امام بخارى رحمۃ اللہ علیہ
جامع صحیح کامقصد ومقصود اعظم :
عام نظروں میں امام بخاری صرف محدث ہیں اورمحدثین کےمتعلق یہ سمجھ لیاگیا ہےکہ یہ بیچارے صرف جامع ہیں ۔فقہ واستدلال سےان کاکوئی لگاؤ نہیں بلکہ حدیث کا جامع ہونا کچھ ایساعیب سمجھا جاتاہےکہ اس کےساتھ فقہ واستدلال کی خوبیاں بالکل جمع نہیں ہوپاتیں ۔(علوم حدیث میں کم مائیگی کوچھپانے کےلیے یہ کتنی اچھوتی توجیہ ہے؟) یہی وجہ ہےکہ ان لوگوں نےمحدثین کرام کےعطاراورفقہائے کرام کوطبیب (جانچ پڑتال کرنےوالے) کہہ کر اپنی کمزوریوں کوچھپانے کی ناکام کوشش کی ہے۔ان سب لوگوں کےلیے صحیح بخاری کامطالعہ بہترین جواب ہے۔
اس کی اسنادی خوبیوں پرفی الحال غورنہ کیجئے ، ابواب کی ترتیب دیکھیے، اس میں فقہ،تفسیر ، لغت اورادب کا کتنا بڑا ذخیرہ پنہاں ہے۔
امام صاحب نےجب احادیث کوپیش فرمایا اس وقت فقہی مذاہب مدون ہوکرشہروں میں پھیل چکے تھے۔ تفسیری علوم نےبھی شہرت حاصل کرلی تھی ۔الفاظ قرآن کی لغوی وادبی تشریحات کی بوقلمونی نےبھی اپنے حلقوں میں رنگ جمارکھا تھا۔فتنوں کا آغاز ہوچکا تھا ۔اعتزال وجہمیت کےلوگ کثرت سےشکار ہورہے تھے چنانچہ خودمحدثین کوچھیڑا جاتا اور دریافت کیا جاتا کہ آ پ خلق قرآن کےمتعلق کیا رائےرکھتےہیں ؟
ان علوم کونگاہ میں رکھیے جوزمانے کےارتقاء سےپیدا ہوچکےتھےاورپھر امام بخاری کےقائم کردہ ابواب پرایک سرسری نظر ڈالی جائے تومعلوم ہوگااس میں کس قدر جامعیت ہے۔فقہ کےایک سوال کوسامنے رکھا ہےاورقرآن وحدیث سےاس کےمقابلہ میں اپنے مسلک کی تائید فرمائی ہے۔
اگر ایک لفظِ قرآنی کئی معانی کامتحمل ہےتواس موزونیت سےقرآن کی آیت سامنے لائے ہیں کہ صحیح معنی کی تطبیق ہوگئی ہے۔پھر بغیربتائے اوروضاحت کیے قرآنی نگینوں کواس طرح باب اورحدیث کےدرمیان جڑتےچلے جاتےگئے ہیں کہ خود بخود نئے معانی ذہن میں اترنا شروع ہوجاتےہیں ۔
یہ وقت کےعقلی فتنوں کابھی جواب ہےاوراس کےہی ساتھ یہ وضاحت بھی کہ قرآن حکیم اور حدیث نےان کےمقابلہ میں کس عقیدے کی تبلیغ کی ہے؟
تفصیل کایہ مقا م نہیں ، صرف یہ بتانا مقصود ہےکہ صحیح بخاری صرف حدیث کی کتاب نہیں ،اس میں تفسیر بھی ہے، فقہ واستدلال کےعمدہ نمونے بھی ہیں اوردقیق متکلمانہ بصیرت بھی !
حافظ ابن حجر (م 852ھ ) فرماتےہیں :
’’ مصنف نےپوری کتاب میں صحت کاالتزام رکھاہےاوراس میں صرف احادیث صحیحہ ہی لائے ہیں ۔اس کےساتھ فقہی مسائل اورحکیمانہ نکتوں کابھی لحاظ رکھا گیا ہے،متون احادیث ہےبہت سےمعانی استنباط کی طرف پوری توجہ دیتےہیں اوراس عجیب وغریب معانی کی طرف اشارہ کیا ہے،،
امام شاہ ولی اللہ محدث دہلی ( م 1174ھ ) فرماتےہیں :
’’امام بخاری کی اصل غرض وغایت احادیث کےذخیرہ میں سےصحیح و مستفیض ومتصل کاانتخاب ہےاورفقہ وسیرت اورتفسیر کوبھی استنباط کیاہے۔اخذِ حدیث میں جوشرط انہوں نےمقرر کی تھی ،وہ بدرجہ کمال پوری کی ہے۔
اس سےمعلوم ہواکہ امام صاحب کامقصود اپنی ’’الجامع الصحیح ، ، میں طرقِ استنباط ہے۔
کتب احادیث میں صحیح بخاری کامقام :
جمہور علمائے امت کااس پراتفاق ہےکہ صحیح بخاری کوصحاح اورتمام کتبِ احادیث پرترجیح حاصل ہے۔
امام نووی ( م 976ھ ) فرماتےہیں:
’’علمائے اسلام کااتفاق ہےکہ صحیح بخاری صحت اوردیگر فوائد کےلحاظ سےصحیح مسلم پرفائق ہے،،۔
علامہ ابن کثیر ( م 774ھ ) فرماتےہیں:
’’امام بخاری کاصحیح مسلم یاکوئی اورکتاب مقابلہ نہیں کرسکتی ۔،،
امام دارقطنی (م 385ھ ) فرماتےہیں :
’’ لولا البخارى لما جاء مسلم-،،
’’ اگربخاری نہ ہوتےتومسلم کاوجود نہ ہوتا۔،،
حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی (م 1239ھ) فرماتےہیں :
’’ بخاری،مسلم ، وموطا کی حدیثیں نہایت صحیح ہیں اورموطا کی اکثرروایات مرفوعہ صحیح بخاری میں موجود ہ ہیں ۔،،
تعداد روایات :
امام نووی اور حافظ ابن صلاح کےنزدیک تکرار کےساتھ بخاری کی روایات کی تعداد 7275 ہےاورعدم تکرار کےساتھ 4000 ۔
لیکن شیخ الاسلام حافظ ابن حجر فرماتےہیں کہ :
’’ روایات مرفوعہ کی تعداد 17397 اورتکرار کےساتھ متابعات وتعلیقات کی تعداد 1341 ہےجن میں اکثرکوامام بخاری نےمسنداً بیان کیا ہے۔اورموقوفاتِ صحابہ ومقطوعاتِ تابعین کی تعداد 341 ہے۔اس طرح مجموعی تعداد 8079 ہے۔غیرمکررروایات مرفوعہ 2353 اورغیرمکررمتابع ومعلق 160 ہیں اس طرح غیرمکرر مجموعہ 2513 ہے۔ اس تعداد میں آثارِصحابہ وتابعین ، جن کاتراجم ابواب میں تذکرہ ہے،شامل نہیں ہین ۔
صحیح بخاری کےتراجم ابواب:
امام صاحب نےصحیح بخاری کےتراجم ابواب میں بڑےبڑے اعلیٰ مقاصدپیش نظررکھےہیں جس طرح احادیث صحیحہ کی تخریج ان کےپیش نظر تھی،اسی طرح وہ ان سےبہت سے مسائل کااستنباط واستخراج بھی فرماتےہیں ۔اسی لیے کبھی کبھی ایک روایت متعدد جگہ نقل کرتےہیں جیسے حضرت عائشہ ؓ کی وہ حدیث جوحضرت بریرہؓ کےواقعہ سےمتعلق ہے۔اس کو 20 مرتبہ زائد نقل کیاہے۔
صحیح بخاری کےتراجم ابواب کی شان میں فقہاء اورمحدثین کامشہور مقولہ’’فقہ البخاری فی تراجم ابوابہ ،، ( بخاری کاسارا کمال ان کےتراجم ابواب میں ہے) ضرب المثل ہے۔
امام صاحب نےاپنے تراجم ابواب میں جس دقتِ نظر کامظاہرہ فرمایا ہے،اس کوسمجھنے سےبڑے بڑے اہل علم قاصر رہے۔
صحیح بخاری کی تراجم ابواب کےمہتم بالشان ہونے کااندازہ اس سےکیاجاسکتاہےکہ بڑےبڑے علمائے کرام اورمحدثین عظام نےتراجم ابواب پرمشتمل رسالے لکھےہیں۔تراجم ابواب کےمتعلق مجھےجن تصنیفات کاپتہ چل سکا ہےان کی تفصیل پیش خدمت ہے۔
1۔ المتواری علی تراجم البخاری ---- از علامہ ناصرالدین احمد بن منیرخطیب اسکندریہ۔
2۔ فک اغراض البخاری المبہمۃ فی الجمع بین الحدیث والرجمہ ---- از علامہ محمدبن منصورالمغربی السجلماسی ۔
3۔ترجمان التراجم ------- از علامہ ابن ابی عبداللہ رشیدالبستی
4۔تراجم البخاری ------- ازامام شا ہ ولی اللہ دہلوی (م 1176ھ )
شرح تراجم ابواب صحیح بخاری ،شاہ صاحب کاایک جامع رسالہ ہے۔اس رسالہ کےابتداء میں تراجم ابواب کےمتعلق چند اصول جامع اورمختصر تقریروں میں بین کئےکئےہیں ۔
پھر فرداًفرداً چارسوسےزائد تراجم پرمفصلاً لیکن نہایت ایجاز کےساتھ بحث کی گئی ہےاور جابجا بہت سی مفید نکات درج کیے ہیں جومصنف کےتبحرعلمی پرشاہدعدل ہیں۔
یہ رسالہ دائرہ المعارف حیدر آباد دکن سےطبع ہوکر شائع ہوچکا ہےاورلکھنؤ سےتیسیرالقاری شرخ صحیح بخاری کےحاشیہ پربھی شائع ہوا تھا۔
ان مستقل تصنیفات کےعلاوہ صحیح بخاری کی شروح میں تراجم ابواب پرتفصیلی بحث کی جا تی ہےاوراپنی وسعت کےمطابق ہرشارح نےاپنے علم وفہم کاتمو ج دکھلایا ہے۔ان میں شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی صاحب فتح الباری (م 852ھ) اورعلامہ عینی ، صاحب عمدۃالقاری ( م 855ھ ) نےخاص حصہ لیا ہے۔علامہ ابن خلدون صحیح بخاری کےتراجم ابواب سے متعلق فرماتےہیں :
’’ صحیح بخاری حدیث کی کتابوں میں سب سےبلند پایہ ہےاس لیےاہل علم اس کی شرح کوسخت مشکل کام خیال کرتےہیں اوراس کےمقاصد تک پہنچنابہت مشکل جانتےہیں کیونکہ صحیح بخاری کےمقاصد تک پہنچنے کےلیے چند باتوں کا ہونا ضروری ہے۔
1۔ ایک ہی حدیث کےاسانید متعددہ سےآگاہ ہونا ۔
2۔ ان اسانید کےرجال کاعلم ہونا اس طرح کہ کون ان میں شامی ہے،کون حجازی کون عراقی ؟
3۔ ان حالات سےآگاہ ہونےکےعلاوہ یہ جاننا کہ لوگ ان میں کیا اختلاف رکھتےہیں(اورامام صاحب نےکیا فیصلہ کیا ہے؟) اس وجہ سےتراجم ابواب کےسمجھنے میں بڑی ہی دقت نظر کی ضرورت پڑتی ہے۔
امام بخاری ایک ترجمۃ الباب قائم کرتےہیں اور اس میں ایک سند سےحدیث لاتےہیں پھر دوسرا ترجمۃالباب قائم کرتےہیں اوراس میں بھی یہی حدیث دوسری سند سےلاتےہیں اس وجہ سے کہ یہ دوسرے ترجمۃ الباب کی بھی دلیل ہے۔اس طرح یہ حدیث متعددتراجم ابواب میں بوجہ کثرتِ معانی و اختلاف مکرر ہوجاتی ہے۔
صحیح بخاری کےشروح وحواشی :
صحیح بخاری کی اہمیت ومقبولیت کی بناء پر ہردور کےعلماء نےاس پرشروع وحواشی لکھے ہیں۔
علامہ عبدالسلام مبارک پوری ( م 1342ھ ، 1924ء) فرماتےہیں:
’’ صحیح بخاری کےجلیل القدر اوربلند پایہ ہونے کااندازہ اس سےبخوبی کیا جاسکتاہےکہ سلف سےلےکر خلف تک علمائے اسلام بلاامتیاز کسی فرقہ کے، برابراس کی خدمت میں مصروف رہے، کسی نےشرح لکھی ،کسی نےصرف اس کےرجال پرتوجہ کی ۔کسی نےاس کی تجرید کی ۔ کسی نے اختصار ،بعض اہل علم نےاس کی تعلیقات کوموصول کیا۔اکثراہل علم نےالفاظ غریبہ مشکلہ کےلغات لکھے۔کسی نےنحوی مسائل کےشواہدجمع کیے ۔بعض شیوخ نےاس کےشروط بربحث کی ۔بعض محدثین نےاس کی حدیثوں پرتنقیدکی ، پھرکتابیں لکھیں ۔ اکثر اساتذہ فن نےحواشی وتعلیقات لکھے۔کسی نے مستدرک لکھی ، شروح میں بھی کسی نےمبسوط لکھی،کسی نےمختصر،کسی نےمتوسط ،اورہرایک کےمقاصد اورعنوان الگ الگ ،صحیح بخاری کی شروح اورجوکتابیں اس کےمتعلق لکھی گی ہیں ان کااستقصاء کرنا ایک دشوار امرہے۔،،
علامہ مبارک پوری نےاپنی کتاب ’’سیرۃ البخاری ،، میں صحیح بخاری کےشروع و حواشی کی ایک فہرست دی ہےجن تفصیل اس طرح ہے۔
عربی شروح 108
فارسی و اردو 37
میزان 145
اب چند ایک مشہور عربی شروح کامختصر تعارف پیش خدمت ہے۔
1۔ الکواکب الدراری : ---- علامہ شمس الدین محمدبن یوسف بن علی الکرمانی م786ھ یہ ایک مشہور اورمتوسط شرح جامع فوائد وزوائد ونافع اہل علم ہے۔پہلے اس شرح میں یہ ثابت کیاگیاہےکہ علم حدیث افضل علم اورصحیح بخاری علم حدیث کی کتابوں میں سب اعلی ٰ اورتعدیل اورضبط کےاعتبار سےسب کتابوں پرفائق ہے۔لائق مصنف نےاعراب نحویہ بعیدہ الفاظ مشکلہ عریب کاحل کیا ہے۔روایات ،اسماءالرجال،القاب واۃ کوبھی خوب ضبط کیا ہے۔احادیث سےتعارض کواٹھایاہے۔775ھ میں مکہ معظمہ میں اس کی تالیف سےفراغت پائی۔لیکن شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی ( م 851 ھ ) نےاپنی تصنیف دررکامہ جلد4 صفحہ 311میں لکھاہےکہ :
’’ اس میں بہت سےاوہام واقع ہوئےہیں ۔اگرچہ شرح بہت مفید ہے،،۔
یہ شرح مصر میں طبع ہوگئی ہے۔
2۔ شواہد التوضیح :
علامہ سراج الدین عمربن الملقن الشافعی (م 805ھ ) یہ شرح 20جلدوں میں ہےاس کےساتھ ایک مقدمہ بھی ہےجس میں یہ بیان کیا گیا ہےکہ ہرحدیث کےمقاصد دس میں منحصر ہیں ۔
علامہ سخاوی فرماتےہیں ، اس شرح میں ابن ملقن کااعتماد زیادہ تراپنے شیخ مغلطائی کی شرح تلویح پرہےاورحافظ ابن حجر فرماتےہیں کہ اس شرح کااخیر حصہ قلیل النفع ہے۔
یہ شرح چھپی نہیں ۔ مولانا عبیداللہ رحمانی مبارک پوری لکھتےہیں کہ اس کاقلمی نسخہ کتب خانہ دارالعلوم جرمنی میں دوسری جنگ عظیم تک موجود تھا۔
3۔ فتح الباری : شیخ الاسلام ابوالفضل احمدبن علی بن حجرالعسقلانی (م 752ھ)یہ وہی شرح ہےجس کی نسبت ’’ لاہجرۃ بعد الفتح ،، مشہورہے۔علامہ ابن خلدون اپنی مشہور تاریخ کےمقدمہ میں لکھتےہیں :
’’بخاری کی شرح کادَین (قرض ) امت پرباقی ہےحالانکہ علامہ موصوف کےعصرتک کتنی شرحیں ہوچکی تھیں ۔ان کامقصود یہ تھاکہ صحیح بخاری کےوع نکات جوفن ِ حدیث اوررجال کےمتعلق ہیں،یاوہ تدقیقاتِ فقہیہ جوتراجم ابواب سےتعلق رکھتےہیں ۔ان پرآج تک کسی نےمحققانہ بحث نہیں لکھی ہے۔اس شرح کےبعد حافظ سخاوی فرماتےہیں کہ غالباً امت سےیہ دَین (قرض ) ادا ہوگیا،،۔
یہ شرح مصر اوربیروت سےکئی بارطبع ہوکرشائع ہوچکی ہےاوربرصغیر میں سب سےپہلے محی السنہ والا جاہ حضرت مولاناالسیدنواب صدیق حسن خان قنوجی رئیس بھوپال نےچھ سوروپے میں مصر سےخریدکرہزاروں کی تعداد میں چھپواکرمفت تقسیم کی ۔
4۔ عمدۃالقاری :
علامہ بدرالدین ابومحمد محمود بن احمد العینی (م 855ھ) ۔ اس شرح کےمتعلق صاحبِ کشف الظنون لکھتےہیں:
’’ واستمد فيه من فتح البارى بحيث ينقدمنه الورقة بكمالها وكان يستعيره من البرهان ابن الخضربإذن مصنفه له ويعقبه فى مواضع ،،
یعنی علامہ عینی نےاپنی شرح میں فتح الباری سےبہت کچھ مددلی یہاں تک کہ ورق کاورق نقل کرتےہیں ۔برہان بن الخضر سےمصنف کی اجازت سےعاریت لیتے۔
علامہ عینی نےحافظ ابن حجر پرتعقبات بھی کیے ہیں اورجن باتو ں کوحافظ ابن حجر نےبالقصد ترک کردیا تھا اس میں ان کوبہت طول دیا ہے۔بہرحال یہ ایک مفید علمی شرح ہے۔
ایک ماہرفن لکھتےہیں :
’’ الاول ( فتح الباری ) مفید للكملة والثانى ( العينى) مفيد للطبة ، ، -
’’فتح الباری غتہیوں کےلیےمفید ہےاورعینی متبدیوں کےلیے مفید ہے۔،،
اورمولانا ابولالحسنات محمد عبدالحی ( م 1304 ھ) لکھتےہیں :
’’ ويفصل الاول ( فتح البارى) على الثانى ( عمدةالقارى) تحقيقا وتنقيدا والثانى على الاول توضيحا وتفصيلا ،،-
’’ فتح الباری کوعینی پربحیثیت وتنقید کےفضیلت ہےاورعینی کواول الذکر پربحیثیت تفصیل اورتوضح مطلب کے۔،،
یہ شرح دس جلدوں میں بیروت سےطبع ہوکرشائع ہوچکی ہے۔
5۔ ارشاد الساری:
علامہ شہاب الدین احمدبن محمد الخطیب العسقلانی المصری صاحب المواہب اللدنیہ (م923ھ)
یہ شرح حامل متن ہے۔شرح اورمتن کااس طرح امتزاج ہےکہ اگرحدیث کےالفاظ خطوط کےنیچے نہ ہوں تواکثر مقامات پرمتن اورشرح کاامتیاز مشکل ہوجاتاہے۔مشکلات کوحل کیا ہے، مہملات کومقید کیاہے، مبہات کوواضح، اورجوالفاظ مشکلہ مکرر آئے ہیں ان کی شرح بھی ویسے ہی مکرر دی ہے۔اس وجہ سے صحیح بخاری کادرس دینے والوں کواس شرح کاسامنے رکھنا بہت آسانی بخشتا ہے۔کوئی دقت باقی نہیں رہتی ۔مکروسہ کرز ایک ہی لفط کی شرح چلی آرہی ہے۔خود مصنف کاقول ہے:
’’ ولم اتحاش من الاعادة فى الافادة عندالحاجة الى البيان ،،
یہ شرح بڑی بڑی شروح کی تلخیص ہے۔بالخصوص فتح الباری تواس کااصل میں ماخذہے۔ اس شرح میں پہلے ایک مقدمہ لکھاگیا ہےجس میں کئی فصلیں ہیں ۔
1۔ فضیلت علمِ حدیث ۔
2۔ جن لوگوں نےفن ِ حدیث کوپہلےجمہ کیا اورجوان کےبعد آئے۔
3۔ اصول حدیث ۔
4۔ صحیح بخاری کے شروط اورترجیح ۔
5۔ امام صاحب کے سوانح حیات ------- یہ شرح مصر اور بیروت سےطبع ہوکرشائع ہوچکی ہے۔
برصغیر پاک وہند میں صحیح بخاری کےشروح وحواشی :
جیساکہ آپ اوپر پڑھ آئے ہیں کہ صحیح بخاری کےشروح وحواشی کےسلسلہ میں علمائے کرام نےکارہائے نمایاں سرانجام دیےہیں اورمولانا عبدالسلام مبارکپوری کی تحریر کےمطابق علمائے اسلام نےکئی ایک طریقوں سےصحیح بخاری کی خدمت کی ہے۔اگر اس کا تفصیل سےجائزہ لیاجائے تویہ مضمون بہت طویل ہوجائےگا۔
برصغیر پاک وہند میں صحیح بخاری کےجوشروح اورحواشی لکھے گئےہیں ان میں جہاں تک مجھے رسائئ ہوسکی ہےان کامختصرا ً تذکرہ پیش خدمت ہے۔
1۔ فیض الباری (عربی )
علامہ سید عبدالاول جون پوری (م 967ھ )
2۔ نورالقاری (عربی )
شیخ نورالدین الاحمد آبادی ( م 1155ھ )
ان دونوں شرحوں کاذکر محی السنۃ السید مولانا نواب صدیق حسن خان قنوجی رئیس بھوپال (م 1307ھ ) نےاپنی مایۂ ناز تصنیف ’’اتحاف النبلاء ،، میں کیا ہے۔
3۔ حل صحیح بخاری یعنی نسخہ عتیقہ صحیحہ مع حل مشکلات وحواشی وجمیع نسخ (عربی)
من خزانۃ الکتب شیخ الکل شمس العلماء مولانا السید محمدنذیرحسین محدث دہلوی(م 1320 ھ )
یہ نسخہ بہت عتیق ،نہایت واضح خوشخط ہے۔مع جمیع نسخ وحل مشکلات حواشی ،ورق کلاں پر 30 ضخیم جلدوں میں ختم ہوا۔اس نسخہ کی صورت اس کی قدامت کی دلیل روشن ہے۔یہ وہ نسخہ ہےجوبڑےبڑے اساتذہ اورشیوخ کےدرس وتدریس میں رہا۔اورہرزمانہ میں بڑے بڑے افاضل نےاس پرحواشی ونکات چڑہائ۔حضرت شیخ الکل مرحوم ومغفور نےبھی اس پرحواشی لکھے ۔
4۔ حل صحیح بخاری :
مولانا احمدعلی محدث سہارن پوری ( م 1298ھ )
آج کل عربی مدارس میں جوبخاری شریف پڑھائی جاتی ہے۔اس پرمولانا احمدعلی سہارن پوری کاہی حاشیہ ہے۔یہ حاشیہ بہت علمی، تحقیقی اورمولااحمدعلی کےتبحرعلمی کاثبوت ہے۔مولانا احمدعلی نےاس حاشیہ کاایک مقدمہ بھی لکھاہے۔اس مقدمہ میں فن حدیث کےاصول کےعلاوہ صحیح بخاری کےمتعلق بہت سی مفید باتیں لکھی ہیں ۔ یہ مقدمہ تمام تر مقدمہ فتح الباری اورمقدمہ قسطلانی سےماخوذ ہے۔اوربعض مضامین اما م شاہ ولی اللہ دہلوی (م 1176ھ ) کےرسالہ ’’تراجم ابواب بخاری ،،سےبھی ماخوذ ہیں ۔
5۔ حل صحیح بخاری :
از مرزا حیرت دہلوی
متن مولانا احمدعلی سہارن پوری کارکھاہے۔لیکن صحیح بخاری کےحل میں قسطلانی اورفتح الباری سےکچھ زیادہ مددلی ہے۔صحت وصفائی کےاعتبار سےبھی اچھی ہے۔حل لغات عیلحدہ دیا ہے۔لیکن بین السطور کےحواشی نکال دیےہیں ۔اس سےحل مشکلات میں کمی ہوگئی ہے۔
6۔ عون الباری لحل ادلۃ البخاری (عربی )
محی السنۃ حضرت مولانا السید نواب صدیق حسن خان قنوجی رئیس بھوپال (م1307 ھ )
علامہ زبیدی نےالجامع الصحیح کوجوتحریر کی تھی اس کی یہ شرح ہے۔جودوجلدوں میں ہے۔ عون الباری نیل الاوطار فی شرح المنتقی الاخبار کےحاشیہ پرطبع ہوکر شائع ہوئی ہے۔
7۔ فیض الباری (عربی )
از مولانا سید محمد انورشاہ محدث کشمیری دیوبندی (م 1352 ھ )
حضرت شاہ صاحب مرحوم کےصحیح بخاری کےمتعلق افادات مولانا سید رعالم میرٹھی(م 1385 ھ ) نے ، جوآپ کےتلمیذرشید تھے،بوقت درس جمع کئے۔فیض الباری 4 جلدوں میں مصر سےطبع ہوکر شائع ہوچکی ہے۔
8۔نبراس الساری فی اطراف البخاری (عربی )
ازمولانا عبدالعزیز دیوبندی گوجرانوالا (م 1359 ھ )
اس کتاب میں مصنف نےصحیح بخاری کی احادیث کےاطراف جمع کیے ہیں ۔ایک ایک حدیث کےمتعلق بتایا ہےکہ وہ کس کس باب میں مختصر بامطول آئی ہےاورفتح الباری اورعمدۃ القاری کے 2 صفحات بھی ذکر کیےہیں ۔یہ کتاب کیتھوپرشائع ہوئی ہے۔مصنف نےخود اس کتاب کوکتابت کی ہے۔
9۔ حل صحیح بخاری (عربی )
از مولانا ابوالطیب محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی مدظلہ محشی سنن نسائی ،مدیر ہفت روزہ ’’الاعتصام ،، لاہور
مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی جماعت اہل حدیث کےممتاز عالمِ دین ہیں تعلیقات وحواشی مینں اپنا جواب نہیں رکھتے۔حیات امام ابوحنیفہ ،حیات امام احمدبن حنبل اورحیات امام ابن تیمیہ از پروفیسر ابوزہرہ سابق پروفیسر فواد یونیورسٹی مصرپرآپ کےحواشی اورتعلیقات شائع ہوچکی ہیں ..........
ان کےعلاوہ سنن نسائی پربھی آپ کےتعلیقات وحواشی شائع ہوچکےہیں ۔ان حواشی سےآپ کے تبحرعلمی کاپتہ چلتا ہے۔اب آپ صحیح بخاری پرحاشیہ لکھ رہے ہیں ۔جوکہ تقریباً نصف تک پہنچ چکا ہے۔یہ حاشیہ آپ کےتبحر علمی کاایک بہت بڑا شاہکار ہے۔اگریہ حاشیہ چھپ گیا ۔ توعلمی دنیا میں ایک سنگِ میل کےحیثیت اختیارکرےگا۔
10۔ تیسیرالقاری (فارسی)
علامہ نورالحق بن مولانا عبدالحق محدث دہلوی ( م 1073 ھ )
علامہ نورالحق نے6 جلدوں میں تیسیرالقاری کےنام سےفارسی میں صحیح بخاری کی شرح لکھی ۔اوراس شرح کومغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کےنام سےمنسوب کیا۔یہ شرح 1298 ھ میں مطبع علوی محمدحسن خاں لکھنؤ سےبحکم نواب ٹونک طبع ہوکرشائع ہوئی تھی ۔
11۔ تیسیرالباری ( اردو )
از نواب وقارنواز جنگ علامہ وحید الزمان حیدآبادی (م 1338 ھ )
اردو زبان میں صحیح بخاری کی یہ سب سےبڑی شرح ہے۔ہرحدیث کےمقابل مطلب خیز بامحاورہ ترجمہ میں مطالب کتاب کواس طرح بیان کیا گیاہےکہ ترجمہ ، ترجمہ معلوم نہیں ہوتا اور حدیث کامطلب خوب ذہن نشین ہوجاتاہے۔ساتھ ہی ہرحدیث کی شرح بھی معتبر شروح مثلاً فتح الباری ،کرمانی ،عینی اورقسطلانی وغیرہ سےمرتب کرکےلکھی گئی ہےاورمذہب مجتہدین بھی ہرمسئلہ میں بیان کردئیے گئے ہیں ۔
مولانا وحید الزمان نےشروح میں ایک مقدمہ بھی لکھا ہےجس میں سلسلہ سندامام بخاری تک دس طریقوں سےملایا ہے۔
تیسیر الباری لاہوراوردہلی سےشائع ہوئی تھی پھر نایات ہوگئی ۔1398 ھ میں امجد اکیڈیمی لاہو نےاسے دوبارہ بڑی آب وتاب سے6 جلدوں میں شائع کیا ہے۔
12۔ فضل الباری (اردو ) شرح صحیح بخاری
مولانا شبیراحمدعثمانی ( م 1369 ھ ) علامہ شبیر احمد عثمانی کےافادات ،تربیت ومراجعت مولانا قاضی عبدالرحمن فاضل دیوبند
اب تک اس کی دوجلدیں ادارہ علوم شرعیہ کراچی کےزیراہتمام شائع ہوچکی ہیں۔بہت مفید اورعلمی شرح ہے۔
13۔ نصرۃ الباری (اردو ) ترجم صحیح بخاری
مولانا عبدالاول غزنوی (م 1313 ھ )
14۔ فیض الباری ترجمہ صحیح بخاری مکمل ( اردو )
مولانا حافظ محمد ابوالحسن سیالکوٹی (م 1325 ھ )
15۔ ترجمہ صحیح بخاری (اردو )
مولانا عبدالتواب محدث ملتانی (م 1366 ھ )
16۔ نصرۃ الباری (اردو ) شرح صحیح بخاری
مولانا حافط عبدالستار دہلوی (م 1966 ھ )
یہ ایک علمی شرح ہے۔اس وقت اس کے13 پارے کراچی سےشائع ہوچکےہیں ۔باقی زیرطبع ہیں ۔
17۔ فضل الباری :
یہ شرح اردو میں ہے۔مترجم کانام معلوم نہیں ہوسکا ۔مولانا عبدالسلام مبارکپوری اس شرح کےمتعلق لکھتےہیں :
’’ صحیح بخاری کایہ ترجمہ صرف ترجمہ نہیں ہےبلکہ ایک طویل شرح ہے۔لاہور سےطبع ہوکرشائع ہوا ۔
18۔ شرح بخاری شریف ( اردو)
مولانا محمد داؤد راز (م 1402 ھ ) مدیر ماہنامہ ’’ نورالایمان ،،دہلی
مولانا محمد داؤد صاحب راز جماعت اہل حدیث کےممتاز عالم تھے،صاحب تصانیف کثیرہ تھے ۔ آپ نےشیخ الاسلام مولانا ثنا ء اللہ امرتسری مرحوم ومغفور کے44سالہ فتاویٰ کوبھی مرتب کرکے شائع کیا ۔ آپ نےبخاری شریف کاترجمہ اورشرح لکھی ہے۔اور اس کودہلی سےشائع کیا۔یہ شرح بہت علمی اورفوائد کثیرہ پرمشتمل ہے۔