دار الا فتاء
1۔چند متفرق سوالوں کے جوابات
2۔قربانی کے بعض مسائل
1۔بغیر وضوء قرآن پاک اور درود شریف پڑھ سکتے ہیں یا نہیں ۔
بلا وضوء قرآن مجید کی تلاوت جا ئز ہے صحیح بخاری جلد اول صفحہ30پر ہے :
کہ"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نیند سے جا گے تو اُ ٹھ کر بیٹھ گئے ۔اس حالت میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چہرہ مبارک کو ہا تھوں سے ملتے ہو ئے اس سے نیند کے اثرات کو مٹا تے تھے ۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ آل عمران کی آخری دس آیات تلاوت فر ما ئیں۔"
بلا وضوء درود شریف پڑھنا بھی جا ئز ہے چنانچہ صحیح بخاری جلد اول صفحہ 44کے تر جمۃ الباب میں ہے:کہ" نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر حالت میں اللہ کا ذکر کیا کرتے تھے!"
البتہ بلا وضوء قرآن مجید کو چھوڑنا ناجا ئز ہے ۔ ارشاد باری تعا لیٰ ہے"
2۔بغیر وضوء دین کی باتیں کرنی جا ئز ہیں یا نہیں؟
جواب:جا ئز ہیں۔ اس کی دلیل مذکورہ بالا حدیث ہے کہ""آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر حالت میں اللہ کا ذکر کیا کرتے تھے (ماسوائے چند استثنائی صورتوں کے)یہ حکم عام ہے ۔تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سبل السلام وغیرہ
3۔اگر درود شریف کی بے ادبی ہو جا ئے تو اس کا کیا حل ہے؟
جواب:درودشریفکی بے ادبی کا سوال غیر واضح ہے۔ اگر مقصود بلا وضوء پڑھنا ہے۔ تو یہ جا ئز ہے ۔جیسے کہ اوپر گزرا ۔اور اگر مقصود یہ ہے کہ محل نجاست وغیرہ پر پڑھا گیا ۔تو اس صورت میں اللہ تعالیٰ سے معا فی مانگنی چا ہیئے ۔صحیح بخاری میں قصہ افک کے ضمن میں مذکور ہے کہ:
"انسان جب اپنے گناہ کا اعتراف کرے ۔پھر تو بہ کرے تو اللہ تعا لیٰ اس کی تو بہ قبول فر ما تے ہیں!"
4۔اگر کو ئی آدمی قبر کے عذاب سے بچ جا تا ہے تو کیا وہ دوزخ کے عذاب سے بھی بچ جائے گا ؟
جواب:ہاں!ظاہر یہی ہے کیونکہ قبر آخرت کی منزلوں میں سے ایک منزل ہے،اس میں جزاء سزا کا اصل تعلق جنت اور دوزخ سے ہے ۔تفصیل کے لیے ملاحظہ ہوصحیح بخاری ،کتاب الجنائز۔
5۔اگر سر کے بال قینچی سے چھوٹے کروا لیے جا ئیں ،مشین نہ لگائی جا ئے تو یہ جا ئز ہے یا نہیں ؟
جواب:ہاں !سر کے بال صرف تر شوانے جا ئز ہیں ۔قرآن مجید میں ہے:کہ"اگر اللہ نے چاہا توتم مسجد حرام میں بلا خوف وخطر ضرور داخل ہو گے۔اپنے سروں کو منذوائےہو ئے یا تر شوائے ہو ئے۔"
(حافظہ ثناء اللہ مدنی )
2۔قربانی کے بعض مسا ئل
1۔کیا قربانی صوم وصلوٰۃکی طرح فرض ہے؟ مال ودولت ہو نے کے باوجود قربانی نہ کرنا کفر ہے ؟گناہ کبیرہ ہے؟ گناہ صغیرہ ہے؟
2۔دودانت بکری ،بکرایا گائے خریدنے کی طاقت ہو نے کے باو جو د بغیر دودانت کا مینڈھا یا دنبہ قربانی کرنا جا ئز ہے؟
3۔جا نور کا دودانت والا ہو نا قربانی کی شرط ہے ،کیا مینڈھا یا دنبہ اس شرط سے مستثنیٰ ہیں؟
4۔ایک گائے میں قربانی کے سات حصے ہیں ۔کیا ایک گائے میں سات لڑکیوں کے عقیقے ہو سکتے ہیں ؟
5۔ایک گا ئے میں کچھ حصے عقیقے کے ادا ہو سکتے ہیں ؟مثلاًآج کل عید کی آمد آمد ہے۔ اگر عید سے کچھ دن پہلے کسی کے گھر لڑکا یا لڑکی پیدا ہو جا ئے تو وہ قربانی کی گائےمیں عقیقے کا حصہ لے سکتا ہے؟کیا اس طرح عقیقہ ادا ہو جائے گا؟(سائل نصیر الدین ،کوٹ چُھٹہ ضلع ڈیرہ غار یخان)
جوا بات :
1۔قربانی شعا ئر اسلامیہ میں سے ہے ۔اسے اگر چہ صوم وصلوٰۃ کی طرح فرض نہیں کہا جا سکتا ۔ تا ہم اسلامی شعائر ہو نے کی بناءپر اس کی اہمیت اور حیثیت مسلم ہے اگر کو ئی شخص اس کی مشرو عیت ہی کا انکار کردے تو وہ کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے اور بوجہ سستی و غفلت ترک کرنے والا عاصی اور گناہ گار ہے۔۔۔ترمذی شریف میں ہے:
"ایک شخص نے ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قربانی کے متعلق پوچھا ،کیا یہ واجب ہے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواباًفرمایا کہ"اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور مسلمانوں نے قربانی کی ہے۔"سائل نے بار بار سوال دہرایا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فر ما یا "اس بات کا مفہوم سمجھتے ہو ،کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اور مسلمانوں نے قربانی کی ہے ۔
(یعنی تمہارا اس کے وجوب وعدم وجوب کا سوال بے معنی ہے)!"
اسی طرح ترمذی ہی میں ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دس سال مدینہ منورہ میں مقیم رہے اور قربانی کرتے رہے ۔"
ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ قربانی سنت مؤکدہ ہے اس کے تارک کے لیے احادیث میں وعید بھی آئی ہے چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ "جو شخص صاحب استطاعت ہو نے کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ پھٹکے۔"(ابن ماجہ )پس قربانی کا تارک گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے۔
2۔3:قربانی کا جا نو ر خواہ اونٹ ہو ،گائے ،خواہ بکری بھیڑ ،ان سب کا دودانتاہونا شرط ہے ۔حدیث میں آیا ہے:
کہ مسنہ یعنی دودانتے جا نور کے سوا کو ئی جا نو ر ذبح نہ کرو ۔ہاں اگر جا نور کم ہوں یانہ ملتے ہوں۔ تو بھیڑ کا جذعہ یعنی کھیرا جا نور ذبح کیا جا سکتا ہے۔"
اس حدیث سے صاف معلوم ہوا کہ قربانی کے جانور کا دو دانتا ہو نا شرط ہے۔ بھیڑ دنبا ، مینڈھا وغیرہ کا کھیرا جا نور مجبوری کی صورت میں قربان کیا جا سکتا ہے۔
4۔5:ایک گائے میں سات لڑکیوں کے عقیقے نہیں ہو سکتے ۔کیونکہ احادیث میں عقیقہ کا بیان یوں آیا ہے۔کہ لڑکے کی طرف سے دوبکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کی جا ئے اس حدیث کی روشنی میں محدثین و فقہاءنے یہ بیان کیا ہے کہ مذکر کی طرف سے دوجانیں اور لڑکیکی طرف سے ایک جا ن ذبح کی جا ئے مزیدتفصیل کے لیے دیکھیے تحفۃ الودود باحکام المولود ۔نیزاسلاف میں سے ہمارے علم کے مطابق کسی سے یہ بات ثابت نہیں کہ کسی نے ایک جا نور میں کچھ حصے قربانی کے اور کچھ حصے عقیقے کے مقرر کیے ہوں ۔اور ہمارےعلم کے مطابق اسلاف میں سے کسی قابل ذکر شخصیت سے گائے وغیرہ جانور میں متعدد حصص بطور عقیقہ مقرر کرنا بھی ثابت نہیں ۔