فروغِ اسلام کے لیے افرادی تعاون
اسلام اللّٰہ تعالیٰ کا پسند فرمودہ دین ہےجس میں انسانی زندگی کےہر پہلو کے متعلق بیش قیمت تعلیمات وتفصیلات اور ہمہ نوعیت کی خوبیاں موجود ہیں۔ یہ اسلام اپنی اتم اور اکمل صورت میں قرآن وسنت میں محفوظ ہے۔ تاہم اس کی یہ عظمتیں اس امر کی کامل ضمانت نہیں کہ واقعتاً یہ عظیم دین لوگوں کی اکثریت کو قبول بھی ہو۔ آج دنیا بھر میں اسی عظیم دین اور اس کو لانے والے پیغمبر ﷺ...جو حقیقی معنوں میں محسن انسانیت ہیں ...کے بارے میں درجنوں اعتراضات او ر شبہات لوگوں کے ذہنوں میں ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے ، حتی کہ فی زمانہ اسلام اورپیغمبر اسلام کو کائنات کی مظلوم ترین ہستی بنا دیا گیا ہے۔
چنانچہ کسی شے کا حق ہونا ایک حقیقت ہے لیکن لوگوں کا اس حق کو پہچاننا اور قبول کرنا چیزے دیگر ہے۔ لازمی نہیں کہ ہر حق دنیا میں اپنے حقوق کو حاصل بھی کرلے، بلکہ باطل قوتیں اپنی تدبیر وسازش کے سہارے حق کے چہرے کو دھندلاکرنے اور لوگوں کو اس سے دور رکھنے کی جہد وسعی کرتی رہتی ہیں۔ نبی کریمﷺ نے بھی اسلام کے حق ہونے پر اکتفا نہ کیا بلکہ اپنی دعوت کو پھیلانےکے لئے ہر طرح کی کوششیں بروئے کار لائے۔دعوتِ اسلام کے فروغ میں جس طرح صداقت وامانت، حکمت وبصیرت ،خدمت واخلاق، مؤثر عقلی ومنطقی ابلاغ ، خوبصورت پیرایۂ بیان، عزیز وقرابت داری، بے پناہ جدوجہد، اصلاح کی ہر ممکنہ فکر اور اس کی تدبیر کے ہر پہلو کو نبی کریم ﷺنے اختیار کیا، اسی طرح آپ ﷺ نے اس عظیم دعوت کے فروغ اور اس کی قبولیت کو عام کرنے کے لئے اپنے ساتھیوں کا بھی سہارا لیا، اپنے پیغام کو پھیلانےکے لئے اللّٰہ تعالیٰ سے بھی ساتھیوں کی مدد مانگی، اور خود بھی فروغِ دعوت کے لئے سازگار ماحول حاصل کرنے کی غرض سے صلحیں ،معاہدے اور نکاح تک کئے۔ سابقہ شریعتوں میں اس انسانی مدد اور تائید کی مثال سیدنا موسیٰ کی اس دعا سے ہوتی ہے جس میں اُنہوں نے فرعون کے سامنے دعوتِ اسلام کے لئے اپنے بھائی ہارون کا ساتھ مانگا، پھر ربّ ذو الجلال کےحضور ﴿وَاجعَل لى وَزيرًا مِن أَهلى ﴿٢٩﴾ هـٰرونَ أَخِى ﴿٣٠﴾ اشدُد بِهِ أَزرى ﴿٣١﴾ وَأَشرِكهُ فى أَمرى ﴿٣٢﴾... سورةطه.کی دعا کی۔ آئیے ہم پیارے نبی محمدﷺ کی سیرت سے مطالعہ کرتے ہیں کہ آپ نے اپنی دعوت کے فروغ میں کس طرح انسانی تائید کے ذریعے اسلام کو سربلند اور دعوت کو فروغ دیا۔ یہ وہ نبوی تدبیر ہے جسے آج دعوت کا کام کرنے والوں کو محض اس اعتماد پر نظر انداز نہیں کردینا چاہیے کہ وہ خلوص کے ساتھ حق کی طرف بلانے والے ہیں اور اللّٰہ کی مدد اُنہیں ازخود حاصل ہوجائے گی ۔ ح م
فروغِ اسلام کے لیے نبی کریمﷺ نے ہر ممکن کوشش کی۔ ہر پہلو سے اسلام کی تائید اور نصرت کی۔ اس دور میں رائج میڈیا کا سہارا لیا اور وسائل استعمال کیے۔ اس کےساتھ ساتھ آپﷺ نے لوگوں کے ذریعے بھی دین اسلام کو فروغ دیا۔ اہل ایمان تو ایک عظیم جذبے کے تحت اس مشن میں آپﷺ کے ہم رکاب تھے ہی مگر نبی ﷺ نے ایسی حکمتِ عملی اپنائی کہ متعدد معاہدے، سفارتی تعلقات اور مختلف خاندانوں میں نکاح کر کے اغیار سے بھی یہ كام لیا اور اُنہیں اسلام کی دعوت پہنچائی اور ابرِ رسالت ورحمت کے سائے میں لانے کی جستجو كی۔
غیرمسلموں سے تعاون لینے کی شرعی حیثیت
سیدنا ابوہریرہکہتے ہیں کہ ہم (ایک جنگ کے سفر پر) تھے۔ آپﷺ نے اسلام کے دعویدار ایک شخص کے بارے میں فرمایا: «هٰذَا مِنْ أهْلِ النَّارِ» ’’یہ جہنمیوں میں سے ہے۔‘‘
جنگ كا آغاز ہوا تو اس شخص نے کفار کے مقابلے میں بہادری کے خوب جوہر دکھائے اور بالآخر وہ زخمی ہو گیا۔ آپﷺ سے عرض کیا گیا کہ آپﷺ نے تو فرمایا تھا کہ یہ جہنمی ہے مگر وہ تو آج کفار کے خلاف بڑی جواں مردی سے لڑا ہے اور اب وہ فوت بھی ہو چکا ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’آگ کی طرف ہی گیا ہے۔‘‘
سیدنا ابو ہریرہکہتے ہیں کہ لوگ شک میں گرفتار ہونے کو تھے اور ابھی انہی چہ مگوئیوں میں مگن تھے کہ یہ خبر آئی کہ وہ خود فوت نہیں ہوا بلکہ وہ شدید زخمی حالت میں تھا، پھر گزشتہ رات اس کا پیمانۂ صبر لبریز ہوا تو اس نے خود کشی کر لی تھی۔ نبی ﷺ کو یہ اطلاع ملی تو فرمایا: «اللهُ أكْبَرُ أَشْهَدُ أَنِّي عَبْدُالله وَرَسُوْلُهُ»
’’اللّٰہ سب سے بڑا ہے! میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللّٰہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔‘‘
پھر آپﷺ نے سیدنا بلال کے ذریعے یہ اعلان عام جاری فرمایا:
«إِنَّهُ لاَ يَدْخُلُ الجَنَّةَ إِلَّا نَفْسٌ مُسْلِمَةٌ، وَإِنَّ اللهَ لَيُؤَيِّدُ هٰذَا الدِّينَ بِالرَّجُلِ الفَاجِر»[1]
’’بے شک جنت میں صرف مسلمان ہی جائے گا اور بے شک اللّٰہ تعالیٰ فاجر آدمی کے ذریعے بھی اس دین کی تائید کر دیتا ہے۔‘‘
مذکورہ حدیث ِمبارکہ اس موضوع پر اساسی حیثیت رکھتی ہے کہ دین کی ترویج و اشاعت اور نصرت و حمایت کے لیے گناہ گار حتیٰ کہ غیر مسلم سے بھی مدد لینے پر اللّٰہ قادر ہے۔
ایک دوسری حدیث اس حدیث سے بظاہر متعارض بھی نظر آتی ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ ایک مشرک مگر کڑیل نوجوان نبیﷺ کی معیت میں جنگ کرنے کے لیے اجازت طلب کر رہا تھا تو آپﷺ نے فرمایا:
«إِرْجِعْ إِنَّا لَا نَسْتَعِيْنُ بِمُشْرِكٍ» [2]
’’واپس چلے جاؤبے شک ہم مشرک سے تعاون نہیں لیا کرتے۔‘‘
ان دونوں روایات میں تطبیق کی صورت یہ نظر آتی ہے کہ پہلا شخص شرعی طور پر مسلمان تھا جیسا کہ حدیث میں یہ الفاظ ہیں: «يَدَّعي الإِسْلَامَ» اور دوسری صورت واضح مشرک کی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ خاص جنگ کی بات ہے، جبکہ سابقہ حدیث کا پس منظر اگرچہ خاص ہے مگر جو قاعدہ آپﷺ نے بیان فرمایا، وہ عمومی ہے کیونکہ جہاد اعلائے کلمۃ اللّٰہ کے لیے ہوتا ہے اور ایسا مشرک یا کافر سے ممکن نہیں۔ تیسری بات یہ بھی ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کسی کافر یا فاجر سے چاہے تو دین کی نصرت کا کام لے لے مگر حکام کو اس سے بچنا چاہیے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ جانتا ہے کہ وہ کس سے کس طرح دین کی تائید کرا سکتا ہے ، چنانچہ حدیث میں بھی یہی بتایا گیا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ اس دین کو فاجر آدمی كے ذریعے بھی تقویت وتائید دے دیتا ہے۔
اسی طرح یہ بات بھی ہے کہ اگر مسلمانوں کے پاس متعلقہ صلاحیت کے افراد موجود ہوں یا وسائل کی دستیابی ہو تو اغیار سے تعاون نہیں لینا چاہیے مگر صورتِ حال اس کے برعکس ہو تو اسی صورت میں اغیار سے تعاون لیا جا سکتا ہے جیسا کہ نبی ﷺ نے جب سفر ہجرت کیا تو آپﷺ کا گائیڈ ایک مشرک عبد اللّٰہ بن اُریقط تھا۔اس ضمنی بحث کے بعد اصل موضوع کی طرف آتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ سیرتِ مبارکہ کے وہ کون کون سے مواقع ہیں جہاں آپﷺنے لوگوں کے تعاو ن کے ساتھ دعوتِ اسلام کو فروغ دیا۔ دعوت کے اس پہلو کی متعدد نوعیتیں تھیں:
1۔ انفرادی طور پر دین كی تائید ونصرت
2۔ معاہدوں اور حلفوں کی صورت میں فروغِ اسلام
3۔ بین الاقوامی سطح پر ترویج اسلام
4۔ مختلف قبائل میں نکاح کر کے اسلام کا فروغ
ذیل میں مذکورہ بالا اقسام کو قدرے تفصیل سے بیان کیا جاتا ہے:
1۔ انفرادی طور پر دین كی تائید ونصرت
اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا:
﴿هُوَ الَّذى أَيَّدَكَ بِنَصرِهِ وَبِالمُؤمِنينَ ﴿٦٢﴾ [3]
’’وہ اللّٰہ ہے جس نے اپنی نصرت اور مؤمنوں (کی حمایت) سے آپ کی تائید کی۔‘‘
یہ صورت کیا تھی جس کا اظہار اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا؟ وہ یہی تھی کہ صحابہ کرام آپ کے مشن میں آپ کے ہم رکاب ہو گئے۔ ان تائید کنندگان میں کچھ نام بہت نمایاں تھے۔ اور وہ تھے سیدنا ابو بکر صدیق ، سیدنا عمر اور سیدنا علی ۔ اگرچہ دیگر صحابہ کرام کا کردار بھی بہت اعلیٰ اور قابل قدر تھا۔
سیدنا ابو بکر صدیق: قبولِ اسلام کے بعد ہر سطح پر اسلام کے محافظ اور حامی ہونا ہی ان كی پہچان بنا۔ وہ 23 سالہ عہدِ نبوت میں نبی کریم ﷺ کی معیت میں نظر آتے ہیں۔ اُنھوں نے نبوی مشن کو آپﷺ کے بعد بھی اپنےصحیح منہج پر قائم ودائم رکھا۔ نبی کریم ﷺ نے سیدنا ابو بکر کی انہی شبانہ روز محنتوں اور کٹھن حالات میں معیتوں کا اعتراف ان الفاظ سے کیا:
« إِنَّ أَمَنَّ النَّاسِ عَلَيَّ فِي صُحْبَتِهِ وَمَالِهِ أَبُو بَكْرٍ»[4]
’’سب لوگوں سے بڑھ كر اپنی رفاقت دینے اور مال نچھاور كرنے كا احسان ابوبكر كا ہے۔‘‘
یہ رفاقت تو وہ تھی جو پُر خطر راہوں میں بھی نہ چھوٹی۔ یہ رفاقت اور درہموں کی نچھاوری نبی کریمﷺ کی ذات تک محدود نہ تھی۔ ویسے بھی آپﷺ کو ذاتی طور پر درہم و دینار كی ضرورت نہ تھی۔ یہ سب کچھ تو اسلام کی ترویج کے لیے تھا۔
سیدنا عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ میں نے عبد اللّٰہ بن عمرو سے عرض کیا کہ مجھے رسول اللّٰہﷺ کو مشركین كی سخت ترین اذیت رسانی کے بارے میں بتائیے! وہ کہنے لگے: میں نے دیکھا کہ عقبہ بن ابی معیط نبی ﷺ کی طرف بڑھا، آپﷺ نماز پڑھ رہے تھے۔ عقبہ نے چادر آپﷺ کے گلے میں ڈالی اور اسے زور سے بل دینے شروع کر دیے۔ اتنے میں ابو بکر آئے تو اُنہوں نے اس بدبخت کو پیچھے ہٹایا اور کہنے لگے:
﴿أَتَقتُلونَ رَجُلًا أَن يَقولَ رَبِّىَ اللَّهُ وَقَد جاءَكُم بِالبَيِّنـٰتِ مِن رَبِّكُم...﴿٢٨﴾... سورةرالغافر[5]
’’کیا تم اس عظیم شخص کے درپے ہو جو كہتے ہیں کہ میرا ربّ اللّٰہ ہے، اور تحقیق وہ تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے روشن دلائل بھی لائے ہیں۔‘‘
اسلام کے ہر اول دستے کے خمسہ مبشرہ افراد سیدنا ابو بکر کی دعوت پر دامن اسلام سے وابستہ ہوئے تھے جن کے نام یہ ہیں: سیدنا عثمان، سیدنا زبیر، سیدنا عبد الرحمٰن بن عوف ، سیّدنا سعد بن ابی وقاص اور سیدنا طلحہ۔ دراصل سیدنا ابو بکر ؓ بلند اخلاق کے مالک تھے اور ان کے سماجی اور تجارتی تعلقات کا حلقہ بھی خاصا وسیع تھا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد اُنہیں اپنے ملنے جلنے والوں میں دعوت پھیلانے کا خوب موقع میسر آیا۔
نبی کریم ﷺ متعدد قبائل میں جا کر اسلام کی دعوت دیتے۔ سیدنا ابو بکر مشن رسالت میں نبی ﷺ کے ساتھ ہوتے۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ سیدنا ابو بکر علم انساب کے ماہر تھے۔ اس طرح قبائل کو دعوت دینے کے لیے راہ و رسم بڑھتے اور دعوت كے لیے سازگارماحول بن جاتا۔
مصادرِ سیرت میں قبائل کو دعوت دینے كا اُسلوب یہ نظر آتا ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ کے ساتھ سیدنا ابوبکر ہوتے۔ پہلے سیدنا ابو بکر متعلقہ قبیلے کی معلومات کا تبادلہ کرتے۔ جب اہل قبیلہ ذہنی طور پر بات سننے کو تیار ہو جاتے تب رسول اکرم ﷺ اپنی دعوت بڑے اطمینان اور تسلی سے دیتے۔ ایسا ہی ایک واقعہ صفحاتِ سیرت میں محفوظ ہے کہ نبی کریم ﷺ جب قبیلہ بنو شیبان كو دعوت دینے كے لیے تشریف لے گئے تو سیدنا ابو بکر اورسیدنا علی آپ کے رفیق تھے۔ سیدنا علی کہتے ہیں کہ ہم ان کی ایک پروقار مجلس میں پہنچے۔ سیدنا ابو بکر نے سلام کیا اور ان سے قبیلے كا تعارف پوچھاكہ آپ کا تعلق کس قبیلے سے ہے؟ وہ کہنے لگے: ہم بنو شیبان بن ثعلبہ سے ہیں۔
اب ابو بکر نبیﷺ کی طرف متوجہ ہو کر عرض پرداز ہوئے: میرے ماں باپ آپ پر قربان! ان زعمائے قوم کے بعد اس قوم کا اکرام باقی نہیں رہے گا۔ اس وقت ان میں مفروق بن عمرو، ہانی بن قبیصہ، مثنیٰ بن حارثہ اور نعمان بن شریک موجود تھے جبکہ مفروق سیدنا ابو بکر کے قریب ہی بیٹھا ہوا تھا۔ مفروق کے بالوں کے دو لٹیں اس کے سینے پر پڑ رہی تھیں۔ سیدنا ابو بکر نے اس سے پوچھا: تمہارے افرادِ قبیلہ کی تعداد کتنی ہے؟ وہ بولا: ہم ایک ہزار سے اوپر ہیں جبکہ ایک ہزار کو بھی قلت کے باعث مغلوب نہیں کیا جا سکتا ....
قبیلے کے بارےمیں سوال وجواب جاری تھے کہ سیدنا ابو بکر یکبارگی کہنے لگے: اگر آپ تک رسول اللّٰہ ﷺ کے بارے میں معلومات پہنچی ہیں تو یہ ہیں اللّٰہ کے رسول ﷺ!! مفروق کہنے لگا: ہمیں پتہ چلا ہے کہ آپ اس کا ذکر کرتے ہیں۔ پھر مفروق نبی ﷺ کی طرف متوجہ ہو کرکہنے لگا: قریشی بھائی! آپ کس بات کی دعوت دیتے ہیں؟ نبی ﷺ آگے بڑھے: تشریف فرما ہوئے اور سیدنا ابو بکر نے چادر سے آپ پر سایہ کیا، پھر نبی ﷺ فرمانے لگے:
«أَدْعُوْكُمْ إِلٰى شَهَادَةِ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَنِّي رَسُوْلُ اللهِ ...» [6]
’’میں تمہیں اس گواہی کی دعوت دیتا ہوں کہ اللّٰہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللّٰہ کا رسول ہوں۔‘‘
جناب ابو طالب:نبی کریم ﷺ کے چچا ابو طالب سے بھی اللّٰہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کی نصرت وحمایت اورناموس ودفاع کا بڑا کام لیا۔ اُصول وہی ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ جس سے چاہے اس دین کو تقویت دے۔ آغازِ دعوت میں تومشکلات نہیں تھیں۔ خاموش دعوت گنی چنی سعادت مند روحوں کے قلب میں گھر کر چکی تھی۔ معبودانِ باطلہ کی تردید میں وہ زور بھی نہیں تھا مگر جب یہ دعوت اپنے فطری تقاضوں سے ہم آہنگ ہوئی اور اس کی کرنیں ہر ایک قلب ونظر کو متاثر کرنے لگیں اور کفارِ قریش کو اپنی سیادت خطرے میں نظر آنے لگی تو پھر وہ مقابلے میں اُترے اور ہر ممکن اور غیر ممکن طریقے سے دعوت کو دبانے کی لا حاصل جستجو میں لگ گئے۔ مگر وہ سماجی، سیاسی یا مذہبی جس راستے سے بھی آئے، ان کے سامنے جناب ابو طالب مضبوط ڈھال ثابت ہوئے۔ شعب ابی طالب میں محصور کر دیا گیا ہو یا سماجی بوجھ ڈال ڈال کر مجبور کرنے کی کوشش ہو، ہر پہلو سے اُنہوں نے آزمایا لیکن ابو طالب اپنے بھتیجے کی نصرت وحمایت میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھتے۔
ابن اسحٰق کہتے ہیں: ’’جب ابو طالب رخصت ہوئے تو قریش رسول اللّٰہ ﷺ کو ایسی اذیتیں پہنچانے لگے جو ان کی زندگی میں ممکن نہ تھیں۔ ‘‘
[7]
سیدنا عباس کے ذہن میں ایک سوال تھا جس کا اظہار اُنہوں نے نبی ﷺ سے کیا کہ ابو طالب آپ کی حفاظت اور نگہبانی بھی کرتے تھے، آپ کی نصرت وحمایت بھی کرتے تھے (اور آپ کے لیے دوسروں سے ناراض بھی ہوتے تھے) تو کیا اُنہیں ان خدمات کا فائدہ ہو گا؟ فرمایا:
«نَعَمْ هُوَ فِي ضَحْضَاحٍ مِنْ نَّارٍ وَلَو لَا أَنَا لَكَانَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ»[8]
’’ہاں! ان کے ٹخنوں تک آگ ہو گی اور اگر میرے ساتھ ان کا یہ رویّہ نہ ہوتا تو پھر وہ آگ کے سب سے نچلے طبقے میں ہوتے۔‘‘
یہ حدیث بتا رہی ہے کہ دعوت کی ترویج و اشاعت میں جناب ابو طالب کا نمایاں کردار ہے۔
سیدنا عمر: حالات کی سنگینی بڑھتی جا رہی تھی اور مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ ہو رہا تھا۔ اسلام کو عزت، عروج اور غلبے کے لیے کسی نابغہ روزگار جری وبہادر اور نڈر عبقری شخصیت کی ضرورت تھی۔ نگاہِ نبوت نے اس ضرورت کے لیے دو افراد کو منتخب کیا اور اللّٰہ سے دعا مانگی:
«اللّٰهُمَّ أَعِزَّ الْإِسْلَامَ بِأَحَبِّ هٰذَيْنِ الرَّجُلَيْنِ إِلَيْكَ بِأَبِي جَهْلٍ أَوْ بِعُمَرَ بْنَ الْخَطَّابَ»[9]
’’الٰہی! ابو جہل یا عمر بن خطاب میں سے جو تجھے پسند ہے، اسکے ذریعے اسلام کو عزت سے ہم کنار کر ۔‘‘
اور اللّٰہ تعالیٰ کو سیدنا عمر پسند تھے۔سیدنا عمر کے قبولِ اسلام کے بعد دعوتِ اسلام کو تو گویا پر لگ گئے اور دعوت پہلے سے بھی زیادہ تیزی سے پھیلنے لگی اور عزت میں اضافہ ہوا۔ اس عزت اور وقار كا جائزہ آپ اس بات سے لگا سكتے ہیں كہ جب سیدنا عمر شہادت سے سرفراز ہوئے تو روم و فارس کے تمام علاقے اسلام کے قلعے اور یہاں کے اکثر باسی حلقہ بگوش اسلام تھے۔ سیدنا عبد اللّٰہ بن مسعود نے درست فرمایا تھا:
"مَا زِلْنَا أَعِزَّةً مُنْذُ أَسْلَمَ عُمَرُ"[10]
’’جب سے عمر اسلام لائے، ہماری عزت وقوت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔‘‘
سیدنا علی :جن صحابہ کرام کی وجہ سے اسلام کو تقویت وتائید ملی، ان میں سیدنا علی کا نام بھی بڑا نمایاں ہے۔ کوئی اہم معرکہ ہو یا مہم جوئی ہو، سیدنا علی بن ابی طالب اسلامی تاریخ میں درخشندہ وتابندہ نظر آتے ہیں۔ عرصۂ جنگ ہے، یہودِ خیبر کو حجت پوری كرنے كے لیے دعوت كا آخری پیغام دینا ہے۔ زبانِ نبوت سے رات ہی کا اعلان ہوچكاہے:
«لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ غَدًا رَجُلًا يُفْتَحُ عَلٰى يَدَيْهِ يُحِبُّ اللهُِ وَرَسُوْلَهُ، وُيُحِبُّهُ اللهُ وَرَسُوْلُهُ»
’’صبح یہ عَلَم اس شخصیت کو دوں گا جس کے ہاتھ پر فتح ہو گی۔ وہ اللّٰہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کرتے ہیں اور اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ ان سے محبت کرتے ہیں۔‘‘
صحابہ نےیہ سوچتے ہوئے رات گزاری کہ ان میں سے کسے یہ اعزاز نصیب ہو گا۔ صبح ہوئی تو ہر ایک صحابی اس کی امید لگائے ہوئے تھے۔ مگر آپﷺ نے فرمایا: «أين علي» ’’علی کہاں ہیں؟‘‘ عرض کیا گيا: ’’انہیں آشوبِ چشم ہے۔‘‘ نبی ﷺ نے اپنالعابِ دہن اُن کی آنکھوں کو لگایا اور ان کے لیے دعا کی تو وہ بالکل تندرست ہو گئے، گویا تکلیف تھی ہی نہیں۔ پھر آپﷺ نے جھنڈا اُنہیں تھما دیا تو وہ کہنے لگے:
’’میں ان سے قتال کروں گا۔ یہاں تک کہ وہ ہماری طرح (مسلمان) ہو جائیں۔‘‘ فرمایا:
’’خراماں خراما ں چلتے رہو! یہاں تک کہ جب تم ان کے درمیان پہنچ جاؤ تو اُنہیں اسلام کی دعوت دینا اور ان پر جو واجب ہے، وہ انہیں بتانا۔ اللّٰہ کی قسم! اللّٰہ تعالیٰ تمہارے ذریعے سے ایک آدمی کو بھی ہدایت دےدے تو یہ تمہارے لیے قیمتی سرخ اونٹوں سے بہت بہتر ہے۔‘‘
[11]
ایک بے نام صحابیہ:کوئی محقق جب دعوتِ اسلام کی تائید وحمایت کے عنوان پر قلم اُٹھائے تو بھلا اس خاتون کو کیسے بھول سکتا ہے جسے ایک سفر میں پانی کے دو مشکیزوں سمیت نبی ﷺ کی خدمت میں لایا گیا ہے۔ کیونکہ پانی کی بسیار تلاش کے باوجود بس یہی مشکیزے نظر آئے تھے۔ آپﷺ نے خاتون سے اجازت لے کر برتن طلب کیا اورمشکیزوں کا پانی اس میں اُنڈیلا اور لوگوں میں اعلان کروا دیا، پانی پیو اور جانوروں کو بھی پلاؤ۔ وہ خاتون پاس کھڑی یہ سب کچھ دیکھ رہی تھیں۔ صحابہ کہتے ہیں :ہم پی پلا کر فارغ ہوئے تو ہمارے خیال کے مطابق وہ مشکیزے پہلے سے بھی زیادہ بھرے ہوئے تھے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: «اِجْمَعُوْا لَـهَا» ’’اس کے لیے اپنی طرف سے ہدایا اکٹھے کرو۔‘‘
اُنہوں نے اکٹھے کیے اور چادر میں باندھ کر اس کے حوالے کر دیے۔ وہ خاتون جب اپنے علاقے میں پہنچی تو اُنہوں نے تاخیر کی وجہ پوچھی ، اس نے سارا قصہ سنایا اور تبصرے کے طور پر کہنے لگی کہ ’’یا تو یہ سب سے بڑے جادوگر ہیں (نعوذ باللّٰہ) یا پھر اللّٰہ کے رسول ہیں۔‘‘ بعد ازاں جب مسلمان کوئی مہم جوئی کرتے تو آس پاس کے مشرکوں سے تو معرکہ آرائی کرتے مگر جس قبیلے کی وہ خاتون تھی، اس سے کنارہ کشی کرتے۔
پھر ایک دن وہی خاتون اپنے قبیلے کے افراد کو ان الفاظ سے دعوت دینے لگی:’’میرا تو یہ خیال ہے کہ یہ مسلمان لوگ عمداً تم سے کنارہ کشی کر رہے ہیں۔ کیا تم بھی اسلام میں رغبت رکھتے ہو؟‘‘
اس خاتون كو نبی كریم ﷺكی مبارك زندگی كے چند ہی لمحے ميسر آئے تھے۔مگر اس كی اس دعوت پر اس كی زندگی بدل گئی اور وہ اپنی قوم كے قبولِ اسلام كا باعث بن گئی۔ اوروہ سب مسلمان ہو گئے۔
[12]
قبیلہ ہمدان کی ایک سعادت مند روح: نبی کریم ﷺ مزدلفہ میں لوگوں کے بھرے مجمع میں اعلان فرمایا کرتے تھے: «أَلَا رَجُلٌ يَحْمِلُنِي إِلَى قَوْمِهِ؟ فَإِنَّ قُرَيْشًا قَدْ مَنَعُونِي أَنْ أُبَلِّغَ كَلَامَ رَبِّي»
’’ہے کوئی شخص! جو مجھے اپنی قوم میں لے جائے تاکہ میں انہیں ربّ کا پیغام پہنچا سکوں کیونکہ قریش نے تو ربّ كا پیغام پہنچانے سے روك دیا ہے۔‘‘
خیر خواہی کے جذبے سے سرشار اور ہمدردی سے بھر پور اس آواز پر لوگ تیار تو ہو جاتے مگر سماجی پابندیاں رکاوٹ تھیں ۔ اس صدائے دلنواز کا مثبت جواب دینے کا مطلب اس کے سوا کیا ہو سکتا تھا کہ وہ شخص بھی اپنی قوم کے زیر عتاب آ جاتا۔ یہ صدائے نبوت بول بول کر بتا رہی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے تبلیغ رسالت کے لیے ان تھک کوشش کی اور اپنے اَعوان وانصار تلاش کیے۔ اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ اب تک آپﷺ کے حامی اور جاں نثار موجود نہ تھے بلکہ آپﷺ قطعہ ارضی کے گوشے گوشے میں دعوت پھیلانا چاہتے تھے۔ یہ آوازِ دل نواز، جو اتنی صدیوں بعد بھی اپنے اندر اخلاص ، ہمدردی اور احساسِ ذمہ داری لیے ہوئے ہے، لگتی رہی اور آخر ہمدان کا ایک شخص خدمت میں حاضر ہوا۔ آپﷺ نے پوچھا: تمہارا تعلق کس قبیلے سے ہے؟ اس نے بتایا: ہمدان سے۔
فرمایا: کیا تم دفاع کر پاؤ گے، عرض کیا: جی ہاں۔ مگر بعد میں اس شخص نے اپنی قوم سے خدشہ محسوس کیا کہ میری قوم مجھے بھی پناہ دینے سے انکار نہ کر دے۔ آپﷺ کی خدمت میں آیا اور اجازت چاہی۔ میں قوم کے پاس جاتا ہوں، پھر اگلے سال آپ سے ملوں گا۔ آپﷺ نے فرمایا: ٹھیک ہے، چلے جاؤ۔ اسی دوران اللّٰہ تعالیٰ نے (مدینہ کے) انصار کی شکل میں آپ کو دین کے ’انصار‘ عطا فرما دیے۔
[13]
اس واقعے سے قریش کی ہٹ دھرمی بھی واضح ہوتی ہے کہ خود تو وہ دعوت سننے کے لیے تیار نہیں تھے مگر دوسرے قبائل كو بھی دعوت دینے کی سماجی پابندی لگا رکھی تھی۔
یہ چند ایک مثالیں تھیں جو دعوت کے انفرادی تعاون اور طرف داری کی آئینہ دار ہیں۔
2۔ معاہدوں کی صورت میں فروغِ اسلام
رسولِ اکرمﷺ نے کئی ایک قوموں اور مذاہب سے معاہدے بھی کیے۔ وہ معاہدے دراصل اسلام کے فروغ کا پیش خیمہ تھے۔ اگر مدینہ منورہ جاتے ہی کسی عہد معاہدے کے بغیر دعوت اور اس کی ترویج وتنفیذ کا کام شروع ہو جاتا تو عین ممکن تھا، یہود اسے ہی حرفِ نزاع بنا لیتے۔ اس لیے آپﷺ نے تمام اقوام و مذاہب سے میثاقاتِ مدینہ کے طور پر کئی معاہدے کیے۔ اس سے مسلمانوں کو ببانگِ دہل اظہارِ رائے کا موقع ملا۔ مکہ مکرمہ میں ہزار رکاوٹوں کے باوجود دعوت اپنے زور پر پھیل رہی تھی ۔مدینہ میں پیش آمدہ رکاوٹیں اور خدشات ان معاہدوں میں دَب گئیں۔ اب تو دعوت کو پھلنے، پھیلنے اور پنپنے کا خوب موقع ملا، دعوت اپنے جوبن کو پہنچی اور دیکھتے ہی دیکھتے ہر گھر اورگھروندے سے صدائے لا الہ الا اللّٰہ بلند ہونے لگی۔
اسلام کی تاریخ میں صلح حدیبیہ یا معاہدۂ حدیبیہ بھی ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ اس میں طے کی جانے والی شرائط اگرچہ ظاہراً مسلمانوں کے حق میں نہیں تھیں مگر وحی کی روشنی میں اس کے دور رَس نتائج نظر آ رہے تھے۔ صلح حدیبیہ مشرکین مکہ کے ساتھ ایک معاہدہ تھا مگر دعوتی سرگرمیوں کے لیے یہ ایک اہم سنگِ میل ثابت ہوا۔ صلح حدیبیہ 5 ہجری میں ہوئی۔ اس وقت حدیبیہ کے موقع پر موجود جاں نثاروں کی تعداد،اللّٰہ ان سے راضی ہو، 1400 تھی مگر جب 8 ہجری میں اس صلح کو قریش نے مسلمانوں کے حلیف بنو بکر پر حملہ کركے توڑا ،جب اس عہد شكنی پر قریش کے خلاف فتح مکہ کی پیش قدمی ہوئی تو اس وقت ان وفا شعاروںکی تعداد دس ہزار سے متجاوز تھی۔ ان نفوسِ قدسیہ کی اکثریت اسی صلح حدیبیہ کے بعد دامن اسلام سے وابستہ ہوئی ۔
دعوتِ اسلام تو وہ پودا ہے جسے ہر حال میں ثمر آور ہونا ہے۔ ہاں کسی زرخیز زمین اور مناسب ماحول میں یہ جلدی ثمر آور ہو جاتا ہے اور کبھی کچھ دیرکے بعد۔ غیر مسلموں سے عہد ومعاہدے دعوتِ دین کے لیے مناسب ماحول مہیا کرتے ہیں۔
معاہدوں کی طرح حلف بھی دعوت کے لیے سود مند ثابت ہوئے۔ حلف داری میں رفاقت اور قربت ملتی ہے۔ ایک دوسرے کے مزاج، نفسیات، معمولات اور رسوم و رواج جاننے کا موقع ملتا ہے۔ قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کے حلیف بننے كے بعد بھلا قبولِ اسلام میں کیا رکاوٹ ہو سکتی تھی؟
حلیفوں کو ایک دوسرے کی وفاداری کا بھی انداز ہوتا ہے۔ عہدِ نبوی میں حلیف اور حریف بننے کا رواج تھا۔ ہر قبیلہ یا تو کسی کا حلیف تھا یا پھر حریف۔ نبی کریم ﷺ نے بنوشیبان سے رابطہ کیا تو ان کے زعما میں سے ایک مثنیٰ بن حارثہ شیبانی بھی تھے۔ اُنہوں نے نبی ﷺ سے پیغامِ حق سن کر عرض کیا:
’’کسریٰ نے ہم سے عہد لیا ہوا ہے کہ ہم اس كے لیے خطرہ نہیں بنیں گے اور كسی ایسے شخص كو سپورٹ نہیں كریں گے ۔اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ دین ...جس کی طرف آپ ہمیں دعوت دے رہے ہیں ... اسے ہمارے یہ بادشاہ ناپسند سمجھیں گے۔ تو اگر آپ چاہیں تو ہم عرب کے چشموں سے متصل علاقوں میں آپ کو جگہ بھی دیں گے اور مدد بھی کریں گے۔ ‘‘
رسول ﷺ نے فرمایا:
’’آپ لوگوں نے جب سب کچھ سچ بتا دیا تو ایسا صاف جواب دے کر کوئی برائی نہیں کی۔ یقیناً یہ اللّٰہ کا دین ہے،اللّٰہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے جو ہرجانب سے اس کی تائید کرتا ہے۔ قریب ہی ایسا وقت آئے گا کہ اللّٰہ تعالیٰ تمہیں ان کے دیار و اموال کا وارث بنا دے گا۔‘‘[14]
وقت گزرتا گیا۔ سیدنا مثنیٰ بن حارثہ مشرف بہ اسلام ہوئے اور عراق کے محاذ پر دشمن سے برسرپیکار اسلامی فوج کے یہی سالار تھے۔پھر فارس سے نبرد آزمائی كا موقع آیا تو سیّدنا مثنی بن حارثہ كے قبیلے بنو شیبان نے اسلام کی نصرت وحمایت اور بہادری و دلیری کی شاندار تاریخ رقم كی۔ جو قبیلہ کسریٰ کی نافرمانی پر راضی نہیں تھا، اب وہ بدر قبیلہ اسی کسریٰ کے مدمقابل تھا۔
اسی طرح غزوۂ احزاب کے موقع پر جب بنو قریظہ نے عہد شکنی کی۔ تو انہی میں سے ایک سرکردہ شخص کعب بن اسد قرظی عہد پر قائم رہا۔ جب حیی بن اخطب نے اسے عہد شکنی کا کہا تو اس نے ان الفاظ میں جواب دیا: ’’افسوس تجھ پر،حیی! میں جس عہد پر قائم ہوں، مجھے رہنے دو۔ میں نے محمد (ﷺ) میں ہمیشہ سچائی اور وفاداری ہی دیکھی ہے۔ ‘‘
[15]
یہی کعب بن اسد تھا جس نے محاصرے کے دوران اپنی قوم کو اسلام کی دعوت بھی دی کہ ہم اس شخصیت (رسول ﷺ) کی بیعت بھی کر لیں اور تصدیق بھی کریں۔ اللّٰہ کی قسم! یہ بات تو واضح ہو گئی ہے کہ آپﷺ اللّٰہ کے فرستادہ نبی ہیں۔ اور یقیناً وہی ہیں جن کا تذکرہ تمہاری کتاب میں موجود ہے، مگر بنو قریظہ نے انکار کردیا۔
[16]
یہودی ہونے کے باوجود کعب بن اسد قرظی اپنی قوم میں دین محمد ﷺ کا سفیر بن گیا۔ اس کی وجہ وہی تعلق، عہد کی پاسداری اور وفاداری تھی ، جو سیرت کا طرہ امتیاز ہے۔
3۔ بین الاقوامی سطح پر ترویج اسلام
نامہ ہائے مبارک جو آس پاس کی حکومتوں ،باج گزار ریاستوں اور قبیلوں کو بھیجے گئے، ان کا بنیادی مقصد دعوت تھا۔ یہ مکاتب باہمی تجارت کے فروغ، تہذیب وثقافت کے تبادلے یا باہمی تعلقات کو پروان چڑھانے کے لیے نہ تھے، جیسا کہ آج کل سفارتکاری کا مطلب سمجھا جاتا ہے۔ آپ ﷺنے وقت کی سپر پاور کو تحریر بھجوائی تو اس میں یہ بھی رقم تھا:
«فَإِنْ تَوَلَّيْتَ فَإِنَّ عَلَيْكَ إِثْمَ الأَرِيسِيِّينَ»[17]
’’اگر تو نے (اس دعوت سے) بے رخی برتی تو تیری رعایا کا گناہ بھی تیرے سر ہو گا۔‘‘
ان نامہ ہائے مبارک کا محور دعوتِ اسلام ہی تھا جیسا کہ حدیث میں ہے۔ سیدنا انس بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے (شاہِ فارس) کسریٰ، (شاہِ روم) قیصر اور (شاہ حبشہ) نجاشی اور ہر ایک حکمران کی طرف خطوط روانہ کیے۔ آپﷺ نے اُنہیں اللّٰہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی۔
[18]
نبوی مکاتیب کے مختلف انداز سے جوابات آئے۔ کسی کے حصے میں سعادت آئی، کسی کے حصےمیں شقاوت اور کئی محرومی کا شکار رہے۔ ان خطوط کی بہت سی تفصیلات ومندرجات ہیں لیکن موضوع سے متعلقہ نکتہ یہ ہے کہ آپﷺ نے کسی ریاست سے سفارتکاری کے راہ و رسم بڑھائے تو اس کی بنیاد یہی دعوت تھی۔
کبھی آپ اپنے سامنے مکاتیب ِنبویہ کا نقشہ کھول کر بیٹھیں، پھر غور کریں کہ مدینہ منورہ کے تمام اطراف وجہات میں نبی ﷺ نے دعوت نامے كس اہتمام سے بھجوائے اور کسی بھی جہت کو خالی نہیں چھوڑا۔اور دعوت نامے رائج الوقت نظام كے تحت بھجوائے۔ حتی كہ نبی ﷺنے اپنے نام كی مہر بھی اسی وجہ سے بنوائی كہ قیصر وكسریٰ مہر كے بغیر خط قبول نہیں كرتے تھے۔
4۔ متعدد قبائل میں نکاح کر کے اسلام کا فروغ
نبی کریمﷺ نے متعدد قبائل میں نکاح کیے تھے۔ نکاح کے اہم مقاصد میں سے ایک یہ تھا کہ ان قبائل میں دعوت کو عام کیا جائے۔ اس کے اثرات کسی نہ کسی صورت رونما ہوتے رہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے كہ نبی كریم ﷺنے مكی دور میں ایسا اقدام كیوں نہ كیا؟
اس كا جواب یہ ہے كہ نبوت سے سرفرازی اور دعوت پھیلنے كے بعد بہت سی مشكلات آن پڑی تھیں۔ نبی مکرّمﷺ، آپ كے اہل بیت اور اصحاب دورِ ابتلا سے گزر رہے تھے۔ آپ ﷺ یہ نہیں چاہتے تھے كہ مزیدنكاح كر كے ازواج كو بھی مشكلات میں ڈالیں۔ یہ قضیہ عمرو بن عبسہ كے قبولِ اسلام كے واقعے پر قیاس ہے۔ جب سیّدنا عمرو بن عبسہ نے خدمتِ نبوی میں حاضر ہوئے اور سوالات كر كے آپ ﷺ كی معیت اور رفاقت میں رہنے كا اظہار كیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:
«اِنَّك لَا تَسْتَطِیْعُ ذٰلِكَ یَوْمَكَ هٰذا اَلَا تَرٰی حَالِيْ وَحَالَ النَّاسِ وَلكِنِ ارْجِعْ اِلٰى اَهْلِكَ فَاِذَا سَمِعْتَ بِي قَدْ ظَهَرْتُ فَاْتِنِي»[19]
’’بے شك تم اس وقت كی طاقت نہیں ركھ پاؤ گے، كیا تم نے میرا اور ان دشمنوں كا حال نہیں دیكھا۔ اب تم اپنے گھر چلے جاؤ۔ پھر جب تم میرے بارے میں غلبے كا سنو تو تب میرے پاس آجانا۔‘‘
اسی طرح کا اظہار آپﷺ نے سیدنا ابو ذر غفاری سے بھی فرمایا تھا، جب وہ آپﷺ سے دعوت سن کر اسلام لے آئے تھے، فرمایا:
« ارْجِعْ إِلَى قَوْمِكَ فَأَخْبِرْهُمْ حَتَّى يَأْتِيَكَ أَمْرِي »[20]
’’اپنی قوم میں واپس چلے جاؤ اور انہیں بھی روشناس کراؤ یہاں تک کہ میرے اس معاملے کے متعلق کوئی خبر وغیرہ آ پہنچے۔‘‘
اگر مرد حضرات كے لیے آپ ﷺ كی یہ احتیاط تھی تو آپ خواتین كو ازواجِ مطہرات اور مؤمنوں كی اُمہات بنا كر كیونكر انھیں مشكلات میں ڈالتے؟ لہٰذا سیّدہ خدیجہ ؓ كی وفات كے بعد صرف سیّدہ سودہ ؓ سے نكاح ہوا اور اس كے بعد سیّدہ عائشہؓ سے ، اور اس کے بعد دیگر امہات المؤمنین ؓ سے نکاح ہوتے رہے۔مختلف بڑے اور ذیلی قبائل كے ہاں آپ ﷺ كی تكریم میں اضافہ ہوا۔ جس جس قبیلے میں نكاح ہوتا گیا اس اس قبیلے كے افراد آپ ﷺ كے گرویدہ اور اسلام كے شیدا بنتے گئے۔
غزوۂ بنو مصطلق کے بعد جب نبی کریم ﷺ کا نکاح سردار قبیلہ حارث بن مصطلق کی صاحبزادی اُمّ المؤمنین جویریہ ؓ سے ہواتو صحابہ کرام کے پاس بنو مصطلق کے جو جو گرفتار قیدی موجود تھے، اُنہوں نے سب کو رہا کر دیا۔ اس وجہ سے کہ اب وہ رسول اللّٰہ کے سسرالی بن چکے تھے۔
[21] مسلمانوں کی اس فیاضی کو دیکھ كر بنو مصطلق اسلام لے آئے۔ اس طرح آپﷺ نے جتنے نکاح کیے، ان کا اہم مقصد بھی اسلام کا فروغ اورحمایت تھی۔
حوالہ جات
[7] السیرۃ النبویۃ از ابن ہشام: 2؍ 266
[15] السیرۃ النبویۃ از ابن ہشام: 2؍220