عورت، پردہ اور اسلامی تعلیمات

پرو فیسر وارث میر،معرفت روز نامہ "جنگ کے نام!
اوپرآزاد عورت اور لونڈی کے احکام ستر وحجاب  میں فرق کے جو دلائل ہم نے ذکر کئے ہیں ۔ان سب میں اس  فرق کے علاوہ،آزاد عورت کے اجنبی مردوں سے چہرہ چھپانے کا ثبوت بھی واضح اور بین ہے!۔۔۔ اب ہم وہ دلائل نقل کرتے ہیں جن کا تعلق براہ راست اسی مسئلہ سے ہے ۔چنانچہ تفسیر ابن کثیر جلد 3صفحہ518،اور تفسیر جا مع البیان للطبری 33/22 طبع مصر پر ہے:
"حضرت ابن عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا "اللہ تعا لیٰ نے مومنوں کی عورتوں کو حکم دیا ہے کہ جب وہ اپنے گھروں سے کسی ضرورت کے تحت نکلیں تو چادروں سے اپنے سروں کے اوپر سے چہروں کو ڈھانپ لیں اور (صرف )ایک آنکھ کو ظاہر کر یں۔"
تفسیر جامع البیان للطبری ہی کے محولہ بالا صفحہ پر ہے۔
(تھوڑے سے اختلاف الفاظ کے ساتھ یہی بات تفسیر ابن کثیر میں بھی ہے)

"ابن سیرین کہتے ہیں،میں نے عبیدۃ (بن حارث حضرمی) سے فرمان الہٰی...

کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے (مجھےسمجھانے کی غرض سے) اپنےکپڑے سے سراور چہرے کو ڈھانپ لیا اور اپنی ایک آنکھ سے کپڑا ہٹادیا،"

اسی آیت کی تفسیر میں علامہ بیضاوی رقمطرازہیں "

(عربی)

یعنی" جب وہ کسی ضرورت  کے لیے باہر نکلیں تواپنے چہروں اور بدن کو کپڑے سے ڈھانک لیں۔"

علامہ ابو بکر الجصاص لکھتے ہیں"

(عربی)(احکام القرآن372/3طبع بیروت )

"اس آیت میں یہ دلیل ہے کہ نوجوان عورت اپنے چہرے کو اجنبی مردوں سے چھپانےکی پابند ہے!"

تفسیر ابو السعود جلد4صفحہ 423پر ہے کہ"

(عربی)

"اس آیت  کا معنیٰ یہ ہے کہ عورتیں جب کسی ضرورت کی خاطر (گھروں سے) باہر نکلیں تو اپنے چہرے اور بدن ڈھانپ لیں !"

مدینہ منورہ یونیورسٹی کے پہلے شیخ التفسیر ،علامہ محمد امین شنقیطی مرحوم اپنی مائیہ ناز تفسیر اضواء البیان کے صفحہ597/6پر اسی آیت ۔

(عربی)

"کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

(عربی)

"(مذکورہ آیت ) سے مراد یہ ہے کہ اس حکم میں چہرے کا پردہاور اجنبی مردوں سے اس کا ڈھانپنا داخل ہے۔اور عورت کے چہرے کا پردہ قرآن پر عمل کرنا ہے۔"

علاوہ ازیں سورۃ الاحزب میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

(عربی)

"(اے مومنو) ازواج رضی اللہ تعالیٰ عنہا النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جب کو ئی چیز طلب کرو تو پردے کے پیچھے سے طلب کرو!"

 یہ آیت صاف دلالت کرتی ہے۔کہ چہرے کا پردہ ضروری ہے ۔ورنہ "

(عربی)

"کی قید نہ لگائی جا تی ۔۔۔یادرہے کہ یہ وہی ازواج  رضی اللہ تعالیٰ عنہا النبی صلی اللہ علیہ وسلم  ہیں۔جنہیں قرآن مجید میں مومنوں کی مائیں کہا گیا ہے"

(عربی)

کہ"نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہا  مومنوں کی مائیں ہیں !"

اور اگر ان کے سلسلہ میں بھی یہ پا بندی ضروری ہے ۔تو عام مسلمان عورتیں اس  حکم میں بالا ولیٰ داخل ہیں ۔۔۔ چنانچہ اسی سورہ میں تھوڑا آگےچل کر آیت 59میں زواج رضی اللہ تعالیٰ عنہا  النبی صلی اللہ علیہ وسلم  اور بنات رضی اللہ تعالیٰ عنہا  النبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ ساتھ عام مومنوں کی عورتوں کو بھی پردہ کا حکم دیا گیا ہے ۔۔۔اور یہ وہی آیت ہے جس کی تفسیر میں ہم مفسرین کے متعدد اقوال نقل کر آئے ہیں یعنی"

(عربی)

پرو فیسر صاحب نے لکھا ہے کہ:

"قرآن مجید کا ایک حصہ اس کے دوسرے حصے کی خود ہی تفسیر کرتا ہے قرآن  مجید کے اکثر اجمالات کی تفصیل خود قرآن ہی میں مل جاتی ہے ۔پردے اور ستر کے مختلف قرآنی  احکام میں استعمال ہونے والے الفاظ بھی ایک دوسرے کی خود ہی توضیع کر دیتے ہیں!"

لہٰذا ان کے اسی موقف کی روشنی میں ہم ان کو تو جہ دلائیں گے کہ "

(عربی)

"کاحکم ازواج  رضی اللہ تعالیٰ عنہا النبی صلی اللہ علیہ وسلم ،نبات رضی اللہ تعالیٰ عنہا النبی صلی اللہ علیہ وسلم  اور نساء المؤمنین سب کے لیے مشترک ہے۔پھر قرآن کے اس حصہ کی تفسیر۔۔۔یااس اجمال کی تفصیل ۔۔۔خود قرآن مجید یوں بیان فرما رہا ہے کہ مومن اگر ازواج  رضی اللہ تعالیٰ عنہا النبی صلی اللہ علیہ وسلم (اپنی ماؤں سےبھی )کوئی چیز پردے کے پیچھے سے طلب کرنے کے مکلف ہیں اور جس کا لازمی نتیجہ جسم سمیت چہرے کا پردہ ہے تو عام مسلمان عورتیں از خود اس حکم میں داخل ہوکر اجنبی مردوں سے اپنے چہرے چھپانے کی پابند ٹھہرتی ہیں ۔یہیں سے

"(عربی)

"کامسئلہ بھی حل ہو جا تا ہے ۔کہ قرآن مجید کی رُوسے جب عورتیں اپنے چہروں کو اجنبی مردوں سے چھپانے کی پابند ہیں تو پھر اس استثناء۔

(عربی)

سےمراد چہرے اور ہاتھ  کیونکر ہوسکتے ہیں ؟

۔۔۔پروفیسر صاحب نے خود لکھا ہےکہ"قرآن مجید کا ایک حصہ اس کے دوسرے حصے کی خود ہی تفسیر کرتا ہے"۔۔۔لہٰذا اگر عورت  کے چہرے  کو پردے سے مستثنیٰ سمجھ لیا جا ئے ۔تو اس سے تو یہ لا زم آتا ہے کہ قرآن مجید خود ہی ایک مقام پر کوئی حکم دے کر ،دوسرے مقام پر اس کی تردید کر دیتا ہے۔جو ہمارے علاوہ پروفیسر صاحب کے نقطہ نظر سے بھی غلط ہے ۔لہٰذا صحیح بات وہی ہے جو انہوں نے بریکٹ میں لکھی ہے کہ:

("ایسی زینت ظاہر ہونے میں  کو ئی مضائقہ نہیں جو خود ظاہرہو جا ئے")

چنانچہ ایسی زینت جو خود بخود ظاہر ہو  جائے اس زینت سے بہت مختلف ہے جو دانستہ ظاہر کی جا ئے ۔۔۔بالفاظ دیگر عورتوں کو اپنی زینت کے دانستہ اظہار یعنی سرخی پوڈر سے آراستہ ہوکر  اس کی نمائش سے احتراز کرنا چاہیئے۔نہ کہ کھلے سر جیکٹیں اور  چست پتلو نیں پہن  کروہ کھیل کے میدانوں میں آوارد ہوں ،تاکہ روزنامہ "جنگ کے صفحہ اول پران کی شرمناک تصویریں چھپ کراس کی اشاعت میں "قابل قدر"اضافہ کا باعث بن سکیں !۔۔۔پروفیسرصاحب ہم نے اپنے مضمون کی قسط دوم میں جس خدشہ کا اظہارکیا تھا ۔وہ پورا ہو گیا ہے ۔اب تو شاید آپ کا کلیجہ ٹھنڈا ہوگیا ہوگا !

۔۔۔ہاں وہ زینت جو ناچار ظاہر ہوجا ئے ،مثلاًچادر یا نقاب  کا ہوا سے اڑجانا اور اس کے نتیجے میں زینت کا اظہار ہو جا نا ۔۔۔ یا ایسی زینت جس کا چھپانا ممکن ہی نہیں ہے،جیسے وہ چادر یا برقع ،جو عورت  کے جسم پر ہونے کی وجہ سے بہر حال اپنے اندر ایک کشش رکھتا ہے، اس پر مؤاخذہ نہیں ہے۔۔۔گویا قرآن مجید واضح طور پر" ظاہر  کرنے "سے روک کر" ظاہر ہونے" کے معاملے میں رخصت دے رہا ہے۔

جسے"ظاہر کرنے"کی حد تک وسعت دے دینا قرآن مجید کے بھی خلاف ہے۔پروفیسر صاحب کی بریکٹ کے بھی خلاف ،اور ان روایات کے بھی مخالف ،جن سے ثابت ہوتا ہے کہ عہد نبوی میں حکم حجاب آجانے  کے بعد عورتیں کھلے منہ نہیں پھرتی تھیں ۔چنانچہ فتح الباری 406ص3پرہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  فرماتی ہیں :

(عربی)

کہ"عورت اپنی چادر کو اپنے سر کے اوپر سے اپنے چہرے پر لٹکاتی ہے۔"ترمذی کتاب الادب   مسند احمد296ص6،ابو داؤد مع عون جلد چہارم صفحہ 109پرہے۔

(عربی)

"حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  فرماتی ہیں "میں اور حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس تھیں کہ عبد اللہ بن اُ م مکتوم  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  آئے ۔اور یہ آیات حجاب کے نزول کے بعد کی بات ہے۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا "ان سے پردہ کرو!"

۔۔۔ہم نے کہا" اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  وہ تو نابیناہیں ۔نہ ہمیں دیکھتے ہیں نہ پہچانتے ہیں ۔"آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا تم دونوں تو نابینی نہیں ۔کیا تم اسےدیکھتی نہیں ؟"

غور فرمایئے۔ مرد کے عورت کو دیکھنے کی نسبت، عورت کا مرد کو دیکھنا کم فتنے کا باعث ہے ۔۔۔جبکہ یہاں معاملہ ایک جلیل القدر نابینا صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا ہے اور دیکھنے والی بھی ازواج مطہرات  رضی اللہ تعالیٰ عنہا ،امہؑات المؤمنین ہیں چنانچہ فتنے کا کو ئی سوال نہیں ہے۔۔۔۔اس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بھی نہ صرف اس کی اجازت  نہیں دی بلکہ "

(عربی)

کے الفاظ سے حکماً انہیں نابینا صحابیسے بھی پردے کا پابند کیا ہے ۔۔۔پھر آج کل صاحبزادیاں ،جودوپٹے سے بھی بے نیاز  ہو چکی ہیں  کس شمار وقطار میں ہیں ؟

۔۔۔(عربی)

بہت سی احادیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے نکاح سے قبل،جس عورت سے نکاح کرنا ہو،اسے ایک نظر دیکھ لینے کی اجازت دی ہے۔چنانچہ صحیح ابن حبؑان ؒمیں حضرت محمدبن مسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی روایت ہے کہ "میں نے ایک عورت کو شادی کا پیغام  دیا اور اسے چھپ چھپ کر دیکھنے کی کو شش کرنے لگا ،تاآنکہ اسے اس کے باغ میں دیکھ لیا کسی نے اعتراض کیا  تو فر ما یا نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی  ہے جب اللہ تعا لیٰ کی طرف سے کسی مومن کے دل میں کسی عورت سے  شادی کا خیال آجائے تو اسے دیکھ لینے میں کو ئی حرج نہیں !"(موارد الظمان الیٰ زائد ابن حبؑانؒ ص303طبع مصر)

یہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے کہ اس وقت مسلمان عورتیں منہ چھپا کراور پردہ کر کے باہر نکلا کرتی تھیں ۔ورنہ مردوں کو شادی کے لیے عورت  کے دیکھ لینے کی خصوصی اجازت دینے کی کو ئی ضرورت نہ تھی ۔اور چہرے کا پردہ ہو نے کی صورت میں وہ اکثر نظر آتی رہتیں ۔۔۔لیکن یہ چہرے کا پردہ ہی تھا کہ محمد بن مسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو مذکورہ عورت کے دیکھنے کے لیے یوں محنت کرنا پڑی!

حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے  ہیں نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے فرمایا :

(عربی)

(احمد،ترمذی ،ابو داؤد،دارمی ۔بحوالہ مشکوٰۃ13ص2طبع ومشق)

"اے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ،اچانک نظر پڑ جا نے کے بعد دوسری مرتبہ نہ دیکھنا ،ہاں پہلی نظر معا ف ہے!"

اگر چہرہ پردے میں داخل ہی نہیں ،تو صرف پہلی اچانک نظر معا ف ہونا کیا معنی رکھتا ہے [1] ظاہر ہے کہ اس حدیث میں کبھی چہرہ دیکھنے  سے ہی منع کیا جا رہا ہے ۔۔۔یا کیا پروفیسر صاحب کے خیال میں عورت کو لباس پہننے ہی کی ممانعت ہے؟

بخاری اور مسلم کی ایک حدیث میں ہے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :"آدمی اپنے تمام حواس سے زنا کرتا ہے ،دیکھنا آنکھوں کا زنا ہے ۔لگاوٹ کی باتیں کرنا زبان کا زنا ہے،آواز سے لذت لینا کا نوں کار زنا ہے ہاتھ لگانا اور ناجائز مقصد کے لیے چلنا ہاتھ پاؤں کار زنا۔۔۔ بدکاری کی یہ ساری تمہیدیں جب پوری ہو چکتی ہیں تب شرمگا ہیں ،یاتو اس کی تکمیل کر دیتی ہیں ،یاتکمیل کرنے سے رہ جاتی  ہیں "

(صحیح بخاری 67ص8طبع مصر)

اس حدیث سے چہرے کا پردہ ثابت ہو نے کے علاوہ ۔۔۔دیدہ بازی غیر مردوں سے گپ شپ لڑانا عورت کی نغمہ سرائی اور مردوزنکا آزاد نہ اختلاط

(بالفاظ دیگر مردوں  کے "دوش بدوش "کام کرنا)۔۔۔سب تمہید زنا کے ذیل میں آتے ہیں ۔۔۔(عربی)

حضرت جریرین عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بجلی کہتے ہیں! کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا،"اچانک نگاہ پڑ جائے تو کیا کروں؟"۔۔۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،فوراً نگاہ پھیر لو یا نیچی کرلو!(مسلم ۔احمد۔ترمذی۔ابوداؤد۔نسائی بحوالہ المنتقیٰ مصری ج2ص499۔)

بدیہی امر ہے کہ مرد کی نگاہ سامنے عورت کے چہرے پر ہی پڑے گی(بشرط یہ کہ پروفیسر صاحب جلباب اوڑھنے کے واقعی قائل ہوں) کیونکہ چہرے کا پردہ نہ ہونے کی صورت میں ایک چہرہ ہی تو ننگا ہوگا،جسے دیکھنے سے منع کیا جارہا ہے!

سنن ابی داؤد کتاب الجہاد میں ہے۔قیس بن شماس کہتے ہیں کہ ام خلاد نقاب پہن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے متقول بیٹے کے متعلق پوچھنے کے لئے آئیں۔تب بعض صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین  نے حیرت زدہ ہوکر ان سے  فرمایا:

(عربی)

کہ"آ پ نقاب پہن کر اپنے بیٹے کے بارے میں  پوچھتی ہیں (حالانکہ بیٹے کی ایسی خبر سن کرتو ایک ماں کو تن بدن کا ہوش نہیں رہتا،اور آپ اس اطمینان کے ساتھ باپردہ ہوکر آئی ہیں؟)"

تو انہوں نے جواب دیا:

(عربی)

کہ"میں نے اپنا بیٹا قربان کیا ہے اپنی حیا تو قربان نہیں کی!"

اس حدیث کی سند میں اگرچہ کچھ کلام ہے تاہم اسے دیگر صحیح احادیث کی تائید کےطور پیش کیا جاسکتا ہے۔چنانچہ صحیحین میں واقعہ افک کے سلسلہ میں حضرت  عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ:

"جنگل سے واپس آکر جب میں نے دیکھا کہ قافلہ چلا گیا ہے۔تو میں بیٹھ گئی اور نیند کا ایسا غلبہ ہوا کہ وہیں پڑ کرسوگئی۔صبح ہوئی تو صفوان بن معطل سلمیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ادھر سے گزرے اوردُور سے دیکھ کر ادھر آگئے:

(عربی)

"چنانچہ وہ دیکھتے ہیں مجھے پہچان گئے کہ نزول حجاب سے قبل مجھے دیکھ چکے تھے۔اس پر انہوں نے(عربی) پڑھا۔اس(آواز) سےمیری آنکھ کھل گئی۔تو میں نے اپنی چادر سے اپنا چہرہ ڈھانک لیا۔"

بخاری اور مسلم کی (متفق علیہ) یہ حدیث مسند احمد تفسیر ابن جریر اورسیرت ابن ہشام میں بھی موجود ہے۔جسے دیکھ لینے کے بعد (خط کشیدہ الفاظ مزید قابل توجہ ہیں)کسی بھی مسلمان کے لئے چون چرا کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔مزید یہ دیکھئے کہ قرآن مجید میں(عربی) کا حکم ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم نبات النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور نساء المومنین سب کے لئے ہے جب کہ اس حدیث نے جلباب کی تعریف اور اس کا مصرف (بدن کے علاوہ۔چہرہ) بھی بیان کردیا ہے۔چنانچہ (عربی) (میں نےاپنے جلباب سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا) کے الفاظ انتہائی واضح اورصریح ہیں!۔۔۔اب یہ پروفیسر صاحب ہی کا حوصلہ ہے کہ وہ بڑے دھڑلے سے یہ لکھتے ہیں کہ:

"جلباب نزدیک کرنے کا حکم چہرہ چھپانے کا حکم نہیں ہے۔اور اسلام نے عورتوں کو اجازت دی ہے کہ بوقت ضرورت چہرہ کھول کرباہر جائیں آئیں!"

لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ:

"سلف کا طریقہ تفسیر یہ رہا ہے کہ قرآن سے مشورہ کرنے کے بعد بھی کوئی مشکل باقی رہ جاتی تو اس کا حل رسول صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے اقوال وافعال سے تلاش کرتے۔تیسرے مرحلہ پر  صحابہ کرام  رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے آثار واقوال سے  رہنمائی لیتے۔کیونکہ یہی لوگ قرآن مجید کے پہلے مخاطب تھے۔اور قرآن کے رموز حقائق بخوبی سمجھتے تھے۔"

چنانچہ ہم نے سلف کی تفسیروں کے اقتباسات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور صحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے آثار واقوال باحوالہ نقل کردیئے ہیں۔ان کو پڑھ کرپروفیسرصاحب خود بتائیں کہ جلباب نزدیک کرنے کا حکم چہرہ چھپانے کا حکم ہے یا نہیں؟۔۔۔اب اگر ان دلائل کا انہیں علم نہیں تھا تو یہ دین سے ناواقفیت ہے۔اس صورت میں انہیں یہ مسائل چھیڑنے ہی نہیں چاہییں تھے۔۔۔اوراگر علم تھا اس کے باوجود یہ سب کچھ لکھا تو یہ کتاب وسنت سے بغاوت ہے!۔۔۔جہاں تک ان کی تحریروں کا تعلق ہے تو ان سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ دونوں چیزیں ان کے ماتھے کا جھومر ہوکر رہی گئی ہیں۔چنانچہ انہوں نے لکھا ہے کہ:

"قرآن وحدیث کی من مانی یا جامد تعبیرات کا سہارا لے کر اورخدا کے غضب کے ٹوٹ پڑنے کا خوف دلا کر پڑھنے لکھنے والے لوگوں کو چپ کرانے کا دور لدگیا ہے مسلمان آزاد ہوئے تو اقبال کے خواب کے مطابق اسلام اورقرآن بھی آزاد ہوگیاہے۔اور اب اسلام کوسمجھنے کے لئے اس کے معاشی ومعاشرتی فلسفے کو سمجھنے کی کوشش کرنی ہوگی!"

۔۔۔جہاں تک جامد تعبیرات کا تعلق ہے۔تو نصوص کی موجودگی میں تعبیرات کی اجازت ہی نہیں۔اور اگر نصوص کو جامد ہونے سے مطعون کیاجائے تو من مانی اسی کا نام ہے۔ اور اپنے ایمان سے کہیے پروفیسر صاحب آپ نے قرآن وحدیث کی من مانی تعبیرات کی ہیں یا نہیں؟ایک تو اس لئے کہ نصوص پر آپ نے"جامد  تعبیرات"کا طعن کیا۔اور د وسرے اس لئے کہ آپ بات توکرتے ہیں کتاب وسنت کی روشنی میں عورت کے چہرے کے پردے کی لیکن سفارش کرتے ہیں عورت کے کھیل کے میدان میں اترکر ہنر آزمانے کی!۔۔۔دلیل یہ نہیں کہ کتا ب وسنت کے فلاں مقام پر یہ اجازت موجود ہے۔بلکہ دلیل یہ ہے کہ"آخر چین کی کھلاڑی خواتین کے لباس پر کسی کو اعتراض ہوسکتا ہے۔؟"۔۔۔سو وہ آپ ہی نے نہیں"اخبارجنگ" کے رنگین صفحہ پر ملک بھر کے لوگوں نے دیکھ لیا ہے!۔۔۔پروفیسر صاحب سچ بتایئے اس لباس  پر آپ کو واقعی کوئی اعتراض ہے؟۔۔۔جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو بخدا یہ لباس تو ہم آپ کی بہن بیٹی کے لئے بھی گوارا نہیں کرسکتے کیونکہ ہمارے لئے وہ بھی بیٹی یا بہن کا درجہ رکھتی ہے!۔۔۔اور اگر یہ آپ کے نزدیک بھی شرافت کے منہ پرتھپڑ ہے۔تو دیگر مسلمانوں کو آپ نے بے غیرت اوردیوث کیوں تصورکرلیا ہے۔جن کی بہنوں اور بیٹیوں کے لئے آپ نے"اصولی باتوں" کی آڑ میں یہ سفارش کی ہے؟۔۔۔آپ کو اگر خدا کے غضب  کے ٹوٹ پڑنے کا خوف نہیں ہے۔تو بڑے شوق سے لیکن دوسروں کو تو ا س سے معاف ہی رکھیں!جو  ابھی مادر پدر آزاد نہیں ہوئے ان کو دین اسلام کا کچھ پابند تو رہنے دیں۔نیز آپ کے نزدیک کیا اقبال کا خواب آزادی"شتر بے مہار" ہونے کادوسرا نام تھا؟۔۔۔جودنیا سے چلے گئے خدارا ان کوتو گالی نہ دیں!۔۔۔ہم تو جس اقبال کو جانتے ہیں وہ یہ کہا کرتا تھا کہ:

بمصطفےٰؐ برساں خویش  راکہ دین ہمہ اوست

گرباونہ رسید ی تمام بولہبی است!

جبکہ آپ کے اسلام کو جس صرف معاشی اور معاشرتی فلسفے کی روشنی میں سمجھا جاسکتا ہے اس دین سے کوئی نسبت ہی نہیں ہے!

۔۔۔یہ تو بات تھی بغاوت کی اب ہم چاہتے ہیں کہ علم وحکمت کے جوخزانے آپ نے لٹائے ہیں ذرا ان کا بھی ایک نظر جائزہ لے لیاجائے۔آپ نے لکھا ہےکہ:

1۔"جب عورت نماز میں ہاتھ اورچہرہ کھلا رکھے گی۔اور باقی بدنڈھانک لے گی۔تو معلوم ہوا کے ہاتھ اورچہرہ پردے میں شامل ہیں ۔۔۔پھر جوچیز پردہمیں شامل نہیں ۔ان کا کھولنا حرام کس طرح ہو سکتا ہے؟"

۔۔۔بہت خوب ۔یعنی پروفیسر صاحب کے نزدیک عورت،یا تو چین کی کھلاڑی خواتین کے لباس سے سند لے اور یا پھر نماز بھی برقع اور نقاب پہن کر پڑھے !۔۔۔پروفیسر صاحب،آپ کو کو ن یہ بتا ئے کہ نماز عورت ،بازار یا دفتر میں نہیں پڑھتی ،اپنے گھر میں پڑھتی ہے مسجد میں ایسی جگہ جہاں پردے کا خصوصی  اہتمام ہوتا ہے نماز کے لیے ستر ڈھانکنا ضروری ہوتا ہے جبکہ حجاب کی ضرورت عورت کو گھرسے باہر ،یا نامحرموں کی نگاہوں سے محفوظ رہنے کے لیے پیش آتی ہے ۔۔۔کیا آپ کو ستر اور حجاب کا فرق بھی معلوم نہیں ؟۔۔۔"پڑھنے لکھنے والےلو گوں کو چپ کرانے کا دور (توخیر)لد گیا ہے۔"اس لیے کہ وہ اپنے "کپیوٹر عہند کی خوش  فہمیوں میں مبتلا کسی کی سنتے ہی نہیں اور کسی کی زبان کو ن پکڑ سکتا ہے ؟مگر یہ "پڑھنے لکھنے والے"کچھ تو سوچ کر بات کریں ۔۔۔چند موٹی موٹی باتیں ہم آپ کو بتا ئے دیتے ہیں ۔شاید آپ کی سمجھ میں آجا ئیں کہ ستر اور حجا ب میں بہت دُور کا فرق ہے۔ چنانچہ ستر ڈھا نکناعورت اور مردوں پر فرض ہے جبکہ حجا ب مرد کے لیے نہیں ،صرف عورت کے لیے ہے۔۔۔ ستر مرد صرف اپنی بیوی کے سامنے ۔اور عورت صرف اپنے شوہر کے سامنے کھول سکتی ہے ۔جبکہ حجاب کا تعلق عورت کے گھر سے باہر نکلنے  یا ان لو گو ں کے سامنے آنے سے ہے جن سے عورت کے غیر منکوحہ ہو نے کی صورت میں اس کا نکا ح جا ئز ہے۔۔۔ ہاں جن سے نکاح بہر حال  جا ئز نہیں اور جنہیں قرآن مجید نے گن کر بتلا دیا ہے ان کے سا منے  حجاب کی ضرورت نہیں صرف ستر ڈھا نکنا ضروری ہے لہٰذا عورت ،گھر میں ان لوگوں کے سامنے جب نماز پڑھے گی یا مسجد میں باپردہ جگہ پر ،تو اسے چہرہ اور ہاتھ چھپانے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی نماز کے اس مسئلہ سے حجاب  پر استدلال کیا جا سکتا ہے!۔۔۔واضح رہے کہ پردہ اردو لفظ ہے جو ستر اور حضاب دونوں پر بولا جا سکتا ہے۔لیکن پروفیسر صاحب نے نمازکے ضمن میں لفظ پر وہ ببول کر چو نکہ ستر اور حجاب کو خلط ملط کر دیا ہے اور اسی لیے ٹھوکرکھائی ہے۔اس لیے ہم نے ستر اور حجاب کا فرق بتلانے کے ساتھ ساتھ اصل صورت حال بھی ان کے سامنےواضح کردی ہے۔

 2۔پروفیسر صاحب نے لکھا ہے:

"رسول اللہﷺنے حج کے لیے احرام باندھنے والی عورت کو دستانے اور نقاب پہننے کی ممانعت فرمادی ۔اگر عورت کا چہرہ اور اس کے ہاتھواقعیستر کے حکم میں داخل ہوتے تو رسول اللہ ﷺ کبھی احرام کی حالت میں ان کو سلےہوئے کپڑے سے ڈھانکنا حرام قرار نہ دیتے !"

پروفیسر صاحب ،کاش آپ اس حدیث پر معمولی سا غور فر ما لیتے تو بات آپ کی سمجھ میں آجا تی ۔۔۔اور وہ یہ کہ ممانعت کی یہ ضرورت آخر لیوں پیش آئی ؟اسی لیے ناکہ حکم حجاب آجا نے کے بعد مسلمان عورتوں نے نقاب پہننا اپنا معمول بنا لیا تھا ؟۔۔۔ورنہ اگر آپ کا مذکورہ بالا خیال درست ہوتا کہ" جلباب نزدیک کرنے کا حکم چہرہ چھپانے کا حکم نہیں ہے۔"تو کو ن نقاب پہنتا اور کون منع کرتا؟۔۔۔یہ حدیث تو بجا ئے خود اس بات کی دلیل ہے کہ عورت کے لیے نقاب پہنناضروری ہے۔۔۔ہاں اگر رسول اللہﷺ نے احرام کی مخصوص حالت میں اس سے منع فر ما یا ہے تو آپ کو اس پر اعتراض کیوں ہے ؟۔۔۔آپ نے "اجتہاد"کا آسمان سر پر اٹھا  رکھا ہے تو یہ آسان سی بات بھی سمجھ جا یئے کہ عام حالات میں عورت اجنبی مردوں سے چہرہ چھپانے کی پابند ہے لیکن احرام کی حالت میں پابند نہیں لہٰذا اس مخصوص حالت کو عام حالات پر قیاس نہیں کیا جا سکتا ۔۔۔چنانچہ روائع البیان جلد دوم384صپر ہے:

(عربی)

کہ"یہ اور اس جیسے مشہور مفسرین کے بہت سے اقوال اس بات پر واضح دلیل ہیں کہ عورت کے لیے اجنبی مردوں کے سامنے چہرہ چھپانا اور اس کا نہ کھولنا واجب ہے ہاں البتہ پیغام نکاح  اور احرام حج کی حالت میں چہرہ کھلا رکھا جا سکتا ہے، کیو نکہ یہ عبادت کا وقت ہو تا ہے جس میں فتنہ کا ڈر نہیں ہے لہٰذا اس حالت پر قیاس کر کے یہ نہیں کہنا چاہیئے کہ دیگر اوقات میں بھی چہرہ کھلا رکھنا جائز ہے جیسا کہ آج کل بعض جا ہل لو گ کہتے ہیں ۔ کیونکہ یہ ایسے لو گوں کا کلام ہے جو شریعت اسلام کو نہیں سمجھتے ۔"

اسی روائع البیان کے صفحہ154ص2پر ہے کہ:

(عربی)

"صحیح یہی ہے کہ عورت کا سارا بدن ہی عورت ہے ۔اور شوافع اور حنابلہ کا یہی مسلک ہے بلکہ امام احمدؒ تو فرماتے ہیں ۔کہ عورت کے ناخن بھی پردے میں داخل ہیں۔

المغنی ابن قدامہ ج6ص559 پر ہے کہ:

(عربی)

"امام احمد بن حنبل ؒ فرماتے ہیں"آدمی اپنی مطلقہ کے ساتھ کھانا نہ کھائے کیونکہ وہ اس کے لئے اجنبی بن چکا ہوتا ہے۔اس کے لئے جائز نہیں کہ ا س کی طرف دیکھے۔۔۔وہ کیسے اس کے ساتھ کھا سکتا ہے جبکہ اس کی ہتھیلیوں پر اس کی نظر پڑے گی ،جو اس کے لئے حلال نہیں ہے؟"

۔۔۔پروفیسر صاحب آپ تو کہتے تھے کہ:

"ائمہ کا اس پر اتفاق ہے کہ چہرہ اورہاتھ وہ اعضاء ہیں جن کو اس آیت(عربی) میں مستثنیٰ کیا گیا ہے!"

چنانچہ اس"اتفاق" کی ایک جھلک تو آپ نے ملاحظہ فرمالی،کہ شوافع کے نزدیک عورت کا پورا بدن پردہ میں داخل ہے۔اور امام احمد بن حنبلؒ تو اپنی مطلقہ کے ساتھ اس کے سابقہ شوہر کو بھی کھانا کھانے کی اجازت نہیں دیتے مبادا اس کی نظر اس کی ہتھیلیوں پر پڑے جو اس کے لیے جائز نہیں ہے حتیٰ کہ ان کے نزدیک عورت اپنے ناخن بھی اجنبی مردوں سے چھپانے کی پابند ہے۔قارئین کرام ہم زرا دور نکل گئے بات ہوریہ تھی حالت احرام  میں عورت کے نقاب اور دستانے  پہننے کی!۔۔۔سو اس مخصوص حالت میں وہ چہرہ اورہاتھ چھپانے کی پابند نہیں ہے لیکن صحابیات   رضوان اللہ عنھما اجمعین  کو دیکھئے کہ وہ اس پابندی نہ ہونے کے باوجود اس سلسلہ میں احتیاط فرماتی تھیں۔چنانچہ مسند احمد۔بیہقی۔ابو داؤد۔ابن ماجہ اور ابن خزیمہ (بحوالہ حاشیہ منتقیٰ ابن الجارود ص169 طبع مصر) میں روایت ہے کہ:

(عربی)

"ام المومنین حضرت عائشہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   فرماتی ہیں۔ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ک ہمراہ حالت احرام میں تھیں۔جب لوگوں کے قافلے  ہمارے قریب سے گزرتے تو ہم اپنی چادریں سروں کے اوپر سے اپنے چہروں پر ڈال لیتیں۔اور  جب لوگ گزر جاتے تو چہرے کھول لیتیں!"

3۔پروفیسر صاحب نے اپنے مؤ قف کے اثبات میں ۔۔۔(جو نامعلوم کیا ہے؟ کیونکہ وہ کتاب وسنت سے بھی استدلال کرتے ہیں اور مغربیت سے بھی سند لاتے اور اس کاپرچار کرتے ہیں۔پھر مغربیت ہی سے "سبارالحذر" کی صدائیں بھی بلند کرتے ہیں) محلیٰ بن حزم کے حوالے سے نسائی کی ایک روایت ذکر کی ہے کہ"حجۃ الوداع میں قبیلہ خشعم کی ایک عورت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مسئلہ پوچھنے کے لئے حاضر ہوئی۔اس وقت  فضل بن عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھے۔عورت خوبصورت تھی ۔فضل عورت کو تکنے لگے اور عورت فضل کو دیکھنے لگی۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل کام منہ دوسری طرف کردیا۔"

جس سے پروفیسر صاحب نے استدلال کیا ہے کہ:

"گویا آیت حجاب نازل ہونے کے بعد بھی مسلمان  عور تیں کھلے چہرے کے ساتھ زندگی کی جدوجہد میں حصہ لیتی تھی۔"

معاف فرمائیے گا پروفیسر صاحب آپ نے خود بتایا ہے کہ یہ واقعہ حجۃ الوداع کا ہے،۔یہ حدیث صحیحین میں بھی موجود ہے اور آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ وہ عورت اس وقت حالت احرام میں تھی۔زندگی کی عام جدوجہد میں حصہ نہیں لے رہی تھی عبادت میں مصروف تھی ۔لہذا چہرہ چھپانے کی مکلف نہ تھی۔یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل بن عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا چہرہ دوسری طرف کردیا۔کیونکہ وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھنے لگے تھے۔اور کیا آپ کو معلوم ہے پروفیسر صاحب کہ دیکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے آنکھیں ہی دی ہیں جو چہرے پر ہوتی ہیں!'آپ نے یہ بھی لکھا ہے کہ عورت خوبصورت تھی۔"لہذا یہ بھی چہرے ہی کا معاملہ ہے۔چنانچہ ایک دوسرے کاچہرہ دیکھتے رہنا فتنہ کا باعث بن سکتا تھا۔عورت چونکہ محرمہ تھی۔اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا منہ دوسری طرف  پھیر دیا!۔۔۔افسوس کہ آپ نے سارا واقعہ درج کیا مگر یہ سبق حاصل نہ کیا کہ فتنے کا بڑا محرک عورت کا چہرہ ہے ہاں اس کے بجائے یہ لکھا کہ:

"انسانی فطرت کے اظہار کے مختلف طریقوں کا غیر جذباتی تجزیہ یہی بتاتا ہے کہ جنسی جذبات کے بھڑکانے میں چہرہ طاقتور محرک نہیں ہے!"

۔۔۔ایک مرتبہ پھر معذرت پروفیسر صاحب ہمیں آپ کے جذباتی یا غیر جذباتی تجزیوں کی کوئی ضرورت نہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل ہمیں اس کی نسبت سے بہت زیادہ عزیز ہے۔بہت ہی زیادہ۔۔۔فاللہ الحمد!

4۔پروفیسر صاحب نے حضرت عائشہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کی یہ  روایت نقل کی ہے کہ:

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسماء بنت ابی بکر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو مخاطب کرتے ہوئے انہیں اپنے چہرے اور ہاتھوں کے سوابدن کے دوسرے حصوں کو ستر تصور کرنے کی ہدایت فرمائی!"

۔۔۔المنتقیٰ ج2 ص500) اور سنن ابی داؤد کی یہ حدیث ضعیف ہے۔اور اس میں چار علتییں ہیں:

الف۔خالد بن دریک نے یہ حدیث حضرت عائشہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے بیان کی ہے جبکہ خالد بن دریک کا سماع حضرت عائشہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے ثابت نہیں ہے۔

ب۔اس کی سند میں سعید بن بشیر ابو عبدالرحمان البصری مولیٰ بن النظر ہے جو ضعیف ہے اور اس کی روایت قابل احتجاج نہیں۔

ج۔سند میں قتادہ ہے جو مدلس ہے اور روایت "عن" سے کی ہے۔۔۔مدلس کا "عنعنۃ" غیر مقبول ہے۔

د۔ابو احمد جرجانی فرماتے ہیں میرے علم کے مطابق اس حدیث کو قتادہ سے صرف سعید بن بشیر نے روایت کیا ہے لہذا غریب ہے۔

مزید یہ کہ امام ابو داؤدؒ نے یہ روایت نقل کرنے کے بعد خود ہی اس پر جرح کی ہے۔(ملاحظہ ہوسنن ابی داؤد ج2ص183)۔۔۔پس یہ حدیث ناقابل استدلال ہے۔

5۔پروفیسر صاحب نے سبیعہ اسلمیہ کا واقعہ درج کیا ہے کہ:

"وہ حاملہ تھیں ان کے شوہر فوت ہوگئے۔ابو سنابل بن بعکک ان کے  گھر گئے اور ا نہیں بناؤ سنگھار میں دیکھ کر کہا کہ تو چار ماہ دس دن گزرنے سے پہلے ہی نکاح کاارادہ رکھتی ہے۔۔۔(پروفسیر صاحب لکھتے ہیں):"اس واقعہ سے بھی پتہ چلتا ہے کہ عہد  رسالت کا پردہ آج کےمروجہ برقع سے مختلف تھا۔"

۔۔۔پروفیسر صاحب نےیہاں بھی آدھی بات لکھی ہے اور کیوں نہ ہو نہ اصل حدیث ان کے سامنے تھی نہ اصل واقعہ!۔۔۔معاملہ در حقیقت یہ ہے کہ ابو سنابل بن بعکک نے سبیعہ اسلمیہ کو وضع حمل کے بعد نکاح کا پیغام دیا تھا(ملاحظہ ہو عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری جلد20 ص304)اور مسئلہ یہ ہے کہ حاملہ کی عدت وضع حمل سے پوری ہوجاتی ہے۔ خواہ وہ چار ماہ دس دن سے کم ہو۔اور ہم ذکر کر آئے ہیں کہ جوشخص کسی عور ت سے نکاح کرنے میں رغبت رکھتاہو اسے دیکھ سکتا ہے شرعا کوئی منع نہیں!۔۔۔لہذا پروفیسر صاحب کا اس حدیث سے پردہ اور مروجہ برقع وغیرہ پر استدلال باطل ہے!۔۔۔واضح رہے کہ یہ حدیث محمد بن مسلمہ ؒ کی مذکورہ بالا روایت کے معارض نہیں  چھپ کر دیکھ لے یا بتا کر دونوں طرح جائز ہے۔

۔۔۔رہی بات بناؤ سنگھار کی تو روایات میں صراحت موجود ہے کہ یہ بناؤ سنگھار اسی غرض سے تھا۔

6۔پروفیسر صاحب نے لکھا ہے:

"حضرت اسماء بنت ابی بکر  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کے ایک واقعہ(بخاری) سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عورتیں نقاب یا برقع پہنے بغیر کام کاج کرتی تھیں۔"

۔۔۔پروفیسر صاحب آپ"اجتہاد" کررہے ہیں یاتحریک استقلال کی غیر مستقل مزاجی پر مضمون لکھ رہے ہیں؟جس کے لئے"جیسی روح ویسے فرشتے" ہونا کافی ہے۔۔۔کوئی بات تو باحوالہ لکھی ہوتی،صحیح بخاری میں یہ روایت ہمیں نہیں ملی!

7۔اسی انداز سے حضرت اسماء بنت ابی بکر  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   ہی کا ایک اورواقعہ پروفیسر صاحب نے درج کیا ہےکہ:

"ان کے خاوند کی مالی حالت زیادہ اچھی نہیں تھی۔اور وہ اپنے خاوند زبیر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی زمین کے اس ٹکڑے میں سے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دے رکھا تھا اپنے سر پر گٹھلیوں کی گٹھڑی اٹھا کر لایا کرتی تھیں۔الخ!(ملخصاً)

۔۔۔باپردہ رہ کر وہ یہ کام کرسکتی تھیں۔اور پورے واقعہ میں کہیں یہ مذکور نہیں کہ وہ باپردہ نہ ہوتی تھیں۔اس حدیث کو پردہ نہ کرنے کی دلیل کے طور پر ذکر کرنا ہماری سمجھ میں توآیا نہیں۔شاید  پروفیسر صاحب کچھ روشنی ڈال سکیں۔حوالہ ہم آپ کو بتائے دیتے ہیں۔یہ واقعہ صحیح بخاری کتاب النکاح باب الغیر میں مذکور ہے۔اب اس میں ایسے الفاظ تلاش کرکے مطلع فرمانا  پروفیسر صاحب کا کام ہے کہ وہ با پردہ نہ رہ کر یہ کام کرتی تھیں۔ہم منتطر رہیں گے!

8۔پروفیسر صاحب نے ایک اور واقعہ لکھا ہے کہ:

"ہم میں سے ایک عورت تھی جو اپنے کھیت کی نالیوں میں چقندر بوتی تھی۔جمعہ کے دن چقندر کی جڑیں نکال کر انہیں ہنڈیا میں ڈال کر پکاتی تھی اور اس میں مٹھی بھر جو کا آٹا پیس کر ڈال دیتی تھی ۔۔۔ہم ہر جمعہ کی نماز کے بعد اس کو سلام کرتے وہ یہ کھانا ہمارے سامنے لاتی اور ہم چٹ کرجاتے۔"

۔۔۔اس حدیث میں یہ بھی کہاں مذکور ہے کہ وہ عورت صحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین  سے پردہ نہ کرتی تھی۔پردہ کرکے بھی یہ کھانا کھلایا جاسکتا ہے۔اگر میر صاحب کا اس  واقعہ سے استدلال درست ہے تو ایسے الفاظ  پیش فرمائیں جن میں یہ صراحت ہوکہ وہ عورت صحابہ کرام  رضوان اللہ عنھم اجمعین  سے پردہ نہ کرتی تھی۔ورنہ پردہ نہ کرنے کے دلائل میں یہ واقعہ بھی بے محل ہوگا۔

امام بخاری ؒ نے اس واقعہ کو(عربی) (جب جمعہ کی نماز ہوچکے تو زمین میں (کام کاج وغیرہ) کے لئے پھیل جاؤ) کے تحت ذکر کیا ہے۔چنانچہ صحیح بخاری کوسمجھنے میں اس کے ابواب کلید کی حیثیت رکھتے ہیں۔معلوم ہوا کہ امام صاحب کا اس حدیث کو صحیح بخاری میں درج کرنے سے مقصد بہت مختلف ہے۔جبکہ شارح صحیح بخاری صاحب عمدۃ القاری نے اس حدیث سے عورتوں کو سلام کہنے کی اجازت دعوت قبول کرنے خواہ وہ حقیر ہی کیوں نہ ہو۔اور قناعت صحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین  نیز دنیا سے ان کی بے رغبتی پر استدلال کیا ہے(ملاحظہ ہو عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری جلد 6 ص252) ۔۔۔جبکہ میر صاحب  پورے دین اسلام ہی کو معاشی فلسفے کی  روشنی میں سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں!۔

9۔میر صاحب نے ایک زبردست لطیفہ ہمیں سنایا ہے۔۔۔ڈاکٹر حمیداللہ کے حوالے سے آپ لکھتے ہیں:

"حضرت ام ورقہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   ایک انصاری عورت تھیں۔جو بہت پہلے ایمان لائیں۔۔۔جنگ بدر(2ھ ) میں ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے سے روانہ ہوئے تو انہوں نے اپنی خدمات پیش کیں کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلیں۔میں اسلام کے دشمنوں سے جنگ کرنا چاہتی ہوں۔ان کے متعلق ایک اور روایت ہے جو اس سے بھی زیادہ علمی اور عملی دشواریاں پیدا کرے گی۔وہ یہ کہ حضرت ام ورقہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسجد کا امام مامور فرمایا تھا۔جیسا کہ سنن ابی داؤد مسند احمد بن حنبلؒ میں ہے۔اور یہ بھی کہ ان کے پیچھے مرد بھی نماز پڑھتے تھے۔

اور یہ کہ ان کا موذن ایک مرد تھا۔ظاہر ہے کہ مؤذن بھی بطور مقتدی ان کے  پیچھے نماز پڑھتا ہوگا۔یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ شاید ابتدائے اسلام کی بات ہو اور بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو منسوخ کردیا ہو۔ لیکن اس کے برعکس یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت ام ورقہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے زمانے تک زندہ رہیں اور اپنے فرائض انجام دیتی رہیں۔"

۔۔۔پروفیسر صاحب دین اسلام تو بہت آسان ہے جو کتاب وسنت سے عبارت ہے۔لہذا روایات ہی اگر علمی اور عملی دشواریاں پیدا کرنے لگیں تو یہ اُمت بے چاری کیا کرے گی؟۔۔۔ہاں یہ تسلیم کیجئے کہ دشواریوں کو آپ نے خود دعوت دی ہے روایت کے الفاظ غلط نقل کرکے آپ نے اپنے تئیں مصیبت میں ڈال لیا ہے۔اندھیرے میں تیر چلانے اور عقلی گھوڑے دوڑانے کی نسبت کہیں یہ آسان بات نہ تھی کہ آپ کسی عالم دین سے رجوع فرماتے اور وہ آپ کو اصل بات بتلادیتے تاکہ سبکی بھی نہ ہوتی!۔۔۔

پروفیسرصاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام ورقہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کو مسجد میں مردوں کا امام نہ بنایا تھا ۔بلکہ ان کے اپنے گھر میں انہیں عورتوں اور بچوں کی امامت کے لئے فرمایا تھا۔آپ کو تسلی طبع کی خاطر ہم پوری حدیث نقل کئے دیتے ہیں:

(عربی)

"حضرت ام ورقہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر کا ارادہ فرمایا تو میں نے عرض کی "مجھے بھی اجازت دیجئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم،کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ اس غزوے میں شرکت کی سعادت حاصل کروں۔میں بیماروں کی تیمارداری کروں گی۔شاید کہ اللہ عزوجل مجھے شہادت کے درجے پر فائز فرمائیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اپنے گھر میں ٹکی رہو۔بے شک اللہ تعالیٰ تمھیں شہادت عطا فرمائیں گے۔"چنانچہ اس وقت سے اس کا نام شہیدہ مشہور ہوگیا راوی کا بیان ہے کہ ام ورقہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   قرآن مجید پڑھ چکی تھیں۔انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی کہ وہ اپنے گھر میں ایک مؤذن رکھ لیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےاجازت مرحمت فرمائی۔حضرت ام ورقہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے اپنے غلام اور لونڈی کو مدبر بنا لیا تھا۔ یعنی ان سے کہہ دیا تھا کہ"میری موت کے بعد تم دونوں آزاد ہو")ان دونوں نے(اپنی جلد رہائی کی خاطر) رات کے وقت ام ورقہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کاچادر سے گلا گھونٹ دیا جس سے وہ مرگئیں اور انہوں نے راہ فرار اختیار کی جب صبح ہوئی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے تفتیش کرکے ان کو گرفتار کیا اور د ونوں کو سولی پرلٹکادیا۔چنانچہ مدینہ طیبہ میں سب سے پہلے پھانسی دیئے جانے والے یہ دونوں تھے۔"(گلا گھونٹنے کا قصاص پھانسی ہی ہے)

"ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام ورقہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کے گھر تشریف لے جایا کرتے تھے۔اور آپ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے ان کے لئے ایک مؤذن مقرر فرما دیاتھا۔جو ان کے لئے اذان دیا کرتا  تھا۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام ورقہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کو حکمدیا تھا کہ وہ اپنے گھر والوں کی امامت کیاکریں۔راوی(عبدالرحمٰن ابن خلاد انصاری) کا بیان ہے "میں نے اس مؤذن کودیکھا ہے ۔وہ بہت ہی بوڑھے شخص تھے۔"

 ہم نے پوری  حدیث مع ترجمہ نقل کردی ہے خط کشیدہ الفاظ  پروفیسر صاحب کی دشواریوں کو نہ صرف آسانی میں بدل دیں گے۔بلکہ انہیں اپنے مبلغ علم کا حدود اربعہ بھی معلوم ہوجائے گا۔نیز یہ پتہ چل جائے کہ عورت کا اصل مقام اس کا گھر ہے پروفیسر صاحب نے غلط سلط تو بہت لکھا لیکن یہ بات  گول کرگئے۔انہوں نے بڑے چٹخارے لے لے کر یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد اس سے استدلال کرتے ہوئے ایک نو مسلم لڑکی کو اپنے شوہر کا(جوج اس سے قبل اس کا عاشق صادق تھا) امام بننے کی اجازت بھی عطا فرمائی ہے۔اور اسے یہ مشورہ دیا ہے کہ کسی عام مولوی صاحب سے یہ مسئلہ نہ پوچھنا کہ وہ کہے گا یہ جائز نہیں۔"ہاں پروفیسر صاحب نے اس کا مسئلہ یوں حل کیا کہ ام ورقہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسجد کاامام مامور فرمایاتھا۔اور ان کے پیچھے مرد بھی نماز پڑھتے تھے۔"معلوم نہیں وہ کون مرد تھے جو مسجد نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء سے محروم رہ کر ایک عورت کے گھر میں اس کی امامت میں نماز ادا کرنا قابل فخر خیال کرتے  تھے؟بالخصوص اس صورت میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد گرامی ہے:

"قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔میں نے ارادہ کیا کہ لوگوں کو لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دوں۔پھر نماز کے لئے اذان کا حکم دوں۔پھر کسی کو امامت کے فرائض ادا کرنے کی تاکید کروں اورخود ایسے مردوں کی طرف جاؤں۔جو نماز کےلیے مسجد میں حاضر نہیں ہو تے اور ان کے مکانوں کو ان کے سمیت آگ لگا دوں ۔مگر ایسا اس لیے نہیں کرتا کہ گھروں میں عورتیں بھی ہو تی ہیں اور بچے بھی (جن پر نماز کے لیے مسجد میں حاضر ہو نا فرض نہیں ہے)۔"

(باب الجما عۃ بحوالہ صحیح بخاری وصحیح مسلم)

۔۔۔پروفیسرصاحب نے لکھا ہے کہ :

"سچ بہت تلخ ہو تا ہے ،اسے برداشت کرنا ہر کسی کے بس کی با ت نہیں چنانچہ یہ سچ ہے کہ عورت کو زیادہ سے زیادہ مقید رکھنے والا معاشرہ خود مریض ہو تا ہے !"

۔۔۔آپ بھول رہے ہیں پروفیسرصاحب مومن کی شان ہی یہ  ہے کہ سچ کو برضا ورغبت قبول کرے کہ اس کی تلخی میں بھی وہ لذت محسوس کرتا ہے۔اور جھوٹ خواہ کتنا ہی دلفریب کیوں نہ ہو ،وہ اس سے نفرت کرتا ہے ۔۔۔چنانچہ سچ وہ ہے جو  کتاب وسنت میں موجود ہے، اور مومن اس کو تسلیم کر کے ایک گونہ فرحت محسوس کرتا ہے ۔۔۔ہاں جو کچھ آپ نے فرمایا وہ سچ ہے ہی نہیں پرلے درجے کا جھوٹ ہے۔۔۔اولین درجہ کی خود فریبی ہے۔۔۔ شوگر کو ٹڈزہر کی یہ وہ گولیاںہیں جو جسی بھی معا شرہ کی صحت کی ضامن نہیں ہو تیں بلکہ اس کی ہلاکتوں کا پیغام بن جا یا کرتی ہیں !۔۔۔یاد رکھئے پروفیسر صاحب وہ بہترین معاشرہ جس کی صحت کی قسم کھائی جا سکتی ہے۔رسول اللہﷺ کے دور کا معاشرہ تھا جس میں شدید ضرورتوں کا لحاظ ضرور رکھا گیا، لیکن عورت کو بے پردہ ہونے کی اجازت کسی صورت نہ مل سکی ۔۔۔چنانچہ یہ اسی معاشرہ کی بات ہے کہ خود رسول اللہ ﷺ نے بھی حضرت اُم ورقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کو جہاد ایسی سعادت میں حصہ لینے سے روک کر ان کو اپنے گھر میں ٹکے رہنے کی ہدایت فرمائی تھی۔۔۔یہی سچ ہے جس کو برداشت کرنا آپ کے لیے مشکل ہو رہا ہے لیکن ایک  سچے مومن کے لیے یہی مثردہ جا نفزا ہے۔۔۔ جبکہدلفریب مگر بد ترین جھوٹ یہ ہے کہ آپ کتاب وسنت کے حوالے سے عورت کو اسمبلی میں  پہنچانا چاہتے ہیں اور پہنچا رہے ہیں ،دفاتر میں بھرتی کروارہے ہیں،اور اسکی پاکیزگی،شرافت اور عفت و عصمت کا نشان دوپٹہ اور برقع اس سے چھین لینا چاہتے ہیں چنانچہ اس جھوٹ سے ہمیں  شدید نفرت ہے گھن آتی ہے ہمیں اس سے!۔۔۔ اور سطور بالا سے آپ کو معلوم ہو گیا ہو گا ،کہ اس جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی کوششوں میں کتا ب وسنت نے کہیں بھی آپ کا ساتھ نہیں دیا ۔اس کےباوجود آپ نے اُن علماء دین کو جو اسلامی تعلیمات کی پابندی ہی میں دنیوی اور اخروی فلاح کا راز مضمرجانتے ہیں،منافقت بزدلی اور خود فریبی کا طعنہ دیا ہے۔اگرکتاب وسنت کے احکام پر عمل کرنامنافقت بزدلی اور خودفریبی ہے۔ پروفیسر صاحب ،تو روز قیامت یہی دعویٰ لے کر رب قدیر کے حضور حاضر ہو جا یئے گا۔۔۔ہمیں یقین ہے ۔کہ! حکم الحاکمین کی بارگاہ سے آپ کو انصاف ملے گا!۔۔۔فی الحال یہ باور کیجئے کہ فریب خوردہ اور عورت کی نسوانیت کے بدترین  دشمن وہ جدید دانشور ہیں جو ہمدردی آزادی اور روشن خیالی کے پردے میں اس کی شرافت اور حیا کو اپنی گندی خواہشات کی بھینٹ چڑھا دینا چاہتے ہیں ۔۔۔بالفاظ دیگر مسلم معاشرہ کے لیے مار آستین ،وہ زہر یلے سانپ کہ جو مغربیت کا پھن پھیلائے اس کے دین و ایمان کو ڈس لینے کے لیے بیتاب نظر آتے ہیں ۔۔۔عورت کو نیکریں اور جا نگئے پہنا کر کھیل کے میدان  میں بھی دھکیلتے ہیں اور یہ اطمینان بھی دلاتے ہیں کہ:

"ہمارے "مصلحین"اور"صالحین"کو ابھی خواہ مخواہ اپنی نیند یں حرام کرنے کی ضرورت نہیں ،جب تک ہمارے ہاں مغرب کے حالات پیدا نہیں ہوتے ،ہم مغربی نہیں بن سکتے!"

۔۔۔جنس کے پجاری ہیں ،مگر پروپیگنڈہ یہ کرتے ہیں کہ :"علماء نے گھر گھر چنگیزیت قائم کر رکھی ہے ۔مردنے طلاق کا لفظ منہ سے نکالا اور طلاق ہو گئی ۔۔۔لونڈی کی طرح  بیوی کو بھی جب چاہے چھوڑدے ۔۔۔وہ پاؤں کی جوتی تھی ،جب چاہی اتار کر پھینک دی اور نئی جوتی خرید لی!"

۔۔۔لیکن حالت یہ کہ مرد کے علاوہ عورت کو بھی طلاق کا حق دینے کی سفارش کرتے ہیں ۔۔۔کیونکہ صرف مرد کے پاس یہ حق رہنے سے ہمارے معاشرہمیں طلاق کے اعدادو شمار ان سرحدوں کو چھو لینے میں ناکا م رہے ہیں ،جو ان معاشروں کا طرہ امتیاز ہیں ،جن میں مرد کے علاوہ عورت کو بھی طلاق دینے کا حق حاصل ہے!۔۔۔رہے علماء تو وہ وہی کہتے ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے فر ما یا ،اور آپﷺکا ارشاد گرامی یہ ہے کہ:

"بلا وجہ اپنے شوہر سے طلاق مانگنے والی عورت پر جنت کی خوشبو بھی حرام ہے۔"(سنن الدارمی85ص2طبع ملتان)

جبکہ مرد کو یہ حق حاصل ہو نے کے باوجود آپﷺ نے اسے یہ تنبیہ فرمائی کہ :

(عربی)

(سنن ابی داؤدمع عون المبود 221ص2)

کہ"وہ کا م جو حلال ہو نے کے باوجود اللہ کریم کے نز دیک مبغوض ترین ہے ۔طلاق ہے!"

۔۔۔اور آپ نے یہ بھی غلط کہا پروفیسر صاحب کہ "مرد نے طلاق کا لفظ منہ سے نکالا اور طلاق ہو گئی !"۔۔۔پہلے اسلامیات کا مطالعہ کیجئےپھر فتوے رسید کیجئے!۔۔۔یہ ایک مستقل موضوع ہے ۔جسے ہم بخوف طوالت نظر انداز کررہے ہیں۔ فی الحال صرف یہ سمجھ لیجئے کہ اس سلسلہ میں بھی ایسی حکمتوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے کہ آناً فاناًیہ رشتہ ٹوٹ نہ جا ئے ۔آپ نہ جانے کہاں گھوم پھر رہے ہیں ؟

ہاں طلاقکا حق صرف مرد کے پاس رہنا اگر آپ کے نز دیک عورت کو پاؤں کی جو تی سمجھنے کے مترادف ہے تو عورت کو بھی یہ حق دے دینا ،نتائج کے لحاظ سے گو یا خود عورت  کی طرف سے یہ مطالبہ ہے کہ اسے واقعتاً پاؤں کی جوتی تصور کیا جائے ۔جو اگر مان لیا جا ئے تو عورت کا مخصوص مزاج اسے ایک ایسے جہنم میں دھکیل دے گا۔کہ اس سے راہ فرار حاصل کرنا اس کے لئے ناممکنات میں سے ہوگا۔اور علماء کی مزعومہ"چنگیزیت"اس جہنم کے سامنے شرمسارہوکررہ جائے گی۔آپ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اسلام نے اگر مرد کو طلاق کا حق دیا ہے تو یہ مردو زن کی فطرت کے عین مطابق ہے۔جس میں خود عورت کا تحفظ طلاق کا حق عورت کو بھی حاصل ہونے کی نسبت زیادہ ہے؟۔۔۔اس کو ساتھ ہی ساتھ اسلام نے عورت کو بھی وہ مقام دیا ہے کہ دنیا کا کوئی بھی مذہب  ترین معاشرہ آج  تک اسے  یہ مقام نہ دے سکا۔یہ اسلام ہی تھا جس نے اسے زندہ درگور ہونے سے بچایا اورگھر کی ملکہ بنایا۔فرمان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ:

(عربی)

"عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگہبان ہے"

۔۔۔لیکن آپ کو یہی اسلام سراپا ظلم نظر آتا ہے۔اور چالاکی یہ کرتے ہیں کہ گالی دیتے وقت اسلام کی بجائے نام علماء کا لیتے ہیں۔چنانچہ  آپ کا پورا مضمون ہمارے ا س دعویٰ کا منہ بولتا ثبوت ہے!۔۔۔من مانی اپنی کرنا چاہتے ہیں۔لیکن طعن مرد کو کرتے ہیں جیسے خود مرد کی بجائے عورت ہوں۔۔۔لکھتے ہیں کہ:

"مرد اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لئے۔۔۔عورت کو پیدا واری سرگرمیوں میں حصہ لینے سے روکے رکھنا چاہتا ہے۔اور اسے صرف اپنی تسکین کا ذریعہ  تصور کرتا ہے۔بیسوی صدی کی مسلمان عورت کی آزادی صرف یہی نہیں ہے کہ وہ باورچی خانے کی ضروریات یا بچوں کے لئے کپڑا لتا خریدنے کے لئے بازار جاسکتی ہے۔وہ صحیح معنوں میں اس وقت تک آزاد نہیں کہلاسکتی جب تک اپنے ملک کی سیاسی معاشی اور سماجی زندگی میں بھر پور کردار ادا نہیں کرتی!"

۔۔۔یعنی آپ کے نزدیک عورت کی اصل "آزادی"یہ ہے کہ وہ باورچی خانے کی ضروریات پوری کرنے بچوں کو سنبھالنے ان کا  کپڑا لتا خریدنے کھیل کے میدانوں میں ملک وقوم کا نام "روشن"کرنے اسمبلیوں میں چہچہانے اوردیگر سیاسی وسماجی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے علاوہ کما کر بھی آپ کو کھلائے اور آپ صرف ہاتھ پر ہاتھ دھرے ان عورتوں کی"مظلومیت"کا ڈھنڈورا پیٹتے رہیں جن کی ساری ضروریات گھر بیٹھے پوری ہوجاتی ہیں۔بڑا کرم کریں تو باورچی خانہ خود سنبھال لیں ورنہ گھر کے متنوع کاموں کےلئے ملازمین کی ایک فوج بھرتی کرکے دفتر میں کام کرنے والی عورت کی تنخواہ سے تین گنا زیادہ اخراجات کا تخمینہ تیار کریں۔اور اس طرح پہلے اپنے گھر کی معیشت اور پھر انہی اصولوں پرملکی معیشت کو"سنبھالا"دیں۔۔۔پروفیسر صاحب مذکورہ سرگرمیوں میں حصہ لینا آپ کا کام ہے۔اپنے حصے کا کام خود کیجئے ورنہ مرد اگر یونہی ناکارہ ہوگئے۔تو یہ وہی صورت حال ہوگی جس کا نقشہ آپ نے اپنے مضمون کے آخر میں کھینچا ہے۔اور لکھا ہے کہ:

"آزادی وطن کی خاطر گولیوں،بندوقوں،اور بموں سے کھیلنے والی ایک کھلے منہ والی عورت زیادہ قابل احترام ہے یا سات پردوں میں چھپ کر چھری سے پیاز کاٹنے والی عورت معاشرے کے لئے زیادہ مفید ہے؟

۔۔۔ہاں ہاں مذکورہ کاموں کے علاوہ یہی ایک میدان باقی رہ گیا تھا سو اس میں بھی عورت ہی کو دھکیلئے۔یہ ایسے مرے گی بھی نہیں اسے گولیوں بندوقوں اور بموں کا نشانہ بنوایئے اور مردوں کو مشورہ دیجئے کہ چوڑیاں  پہن کر گھروں میں آرام سے بیٹھیں یا باورچی خانہ چھری سے پیا ز کاٹنے کی مشق ناز فرمائیں۔واللہ  پروفیسر صاحب آپ کتنے نیک دل ہمدرد اورغم گسار ہیں علماء نے تو بس گھر گھر چنگیزیت قائم کررکھی ہے!

۔۔۔پروفیسر صاحب عورت کی عفت وعصمت کے نگہبان جب ایسے ہی دیوث ہوجائیں اور اسے خود ہی بے عورت کرکے گھر سے باہر نکال دیں تو ظاہر ہے اپنی اس پونجی کی حفاظت بھی اسے خود کرنا ہوگی۔ورنہ زندہ قوموں کو ایسے دن دیکھنا نصیب نہیں ہوتے۔کیونکہ ان کی صفوں میں محمد بن قاسم ایسے غیرت مند مجاہد موجود ہوتے ہیں۔جو اپنی ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کی عزت ووقار کے امین ہوتے ہیں۔اور جنھیں دفتروں میں جا کر ملازمت کرنے والی عورتیں نہیں بلکہ وہ مائیں جنم دیتی اور دودھ پلاتی ہیں جو گھر کی چاردیواری میں رہ کر انہیں قال اللہ وقال الرسولؐ کی ایمان پروراور روح پرور لوریاں سناتی ہیں۔اور آخر میں ہم آپ کو یہ بھی بتادیں کہ عورت صرف بیوی نہیں ہوتی۔اس کے علاوہ وہ ماں بھی ہے بہن بھی ہے اور بیٹی بھی!اور ہمارے آج کے معاشرے میں ماؤں کو بیٹیوں سے بہنوں کو بھائیوں سے اور بیٹیوں کو باپوں سے کوئی شکوہ نہیں۔لہذا"ظلم وستم" کی یہ داستانیں اگر درست بھی فرض کرلی جائیں۔ تو یہ صرف شوہر اور بیوی کا معاملہ ہے۔یعنی کل کا 1بٹا 4 اور اس میں بھی پروپیگنڈہ زیادہ ہے۔حقیقت بہت کم!چنانچہ ہمیں کیا معلوم کہ آپ و اقعی پیاز بھی کاٹتے ہوں!۔پھر اس حقیقت کا ذمہ دار بھی نہ اسلام ہے۔نہ علمائے اسلام بلکہ اس کا ذمہ دار وہ معاشرہ ہے جو علماء اور اسلامی تعلیمات سے دور بھاگتا ہے ورنہ قرآن مجید نے تو میاں بیوی کو ایک دوسرے کا سکون قرار دیا ہے۔

(عربی)

چنانچہ آپ کا یہ وار بھی خالی گیا کہ"مرد عورت کو اپنی تسکین کا ذریعہ  تصور کرتا ہے"۔اور اگر تیر نشانے پر بیٹھتا ہے تو آپ ہی دیکھ لیجئے۔اس کا ہدف خود قرآن مجید ہے جو کسی مسلمان کا شیوہ نہیں ہوتا!۔۔۔پھر قرآن مجید ہی نے عورت اور مرد کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے۔

(عربی)

لیکن مغربیت کی تبلیغ کے جنون میں مبتلا جو لوگ مرد اور عورت کو بہکانا چاہتے ہیں وہ در اصل ان کا لباس تروانے کی فکر میں ہیں جبکہ یہ فریضہ سب سے پہلے ابلیس نے انجام دیا تھا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

(عربی)

"(خبردار) اے بنی آدم!تمھیں شیطان فتنے میں نہ ڈال دے۔جس طرح اس نے تیرے ماں باپ کو جنت سے نکالا تھا۔ان کا لباس ان سے چھینتا تھا۔تاکہ وہ ننگے ہوجائیں!"

۔۔۔اب یہ سوچنا پروفیسر صاحب آپ کا کام ہے کہ آج کے اس دور  میں مرد اور عورت کو بہکا کر شرم وحیا کو داؤ پرلگانے والا ،ان کے لباس اتروانے والا،اور  اسلامی معاشرے کی جنت سے نکال کر مغرب کے ایمان سوز جہنم میں جھونکنے والا کون ہے؟

۔۔۔توبہ کیجئےپروفیسر صاحب رب کی بارگاہ میں ندامت کا اظہا ر کیجئے اور روزنامہ "جنگ" ہی میں یہ اعلان کیجے کہ آپ نے جو کچھ لکھاتھا غلط لکھا تھا سب جھوٹ تھا۔اور سچ یہ ہے کہ:

(عربی)

نیز

(عربی)

یعنی مسلمان عورتیں برقعہ پہن کر اپنے بدن چہرے اور ہاتھوں سمیت ان کے اندر چھالیں۔جاہلیت کے زمانہ  کی طرح بناؤ سنگھار کرکے بازاروں میں بے پردہ نہ گھومیں اور اپنے گھر میں قرار  پکڑ کر نماز قائم کریں۔ذکواۃ دیں۔اور اللہ اور اس کے  رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اطاعت کریں!

ان شاء اللہ دنیا اور آخرت میں آپ کا بھلا ہوگا۔(وما علینا الا البلاغ)


[1] ۔واضح رہے  کہ" پہلی نگاہ معاف ہونے کا معنیٰ ہر گزیہ نہیں ہے کہ "چہرہ پردےمیں داخل نہیں  ہاں اصل حکم غض بصر یعنی نگاہ بچا لینا ہے"۔۔۔"اچانک نگاہ "کے الفاظ اس مفہوم کی تردید کرنے کے  ساتھ ساتھ اصل مفہوم واضح کررہے ہیں کہ چہرے کا پردہ عموماً رائج ہونے کے باوجود ایسے مواقع پیش آسکتے ہیں،جب اچانک کسی مرد اور عورت کا سامنا ہوجا ئے یا گھر میں موجود عورت کا چہرہ بھی کبھی کبھار نظر آجانا ناممکنات میں سے نہیں لہٰذامحض غض بصر کا حکم اس بات کی دلیل نہیں  بن سکتا کہ یہ عورت کے کھلے منہ پھرنے کو مستلزم ہے۔مذکورہ بالا مفسرین  کی آراء اور احادیث سےہمارے اس مفہوم  کی تائید ہو رہی ہے۔۔۔ علاوہ ازیں مسلمان عورتوں میں پردہ رائج ہونے کے باوجود معا شر ہ میں غیر مسلم عورتیں بھی ہوسکتی ہیں جو بے پردہ ہوں گی لہٰذاغض بصرکا حکم دیا گیا !