’اہانتِ رسول کامسئلہ‘ ان دنوں پھر میڈیا میں زوروں پر ہے، ایک طرف قانون توہین رسالت کو رگیدا جارہا ہے تو دوسری طرف اُس کے غلط استعمال کی دہائی دی جارہی ہے۔ کچھ لوگ اس قانون کے نمائشی ہونے کا شکوہ کررہے ہیں کہ سیکڑوں مقدمات کے باوجود اس کی بنا پر آج تک کسی کو سزا نہیں ہوسکی اور ان کا موقف ہے کہ معاشرے میں پھیلی انارکی کی وجہ دراصل عدالتی عمل کا تعطل یا اس پر بے اعتمادی ہے۔عالمی سطح پر مشعال خاں اور توہین مذہب کے دیگر واقعات کے بعد بھی یہ مسئلہ ایک بار پھر بڑی سرخیوں میں ہے۔ ذیل میں پانچ مستقل عنوانات کے تحت پانچ حصوں میں ان تمام مسائل کا نکات وار اجمالی احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے:
1. اہانتِ رسول کی شرعی وقانونی سزا ص4
2. توہین رسالت کے جرم کا تحلیلی تجزیہ ص12
3. قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے لئے مجوزہ احتیاطیں ص15
4. قانون کو ہاتھ میں لینے کی شرعی سزا ص29
5. مسئلہ کا حل: دو انتہاؤں کے مابین عدل وانصاف کا قیام ص31
1۔اہانتِ رسول کی شرعی وقانونی سزا اسلام میں اہانتِ رسول کی سزا قتل ہے، کیونکہ نبی کریمﷺ کی ذات دین میں سب سے بنیادی حیثیت رکھتی ہے ، آپ کی نبوت ورسالت پر ہی اللّٰہ تعالیٰ کی معرفت، قرآنِ کریم ، جنت وجہنم، اور زندگی بھر کے سارے بنیادی اور شرعی احکام موقوف ہیں۔ اسلام کا مقصود تو رَبّ کریم کی عبادت وطاعت ہے، لیکن اس کا راستہ نبی کریمﷺ کی رسالت اور اتباع کے بغیر مل نہیں سکتا۔ چنانچہ اسلام نے حب وطاعتِ رسول کو قانونی تقاضا بنانے کے ساتھ اسے خوبصورت جذباتی تعلق سے استوار کردیا اور نبی کریمﷺ کی محبت کو تکمیل ایمان کی شرطِ اوّل قرار دے دیا۔ نبی کریمﷺ کی توہین کرنے کی سزا شرعِ اسلا م میں قتل ہے۔
1. جیسا کہ اس حدیثِ مبارکہ سے علم ہوتا ہے جسے سیدنا ابو برزہ نے بیان کیا ہے:
كُنْتُ عِنْدَ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَتَغَيَّظَ عَلَى رَجُلٍ، فَاشْتَدَّ عَلَيْهِ، فَقُلْتُ: تَأْذَنُ لِي يَا خَلِيفَةَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَضْرِبُ عُنُقَهُ! قَالَ: فَأَذْهَبَتْ كَلِمَتِي غَضَبَهُ، فَقَامَ، فَدَخَلَ، فَأَرْسَلَ إِلَيَّ، فَقَالَ: مَا الَّذِي قُلْتَ آنِفًا؟ قُلْتُ: ائْذَنْ لِي أَضْرِبُ عُنُقَهُ، قَالَ: أَكُنْتَ فَاعِلًا لَوْ أَمَرْتُكَ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: لَا وَاللهِ مَا كَانَتْ لِبَشَرٍ بَعْدَ مُحَمَّدٍ ﷺ.
[1]’’ میں سیدنا ابوبکر صدیق کے پاس تھا کہ وہ کسی آدمی پر ناراض ہوئے اور بہت زیادہ ناراض ہوئے ۔ میں نے کہا : اے خلیفہ رسول! اجازت دیجیے کہ میں اس کی گردن مار ڈالوں ؟ تو میری اس بات نے اُن کا سب غصّہ زائل کر دیا ۔ پھر وہ وہاں سے اُٹھ کر گھر چلے گئے اور مجھے بلوا بھیجا اور کہا : تم نے ابھی ابھی کیا کہا تھا ؟ میں نے عرض کیا کہ میں نے کہا تھا: مجھے اجازت دیں کہ میں اس کی گردن مار دوں ۔ فرمایا: اگر میں تجھے ایسے کہہ دیتا تو کیا واقعی تم یہ کر گزرتے ؟ میں نے کہا : ہاں ۔ فرمایا نہیں،اللّٰہ کی قسم ! سیدنا محمد ﷺکے بعد کسی بشر کو یہ مقام حاصل نہیں ۔ ‘‘2. صحیح بخاری میں کعب بن اشرف یہودی اورابو رافع یہودی کے واقعات ہیں۔کعب بن اشرف کو قتل کرنے کی وجہ نبی کریم ﷺنے یوں بیان فرمائی:
«من لكعب بن الأشرف؟ فإنه قدآذى الله ورسوله»[2]’’کعب بن اشرف کو کون قتل کرے گا؟ اس نے اللّٰہ اوراس کے رسول کو اذیت سے دوچار کیا ہے۔‘‘3. ان ا حادیث سے علم ہوا کہ توہین رسالت کی سزا قتل ہی ہے، اور اس کے لئے جرم اہانت کی تکرار یا اصرار ضروری نہیں ۔ توہین رسالت کی سزا پر صحابہ کرام کا اجماع ہے جیسا کہ حافظ ابن قیم لکھتے ہیں:
فهٰذا قضاؤه ﷺ وقضاء خلفائه من بعده ولا مخالف لهم من الصحابة وقد أعاذهم الله من مخالفة هذا الحكم. وفي ذلك بضعة عشر حديثًا ما بين صحاح وحسان ومشاهير وهو إجماع الصحابة والآثار عن الصحابة بذٰلك كثيرة وحكي غير واحد من الأئمة: الإجماع على قتله. قال شيخنا: وهو محمول علىٰ إجماع الصدر الأوّل من الصحابة والتابعين والمقصود: إنما هو ذكر حكم النبي ﷺ وقضائه فيمن سبّه.[3]’’ نبی کریم ﷺاور آپ کے بعد خلفائے راشدین کا یہی فیصلہ ہے جس کا صحابہ کرام میں سے کوئی بھی مخالف نہیں اور اللّٰہ تعالیٰ نے اُنہیں اس حکم کی مخالفت سے بچاے رکھا۔ اس ضمن میں دس سے اوپر احادیث ِمبارکہ وارد ہوئی ہیں جن میں صحیح، حسن اور مشہور احادیث شامل ہیں اور اس مسئلہ پر اجماعِ صحابہ کرام ہے۔ اس باب میں صحابہ کرام سے مروی آثار تو بہت زیادہ ہیں اور ایک سے زائد ائمہ اسلاف سے شاتم کے سزائے قتل پر اجماع کی صراحت بھی منقول ہے۔ ہمارے اُستاد شیخ ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ یہ سب اُمور صدرِ اوّل میں صحابہ کرام اور تابعین کے اجماع پر دلالت کرتے ہیں۔ہمارا یہاں آپ کو سبّ وشتم کرنے والے بدبخت کے لئے آپ ﷺ کا حکم اور فیصلہ کو بیان کرنا ہی مقصود ہے۔‘‘
4. اس موضوع پر بہت سی آیاتِ کریمہ اور احادیثِ مبارکہ کی وجہ سے علامہ ابن المنذر(متوفی319 ھ) نے تیسری صدی ہجری میں اس کے حدّ ہونے پر اُمت ِاسلامیہ کا اجماع نقل کیا ہے کہ
أجمع عوام أهل العلم علىٰ أن حدّ من سبّ النبي ﷺ القتل. وممن قاله مالك والليث وأحمد وإسحٰق وهو مذهب الشافعي[4]’’اہل علم کا اجماع ہے کہ جو آدمی نبی ﷺ کو گالی دیتاہے ، اس کی حد قتل کرنا ہے ۔ اور اسی بات کو امام مالک ، امام لیث ، امام احمد ، امام اسحٰق نے بھی اختیار فرمایا ہے اور امام شافعی کا بھی یہی مذہب ہے۔‘‘
5. صحیح بخاری کی شرح فتح الباري میں حافظ ابن حجر (م852ھ)نے یوں لکھا ہے:
ونقل أبو بكر الفارسی أحد أئمة الشافعية في كتاب الإجماع: أن من سبّ النبي ﷺ مما هو قذف صريح كفر باتفاق العلماء، فلو تاب لم يَسقط عنه القتل؛ لأن حدَّ قذفه القتل، وحد القذف لايسقط بالتوبة[5] ’’ائمہ شافعیہ میں سے امام ابوبکر نے کتاب الاجماع میں نقل کیا ہے کہ جس نے نبی ﷺ کو گالی دی جس سے صریح تہمت ظاہرہوتی تھی تو ایسا شخص اجماعِ علما کی رو سے کافر قرار پائے گا ۔ اگر توبہ بھی کرلے تو اس سے قتل ساقط نہیں ہوگا۔ کیونکہ اس کی اس تہمت کی حد قتل ہے ۔ اور تہمت یعنی قذف کی حد توبہ سے ساقط نہیں ہوتی۔ ‘‘
6. بعض اہل علم کی رائے میں اس جرم کی سزا بطور حد ’قتل‘ نہیں، بلکہ ایسا کرنے والا دراصل مرتد ہوجاتا ہے، اس ارتداد کی بناپر اس کو سزائے موت دی جائے گی، چنانچہ امام ابو سلیمان خطابی (متوفی:388ھ) لکھتے ہیں:
إن السبّ منها لرسول الله ﷺ ارتداد عن الدین ولا أعلم أحدًا من المسلمین اختلفوا في وجوب قتله[6]’’ اس ام ّولد عورت کا نبی کریم ﷺ کو دشنام طرازی کرنا دین سے ارتداد تھا۔ اور میں مسلمانوں میں سے کسی کو نہیں جانتا جس نے اس کے واجب القتل ہونے پر اختلاف کیا ہو۔‘‘
7. امام ابن حزم اندلسی (م 456ھ) لکھتے ہیں:
ومن أوجب شيئًا من النكال على رسول الله ﷺ أو وصفه، وقطع عليه بالفسق، أو بجرحه في شهادته فهو كافر مشرك مرتد كاليهود والنصارى حلال الدم والمال، بلا خلاف من أحد من المسلمين[7]’’جس بدبخت نے نبی کریم ﷺ کی رسوائی کا ارتکاب کیا یا آپ کو اس سے منسوب کیا اور آپ پر فسق کا الزام لگایا یا آپ کی شہادتِ رسالت میں زیادتی کی تو یہود ونصاریٰ کی طرح وہ کافر ومشرک مرتد ہے، اس کا خون ومال حلال ہے۔ اس بارے میں مسلمانوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔‘‘
8. ’’احناف بھی یہی موقف رکھتے ہیں کہ اسے حد اً قتل کیا جائے گااور اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی، البتہ وہ مسلمان گستاخ کی صورت میں اس پر حدِ ارتداد و کفر کا حکم بھی لگاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا موقف دیگر مذاہب کے مقابلے میں اور بھی سخت ہو جاتاہے ...احناف اس پر حد ِارتداد کا حکم بھی لگاتے ہیں لیکن وہ گستاخی کی وجہ سے اسے ’رِدۃ عامہ‘ نہیں بلکہ ’ردۃ خاصہ‘ قرار دیتے ہیں اور ان کے نزدیک ’ردۃ خاصہ‘ کے مرتکب کا حکم زندیق کی طرح ہے کہ اسے لازماً قتل کیا جائے گا اور اُس کی توبہ کو قبول نہیں کیا جائے گا۔‘‘ جیسا کہ فقہ حنفی کے نامور امام ابو العباس احمد ناطفی(م446ھ) لکھتے ہیں:
أمّا اذا سبَّ رسول الله ﷺ أو واحد من الأنبیاء علیهم السلام یقتل حدًّا ولا توبة له أصلا سواءً بعد القدرة والشهادة أو جاء تائباً من قبل نفسه کالزندیق لأنه حدّ واجب فلا یسقط بالتوبة کسائر حقوق الآدمیین وکحدّ القذف وبخلاف الارتداد لأنه یتفرد به المرتد لا حَقّ فیه لغیره من الآدمیین[8]’’جب کسی نے رسول اللّٰہﷺ یا کسی بھی نبی کو گالی دی تو اُس کو حداً قتل کیا جائے گا خواہ حراست میں لیے جانے یا گواہی کے بعدوہ گستاخ توبہ کرے یا خود بخودتو بہ کے لئے پیش ہو جائے، اسے زندیق کی طرح ہر حال میں قتل کر دیا جائے گا کیونکہ یہ قتل اس گستاخ کی حد ہے پس توبہ سے ساقط نہیں ہوگی جیسا کہ آدمیوں کے باقی حقوق جس پر حق ہو، اس کی توبہ سے ساقط نہیں ہوتے اور جیسا کہ حد قذف ہے ۔ گستاخ کا مسئلہ عام مرتد جیسا نہیں ہے کیونکہ عام مرتد کا فعل اس کا انفرادی فعل ہے جس سے کسی آدمی کا کوئی حق متاثر نہیں ہوتا۔‘‘
9. توہین رسالت کی تعریف ان الفاظ میں علامہ ابن تیمیہ نے بیان کی ہے:
الكلام الذي يُقصد به الانتقاص والاستخفاف وهو ما يفهم منه السبّ في عقول الناس على اختلاف اعتقاداتهم كاللعن والتقبيح ونحوه[9]... تشریح یوں کی:
والكلمة الواحدة تكون في حال سبّا وفي حال ليست بسبّ فعُلم أن هذا يختلف باختلاف الأقوال والأحوال وإذا لم يكن للسب حد معروف في اللغة ولا في الشرع فالمرجع فيه إلى عرف الناس فما كان في العرف سبا للنبي فهو الذي يجب أن ننزل عليه كلام الصحابة والعلماء وما لا فلا.’’ایسا کلام جس سےنیچا کرنا اور ہلکا دکھانا مقصود ہو او رلوگوں کی عقلیں اپنے عقائد کے اختلاف کے باجود اس کو گالی سمجھیں جیساکہ لعن وطعن یا برا بھلا کہنا وغیرہ۔‘‘ ایک او رمقام وضاحت کرتے ہیں:
’’ایک ہی کلمہ کبھی گستاخی ہوتا ہے اور کبھی نہیں، تو پتہ چلا کہ اقوال واحوال کی بنا پر اس کا حکم مختلف ہوگا، چنانچہ جب لغت و شرع میں گستاخی کی کوئی متعین تعریف نہیں تو اس میں لوگوں کے عرف؍ رواج کو دیکھا جائے گا۔ سو جو عرف میں نبی کریم ﷺ کے لئے گالی سمجھا گیا، تو اسی پر صحابہ کرام اور علما کا کلام محمول ہوگا،وگرنہ نہیں۔‘‘
قاضی عیاض (متوفیٰ: 544ھ) نے بھی الشفاء بتعريف حقوق المصطفٰى میں ’گستاخی رسول‘ کی ایک تعریف
[10] درج کی ہے، تاہم مذکورہ تعریف زیادہ بہتر ہے۔
الغرض اہانتِ رسول کی سزا کے قتل ہونے میں مسلمانوں کے مابین کوئی اختلاف تو نہیں ، تاہم اس جرم کی توجیہ میں ایک سے زائدقول موجود ہیں۔
10.
پاکستانی قانون میں اہانتِ رسول کی سزا : مذکورہ بالا موقف تو اس شریعتِ اسلامیہ کا ہےجس کو ہر مسلمان اپنے ایمانی تقاضے کے طور پر تسلیم کرتا اورواجب الاتباع مانتا ہے۔ لیکن پاکستان میں ایک ’اسلامی جمہوریہ‘ ہونے کے ناطے توہین رسالت کا قانون بھی موجود ہے جو ارضِ پاکستان کے قانون Law of the Land ہونے کے ناطے اس ملک کے جملہ مسلم وغیر مسلم افراد پر بلا امتیاز نافذ ہے جس کا متن یہ ہے:
’’دفعہ 295(الف ) : کسی جماعت کےمذہب یامذہبی اعتقادات کی تذلیل کےذریعے اس کے مذہبی جذبات کی بےحرمتی کی نیت سےکینہ وارانہ اور ارادی افعال: جوکوئی شخص)پاکستان کےشہریوں کی) کسی جماعت کےمذہبی جذبات کی بے حرمتی کرنےکےارادی اورکینہ وارانہ مقصد سےالفاظ کےذریعہ خواہ زبانی ہوں یا تحریری یادکھائی دینے والے خاکوں کےذریعے مذکورہ جماعت کےمذہب یامذہبی اعتقادات کی تذلیل کرے یا تذلیل کرنے کی کوشش کرے تو اسے کسی ایک قسم کی سزا اتنی مدت کےلیے دی جائے گی جودو سال تک ہوسکتی ہےیاجرمانے کی سزا یادونوں سزائیں دی جائیں گی ۔
دفعہ 295 (ب): قرآن پاک کےنسخے کی قصدًابےحرمتی وغیرہ کرنا:جوکوئی قرآن پاک کےنسخے یااس کےکسی اقتباس کی عمداً بےحرمتی کرے، اس کانقصان یابے ادبی کرے یا اسے توہین آمیز طریقے سےیاکسی غیرقانونی مقصد کےلیے استعمال کرے تووہ عمرقید کی سزا کامستوجب ہوگا۔
دفعہ 295 (ج): پیغمبر اسلام ﷺ کے بارےمیں توہین آمیزالفاظ وغیرہ استعمال کرنا:جوکوئی الفاظ کےذریعے خواہ زبانی ہوں یاتحریری یانقوش کےذریعے ،یاکسی تہمت، کنایہ یا درپردہ تعریض کےذریعے بلاواسطہ یابالوالوسطہ رسول پاک حضرت محمدﷺکےپا ک نام کی توہین کرے گا تواسے موت یاعمر قید کی سزا دی جائے گی اوروہ جرمانے کی سزا کا بھی مستوجب ہوگا۔‘‘
[11]11. 17 مئی١٩٨٦ء کو سیکولر وکیل عاصمہ جہانگیرنے اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں نبی کریمﷺ کی شانِ اقدس میں نارَوا الفاظ بولے جس کی روک تھام کے لئے قومی اسمبلی میں (موجودہ وفاقی وزیر احسن اقبال کی والدہ) محترمہ نثار فاطمہ نے توہین رسالت کے مجرم کے لئے سزاے موت کا بل پیش کیا جس کے نتیجے میں 295سی کی صورت میں توہینِ رسالت کا قانون نافذ
[12] کیا گیا لیکن اس قانون میں توہین رسالت کی سزا ’سزاے موت یا عمر قید مع جرمانہ‘ کی صورت میں رکھی گئی تھی۔
12. ذوالفقار علی بھٹو کے زیر نگرانی تیار ہونے والے 1973ء کے دستور میں آرٹیکل 203د کے تحت وفاقی شرعی عدالت کسی قانون کے خلافِ اسلام ہونے کا جائزہ لے سکتی ہے۔ چنانچہ مجاہدِ ناموس رسالت محمد اسمٰعیل قریشی ایڈوکیٹ نے 1984ء میں وفاقی شرعی عدالت میں ایک پٹیشن دائر کی تھی جس میں مذہبی دل آزاری کےسابقہ قوانین کو ناکافی قرار دیتے ہوئے،ان میں توہین رسالت کے جرم کی سزا کے تعین کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ 1986ء کے قانون میں یہ عین اسلام کے مطابق نہ ہوسکا ، اور جناب محمد اسمٰعیل قریشی کی پٹیشن کی ضرورت باقی رہی، اس بنا پر وفاقی شرعی عدالت میں داخل اس پٹیشن کا فیصلہ اکتوبر 1990 کو آیا جس میں عدالت نے قرار دیا:
’’مندرجہ بالابحث کےپیش نظر ہماری رائے یہ ہےکہ عمر قید کی متبادل سزا، جیسا کہ دفعہ 295 سی پاکستان ضابطۂ تعزیرات میں مقرر ہے، احکاماتِ اسلام سےمتصادم ہےجو قرآن اورسنت میں دئیےگئے ہیں لہٰذا یہ الفاظ اس میں سےحذف کردئیے جائیں ۔ایک شق کامزید اضافہ ا س میں کیا جائے،تاکہ وہی اعمال اورچیز جب دوسرےپیغمبر وں کےمتعلق کہی جائیں، وہ بھی اسی جرم کےمستوجبِ سزا
[13] بن جائے جواوپر تجویز کی گئی ہے۔اس حکم کی ایک نقل صدرِ پاکستان کودستور کے آرٹیکل203(3) کے تحت ارسال کی جائے ، تاکہ قانون میں ترمیم کےاقدامات کئےجائیں اوراسے احکاماتِ اسلام کےمطابق بنایا جائے۔اگر 30؍اپریل 1991ء تک ایسا نہیں کیا جائےگاتو’عمرقید‘ کےالفاظ دفعہ 295سی تعزیراتِ پاکستان میں اس تاریخ سےغیرمؤثرہوجائیں گے۔‘‘
[14]گویا مذکورہ بالا فیصلہ کی رو سے 295 سی کے قانون میں نہ صرف عمر قید کے الفاظ ختم ہوگئے بلکہ یہ قانون پیغمبر اسلام محمدﷺ سے بڑھ کر تمام انبیاے کرام کی توہین تک وسیع کردیا گیا ۔ فاضل عدالت کا فیصلہ ہونے کے ناطے اس میں شرع وقانون اور عدل وانصاف کے تمام تقاضوں کو ملحوظ رکھا گیا ۔
13. وفاقی شرعی عدالت کے اس فیصلے کے بعد نواز حکومت کے پہلے دور 1992ء میں، پارلیمنٹ میں یہ معاملہ دوبارہ پیش ہوا ۔ 2؍ جون 1992ءکو قومی اسمبلی میں زیر بحث آیا اور اسمبلی نے ’عمر قید‘ کی سزا کے خاتمے کو منظور کردیا اور 8 ؍جولائی 1992ء کو پاکستان کی سینیٹ نے بھی اس بل کو اتفاقِ رائے سے منظور کیا اور آج پاکستان میں یہی قانون نافذ ہے جو آخرکار پارلیمنٹ کی طرف سے منظور ہوا ہے۔
[15]الغرض پاکستان میں توہین رسالت کا قانون پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے باضابطہ منظوری کے بعد نافذ ہوا ہے اور اس کو ضیاء الحق کے قوانین کا نام دے کر ردّ کرنا غلط ہے۔ یہ ایک جمہوری قانون ہے جس کے نفاذ میں جمہوری تقاضے پورے کئے گئے ہیں اور پاکستانی عوام کی اکثریت اس قانون کو چاہتی ہے، اور اس کے خاتمے کی دہائی دینا شریعتِ مطہرہ سے مذاق اور عوام پاکستانی کی آرا کی توہین کے مترادف ہے۔
14. برصغیر پاک وہند میں متعدد مذاہب سے وابستہ لوگ ہمیشہ سے مل جل کررہتے آئے ہیں اور مختلف اقوام کی مسلسل یورش کے نتیجے میں یہاں ان مذاہب کے مابین کشاکش کی صورتحال بھی رہتی ہے۔ ان سیاسی مصلحتوں کے تحت، ماضی میں بھی یہاں توہین مذہب کے واقعات پیش آ تے رہے ہیں۔جب برطانوی انڈیا میں اس جرم کی روک تھام کا کوئی قانون موجود نہیں تھا، تو بانیانِ پاکستان... جو قانونی ماہرین بھی تھے... علامہ محمد اقبال اور محمد علی جناح نے قانون کو ہاتھ میں لینے والوں کا مقدمہ لڑا، لاہور میں 1929ء میں علامہ اقبال نے غازی علم دین شہید کو سزائے موت دینے کے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے بیماری کے باوجود مولانا ظفر علی خاں کی معیت میں ، ان کی میت کو خود قبرمیں اُتارا ، ان کی چٹائی پر لیٹے اور اپنی ندامت کا یوں اظہار کیا: ’’ترکھانوں کا بیٹا، پڑھے لکھوں پر بازی لے گیا۔‘‘ اسی طرح کراچی میں غازی عبد القیوم نے عین کمرۂ عدالت میں شاتم رسول نتھورام کو ذبح کردیا،اس کو علامہ اقبال نے ان الفاظ میں نصیحت کی کہ ’’کیا غازی عبد القیوم ڈگمگا گیا ہے،اُس کے قدم لڑکھڑا گئے ہیں؟ اسکو بتاؤ کہ میں جنت کو ا س سے چند لمحوں کی مسافت پر دیکھ رہا ہوں۔ ‘‘ پھر آپ نے ضربِِ کلیم میں ’لاہور وکراچی‘ کے عنوان سے ایک رباعی لکھی:
اور قائد اعظم محمد علی جناح نے لاہور میں ایک ہی مقدمہ لڑا اور وہ غازی علم دین شہید کا مقدمہ تھا جس میں سیشن کورٹ نے راجپال کو مجرم قرا ر دیا لیکن قانون نہ ہونے کی بنا پر ہائیکورٹ نے اسے بری کردیا، سو علم دین نے قانون کو ہاتھ میں لیتے ہوئے اس کو قتل کردیا۔ اور واضح ہے کہ جناح وہی مقدمات لڑتے تھے جس میں وہ اپنے موکل کو حق بجانب سمجھتے تھے۔ان واقعات سے اتنا ہی علم ہوتا ہے کہ توہین رسالت کی شرعی سزا’موت‘ ہی ہے۔ تاہم یہ واقعات اس دور کے ہیں، جب اس جرم کے انسداد کا کوئی قانون موجود نہیں تھا۔ اس وقت قانون کو ہاتھ میں لیے بنا کوئی چارہ نہ تھا، جبکہ آج اس کا باضابطہ قانون موجود ہے، اور مسلمانوں کو اسی قانون کا راستہ اختیار کرنا چاہیے اوربہرصورت قانون شکنی سے گریز کرنا چاہیے۔
2۔توہین رسالت کی شرعی سزا کا تجزیہ توہین رسالت ایک سنگین ترین جرم ہےجو اپنے مرتکب کو سزاے قتل کا مستحق بنا دیتا ہے۔ اس میں کئی حقوق متاثر ہوتے ہیں جیسا کہ امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
ومما يوضح ذلك أن سبّ النبي ﷺ تعلّق به عدة حقوق: (1) حق الله سبحانه من حيث كفر برسوله وعادى أفضل أوليائه وبارزه بالمحاربة ومن حيث طعن في كتابه ودينه فإن صحتهما موقوفة على صحة الرسالة. ومن حيث طعن في ألوهيته فإن الطعن في الرسول طعن في المرسل وتكذيبه تكذيب لله تبارك وتعالىٰ وإنكار لكلامه وأمره وخبره وكثير من صفاته.(2) وتعلق به حق جميع المؤمنين من هذه الأمة ومن غيرها من الأمم فإن جميع المؤمنين مؤمنون به، خصوصًا أمته فإن قيام أمر دنياهم ودينهم وآخرتهم به بل عامة الخير الذي يصيبهم في الدنيا والآخرة بواسطته وسفارته، فالسبّ له أعظم عندهم من سبّ أنفسهم وآباءهم وأبناءهم وسبّ جميعهم كما أنه أحبّ إليهم من أنفسهم وأولادهم وآبائهم والناس أجمعين.(3) وتعلّق به حق رسول الله ﷺ من حيث خصوص نفسه فإن الإنسان تؤذيه الوقيعة في عرضه أكثر مما يؤذيه أخذُ ماله وأكثر مما يؤذيه الضرب. بل ربما كانت عنده أعظم من الجرح ونحوه، خصوصًا من يجب عليه أن يظهر للناس كمال عرضه وعلوّ قدره لينتفعوا بذلك في الدنيا والآخرة. فإن هتك عرضه قد يكون أعظم عنده من قتله فإن قتله لا يقدح عند الناس في نبوته ورسالته وعلوّ قدره كما أن موته لا يقدح في ذلك بخلاف الوقيعة في عرضه. فإنها قد تؤثر في نفوس بعض الناس من النفرة عنه وسوء الظن به، ما يفسد عليهم إيمانهم ويوجب لهم خسارة الدنيا والآخرة[16]’’معلوم ہوا کہ توہین رسالت سے بہت سارے حقوق متاثر ہوجاتے ہیں: (1) اللّٰہ سبحانہ کا حق، جب کوئی شخص اس کے رسول کا انکار کرتا ، اور اس کے افضل محبوب سے دشمنی مول لیتا ہے تو وہ اسے جنگ کی دعوت دیتا ہے۔اور اس طرح وہ اللّٰہ کی کتاب اور اس کے دین میں طعنہ زنی کا مرتکب ہوتا ہے، جن دونوں کی درستگی رسالت کی صحت پر ہی موقوف ہے۔ اور یہ اللّٰہ کی بندگی میں بھی نشتر زنی ہے کیونکہ رسولِ کریم کی اہانت، بھیجنے والے اللّٰہ رحیم کی توہین ہے۔ اور رسول کی تکذیب اللّٰہ تبارک وتعالیٰ کی تکذیب اور اس کے کلام ، اس کے حکم ، اس کی خبر اور اس کی اکثر صفات کا انکار ہے۔
(2) اور توہین رسالت سے اس اُمت اور تمام امتوں کا حق بھی متاثر ہوتا ہے کیونکہ تمام ایمان والے بالخصوص اُمّتِ محمدیہ آپ پر ایمان لاتی ہے۔ ان کی دنیا ودین ، آخرت بلکہ تما م بھلائیاں جو دنیا وآخرت میں ملنی ہیں، آپ کے واسطے اور سفارت کے سبب ہی سے ہیں۔ چنانچہ اس نبی کو گالی دینا، ان مؤمنوں کے نزدیک ان کی ذات، ان کے والدین، ان کے بیٹوں اور ان سب کو گالی دینے سے سنگین تر ہے کیونکہ وہ نبی اُن کے لئے ان کی جانوں، اولادوں، والدین اور تما م لوگوں سے زیادہ محبوب ہے۔
(3) اس اہانت سے رسول اللّٰہ کا ذاتی حق بھی متاثر ہوتا ہے، کیونکہ انسان کو اپنی عزت میں دخل اندازی اپنے مال کی چوری سے زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہے۔ اور اکثر اوقات مار سے بھی زیادہ تکلیف دیتی بلکہ زخم سے بھی سنگین تر ہوجاتی ہے۔خاص طور پر ایسی شخصیت کے لئے جو لوگوں میں نمونہ بن کر آیا ہو، اور اپنی کامل عزت اور بلند منزلت کے سبب لوگوں کو دنیا وآخرت میں اپنے اُسوہ سے استفادہ کرنے کی دعوت دیتا ہو۔ ایسے شخص کی عزت میں دخل اندازی بعض اوقات اس کے قتل سے بھی بڑھ جاتی ہے۔ کیونکہ قتل ہوجانا لوگوں کے ہاں اس کی نبوت ورسالت اور بلند مقام کے منافی نہیں ہوتا۔برخلاف اس الزام تراشی اور طعنہ زنی کے، جو لوگوں کے دلوں میں نفرت اور بدظنی کے بیج بو دے، جس سے آخر کا ر اُن کا ایمان خراب ہوجائے اور دنیا وآخرت کا خسارہ لازمی ہوجائے۔‘‘
المختصر اِہانتِ رسول سے جہاں سب سے پہلے اللّٰہ تعالیٰ کا حق انتخاب متاثر ہوتا ہے جو اُس نے نبی کریم ﷺ کو نہ صرف تمام انسانیت کا رسول بلکہ تمام انبیا کے لئے بھی واجب الاتباع بنا کر بھیجا ہے بلکہ رسول اللّٰہ کی اہانت کرنے والا دراصل اس رسالت کی بھی توہین کرتا ہے جس کے لئےاللّٰہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی کو مبعوث فرمایا۔ اسی طرح اس توہین میں نبی کریم ﷺکا ذاتی حق بھی متاثر ہوتا ہے جو کسی بھی محترم ومعتبر ہستی کا بنیادی اور مسلّمہ حق ہے کہ اس سے ان باتوں کو منسوب نہ کیا جائے جو خلافِ حقیقت ہوں اور جن سے اس کے احترام میں کمی واقع ہوتی ہو۔ پھر اہانت رسول سے اس اُمت کا حق بھی متاثر ہوتا ہے جو آپ سے دل وجان سے محبت کرتی اورآپ کی ہرہر اَدا کو بطورِ اُسوۂ حسنہ اپنی زندگی میں جاری وساری کرنے کو تیار رہتی ہے۔
15.مزید برآں کسی شخصیت کی توہین کا مسئلہ اسلام میں ایک گناہ سے بڑھ کرایک جرم
[17] ہے کہ جس میں کسی ذات سے ایسی بات کو منسوب کیا جاتا ہے جو اس میں نہیں پائی جاتی ۔ چنانچہ یہ بہتان
[18] ہونے کے ناطے ایک قابل سزا جرم بھی ہے۔ گویا اس میں اللّٰہ کے حق کے ساتھ ، متاثرہ ذات کی حق تلفی بھی پائی جاتی ہے۔ جس طرح چوری اور بدکاری محض توبہ اور مسروقہ شے واپس کرنے یا نکاح کرلینے سے معاف نہیں ہوجاتے، بلکہ اس میں سزا کے بغیر چارہ نہیں ہوتا، اسی طرح اہانت ایسی تہمت یا بہتان ہے جو کسی ذات کے شخصی حق میں مداخلت اور زیادتی کا ارتکاب ہے۔ اس کی معافی وہی ذات ہی دے سکتی ہے جس کے حق میں یہ زیادتی کی گئی۔ پھر تیسرے حق اُمت کے ناطے ، پوری امتِ محمدیہ کے جو سینے چھلنی کئے جاتے ہیں،اس کی معافی بھی اجماعِ امت کے بغیر نہیں ہوسکتی۔جہاں تک دور نبوی میں اس کی معافی کے امکانات کی بات ہے تو حافظ ابن قیم لکھتے ہیں:
وأما تركه ﷺ قتل من قدح في عدله بقوله: "اعدل فإنك لم تعدل" وفي حكمه ﷺ بقول: "أن كان ابن عمتك." وفي قصده ﷺ بقوله: "إن هذه قسمة ما أريد بها وجه الله" أو في حكومته ﷺ بقوله: "يقولون إنك تنهٰى عن الغيّ وتستحلي به فذلك أن الحق له فله أن يستوفيه وله أن يتركه وليس لأمته ترك استيفاء حقه ﷺ.وأيضًا فإن كان هذا في أول الأمر حيث كان ﷺ مامورًا بالعفو والصفح وأيضًا فإنه كان يعفو عن حقه لمصلحة التاليف وجمع الكلمة ولئلا ينفِّر الناس عنه ولئلا يتحدثوا أنه يقتل أصحابه وكل هذا يختص بحياته ﷺ[19]’’جہاں تک آپﷺ کا اس بدبخت کو چھوڑ دینا ہے جس نے آپﷺ کے وصف ِعدل میں یہ کہہ کر الزام تراشی کی تھی کہ’’آپ ﷺانصاف فرمائیے، آپ نے انصاف نہیں کیا۔‘‘ اور جس نے آپ کے فیصلہ میں یہ کہہ کر بداعتمادی ظاہر کی تھی کہ ’’یہ اس لئے آپﷺ نے کیا ہے کہ وہ آپ کی پھوپھی کا بیٹا ہے [اس لئے آپ کا فیصلہ اس کے حق میں ہے]۔‘‘ اور جس نے آپ کے ارادہ میں یہ کہہ کر عیب جوئی کی تھی کہ ’’آپﷺ نے اس تقسیم کے ذریعے اللّٰہ کی رضا پوری نہیں کی۔‘‘ اور جس نے آپ کی حکومت پر یوں طعنہ طرازی کی تھی کہ ’’آپ تو گمراہی سے روکتے ہیں لیکن خود اس کو گوارا کرتے ہیں۔‘‘ تو ان گستاخیوں کو نظرانداز کرنے کاسبب یہ تھا کہ اپنی توہین کو معاف کردینا آپ کا حق تھا،آپ چاہتے تو اس کا پورا بدلہ لیتے اور چاہتے تو اسے چھوڑ دیتے، تاہم آپ کی اُمت کے لئے آپ کے حق کی تکمیل چھوڑنے کا کوئی جواز نہیں ۔مزید برآں اس جیسے واقعات اوّلین دور کے ہیں جب آپ ﷺ معافی اور درگزر کرنے کا حکم دیے گئے تھے۔ اس وقت آپ تالیف ِ قلب، کلمہ اسلام کو مجتمع رکھنے اور لوگوں کے متنفر ہوجانے کے ڈر سے معافی کا راستہ اختیار کیا کرتے اور اس لئے بھی کہ دشمن یہ نہ کہتے پھریں کہ آپ تو اپنے ساتھیوں کو قتل کردیتے ہیں۔ الغرض شتم رسول پر تمام قسم کی معافیاں آپ کی حیاتِ طیبہ سے ہی مخصوص ہیں۔‘‘
3۔ قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے لئےمجوزہ احتیاطیں1. جہاں یہ جرم بڑا سنگین ہے، وہاں اس کا اطلاق بھی بڑی احتیاط کا متقاضی ہے۔ جب اور جس جگہ بھی اس جرم کا اطلاق کیا جائے ، وہاں ضروری ہے کہ اہانتِ رسول کا جرم واقعتاً صراحت کے ساتھ موجود ہو۔
بسا اوقات اپنے ذاتی رجحانات سے بعض لوگ پیغمبر اسلام کا ایک تقدس تشکیل دے لیتے ہیں اور پھر اس اپنے بنائے ہوئے تصور کے خلاف جب کوئی بات کرے تو اس کو توہین رسالت کا مجرم قرار دے دیا جاتا ہے، سو اس سلسلے میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔ نبی کریمﷺ کی شان اقدس وہی ہے جس کو قرآنِ کریم اور آپ کی احادیثِ مبارکہ نے بیان کیا ۔ اپنے پاس سے آپ کی شان ومقام کو متعین کرلینے سے بحث کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ بعض لوگ آپﷺ کو بشر کہنا توہین بنا لیتے ہیں جبکہ قرآن وحدیث میں متعدد مقام پر آپ کو بشر قرار دیا گیا ہے، پھر’عید میلاد النبی‘ کے اشتہار کو پھاڑنا بھی توہین رسالت سمجھ بیٹھتے ہیں۔ چنانچہ توہین رسالت کے جرم کی تحقیق کےلئے اس امر کی ضرورت ہے کہ مختلف مسالک کے منتخب علما کا ایک بورڈ اس جرم کا جائزہ لےاور اس سے قبل کسی کے لئے اس جرم کا الزام بھی جائز نہ سمجھا جائے۔ کیونکہ جس شخص پر بھی یہ الزام لگا دیا جاتا ہے، لوگ اپنے تئیں جذباتی ہوکر اس کی زندگی کا فیصلہ کرنے میں جلدی کرتے ہیں، اور یہ سراسر قابل اصلاح رویّہ ہے۔چنانچہ اس نوعیت کے جرائم کے لئے تھانے میں ایف آئی آر کے اندراج کے بجائے، ہر ضلع کی سطح پر متعین کردہ علما کے ہاں رپورٹ ہو، یا تھانے صرف اس کو فارورڈ کرنے کا کردار ادا رکریں، لیکن اس جرم کا اندراج صوبائی سطح پر جملہ مسالک کے معتمد علما کے ایک بورڈ کے پاس ہو جسے صوبائی وزارتِ مذہبی امور کے متحدہ علما بورڈ کے ساتھ ہی تشکیل
[20] دیا جاسکتا ہے کیونکہ ایک حساس جرم کا امکان و تعین بھی علمی اہلیت کا متقاضی
[21] ہے۔جیسا کہ اس سے قبل نفرت آمیز کتب پر گرفت کا مسئلہ بھی تھانوں کی بجائے متحدہ علما بورڈ کے سپرد کیا گیا ہے، تاکہ پولیس کی من مانی اور لوگوں کی من پسند خواہشات کا راستہ بھی روکا جاسکے۔یہ طریق کار صرف اس جرم کے اندراج کے لئے ہے، پھر علما بورڈ کے ہاں اندراج ہوجانے کے بعد وفاقی شرعی عدالت میں جرم کی نوعیت اور اس کی سزا یا بریت کا پورا قضیہ مکمل کیا جائے۔
2. کسی شخص پر توہین رسالت کے الزام کے ثبوت کے لئے ان مراحل کا بھی جائزہ لیا جائے جن کو ایک جج جرم کے وقوع کے لئے ضروری سمجھتا ہے۔ چنانچہ ایسا کرنے والے کی نیت اور ذہنی کیفیت کو بھی پیش نظر رکھا جائے کیونکہ اعمال کا دارومدار نیت پر ہوتا ہے اور سبقت ِلسانی یا ’شرعاً معتبر ارادے کے بغیر‘ ہوجانے والی گستاخی کا پہلو بھی نظر انداز نہ کیا جائے، اور ایسا کرنے والے کے دیگر رجحانات ومعمولات کو بھی پیش نظر رکھا جائے جیسا کہ پاکستانی قانون میں بھی ’قصداً ‘کی شرط موجود ہے۔ تاہم اگر کوئی شخص دین گریز رجحانات کا مالک ہو تو اس کو نیت یا ارادے کا فائدہ نہیں دیا جاسکتا،جیسا کہ امام تقی الدین علی سبکی شافعی (م 756ھ) لکھتے ہیں:
وَقَدْ ذَكَرْت فِي كِتَابِي الْمُسَمَّى بِالسَّيْفِ الْمَسْلُولِ أَنَّ الضَّابِطَ أَنَّ مَا قُصِدَ بِهِ أَذَى النَّبِيِّ ﷺ فَهُوَ مُوجِبٌ لِلْقَتْلِ كَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَيٍّ وَمَا لَمْ يُقْصَدْ بِهِ أَذَى النَّبِيِّ ﷺ لَا يُوجِبُ الْقَتْلَ كَمِسْطَحٍ وَحَمْنَةَ. أَمَّا سَبُّ النَّبِيِّ ﷺ فَالْإِجْمَاعُ مُنْعَقِدٌ عَلَى أَنَّهُ كُفْرٌ، وَالِاسْتِهْزَاءُ بِهِ كُفْرٌ.[22]’’میں نے اپنی کتاب ’السیف المسلول‘ میں یہ اُصول پیش کیا ہے کہ جو شخص کسی فعل سے نبی کریمﷺ کو اذیت دینا چاہتا ہو تو ایسا بدبخت واجب القتل ہے، جیسا کہ عبد اللّٰہ بن اُبی تھا اور جس شخص کا یہ ارادہ نہ ہو تو اس صورت میں اس کی سزا قتل نہیں ہوگی جیسا کہ مسطح اور حمنہ کا معاملہ ہے[جنہوں نے سیدہ عائشہؓ پر افک میں شرکت کی تھی]۔ جہاں تک شتم رسول کی بات ہے تو اس فعل کے کفر ہونے پر اجماع منعقدہوچکا ہے اور آپﷺ کا تمسخر اُڑانا بھی کفر ہی ہے۔‘‘
16.چنانچہ کعب بن اشرف کو توہین رسالت کے بعد نبی کریم ﷺکے حکم کی بنا پر قتل کرنے والے محمد بن مسلمہ نے بھی ایسے نارواکلمات بولے تھے جس سے ان کا مقصدکعب بن اشرف کے قتل کاراستہ ہموار کرنا تھا۔چونکہ اُن کی نیت غلط نہ تھی، ا س لئے نبی کریمﷺ نے اُنہیں اُس کی اجازت دی :
فَقَامَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللهِ! أَتُحِبُّ أَنْ أَقْتُلَهُ؟ قَالَ: «نَعَمْ». قَالَ: فَأْذَنْ لِي أَنْ أَقُولَ شَيْئًا قَالَ: «قُلْ». فَأَتَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ. فَقَالَ: إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ قَدْ سَأَلَنَا صَدَقَةً وَإِنَّهُ قَدْ عَنَّانَا وَإِنِّي قَدْ أَتَيْتُكَ أَسْتَسْلِفُكَ قَالَ وَأَيْضًا وَاللَّهِ لَتَمَلُّنَّهُ قَالَ إِنَّا قَدْ اتَّبَعْنَاهُ فَلَا نُحِبُّ أَنْ نَدَعَهُ حَتَّى نَنْظُرَ إِلَى أَيِّ شَيْءٍ يَصِيرُ شَأْنُهُ[23]’’محمد بن مسلمہ انصاری کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللّٰہ ! کیا آپ اجازت دیں گے کہ میں اسے قتل کر آؤں ؟ آ پ نے فرمایا ، ہاں مجھےیہ پسند ہے ۔ اُنہوں نے عرض کیا : پھر آپ مجھے اجازت عنایت فرمائیں کہ میں اس سے کچھ باتیں کہوں۔ آپ نے اُنہیں اجازت دے دی ۔ اب محمد بن مسلمہ کعب بن اشرف کے پاس آئے اور اس سے کہا : یہ شخص ( اشارہ حضوراکرم ﷺکی طرف تھا ) ہم سے صدقہ مانگتا رہتا ہے اور اس نے ہمیں تھکا مارا ہے ، اس لیے میں تم سے قرض لینے آیا ہوں ۔ اس پر کعب نے کہا ، ابھی آگے دیکھنا ، خدا کی قسم!بالکل اکتا جاؤ گے ۔ محمد بن مسلمہ نے کہا ، چونکہ ہم نے بھی اب ان کی اتباع کرلی ہے ، اس لیے جب تک یہ نہ کھل جائے کہ ان کا انجام کیا ہوتا ہے ، انہیں چھوڑنا بھی مناسب نہیں ۔‘‘ایسے ہی جس مسافر نے فرطِ مسرت میں اللہ تعالیٰ کو اپنا بندہ کہہ دیا تھا، تو اس کے اس جملے کی گرفت سبقت لسانی کی بنا پر نہ کی گئی، بلکہ سیاق مدح میں اس جملے کو حدیث میں بیان کیا گیا ہے :
اللهم أنت عبدي وأنا ربك، أخطأ من شدة الفرح[24]’’باری تعالیٰ! تو میرا بندہ اور میں تیرا رب ہوں، فرط مسرت میں وہ غلط جملے بول دیتا ہے۔‘‘معلوم ہوا کہ ناروا الفاظ میں نیت کا اعتبار ہوتا ہے، جیسا کہ نبی کریم ﷺنے بھی اس کا اعتبار کیا ہے۔
17 جب تک اہانتِ رسول صریح نہ ہو تو اس وقت تک بھی سزا ے قتل حتمی نہیں ہوتی، جیسا کہ امام بخاری نے سیدنا انسؓ بن مالک کی یہ حدیث بیان کی ہے:
يَقُولُ مَرَّ يَهُودِيٌّ بِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: السَّامُ عَلَيْكَ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: «وَعَلَيْكَ» فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: «أَتَدْرُونَ مَا يَقُولُ، قَالَ السَّامُ عَلَيْكَ». قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَلَا نَقْتُلُهُ؟ قَالَ: «لَا، إِذَا سَلَّمَ عَلَيْكُمْ أَهْلُ الْكِتَابِ فَقُولُوا وَعَلَيْكُمْ»[25]’’ایک یہودی نبیﷺپر گزرا، کہنے لگا: السَّام علیك یعنی تم مرو۔ آنحضرت ﷺنے جواب میں صرف وَعَلَیْكَ کہا( تو بھی مرے گا)۔ پھر آپ نے صحابہ سے فرمایا :تم کو معلوم ہوا، اس نے کیا کہا؟ اس نے السَّام علیك کہا۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللّٰہ! ( حکم ہو تو) اُس کو مارڈالیں۔ آپ نے فرمایا :نہیں۔ جب اہل کتاب یہود اور نصاریٰ تم کو سلام کیا کریں تو تم اتنا ہی کہا کرو : وَعَلَیکُم ‘‘اس حدیث پر امام بخاری نے یہ عنوان قائم کرکے
بَابُ إِذَا عَرَّضَ الذِّمِّيُّ وَغَيْرُهُ بِسَبِّ النَّبِيِّ ﷺ وَلَمْ يُصَرِّحْ نَحْوَ قَوْلِهِ: السَّامُ عَلَيْكَ ’’جب کوئی غیر مسلم نبی کریم ﷺکی ایسی توہین کرے جس میں صراحت نہ ہومثلاً السام علیك وغیرہ کہنا‘‘ اور اس کے بعد مذکورہ حدیث بیان کرکے یہ استدلال کیا ہے کہ غیرواضح توہین کو بھی نظرانداز کیا جائے گا۔
اور درج ذیل احادیث بھی اسی سے ملتی جلتی ہیں جن میں قابل سزا توہین کے بارے میں اشکال پایا جاتا تھا، چنانچہ ایک شخص نے سیدنا علیؓ کے یمن سے بھیجے ہوئے سونے کی تقسیم کے وقت محروم ہونے پر نبی کریم ﷺ پر اعتراض کیا تو سیدنا خالد بن ولید نے آپﷺ سے اجازت مانگی :
كُنَّا نَحْنُ أَحَقَّ بِهَذَا مِنْ هَؤُلاَءِ، قَالَ: فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ:«أَلاَ تَأْمَنُونِي وَأَنَا أَمِينُ مَنْ فِي السَّمَاءِ، يَأْتِينِي خَبَرُ السَّمَاءِ صَبَاحًا وَمَسَاءً»، ... فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ اتَّقِ اللَّهَ، قَالَ: «وَيْلَكَ، أَوَلَسْتُ أَحَقَّ أَهْلِ الأَرْضِ أَنْ يَتَّقِيَ اللَّهَ» قَالَ: ثُمَّ وَلَّى الرَّجُلُ، قَالَ خَالِدُ بْنُ الوَلِيدِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلاَ أَضْرِبُ عُنُقَهُ؟ قَالَ: «لاَ، لَعَلَّهُ أَنْ يَكُونَ يُصَلِّي» فَقَالَ خَالِدٌ: وَكَمْ مِنْ مُصَلٍّ يَقُولُ بِلِسَانِهِ مَا لَيْسَ فِي قَلْبِهِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: «إِنِّي لَمْ أُومَرْ أَنْ أَنْقُبَ عَنْ قُلُوبِ النَّاسِ وَلاَ أَشُقَّ بُطُونَهُمْ»[26]’’ ان لو گو ں سے زیا دہ ہم اس سونے کے مستحق تھے ۔ جب آنحضرت ﷺ کومعلوم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ ’’تم مجھ پر اعتبار نہیں کرتے حالانکہ اس اللّٰہ نے مجھ پر اعتبار کیا ہے جو آسمان پر ہے اور اس کی جو آسمان پر ہے وحی میرے پاس صبح و شام آتی ہے ۔‘‘ ...ایک شخص کہنے لگا: یارسول اللّٰہ!’’اللّٰہ سے ڈریے ۔‘‘ آپ نے فرمایا : افسوس تجھ پر ،کیا میں اس روئے زمین پر اللّٰہ سے ڈرنے کا سب سے زیادہ مستحق نہیں ہوں ۔ پھر وہ شخص چلا گیا ۔ خالد بن ولید نے عرض کیا: یا رسول اللّٰہ ! میں کیوں نہ اس شخص کی گردن مار دوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں شاید وہ نما ز پڑھتا ہو۔ اس پر خالد نے عرض کیا کہ بہت سے نمازپڑھنے والے ایسے ہیں جو زبان سے اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں اور ان کے دل میں وہ نہیں ہوتا ۔ آپ ا نے فرمایا: مجھے اس کا حکم نہیں ہواکہ لوگوں کے دلوں کی کھوج لگاؤں اور نہ اس کا حکم ہواکہ ان کے پیٹ چاک کروں ۔‘‘اور سیدنا عمرؓ بن خطاب نے بھی ایسے ہی ایک واقعے میں نبی کریمﷺ سے دریافت کیا:
بَيْنَا النَّبِيُّ ﷺ يَقْسِمُ جَاءَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ ذِي الْخُوَيْصِرَةِ التَّمِيمِيُّ فَقَالَ اعْدِلْ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ «وَيْلَكَ وَمَنْ يَعْدِلُ إِذَا لَمْ أَعْدِلْ» قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: دَعْنِي أَضْرِبْ عُنُقَهُ قَالَ: «دَعْهُ فَإِنَّ لَهُ أَصْحَابًا يَحْقِرُ أَحَدُكُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِهِ وَصِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِ يَمْرُقُونَ مِنْ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنْ الرَّمِيَّةِ...»[27]’’نبی کریم ﷺتقسیم فرمارہے تھے کہ عبداللّٰہ بن ذی الخویصرہ تمیمی آیا اور کہا: یا رسول اللّٰہ! انصاف کیجئے۔ آنحضرت ﷺنے فرمایا:افسوس اگر میں انصاف نہیں کروں گا تو اورکون کرے گا۔ اس پر حضرت عمر بن خطاب نے کہا کہ مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس کی گردن ماردوں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ نہیں اس کے کچھ ایسے ساتھی ہوں گے کہ ان کی نماز اور روزے کے سامنے تم اپنی نماز اور روزے کو حقیر سمجھوگے لیکن وہ دین سے اس طرح باہر ہوجائیں گے جس طرح تیر جانور میں سے باہر نکل جاتا ہے...‘‘پیش نظر تینوں واقعات میں (جن میں سے پہلے سے امام بخاری نے بھی استدلال کیا ہے)صحابہ کرام کے نبی ﷺ سے دریافت کرنے ؍اجازت طلب کرنے
(أَلَا نَقْتُلُهُ؟، أَلاَ أَضْرِبُ عُنُقَهُ؟ اور دَعْنِي أَضْرِبْ عُنُقَهُ) کا مطلب یہ ہوا کہ قابل سزا توہین کا فیصلہ صحابہ کرام خود ہی نہیں کرلیا کرتے تھے بلکہ نبی کریم (جو قاضی بھی تھے) سے دریافت کرتے تھے۔چنانچہ توہین رسالت کے سلسلے میں یہ واضح ہونا چاہیے کہ کیا یہ توہین بنتی بھی ہے یا نہیں ؟ اگر یہ قابل سزا توہین نہیں ہے تو پھر نظر انداز کیا جائے ۔ مزید برآں آپ سے یہ بھی دریافت کرتے کہ اس کی سزا دی جائے یا نہیں جیسا کہ صحابہ کرامؓ کے عمل سے پتہ چلتا ہے۔اور فی زمانہ ان اُمور کا جائزہ لینے کے لئے جمیع مسالک کے مستند علماے کرام کی ایک مجاز کمیٹی کا ہونا ضروری ہے۔
18.مذکورہ بالا احادیث کی ایک توجیہ تو یہ ہے کہ ان میں توہین صریح یا قابل سزا نہیں تھی، جیساکہ ذکر ہوا اور بعض علما نے آخری دو احادیث (سیدنا خالد وعمر)کی دوسری توجیہ یہ بھی کی ہے کہ ان میں توہین رسالت کا ارتکاب تو تھا ، تاہم نبی کریم ﷺنے اُنہیں معاف کیا اور حیاتِ طیبہ میں خود معاف کرنا آپ ﷺکے لئے ممکن تھا، اب معاف کرنا ممکن نہیں جیسا کہ پیچھے حافظ ابن قیم کا قو ل گزرا اور اما م ابن تیمیہ بھی لکھتے ہیں:
ومعلوم أن النيل منه أعظم من انتهاك المحارم لكن لما دخل فيها حقه كان الأمر إليه في العفو أو الانتقام فكان يختار العفو وربما أمر بالقتل إذا رأى المصلحة في ذلك بخلاف ما لا حق له فيه من زنا أو سرقة أو ظلم لغيره فإنه يجب عليه القيام به. وقد كان أصحابه إذا رأوا من يؤذيه أرادوا قتله لعلمهم بأنه يستحق القتل فيعفو هو عنه ﷺ ويبين لهم أن عفوه أصلح مع إقراره لهم على جواز قتله ولو قتله قاتل قبل عفو النبي ﷺ لم يعرض له النبي ﷺ لعلمه بأنه قد انتصر لله ورسوله بل يحمده على ذلك ويثني عليه كما قتل عمر رضي الله عنه الرجل الذي لم يرضى بحكمه وكما قتل رجل بنت مروان وآخر اليهودية السابة فإذا تعذر عفوه بموته ﷺ بقي حقا محضا لله ولرسوله وللمؤمنين لم يعف عنه مستحقه، فتجب إقامته.
[28]’’ظاہر ہے کہ اہانتِ رسول کا ارتکاب محرماتِ الٰہیہ کو پامال کرنے سے بھی بڑا گناہ ہے تاہم جب اس میں آپﷺ کا حق داخل ہے، تو معاف کرنا یا بدلہ لینا آپ کی صوابدید ٹھہرا۔ سو نبی کریم ﷺ کبھی معاف فرما دیتے، اور جب قرین مصلحت سمجھتے توقتل کا بھی حکم دیا کرتے،برخلاف چوری، زنا اور دوسروں پر ظلم وغیرہ جرائم کے ، کہ ان کی سزا دینا آپﷺ پر (بحکم الٰہی) واجب تھا۔
اور آپ کے صحابہ کرام جب کسی شخص کو آپ کو اذیت دیتا دیکھتے تو اس کو مستحق قتل سمجھتے ہوئے اس کو قتل کرنے کا ارادہ کرلیتے تو آپ ﷺ اس کو نظرانداز کرتے اور جوازِ قتل کو برقرار رکھتے ہوئے یہ واضح فرمادیتے کہ اس کو معاف کرنا زیادہ مناسب ہے۔اگر کوئی صحابی نبی کریمﷺ کی معافی سے پہلے ہی قتل کردیتا، تو نبی کریم ﷺ اس بنا پر اس کو تنبیہ نہ فرماتے کہ اس نے دراصل اللّٰہ اور اس کے رسول کی مدد کی ہے، جیسا کہ سیدنا عمر نے اس شخص کو قتل
[29] کردیا جو نبی کریمﷺ کے فیصلہ پر راضی نہ تھا، اور ایک صحابی نے مشرکہ عصما
[30]بنتِ مروان اور دوسرے نے شاتمہ یہودیہ
[31] کو قتل کردیا۔ الغرض نبی کریمﷺ کی وفات کے بعد جب آپ کا معافی دینا ممکن نہ رہا تو یہ صرف اللّٰہ، رسول اور مؤمنین کا حق بن گیا جس کے حق دار اَب معاف نہیں کرسکتے، چنانچہ توہین رسالت پر سزاے موت کو نافذ کرنا واجب ہوگیا۔‘‘
3.
قانون کو ہاتھ میں لینے کے جواز کا مسئلہ: لوگوں میں یہ علم اور موقف عام کیا جائے کہ توہین رسالت کے حوالے سے قانون کو ہاتھ میں لینا جائز نہیں ۔ اور اس سلسلے میں کوئی آیتِ کریمہ یا حدیثِ مبارکہ ایسی نہیں جو عام شخص کو توہین رسالت پر قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت یا حکم دینے پر مشتمل ہو۔ بلکہ نبی کریمﷺ نے قانون کو ہاتھ میں لینے کی صریحاً اجازت نہیں دی، جیسا کہ ابوہریرہ سے مروی ہے :
أَنَّ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ الْأَنْصَارِيَّ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَرَأَيْتَ الرَّجُلَ يَجِدُ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا أَيَقْتُلُهُ؟ قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «لَا». قَالَ سَعْدٌ: بَلَى، وَالَّذِي أَكْرَمَكَ بِالْحَقِّ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «اسْمَعُوا إِلَى مَا يَقُولُ سَيِّدُكُمْ» [32]’’سعد بن عبادہ انصاریؓ نے رسول اللّٰہﷺ سے پوچھا: کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ غیر آدمی کو دیکھ لے تو کیا اسے قتل کردے، تو نبی کریمﷺ نے فرمایا : نہیں۔ سعد بولے: کیوں نہیں، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو برحق مبعوث کیا ۔ تو نبی کریم ﷺنے کہا: سنو ! تمہارا سردار (سعد)کیا کہتا ہے۔‘‘گویا آپ ﷺ نے سیدنا سعد بن عبادہ کو قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت نہ دی۔ جب اسلام میں قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوئی گنجائش نہیں اور اس سلسلے میں آنے والی احادیثِ مبارکہ
[33] سے اسی قدر علم ہوتا ہے جیسا کہ سیدنا ابوبکرؓ صدیق کے واقعے میں بھی ابوبرزہ ؓ نے گردن مارنے کی اجازت طلب کی تھی، نہ کہ خود اقدام کردیا تھا۔ تو اس سلسلے میں قانون کو ہاتھ میں لینے والوں سے عدل وانصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں گے جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ کیونکہ اگریہ ہر مسلمان پر واجب ہوتا یا اس کا جواز ہوتا تو پھر صحابہ کرام کو اس میں پہل کرنی چاہئے تھی کیونکہ حب ِرسول میں وہ ایک دوسرے سے بڑھ کر تھے،اور سزا نہ دینے والے صحابہ کو کوتاہی کا مرتکب ٹھہرنا چاہئے تھا، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ غرض یہ مسلّمہ شرعی مسئلہ ہے کہ سزاؤں کو نافذ کرنا حاکم کا ہی فرض ہے:
i. توہین رسالت کی سزا ایک شرعی حد ہے اور حدود کا نفاذ حاکم وقت کا ہی فریضہ ہے۔
ii. امام بخاری نے صحیح بخاری کے اس باب میں اپنے اسی رجحان کو بیان کیا ہے:
بَابُ الحَاكِمِ يَحْكُمُ بِالقَتْلِ عَلَى مَنْ وَجَبَ عَلَيْهِ، دُونَ الإِمَامِ الَّذِي فَوْقَهُیعنی ’’ سزا کو حاکم ہی نافذ کرتا ہے، تاہم ماتحت حاکم اس سزا کو بڑے حاکم کو بتانے کا پابند نہیں ۔‘‘
iii. محدث امام ابوبکر بن ابی شیبہ نے دوباب قائم کرکے اپنے رجحان اور متعدد آثار کو پیش کیا:
الدم يقضي فيها الأمراء اور الحدود إلى الإمام[34]’’خون کا فیصلہ حکام ہی کریں گے اور حدود کو حاکم کے سپرد کیا جائے۔
iv. اما م محمد بن ادریس شافعی فرماتے ہیں:
"لا يقيم الحد على الأحرار إلا الإمام ومن فوض إليه الإمام."’’آزاد لوگوں پر حد صرف حاکم ہی قائم کرسکتا ہے، یا وہ جس کو حاکم یہ ذمہ داری تفویض کردے۔‘‘
v. اور شافعیہ میں امام یحییٰ بن شرف النووی (م631ھ) نے باب کا عنوان یوں قائم کیا ہے:
لا يقيم الحد على الأحرار إلا الإمام ومن فوض إليه الإمام، لأنه لم يقم حد على حرّ على عهد رسول الله ﷺ إلا بإذنه ولا في أيام الخلفاء إلا بإذنهم، ولأنه حق لله تعالىٰ يفتقر إلى الاجتهاد ولا يؤمن في استيفائه الحيف فلم يجز بغير إذن الامام. [35] ’’آزاد لوگوں پر صرف حاکم ہی حد قائم کرسکتا ہے، یا وہ شخص جس کو حاکم یہ فرض تفویض کردے کیونکہ نبی کریم کے دور میں آپ کی اجازت کے بغیر اور خلفاے راشدین کے دور میں ان کی اجازت کے بغیر آزاد شخص پر کوئی حد قائم نہیں کی گئی۔ مزید برآں یہ اللّٰہ کا حق ہے جو اجتہاد کا متقاضی ہے۔ اور اسکو پورا کرنے میں ملامت ؍دباؤ کے بغیر چارہ ہے۔سو حاکم کی اجازت کے بغیر حد لگانا جائز نہیں۔‘‘
vi. ایک اور مقام پر امام نووی مزید لکھتے ہیں:
ولايجوز استيفاء القصاص إلا بحضرة السلطان لانه يفتقر إلى الاجتهاد ولا يؤمن فيه الحيف مع قصد التشفي، فإن استوفاه من غير حضرة السلطان عزّره على ذلك.’’حاکم کی موجودگی کے بغیر قصاص لینا جائز نہیں کیونکہ یہ اجتہاد کا محتاج ہے۔ اور اصلاحِ معاشرہ کی غرض کے باوجود اس کے نفاذ میں دباؤ پڑنا لازمی ہے۔ اگر کوئی شخص حاکم کے بغیر ایسا کرے تو اسے سزا دی جائے گی۔‘‘
vii. امام ابوبکر البکری شافعی(م 1310ھ) لکھتے ہیں :
فلو قتله غيره عُزِّر لافتياته على الإمام[36]’’اگر حاکم کے سوا کوئی اور سزا دے تو حاکم کے حق میں دخل اندازی کی بنا پر اسے تعزیر دی جائے۔‘‘
viii. امام علاء الدین ابوبکر کاسانی حنفی لکھتے ہیں:
"وأما شرائط جواز إقامتها يعني الحدود ... فهو الإمامة"[37]’’جہاں تو اقامتِ حدود کے جواز کی شرائط کا تعلق ہے تو ان میں حاکم ہونا شامل ہے۔‘‘
ix. اما م ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
"خاطب الله المؤمنين بالحدود والحقوق خطابًا مطلقًا كقوله ﴿وَالسّارِقُ وَالسّارِقَةُ فَاقطَعوا أَيدِيَهُما﴾... قَدْ عُلِمَ أَنَّ الْمُخَاطَبَ بِالْفِعْلِ لَا بُدَّ أَنْ يَكُونَ قَادِرًا عَلَيْهِ وَالْعَاجِزُونَ لَا يَجِبُ عَلَيْهِمْ ... هُوَ فَرْضٌ عَلَى الْكِفَايَةِ مِنْ الْقَادِرِينَ و"الْقُدْرَةُ" هِيَ السُّلْطَانُ؛ فَلِهَذَا: وَجَبَ إقَامَةُ الْحُدُودِ عَلَى ذِي السُّلْطَانِ وَنُوَّابِهِ.[38]’’اللّٰہ تعالیٰ نے مؤمنوں کو عمومی خطاب کے ذریعے حدود او رحقوق نافذ کرنے کی ہدایت کی ہے جیسا کہ آیت
﴿وَالسّارِقُ وَالسّارِقَةُ فَاقطَعوا أَيدِيَهُما﴾میں ہے۔اور یہ بات معلوم ہے کہ حکم کے مخاطب کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس کی قدرت بھی رکھتا ہو اور عاجز شخص پر حکم پورا کرنا واجب نہیں ہوتا۔ چنانچہ یہ حکم قدرت رکھنے والوں پر ہی فرض ہے اور قدرت سے مراد حاکم ہے۔ چنانچہ حدود کو قائم کرنا حاکم اور اس کے نائبین کا فرض ہے۔‘‘
جہاں تک امام ابن تیمیہ سے منسوب ہے کہ اہانتِ رسول کا مسئلہ اس عام اُصول سے مستثنیٰ ہے اور اس کی دلیل نابینا صحابی کا واقعہ
[39] ہے جس میں نبی کریمﷺ نے قانون کو ہاتھ میں لینے کی سزا نہیں دی، تو واضح رہے کہ یہ بات درست نہیں بلکہ امام ابن تیمیہ نے نابینا صحابی کے اقدام کی چھ توجیہات کرکے اس اُصولی جواز سے اتفاق نہیں کیا ۔ چنانچہ آپ اس حدیث کی پہلی توجیہ یہ بیان کرتے ہیں کہ وہ عورت باندی تھی اور صحیح احادیث کے مطابق
[40] باندی کو اس کا مالک خود سزا دے سکتا ہے، جیسا کہ امام شافعی اور امام مالک کا یہی موقف ہے۔ دوسری توجیہ یہ کہ دراصل یہ سزا دینا تو حاکم کا حق ہے اور یہ حاکم کے حق میں دخل اندازی ہے، تاہم حاکم اس دخل اندازی کو معاف کرنے کا مجاز
[41] ہے(اگر چاہے تو معاف کرے، چاہے تو سزا دے لے)، چوتھی توجیہ یہ کی ہےکہ ایسا کرنا صرف عہدِ نبوی میں جائز تھا، فی زمانہ اس کی اجازت
[42] نہیں ہے۔الغرض شاتم رسول کو خود قتل کردینے میں جن واقعات سے استدلال کیا جاتا ہے ، پیش نظر حدیث کے ماسوا باقی سب ہی ضعیف ہیں، جیسا کہ پیچھے حواشی میں تینوں روایات کی وضاحت ہوچکی ہے اور یہ حدیثِ اعمیٰ باندی کے بارے میں ہےاور یہاں قاضی نے اپنے حق میں دخل اندازی کو معاف کیا ہے۔ چنانچہ یہ استثنیٰ کے ثبوت کے لئے کافی دلیل نہیں ، اوراحتمالات سے استدلال ثابت نہیں ہوتا۔ مزید پیچھے تین مستند احادیث بھی گزری ہیں جن مین توہین رسالت کے صدور یا اس کی سزا کے بارے میں نبی ﷺ سے استفسار کرنا ثابت ہے۔واللّٰہ اعلم
یہی موقف فی زمانہ مکہ مکرمہ کے نامور عالم شیخ محمد صالح المنجد نے بھی اختیار کیا ہے، فتویٰ لکھتے ہیں:
المحاكمة العادلة لمن يسب النبي ﷺ ليست قولا لبعض العلماء ، بل هي قول عامتهم؛ لأنهم متفقون على أن إقامة الحدود شأن الإمام أو الحاكم أو نائبه، وهو لا يقيمها إلا بقضاء القاضي الذي يتولى الفصل في شؤون العباد في الدنيا . وقد كان النبي هو من يتولى القضاء بين الناس، ويتولى الحكم في أقوالهم وأفعالهم فلما توفي ﷺ كان ذلك للقضاة من الصحابة والتابعين والأئمة من بعده .والمصلحة الشرعية تقضي بذلك على وجه القطع أيضا ؛ إذ لو تُرك الأمر للناس ، يضرب كل منهم عنق من ارتد عن الدين بزعمه ، أو يقيم الحد على من وقع في الفاحشة، لسالت الدماء في المجتمع، واضطربت أحوال الناس، ودبت الفوضى في شؤونهم وأمورهم .وحوادث السيرة أو السنة النبوية المشار إليها في السؤال تتوافق مع هذا التأصيل ولا تتعارض، بل هي التي دلت عليه؛ فالنبي ﷺ كان هو الذي يأمر بإقامة الحد أو بقتل من يستحق القتل بعد ثبوت ذلك عليه، وقد كان للنبي ﷺ في حياته مقام القضاء، ومقام الولاية ومقام الحكم وغيرها إلى جانب مقام النبوة المعصوم. قال شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله في "الصارم المسلول " :"فالنبي ﷺ لم يكن يقيم الحدود بعلمه، ولا بخبر الواحد، ولا بمجرد الوحي، ولا بالدلائل والشواهد، حتى يثبت الموجب للحد، ببينة أو إقرار"فمن يفتئت على القضاء الشرعي اليوم، ويقيم الحدود بنفسه بدعوى ما وقع من حوادث في السنة النبوية ، فقد تمسك بمنطق ضعيف، وحجة واهية[43] .
’’شاتم رسو ل کا (خود)عادلانہ فیصلہ کردینا‘ علما کا موقف نہیں، بلکہ عوام الناس کی رائے ہے کیونکہ علما تو اس پر متفق ہیں کہ یہ خلیفہ، حاکم یا اس کےنائب کا ہی کام ہے۔ اور اس سزا کو بھی قاضی کے فیصلے سے ہی نافذ کیا جانا چاہیے جو دنیا میں لوگوں کے معاملات کا ذمہ دار ہے۔ نبی کریم بھی لوگوں کے مابین فیصلہ فرمایا کرتے، اور ان کے اقوال وافعال کا فیصلہ کرتے۔ جب آپ فوت ہوگئے تو یہ صحابہ وتابعین اور حکام کا کام تھا۔شرعی مصلحت بھی حتمی طور پر اسی کی متقاضی ہے کیونکہ اگر یہ معاملہ لوگوں کے سپرد کردیا گیا، تو ہر شخص اپنے زعم کے مطابق اسلام سے مرتد کو قتل کرنے لگے گا، جو بھی شخص بے حیائی کا ارتکاب کرے، اس پر حد نافذ کردے گا، ایسے تومعاشرے میں خون بہنا شروع ہوجائے گا، لوگوں کے حالات مضطرب اور ان کے معاملات ومسائل میں بدامنی پھیل جائے گی۔
سیرت اور سنتِ نبویہ میں مذکور واقعات جن کا سوال میں تذکرہ ہے، وہ اس بنیاد سے متفق ہیں، متعارض نہیں بلکہ ان سے یہی پتہ چلتا ہے۔ چنانچہ نبی مکرم ﷺ ہی اقامتِ حد کا حکم دیا کرتے، اور ثبوت پورا ہونے کے بعد مستحق قتل کے قتل کا حکم دیتے۔ نبی کریم اپنے دور میں نبوتِ معصومہ کے ساتھ ساتھ قاضی ، حاکم اور فیصلے کے مناصب پر بھی فائز تھے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ ’الصارم المسلول‘ میں کہتے ہیں : ’’نبی کریمﷺ محض اپنے علم یا خبر واحد، یا وحی سے فیصلے نہیں فرمادیتے تھے، نہ ہی نرے دلائل وشواہد سے، حتی کہ گواہی یا اعتراف کے ذریعے سزا کا وجوب ثابت نہ کرلیتے۔‘‘ چنانچہ جو شخص آج شرعی فیصلہ سے بالا بالا ہی قانون ہاتھ میں لے، اور سنت نبویہ کے بعض واقعات کى نام پر اپنے تئیں نفاذِ حدود شروع کردے تو اس نے کمزور بات اور بے کار دلیل کو اختیار کیا ہے۔‘‘
چنانچہ امام ابن تیمیہ نے سزا دینا اصلاً حق حاکم قرار دیا ہے اور کہا کہ قاضی چاہے تو اپنے حق کو چھوڑ سکتا ہے، جیسا کہ نابینا صحابی کے واقعے میں ہوا کہ یہ فیصلہ عدالتِ نبوی سے صادر ہوا ۔زیادہ سے زیادہ یہ واقعہ، اس جیسے از خود ہوجانے والے حتمی توہین رسالت کے واقعات میں عدالت کے فیصلے کے بعد، قتل کرنے والے سے رعایت کی نظیر بن سکتا ہے، لیکن اس سے بڑھ کر اس سے عدالت سے بالا بالا ہی قبل از واقعہ ایک اُصولی جواز بیان کرنا کہ توہین رسالت پر قانون کو ہاتھ میں لینا جائز ہے، اصل واقعہ سے زائد مطالب کا استخراج ہے۔اور پیچھے توہین رسالت کے صدور کے سلسلے میں صحابہ کرام کے نبی کریمﷺ سے استفسارات اور نبی کریمﷺ سے اجازت لینا بھی ثابت شدہ امر ہے۔چنانچہ کسی گناہ کی سزا نہ دینے سے ا س کا جواز معلوم نہیں ہوجاتا،بلکہ سزا نہ دینے کی بہت سی وجوہات اور حکمتیں ہوسکتی ہیں۔ مذکورہ بالا تفصیل سے علم ہوتا ہے کہ توہین رسالت پر خود سے سزا کی تلقین کرنا ، اوّل تو صریح دلائل کا محتاج ہے، اگر اس کے جواز کا کچھ امکان بھی ہو تو ایسا دورِ نبوی میں ہی ہے جیسا کہ امام ابن تیمیہ کا موقف گزرا ، کیونکہ اس دور میں اللّٰہ تعالیٰ نبی کریمﷺ کو حقیقتِ واقعہ سے باخبر کردیتے ، صحابہ کرام بھی عادل ہونے کےناطے جھوٹ سے احتراز کرتے۔ بعد کے اَدوار میں جب لوگوں کےا یمان وتدین کی وہ کیفیت نہ رہی، تو اس وقت اہانتِ رسول پر قانون کو ہاتھ میں لینے کے اُصولی جواز سے گریز ہی ہوگا۔
مزید برآں حاکم کے لئے کسی جرم کی تعزیر قائم کرنا بھی مشروع ہے، اور جب پاکستانی قانون کی رو سے یہ جرم ہے تو پھر پاکستان میں اسے جرم ہی قرار دیا جائے گا۔
4. چونکہ توہین رسالت کا جرم بڑا سنگین ہے اور اس قانون کا ناجائز استعمال بھی بڑھتا جارہا ہے اور ملزم پر اس کے اثرات بھی بڑے سنگین پڑتے ہیں۔ اس لئے ایسے جرم کا الزام اور دعویٰ کرنے والے پر بھی کڑی نگرانی ہونی چاہیے۔ اور اس کو ثابت نہ کرسکنا بھی موجب ِسزا بنایا جاسکتا ہے، جیسا کہ اسلام میں زنا ایک سنگین جرم ہے، اور جو شخص اس جرم کا الزام لگاتا ہے، یا تو وہ چار گواہوں کے ذریعے اسے ثابت کرنے کا پابند ہے، وگرنہ اس کو تہمت کی سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔اور اسلامی تاریخ میں ایسے واقعات موجود ہیں کہ زنا کا جرم ثابت نہ کرسکنے پر شکایت کرنے والے کو خود تہمت کی سزا کا سامنا کرنا پڑا، جیسا کہ درج ذیل واقعہ ہے جو قسامہ بن زہیر سے مروی ہے:
لَمَّا كَانَ مِنْ شَأْنِ أَبِي بَكْرَةَ وَالْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ الَّذِي كَانَ، قَالَ أَبُو بَكْرَةَ: اجْتَنِبْ أَوْ تَنَحَّ عَنْ صَلَاتِنَا، فَإِنَّا لَا نُصَلِّي خَلْفَكَ، قَالَ: فَكَتَبَ إِلَى عُمَرَ فِي شَأْنِهِ، قَالَ: فَكَتَبَ عُمَرُ إِلَى الْمُغِيرَةِ: «أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّهُ قَدْ رَقِيَ إِلَيَّ مِنْ حَدِيثِكَ حَدِيثٌ، فَإِنْ يَكُنْ مَصْدُوقًا عَلَيْكَ فَلَأَنْ تَكُونَ مِتَّ قَبْلَ الْيَوْمِ خَيْرٌ لَكَ»، قَالَ: فَكَتَبَ إِلَيْهِ وَإِلَى الشُّهُودِ أَنْ يُقْبِلُوا إِلَيْهِ، فَلَمَّا انْتَهَوْا إِلَيْهِ دَعَا الشُّهُودَ، فَشَهِدُوا، فَشَهِدَ أَبُو بَكْرَةَ وَشِبْلُ بْنُ مَعْبَدٍ، وَأَبُو عَبْدِ اللهِ نَافِعٌ، فَقَالَ عُمَرُ حِينَ شَهِدَ هَؤُلَاءِ الثَّلَاثَةُ: "أَوَدُ الْمُغِيرَةِ أَرْبَعَةٌ، وَشَقَّ عَلَى عُمَرَ شَأْنُهُ جِدًّا. فَلَمَّا قَامَ زِيَادٌ، قَالَ: «إِنْ تَشْهَدْ إِنْ شَاءَ اللَّهُ إِلَّا بِحَقٍّ» ثُمَّ شَهِدَ، قَالَ: أَمَّا الزِّنَا فَلَا أَشْهَدُ بِهِ، وَلَكِنِّي رَأَيْتُ أَمْرًا قَبِيحًا، فَقَالَ عُمَرُ: «اللَّهُ أَكْبَرُ، حُدُّوهُمْ، فَجَلَدُوهُمْ» فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ جَلْدِ أَبِي بَكْرَةَ قَامَ أَبُو بَكْرَةَ، فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنَّهُ زَانٍ، فَهَمَّ عُمَرُ أَنْ يُعِيدَ عَلَيْهِ الْحَدَّ، فَقَالَ عَلِيٌّ: «إِنْ جَلَدْتَهُ فَارْجُمْ صَاحِبَكَ، فَتَرَكَهُ فَلَمْ يُجْلَدْ، فَمَا قَذَفَ مَرَّتَيْنِ بَعْدُ»[44]’’(آغاز میں ابو بکرہ کے مغیرہ بن شعبہ پر الزام ِزنا اور اختلافات کا تذکرہ ہے جس کے بعدسیدنا عمر نے انہیں امامت سے منع کرکے گواہوں کو طلب کرلیا۔) سو ابوبکرہ، شبل بن معبد اور ابو عبد اللّٰہ نافع نے گواہی دے دی۔ تین گواہیاں پوری ہونے پر سیدنا عمر بولے: مغیرہ کی سزا چار گواہیوں پر ہوگی، اور سیدنا عمر کے لئے مغیرہ پر یہ الزام بہت بھاری ہوگیا۔ جب زیاد کھڑا ہوا تو عمر بولے: گواہی صرف حق کی ہی دینا۔ سو زیاد نے یوں گواہی دی کہ ’’جہاں تک زنا ہے تو میں اس کی تصدیق نہیں کرسکتا،البتہ میں نے ایک قبیح کام دیکھا ہے۔‘‘ سیدنا عمر نے کہا: اللّٰہ اکبر! ان تینوں کو تہمت کی حد لگاؤ، سو ان تینوں کو تہمت کی سزا لگی۔ جب ابوبکرہ کو تہمت کے کوڑے لگ گئے تو ابوبکرہ کھڑے ہوگئے اور اصرار کرنے لگے: میں گواہی دیتا ہوں کہ مغیرہ زنا کار ہے۔ چنانچہ سیدنا عمر نے ان پر تہمت کی سزا دہرانے کا ارادہ کیا تو سیدنا علی نے روکا اور کہا: اگر آپ انہیں دوبارہ تہمت کی سزا لگاتے ہیں تو پھر اس چوتھی گواہی کی بنا پر مغیرہ کو رجم بھی کرنا ہوگا۔ چنانچہ عمرنے ان کو چھوڑ دیا اور دوبارہ کوڑے نہ لگائے۔چنانچہ دو کے بعد ابوبکرہ نے پھر بہتان نہ لگایا۔‘‘اس مستند واقعہ
[45] سے علم ہوتا ہے کہ غلط الزا م ِ زنا پر بھی سزائے تہمت کا تصور شریعتِ مطہرہ میں موجود ہے جو کہ بظاہر زنا تک محدود ہے لیکن فی زمانہ اسے اہانتِ رسول کی تہمت تک وسیع کیا جا سکتاہے، یا اس جرم کے غلط استعمال کی حوصلہ شکنی کے لئے حد قذف کو سامنے رکھتے ہوئے بطورِ تعزیر اُصولی قانون سازی بھی کی جاسکتی ہے۔ کم ازکم عدالت ایسے اشخاص کے لئے جو اس قانون کا غلط استعمال کرتے ہیں اور ان کی بدنیتی ثابت ہوجاتی ہے، اور وہ قرائن سے بھی ثابت نہیں کرسکتے کہ توہین رسالت کا جرم واقع ہوا تھا، تو ایسے لوگوں کو کڑی سزا دی جائے کیونکہ وہ لوگوں کے ایمان اور زندگیوں سے کھیلنے کے سنگین جرم کے مرتکب ہوئے ہیں اور بعض صورتوں میں یہ اقدامِ قتل کی کوشش بھی بن جاتی ہے، جیسا کہ خاں عبد الولی خاں یونیورسٹی کے طالبعلم مشعال خاں کیس کی ابتدائی تفصیلات سے اسی کا اندازہ ہوتا ہے۔
5. توہین رسالت کے جرم کی سنگینی، حساسیت اور عالمی سطح پر باعثِ نزاع ہونے کے ناطے ، اس جرم کی فوری ، تیز تر اور میڈیا سے بالاتر بند کمرے میں تفتیش کو بھی متعارف کرایا جاسکتا ہے۔
4۔ قانون کو ہاتھ میں لینے کی سزا کا مسئلہ توہین رسالت پر قانون کو ہاتھ میں لینا، دراصل دو جرائم ہیں جن میں سے دوسرا جرم ( قانون کو ہاتھ میں لینا ) پہلے امکانی جرم (توہین رسالت) کے ردّ عمل اور تناظر میں ہورہا ہے۔حکومت وعدالت کو چاہیے کہ دونوں جرائم کے خاتمے کی ذمہ داری قبول کرے ، اور دونوں کے انسداد کے لئے اقدامات کرے۔ صرف قانون کو ہاتھ میں لینا ہی جرم نہیں بلکہ اس سے سنگین تر جرم اہانتِ رسول کا ہونا بھی ہے اور دونوں کا خاتمہ حکومت کا فرض ہے۔
٭گر قانون ہاتھ میں لینے والا ، اہانتِ رسول کو ثابت نہ کرسکے تو اس کو قتل کے بدلے قتل کی سزا دی جائے۔ اگر اہانت رسول کے قرائن تو ہوں لیکن قانونی طور پر اس جرم کے تقاضے پورےنہ ہوتے ہوں، تب قانون کو ہاتھ میں لینے والے کو قتل خطا کی سزا دیتے ہوئے، اس پر مقتول کی دیت عائد کی جائے۔ اور اگر توہین رسالت سرے سے موجود ہی نہ ہو بلکہ صرف بدنیتی اور تحکم کی بنا پر ایسا اقدام کیا جائے اور یہ معاشرے کا عام چلن بننا شروع ہوجائے، تب قانون کو ہاتھ میں لینے والے پر فساد فی الارض کی حد یعنی حرابہ کو بھی نافذ کیا جاسکتا ہے۔
لیکن دراصل ایسے مسائل انہی حالات میں پیدا ہوتے ہیں جب حکومتِ وقت اور انتظامیہ پہلے جرم کے بارے میں غفلت اور بے پروائی برتنا شروع کردے، جس کے نتیجے میں لوگ از خود قانون کو ہاتھ میں لینے کی روش اختیار کرتے ہیں اور ان کی دیکھا دیکھی جرائم پیشہ لوگ اس جرم کے ذریعے ناجائز طور پر لوگوں کو ملوث کرکے قتل وغارت کا ایک نیا بہانہ تراش لیتے ہیں۔ اگر حکومت پہلے جرم کا انسداد نیک نیتی سے کرتی رہے تو معاشرے میں اس کے غلط استعمال کے امکانات درجہ بدرجہ معدوم ہوتے چلے جاتے ہیں اور دوسرے جرم کا امکان مشکل تر ہوتا جاتا ہے۔
وہ حدیث جن میں نابینا صحابی نے اپنی بیوی کو خود سے توہین رسالت پر قتل کردیا، تو نبی کریمﷺ نے پہلے جرم یعنی توہین رسالت کے وقوع کو جان لینے کے بعد صحابی کو معاف کردیا، اور اُنہیں قانون کو ہاتھ میں لینے کی سزا نہیں دی۔ تاہم ا س حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ ایسے واقعات عدالت سے بالا نہیں ، بلکہ ایسے ہر واقعے کا نبی کریمﷺ نے عدالت میں محاسبہ کرکےعدل وانصاف کے تقاضے
[46] پورے کرتے ہوئے اپنا فیصلہ سنایا، جیساکہ اس کی تفصیل گزر چکی ہے۔ اب جہاں تک دوسرے جرم پر نبی کریمﷺ کے معاف کرنے کا تعلق ہے تو قاضی ہونے کےناطے عدالت کے پاس یہ حق ہے کہ وہ اپنے حق میں دخل اندازی کو نظرانداز کرے یا اس سلسلے کے بڑھ جانے پر اس کی تعزیری سزا نافذ کرے۔چنانچہ توہین رسالت پر قانون کو ہاتھ میں لینے کو یوں دیکھا جانا چاہیے کہ
’’اہانتِ رسول کی سزا دینا حکومتِ وقت کا فریضہ ہے، اگر حکومت کو اس کا علم نہ ہو یا وہ اس کی سزا میں تاخیر کرے، اور مسلمان خود قانون کو ہاتھ میں لیں تو اُنہیں اُصولاً اسی بات کی تعلیم اور تلقین کی جائے گی کہ انہیں اس کی اجازت نہیں ہے کیونکہ قانون کو ہاتھ میں لینا ناجائز ہے۔ تاہم اگر کوئی ایسا کربیٹھے تو پھر اس کے قانون کے ہاتھ میں لینے کو پہلے جرم (توہین رسالت ) کے تناظر میں دیکھا جائے گا، اور اس کا یوں بھی جائزہ لیا جائے گا کہ ایک شاتم رسول کو سزا دینا یوں تو حکومتِ وقت کا فریضہ تھا لیکن اس کو قانون ہاتھ میں لینے والے نے خود سزا دینے کے گناہ کا ارتکاب کیا ہے (یہ بھی اس صورت میں جب کہ شتم رسول امرواقعہ میں ثابت ہوجائے) ۔اب عدالت چاہے تو دوسرے جرم کی سزا دےیا اُس کو معاف کردے۔‘‘
[47]٭توہین رسالت کے نتیجے میں قانون کو ہاتھ میں لینے والے کو لازماً قاتل قرار دینا درست نہیں بلکہ توہین رسالت کا وقوع اور ثبوت اس کے گناہ (قانون کو ہاتھ میں لینے) کو کمتر کردے گا اور بعض صورتوں میں وہ معاف بھی ہوسکتا ہے، جیسا کہ نبی کریمﷺ کے مذکورہ بالا عدالتی فیصلے اسی کی تائید کرتے ہیں اور اگر وہ ثابت نہ کرسکا تو وہ قاتل کی سزا پائے گا؛ قتل عمد، قتل خطا یا حرابہ کی، جیسا کہ اس کی تفصیل گزری ہے۔
5۔ دوطرفہ انتہاپسندی اور اس کی بنیادیں1. توہین رسالت ایک بڑا حساس اور سنگین جرم ہے، اور اگر یہ صریح اور کھلم کھلا ہو تو کم مسلمان ہی اس کو برداشت کرتے ہیں۔ایک طرف یہ اس جرم کی حساسیت اور شدت ہے جس کی وجوہات اس جرم کے تحلیلی تجزیے میں بیان ہوچکی ہیں۔
2. دوسری حقیقت یہ بھی ہے کہ بعض لوگ اپنے عقائد کی مخالفت کو توہین مذہب یا توہین رسالت بنا لیتے ہیں اور ان پر مرنے مارنے کو اُتر آتے ہیں۔اور یہ بھی پاکستانی معاشرے کا ایک اہم مسئلہ ہے کہ دین کی تعلیمات سے مراد ہماری اپنی ذاتی آرا ہوجاتی ہیں اور ہم ان میں کوئی گنجائش پیدا نہ کرنے اور اپنی رائے تشدد سے ٹھونسنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ بہت سے واقعات میں توہین رسالت کا جرم صادر ہی نہیں ہوتا، یا اس کے ثبوت کے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے جاتے ، اس سے پہلے ہی لوگ قانون کو ہاتھ میں لے کربلوہ عام کے ذریعے خود سے فیصلہ کردیتے ہیں۔یہ سراسر جذباتی اور انتہاپسندانہ صورتِ حال ہے۔
3. ایک تیسری الم ناک حقیقت یہ بھی ہے کہ پاکستان میں توہین رسالت کا جرم ہو بھی رہا ہے۔ اور مادر پدر آزاد میڈیا کے جدید ذرائع نے اظہار وابلاغ کے جرائم کو بہت آسان او ر عام کردیا ہے اور ان ذرائع کی پیچیدگی کی بنا پر اصل مجرم کے لئے چھپنے کے امکانات بھی وسیع تر ہوگئے ہیں۔ جیسا کہ حال ہی میں بھینسا ، موچی نامی بلاگرز کا مسئلہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر بحث رہا۔ اور مشعال خاں کیس میں بھی ایسے ہی توہین آمیز تبصرے ، مشعال خاں کے قتل کی بنیاد کے طور پر پیش کئے جاتے رہے۔ ان دونوں واقعات میں ہونے والی توہین کی نوعیت، مرتکبِ توہین سے قطع نظر ، اس سنگین درجے کی ہے کہ ملزمان اُن کے اعتراف سے مسلسل انکار ہی کرتے رہے۔ گویا توہین تو موجو د ہے اور بڑے پیمانے پر پھیل بھی رہی ہے، لیکن اس کے مرتکب کا پتہ نہیں چل رہا۔
4. چوتھی حقیقت یہ بھی ہے کہ
بین الاقوامی طور پرتو یہ جرم گذشتہ ایک عشرے سے معمول بن چکا ہے۔ جس تکرار اور ڈھٹائی کے ساتھ فی زمانہ توہین رسالت کا ارتکاب ہورہا ہے، اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ بلکہ یہ تہذیبوں کے مابین تصادم کا مرکزی نکتہ بن گیا ہے۔ اس تہذیبی تصادم کی بازگشت پاکستان میں بھی سنائی دیتی رہتی ہے۔دو عشروں سے نیو ورلڈ آرڈر کے نتیجے میں، امریکی سرپرستی میں جاری عسکری یلغار اور تہذیبی تصادم نے معاشروں میں انتہاپسندی کو فروغ دیا ہےاور یہ انتہاپسندی مختلف سطحوں پر دکھائی دیتی ہے۔
توہین رسالت کے اسی جرم کی بنا پر یوٹیوب جیسی مقبول ترین ویب سائٹ کو کئی سال پاکستان میں عدالتی فیصلے کی بنا پر ممنوع کردیا گیا، اور اس کے جواز کے لئے اظہارِ رائے کے بے کار استدلال کا سہارا لیا جاتا رہا ، حالانکہ قانونی طور پر ہر ملک میں اظہارِ رائے کا وہی تصور معتبر ہے جو اس ملک کے قانون
[48] نے متعین کردیا اور یوٹیوب جیسے ادارے دیگر ممالک کے قوانین کا احترام کرکے ہی اپنی خدمات میسر کرتے ہیں، جیسا کہ تھائی لینڈ میں یوٹیوب نے تھائی شاہی خاندان کے احترام کو ملحوظ رکھنے کا جب عہد
[49] کیا، تبھی اس کو وہاں اپنی سروسز دینے کی اجازت ملی۔ آخرکاریوٹیوب نے جب پاکستان کا مقامی ورژن جاری کیا، تب اس کی انتظامیہ پاکستانی قانون کی اس پابندی کو قبول کرنے کو آمادہ ہوئی۔
پہلی اور دوسری حقیقت تو اس جرم کی حساسیت یا اس کے غلط استعمال کو ظاہر کرتی ہے، جبکہ تیسری اور چوتھی حقیقتیں یہ بتاتی ہیں کہ بہر حال ایسے سنگین جرائم موجود ہیں، اور ان کا انسداد کرنا حکومتِ وقت کا فریضہ ہے۔ یہ آخری دو حقیقتیں پاکستان کے اس قانونِ توہین رسالت کا اُصولی جواز بھی ہیں جن سے ایسے جرائم کی روک تھام کی جاسکتی ہے۔ ان حقائق کو ہم مذہبی انتہاپسندی اور لبرل انتہاپسندی کے نام سے سمجھ سکتے ہیں۔
5. پاکستان میں قانونِ توہین کا جواز تو لبر ل انتہاپسندی بنی، جیسا کہ اس قانون کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے۔لیکن غور طلب امر یہ بھی ہے کہ پارلیمنٹ سے بنے قانون کو نافذ ہوئے 25 سال ہونے کو آئے اور آج تک اس جرم کی سزا میں کسی کو معمولی سی سزا بھی نہ دی جاسکی، اس پر طرہ یہ کہ ایسے ملزموں کی تائید میں مغرب زدہ این جی اوز اور سول سوسائٹی میڈیا کے سہارے پروپیگنڈہ کرتے ہیں اور عالمی ادارے اُن کی مدد کو آن پہنچتے ہیں۔ چنانچہ اس نوعیت کے جرم کا ارتکاب کرنے والے اکثر لوگ مغربی اداروں کی آنکھوں کا تارا بن جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ نفاذِ قانون کے فوری بعد 1994ء میں سلامت اور رحمت مسیح کے جرمنی روانگی وغیرہ کے دور سے جاری ہے۔
6. اس قانون کی مذمت کرنے میں لبرل انتہاپسند اس لئے بھی دلچسپی اور تیزی دکھاتے اور مغربی عالمی ادارے ان کی تائید کو آن موجود ہوتے ہیں، کیونکہ وہ شرعی بنیاد پر کسی قانون کے جواز کے سرے سے ہی قائل نہیں اور مغرب کا نظریۂ سیکولرزم ان کی فکری اساس اور نظریاتی جنت ہے۔ انہیں وہ سیکولر قانون ہی عزیز ہے جسے مجموعہ تعزیرات کے نام پر 1860 ءمیں لارڈ تھامس میکالے
[50] نے برطانوی قانون کو پیش نظ رکھ کر تشکیل دیا تھا۔ اسی بنیاد پر وفاقی شرعی عدالت کے بنیادی نظریے سے ہی اُنہیں اتفاق نہیں ، اس لئے وہ پہلے دن سے اپنے منحرفہ نظریے کے مطابق اسے ظالمانہ عدالت قرار دیتے ہیں اوراسی بنا پر اپنے مغربی آقاؤں سے تائید حاصل کرتے ہیں۔اس سیکولرزم کو وہ پاکستان کے دستور اور قوانین کے برعکس، اپنے تئیں یہاں نافذ کرنے میں مگن رہتے ہیں۔یاد رہے کہ پاکستانی قانون میں سیکولرزم کی اُصولی نفی تو بکثرت موجود ہے، لیکن اس کے تقاضوں سے بے خبری اور اشرافیہ کے رجحانات کی بناپر سیکولرزم کی یہ نفی نمائش سے آگے نہیں بڑھ پائی اور عملاً سیاست، عدالت، معیشت، میڈیا اورتعلیم ومعاشرت میں سیکولر نظریات کی ہی عمل داری ہے۔
7. ان قوانین توہین کی مذمت کی وجہ یہ بھی ہے کہ انہی ’قوانین توہین مذہب ‘میں ان شعائر کے احترام کا قانون (295 اے اور 298بی، سی
[51]) بھی ہے جو قادیانیوں کے لئے اسلامی شعائر: مسجد، نماز، صحابی وغیرہ جیسے الفاظ کا استعمال روکتا ہے، چنانچہ سیکولر لابی کے ساتھ قادیانی لابی بھی جمع ہوجاتی ہے اور عالمی برادری اُن کی پشت پر ہوتی ہے۔یہ تکون میڈیا میں اپنا وزن رکھتی اور اس مہم کو منظّم کردیتی ہے۔ یہ چار پشت در پشت تائید ی عناصر (سیکولر، قادیانی، عالمی برادری اور میڈیا) لادین حلقوں کی اس جدوجہد میں انتہاپسندی، شدت اور دباؤ پیدا کردیتے ہیں، جس کے سامنے حکومتِ وقت کو گھٹنے ٹیکے بنا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ان چار عناصر کو انتہاپسند مذہبی عنصر اور جرائم پیشہ عناصر کا غلط استعمال مزید تقویت دیتا ہے کہ اس قانون کو ختم کردیا جائے۔جبکہ اس قانون کی ضرورت اپنی جگہ مسلّمہ ہے، اور اس نظریاتی دہشت گردی کو ہم مسلمانوں کو جذبۂ ایمانی کے ساتھ روکنے کی جدوجہد کرنی چاہیے اور اس کے غلط استعمال کی حوصلہ شکنی اور روک تھام کرنی چاہیے۔شریعتِ اسلامیہ میں بھی ان پیچیدگیوں کا یہ حل نہیں کہ یہ شرعی سزا سرے سے ختم کردی جائے اور نہ ہی عام جرائم کے سلسلے میں یہ حل قطعاً مناسب ہے کہ جس قانون کا غلط استعمال ہو، اس کو کتابِِ قانون سے ہی حرفِ غلط کی طرح مٹا دیا جائے یا اس کو ناقابل استعمال بنا کر رکھ دیا جائے، بلکہ اس کے غلط استعمال کو روکنے کی سعی پیہم کی جائے۔
8. مذکورہ بالا دباؤ اور دو طرفہ انتہاپسندی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان میں آج تک توہین رسالت کے کسی مجرم کو سزا تو نہیں مل سکی، البتہ ممتاز حسین قادری کو سزائے موت دے کر ، حکومتِ وقت نے اس قانون کا سہارا لینے والوں کو سبق ضرور سکھا دیا ہے اور اب ’مذہبی تشدد کے فروغ‘ کے الزام کی بنا پر اس قانون کی تائید کرنے والوں کو سہولت کار کے درجے میں ڈالا جانا باقی رہ گیا ہے۔اس طرح حکومت مرتکبِ جرم شاتمان کو بیرونِ ملک روانہ کرکے اور ممتاز قادری کو سزاے موت دے کر، منصف کی بجائے فریق بننے کا تاثر گہرا ہے۔ جبکہ مسئلہ کا درست حل یہ ہے کہ اس قانون کے غلط استعمال کو روکا جائے، مذہبی انتہاپسندی کی روک تھام کی جائے اور اس لبرل انتہاپسندی کا بھی راستہ رو کا جائے جو ہمارے عقیدہ وایمان سے کھیلنا چاہتی اور قلبِ مسلم سے اسم محمدﷺ کو کھرچ دینا چاہتی ہے۔
9. حکومت کا یہ فرض بنتا ہے کہ ایک طرف شتم رسول کے غلط الزامات کی روک تھام کی جائے تو دوسری طرف معاشرے میں پھیلی توہین رسالت کو بھی کنٹرول کیا جائے۔ بالفرض اسلام آباد کے بلاگرز یا مشال خاں نے یہ جرم نہیں کیا، لیکن پاکستان میں ہونے والے اس جرم کے مرتکب کا کھوج نکالنا اور اس کو قرارِ واقعی سزا دینا بھی تو حکومت کا ہی کام ہے۔ٹیکنالوجی کی پیچیدگیوں کا نام لے کر حکومت اور انتظامیہ ، ان مسائل سے کب تک لا تعلقی برتتی رہے گی۔ چنانچہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فاضل جج جناب شوکت عزیز صدیقی کے یہ ریمارکس بڑی اہمیت کے حامل ہیں کہ ’’اگر سوشل میڈیا پر یہ اہانت کاسلسلہ روکا نہیں جاسکتا اور اس کے مجرموں کو قرارِ واقعی سزا نہیں دی جاسکتی، تو پھر ایسے ذرائع ابلاغ کو بند کردینے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ ہمارے دین وایمان کا تحفظ ، کسی ابلاغی ذریعہ کی افادیت سے کہیں زیادہ اہم ہے۔‘‘ اور یہی بات وفاقی وزیر داخلہ جناب چودھری نثار نے بھی کہی ہے کہ ’’ہمارا مذہب اور اس کے تقاضوں کا تحفظ ہر چیز سے پہلے ہے۔‘‘
بایں وجہ حکومت صرف غلط استعمال کی دہائی دے کراپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتی بلکہ اس کو اہانتی پوسٹس کے ذمہ داران کا سراغ جلد از جلد لگانا ہوگا اور ان کو قرار واقعی دینا ہوگی۔
مسئلہ کا حلمسلمہ عقائد کو دباؤ کے ذریعے ختم یا مٹا یا نہیں جاسکتا، بالخصوص نبی کریمﷺ کا اہل اسلام سے جو تعلق ہمارے دین نے تشکیل دیا ہے، اس کے بارے میں بھولے سے بھی یہ سوچ لینا کہ دباؤ کے نتیجے میں مسلمان اس تعلق سے دستبرداری یا اس میں کمزوری کوقبول کرلیں گے، یہ بالکل ناممکن بلکہ خارج از خیال امر ہےجیساکہ واقعات شاہدہیں کہ ممتاز قادری کو سزاے موت دینے کے باوجود اس سلسلے میں قانون شکنی رک نہیں سکی۔
نبی کریمﷺ نے بھی اپنے طرزِ عمل سے بتایا کہ آپ نے مشرکین کو بتوں کے بارے میں تعلیمات دینے کے باوجود اُن کو سختی سے ختم نہیں کیا، بلکہ قیام مکہ کے دوران اسی بیت اللّٰہ میں نمازیں پڑھیں جس میں سیکڑوں بت موجود تھے۔ آخر جب عقیدۂ توحید کھل کر ذہنوں میں راسخ ہوگیا، تب ان بتوں کو فتح مکہ کے موقع پر بیک جنبش گرادیا گیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عقائد کو دباؤ سے کچلا یا ختم نہیں کیا جاسکتا۔چنانچہ قرآن کریم نے بھی مسلمانوں کو غیرمسلموں کے مقدسات مثلاً معبودان، مقدس کتب، مقدس مقامات اور شخصیات کے احترام کی تلقین کی ہے اور اس احترام کو ہی دعوت کے فروغ کا وسیلہ بنایا ہے:
﴿وَلا تَسُبُّوا الَّذينَ يَدعونَ مِن دونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدوًا بِغَيرِ عِلمٍ كَذٰلِكَ زَيَّنّا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُم ثُمَّ إِلىٰ رَبِّهِم مَرجِعُهُم فَيُنَبِّئُهُم بِما كانوا يَعمَلونَ ﴿١٠٨﴾... سورةالانعام’’(اے مسلمانو!) یہ لوگ اللّٰہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں، انہیں گالی نہ دو ۔ ورنہ یہ لوگ جہالت کی وجہ سے چڑ کر اللّٰہ کو گالی دیں گے۔ اسی طرح ہم نے ہر گروہ کے عمل کو خوشنما بنا دیا ہے۔ پھر انہیں اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانا ہے تو جو کچھ یہ کرتے رہے، اس کی انہیں وہ خبر دے دے گا۔‘‘اس آیت کی تفسیر میں حافظ صلاح الدین یوسف ﷾ لکھتے ہیں:
’’یہ سد ذریعہ کے اُصول پر مبنی ہے کہ اگر ایک درست کام، اس سے بھی زیادہ بڑی خرابی کا سبب بنتا ہو تو وہاں اس درست کام کا ترک راجح اور بہتر ہے۔ اسی طرح نبی ﷺنے فرمایا کہ ’’تم کسی کے ماں باپ کو گالی مت دو کہ اس طرح تم خود اپنے والدین کے لئے گالی کا سبب بن جاؤ گے۔‘‘ (صحیح مسلم)
چنانچہ توہین رسالت کی شرعی سزا سے دستبرداری ایک ناممکن امر ہے ۔ اور دستبرداری کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ اس قانون کو یوں معطل کردیا جائے کہ یہ قابل عمل نہ رہے، اس بات کو بھی اہل اسلام گوارا نہیں کریں گے اور جب تک توہین رسالت معاشرے میں موجود ہے یا درآمد ہوتی ہے، اوراس کے ازالے کے لئے اگر حکومت اقدام نہیں کرے گی، تولوگ قانون کو ہاتھ میں لینے پر آمادہ ہوتے رہیں گے جس کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی۔
کسی بھی معاشرے میں عدل وانصاف ہی اس کے راہِ راست پر کاربند ہونے کا واحد طریقہ کار ہے، اور جب بھی کوئی سیدھی راہ سے انحراف کرتا ہے، تو عدالت اپنے ٹھوس اقدامات اور فوری فیصلوں کے ذریعے اس کوتاہی کاسدباب کرتی اور ملزم کوقرارِ واقعی انصاف مہیا کرتی ہے۔ معاشرے میں سزاؤں کا یہ کردار اس حدیث نبوی سے پوری طرح واضح ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا:
«مَثَلُ القَائِمِ عَلَى حُدُودِ اللَّهِ وَالوَاقِعِ فِيهَا، كَمَثَلِ قَوْمٍ اسْتَهَمُوا عَلَى سَفِينَةٍ، فَأَصَابَ بَعْضُهُمْ أَعْلاَهَا وَبَعْضُهُمْ أَسْفَلَهَا، فَكَانَ الَّذِينَ فِي أَسْفَلِهَا إِذَا اسْتَقَوْا مِنَ المَاءِ مَرُّوا عَلَى مَنْ فَوْقَهُمْ، فَقَالُوا: لَوْ أَنَّا خَرَقْنَا فِي نَصِيبِنَا خَرْقًا وَلَمْ نُؤْذِ مَنْ فَوْقَنَا، فَإِنْ يَتْرُكُوهُمْ وَمَا أَرَادُوا هَلَكُوا جَمِيعًا، وَإِنْ أَخَذُوا عَلَى أَيْدِيهِمْ نَجَوْا، وَنَجَّوْا جَمِيعًا»[52]’’اللّٰہ کی حدود پر قائم رہنے والے اور اس میں گھس جانے والے ( یعنی مخالفت کرنے والے ) کی مثال ایسے لوگوں کی سی ہے جنہوں نے ایک کشتی کے سلسلے میں قرعہ ڈالا جس کے نتیجہ میں بعض لوگوں کو کشتی کے اوپر کا حصہ اور بعض کو نیچے کا۔ پس جو لوگ نیچے والے تھے، انہیں ( دریا سے ) پانی لینے کے لیے اوپر والوں کے پاس سے گزرنا پڑتا۔ انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ ہم اپنے ہی حصہ میں ایک سوراخ کرلیں تاکہ اوپر والوں کو ہم کوئی تکلیف نہ دیں۔ اب اگر اوپر والے، نیچے والوں کو من مانی کرنے دیں گے تو کشتی والے تمام ہلاک ہوجائیں گے اور اگر اوپر والے نیچے والوں کا ہاتھ پکڑلیں تو یہ خود بھی بچیں گے اور ساری کشتی بھی بچ جائے گی۔‘‘اس مثال میں نبی مکرم ﷺ نے جہاز کو معاشرے سے تشبیہ دیتے ہوئے، جہاز کے نچلے حصے میں سوراخ کرنے کو جرم کی مثال بنا کر پیش کیا ہے۔ جس طرح دریا میں چلنے والا جہاز سوراخ کی بنا پر منزل تک نہیں پہنچ سکتا، اسی طرح مسلم معاشرہ جرائم کی موجودگی میں فلاح وصلاح کی منزل سے ہم کنار نہیں ہوسکتا۔ پھر جس طرح اس سوراخ کو بند کرنا جہاز کے ہر مسافر کے لئے ضروری ہے تاکہ وہ ہلاکت سے بچ جائے، اسی طرح جرائم کی روک تھام کرنا ، اللّٰہ کی حدود کے قیام کے ذریعے جو معاشرے کی حیات کا ذریعہ ہیں، ہر مسلمان کا فرض ہے۔ جومسلمان فرد ، اس ذمہ داری سے پہلو تہی کرے گا، وہ پورے معاشرے کا مجرم ہے۔
چنانچہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس شریعت پر مبنی قانون پر پوری ایمانی بصیرت کے ساتھ کاربند رہا جائے، اس کے غلط استعمال کے دروازے بند کئے جائیں جیسا کہ اس کی بعض سفارشات پیچھے گزر چکی ہیں، جن کا مقصد قانون کو معطل کرنے کی بجائے اس کے غلط استعمال کی روک تھام ہے۔
اس قانون پر آنے والے مغربی دباؤ کو سمجھا جائے او رحکمت وبصیرت کے ساتھ اُ ن کا مقابلہ کیا جائے۔اور اس پر اعتراض کرنے والوں کو شریعتِ اسلام اور عوامی آراپر مبنی قانون کی توہین کا مرتکب بتایا جائے۔
معاشرے میں دَر آنے والی ہر بے راہ روی کا ازالہ مؤثر نظام عدل سے ہی ہوسکتا ہے۔ اور نظام عدل ہی معاشرے کی جان ہوتا ہے۔ نظام عدل کو ہر دو جرائم (توہین رسالت اور قانون کو ہاتھ میں لینے )کے خاتمے کے لئے بیدار اور متحرک ہوناچاہیے اور بلاگرز یا مشال کیس کی طرح ماضی میں توہین رسالت کے ناجائز الزام کا نشانہ بننے والے حفاظِ کرام کے حق میں بھی متحرک ہوناچاہیے۔ ایسے حساس کیسز کو ترجیحی طور پر نمٹانا چاہیےاور ہر ہر کیس کی نوعیت کی مطابق ان میں عدل وانصاف کے تقاضے پورے کرنے چاہئیں۔اگر معاشرے میں یہی صورتحال جاری رہتی ہے تو یہ نظام عدل کی موت ہے جو آخر کار معاشرے کی موت پر منتج ہوگی۔العیاذ باللّٰہ
(ڈاکٹر حافظ حسن مدنی)
[1] سنن أبي داؤد: كِتَابُ الْحُدُودِ، بَابُ الْحُكْمِ فِيمَنْ سَبَّ النَّبِيَّﷺ، رقم 4363، سنن نسائی :کتاب تحریم الدم، باب حکم في من سبّ النبي ﷺ[2] صحیح البخاري 2510،1303،4037، صحیح مسلم: 1801، سنن أبي داود: 2768، السنن الکبرٰی للبيهقي:7؍40 و9؍81[3] زاد المعاد از علامہ ابن قیم جوزیہ: 5؍59
[4] الصارم المسلول: ص 3، طبع نشر السنہ، ملتان؛ الاشراف علیٰ مذاہب اہل العلم از ابن المنذر:3؍160، طبع دار الفکر
[5] فتح الباری:12؍281
[6] معالم السنن شرح سنن أبو داود از اما م خطابی : ۳؍۲۹۶
[7] المحلی از حافظ ابن حزم: 2؍330
[8] فتاویٰ حسب المفتین :2؍۳۳۷بحوالہ’گستاخ رسول کی سزا اور احناف کا موقف ‘از علامہ خلیل الرحمٰن قادری:محدث، اگست 2011ء
[9] الصارم المسلول على شاتم الرسول از شیخ الاسلام احمد ابن تیمیہ: ص 561... ص 541
[10] الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ للقاضی عیاض: 2؍932
[11] مجموعہ تعزیرات پاکستان كی دفعہ 295 اور اس کی ذیلی دفعات کا متن
[12] فوجداری ترمیمی ایکٹ نمبر 3 ...سال 1986ء
[13] دیگر انبیاے كرام کی توہین کے بارے میں سیدنا عمر فاروق کا ارشاد ہے : من سبّ الله أو سبّ أحدًا من الأنبياء فاقتلوه (سنن ابو داود: 4262، السنن الکبریٰ للبیہقی: 7؍60)
[14] پی ایل ڈی، فیڈرل شریعت کورٹ: 1991ء .... جلد : 43؍ص 10
[15] اس قانون پر 1992ء کے بعد مزید پیش قدمی کیا ہوئی، اس کا تذکرہ حالیہ شمارہ میں مضمون ’سینٹ کو بھیجی سفارشات‘ میں دیکھیں۔
[16] الصارم المسلول على شاتم الرسول از شیخ الاسلام احمد ابن تیمیہ: مسئلہ 2...ص 293، ناشر:الحرس الوطنی السعودی
[17] شیخ ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
أن سب الرسول ﷺ جناية لها موقع يزيد على سائر الجنايات بحيث يستحق صاحبها من العقوبة ما لا يستحقه غيره (الصارم المسلول: ص 291) ’’شتم رسول کے جرم کی سنگینی تمام جرائم سے بڑھ کر ہے کیونکہ اس کا مرتکب اتنی بڑی سزا کا مستحق ہے جو دیگر جرائم میں نہیں ۔‘‘[18] جیسا کہ پیچھے نکتہ نمبر 4 میں امام ابوبکر کی زبانی اس کو فتح الباری میں ذکر کیا گیا ہے۔
[19] زاد المعاد از علامہ ابن قیم جوزیہ: 5؍59
[20] ایسی ہی سفارش علماے کرام کے اس مراسلے میں بھی ملاحظہ کریں جو سینٹ کو بھیجا گیا۔شمارہ ہذا :ص 39
[21] جیسا کہ صحابہ کرام بھی ایسے واقعات کے سلسلے میں نبی ﷺسے پہلے فیصلہ کرواتے تھے جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔
[22] فتاوى سبكی :2؍573، ناشر دارالمعارف
[23] صحيح البخاري: كِتَابُ المَغَازِي، بَابُ قَتْلِ كَعْبِ بْنِ الأَشْرَفِ: رقم 4037[24] صحیح مسلم:کتاب التوبۃ: باب فی الحث علی التوبۃ،رقم2747
[25] صحيح البخاري: كِتَابُ اسْتِتَابَةِ المُرْتَدِّينَ وَالمُعَانِدِينَ وَقِتَالِهِمْ: بَابُ إِذَا عَرَّضَ الذِّمِّيُّ وَغَيْرُهُ بِسَبِّ النَّبِيِّ ﷺ وَلَمْ يُصَرِّحْ نَحْوَ قَوْلِهِ: السَّامُ عَلَيْكَ، رقم 6926[26] صحيح البخاري: كِتَابُ المَغَازِي، بَابُ بَعْثِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عَلَيْهِ السَّلاَمُ...: رقم 4351[27] صحيح البخاري: كِتَابُ اسْتِتَابَةِ المُرْتَدِّينَ وَالمُعَانِدِينَ وَقِتَالِهِمْ: بَابُ مَنْ تَرَكَ قِتَالَ الخَوَارِجِ: رقم 6933[28] الصارم المسلول: ص 235
[29] اس واقعہ کے بعدحافظ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں لکھا:
وهو أثر غريب مرسل، وابن لهيعة ضعيف اور تفسیر کشاف کی روایات کی تحقیق کرتے ہوئے حافظ زیلعی لکھتے ہیں: وهو مرسل، وابن لهيعة ضعيف .چنانچہ یہ روایت اِرسال اور ابن لہیعہ کے ضعف کی بنا پر غیرمقبول ہے جبکہ اس کی یہی ایک سند ہے اور کلبی کے طریق سے آنے والی سند منقطع ہے او رکلبی خود بھی متہم بالکذب ہے۔ اور حافظ ابن تیمیہ اس قصہ کو ذکر کرکے امام احمد کا یہ قول بیان کرتے ہیں کہ میں ابن لہیعہ کی روایات کو تائید سے زیادہ حیثیت نہیں دیتا اور اس کی روایت اکیلے معتبر نہیں ۔ كأني أستدل به مع غيره يشده لا أنه حجة إذا انفرد (الصارم:39)
[30] قَالَ: نَعَمْ بِأَبِي أَنْتَ يَا رَسُولَ الله... فَالْتَفَتَ النّبِيّ ﷺ إلَىٰ مَنْ حَوْلَهُ فَقَالَ: «إذَا أَحْبَبْتُمْ أَنْ تَنْظُرُوا إلَى رَجُلٍ نَصَرَ اللّهَ وَرَسُولَهُ بِالْغَيْبِ فَانْظُرُوا إلَى عُمَيْرِ بْنِ عَدِيّ» (المغازی للواقدی: 1؍ 174، الصارم المسلول:1؍104 ) اس روایت کو ابن الجوزی نے الموضوعات میں بیان کیا ۔(3؍18)، شیخ البانی نے السلسلہ الضعیفہ میں 6013 کے تحت موضوع قرار دیا۔ اس کی تمام اسناد میں محمد بن حجاج ہے جسے امام بخاری نے منکر الحدیث، ابن معین نے کذاب خبیث ،دار قطنی نے کذاب اور ابن عدی نے واضع حدیث بتايا ہے۔ مزید تفصیل دیکھیں: ’اسلام سوال وجواب‘: 177684
[31] سنن ابوداود:4362، السنن الکبری للبیہقی:13376... تاہم یہ واقعہ سنداً ثابت شدہ نہیں ہے جیساکہ شیخ البانی نے ارواء الغلیل میں 1251 کے تحت اس کی اسناد بیان کیں اور ضعیف ابو داود میں اس کو بوجہ انقطاعِ سند ’ضعیف الاسناد‘ قرار دیا ہے۔
[32] صحیح مسلم:رقم 1498، کتاب الطلاق، باب انقضاء عدۃ المتوفی عنہا زوجہا
[33] نبی کریمﷺ کےسامنے یہودی لڑکے اور شادی شدہ عورت کا بدکاری کا واقعہ پیش کیا گیا اور ایک شخص بولا:
فَاقْضِ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّهِ، وَأْذَنْ لِي(بخاری: 2724ومسلم)
’’ہمارے مابین فیصلہ کریں اور مجھے اجازت دیں۔‘‘یہی واقعہ ابن عمر سے بھی مروی ہے جس میں عبداللہ بن سلام نے یہودیوں سے تورات پر سے ہاتھ اُٹھانے کو کہا۔ (بخاری:4556 ومسلم) سيدنا عمر نے حاطب بن ابی بلتعہ کے بارے میں دوبار نبی کریمﷺ سے اجازت مانگی:
فَعَادَ عُمَرُ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ خَانَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالمُؤْمِنِينَ، دَعْنِي فَلِأَضْرِبْ عُنُقَهُ (بخاری: 6939) استدلال یوں ہے کہ دورِ نبوی میں لوگ خود فیصلہ کرلینے کے بجائے نبی کریم ﷺ کے پاس آکر فیصلہ کرواتے اور اجازت طلب کیا کرتے۔
[34] مصنف ابن ابی شیبہ: 6؍ 429،430 اور 6؍507
[35] ’المجموع‘:20؍34، اور 18؍448
[36] إعانة الطالبين: 4؍157
[37] بدائع الصنائع:7؍57، ناشر دارالکتب العلمیہ،طبع دوم 1986ء
[38] مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ: 34؍176
[39] فقال رسول الله ﷺ: «ألا اشهدوا أن دمها هدر» سنن ابو داود ؛4361، سنن نسائی؛ 4075... (إرواء الغلیل:5؍92) بعض احادیث میں اس صحابی کا نام ابن اُمّ مکتوم بھی آیا ہے۔ امام ابن تیمیہ نے دونوں واقعات کے ایک ہونے کا احتمال بتایا ہے:
فهذه القصة يمكن أن تكون هي الأولى ويدل كلام الإمام أحمد (الصارم المسلول:68)[40] «أقيموا الحدود على ما ملكت أيمانكم» [رواه أحمد (736) وغيره وحسّنه الأرناؤوط لغيره، ومال الألباني إلى أن هذه الجملة من كلام علي، كما في الإرواء (2325)]، وقوله ﷺ: «إذا زنت أمة أحدكم فليحدها» [رواه أبو داود (4470) وهو في الصحيحين بلفظ: "فليجلدها الحد" (البخاري:2234)]، ولا أعلم خلافا بين فقهاء الحديث أن له أن يقيم عليه الحد، مثل حد الزنا و القذف و الشرب. (الإسلام سؤال وجواب: رقم103739) ... يقول الشيخ ابن تيمية: "وصحّ عن حفصة أنها قتلت جارية لها اعترفت بالسحر" (الصارم المسلول: 286)[41] الوجه الثاني: أن ذلك أكثر ما فيه أنه افتئات على الإمام والإمام له أن يعفو عمن أقام حدًا واجبا دونه.[42] الوجه الرابع: أن مثل هذا قد وقع على عهد رسول الله ﷺ... (الصارم المسلول: 286)[43] فتویٰ ’الاسلام سؤال وجواب‘:نمبر 228482... هل يجوز لآحاد الناس قتل المرتد دون حكم القضاء نیز فتوی نمبر 103739 حول حدیث الاعمی الذی قتل أم ولده میں انہوں نے امام ابن تیمیہ کی حدیثِ اعمیٰ پر چھ توجیہات سے اتفاق کیا ہے۔
[44] مصنف ابن ابی شیبہ: رقم 28824، وعنہ البیہقى:8؍334،335 ... شیخ البانی نے اس قصہ کو ارواء الغلیل میں صحیح قرار دیا ہے۔ (ج8؍ص28، رقم 2361)
[45] ممکن ہے کہ اس واقعہ سے سیدنا مغیرہؓ بن شعبہ کے بارے میں مغالطہ ہو، تو واضح رہے کہ بصرہ میں ان کا اور سیدنا ابوبکرہؓ کا گھر ایک ہی گلی میں تھا۔چند لوگ ابوبکرہ کے پاس جمع تھے کہ تیز ہوا چلنے سے دروازے کھل گئے، ابوبکرہ جب کھڑکی بند کرنے اُٹھے تو ان کی نظر سیدنا مغیرہ پر پڑی جو اپنی بیوی کے ساتھ مشغول تھے۔موجود لوگوں کو غلط فہمی ہوئی کہ یہ ام جمیل نامی خادمہ عورت ہے۔ گواہی کے موقع پر سیدنا مغیرہ نے یہ استفسار کیا کہ
سَلْ هَؤُلَاءِ الْأَعْبُدِ كَيْف رَأَوْنِي مُسْتَقْبِلَهُمْ أَوْ مُسْتَدْبِرَهُمْ، وَكَيْف رَأَوْا الْمَرْأَةَ، وَهَلْ عَرَفُوهَا؟ فَإِنْ كَانُوا مُسْتَقْبِلِيَّ فَكَيْفَ لَمْ أَسْتَتِرْ، أَوْ مُسْتَدْبِرِيَّ فَبِأَيِّ شَيْءٍ اسْتَحَلُّوا النَّظَرَ إلَيَّ عَلَى امْرَأَتِي، وَاَللَّهِ مَا أَتَيْت إلَّا زَوْجَتِي، وَكَانَتْ تُشْبِهُهَا.کہ وہ میری بیوی تھی، اور ان لوگوں نے مجھے پیچھے سے دیکھا تو یہ عور ت کو دیکھ نہیں پائے، چنانچہ زیاد نے عورت کے بارے میں کنفرم نہ کیا اور گواہی پوری نہ ہوسکی۔ یہ کامل تفصیل اور مکمل واقعہ تفسیر احکام القرآن از ابو بکر بن العربی میں دیکھا جاسکتا ہے۔ (ج:3؍ص347،زیر آیت النور: 4)
[46] ’توہین رسالت پر گرفت کے واقعات‘ کے لئے راقم نے ایک مستقل مضمون میں ایسی احادیث کو جمع کرنے کے بعد ان کی توجیہ اور قانونی نکات پر مستقل بحث کی ہے۔ (دیکھیں محدث، نومبر 2011ء)
[47] اس مضمون كى تكمیل کے بعد مجھے فاضل مکرم علامہ خلیل الرحمٰن قادری (مدیر ’سوئے حجاز‘لاہور)کا موقف پڑھنے کا موقع ملا جس میں اُنہوں نے بھی قرار دیا ہے کہ ’’قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں کیونکہ اگر یہ اجازت ہی دینا مقصود ہوتا تو قانون تحفظِ ناموس رسالت بنانے کیا کیا ضرورت تھی ؟...علما اپنے خطبوں اور تقریروتحریر میں کسی کو بھی ماورائے عدالت قتل کی ترغیب نہ دیں نہ ہی ایسے نعرے لگائیں کہ جن سے اشتعال پیدا ہوتا ہے جبکہ اگر کسی کی توہین کامعاملہ ان کے سامنے لایاجائے اور انہیں پورا یقین ہو کہ گستاخی بنتی ہے تو وہ یہی تلقین کریں کہ یہ معاملہ قانون کے سپرد کر دیں بلکہ اندراجِ مقدمہ میں ان کے ساتھ تعاون کریں ۔
اس کے باوجود اگر ایسا معاملہ سامنے آ جائے کہ کسی نے کسی دوسرے کوقتل کرنے کے بعد دعویٰ کیا ہے کہ اس نے توہین رسالت پر یہ قتل کیا ہے تو قاتل کی بلا تحقیق حوصلہ افزائی نہ کریں ۔ اگر شاتم کو قتل کرنے کا دعویدار عدالت میں معیاری شہادتوں اور ٹھوس ثبوتوں کے ذریعے یہ ثابت نہ کر سکے کہ قاتل نے واقعتا شاتم کو مارا تھا تو اسے قتل ناحق پر قرارِ واقعی سزا دی جائے ۔ اس کے برعکس اگر یہ ثابت ہوجائے کہ مقتول شاتم تھا تو پھر قتل کرنے والے کو قصاص ودیت سے تو بری کر دیاجائے لیکن قاضی یا امام (سربراہ) سے سبقت لینے کی بنا پرمناسب تعزیری سزا دی جا سکتی ہے ۔... اس طرح شاتم کو ماورائے قانون قتل کرنے والے کو قصاص ودیت سے بریت کا فائدہ تبھی ہو سکے گا جب وہ عدالت میں ثابت کر سکے گا کہ اس نے شاتم کو ہی قتل کیا تھا ۔ جس طرح توہین کسی صورت میں برداشت نہیں کی جا سکتی، اسی طرح یہ بھی کسی صورت میں قبول نہ کیا جائے کہ توہین کا جھوٹا الزام لگا کر قتل کرنے والا سزا سے بچ سکے ۔ ‘‘
[48] جیساکہ دستورِ پاکستان كا آرٹیکل نمبر 19 یہ قرار دیتا ہے کہ ’’ہر شہری کو تقریر، تحریر او رآزادئ اظہار کا حق حاصل ہوگا، اور پریس کو آزادی حاصل ہوگی، مگر یہ آزادی اسلام کی عظمت، یا پاکستان یا اس کے کسی حصے کی سالمیت یا سلامتی، دفاع، غیرممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات، یا امن عامہ ، تہذیب یا اخلاقیات کے مفاد کے پیش نظریا توہین عدالت کے کسی جرم (کے ارتکاب) یا اس کی ترغیب سے متعلق قانون کے ذریعے عائد کردہ مناسب پا بندیوں کے تابع ہوگی۔ ‘‘
[49] ’بادشاہت کی تضحیک، گوگل مواد ہٹانے پر تیار‘:یوٹیوب اب گوگل کا حصہ ہے اور گوگل کو 33 درخواستیں موصول ہوئیں جن میں 97 فیصد کے مطابق تھائی حکومت اور شاہی خاندان کی توہین کی گئی تھی۔گوگل انتظامیہ کے نمائندے نے خبررساں ادارے ’روئیٹرز‘ کو بتایا کہ ’’جب سرکاری طور پر ہماری توجہ کسی ایسی چیز پر دلائی جاتی ہے تو ہم اس کی پوری جانچ کے بعد ایسے مواد تک اس ملک میں رسائی بند کر دیتے ہیں۔‘‘ ( ويب سائٹ بی بی سی اُردو: 23 ؍اکتوبر 2016ء)
[50] مجموعہ تعزیرات پاکستان کا بنیادی ماخذ
تعزیرات ہند ہے۔ یہ فوجداری قوانین کا ایک جامع مجموعہ ہے جس کا مقصد
فوجداری قانون کے تمام اہم مسائل کا احاطہ کرنا ہے۔ اس قانون کا مسودہ 1860ء میں تیار کیا گیا تھا جس کے پیچھے
برطانوی بھارت کے پہلے قانونی کمیشن کی سفارشات کارفرما تھیں۔ یہ کمیشن 1834ء میں چارٹر ایکٹ 1833ء کے تحت لارڈ
تھامس بابنگٹن میکالے کی صدارت میں قائم ہوا تھا۔یہ فوجداری قانون
برطانوی بھارت میں 1862ء نافذ کیا گیا۔ تعزیراتِ ہند کا مسودہ پہلے قانونی کمیشن کی جانب سے1834ء میں تیار کیا گیا تھا جس کی صدارت ماہر قانون لارڈ تھامس بابنگٹن میکالے کی تھی ۔اس کی بنیاد انگلستان کا قانون ہے، اس کے کچھ عناصر
نپولینی ضابطہ اور
ایڈورڈ لیونگسٹن کے 1825ء کے
لوزیانا ضابطہ دیوانی سے بھی لیے گئے تھے۔ تعزیراتِ ہند کا حتمی مسودہ ہندوستان کے گورنر جنرل کو 1837 ء میں پیش کیا گیا تھا، مگر مسودے پر نظرثانی کی گئی تھی۔ مسودے کی نئے سرے سے تیاری 1850ء میں مکمل ہوئی اور اس ضابطے کو قانون ساز کونسل میں 1856ء کو پیش کیا گیا تھا۔ مگر مسودہ کو اس کا مقام نہیں ملا کیونکہ
جنگِ آزادی ہند 1857ء کا شورش زدہ دور چل رہا تھا۔ اس مجموعہ تعزیرات کو یکم جنوری 1862ء سے روبہ عمل لایا گیا تھا۔ تاہم لارڈ میکالے اپنا قانونی مجموعہ عملی شکل میں دیکھنے کے لیے زندہ نہ رہا،اس کا انتقال 1859 ءمیں ہو گیا تھا۔
[51] توہین مذہب کے قوانین میں سے 295 ۔ اے کا متن آغاز میں ذکر ہوگیا، مزید آرڈیننس مجریہ 1980ء کے ذریعے دفعہ 298۔ اے كا اضافہ ہوا جس کی رو سے ’’توہین اُمّ المومنین ،اہل بیت، خلفائے راشدین یا صحابۂ کرام کی توہین کے جرم کی سزاتین سال قید یا جرمانہ یا دونوں‘‘ مقرر کی گئی۔ آرڈیننس ون 1982ء کے ذریعے تعزیراتِ پاکستان میں دفعہ 295۔بی شامل کی گئی جس کی رو سے ’’جان بوجھ کر قرآن یا قرآنی آیاتِ مقدسہ کی بے حرمتی کرنا یا نقصان پہنچانا جرم‘‘ قرار دیا گیا اور ارتکابِ جرم کرنے پر مجرم کے لیے عمر قید کی سزا مقرر کی گئی۔ 26؍اپریل 1984ء كوآرڈیننس 20، 1984ء کے ذریعے دفعہ 298 ۔بی کا اضافہ کیا گیا جس کی رو سے قادیانی یا لاہوری گروپ سے تعلق رکھنے والے احمدیوں کو خلفاے صحابہ کرام کے علاوہ کسی کو امیرالمومنین،خلیفۃ المسلمین، صحابی یا رضی اللہ عنہ کہنے، اُمّ المومنین ؓ کے سوا کسی کو یہ القاب دینے ،اہل بیت کے سوا کسی اور کو اہل بیت کہنے اور اپنی عبادت گاہوں کو مسجد کہنے ، اور انہیں اپنی عبادت گاہ میں عبادت کیلئے بلاوے کو اذان قرار دینے کو جرم قرار دیدیا گیا جس کی سزا تین سال قید اور جرمانہ مقرر کر دی گئی۔ تعزیراتِ پاکستان میں دفعہ 298 سی کا اضافہ کر کے احمدیوں کو اپنے آپ کو مسلمان ، اپنے عقیدے کو اسلام کہنے اور اپنے عقیدے میں آنے کی دعوت دینے کی سزا تین سال قید اور جرمانہ مقرر کی گئی۔ عقائد میں واضح فرق کے اعتبار سے ایسا اس لئے ضروری تھا کہ کوئی اپنے غیر اسلامی عقائد کو اسلام میں گڈ مڈ کر کے ابہام پیدا کرنے کی جرأ ت نہ کر سکے۔
[52] صحيح البخاري: كِتَابُ الشَّرِكَةِ، بَابٌ: هَلْ يُقْرَعُ فِي القِسْمَةِ وَالِاسْتِهَامِ فِيهِ: رقم2493