قصیدہ نعتیہ
دل بنا جلوہ گہ حسن شہنشاہؐ زمن! نکہت افروز ہوا رحمت حق کا گلشن
مصطفےٰؐ جس کے زروسیم ہیں مخزن مخزن جس کے یاقوت اہرملیں معدن معدن
ہے وہی نام سکوں بخش ومسرت انگیز تیز ہوجاتی ہے اس نام سے دل کی دھڑکن
نطق بے باک سنبھل اپنی حقیقت پہچان کون ہے جس کو کہ ہے نعت میں یا رائے سخن
یہ قصیدہ نہیں شاہوں کا بقول عرفی ہے دم تیغ پہ یہ راہ یہ صحرا ہے نہ بن!
نعت گوئی میں رہے حفظ مراتب کا خیال چھوٹ جائیں نہ کہیں ہوش وخرد کا دامن
نہیں ممکن کہ کوئی لکھے محاسن اس کے کام آئے نہ یہاں زور بیان قوت فن
عجز وبے چارگی زیور ہے ہنر مندی کا اس کے دربار میں بس حسن عقیدت ہے حسن
وہ محمدؐ ہے کہ جملہ محامد کا امیں جس کی توصیف کرے خالق کو نین وزمن
رشک صد عود وحنا جعد معنبر اُس کے بڑھ کے تریاق سے تاثیر میں ہے آب ودہن
خُلق شمشیر ہے ا ُس کی تو مروت ہے س ناں حلم مغفر ہے تو ہے حسن تکلم جوشن
اس کے عرفاں کے مقابل رہے خرد ل سے حقیر حکماء لاکھ کریں جمع خرد کے خرمن
ہے کسے اس کے سوا حکم "دفنا فتدلیٰ" شب اسرا جومہمان خدا وند زمن
کون ہے جس کو ملا ہے یہ مقام معراج جس کی چوکھٹ بنے اقصا تو فلک ہو آنگن
بال جبرئیلؑ میں پرواز کی طاقت نہ رہے بابِ سدرہ سے اٹھے نور ازل کی چلمن
دیکھ آئے جو کھلی آنکھ سے آیاتِ خدا رہے جس کےلئے باقی کوئی تخمین نہ ظن
ذات اسی کی ہے امام رسلؐ وجن وبشر کیوں نہ ہواس کی اطاعت کےلئے خم گردن
شرق الانوار میں ہے وہ دیار خوش بخت جس پہ اس مہر ہدایت کی پڑی ایک کرن
جس نے اپنایا دستور جہاں بانی کا منبع فیض بنا ہے وہ خداداد وطن
جس پھول زمین پر بھی کھلائے گئے قرآن کے گلاب نکہت افروز ہوئے اس میں حدیثوں کے سمن
جہاں لہرایا ہے محبوبؐ خدا کا پرچم وہ زمین بن کر رہی رشدوہدیٰ کا مسکن
اس کا آئین سکون مدنیت کا امیں جس میں ہر خورد کلاں چین سے بیٹھے ایمن
رہے محفوظ وہ خاتون بھی زیور سے لدی تن تنہا جو بخارا سے چلے تابہ یمن
بلدہ امن واماں ارض حرم اس کے طفیل شہر ا س کا ہے کہ اک جہاں کا مامن
اسی کی برکت سے سرفراز ہوئی آل ذبیحؑ " غیر زی زرع،بیاباں میں کھلائے جو چمن
اس کے یاروں کو خدا نے یہ بشارت دی ہے ان کو لاحق ہے کوئی خوف نہ رنج اور محن
کیوں نہ ہو قلب میں تقویت ایماں ویقین جب وہ صدیق (رضی اللہ عنہ) سے ارشاد کرے "لاتحزن"
سر ہتھیلی پہ لئے پھرتے تھے اس کے جانباز وہ جو فرمائے تو قربان کریں تن من دھن
ہر مصیبت کو دل وجان سے وہ راحت جانیں کوہ د ریا ہوں مقابل میں کہ ہوں دشت وومن
جو محب اس کا ہے اللہ کا ہے وہ محبوب لاکھ وہ رنگ کا اود ہو زباں کا الکن
جو ان اوصاف کے حامل تھے جہانگیر ہوئے ان کی ٹھوکر میں رہے چین وبخارا وختن
جاں نثار اس کے رہے تاجوروں سے افضل اس کا دستور دساتیر جہاں سے احسن
ان کی ہیبت سے مٹی بعل وہبل کی عظمت وہی جانباز بنے کفر شکن دیو افگن!
دین اس کا ہے جہاں بھر کے لئے دین مبیں اس کے فرماں میں کوئی شک ہے نہ کوئی الجھن
اس کا فرقان مجید ایسا کہ اس کے ہوتے صحف نو ہیں مکرم نہ اساطیر کہن!
اے دل زاروزبوں ا س کی عطاؤں پہ لپک اس کا انعام ہر انعام سے ہے مستحسن
حذر ا س قول وعمل سے ہو وہ کتنا ہی حسیں جس پہ اللہ کا محبوبؐ لگا دے قدغن
ہے مرے گلکدہ نطق میں خوشبو اسکی اس کے پر توسے شبسشان سخن ہے روشن
ہے نہاں خانہ دل ا س کی ولا سے معمور مجھ پہ حاوی نہیں معمورہ عالم کے فتن
میں ر واداد نہیں غیر کی طاعت کا علیم
ساتھ قرآن کے مجھے بس ہیں محمدؐ کی سنن