قانون توہین رسالت کے غلط استعمال پر نظرثانی

سینٹ کی قائمہ کمیٹی کے لئے جملہ مسالک کے علماے کرام کی مشترکہ سفارشات
روزنامہ ’جنگ‘ کی اشاعت مؤرخہ 13؍جنوری 2017ء کی وساطت سے معلوم ہوا کہ سینٹ آف پاکستان کی ’قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق‘ قانونِ توہین رسالت کے غلط استعمال کی روک تھام کے لیے چوبیس سالہ پرانی تجاویز پر غوروفکر کرنے لگی ہے ۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ اس قانون کے تحت جھوٹے مقدمات کی روک تھام کے لیے غوروفکر کیا جائے اور اگر ضروری سمجھا جائے تو ضوابطی قوانین (Procedural laws) میں تبدیلیاں بھی لائی جائیں لیکن اس سے قبل یہ جائزہ ضرور لیاجائے کہ جھوٹے مدعیان سے نمٹنے کے لیے مروّجہ قوانین میں پہلے سے ہی گنجائش موجود ہے ۔
’ضوابطی قوانین‘ پر نظرثانی
اس ضمن میں مقدمے کے مختلف مراحل پر اس کے جھوٹا ثابت ہونے پر تعزیراتِ پاکستان کی دفعات 203،194،192،191،182اور 211کے تحت جھوٹے مدعی کے خلاف مناسب اور مؤثرکاروائی کی جا سکتی ہے۔ آپ بھی ان دفعات کا اچھی طرح جائزہ لے لیں ۔ یہ بات بھی قائمہ کمیٹی کے پیش نظر رہنی چاہیے کہ اس سے قبل تفتیش کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے ضوابطی قوانین میں پہلے بھی ترمیم کی جا چکی ہے جس کی رو سے 295سی کے تحت درج ہونے والی ایف آئی آرکی تفتیش سپرٹینڈنٹ پولیس سے کم سطح کاآفیسر نہیں کر سکتا ۔ اس ترمیم کے مثبت اثرات عیاں ہیں کیونکہ دورانِ تفتیش ملزمان کی کثیر تعداد کو بے گناہ قرار دیا گیا ہے اور بالعموم انہی ملزموں کے چالان عدالت میں بھجوائے جاتے ہیں جنہوں نے فی الواقع یہ جرم کیا ہوتا ہے ۔
مزید بہتری لانے کے لیے ہم یہ تجویز کرتے ہیں کہ توہین رسالت کے وقوعہ کے بعد جو بھی درخواست برائے اندراج مقدمہ متعلقہ تھانہ میں آئے تو ملزم کو پولیس بلا تردّد اپنی حفاظت میں لے لے لیکن ایف آئی آر کا اندراج نہ کرے اور معاملہ کی شرعی حیثیت کی جانچ کے لیے سرکاری سطح پر تمام مسالک کے جید علما پر مشتمل ایک مستقل بورڈ بنادیاجائے ۔ متعلقہ تھانیدار پابند ہو کہ وہ یہ معاملہ اس بورڈ تک 48گھنٹے کے اندر اندر پہنچا دے ۔ بورڈ سات یوم کے اندر اندر شرعی اعتبار سے معاملہ کا جائزہ لے کر اپنی رپورٹ واپس تھانے دار کو بھجوا دے۔ بورڈ اندراجِ مقدمہ کی سفارش کرے تو ملزم کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی جائے ورنہ اسے باعزت طور پر چھوڑ دیا جائے ۔ اس صورت میں جھوٹے مدعیان وگواہان کے خلاف تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ182کے تحت کاروائی کی گنجائش پہلے ہی قانون میں موجود ہے ۔ مجوزہ انتظام کو قانونی شکل دینے سے جھوٹے مقدمات پر قابو پانا یقینی اور سہل ہو سکتا ہے ۔
’سزاے موت‘ پر نظرثانی
آپ کے اخبار ی بیان میں یہ بھی لکھا ہے کہ سینیٹ پاکستان کی ’قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق‘ اس تجویز پر بھی غور کرے گی کہ 295 سی کے تحت سزا کو کم کر کے سزاے موت کی بجائے عمر قید میں تبدیل کر دیاجائے ۔
ہماری گزارش ہے کہ اس پر غوروفکر مندرجہ ذیل وجوہ کی بنا پر سعی لا حاصل ثابت ہو گا :
1.  1991ءتک 295سی میں متبادل ’سزا ے عمر قید‘ کے الفاظ موجود تھے ۔ طویل قانونی جدوجہد کے بعد بالآخر وفاقی شرعی عدالت نے عمر قید کی متبادل سزا کو غیر اسلامی قرار دیدیا اور حکومتِ پاکستان کو حکم دیا گیا کہ وہ 30 ؍اپریل 1991ء تک عمر قید کی سزا کو 295سی کے متن میں سے حذف کر دے ۔حکومت نے ابتداءً اس فیصلے کے خلاف شریعت اپیل نمبر5کے تحت پٹیشن نمبر 1کی رو سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے شریعت اپلیٹ بینچ میں اپیل دائر کر دی لیکن موجودہ وزیر اعظم میاں نواز شریف جو اس وقت بھی وزیر اعظم تھے اُنہوں نے یہ اپیل واپس لے لی ۔
2.  اسی طرح دوسری اپیل وفاقی شرعی عدالت میں پٹیشن نمبر43؍1آف 1993کے تحت علامہ بشپ دانی ایل تسلیم نے دائر کی جس میں وفاقی شرعی عدالت کے مذکورہ بالا فیصلے کو اس بنیاد پر چیلنج کیا گیا کہ یہ فیصلہ اسلام کے احکام کے منافی ہے۔ چنانچہ اسے جسٹس ڈاکٹر فدا محمد کی سربراہی میں فل بینچ نے سنا اور 8جنوری1994ءکو اس پٹیشن کو بھی خارج کرنے کافیصلہ سنا دیا گیا ۔ علامہ بشپ دانی ایل تسلیم نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ آ ف پاکستان کے شریعت اپلیٹ بینچ میں 1994ءمیں اپیل نمبر2دائر کی جسے فل کورٹ نے عدم پیروی کی بنیاد پر مؤرخہ 21؍اپریل 2009ءکو خارج کر دیااور یوں یہ معاملہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے ذریعے طے پا گیا کہ پاکستان میں نافذ العمل قانون 295 سی کے تحت کتاب وسنت کی روشنی میں توہین رسالت کی سزا صرف اور صرف موت ہو گی۔
3.            یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان فیصلوں کے بعد بھی تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295 سی میں سے متبادل سزائے عمر قید کے الفاظ حذف نہ کیے گئے جس پر فیڈرل شریعت کورٹ میں پٹیشن نمبر08؍01؍2007ء اور 09؍01؍2010ءدائر کی گئیں جن میں یہ موقف اختیار کیا گیا کہ وفاقی شرعی عدالت کے 30؍اپریل 1991ءکے فیصلے کے بعد تعزیراتِ پاکستان کی 295 سی کے متن سے متبادل سزا ے عمر قید کے الفاظ حذف کرنے کے احکام جاری کیے جائیں۔ چنانچہ مؤرخہ 4؍اکتوبر 2013ءکو وفاقی حکومت نے سیکرٹری لاء، جسٹس اینڈ ہیو مین رائٹس کے ذریعے ایک رپورٹ عدالت میں جمع کروائی جس میں یہ واضح کیا گیا کہ اگست 1991ءمیں سینیٹ میں ایک بل پیش کیا گیا تھا جس کے ذریعے 295سی تعزیراتِ پاکستان میں سے عمر قید کی سزا کے الفاظ حذف کرنے کی بات کی گئی تھی۔سینیٹ نے یہ بل منظور کر لیا تھا اور پھر اسے قومی اسمبلی کی طرف بھیجا گیا تھا لیکن قومی اسمبلی نے اسے 90دن کے اندر منظور نہ کیا ۔ اس کے باوجود آئین پاکستان کے آرٹیکل 203د کی دفعہ 3کے پیراگراف (ط)کے تحت وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر 295سی سے سزائے عمر قید کے الفاظ حذف کرنے کی حد تک عمل در آمد ہو چکا ہے ۔
عدالت نے اپیل کنندہ کے وکیل کو بھی سنا اور اس کے بعد سیکرٹری منسٹری آف لاء، جسٹس اور ہیو مین رائٹس کو ہدایت جاری کی کہ وہ زیر بحث فیصلے پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے ضروری اقدام کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ سزائے عمر قید کے الفاظ 295 سی تعزیراتِ پاکستان کے متن سے حذف کر دیئے جائیں اور تمام ہائی کورٹس کے رجسٹرار حضرات کو ہدایت کی جائے کہ وہ اسے تمام جوڈیشنل آفیسرز تک پہنچا دیں ۔ یہ فیصلہ4دسمبر2013ءکوسنایا گیا اورپی ایل ڈی 2014ء، شریعت کورٹ 18کے تحت والیم L.xviکے صفحات18تا23پر درج ہے ۔ قدرے تفصیل کے ساتھ اس قانون کی تاریخ قلم بند کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ کو واضح ہوجائے کہ 295سی میں سے متبادل سزائے عمر قید کے الفاظ حذف کروانے کے لیے کن کن مراحل سے گزرا گیا ۔ اب اگر قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق دوبارہ اسی سزا پر غورکرتی ہے جسے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت اور خود سینٹ جیسے ادارے نے بھی مسترد کرتے ہوئے 295 سی میں سے سزائے عمر قید کو حذف کرنے کا فیصلہ دیا ہوا ہے تو یہ نہ صرف سعی لا حاصل ہو گی بلکہ یہ ایک طرح سے ہمارے ہاں ہونے والی قانون سازی کے عمل کا مذاق اُڑانے کے مترادف بھی ہو گا ۔
4. توہین رسالت کی شرعی سزا صرف اور صرف موت ہے، اس پر قرآن حکیم کی درجنوں نصوص ، احادیث مبارکہ اور خود حضورﷺکے متعدد فیصلے شاہد ہیں جن کا احاطہ تفصیل کے ساتھ وفاقی شرعی عدالت نے اپنے 1991ءکے فیصلے میں کر دیا ہے ۔ اسی سزا پر صحابہ کرام علیہم الرضوان کا تعامل رہا اور ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ نے اسے اختیار کیا ،بلکہ اہل علم نے اسی پر اُمت کا اجماع نقل کیا ہے ۔
5.  یہ نازک اور حساس معاملہ ہے جس کا براہ راست تعلق اُمت کے جذبات کے ساتھ ہے ۔ماضی میں اس قانون کو ختم کرانے کے حوالے سے جو بھی کوششیں کی گئیں وہ کامیاب تو نہ ہو سکیں لیکن ملک میں امن وامان ختم کرنے اور فساد پھیلانے کا سبب ضرور بنیں ۔      
اندریں حالات ملی مجلس شرعی کے علما آپ سے گزارش کرتے ہیں کہ Substantive lawیعنی 295 سی میں کسی قسم کی ترمیم خصوصاً اس کی سزا کم تر کرنا شرعی ، قانونی اور آئینی طور پر ایک درست اقدام نہیں ہے بلکہ اندیشہ ہے کہ اس سے ملک کاامن وامان ایک دفعہ پھر خراب ہوجائے گا ۔ ویسے بھی جھوٹے مقدموں کا خاتمہ Procedural lawsیعنی ضوابطی قوانین میں بہتری لانے سے تو ہو سکتا ہے لیکن سزا کی کمی بیشی سے نہیں اور نہ ہی جھوٹے مقدمات کا تعلق سزا کی مقداراور Substantive lawسے بنتا ہے ۔
          اُمید ہے کہ آپ علماے کرام کی ان گزارشات کا بغور جائزہ لیں گے اور یہ صد ابہ صحرا ثابت نہیں ہو ں گی ۔ اگر اس مسئلہ میں قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کو مجلس کے علمائے کرام کی معاونت درکار ہو تو ہمیں یہ خدمت سر انجام دے کر خوشی ہو گی ۔
                                                                                مفتی محمد خان قادری ( صدر ملی مجلس شرعی پاکستان ) ودیگر علما اراکین مجلس