اسلام میں سیاسی جماعتوں کا وجود؟
(سطورذیل میں مدیر محدث حافظ عبدالرحمن مدنی کا انٹرویو تفصیل سے شائع کیا جا رہا ہے جو روزنامہ"وفاق"کے نمائندہ جناب جلیل الرحمان شکیل نے"اسلام میں سیاسی جماعتوں کے وجود"کے موضوع پر ان سے لیا تھا اور مورخہ 24نومبر85ءکے"وفاق"میں اس کی رپوٹ شائع ہو چکی ہے) (ادارہ)
سوال:کیااسلام میں سیاسی جماعتوں کے قیام کی گنجائش موجو د ہے؟
جواب:اسلا م میں تنظیم جماعت کا تصور،ملت کے تصور سے منسلک ہے جبکہ ملت اسلامیہ تین چیزوں سے تشکیل پاتی ہے،اللہ ،قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !چونکہ ملت کا تعلق فکروعمل کے امتیازات یا بالفاظ دیگر اسلامی تہذیب وثقافت کی اقدار سے ہے ۔لہٰذا اس کی تشکیل وتعمیر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں انجام پاتی ہے یہی وجہ ہے کہ ملت کی نسبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہوتی ہے اور وہی ملت کی وحدت کا تحفظ مہیا کرتا ہے۔۔۔واضح رہے کہ ملت کے معنی عربی زبان میں ثبت شدہ یا لکھی ہو ئی چیز کے ہیں،اور چونکہ کسی فکرکے عملی خطوط اسوہ حسنہ کی صورت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم ثبت کرتا ہے،اس لیے انہی نقوش کا نام ملت ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ملت کی اضافت اللہ کی طرف نہیں ہو تی ۔۔۔نبی اگرچہ انسان ہو نے کے نا تے دنیا سے رحلت فرما جا تا ہے ۔تا ہم اس کے بعد اس کے خلفاء ،اس کے جا نشین کی حیثیت سے تا قیامت وحدت ملت کو قا ئم رکھتے ہیں ۔جس کے انتشار کا جرم اسلام کی نظر میں اس قدر سنگین ہے کہ اس کے مرتکب کو قتل کی سزا دی جا سکتی ہے۔۔۔اسلامی تعلیمات میں ملت کے با غی کی مو ت کو جا ہلیت کی موت قراردیا گیا ہے ،اور ملت سے الگ رہنے والے کو آگ میں اکیلا رہنے کی وعید سنائی گئی ہے!۔۔۔اب ظاہر ہے کہ اسلا می سیاست ،ملت اسلامیہ سے الگ نہیں ہو سکتی ۔لہٰذااسلامی سیاست بھی ملت اسلامیہ کی طرح انتشاروافتراق کو برداشت نہیں کرتی۔
یہ وحدت ملت ہی کا تصور تھا کہ استقلال پاکستان سے پہلے مسلمانوں نے ہندوؤں سے الگ رہنے کا مطالبہ کیا۔جسے اگرچہ دوقومی نظریہ[1]کا نام دیا گیا لیکن در حقیقت یہ مسلمانوں اور ہندوؤں کی دو الگ الگ ملتیں تسلیم کرنے کا نظریہ تھا ۔۔۔اور پاکستان بن جا نے کے بعداگر مسلمانوں کے ایک ملت ہو نے کا تصور ختم کردیا جائے،تو پاکستان کے وجود کا کو ئی جواز باقی نہیں رہتا ۔
اس ساری بحث سے مقصود یہ ہے کہ اسلا می سیاست ،ملت اسلامیہ سے الگ نہیں ہو سکتی ،اور چونکہ ملت اسلامیہ میں انتشاروافتراق ایک سنگین جرم ہے لہٰذا ایسی سیاست جو انتشاروافتراق کے بیج بوتی ہو،اسلامی سیاست ہو ہی نہیں سکتی!۔واضح رہے کہ اسلامی سیاست ،اسلامی مملکت میں کتا ب وسنت کے مطابق نظم ونسق چلانے اور عوام کی اس کے مطابق تربیت کرنے کا نام ہے ۔۔۔سیاست کے لفظی معنے"سدھانے"کے ہیں یہی وجہ ہے کہ گھوڑوں کی دیکھ بھا ل کرنے والےاور انہیں خاص استعمال کے لیے سدھانے والے شخص کو"سائیس"کہا جاتا ہے ۔۔۔پھر کس قدرافسوس کا مقام ہے کہ آج کے پاکستانی سیاستدان کتاب و سنت کی واضح تعلیمات سے چشم پوشی کرتے ہوئے مغرب کے جمہوری نظام پر نثار ہو نے کو اپنے لیے بڑائی اور قابل فخر خیال کرتے ہیں،اوراس کے باوجود اسے اسلامی سیاست کا نام دیتے ہیں ،
اسلام سیاسی جماعتوں کے وجود کو ،ان کے لازمہ ،انتشاروافتراق کی بناء پربرداشت کرہی نہیں سکتا ۔۔۔علاوہ ازیں اسلام میں طلب اقتدار خرابی کی جڑہے،اور اس کی نظرمیں سیاسی جماعتیں تو کجا،کسی فرد کا بھی اقتدار کی غرض سے میدان میں اترنا بغاوت ہے۔
بشرطیکہ اسلامی نظام کم ازکم اپنی بنیاد کی حد تک قائم ہو،اور جو کتاب وسنت کی دستوری حیثیت تسلیم کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔لہٰذا اقتدار کےلیے نہ تو فردوجماعت کا تصور اسلامی ہے۔اور نہ ہی اسلام اشتراکیت کی طرح یک جماعتی نظام کا قائل ہے۔بلکہ اسلامی مملکت میں ایک طرف سے ملت کے افراد ہو تے ہیں اور دوسری طرف انتظامیہ کے افراد جن کے جملہ حقوق کتاب وسنت متعین کرتے ہیں ،اورجن سے سرتابی کسی کے لیے جائز نہیں ہوتی۔کتاب وسنت کی روشنی میں راعی اور رعایا(افرادملت اور انتظامیہ )بیعت کی صورت میں عہدو پیمان کرتے ہیں ۔جس کے بعد ہر فرد ملت کے بنیادی حقوق کی ذمہ داری حاکم پرواجب ہو جا تی ہے۔جبکہ کتاب و سنت کے دائرےمیں فرد پر حاکم کی اطاعت بھی فرض ہو تی ہے۔اسلام میں طلب اقتدار کی کیا حیثیت ہے؟اس کی تعیین سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےیوں ہوتی ہے،ک آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جملہ خطوط میں ،جوآپ نے اپنے دور کے غیر ملکی حکام کو لکھے ،یہ الفاظ ضرور لکھوایا کرتے تھے:
کہ"مسلمان ہو جاؤ،تم مع اپنی حکومت کے سلامت رہوگے!"
چنانچہ بحرین وغیرہ کے حکام نے جب اسلام قبول کرنے سے قبل یہ شرط پیش کی کہ ہماری حکومت ہمارے پاس رہے گی،توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شرط کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا اسلام بھی قبول کرلیاتھا ۔۔۔یاد رہے کہ اسلام جہاں بانی کےلیے نہیں آیا ،بلکہ وہ حاملین اقتدار کو اللہ کی غلامی قبول کرنے کی دعوت دیتا ہے ۔یہی وجہ ہےکہ جنگ قادسیہ میں حضرت سعید بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نمائندہ جناب ربعی بن عامرسےجب فارسی فوجوں کے سردار نے پوچھا کہ"آپ پوری دنیا کو فتح کرنے کےلیے کیوں کھڑے ہوگئے ہیں۔اور آپ کے مقاصد کیا ہیں ؟تو ربعی بن عامر نے یہی جواب دیا تھا کہ" ہم لوگوں کو انہی جیسے انسانوں کی غلامی سےنکال کراللہ العالمین کی غلامی میں لانا چاہتے اورانسانیت کو ظلم وستم کے شکنجے سے نکال کرانہیں امن وامان اور سکھ چین دینا چاہتے ہیں،"
اس کے بر عکس سیاسی جماعتوں کا وجود طلب اقتدار کے تصور پر قائم ہے،چنانچہ اس کے لیے جہا ں وہ اپنے بارےمیں مبالغہ آمیز پروپگینڈہ کرتی ہیں وہاں دوسروں کی عیب جوئی بھی ان کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے،حالانکہ اسلام کی نظر میں یہ دونوں فعل مذموم ہیں ۔اور قرآن مجید نے غلط کا رلوگوں کےلیے ایسی تعریف جس کے وہ مستحق نہ ہوں،قابل مذمت قرار دینےکے ساتھ ساتھ غیبت اور عیب جوئی پر بھی کڑی پابندی عائد کی ہے، اسلامی فلسفہ تاریخ کی رُوسے مذہبی اور سیاسی گروہ بندیاں ناجائز تعصب اور ضد سے جنم لیتی ہیں،جیسے قرآن مجید نے (عربی)( باہمی سرکشی)سےمنسوب کرکے،انتشاروافتراق کی بنیادی وجہ قرار دیا ہے،علاوہ ازیں قرآن مجید نے فکری اورمذہبی گروہ بندی کو اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیزاری اورشرک کے مترادف قراردیا ہے۔ارشادباری تعالیٰ ہے:
کہ"مشرکین میں سے نہ ہو جا ؤ،یعنی ان لوگوں میں سے کہ جنہوں نے اپنے دین کو تفرقہ کی بھینٹ چڑھا دیا اور گروہ بندیاں قائم کرلیں!"
نمائندہ وفاق :لیکن حدیث میں تو ہے کہ"میری اُمت کا اختلاف رحمت کا باعث ہے؟"
مدیرمحدث: یہ حدیث من گھڑت ہے،حقیقت یہ ہے کہ فرامین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،اختلاف و نزاع کوخیرو بھلائی کے اُٹھنے کا سبب بتایا گیا ہے۔اور قرآن مجید نے اسے اللہ رب العزت کے عذابوں میں سے ایک عذاب بتلایا ہے کہ لوگ گروہوں میں بٹ کر اپنی صلاحیتیں ایک دوسرے کے خلا ف استعمال کریں،ارشاد باری تعالیٰ ہے :
کہ"(اےنبی صلی اللہ علیہ وسلم )آپ فرما دیجیے،تمہارا رب اس پر قادر ہے کہ عذاب تمہارے اوپر سے تم پر نازل کر دے ،یایہ تمہارےقدموں کے نیچے سے تمہیں اپنی لپیٹ میں لے لے ،یا تمہیں گروہوں میں تقسیم کردے تاکہ تم ایک دوسرے کی لڑائی کا مزہ چکھ سکو!"
اس کےبالکل برعکس قرآن مجید نے اختلاف و نزاع سے نکل جا نے اور باہمی اتحاد کو اللہ تعا لیٰ کی نعمت بتلایا ہے۔۔۔ فرمایا:
کہ"اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو ،کہ تم آپس میں دشمن تھے تو اللہ نے تمہارے دلوں میں باہمی الفت ڈال دی ۔اور اللہ کی اس نعمت کے سبب تم ایک دوسرے کے بھائی بن گئے !"
چنانچہ قرآن کریم نے جگہ جگہ جس اتمام نعمت کا ذکر فرمایا ہے، وہ مسلمانوں کا باہمی اتفاق ویگانگت بلکہ عالمگیر اتحاد ہے ،جبکہ سیاسی جماعتیں اُمت میں انتشار کا باعث
بننے کے علاوہ طرح طرح کی خرابیوں کو جنم دیتی ہیں،جن میں دھونس،دھاندلی کےساتھ ساتھ نسلی علاقائی اورمذہبی تعصبات کو بے دریغ استعمال کیا جا تا ہے،اور اس طرح وہ اپنے اقتدار کے لیے فتنہ وفساد اور کشت وخون کے دروازے کھول دیتی ہیں،ہاں دھوکا دینے کےلیے اس کشت وخون کی نذر ہو جا نے والوں کو"سیاسی شہید" کہہ کر پکارا جاتا ہے۔۔۔درسگاہوں میں آج کی یہ ساری ہنگامہ آرائی ،جو تعلیمی ضیاع کے علاوہ نوجوانوں کو تحزیب کاری کی طرف بھی مائل کرتی ہے،اسی جتھہ بندی اور گروہ بندی کا نتیجہ ہے۔۔۔مختصر یہ کہ وہ کا م جو شیطان کرنا چاہتا ہے،سیاسی پارٹیاں اسے بخوبی انجام دیتی ہیں۔اور قرآن مجید میں مذکور اس"ابلیسیت"کو کامیاب بناتی ہیں جس کا مقصد وحید ،انسانوں کوتوحید پر جمع کر دینے کی بجائے ،انہیں مختلف پارٹیوں میں تقسیم کردینا ہے، اللہ ہمیں ابلیس کی فریب کاریوں سے بچنے کی تو فیق عطا فرمائے۔
واضح رہے کہ جہاں تک کسی ملک میں انتظامی یونٹوں کا تعلق ہے،توکوئی علاقہ یا ملک اپنی وسعت کے اعتبار سے کئی انتظامی وحدتوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔تاہم ان کاباہمی ربط ،وحدت ملت کی صورت میں قائم رہے گا۔اسی طرح علمی،ادبی سائنسی اور دیگر ملی خدمات کے بیشمار شعبے انجمنوں اور داروں کی صورت میں قائم ہو سکتے ہیں،لیکن ان کی حیثیت فنی اور تکنیکی ہوگی۔۔۔یہ نہ تو وحدت ملت کے تصور کے خلاف ہیں اور نہ ہی سیاسی جماعتوں یا پارٹیوں کا نام دیا جا سکتا ہے ،بالخصوص اس لیے کہ جدید تصور سیا سیا ست کے مطابق سیاسی جماعتیں اپنےاپنے اقتدار کی خاطر اپنا الگ الگ منشور لے کر میدان عمل میں اترتی ہیں،لہٰذا ان انتظامی یا فنی اداروں کوان پر قیاس کرنا غلط ہوگا ۔
سوال:اگر سیاسی جماعتیں موجود نہ ہوں گی ،تو کسی اسلامی مملکت میں خلیفہ یا امیر کے چناؤ یا انتخاب کا طریقہ کیا ہو گا اور خلافت وحکومت کی تشکیل کیسے ممکن ہوگی؟
جواب:اسلام میں جملہ اہم انتظامی امور،(عربی)
کے تحت باہمی مشاورت سے انجام پاتے ہیں، سوال پیداہوتا ہے کہ انتخاب امیر کاہو گا یااصحاب شوریٰ اور انتظامی بالادستی بھی ملت ہی سے اٹھتی ہے۔ بالفاظ دیگر اسلامی مملکت کے حکا م اور اصحاب شوریٰ،ملی راہنما ہوا کرتے ہیں۔جبکہ یہ ملی راہنمائی دین کی پختگی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عملی قرب کو مستلزم ہے۔جس قدر کو ئی شخص دیندار اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیادہ قریب ہوگا ،اسی قدر ملت میں اس کا مقام ومرتبہ بلندتر ہو گا ۔۔۔
کا یہی مطلب ہے، اور یہی وجہ ہے کہ خلفاءاربعہ،جنہیں خلفائےراشدین رضوان اللہ عنہم اجمعین کہا جا تا ہے۔سب کے سب عشرہ مبشرہ میں سے تھے۔یعنی دنیا ہی میں انہیں جنت کی خوشخبری مل چکی تھی ۔ لہٰذا ان کی ملی حیثیت بھی مسلمہ تھی۔۔۔چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن خطاب نے ،شوریٰ کی تشکیل اور انتخاب خلیفہ کے سلسلہ میں جو مثالی کمیٹی تشکیل دی تھی ،وہ اس سلسلہ میں ہمارے لیے راہنما کی حیثیت رکھتی ہے،اس کمیٹی کے لیے ،عشرہ مبشرہ ہی میں سے (سوائےحضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بہنوئی سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے،تاکہ اقرباء پروری کا الزام آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر نہ آئے) [2]
جملہ اصحاب کو نامزد کیا گیا تھا اور خلفائے راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سارا انتخاب اور اس سلسلہ کے مشورہ ملت انہی ملی راہنماؤں کے گرد گھوم رہے ہیں۔ حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب شوریٰ بھی یہی لو گ تھے ۔خلفائے راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے انتخاب کے سلسلہ میں حصول مشورہ ،یا کسی کو کوئی انتظامی عہدہ دینےکے لیے کبھی بھی کسی علاقہ یا آبادی کی نمائندگی گا خیا ل نہیں رکھا گیا ۔ورنہ ضرور مدینہ کے علاوہ دیگر علاقوں سے بھی ،آبادی یا نمائندگی کی بنیا د پراستصواب ہو تا اور تا ریخ اسلامی بھی اس سلسلہ میں یو ں خاموش نہ ہو تی !۔۔۔البتہ عوام کے اعتماد کا خیا ل رکھنا کا میا ب خلیفہ کے لیے بنیا دی اہمیت رکھتا ہے ۔کیو نکہ اسلام حکام کے لیے ،انسانوں کی بہبودی کی خا طر دین اور اہل دین کا معتد ہو نا ضروری قرار دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ حکام اور شوریٰ کے لیے ہمیشہ ملی راہنماؤں کو درجہ بدرجہ اہمیت دی جا تی رہی ۔مدینہ میں آبادی کے نما ئندہ ہو نے کی حیثیت سے نہیں ،بلکہ ملی راہنما ہو نے کی حیثیت سے جملہ اہم لو گ مو جو د رہتے تھے ۔۔۔حکام کا انتخاب بھی انہی میں سے ہو تا رہا اور اصحاب شوریٰ بھی یہی لوگ رہے ۔
سرمایہ اور جا گیر کی بنیاد پر ملت کی را ہنما ئی اسلام تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی نسلی یا علا قائی نما ئندگی اس کی بنیاد ہے۔بلکہ اس کی بنیاد دین و ملت ہیں ۔
مختصر یہ کہ ملی راہنما وہ ہیں جو زیادہ متقی ،متدین اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب تر ہوں گے یہی اصحاب شوریٰ ہو گے اور انہی میں سے خلیفہ کا انتخاب ہو گا جہاں تک اصحاب شوریٰ اور خلیفہ کی باہمی مشاورت کا تعلق ہے تو خلیفہ کے جملہ فیصلہ جات ملی راہنماؤں کے تجربات اور دلائل سے حاصل ہونے چاہئیں ۔۔۔کامیاب مشورہ ہی ہو تا ہے جو شوریٰ کے باہمی تبادلہ خیال سے مستنبط۔۔۔کسی مسئلہ میں اگر پوری کو شش کے باوجود اتفاق رائے نہ ہو سکے ،تو امیر کو صاحب امر ہو نے کی حیثیت سے اختیا رحاصل ہے کہ وہ آخری فیصلہ کرے ۔
سوال:کیا اسلام میں ریفرنڈم کی گنجائش مو جو دہے ؟
جواب :کسی اہم مسئلہ میں عوامی رائے معلوم کرنے کے لیے استصواب کی گنجائش اسلامی تعلیما ت میں مو جو د ہے ۔تاہم عوامی رائے سے کتاب و سنت کی کسی تعبیر یا اسلامی مسلک کی تشریح پر صاد کروانے کا کا م نہیں لیا جا سکتا ۔کیو نکہ اجماع صرف اجتہادی بصیرت رکھنے والوں کا کا م ہو تا ہے۔ جو کتا ب و سنت کے ماہرین ہوں۔۔۔۔نہ کہ ان لو گو ں کا جو ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی محض ہا تھ کھڑ ے کرسکتے ہوں۔
سوال: کیا آپ انصاری کمیشن کی رپو ٹ سے متفق ہیں ؟
جواب:انصاری کمیشن کی رپوٹ میں دراصل موجودہ مغربی نظاموں اور سیاسی جما عتوں کی خرابیوں کے پیش نظر ان کے مفاسد کو دور کرنے کی تجا ویزپیش کی گئی ہیں۔ لیکن اسلام کے تنظیم و جماعت کے بنیادی تصور ،جس پر اسلامی معاشرہ اور اسلامی سیاست کا انحصار ہے کا کو ئی منظم فکر اس میں مو جود نہیں ہے۔اور غالباً اس کمیشن کا دائرہ کا بھی یہ نہ تھا بہر حال جب تک ملت اسلامی تصور پیش نظر نہ ہو ،سیاست و حکومت کو مسلمان نہیں بنا یا جا سکتا اوریہ کوششیں لا حاصل ہی ہو ں گی۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کی خرابیوں کو دور کرنے اور اسے مسلمان بنانے کے لیے ہمارے ہاں انتخآبات کا تصور اور اصلاحی تجاویز ایک ہو ہوم خیال ہے ۔ہاں اگر حکومت کتاب و سنت کی بالادستی تسلیم کرلے ،تواس کی روشنی میں اور اس کے دائرہ میں رہتے ہوئے حکومت کی ساری خرابیاں دور ہوسکتی ہیں ،ورنہ حکومت اگر شریعت کی بالادستی تسلیم نہیں کرتی،اور خود ساختہ قوانین یا اپنی مخصوص تعبیرات ہی کو اسلام کی حیثیت سے منوانا چاہتی ہے تو اس کا واحد راستہ انتخابا ت کی بجائےجہاد ہے۔۔۔یاد رہے کہ جہا د صرف قتال کا نا م نہیں ہے بلکہ یہ تو طاقت کی مو جو د گی میں آخری طریقہ کا رہے ۔۔۔ ورنہ انفرادی اصلاح سے لے کر معاشرے میں شریعت کی عملداری تک کےلیے کتاب وسنت کی روشنی میں کو شش کرنے کا نام بھی جہاد ہے۔اور اس سلسلہ میں جو بنیا دی جذبہ کا ر فرما ہوتا ہے وہ حکام اور عوام کی خیر خواہی ہے نہ کہ ذاتی اقتدار کا حصول !۔۔۔ہاں اس راہ میں سب سےبڑا اشرف یہ ہے کہ انسان ،فردو معاشرہ کی اصلاح و فلاح کے لیے جان تک نذر کردے ،
سوال:کیاپولیٹیکل پارٹیز ایکٹ کتاب و سنت سے متصادم ہو گا ؟
جواب:پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ کو اسلام میں سیاسی پارٹیوں کے وجود ہو تسلیم کر لینے کے بعد ہی تسلیم کیا جا سکتا ہے۔اور میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ اسلام میں سیاسی اور مذہبی گروہ بندی جا ئز نہیں ۔ہاں مختلف امور انجام دینے کے لیے علمی، فنی اور تکنیکی انجمنیں تشکیل دی جا سکتی ہیں ،جن کی حیثیت متنوع کی اداروں کی ہوگی سیاسی جماعتوں یا مذہبی دھڑوں سے ان اداروں کا کو ئی میل نہیں ہے۔تاہم اگر یہی انجمنیں یا ادارے کسی وقت علم و فن سے الگ ہو کر جھتہ بندی شروع کردیں تو یہ بھی فی سبیل اللہ فساد پھیلانے کے زمرہ میں داخل ہوں گی۔حتی کے قرآن کریم میں میں تو ایسی مسجدکو بھی باوجود اس کے کہ مسجدتعمیر کرنے کی فضیلت مسلمہ ہے ۔مسجد ضرار کا نام دیا گیاہے جو گروہ بندی کا باعث بنے !۔۔۔پھر ان سیاسی پارٹیوں کی کیا حیثیت ہے جو حصول اقتدار کے جنون میں نہ صرف اسلامی اصولوں سے روگردانی کرتی ہیں ۔بلکہ اُمت مسلمہ میں انتشار و افتراق کا باعث بنتی ہیں ۔بالخصوص جبکہ حصول اقتدار کی خؤاہش بجائےخود بھی اسلام کی نظرمیں نہ صرف ایک مذموم فعل ہے بلکہ بغاوت کے زمرہ میں آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل سنت کے ہا ں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے با لمقابل حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حصول اقتدار کی کو ششوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کی روشنی میں بغاوت سمجھا جا تا ہے۔۔۔ ہاں جب حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلافت سے دستبردار ہو کر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہا تھ پر بعت کر لی تو اب امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفۃ المسلمین قرار پائے ۔یاد رہے کہ جو لو گ آج بھی انہیں ملوکیت کا داعی یا بانی قرار دیتے ہیں ،وہ نہایت غلطی پرہیں اس لیے کہ آپ حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دستبرداری کے بعد متفقہ طور پر مسلمانوں کے خلیفہ قرار پائےتھےاور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےہاتھ پر منجملہ دیگر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے،خود حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےبھی بعیت کی تھی ۔لہٰذا اگر وہ ملوکیت کے داعی یا بانی ہو تے تو یہ حضرات انہیں کبھی خلیفہ تسلیم نہ کرتے !۔۔۔اور یہیں سے یہ فرق واضح ہو رہا ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب اپنے عملی رویہ سے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بالمقا بل اقتدار کے لیے کو شاں تھے۔ان کی حیثیت باغی کی تھی ۔لیکن جب ان کو اقتدار دینا ہی مسلمانوں کی مصلحت قرار پایا ،اور جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کے مطابق حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسلمانوں کی صلح کے خیال سے خلافت سے دستبرداری کے بعد پورا کر دیا تو امیر معا ویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ تسلیم کر لیے گئے اور اب ان کی حیثیت باغی کے بجا ئے بر حق خلیفہ کی تھی ۔۔۔ گو یا اقتدار حاصل کرنا اور اقتدار پر قا ئم ہو نا ،ان دونوں چیزوں کا حکم شریعت میں مختلف ہے جب کو ئی شخص اقتدار پر قا ئم ہو تو اس وقت مسلما نوں کی خیر خواہی اور فتنہ انگیزی دوچیزیں پیش نظر ہو تی ہیں، اور صاحب اقتدار کے لیے کم از کم شرائط اولاً انفرادی طور پر مسلمان ہو نا اور ثانیاً سیاسی طور پر کتا ب و سنت کی دستوری حیثیت کو تسلیم کرنا، کافی ہو تی ہیں لہٰذا اندریں صورت اس کے خلا ف فتنہ کھڑا کرنا اُمت کے لیے خیر خواہی نہیں ہو تی ۔
(حافظ عبد الر حمان مدنی )
[1][1] ۔لفظ قوم نے ملت کا تصور بہت حد تک بگاڑ دیا ہے ،حالانکہ قرآن مجید کی رُوسے لفظ قوم لفظ ملت سے بہت مختلف ہے ،چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں ابنیاء علیہم السلام نے،ایک ہی نسل کے لوگوں کو دین کےاختلاف کے باوجود "یاقوم"(اےمیری قوم)کے لفظوں سے بار بار مخاطب فرمایاہے،خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفارقریش کو بحکم الہٰی یوں مخاطب فرمایا(عربی)
کہ"(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم )آپ فرمادیجیے"،اے میری قوم تم اپنی جگہ عمل کرو میں اپنی جگہ عمل کرنے والا ہوں۔(نتیجہ)تم عنقریب دیکھ لوگے!"
چنانچہ اگر مذہب کی بنیاد پر قوم بنتی ہو تو کسی پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے مذہب سے اختلاف رکھنےوالوں کو"اے میری قوم "کے الفاظ سے پکارنا عجیب و غریب معلوم ہوتاہے۔
علاوہ ازیں قرآن مجید میں ہے ۔
کہ" شعیبؑ کی قوم کے متکبر سرداروں نے کہا ،"اے شعیبؑ،ہم تجھے اور تیرے ساتھ ایمان لانے والوں کو اپنی بستی سے نکال دیں گے،یا پھر تم ہماری ملت میں لوٹ آؤ گے"!شعیبؑ نے فرمایا ،"اگرچہ ہم اس بات کو ناپسند ہی کرتے ہوں ؟۔۔۔۔۔
(آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا کہ)"اگرہم تمہاری ملت میں لوٹ گئے ،تو(اس کا مطلب یہ نے اللہ پر جھوٹ باندھا ہے(حالانکہ ایسا نہیں ہے)۔۔۔!"ہو گا کہ) ہم
معلوم ہوا کہ قوم کا لفظ مذہبی اختلاف رکھنے والوں کے مابین مشترک ہے جبکہ مذہب کی بنیاد پرصرف ملت بنتی ہے۔۔۔یہی وجہ ہے کہ شعیبؑ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ ایمان لانے والوں کی ملت قرآن مجید نے ان کی اپنی ہی قوم کی ملت سے جدا بتلائی ہے ،لہٰذا مسلمانوں کے ہندوؤں سےالگ رہنے کے مطالبہ کو دو قومی نظر یہ کا نام دینا غلط ہے ،اور دراصل یہ ہندو اور مسلم کی دوالگ الگ ملتوں کانظریہ تھا ۔
[2] ۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنےبیٹے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دلجوئی کے لیے لو گو ں کو ان سے مشورہ لینے کی تلقین فر مائی تھی ،تاہم انہیں خلیفہ بننے سےروک دیا گیا تھا ۔