آیت اللہ خمینی اپنی تقریر و تحریر کے آئینے میں
امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق خمینی کے جو افکار ہیں وہ بھی قابل ذکر ہیں۔ذیل میں ان کی تحریر سے چند اقتباسات نقل کئے جارہے ہیں:
"ایسے حاکم کو عامۃ الناس پر تدبیر مملکت اور تنفیذ احکام کے وہ تمام اختیارات حاصل ہوں گے۔جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حاصل تھے۔خصوصاً بوجہ اس فضیلت اور علو مرتبت [1] کے جو اول الذکر کو رسول خدا اور ثانی الذکر کو امام ہونے کی حیثیت سے حاصل تھا۔"(الحکومۃ الاسلامیہ للخمینی ترجمہ مولانا محمد نصر اللہ خاں ص117) اورفرماتے ہیں کہ:"اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جملہ اہل ایمان کا ولی بنایا ہے۔رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ روایت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آنے والے ہر شخص پرحاوی [2]ہے۔"آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امام(حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) اہل ایمان کے ولی ہیں۔دونوں کی ولایت کا مطلب یہ ہے کہ ان کے شرعی احکام جملہ اہل ایمان پر نافذ ہیں۔ولایۃ وقضاۃ کا تقرر بھی انہی کے ہاتھ میں ہے اور حالات کے تقاضے کےمطابق ان کی نگرانی اور معزولی بھی انہی کے دارئرۃ اختیار میں ہے۔"(الحکومت الاسلامیہ للخمینی ص119)
مزید ارشاد ہوتا ہے:
"اور اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا تھا۔کہ وہ اپنے احکام وقوانین کو اس شخص تک پہنچادے جو آپ کے بعد لوگوں میں آپ کا خلیفہ ونائب بنے۔چنانچہ اسی حکم کی تعمیل میں آپ نے امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا خلیفہ مقرر فرمایا۔خلافت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس لئے سپرد نہیں کی گئی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد تھے یا انہیں اس معاملے میں ایسا عمل دخل حاصل تھا یا آپ کی ایسی خدمات جلیلہ تھیں کہ جنھیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔بات صرف اتنی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا کرنے کا حکم دیا تھا۔"(حوالہ ایضاً ص108۔109)اور:
"اللہ تعالیٰ نے جبرئیل ؑ کے ذریعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر لازم کیا کہ وہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے تعین کا اعلان کریں۔"(ترجمۃ الحکومۃ الاسلامیہ للخمینی ص34 مطبوعہ لاہور)
"یہ بات الگ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کچھ نہ کرسکے حتیٰ کہ کوفہ کے ظالم قاضی شریح کو بھی معزول نہ کرسکے۔"(ترجمۃ الحکومۃ الاسلامیہ للخمینی ص119 مطبوعہ لاہور)
مزید ارشادات ملاحظہ فرمائیں:
"خود مذہب شیعہ کا آغاذ صفر سے ہوا تھا۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافت کی بنیاد رکھی تو اسے محض ایک مذاق سمجھا گیا جبکہ آپ نے اپنی قوم کو جمع کیا اور ان سے پہل کرنے والے کا انتخاب کیا ۔آپ نے پوچھا کہ اس کا رسالت میں میرا خلیفہ اور میرا وصی اور میرا وزیر کون ہوگا؟اس کے جواب میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوا اور کوئی شخص آگے نہ بڑھا۔حالانکہ اسوقت آپ کی عمر سن بلوغت کو نہ پہنچی تھی۔"(الحکمومۃ الاسلامیہ للخمینی ترجمہ مولانا محمد نصر اللہ خاں ص221)
خمینی اسی صفحہ پر مزید یوں فرماتے ہیں:
"حجۃ الوداع کے موقع پر غد یرخم میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے بعد حاکم مقرر فرمایا۔بس اسوقت امت میں اختلاف کا دروازہ کھل گیا ہے۔اگر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر المومنین کو محض مفتی ومفسر قرآن اور شارح احکام ہی مقرر کیا ہوتا تو کسی کو بھی اعتراض نہ تھا لیکن ان کے خلاف لڑائی لڑی گئی ان کو قتل کیاگیا محض اس لئے کہ وہ ملک وقوم پرشرعی حاکم مقرر ہوئے۔"(الحکمومۃ الاسلامیہ للخمینی مترجم مولانا محمد نصر اللہ خاں ص 221)
آیت اللہ خمینی خودتقیہ کے قائل ہیں اور اپنے دوسرے مذاہب لوگوں کو بھی تقیہ پر عمل کرنے کی دعوت دیتے ہیں چنانچہ لکھتے ہیں:
1۔"تقیہ"ایک ایسی اصطلاح ہے جسے اہل تشیع کتمان حق کے لئے استعمال کرتے ہیں۔چنانچہ ان کی مستند کتب میں مذکور ہے:
"ابو عبداللہ کا قول ہے کہ تقیہ میں نوے حصہ دین ہے جو بوقت ضرورت تقیہ نہ کرے اس کا دین نہیں اور تقیہ ہر شے میں ہے۔سوائے نبیذ(جو کی شراب) اور موزوں پرمسح کے۔"(اصول کافی للکلینی جلد 2)
اس قول کی تشریح وتوضیح یوں بیان کی گئی ہے:
"نبیذ اور موزوں پر مسح کا استثنا اس لئے کیا ہے کہ مخالفین ان چیزوں پرمجبور نہیں کرتے۔لہذا بلاتقیہ ان کو ترک کرے۔"(کتاب الشافی ترجمہ اصول کافی ص 240 ج2)
ایک اور مقام پر تقیہ کی فضیلت یوں بیان کی گئی ہے:
"حضرت امام باقر ؒ نے (فرمایا) تقیہ میرا دین ہے اور میرے آباؤاجداد کا دین ہے۔جس کے لئے تقیہ نہیں اس کےلئے دین نہیں۔"(کتاب الشانی ترجمہ اصول کافی ص243 جلد2 وکذافی الخطوط العریضہ ص55 مطبوعہ مدینہ المنورہ)
تقیہ کے متعلق ایک اور کتاب میں مذکور ہے:
"جب مکلف کو اپنے جان ومال میں ضرر کا خطرہ ہوتو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ترک کرنا اس پر واجب ہے۔یعنی"یہ حکم شیعہ کے مخصصات میں سے ہے اور اس کا نام تقیہ ہے۔"(السلام سبیل السعادۃ والسلام ص109)
امام صادق ؒ کی سابقہ روایت میں آپ پر یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ باوجود ایسے حالات کے جن میں آپ تقیہ کرنے پر مجبور ہوگئے تھے اور آپ حکومت واقتدار سے محروم تھے۔آپ نےلوگوں پر حاکم اور قاضی مقرر فرمائے۔"(الحکموت الاسلامیہ للخمینی ص217۔218)
تقیہ کے بارہ میں اپنے ائمہ کا ذکر کرتے ہوئے ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:
"وہ ایسے حالات کا شکار تھے کہ صحیح حکم بیان نہیں کر پاتے تھے اور یہ کہ یہ تقیہ مذہب کے بقاء کےلئے تھا۔"(ترجمہ الحکمومۃ الاسلامیہ للخمینی ص73 مطبوعہ لاہور)
شیعہ حضرات کے امام مہدی[3] یا اما م غائب کے متعلق خمینی کہتے ہیں:
"اب تک کے سارے رسول ،جن میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی شامل ہیں،دنیا میں عدل وانصاف کی تعلیم کے لئے آئے۔وہ اپنی کوششوں میں کامیاب نہ ہوسکے۔حتیٰ کہ نبی آخر الزمان حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو انسانیت کی اصلاح اور مساوات قائم کرنے آئے تھے۔اپنی زندگی میں نہ کرسکے۔وہ واحد ہستی جو یہ کارنامے انجام دے سکتی ہے اور دنیا سے بدیانتی کا خاتمہ کراسکتی ہے۔امام مہدی کی ہستی ہے اور وہ مہدی مدعو ضرور ظاہر ہوں گے۔"(نشری تقریر ازریڈیو تہران 30 جون 1980 اور تہران تائمز مجریہ 29۔30۔جون 1980ء)
اسی طرح خمینی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت کے خلاصہ کے ساتھ ان کا تقیہ پر عمل کرنا اس طرح بیان فرماتے ہیں:
"اور نبی کے بعد تیس سال تک امیر المومنین کی امامت رہی۔ان میں سے چوبیس سال چھ ماہ تک امامت کے احکام کی انجام دہی ان کے لئے ممنوع رہی۔اس زمانے میں وہ تقیہ اور رعایت پر عمل کرتے رہے ۔باقی ماندہ پانچ سال اورچھ ماہ کی مدت میں وہ عہد شکنی اور بے دین منافقین سے جہاد کرنے کی آزمائش میں مبتلا رہے اور ان گمراہ لوگوں کے فتنوں کی مصیبت جھیلنی پڑی۔۔۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے اپنی خلافت سے قبل کا زمانہ نبوت کے مکی دور کی طرح تھا۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی نبوت کے تیرہ سال کی مدت میں نبوت کے احکام کو پورا کرنے میں رکاوٹیں پیش آتی رہیں اور خوف ورکاوٹ میں بھاگے اور نکالے ہوئے رہے۔نہ کافروں سے جہاد کرسکتے تھے۔اور نہ مومنوں کا دفاع کرسکتے تھے۔پھر ہجرت فرمائی اور ہجرت کے بعد دس سال تک مشرکوں سے جہاد کرتے رہے اور منافقوں کی طرف سے آزمائش میں رہے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ جل اسمہ نے ان کو اپنے یہاں اٹھا لیا اورجنت نعیم میں جگہ دی۔"(الحکمومۃ الاسلامیہ للخمینی ص131)(جاری ہے)
[1] ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت وعلومرتبت کے متعلق ایک شیعہ مفسر لکھتے ہیں:"حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بارگاہ رب العزت میں عرض کیا اے میرے رب اپنے بندے علی کے صدقے گناہگاروں کو معاف کردے۔"
مزید لکھا ہے کہ:
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش آسمان وزمین کے نور سے ہوئی لیکن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیدائش عرش وکرسی کے نور سے ہوئی اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ عرش وکرسی سے اعلیٰ وافضل ہیں۔"(البرہان فی تفسیر القرآن آ266 جلد4 مطبوعہ ایران)
[2] ۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولایت کے متعلق چند شیعہ تفاسیر کے اقتباسات پیش ہیں:سورہ نساء کی مشہور آیت جس میں اللہ تعالیٰ نے مشرک کو نہ بخشنے اور شرک کے ماسوا گناہوں کی بخشش اپنی مرضی پر چھوڑ دی ہے کہ متعلق ایک مفسر لکھتے ہیں:
"اللہ اس کو نہیں بخشے گا جس نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولایت وامامت کا انکار کیا۔"(تفسیر عیاشی ص245جلد 1 مطبوعہ تہران)
اسی طرح سورہ مائدہ کی آیت(عربی) کی تفسیر اس طرح بیان کی جاتی ہے:"جس چیز کے پہنچانے کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا وہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت وامامت ہے۔"۔(تفسیر فرات بن ابراہیم ص63 ومناقب شھر بن آشوب ص107 ج3) اسی طرح وقوعہ نقص پر یہ آیت بطور استشہاد پیش کی جاتی ہے:شیعہ حضرات اس کو "سورہ ولایۃ" یعنی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولایت کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں (ملاحظہ ہو فصل الخطاب از میر مرزا حسین ص180 ودبستان مذاہب از محسن فانی کاشمیری ص272 وتاریخ المصاحف از نولد کن مستشرق ص102 ج2)اور(عربی) کا معنیٰ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ"
"ابراہیم علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شیعوں میں سے ایک شیعہ تھے۔"(تفسیر البرھان ص20 ج4) ایک اورتفسیر میں حضرت موسیٰ ؑ کے متعلق لکھا ہےکہ:
"حضرت موسیٰ ؑ سے اللہ تعالیٰ نے جو کلام کیا وہ ولایت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے متعلق تھا۔(تفسیر مراۃ الانوار ص301)
[3] ۔امام مہدی جن کی عمر اب تقریباً گیارہ سو سال ہوچکی ہے اور وہ تاہنوذ غائب ہیں ،کی امامت پر شیعہ حضرات قرآن کریم کی آیت"(عربی) سے دلیل پیش کرتے ہیں ۔امام مہدی کے متعلق مشہورشیعہ عالم ملا باقر علی مجلسی لکھتے ہیں:
"ونعمانی روایت کردہ است از حضرت امام باقر ؒ کہ چوں قائم آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم بیرون آید خدا اورایاری کند ملائکہ واول کسیکہ بااوبیعت کند محمد باشد و بعد ازاں علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔"
یعنی"نعمانی نے حضرت امام محمد باقرؒ سے روایت کی ہے کہ جب قائم آل محمد یعنی اما م مہدی باہرنکلیں گے اور خدا تعالیٰ فرشتوں کے ذریعہ ان کی مدد فرمائے گا تو سب سے پہلے جو آپ کی بیعت کریں گے وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوں گے اور آپ کے بعد حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کی بعیت کریں گے۔"(حق الیقین للمجلسی ص347 مطبوعہ ایران)