مراسلات (بسلسلہ روح،عذاب ِقبر اور سماع موتیٰ)

(سماع موتیٰ سے یکسر انکار کرنے والوں کےبعد اب سماع موتیٰ کے قائلین کی طرف سے اعتراضات کی باری آئی۔اس سلسلے میں چوہدری محمد علی صاحب حنفی(پکا ڈیرہ ورائچاں کوٹ رنجیت ضلع شیخو پورہ) کی طرف سے ادارہ محدث کے نام ایک طویل ترین خط موصول ہوا۔جو خط سے زیادہ مضمون کی حیثیت رکھتا ہے۔اور ساتھ ہی آخر میں یہ آرزو کی گئی ہے کہ:
"آخر میں میں اُمید کرتا ہوں کہ ادارہ"محدث" جو کتاب وسنت کی روشنی میں آزادانہ بحث وتحقیق کا حامی ہے تصویر کا دوسرا رخ بھی شائع کرنے کی زحمت گوارا کر ے گا۔تاکہ"محدث" کا مطالعہ کرنے والے حق وباطل کوخود پرکھ سکیں۔"
یہ خط یا مضمون فل سکیپ کے مکمل دس صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔تحریر گنجان ہے جو محدث کے کم وبیش 25 صفحات کا متقاضی ہے۔
پھر اسی قدر یا اس سے کچھ زیادہ صفحات جواب کے لئے بھی درکارتھے۔اب یہ تو ظاہر ہےکہ 48 صفحات پرمشتمل ایک ماہوار رسالہ ایک قسط میں تو یہ سب کچھ شائع نہ کرسکتا تھا۔اور اگر  ایک قسط میں صرف یہ خط یا مضمون شائع کیا جاتا اور اگلے پرچے میں جوابات دیئے جاتے تو قارئین کو تقابل میں دقت محسوس ہوتی۔ااور اگر خط کا محض خلاصہ میں اپنی طر ف سے پیش کرکے اس کے جوابات قلمبند کردیتا۔تو مضمون نگار کی طرف سے اعتراضات کی گنجائش باقی رہتی۔لہذا مضمون نگار کی آرزو کا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے میں نے یہی مناسب سمجھا کہ اس مکمل خط یا مضمون کو بایں صورت شائع کیا جائے۔کہ پہلے اس کا ایک حصہ من وعن نقل کردیا جائے۔پھر اس کا جواب لکھ دیا جائے۔اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اگر یہ مضمون بمعہ  جوابات دو یا تین اقساط میں بھی شائع ہو توقارئین وارد شدہ اعتراضات کے ساتھ ساتھ ان کے جوابات بھی ملاحظہ فرماسکیں گے۔جواب لکھنے میں میں نے حتیٰ الوسع اختصار سے کام لیا ہے۔اور صرف ان باتوں کا  جواب دیا گیا ہے۔جن کا جواب دینا ضروری تھا۔ اور جن پر حواشی کے نشانات لگا دیئے گئے ہیں۔پھر اسی ترتیب سے ان کا جواب بھی لکھا گیا ہے۔جبکہ (اصل مضمون کامن وعن شائع کرنا اس لئے ضروری تھا کہ صاحب مضمون کو یہ حسرت نہ رہ جائے کہ ان کا مضمون قطع وبرید کے ساتھ یاتوڑ مروڑ کر شائع کیاگیا ہے ۔(عبدالرحمٰن کیلانی)
سماع موتیٰ ۔تصویر کا دوسرا رخ
مکرمی ایڈیٹر صاحب ماہنامہ "محدث"لاہور
سلام مسنون! چند ماہ سے آپ  کے ر سالہ"محدث" کا باقاعدگی سے مطالعہ کررہا ہوں۔اور محدث میں چھپنے والے معیاری علمی مضامین سے کافی متاثر ہوں۔
اس وقت میرے سامنے آپ کے ماہنامہ"محدث" بابت ماہ دسمبر 1983ء ماہ جنوری 1984ء کے شمارے ہیں۔جن میں جناب عبدالرحمٰن کیلانی صاحب کا مضمون "روح" عذاب قبر،سماع موتیٰ،قسط وارشائع ہوا ہے۔جس میں کیلانی صاحب نے قائلین سماع کے دلائل سے  مجرمانہ سلوک کیا ہے۔اسی سلوک نے مجھے آپ کو خط لکھنے کا حوصلہ بخشا ہے۔تاکہ کیلانی صاحب کو ان حقائق سے روشناس کرایاجائے جنھیں مولانا موصوف نے جان بوجھ کر نظر انداز کیا ہے۔
مولانا کیلانی صاحب نے قرآن مجید کی چند آیات اور چند احادیث کے حوالہ سے جو رائے قائم کی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ:
سماع موتیٰ ایک تحقیقی مسئلہ ہی نہیں بلکہ شرک کاچور دروازہ ہے۔(گویا قائلین سماع مشرک ہیں۔1)
غائب شدہ بزرگوں کو پکارنا ان کی عبادت کے مترادف ہے۔غیب یا فوت شدہ بزرگ کسی کی پکار کا جواب دیناتو درکنار ان کی بات بھی نہیں سن سکتے۔قبروں میں پڑے ہوئے لوگ زندہ نہیں بلکہ بے جان اور مردہ ہیں۔اور انھیں اپنی ذات کے متعلق بھی کچھ علم نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے؟
اس مسئلہ میں قرن اول میں اختلاف موجودتھا۔حضرت قتادہ اور حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ   رضی اللہ تعالیٰ عنہا    سماع موتیٰ کے منکر تھے۔قلیب بدر والی حدیث حضرت صدیقہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا    کے نزدیک صحیح نہیں۔(2)۔جن احادیث میں سماع موتیٰ ثابت ہوتا ہے۔وہ  تیسرے اور چوتھے درجہ کی ہیں۔جو قابل احتجاج نہیں ہوتیں۔جوتوں کی چاپ سننے والی حدیث کا مطلب یہ ہے کہ میت کو احساس دلایا جاتا ہے کہ جن عزیز واقارب کی وجہ سے تو مارا مارا  پھرتا تھا وہ تجھے تنہا چھوڑ کر  جارہے ہیں۔اس کے علاوہ اسے کچھ سنائی نہیں دیتا۔
یہ جو حدیث میں آیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ"اللہ  میری روح کو لوٹاتا ہے۔حتیٰ کہ میں اس سلام کا جواب دیتا ہوں مسلمان مجھ پر سلام بھیجتا ہے۔الخ
اس سے  یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم ا پنی قبر مبارک میں زندہ نہیں جیسا کہ عام مسلمانوں کا عقیدہ ہے۔اگر زندہ ہو ں تو روح کے لوٹائے جانے کا کچھ مطلب نہیں نکل سکتا۔
قرآن مجید سماع موتیٰ کی پرزور  تردید کرتا ہے۔ضعیف،وضعی احادیث سماع موتیٰ کا جواز مہیا کرتی ہیں۔اماموں اور بزرگوں کی روایات سب خرافات ہیں۔انہیں ماننا گویا قرآن وسنت سے دستبردار ہونا ہے۔
مولانا کیلانی صاحب نے اکابر مفسرین پراعتماد کرنے کی بجائے من مانے نتائج اخذ کیے ہیں۔اور ا گر اعتماد کیا ہے۔تو مولانا مودودی صاحب پر گویا کیلانی صاحب نے جو تشریحات کی ہیں اور مولانا مودودی  صاحب نے جو کچھ لکھا ہے قرآن وسنت کا منشاء بھی یہی ہے۔
مولانا مودودی نے ایک سوال کے جواب میں لکھا ہے کہ" میں نے دین کو ماضی وحال کے اشخاص سے سمجھنے کے بجائے ہمیشہ قرآن وسنت سے سمجھنے کی کوشش کی ہے اس لئے کبھی یہ معلوم کرنے کے لئے کہ خدا کا دین مجھ سے اور ہر مومن سے کیا چاہتا ہے۔یہ دیکھنے کی کوشش نہیں کی کہ فلاں فلاں بزرگ کیا کہتے اور کرتے ہیں۔(رواداد اجتماع)
کیلانی صاحب نے اس مفہوم کو یوں ادا کیا ہے کہ "اللہ کا شکر ہے کہ اہل حدیث نہ کسی امام کا مقلد ہے۔نہ علامہ کا وہ ان بزرگوں سے استفادہ تو کرسکتا ہے مگر روشنی  براہ راست قرآن وسنت سے حاصل کرتا ہے۔"
الزام یہ نہیں کہ مولانا مودودی  صاحب قرآن وسنت کو دین کا مآخذ کیوں سمجھتے  تھے۔اور کیلانی صاحب کیوں سمجھتے ہیں؟بلکہ اعتراض یہ ہے کہ ماضی کے اشخاص اور بزرگوں میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  سے تابعینؒ ۔تبع تابعینؒ۔ائمہ مجتہدینؒ۔مفسرینؒ ومحدثینؒ سب آجاتے ہیں۔بقول علامہ ارشد القادری(مصنف "زلزلہ") (یہ وہ لوگ ہیں) جن کی مشترک اور متوارث کوششوں سے دین اپنی واضح اور مفصل تشریحات کے ساتھ ہم تک  پہنچا ہے۔لیکن نہ مولانا مودودی صاحب کو ان بزرگوں کی فکر ودیانت پر اعتماد تھا اور نہ کیلانی صاحب کو ہے۔یہ سب کی رائے ٹھکرا کر اپنی برتری منوانا چاہتے ہیں۔
یہ صحیح ہے کہ قرآن سنت ہی دین کا اصل مآخذ ہے لیکن بحث الفاظ وعبارات میں نہیں ان کے مفہوم ومعانی میں ہے۔(14)اور ظاہر ہے کہ مفہوم کے تعین میں فہم ہی کو دخل ہے۔اور جب اکابر امت کا فہم مولانا مودودی صاحب کے نزدیک قابل اعتبار نہیں تھا۔اور جناب کیلانی صاحب کے نزدیک نہیں ہے تو خود ان کے فہم پر کوئی کیسے اعتماد کرسکتا ہے؟
قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی آئی ہے:
"اس امت کے  پچھلے،اگلوں پر لعن طعن کریں گے۔(5)(ترمذی جلد دوم)
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ"بڑی جماعت کی پیروی کرو"یعنی جس طرف اکثر علماء ہوں!۔ جبکہ کیلانی  صاحب پچھلوں کی تحریروں کو مرود ٹھہرا کر صحیح تشریحات کو اپنی اور اپنے چند ہم خیالوں کی تحریروں میں مقید سمجھے ہوئے ہیں۔
آخر ایسا مسئلہ جس پر اکابر علماء امت کا اجماع ہوچکا ہو کی مخالفت کرنا کونسی دین خدمت ہے جبکہ سماع موتیٰ کے باب میں اکابر  علماء نے بھی قرآن وسنت ہی سے استدلال کیا ہو۔
شیخ عبدالحق (8)محدث دہلوی ؒ لکھتے ہیں:
"بالجملہ کتاب وسنت مملوومشحون اندکہ دلالت می کند بروجود علم موتیٰ راہدنیا واہل دنیا پس منکر نشود آں راجا ہل باخبار ومنکردین۔"(الشعۃ اللمعات شرح مشکواۃ جلد سومص401)
ترجمہ۔مختصر یہ کہ کتاب وسنت ایسے دلائل سے بھر پور ہیں جو اموات میں دنیا واہل دنیا کے علم ومعرفت اور احساس وشعور پردلالت کرتے ہیں۔لہذا سماع اموات کا منکر صرف وہ شخص ہوسکتا ہے جو اخبار وروایات سے بے خبر ہو یا پھر ضروریات دین کا منکر !"
حضرت سراج الہند مولانا شاہ عبدلعزیز ابن شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں:
"بالجملہ انکار شعور وادراک اموات اگر کفر نبا شد در الحاد بودن اوشبہ نیست"
ترجمہ۔؛"مختصر یہ کہ اگر اموات کے احساس (8) وشعور کا انکار کفر نہ ہو مگر منکر کے الحاد وبے دینی میں شبہ نہیں ہے۔"(چوہدری محمد علی)
الجواب:
1۔میں نے سماع موتیٰ کے قائلین کو کسی جگہ بھی مشرک نہیں کہا۔یہ مولانا محمد علی صاحب کا اپنا خیال ہے۔ میں نے اپنے مضمون میں یہ لکھا تھا کہ حضرت عبداللہ بن عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   سما ع موتیٰ کے قائل تھے۔چنانچہ ایک مستفسر شاہ فاروق ہاشمی صاحب نے پوچھا تھا کہ سماع موتیٰ کے قائلین کے حق میں آپ کیا فتوےٰ د یتے ہیں؟"تو میں نے اس کے جواب میں لکھا تھا کہ" کہ میں کوئی فتویٰ دینے کے حق میں نہیں ہوں البتہ آپ کو یہ مشورہ دوں گا کہ آپ اس سلسلہ میں متشدد نہ ہوں۔"(محدث رمضان 1404ھ ج22 ص310)
۔۔۔رہی یہ بات کہ شرک کا سب سے بڑا چور دروازہ کیسے ہے؟تو اگر بات تو سماع موتیٰ تک محدود رہتی تو اس میں حرج بھی نہ تھا۔مگر جب بات یوں بڑھے کہ مُردے علی الاطلاق سنتے ہیں۔اور ہر آنے والی کی ہر وقت سنتے ہیں۔
پھر صرف سنتے ہی نہیں جواب بھی دیتے ہیں حاجت روائی اور مشکل کشائی بھی کرتے ہیں۔پھر صرف قبر ہی نہیں ہر جگہ سے سن سکتے ہیں۔تو بتلائیے کہ اور شرک کسے کہتے ہیں؟ندا لغیر اللہ اور کیا چیز ہے؟جس کی قرآن پرزور تردید کرتا ہے جبکہ یہ بھی مسلم ہے کہ اللہ کے سوا جتنے بھی معبود ہیں سب باطل ہیں۔
2۔یہ بحث زرا تفصیل سے آگے چل کرآئے گی۔
3۔اب دیکھئے ان بزرگوں کی مشترک اور متوارث کوششوں سے ہی دین شیعہ حضرات کو بھی  پہنچا ہے۔بریلویوں۔قادیانیوں اور اہل حدیثوں کو بھی غرض یہ کہ سب حضرات دین کی تفہیم کے بارے میں اپنے ڈانڈے انہی بزرگوں کے واسطے سے  تابعینؒ اور صحابہ کرام  رضوان اللہ عنھم اجمعین  تک پہنچاتے ہیں۔تو کیا یہ سارے کے سارے فرقے حق پر ہیں؟آخر کونسی دلیل سے آپ اپنے علاوہ دوسروں کے بزرگوں کے فہم کو رد کرسکتے ہیں؟
4۔میں اپنا فہم پہلے بھی بوضاحت پیش کرچکا ہوں۔اور وہ یہ ہے کہ:
1۔قرآن سماع موتیٰ کی پر زور تردید کرتا ہے۔
2۔پھر قرآن ہی سے اللہ تعالیٰ کے مردوں کو سنانے کی استثنائی صورت بھی ثابت ہوتی ہے جس کی تائید بعض احادیث صحیحہ بھی کرتی ہیں۔
3۔موضوع احادیث یا تیسرے اور چوتھے درجہ کی احادیث سماع موتیٰ کا علی الاطلاق جواز ثابت کرتی ہیں۔
4۔بعض بزرگوں کے اقوال صرف سماع موتیٰ تو درکنار اُن مردوں کے  جواب  دینے اور حاجت  روائی اور مشکل کشائی یا تصرف فی الامور کی بھی  پر زور تائید کرتے ہیں جو قرآن کی تعلیم کے صریح خلاف ہیں۔
پھر مجھے قطعاً یہ اصرار نہیں کہ دوسرے لوگ میرے فہم کو قابل اعتماد سمجھیں بلکہ ان کے لئے بھی یہی راہ صواب ہے کہ وہ ہر بات کو کتاب وسنت پر پیش کرنے کے بعد ہی کسی بات کو درست یا نا درست قرار دیں۔
5۔لعن  طعن کرنا اور بات ہے ان کی عزت وتعظیم کرنا اور بات اور ان کے اقوال وارشادات کو قابل اتباع اور حجت سمجھنا اور بات ہے۔لعن طعن کرنے والے تو شیعہ حضرات ہیں۔جو علی الاعلان صحابہ کرام  رضوان اللہ عنھم اجمعین  پر ت برا بولتے ہیں۔یا پھر خارجی ناصبی رافضی وغیرہ ہیں۔جو  علی الاعلان لعن طعن نہ بھی کریں تاہم ان کے منہ سے ان بزرگوں کے حق میں کلمہ خیر کم ہی نکلتا ہے۔ان کے علاوہ مسلمانوں کے جتنے فرقے ہیں۔میرے خیال میں ان میں سے کوئی بھی بزرگوں پر لعن طعن نہیں کرتا۔صحابہ کرام  رضوان اللہ عنھم اجمعین  اور تابعین ؒ تو درکنار،ہم تو ائمہ کرام کو بھی قابل تعظیم اور  ان کی کوششوں کو مستحسن سمجھتے ہیں لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان میں سے ہر ایک کی ہر ایک بات کو ہم من وعن تسلیم کرلیں۔جبکہ ہمارے پاس ایک معیار موجود ہے۔ کہ دین کی ہر ایک بات کو کتاب وسنت پر پیش کیا جانا  چاہیے۔اب اگر کسی بزرگ کی بات اس میعار پر پوری نہ اترنے کی وجہ سے ناقابل قبول سمجھی جائے تو اس سے لعن طعن کا کونسا پہلو نکلتا ہے؟اس بات کو میں ایک مثال سے سمجھاؤں گا۔
امام نسائی ؒ نے اپنی سنن (کتاب الحج) میں مروان بن حکم سے روایت کی کہ میں حضرت عثمان  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کے پاس بیٹھتا تھا انہوں نے حضرت  علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کو عمرہ اور حج دونوں(یعنی حج قرآن) کی لبیک کہتے ہوئے سنا تو حضرت عثمان  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے حضرت علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کو اس سے منع فرمایا اس پر حضرت علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے جواب دیا کہ:
"میں تمہارے قول کے مقابلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو نہیں چھوڑ سکتا۔"
غور فرمائیے!حضرت  عثمان  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   اپنے دور خلافت میں حضرت علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کو حکماً اس بات سے منع کرتے ہیں۔(جس کی وجہ یہ تھی کہ آ پ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کو پہلے سے اس کا علم نہ تھا) لیکن حضرت علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے آپ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کے قول کی کوئی پرواہ نہ کی تو پھر دوسرے ائمہ کرام یا بزرگان دین کس شمار وقطار میں ہیں؟
اس طرح حضرت عبداللہ بن عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے اپنے والد محترم سے حج تمتع کے بارے میں اختلاف کیا۔اورحضرت عمر فاروق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   سے کہا کہ " میں تو آپ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول سناتا ہوں اور آپ اپنی بات کرتے ہیں ۔غرض یہ کہ ایسی مثالیں دور صحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین  میں کافی مل جاتی ہیں۔
اب ہم نہیں سمجھتے کہ حضرت علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کا حضرت عثمان  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کو اورحضرت ابن عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کا حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کو یہ جواب لعن طعن کیسے کہلاسکتا ہے؟
اب ان ائمہ کرام اور بزرگان دین کی مشترک اور متوارث کوششوں کا دوسرا پہلو بھی سامنےلائیے۔ان حضرات کی ہر بات کو قابل اتباع سمجھنے کا دوسرا نام تقلید آبادء یا آباء پرستی ہے۔جسے قرآن کریم نے بہت سے مقامات پر مردود قرا ردیا ہے۔
یہودونصاریٰ کےیہی ائمہ کرام اور بزرگان دین تھے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا:"انہوں نے علماء اور مشائخ کو اللہ تعالیٰ کےسوا رب بنا لیا تھا۔"
اس آیت سے متعلق جب عدی بن حاتم  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   ۔۔۔جو پہلے عیسائی تھے۔نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ"یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!"ہم اپنے علماء مشائخ کو رب تو نہیں سمجھتے تھے۔"تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا۔"کیا تم ان کے بتلائے ہوئے حلال کو حلال،اور حرام کو حرام نہیں سمجھتے تھے؟"عدی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   بن حاتم نے جواب دیا۔"ہاں یہ بات تو تھی"تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،"رب بنانےکایہ مطلب ہے۔"(ترمذی ،ابواب التفسیر سورۃ توبہ)
گویا یہودونصاریٰ کی غلطی یہ تھی کہ وہ بھی یہی سمجھتے تھے کہ یہ بزرگان دین اور ائمہ کرام شریعت کو ہم سے بہتر سمجھتے اور ہم سے بہت زیادہ نیک اور متقی تھے۔لہذا وہ دین کی باتوں کو شریعت کے اصل مآخذ پر پیش کرنے کی بجائے انہی بزرگوں اور ائمہ کرام کے اقوال وارشادات کو قابل اتباع سمجھ لیتے تھے اور کہتے تھے کہ دین  ہمیں انہی بزرگان دین کی مشترک اور متوارث کوششوں سے پہنچا ہے۔
اور تیسری قابل غور بات یہ ہے کہ دین میں جب کبھی بھی بگاڑ پیدا ہوا ہے۔توانہی ائمہ کرام اور مشائخ عظام کے اقوال وارشادات کو حجت اور واجب اتباع سمجھنے کی وجہ سے ہوا ہے۔کیونکہ یہی بات فرقہ پرستی کی بنیاد بنتی ہے۔کسی شاعر نے کہا ہے۔"یعنی دین کو تباہ وبرباد کرنے والے تین ہی گروہ ہوسکتے ہیں۔بادشاہ علماء سوء اور بزرگان دین۔"
اسی لئے امام مالک ؒ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی طرف اشارہ کرکے فرمایاکرتے تھے:
"صرف یہی وہ ہستی ہے جس ک کسی بات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔باقی رہے دوسرے لوگ تو ان کی باتوں کو قبول بھی کیا جاسکتا ہے اور رد بھی۔
اور امام بخاری ؒ نے تو "کتاب الاعتصام بالسنۃ" میں ایک مستقل باب  باندھا ہے جس کا عنوان ہے۔
"آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک بات کی جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر انکار نہ کریں تو یہ حجت ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی اور کی تقریر حجت نہیں۔"
6۔"بڑی جماعت یا سواد اعظم سے موصوف نے"اکثر علماء" مراد لی ہے۔اگر ان کا یہ مفہوم درست کہاجائے تو یہ بات بھی کوئی پسندیدہ چیز نہیں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
'اے ایمان والو!علماء مشائخ کی اکثریت ایسی ہے جو ناحق لوگوں کےھ مال کھاتے اور اللہ کی راہ سے روکتے  ہیں۔"
گویا علماء مشائخ کی اکثریت خدائی احکام کی غلط تعبیر پیش کرکے ایک تو لوگوں سے پیسے بٹورتی ہے۔اور دوسرے شریعت کی راہ میں روک بنا جاتی ہے۔اور رہبان یعنی مشائخ عظام یا بزرگان دین کے متعلق بھی بالوضاحت فرمایا کہ:"ان میں سے اکثر فاسق ہوتے ہیں"
ان آیات کی روشنی میں محض علماء کی اکثریت کو کیسے واجب الاتباع قرار دیا جاسکتا ہے۔؟
7۔سماع موتیٰ کے مسئلہ پر اجماع تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  میں بھی ثابت نہیں کیا جاسکتا تو پھر آپ کو نسے اکابر علماء امت کو اجماع کی بات کرتے ہیں؟ علاوہ ازیں ہم پہلے مرعاۃ شرح مشکواۃ ج2 ص505 کے حوالہ سے بتلا چکے ہیں کہ صرف ایک عبد اللہ بن عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   سماع موتیٰ کو درست سمجھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر آکر سلام کہتے تھے دوسرے کسی صحابی سے یہ عمل ثابت نہیں۔
8۔شیخ عبدالحق محدث دہلوی ہی وہ محدث ہیں جنھوں نے سماع موتیٰ کو بنیاد بنا کر "صلواۃ غوثیہ "پاپیران پیر کی نماز" تک جائز اور درست  تسلیم کیا ہے۔آپ  فرماتے ہیں:
"آپ(سید عبدالقادر جیلانی) نے فرمایا کہ جو شخص دو رکعت نماز پڑھے۔ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد گیارہ مرتبہ سورۃ اخلاص پڑھے اور سلام کے بعد سرکار پر درود بھیجے اور میرا نام لے کر اللہ سے دعا مانگے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے حاجت براری کرے گا۔(ایک روایت میں ہے کہ گیارہ قدم عراق کی جانب چل کر میر انام لے کر دعا مانگے لیکن یہ روایت ثابت نہیں ہے)۔"(اخبار الاخیار مصنفہ عبدالحق محدث دہلوی۔مترجم اردو سبحان محمود ص 149۔150 نیز دیکھیے سیرۃ غوث الثقلین مصنفہ ضیاء اللہ قادری ص242)
غور فرمایئے۔محدث صاحب کے اس پورے بیان میں صرف آخری ایک ر وایت ثابت نہیں باقی سب کچھ بلاشک وشبہ  تحقیق شدہ ہے۔اور یہ بات ہے بھی قرین قیاس کہ جہاں ہزاروں میل کا فاصلہ ہو وہاں صرف گیارہ قدم جانب عراق (بٖغداد جو شیخ جیلانی کا مولد ومدفن ہے) چلنے یا نہ چلنے سے بھی کیا فرق پڑتا ہے؟پر عراق کی جانب(رُخ) تلاش کرنے سے بھی اس روایت کی بے ثبوتی نے آزاد کردیا۔
اب ایک طرف تو اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:"(اے اللہ!)ہم صرف  تیری ہی عبادت کرتے اور تجھی سے مدد چاہتے ہیں۔"اور دوسری طرف عبدالحق محدث صاحب کا یہ تحقیق شدہ بیان ہے ان میں مناسبت وموافقت آپ خود ملاحظہ فرمالیجئے۔محدث صاحب نے جن بلند پایہ مراجع سے تحقیق فرمائی ہے وہ یہ ہیں:
بہجۃ الاسرار قلائد زبدۃ الآثار نزہۃ الخاطر للفاتر اورتفریح الخاطر۔
دیکھئے ان میں کوئی بھی حدیث کی کتاب ہے؟۔۔۔یہ ہے اکثر علماء کے اقوال کو واجب الاتباع سمجھنے کانتیجہ!
8۔اموات کے احساس وشعور سے کسے انکار ہے؟اگر ان میں احساس وشعور نہ ہو تو قبر کاعذاب کیسے ہوسکتا ہے اور اموات جنت کے فوائد سے کیسے مستفید ہوسکتے ہیں؟لیکن اس احساس وشعور سے یہ کب لازم آتا ہے کہ وہ اہل دنیا کی باتیں بھی سن سکتے ہیں؟اسی عالم دنیا میں ایک سویا ہوا شخص پاس  بیٹھے ہوئے آدمیوں کی گفتگو نہیں سن سکتا تو دوسرے عالم یعنی عالم برزخ میں پہنچا ہوا شخص اس عالم دنیا کی باتیں کیونکر سن سکتا ہے؟بایں ہمہ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سویا ہوا شخص احساس وشعور رکھتا ہے ۔اور اسی احساس وشعور کی وجہ سے خواب میں چلتا پھرتا باتیں کرتا اور سنتا ہے۔(جاری ہے)