہ حکمت سے ،حدیث مراد لینے میں بڑا وزن ہے علاوہ ازیں اس سے پہلے تعلیم کتاب کی جو تشریح موصوف نے کی ہے، وہ کیا ہے ؟ کیا اسی کا نام حدیث نہیں ہے ؟ اور وہ تشریح کہاں ہے؟ کیا یہ تشریح وہی نہیں ہے جو احادیثِ صحیحہ کے مستند مجموعوں میں محفوظ ہے؟ اور یہ تشریحاتِ نبوی کیا متواتر ہیں؟ نہیں۔ بلکہ اصطلاحی طور پر آحاد ہی ہیں۔ پھر اخبارِ آحاد ،یعنی احادیثِ آحاد حجت کیوں نہیں؟
اگر احادیثِ آحاد حجت نہیں ، تو تعلیم کتاب کی تشریح میں اصلاحی صاحب نے جو کچھ فرمایا ہے، وہ کہاں ہیں؟ اُمت آج ان سے استفادہ کرنا چاہے تو کس طرح استفادہ کرے۔ قرآن تو محفوظ ہے لیکن یہ تشریحات نبوی اگر غیر محفوظ ہیں تو نبی اکرمﷺکی تعلیم کتاب کی ساری کاوشیں تو (نعوذ باللّٰہ) بے کار گئیں۔ کیونکہ ان کامستند ریکارڈ ہی محفوظ نہیں ۔
اگرچہ اُمّت مسلمہ کے نزدیک تو الحمدللہ قرآن کریم ہی کی طرح تشریحاتِ نبوی کامستند ریکارڈ بھی محفوظ ہے لیکن بات تو اصلاحی صاحب اور ان جیسے مُشکّکین حدیث کی ہے جو حدیث کے مستند مجموعوں کو بھی نہ محفوظ سمجھتے ہیں اور نہ قرآن کی تفسیر و توضیح میں ان کو اہمیت دیتے ہیں۔ حدیث سے ان کی ’محبت‘ صرف زبان کی حد تک ہے ،عملاً وہ حدیث دشمنی میں کسی بھی بڑے سے بڑے منکر حدیث سے کم نہیں ۔
حدیث کی حجیت و اہمیت پر ان کا ایک اور اقتباس ملاحظہ ہو:
سورۃ بقرہ کی آیتِ مذکورہ جس میں تعلیم کتاب وحکمت کو نبی کریمﷺکے فرائض نبوت بتلایا گیاہے، انہی الفاظ میں وہ آیت سورۃ الجمعہ میں بھی آئی ہے ۔ اصلاحی صاحب فرماتے ہیں :
’’یہاں نبی کریمﷺکی جو صفات مذکور ہوئی ہیں، ان پر سورۃ بقرہ کی تفسیر میں ہم مفصل بحث کر چکے ہیں ۔ اس پر ایک نظر ڈال لیجئے تاکہ آپ کی بعثت کے مقاصد کے متعلق جو غلط فہمیاں منکرین حدیث نے پھیلائی ہیں وہ دور ہو جائیں۔‘‘
[16]مزید ملاحظہ فرمائیں ۔اسی سورۃ الجمعہ کی تفسیر میں آگے چل کر لکھتے ہیں :
’’اگرچہ آیات کے تحت ان سے مستنبط ہونےوالی باتوں کی طرف ہم توجہ دلاتے آرہے ہیں لیکن چند باتیں مزید توجہ کی مستحق ہیں :
ایک یہ کہ جمعہ کی نماز، اس کی اذان اوراس کےخطبہ سے متعلق یہاں مسلمانوں کو ہدایات دی گئی ہیں او ران کی ایک غلطی پر جس طرح تنبیہ فرمائی گئی ہے، اس کا انداز شاہد ہے کہ جمعہ کے قیام سے متعلق ساری باتیں اللّٰہ تعالیٰ کےحکم سے انجام پائی ہیں حالانکہ قرآن میں کہیں بھی جمعہ کاکوئی ذکر نہ اس سے پہلے آیا نہ اس کےبعد ہے بلکہ روایات سےثابت ہے کہ اس کے قیام کا اہتمام ہجرت کے بعد مدینہ پہنچ کرنبی کریمﷺنےفرمایا اور لوگوں کو آپ ہی نے اس کے احکام و آداب کی تعلیم دی۔پھر جب لوگوں سے اس کے آداب ملحوظ رکھنے میں کچھ کوتاہی ہوئی تواس پر قرآن نے اس طرح گرفت فرمائی گویا براہِ راست اللّٰہ تعالیٰ ہی کے بتائے ہوئے احکام و آداب کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ رسول کی طرف ان کی نسبت کی تحقیق تو ضروری ہے لیکن نسبت ثابت ہے توان کا انکار خود اللّٰہ تعالیٰ کے احکام کا انکار ہے ۔ ‘‘
[17]قرآن کی طرح حدیث کےماخذِ شرعی ہونے کا کیسا واشگاف اعلان واظہار ہے۔لیکن حیاتِ عیسیٰ کی بابت مسلّمہ احادیث کا انکار بھی ملاحظہ فرمائیں جس کا مکمل اقتباس پہلے گزرا۔ لیکن ان کاتضاد دیکھیے کہ ’’رسول کے دیے ہوئےاحکام بعینہٖ اللّٰہ تعالیٰ کےاحکام ہیں،ان کا ذکر قرآن میں ہو یا نہ ہو ۔‘‘
دوسری طرف فرمانِ اصلاحی ہے :
’’قرآن میں کہیں نہیں ہے کہ مسیحؑ دوبارہ آئیں گے، اتنا بڑا عقیدہ قرآن میں ہونا چاہیے تھا، اخبار آحاد پر ہم کوئی عقیدہ قائم نہیں کر سکتے۔‘‘
[18]حیات ِعیسیٰاور دوبارہ نزول کی احادیث 85 صحابہ سے مروی ہیں ،پھر بھی وہ آحاد ہیں۔ چہ خوب ؟
دوسرےاحادیث کی یہ تقسیم آحاد اور متواتر؟ یہ قرآنِ کریم کی کس آیت سےثابت ہے ؟ چلیں، اس کو بھی چھوڑیے،صحابہ کرامؓ اور تابعین کےدور کے جو خیر القرون ہیں، کسی بھی ایک صحابی ،تابعی ،تبع تابعی کا قول دکھلا دیں جس نے یہ تقسیم کی ہو ۔
تیسرے ،یہ قرآن کی کس آیت سے ثابت ہے کہ احادیثِ آحاد سےکوئی عقیدہ ثابت نہیں ہوسکتا ۔
چوتھے ، جمعہ کے احکام و آداب ،جو قرآن میں نہیں ہیں،رسول نے دیے ہیں، آپ کے نزدیک وہ واجب التسلیم ہیں۔ ہم پوچھتے ہیں وہ کیوں واجب التسلیم ہیں؟ کیا وہ اخبارِ آحاد نہیں ہیں؟
رجم کی حد کا ذکر قرآن میں نہیں ہے ۔ہاں احادیث میں ہے جوتین درجن سےزیادہ صحابہؓ سے مروی ہیں۔ اللّٰہ کے رسول کا یہ حکم اور اس پر عمل بھی ،فراہی گروہ کو کیوں قبول نہیں ہے جب کہ بقول اصلاحی صاحب
’’رسول کے حکم کا ذکر قرآن میں ہو یا نہ ہو ، وہ بعینہٖ اللّٰہ کا
حکم ہے اور اس کا انکار اللّٰہ کے احکام کےانکار ہے ۔‘‘
ایک اور اقتباس ملاحظہ ہو ، یہ اقتباس حالتِ خوف ختم ہو جانے کے بعد اقامتِ صلاۃ کے حکم الٰہی کےضمن میں ہے ۔ ملاحظہ فرمائیے:
’’اس آیت (سورۃ النساء: 103)سےایک تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اوقات کی پابندی اقامتِ صلوٰۃ کی شرائط میں سے ہے۔ دوسری یہ بات نکلتی ہے کہ نبی کریمﷺنےاہل ایمان پر جو کچھ فرض کیا ہے، وہ عین اللّٰہ تعالیٰ کا مقرر کردہ فریضہ ہے درآنحالیکہ اوقاتِ نماز تمام تر نبی کریمﷺ کے مقرر کردہ ہیں، قرآن میں ان کی کوئی صراحت نہیں ہے ۔ ‘‘
[19] اصلاحی صاحب کےحلقۂ تلمذ سےسوال ہے کہ رجم بھی نبی کریم ﷺکی مقرر کردہ سزا ہے ، اس کا انکار کیوں؟ اگر اس کاانکار اس بنا پر ہے کہ قرآن میں اس کا ذکر نہیں ہے ۔ تو پھر اوقاتِ نماز، قرآن میں ان کی صراحت نہ ہونے کے باوجود ،کیوں تسلیم ہیں؟
عقیدہ حیات مسیح کا انکار کیوں؟ کیا یہ احادیث سے ثابت نہیں ہے ؟
اگر کہا جائے کہ نزول مسیح کی روایات ’آحاد‘ ہیں اس لیے قابل قبول نہیں تو اوقاتِ نماز کی احادیث کیا آحاد نہیں ہیں؟
3۔صحابہ کا اجماع حجّت ہے!1956ءمیں’سنتِ خلفاے راشدین‘ کےعنوان سے ماہنامہ ’ترجمان القرآن ‘لاہور(فروری) میں اصلاحی صاحب کا ایک مفصل مضمون ،آٹھ صفحات پر مشتمل شائع ہوا تھا ۔ یہاں ان کے تضاد کو واضح کرنے کے لیے اس کا ضروری حصہ نقل کیاجاتا ہے ۔ فرماتےہیں :
’’اب میں یہ بتاؤں گا کہ میں خلفائے راشدین کےاس طرح طے کردہ مسائل کو کیوں سنت کا درجہ دیتا ہوں ۔ میرے نزدیک اس کے وجوہ مندرجہ ذیل ہیں :
1۔اس کی پہلی وجہ تو وہ حدیث ہے جس میں نبی کریمﷺنے خود خلفائے راشدین کی سنت کوسنت کا درجہ بخشا ہے اور اسی حیثیت سے اس پر عمل کرنے کی ہدایت فرمائی ہے ۔
2۔دوسری وجہ یہ ہے کہ اجماع ہمارے ہاں ایک شرعی حجت کی حیثیت رکھتا ہے اور اجماع کی سب سے اعلیٰ قسم اگر کوئی ہو سکتی ہے تو وہی ہو سکتی ہے جس کی مثالیں خلفاءراشدین کےعہد میں ملتی ہیں ۔
3۔تیسری وجہ یہ ہے کہ ابتدا سےخلفائے راشدین کے تعامل کوملت میں ایک مستقل شرعی حجت کی حیثیت دی گئی ہے ۔
4۔چوتھی وجہ یہ ہے کہ دین کی تکمیل اگرچہ حضور نبی کریمﷺکے ذریعے سے ہوئی ہے لیکن امت کی اجتماعی زندگی میں اس کے مضمرات کا پورا مظاہرہ حضرات خلفاے راشدین کے ہاتھوں ہوا ....‘‘
[20]تفسیر میں بھی اجماع کی اہمیت کو نہ صرف تسلیم کیا ہے بلکہ اسے رفع اختلاف کے لیے ایک منصوص طریقہ قرار دیا اور کہا ہے کہ اس کی مخالفت کسی کے لیے جائز نہیں ہے ۔
[21]ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا حد رجم پر صحابہ کا اجماع ہے یا نہیں ؟ نزولِ مسیح پر اجماع ہے یا نہیں ؟ معراج کے جسمانی ہونے پر صحابہ کااجماع ہے یا نہیں ؟ او راب ان اجماعی مسائل سے انحراف یا ان کا انکار اصلاحی صاحب کا تضاد ہے یا نہیں ؟ اصلاحی صاحب کا حلقۂ ارادت و تلمذ جواب دے!!
4۔ائمہ اربعہ کا اتفاق بھی دین میں حجت ہے !اصلاحی صاحب اپنے دو رِاوّل میں اس بات کے بھی قائل رہے ہیں کہ جس مسئلے میں ائمہ اربعہ بھی متفق ہوں تو ان کا یہ اتفاق بھی اجماعِ امّت کے مترادف اوردین میں حجت ہے۔ موصوف کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
’’ایک انطباق تو وہ ہے جس پر خلفاے راشدین اپنے دور کے اہل علم و تقویٰ کے مشورے کے بعد متفق ہو گئے ہیں۔ یہ اسلام میں اجماع کی بہترین قسم ہے اور یہ بجائے خود ایک شرعی حجت ہے۔ اسی طرح ایک انطباق وہ ہے جس پر ائمہ اربعہ متفق ہو گئے ہیں۔ یہ اگرچہ درجے میں پہلی قسم کےاجماع کے برابر نہیں ہے تاہم چونکہ یہ امت من حیث الامت ان ائمہ پر متفق ہو گئی ہے .... اس وجہ سے ان ائمہ کے کسی اجماع کو محض اس دلیل کی بنا پر ردّ نہیں کیا جا سکتا ہے کہ یہ معصوم نہیں تھے۔ یہ معصوم تو بےشک نہیں تھے لیکن ان کے معصوم نہ ہونے کےمعنیٰ ہرگز یہ نہیں ہیں کہ کسی امر پر ان کا اتفاق بھی دین حجت نہ بن سکے۔ ‘‘
[22]اب اصلاحی صاحب کے ارادت مندہی واضح فرما دیں کہ حدِ رجم پر ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے یا نہیں؟ اگر اتفاق ہے تو حد رجم (شادی شدہ زانی کے لیے )حد شرعی ہے یا نہیں ؟
عقیدہ نزولِ مسیح پر ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے یا نہیں؟اگر ہے تواس پر ان کا اتفاق دین میں حجت ہے یا نہیں ؟
معراج کےجسمانی ہونے پر ان ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے یا نہیں ؟ اگر ہے تو پھر اس کا انکار کیوں؟
5۔کتاب وسنت کی تعبیر میں سلف صالحین کی پیروی یہ عنوان اصلاحی صاحب ہی کا مقرر کردہ ہے جب وہ صالح الفکر اور زیغ و ضلال سے محفوظ تھے، اس عنوان کےتحت’تجدد پسندوں‘ کو اُنہوں نے تنبیہ فرمائی ہے کہ وہ ’شوقِ اجتہاد‘ میں اسلاف کی تعبیر سےاختلاف نہ کریں،اگر اُنہوں نے نئی تعبیریں کیں تو لوگ ہرگز قبول نہ کریں گے۔ ان کی اصل عبارت ملاحظہ ہو :
’’تدوین قانون کے کام کے ہر مرحلے میں یہ حقیقت پیش نظر رکھی جائے کہ مسلمان کتاب وسنت کی جن تعبیروں پر اعتماد رکھتے ہیں،انہی تعبیروں پرمبنی ضابطۂ قانون بنایا جائے۔اگر اپنی طرف سے نئی تعبیریں محض شوقِ اجتہاد میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی تو ان کولوگ ہرگز قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوں گے۔ (آگے چل کر مزید دیکھتے ہیں) سلامتی کا راستہ ہمارے نزدیک یہی ہےکہ کتاب وسنت کی تعبیرات میں سلف صالحین کی پیروی کی جائے۔‘‘
[23]اصلاحی صاحب کایہ اقتباس ،ان کی تفسیری کاوشوں پر ، جس میں انہوں نے جابجا سلف صالحین کی تعبیرات سےشدید اختلاف و انحراف کیا ہے ،خطِ تنسیخ پھیر دیتاہے ۔
ان کی تفسیر کتاب وسنت کی تعبیرات میں سلف صالحین کے منہج سے سراسر ہٹی ہوئی ہے، بنا بریں وہ ہرگز قابل قبول نہیں ۔ پتہ نہیں اتنا بڑا تضاد اب بھی ’تدبر‘ کے گن گانے والوں کو نظر آئے گا یا نہیں؟ کیونکہ حضرت ابو دردا کا قول ہے:
حبّك الشيء يعمى ويصم[24]’’تیرا کسی چیز سے محبت کرنا ، اندھا اور بہرا کر دیتا ہے ۔ ‘‘ 6۔روایت بالمعنی کےبارے میں سخت متضاد رویہ راویانِ حدیث (صحابہ کرامؓ سےلے کر جامعین حدیث تک) سب نہایت ثقہ، قوی الحافظہ اور عادل و ضابط تھے، اس لیے محدثین نے ان کی بیان کردہ روایات کو صحیح قرار دے کر کتابوں میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا ۔کسی محدث نے بھی روایت باللفظ اور روایت بالمعنیٰ کی بحث نہیں چھیڑی ،کیونکہ یہ قطعاً غیر ضروری تھی۔ لیکن جب سے احادیث کو کنڈم کرنے کا رجحان پیدا ہوا ، اس وقت سے ردّ ِحدیث کے دیگر طریقوں کے ساتھ روایت بالمعنی کا حربہ بھی منکرین حدیث نےاختیار کیا۔
اصلاحی صاحب نے بھی یہ حربہ اختیار کیا ہے لیکن اس معاملے میں بھی انہوں نے عجیب متضاد رویہ اختیار کیاہے ۔ وہ روایت بالمعنی کا ہوا کھڑا کر کے راویانِ حدیث کی ثقاہت کو بھی مجروح کرتے ہیں اور ساتھ ہی روایت بالمعنی کی ناگزیریت کو تسلیم بھی کرتے ہیں کہ اس کےبغیر احادیث کا بہت سا حصہ ہم تک نہ پہنچ پاتا۔ نیز یہ اعتراف بھی کرتے ہیں کہ
’’یہ سب راوی میری نظر میں ثقہ اور بڑے لوگوں سے ہیں۔اگر انکے ہاں الفاظ میں کچھ اختلاف بھی ہوتا ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پیدا ہوتا، اس لیے کہ وہ سب ایسے لوگ ہیں کہ اگر روایت بالمعنی بھی کریں تب بھی حقیقت نہیں بدلتی کیونکہ وہ دین کو سمجھنے والے لوگ ہیں ،عام لوگ نہیں ۔ ‘‘
[25]اگرچہ یہ اقتباس درود کے مختلف الفاظ روایت کرنے والے مختلف راویوں کے بارے میں ہیں۔ لیکن ان کے الفاظ تمام راویانِ حدیث کے بارے میں ہیں۔ علاوہ ازیں اس ضمن میں ا ن کے دیگر اقتباسات بھی اس سے پہلے ہم نقل کر آئے ہیں جہاں روایت بالمعنی کی اہمیت و ضرورت کااعتراف کیاہے ۔ قارئین کرام یہ تفصیلی بحث اصلاحی صاحب کی شرح صحیح بخاری پر ہمارے تفصیلی نقد میں ملاحظہ کر سکتے ہیں ۔
7۔محدثین کی خدمات کااعتراف بھی اور انکار بھی محدثین کرام نےحدیث کی حفاظت ،جمع و تدوین اوران کی تحقیق و تنقیح کا جو بے مثال اور عظیم الشان کارنامہ سرانجام دیا ہے، اس کی بابت اصلاحی صاحب کامفصل اقتباس ہم پہلے نقل کر آئے ہیں جس میں انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ ’’ان اکابرین فن نے تحقیق کی معراج کی بلندیوں کوچھوا ہے اور انسانی امکان کی حد تک اس فن کی خدمت کی ہے ۔ ‘‘
[26] لیکن دوسری طرف’مبادئ تدبر حدیث‘جیسی فضول کتاب لکھ کر محدثین کی ساری کاوشوں پر پانی پھیر دیا ہے اور کہا ہے کہ ابھی حدیث کی تحقیق میں کئی خلا باقی ہیں۔گویا جب تک یہ خلاپر نہیں ہوں گے ،محدثین کی ساری محنتیں بھی برباد ہیں اور احادیث کے سارے مجموعے بھی ناقابل اعتبار وناقابل اعتماد ہیں ۔ انا لله وانا اليه راجعون کتنا بڑا تضاد ہے موصوف کےرویے اور اقوال میں !!
8۔حدیث ِواحد کا اقرار بھی ،انکار بھی !اصلاحی صاحب کےانکارِ حدیث کی مذکورہ صورتیں جو قارئین کرام نے گزشتہ صفحات میں ملاحظہ فرمائیں، ان سب کی بنیاد ان کا یہ فرمان تھا کہ ’’یہ ’آحاد‘ہیں اس لیے یہ ظنی ،یعنی مشکوک ہیں ۔‘ ‘ اس پر اطمینان اور اعتماد نہیں کیا جا سکتا ( اس پر ہم الحمد للہ علیحدہ تفصیل سے بحث کر چکےہیں) لیکن اب تصویر کا دوسرا رخ ،یعنی اخبار آحاد کی اہمیت بھی ان کے الفاظ میں ملاحظہ ہو:
’’ہمارے نزدیک اسلام نےزندگی کےمعاملات چلانے کے لیے ہمیں اخبارِ متواتر کے ساتھ نہیں باندھا ہے، زندگی کےاکثر معاملات اخبارِ آحاد ہی سے چلتے ہیں۔لہٰذا فطرت اور شریعت کامطالبہ ہم سے یہ نہیں ہے کہ جب تک کسی امر میں ہمیں پورا یقین نہ ہو جائے، اس وقت تک ہم اس کو باور ہی نہ کریں۔ اگر ایسا ہوتا تو زندگی محال ہو جاتی ۔ زندگی بسر کرنے کے لیے یہ کافی ہے کہ ظن غالب پراعتماد کیا جائے۔ عام دنیوی معاملات میں تو کافر و مؤمن کےامتیاز کے بغیر ہر ایک کی بات ماننی پڑتی ہے، اِلا آنکہ کسی بات کے جھوٹا ہونے کا کوئی واضح قرینہ موجود ہو۔ اس معاملے میں عام مروّجہ ذرائع معلومات پر ہی اعتماد کرنا ہو گا۔ اس امر کی تحقیق میں نہیں پڑیں گے کہ اس خبر کا راوی کس درجے کا ہے ۔
رہے دینی معاملات تو ان میں ہدایت یہ ہے کہ اگر کوئی فاسق کوئی اہم خبر دے تو اس کی تحقیق کی جائے گی جیسا کہ اللّٰہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِن جاءَكُم فاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنوا...﴿٦﴾... سورة الحجرات.[27] ’’اےایمان والو!اگر تمہارے پاس کوئی فاسق کوئی اہم خبر لائے تو اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو۔ ‘‘
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآنِ مجید نے خبر واحد کے ردّ و قبول میں خبر دینےوالے کی شخصیت، روایت کی نوعیت ،قرائن اور خصوصیات ہی پر اعتماد کا حکم دیا ہے ۔ اگر خبر دینے والا فاسق نہیں ہے تو تحقیق کی ضرورت نہیں ہے ۔ اگرچہ وہ خبر اہم ہی ہے ۔لیکن اگر وہ فاسق ہے تو روز مرہ کے عادی امور میں تو تحقیق کی ضرورت نہیں ہو گی، البتہ اہم معاملات میں تحقیق کی جائے گی۔ اس شکل میں خبر دینے والے اور خبر دونوں کے متعلق تحقیق ہو گی۔ ....علیٰ ہذا القیاس خبر کی نوعیت پر بھی غور ہو گا اور اس کے قرائن اورخصوصیات کا بھی جائزہ لیا جائے گا، اگر یہ تمام چیزیں اس کی تائید میں ہوں گی تو اس کی بات باور کی جائے گی ورنہ ردّ کر دی جائے گی۔‘‘
اس کے بعد ’خلاصۂ بحث‘ کا عنوان قائم کر کے لکھتے ہیں :
’’
خلاصۂ بحث:اخبارِ آحاد پیغمبر کے علم کے منتقل ہونے کا بہت بڑا ذریعہ ہیں لیکن یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ ہر خبر واحد حجت قائم کرنےکے لیے کافی ہے ۔ اخبار آحاد محض آحاد ہونے کی بنا پر ناقابل اعتبار نہیں قرار دی جائیں گی بلکہ ان پر اعتماد کیا جائے گا ..... ‘‘
[28]اخبار آحاد کےبارے میں اصلاحی صاحب کا یہ اقتباس ان کے انکار حدیث کے تمام حربوں کو ملیا میٹ کر دیتا ہے ،کاش وہ اپنے اتنے بڑے فکری تضاد کومحسوس کر تے اورانکارِ حدیث کے فتنے کو برگ وبار مہیا نہ کرتے ۔
9۔ تورات کےبارے میں قول وعمل کا تضاد تورات کے بارے میں یہ بات مسلّمہ ہے کہ اس میں اتنی تحریفات ہو چکی ہیں کہ اس کے کسی بیان پر اعتماد نہیں کیاجا سکتا ۔حتی کہ خود اصلاحی صاحب کو بھی اس مسلّمہ حقیقت کاانکار نہیں بلکہ اعتراف ہے ۔ چنانچہ تورات کےمحرف اور ناقابل اعتبار ہونے کےمتعلق موصوف کے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:
’’یہ یاد رکھنا چاہیے کہ تورات کئی مرتبہ غائب ہوئی ہے اور کئی مرتبہ زبانی روایات کے ذریعے سےمرتّب ہوئی ہے ۔اس وجہ سے اس کے نسخوں میں اختلاف بھی ہوا اور اس کے اندر برابر کمی بیشی بھی ہوتی رہی ہے ۔ ‘‘
[29]دوسری جگہ فرماتےہیں :
’’تورات کے متعلق یہ بات یادرکھئے کہ اس میں صرف تحریف ہی نہیں ہوئی ہے بلکہ وہ متناقض روایات کامجموعہ بھی ہے۔ اس سے یہ پتہ چلانا ناممکن ہے کہ اس میں کتنا حصہ حق ہےاور کتنا باطل ومحرف ۔تورات کے اس طرح مسخ ہوجانے کے سبب سے یہود خدا کی دی ہوئی روشنی سےمحروم ہو کر بالکل تاریکی میں گھر گئے تھے۔ ‘‘
[30] ایک اور مقام ملاحظہ فرمائیں :
’’یہ واقعہ ہے کہ تورات کےمختلف حصوں میں ایک ہی بات اتنے متضاد طریقوں سے بیان ہوئی ہے کہ اصل حقیقت تک پہنچنا نہایت دشوار بلکہ ناممکن ہے ۔ ہماری اس کتاب میں تورات کے تضادات کی متعدد مثالیں گزر چکی ہیں ... تورات میں اس طرح کے تضادات کے پیدا ہونے کی وجہ سے ہم پیچھے اشارات کر چکے ہیں کہ حفاظت کا وہ اہتمام اس کو حاصل نہ ہو سکا جو قرآن کوحاصل ہوا۔ اس پر متعدد بار ایسی آفتیں آئیں کہ پوری تورات ناپید ہوگئی۔ بعد میں جن بزرگوں نے اس کو مرتب کیا محض اپنی یاد داشت سے محفوظ کیا اور یہ بھی نہیں معلوم کہ اس کے مرتب کرنے والے لوگ کون او رکن صفات کے لوگ تھے۔ اس کے بعض صحیفے بالکل صیغۂ راز میں رکھے جاتے تھے جن کے مندرجات سے خاص محرمانِ راز کے سوا دوسرے لوگ واقف نہیں ہو سکتے تھے ۔اس لیے کہ ان میں ایسی باتیں تھیں جن کی عام اشاعت علماے یہود اپنے مصالح کے خلاف سمجھتے تھے ۔ اس طرح کی باتوں میں اُنہوں نے اپنے حسبِ منشا تحریفات بھی کیں اور وہ اس تحریف میں کامیاب ہو گئے۔ کسی ایسی کتاب میں تناقضات کا پیدا ہو جانا ذرا بھی تعجب انگیز نہیں ہے اور ان تناقضات کا بالکل بدیہی اور لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اصل حقیقت بالکل گم ہو جائے ۔ لوگ اسی تاریکی میں پھر گھر جائیں جن سے نکالنے کے لیے اللّٰہ تعالیٰ نے یہ روشنی نازل فرمائی تھی اوران کے درمیان ایسے اختلافات پیداہو جائیں جن کودور کرنے کی کوئی سبیل باقی ہی نہ رہ جائے ۔ ‘‘
[31]اسی سلسلۂ بیان میں آ گے چل کر اصلاحی صاحب مزید لکھتے ہیں :
’’یہ نتیجہ بیان ہوا ہے اس اختلاف و تناقض کا جو تورات میں پیدا کر دیا گیا ۔ظاہر ہے کہ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تورات کی ہر چیز خود اہل تورات کی نگاہوں میں مشکوک ہوگئی جس سے حق و
باطل کا امتیاز ناممکن ہو گیا ... ۔ ‘‘
[32]تورات کے بارے میں اصلاحی صاحب کی وضاحتوں کا خلاصہ 1. تورات كئی مرتبہ ناپید ہوئی ۔
2. (کئی مرتبہ ) یاد داشتوں سے مرتب ہوئی ۔
3. مرتب کرنے والے کون تھے اور کن اوصاف کےحامل تھے ؟ نامعلوم ہیں ۔
4. اس کےبہت سے حصے صیغۂ راز میں رکھے گئے ۔
5. اس کےنسخوں میں بھی اختلافات ہیں ۔
6. یہ تناقضات کا مجموعہ ہے ۔
7. خود اہل تورات کے نزدیک بھی تورات مشکوک ہے ۔
8. اس کی حفاظت کا اہتمام نہیں ہوا ۔(یعنی غیر محفوظ ہے)
9. یہ مسخ شدہ او رمحرف ہے۔
10. اس میں یہ پہچاننا ناممکن ہے کہ اس میں کتنا حصہ حق ہے او رکتنا باطل ہے ۔
11. مذکورہ باتوں کی وجہ سے حقیقت گم ہو گئی ہے ۔
12. خدا کی دی ہوئی روشنی سے اب یہ محروم ہے ۔
13. بلکہ اس میں تاریکی ہی تاریکی ہے ۔
احادیث کےبارے میں اصلاحی موقف اور تورات کے بارے میں دوسرا موقفاس کے مقابلے میں احادیث الحمد للہ محفوظ ہیں کیونکہ قرآن کی حفاظت کاوعدۂ الٰہی ،احادیث کی حفاظت کو بھی مستلزم ہے ۔ اللّٰہ نے اپنی تکوینی مشیت کے تحت محدثین کرام کے ذریعے سے حدیث کی حفاظت فرمائی ہے اور اس کی وجہ ظاہر ہے کہ احادیث محفوظ نہ ہوتیں تو قرآن پر عمل کرنا ہی ناممکن تھا، یوں حفاظتِ قرآن کا اہتمام بے فائدہ ہوتا ۔ علاوہ ازیں دین اسلام بھی مکمل کے بجائے نامکمل رہتاجبکہ اللّٰہ نے دین اسلام کی تکمیل کا اعلان خود قرآن مجید میں کیا ہے ۔
اس کے باوجود اصلاحی صاحب کے نزدیک احادیث ظنی ہیں اور ظنی کا مطلب ان کے ہاں مشکوک اور غیر محفوظ ہے ۔ اس لیے تورات کے بارے میں مذکورہ وضاحتوں او راعترافات کےباوجود تورات کےغیر محفوظ اور محرف بیانات ان کے نزدیک قرآن کی تفسیر میں حجت ہیں اوران سے ایمان کو غذا ملتی ہے ۔ (نعوذ بالله)
کتنا بڑا تضاد ہے ۔ اَب ذرا سینے پر ہاتھ رکھ کر ان کا اصل اقتباس پڑھیں:
’’میں ان (صحیفوں) کو بار بار پڑھنے کے بعد اس رائے کا اظہار کرتا ہوں کہ قرآن کی حکمت کو سمجھنے میں جو مدد ان صحیفوں سےملتی ہے، وہ مددمشکل ہی سے کسی دوسری چیز سے ملتی ہے ۔ خاص طور پر زبور ، اَمثال اور انجیلوں کو پڑھیئے تو ان کے اندر ایمان کو وہ غذا ملتی ہے جو قرآن و حدیث کے سوا اور کہیں بھی نہیں ملتی ۔ ‘‘
[33] یہی وجہ ہے کہ تدبر قرآن میں ان محرف اور مسخ شدہ صحیفوں کے اقتباسات کی تو بھر مار ہے لیکن احادیث کا ذکر یا ان سے استدلال برائے نام ہےجیسا کہ تفصیل گزری ہے۔
احادیث ،جن کو منکرین حدیث آحاد سےتعبیر کرتےہیں، کے بارے میں ان کا اقتباس بھی دل پر پتھر کی سل رکھ کر دوبارہ پڑھ لیجئے، یہ اقتباس انہوں نے اپنےاُستاذ فراہی صاحب کا نقل کیا ہے ، لیکن اسے نقل کر کے اس پر اپنی مہر تصدیق بہ ایں الفاظ ثبت کر دی ہے :
’’اسی مسلک کو میں صحیح سمجھتا ہوں اور اسی کو میں نے اختیار کیاہے ۔ ‘‘
اب اصل اقتباس ملاحظہ فرمائیں :
’’صحیح راہ یہ ہے کہ جتنے حصّے پراُمّت متفق ہے،اتنے پر قناعت کرو اور اخبارِ آحاد پر زیادہ اصرار نہ کرو۔ ور نہ خود بھی شک میں پڑو گے اور دوسروں کےاعمال کو بھی غلط ٹھہراؤ گے اور تمہارے درمیان کوئی چیز ایسی نہ ہوگی جو اس جھگڑے کا فیصلہ کر سکے۔‘‘
[34]کوئی ان سے پوچھے کہ احادیثِ رجم بھی آحاد ہیں ؟
نزول مسیح کی روایات بھی آحاد ہیں ؟
معراج جسمانی کی احادیث بھی آحاد ہیں ؟
سورۃ تحریم کے شانِ نزول کی روایات بھی آحاد ہیں ؟
اول تو متواتر اور آحاد کی تقسیم اس دور کی ایجاد ہے، جب گمراہ فرقوں نےاپنے باطل نظریات کی راہ احادیث کو سب سے بڑی رکاوٹ محسوس کیا تو انہوں نے آحاد کےعنوان سے احادیث سے جان چھڑانے ،حیلہ اختیار کیا، ورنہ اسلام کے بہترین ادوار: خیر القرون،صحابہ ،تابعین وتبع تابعین ،تبع تبع تابعین کےادوار میں ان اصطلاحات کا کوئی وجود نہیں تھا اورہر مرفوع متصل صحیح حدیث قابل حجت تھی ۔
اس لیے آحاد کےعنوان سے احادیث کوردّ کرنا بہت بڑی گمراہی اور قرآن کریم کی تفسیر کے نام پر گمراہ نظریات کا راستہ ہموار کرنا ہے ۔ جیسے سرسید کی ’تفسیر القرآن‘ ہے ،غلام احمد پرویز کی ’مطالب الفرقان‘ ہے اور اب تفسیر ’تدبر قرآن‘ وامثالہم ہیں ۔
تضادات ہی تضادات تفسیر ’تدبر قرآن‘ اس میں نہ صرف احادیث اور مسلماتِ اسلامیہ کا جا بجا انکار ہے بلکہ تضادات کا بھی ملغوبہ ہے جیسا کہ مذکورہ عنوان کےتحت ہم نے مثالیں دے کر واضح کیا ہے ۔
ہماری اس تمام محنت وکاوش کامقصد صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے حجیت و اہمیت حدیث کا اور مسلماتِ اسلامیہ کا اثبات اور قرآن کریم کے ان حقائق کی وضاحت ،جن سے آگاہی اور جن کی طرف رہنمائی صرف احادیث ہی سے ملتی ہے۔
تفسیر ’تدبر قرآن‘ میں احادیث سےگریز ،یا ان سے انکار ،یا احادیث کے برعکس من مانے طریقے سے تفسیر کر کے ان حقائق قرآنی کومسخ کیا گیا ہے ، اللّٰہ تعالیٰ کی توفیق اور اس کی مدد سےاس کو مدلل طریقے سے واضح کر کے اس حقیقتِ ثابتہ کو نمایاں اور واضح تر کر دیا گیا ہے کہ احادیث کے بغیر قرآن کریم کی تفسیر سراسر گمراہی اور رسول اللّٰہﷺکے اس منصب کا انکار ہے جو اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن کریم ہی کی آیت
﴿وَأَنزَلنا إِلَيكَ الذِّكرَ لِتُبَيِّنَ لِلنّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيهِم ...﴿٤٤﴾[35] میں بیان فرمایا ہے ۔
من مانی تفسیر کرنے والے کتنے بڑے ظالم ہیں کہ تبیین قرآنی کا یہ منصب رسول اللّٰہﷺکےلیے تو انہیں تسلیم نہیں ہے او رخود کو اس منصب کا اہل یا اس پر فائز سمجھتے ہیں ۔ یہ کیسے مفسر قرآن ہیں جو اللّٰہ کے بنائے ہوئے اصل اور اوّلین مفسر قرآن کونہیں مانتے ؟ یاکیسے ان کو حدیث کے ماننے کےدعوے میں سچا باور کیا جا سکتا ہے جب کہ ان کی پوری تفسیر احادیث کے خلاف یا ان کے انکار پر مبنی ہے ؟
حوالہ جات