دار الأفتاء

ايك گائے میں سات عقیقے

برج جیوسے خاں (ساہیوال ) سےایک صاحب پوچھتےہیں کہ :
جسے کہ قربانی کی گائے میں سات آدمی قربانی کرسکتےہیں یعنی سات گھروں کی طرف سے قربانی ہوتی ہے، کیاایسے ہی ایک گائے میں سات عقیقے بھی ہوسکتےہیں ؟
الجواب :
عقیقہ کوخلیل اللہ والی قربانی پرقیاس کرنامناسب نہیں ہے،دونوں کاپس منظر، دونوں کی زمین اور دونوں کاخصوصی ماحول اورفضا ایک دوسرے سےکافی مختلف ہیں ----- اس لیے قربانی کاطرح عقیقہ کےلیے ،مثلا گائے میں سات حصےکی تجویز درست نہیں ہے۔
اونٹ اورگائے میں جودس یاسات حصے ہیں وہ سرکےمقابلے میں نہیں ہیں ۔بلکہ ایک کنبہ اورگھر کےمقابلے میں کافی ہوتےہیں ۔ خواہ اس گھر میں پندرہ افراد ہوں ۔اگرعقیقہ میں اس طرح کےدس یاسات حصوں کی تخلیق کریں گےتووہ مولوی صاحب بھی جواب دئےجائیں گےجوان حصوں کےقائل ہیں ۔
امام ابن القیم فرماتےہیں کہ:
عقیقہ کی ہی خصوصیت ( یعنی عدم اشتراکیت ) اضحیہ اورقربانی سےاس کوممتاز کرتی ہے:
’’ قال إنه لايصح الااشتركيت فيها ولا يجزى الرأسه الا عن رأس هذا بمامه تخالف فيها العقيقة الهدىَ والاضحية ( تحفة الودود (عربى )
مثلا ایک گھر میں دوجڑواں بچے پیدا ہوں ، ایک اورگھر ہے۔ اس میں تین بیٹے ہیں ،ایک کےہاں ایک بیٹا ، دوسرےکےہاں ایک بیٹی ، اور تیرے کےہاں پھرایک بیٹا ہواہے۔اسی طرح دس یاسات گھروں کاحال کم وبیش فرض کرلیجئے ، خواہ گھرمیں کتنےفراد اوربال بچے ہوں ، قربانی توجائز ہوجائے گی ، کیا عقیقہ بھی (سر) کےبجائے گھرکےحساب سےقبول کرلیا جائے گا ؟ نہیں ، بالکل نہیں ! ------ پھر عقیقہ کےقربانی پرقیاس کرنا کس طرح مناسب ہے ؟
خلاصہ یہ ہےکہ قربانی کےحصوں کاتعلق گھر اورسر،دونوں صورتوں سےہے،عقیقہ میں بیجہ کاتعلق صر ف سرسےمتعلق ہے، گھر سےنہیں ہےکیونکہ مولود کی طرف سےغیرمتخیری کامل مطلوب ہوتاہے۔حصوں کی صورت میں سرکےمقابلے میں کامل قربانی نہیں رہتی جوخلافِ مطلوب ہے۔
’’ قال ابن القيم : قلت لما كانت هذه الذبيحة جارية مجرى نداء المولودكان المشروع دماكاملا لتكون نفس فداء نفس - ،، ( تحفة الودود )
اس کےعلاوہ خیرالقرون میں اس کی کوئی مثال بھی نہیں ملتی ۔حالانکہ عقیقے ہوتےرہےہیں غربت اورتنک دامانی کےباوجود اس قسم کی کفایت شعاری کاسہارا نہیں لیا گیا تومعلوم را ، کہ عقیقہ کےلیے قربانی کی طرح حصوں کی تجویز محل نظر اورقیاس مع الفارق ہے۔واللہ اعلم !
(2)
آزاد کشمیر سےایک صاحب لکھتےہیں :
کیا عقیقہ ایک گائے کاسات افراد کی طرف سےہوسکتا ہےیا نہیں ؟
جواب : نہیں --------- تفصیل اوپرگزرچکی ہے!
امام قرات پڑھ رہاہو، تواس صورت میں مقتدی کیا ثناء اورفاتحہ دونوں پڑھے،یا(فاتحہ؟
جواب : صرف فاتحہ پڑھے!
۔ مقتدی مغرب کی نماز میں تیسری رکعت میں جماعت کےساتھ شریک ہوا،اس کی کون سی رکعت شمار ہوگی اوربقیہ دورکعت کس طرح پڑھے گا ؟ -------- ان دونوں میں سے اس کےساتھ سورت ملائے گا ؟
جواب : مقتدی کی وہ پہلی رکعت ہوگی ، خواہ وہ امام کی تیسرے ہو، بقیہ دورکعت ویسے ہی پڑھے،جیسے وہ تنہا پڑھتاہے۔ یعنی دوسری میں سورت ملائے ، تیسری میں نہیں
4۔ ایک آدمی اکیلا نماز ڑھ رہاہے،وہ رکوع کرنا بھول گیا ، سجدہ میں جاکر اس کویاد ےآیا،کیاآخر میں سجدہ سہوسے ا س کی یہ رکعت ہوجائے گی یا نہیں ؟
الجواب : ارکان کی تاخیر کےلیے سجدہ سہو ہوتاہے، ترک ہوجائےتونمازجاتی رہتی ہے،ہوتی ہی نہیں !
5۔ موجود بینکوں سےنفع اورنقصان سےجومنافع دیا جاتاہےکیایہ درست ہے؟
الجواب: جیسا کہ ظاہر میں نظر آتاہےکہ یہ شعبہ شراکت کےاصول پرجاری کیاگیاہےتواس صورت میں یہ جائز ہےلیکن اگراس میں کوئی شقِ ابھی سود سےماخوذ ہےتوپھر نہیں ، یہ بہرحال بینک والوں سےپوچھیں کہ سود سے یہ شعبہ بالکلیہ پاک ہےیانہیں ؟
6۔ نماز تہجد کاوقت کب شروع ہوتاہے؟
الجواب : آدمی رات کےبعد سےلےکرطلوع صبح تک !
7۔الجواب : ان رویات کاکوئی اعتبار نہیں !
--------------------

(3)بیوی کی ماں یابہن کہہ دینا

ایک صاحب لکھتےہیں کہ :
زید رنج وغصہ کی حالت میں اپنی بیوی کوماں ، بہن کہہ دیتاہے، ایک دفعہ یاایک سےزیادہ دفعہ ، ا یک ہی وقت میں ------- کیاا س کانکاح باقی رہ جاتاہےیانہیں ؟
اگر نکاح ٹوٹ جاتاہےتودوبارہ رجوع کااسلام نےکیا طریقہ مقرر فرمایا ہے؟
الجواب: یہ بات بُری جو زبان سےنکلی ہے، استغفار چاہیے،لیکن اس سےنکاح پرکوئی اثر نہیں پڑا ۔ اس میں ماں بہت سے تشبیہ کی کوئی شکل ہوتی تویہ ظہار ہوتاجس کاکفارہ ادا کرنا پڑتا چونکہ ایسا نہیں ہے،اس لیے ظہار بھی نہیں ہے۔فتاویٰ نذیر یہ میں ہے:
صورت مذکورہ میں زید کااپنی زوجہ کویہ کہنا کہ تومیری بہن ہے، ظہار نہیں ہے،کیونکہ رسول اللہ ﷺ نےایک شخص کواپنی زوجہ کوبہن کہتےہوئے سناتوآپ ﷺنےاس کوبُرا جانا اوراس شخص کواس بات سےمنع کیا، لیکن اس پرظہار کاحکم نہیں لگایا۔
چنانچہ ابوداؤد میں ہے:
’’عن ابى تميمة الجحمى أن رجلاًقال لامراته يااختيه فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم اختك هى ،، ؟
اور فقہ حنفی میں بھی یوں ہی ہے، چنانچہ درمختار میں ہے:
’’ ویکره قوله انت امى ويا اينتى ويااختى ونحوه -،،
اپنی عورت کوماں یابہن یابیٹی کہنے سےبغیر تشبیہ کےظہا رکےثابت نہیں ہوتا۔
(فتاویٰ نذیریہ 352؍2

(4)حضرت خضر کےوالد اوروالدہ

محمد نسیم کانجولکھتےہیں :
راقم الحروف سےایک آدمی نےسوال کیاہےکہ حضرت خضر کےوالدماجداور والدہ ماجدہ کاکیانام تھا ؟ ---- سوال اگرچہ سادہ ساہےمگر عام موضوعات سےہٹ کرہےاس لیے اکثرلوگوں کواس کا پتہ نہیں ہے،کہیں سے ڈھونڈڈھا نڈکرفقیرکوبتائیں ،مہربانی ہوگی !
الجواب : عہد حاضریں جن مسائل سےدوچارہےاورجن کےسلسلےکی رہنمائی دین حق کی داعی امت کی ذمہ داری ہے،وہ اس قسم کی جزوی اور غیرضروری موشکانیوں کی متحمل نہیں سکتی ، دراصل اس قسم کےمسائل کھڑے کرکےبعض لوگ ضروری فرائض انجام دینے سےباز رکھنے کی ایک غیردانستہ کوشش کرتےرہتےہیں۔جبکہ اصل توجہ ان مسائل کی طرف دینی چاہیے جن کانوع انسانی کےسیاسی،معاشرتی،سیاسی اورمعاشی امور سےتعلق ہےتاکہ کہ خلق خدا پراتمام حجب ہوسکے--------مگرافسوس ،دنیا اس طرف توجہ دینےکی بجائے ذہنی عیاشی کےلیے ایسے میدان تلاش کررہی ہےجن کاتعلق انسان کےشب وروز سےبہت کم یاغیرضروری ہےفالی اللہ المشکی !
حضرت خضر کےوالدماجد کےسلسلے میں مختلف نام آتےہیں اور ان میں کوئی بھی یقینی نہیں ہے۔چند ایک ملاحظہ فرمائیں :
والد: ملکان بن فالغ بن عابر---- عامیل ----- حزقیاعیص --- حضرت آدم ۔قابیل بن آدم مالک بن عبداللہ بن نصر بن الازد۔۔۔ (تاریخ الخمیس صفحہ107 ؍ 1 )
والدہ : اس کی بابت صرف اتنا پتہ چلا ہےکہ وہ ایک رومی عورت تھی ۔
(تاریخ الخمیس صفحہ 106؍ 1 ، البدایہ والنہایہ وغیرھما)
امام بخاری ، ابراہیم الحزنی اورامام ابن المناوی تواس کےبھی منکر ہیں کہ وہ ابھی تک زندہ ہوں :
’’ اختلف فى حياته وقد انكربها جماعة منهم البخارى وابراهيم الحربى وابن المناوى-،،(تاريخ الخميس 1- صفحه 107 )
اور پرویز صاحب کوتوخضر نام کی ایسی شخصیت کےتسلیم کرنے میں بھی تامل ہے،جس سےحضرت موسی ٰ کوپالاپڑا ہو-------- اور یہ تامل صرف اس لیے ہےکہ اس کاتعلق بخاری کی ر وایت سےہے۔ اگر مغربی اقوام کےکسی آبردباختہ قلم نےاس کاانکشاف کیا ہوتا توپھر ان کےلیے یہ نادردریافت ہوتی ۔ ہم نے موصوف کی کتابوں کےمطالعہ کےدوران ان کی یہ بےانصانی واضح پائی ہےیعنی اگر ایک بات کتبِ حدیث میں مل گئی ہےتواس میں کیڑے ڈالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتےلیکن اگروہی بات اس سےبھی زیادہ کوئی افسانوی کہانی مل جائے توجناب پرویز بڑی جلی سرخیوں سےاس کاذکر فرماتےہیں ۔اناللہ !

(5) رسو ل اللہ کا خاتم النبین کب سےتصورکیا جائے ؟

رانا عبدالستار ٹاؤن شب لاہور سےلکھتےہیں :
حضرت محمدر سول اللہ ﷺ کوخاتم النبیین کب سے تسلیم کیا جائے ۔ولادتِ مبارکہ سے؟ آیت ’’ ماکان محمد ابا احد ....... ،، کےنزول کےوقت سے؟ یا حضور ﷺکی وفات کےبعد سے ؟......... مقصد یہ ہےکہ وحی الہی کاانقطاع اورحضورﷺکاخاتم النبیین ہونا کب سےشمار ہوناچاہیے ۔دلیل قرآن ِ پاک کی آیت مبارکہ سےہو،کیونکہ خدا کا کلام خطاسےپا ہے۔
الجواب : جب آیت خاتم النبیین نازل ہوئی ۔ اس وقت سےہم آپ ﷺکوخاتم النبیین تصور کرنےکےپابند ہیں کیونکہ اسی وقت سےہمیں بلکہ خود رسول اللہ ﷺکومعلو م ہواکہ آپﷺ کونبوت کی یہ حیثیت ہے۔ہاں اگر احادیث میں اس سےپہلے کےلیے بھی آپ کےختمی مرتبت ہونے کاذکر آیا ہوتو اسے ہم آپ کی جامعیت اوربرتری کےاظہار کےلیےایک اسلوب بیان تصور کریں گے--- ورنہ اگر عالمِ ارواح میں ختمی مرتبت کاتصور اس سے کشید کیاگیا توبعد میں انبیاء کی تشریف آوری کاسلسلہ غیرضروری اوربےمحل ہوجائے گا۔