سیاست و معاشرت

ابو محمد کنیت ہے۔ احمد بن سعید بن حزم بن غالب بن صالح نام ہے۔ (1) پیدائش: 384ھ (2) جبکہ وفات: 456ھ (3) کی ہے۔
ان کے متعلق علماء کی آراء
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کی جلالتِ علمی اور عظمت ذات کا اعتراف کیا ہے۔ (4) ابن خلکان رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں۔ "ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ علوم حدیث اور فقہ کے امام تھے۔ (5) اخلاق فاضلہ کے مالک تھے" سعید الافغانی اور منتصر الکتانی کے نزدیک "ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھا" (6) خیرالدین الزرکلی رحمۃ اللہ علیہ کے مطابق "ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کتاب و سنت کے ماہر تھے۔ حق گو اور بے باک تھے" انہی کے بارے میں یہ مقولہ بھی منقول ہے لسان ابن حزم و سيف الحجاج شقيقان (7) کہ "ابن حزم کی زبان اور حجاج بن یوسف کی تلوار سگی بہنیں ہیں"
امام ذھبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں "ابن حزم بہت بڑے عالم اور مجتہد تھے" (8) عمر رضا کحالہ لکھتے ہیں: "ابن حزم فقیہ، ادیب، ماہر اصول، محدث، حافظ اور تاریخ دان تھے" (9)
ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کی کثرتِ تالیفات
مورخین کا اس پر اتفاق ہے کہ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ اہل اسلام میں سب سے زیادہ تصنیف کرنے والوں میں ہیں۔ اس تاریخی حقیقت کی تائید ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد صاعد اور ان کے صاجزادے فضل بن حزم نے کی ہے۔ صاعد نے فضل سے یہ روایت کی ہے کہ فقہ، حدیث، اصول، مِلَل و نحل (ادیان) تاریخ، فلسفہ، ادب، مخالفین پر رد کے سلسلے میں حافظ ابن حزم کی کتابوں کی تعداد چار سو جلدوں تک پہنچتی ہے جو تقریبا 80 ہزار اوراق پر مشتمل ہیں۔ (10)
ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک سیاسی فکر
ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے سیاسی فکر کے بہت سے قضیوں پر تاریخی و تشریعی اور کلامی پہلو سے بحث کی ہے۔ جن قضیوں کا ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے تحقیق و تجزیہ کیا ہے اور اسلام کے سیاسی فکر سے جن کا بڑا تعلق و ربط رہا ہے وہ حکم و ثالث اور کبیرہ گناہوں کے مرتکب کے بارے میں خوارج کے نظریات و خیالات ہیں۔ نیز امور سیاست میں صحابہ کے درمیان ایک دوسرے پر فضیلت کے معاملہ میں اور اسلام کے نظام خلافت اور اس کے متعلق ولایت و قضاء نیز حقوق و واجبات وغیرہ جیسے مسائل ہیں شیعہ سنی وغیرہ جیسے فرقوں کے نظریات و خیالات پر بھی آپ نے تحقیق و تنقید کی ہے۔
مذہبِ خوارج کے بارے میں ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کی رائے
حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان واقعہ تحکیم اور اس سلسلے میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے فیصلے نے اسلام تاریخ میں سیاسی نظریات والے فرقوں کے ظہور کی داغ بیل ڈالی۔ یہ بات سب سے پہلے اس وقت ہوئی جب کہ واقعہ تحکیم کے نتیجہ میں ایک گروہ (اس گروہ کو خوارج کہا جاتا ہے) نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کا ساتھ چھوڑ دیا۔ کیونکہ یہ کام اس گروہ کی خواہش نفس کت مطابق نہیں ہوا تھا ان کا نعرہ تھا "لا حكم الا لله" (11) (اللہ کے علاوہ کسی کا قانون و حکم ماننے کے لائق نہیں) اس نعرہ کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ان کا نعرہ حق ہے مگر مقصود باطل ہے۔ "كلمة حق اريد به الباطل" ۔۔۔ ان خوارج کے بارے میں ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
"خوارج سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قتال ایک کافی و وافی فتح ہے۔ لوگوں کو خوارج کے اس طریقِ کار سے اس قدر خوف و دہشت، قتل و غارت گری لاحق ہوئی جو مجہول (غیر معروف) نہیں۔ اسے کیوں کر فتح نہ کہا جائے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فتنہ سے خود ڈرایا تھا۔" (12)

دوسری طرف ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے مرتکبِ کبیرہ کے بارے میں خوارج کی رائے کی مخالفت کی ہے ان خوارج کی اکثریت کی رائے ہے کہ مرتکب کبائر کافر ہے، مسلمان نہیں۔ (13)

ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کا موقف یہ ہے کہ

"ایک یا ایک سے زیادہ کبیرہ گناہوں کا جو مرتکب توبہ کئے بغیر مر گیا اس کے بارے میں موازنہ کا حکم ہے چنانچہ جس کی نیکیاں گناہوں کے بالمقابل وزنی نہیں، اس کے سارے کبیرہ گناہ اور برائیاں ساقط قرار پائیں گی اور ایسا شخص اہل جنت میں سے ہے، داخل جہنم نہیں ہو گا۔ اگر شخص مذکور کی نیکیاں کبیرہ گناہوں اور بدیوں کے برابر نہیں تو وہ اعراف والوں میں سے ہے اور جن لوگوں کے کبیرہ گناہ اور برائیاں نیکیوں پر بھاری ہیں ان کو نیکیوں کے بالمقابل جس قدر برائیاں بھاری ہوں۔ اس کے مطابق سزا ملے گی" (14)

سیاسی اعتبار سے مذکورہ بالا رائے کی قیمت و حیثیت یہ ہے کہ اس سے اس کشادگی کا فاصلہ اور دائرہ واضح ہو جاتا ہے جس میں اسلامی حکومت ہوا کرتی ہے اور یہ پتہ چلتا ہے کہ دارالاسلام میں کبیرہ گناہوں کا مرتکب داخل ہو سکتا ہے یا نہیں ۔۔ حاصل یہ ہے کہ اپنے مخالفین کی تکفیر کے سلسلے میں خوارج کا موقف سیاسی معاملات میں قابل قبول ہے یا نہیں؟ ۔۔ میری رائے یہ ہے کہ اس معاملہ میں ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کا نظریہ خارجی و معتزلی فرقوں کے نظریات کے بالمقابل اسلامی فکر کی روح سے قریب تر ہے۔

صحابہ کے درمیان مفاضلہ

مفاضلة بين الصحابة (صحابہ کو ایک دوسرے سے افضل قرار دینا) کے متعلق ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کے افکار کا خلاصہ یوں ہے۔ (15)

1۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں سب سے افضل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا و خدیجہ رضی اللہ عنہا ہیں۔

2۔ خلفاء راشدین ترتیب خلافت کے مطابق ایک دوسرے سے افضل ہیں۔

3۔ مہاجرین اولین

4۔ بیعت عقبہ والے صحابہ

5۔ اہل بدر

6۔ غزوات میں شریک ہونے والے صحابہ

7۔ تابعین عظام

8۔ تمام عجمی و عربی مسلمان

حکومت اور نظامِ حکومت کے سلسلے میں ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کا نظریہ

ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک "امارتِ عامہ" فرض لازم ہے اور اُمت پر ایک ایسے امام عادل کی اطاعت واجب ہے جو لوگوں میں اللہ کے احکام قائم کرے اور قوانین شریعت کے مطابق نظام چلائے۔ (16) امت کے لئے یہ جائز نہیں کہ تین دن سے زیادہ امام کے انتخاب میں تردد سے کام لے۔ خلیفہ کی بیعت کے بغیر کوئی مر جائے تو اس کی موت جاہلیت پر ہو گی۔ (17) امامتِ عامہ کا واجب ہونا نقلی اور عقلی دلیلوں سے ثابت ہے۔ نقلی دلائل میں سے ایک دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے:

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ﴾

عقلی دلیل یہ ہے کہ لوگوں کے درمیان جھگڑوں اور ظلم ختم کر کے انصاف فراہم کرنے کے لئے کسی ایک کو ذمہ دار اور بااختیار بنائے بغیر ممکن نہیں۔ (18)

شرائطِ امامت

دوسرے ائمہ کی طرح ابن حزم کے نزدیک بھی امامت (امارت) کے لئے درج ذیل شروط ہیں۔ عاقل، بالغ، مرد، فاضل، فرائض کا پابند، متقی، نزم مزاج، عالم، اچھی سیاست و اُمرا اور احکام نافذ کرنے میں قوت رکھنے والے وغیرہ (19)

امام (خلیفہ) کا انتخاب

ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک انتخاب خلیفہ کے تین طریقے ہیں:

1۔ سب سے افضل طریقہ ان کے نزدیک یہ ہے کہ مرنے والا خلیفہ اپنی موت کے بعد کسی کو خلافت کے لئے ولی عہد بنا جائے۔ (20)

2،3۔ دوسرا اور تیسرا طریقہ انتخاب یہ ہے کہ خلیفہ ولی عہد بنائے بغیر مر جائے اور اس کے بعد خلافت کی پوری شرطیں رکھنے والا شخص آگے بڑھ کر اپنی بیعت کی طرف دعوت دے جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کیا تھا یا کہ خلیفہ وقت اپنی موت سے پہلے کسی فرد یا جماعت کو انتخاب خلیفہ کا ذمہ دار بنا جائے جیسا کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کیا تھا۔ (21)

ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے ولی عہد بنانے کے طریقے کو آزادانہ انتخاب پر ترجیح دی ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ آپ اموی حکومت خصوص اندلس کی اموی حکومت کے طریق کار سے متاثر ہوئے ہوں۔ ظاہری ہونے کے باوجود یہ موقف اختیار حیرت انگیز ہے۔ حالانکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو اپنا خلیفہ نامزد نہیں فرمایا۔

اسلامی حکومت کی غرض و غایت اور اس کی اہم باتیں

ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک خلیفہ پر اسلامی حکومت کے اہداف و مقاصد کو بروئے کار لانے کی نیز اس کی خارجہ پالیسی اور دوسری حکومتوں کے ساتھ روابط نیز داخلی امور کے انتظامات کو درست رکھنے کی ذمہ داری ہے تاکہ جماعت اور لوگوں کی معاشی حالت ٹھیک رہے۔

ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بالاجمال خلیفہ کے دس واجبات ہیں:

1۔ دین کے اصولِ مقررہ اور اجماعِ سلف کے مطابق دین کی حفاظت

2۔ جھگڑا کرنے والوں کے درمیان احکام کا نفاذ اور نزاع کرنے والوں کے درمیان قطع نزاع

3۔لوگوں کی عزت، مال اور جان کی حفاظت

4۔ حدوداللہ کا نفاذ

5۔ دشمنوں سے محفوظ رہنے کے لئے سرحدوں کی حفاظت اور استعدادِ جہاد۔

6۔ دعوت و تبلیغ کے بعد بھی انکار کرنے والوں کے خلاف مسلح جہاد

7۔ شرعی قواعد کے مطابق صدقات (زکوۃ) اور مال فئی کی وصولی۔

8۔ بیت المال کا انتظام و انصرام

9۔ امین، دیانتدار اور باصلاحیت لوگوں کو مناسب عہدوں پر فائز کرنا۔

10۔ خلیفہ بذات خود معاملات کی نگرانی کرے اور احوال کی تحقیق و چھان بین بھی تاکہ قوم کے لئے درست پالیسی اور صحیح حفاظت کا اہتمام کیا جا سکے۔ (22) "تلك عشرة كاملة"

ان اجمالی نکات کے بعد ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک خلیفہ پر ضروری ہے کہ ہفتہ میں ایک دن مقرر کرے کہ وہ سوار ہو کر لوگوں میں گشت کرے تاکہ اسے عوام الناس دیکھیں۔ ہفتہ کے بقیہ چھ دنوں کو امور و معاملات کی دیکھ بھال اور اہل علم و اہل حل و عقد کے ساتھ مجالست کرنے اور مشورہ وغیرہ لینے کے لئے خاص کرے۔

رات میں اپنے بال بچوں اور اہل عیال و ازواج کے لئے فارغ رہے، اسی طرح اپنے وزراء باعظمت قضاۃ، علماء و اطباء اور اصحاب قلم میں سے بنائے۔ نماز کا ذمہ دار ایسے شخص کو بنائے جو قاری قرآن اور عالم احکام ہو۔ جب کوئی پیچیدہ معاملہ پیش آئے تو اس سلسلے میں اپنے اصحاب، حکام اور فوجیوں سے مشورے لے۔

خلیفہ کے لئے جاوسی (کسی کے خلاف) کرنے کی اجازت نہیں۔ اگر کوئی شخص کھلم کھلا حدود کو پامال کرتا ہو تو اس کے خلاف مناسب کاروائی کرے۔ نظام ڈاک کا انتظام و انصرام کرے۔

خلیفہ ملک کے تمام اطراف و جوانب میں زکوۃ وصول کرنے والے ایسے عمال بھیجے جو احکام زکوۃ کے عالم ہوں۔ خراج کے لئے حاکم مقرر کرے اور تمام امور کے لئے حکام عمال مقرر کرے یعنی نماز، حدود، عدالتی امور، لشکر و فوج، پولیس، کوتوال وغیرہ اسی طرح خلیفہ پر ضرور ہے کہ وہ اپنا ایک دیانتدار اور ماہر خزانچی مقرر کرے۔ نیز اسلحہ کا بھی ایک مسئول (ذمہ دار) ہونا چاہئے، میراث کے معاملات کا ایک ناظر (نگران) ہونا چاہئے۔

خلیفہ پر ضروری ہے کہ بدکاروں اور دوسرے مجرموں کے لئے مناسب جیل خانے بنوائیں اور عورتوں کے لئے الگ جیل خانہ بنوائیں۔

نماز کے علاوہ مذکورہ بالا تمام محکموں میں عورت کو نگران بنانا ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک جائز ہے۔ خلیفہ عورت نہیں بن سکتی، اس لئے کہ ان کے نزدیک مرد ہونا خلیفہ کی شروط میں شامل ہے۔

ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ غلام کو عدالت کا حاکم بنانے کو جائز قرار دیتے ہیں۔ اس کے لیے دورِ خلفاءِ راشدین کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔(23)

ایک خلیفہ کو معزول کر کے دوسرے کی تقرری

ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ اپنے پرفتن دور طوائف الملوکی کے زمانے کو پیش نظر رکھ کر خصوصا شاھان طوائف کے متعلق لکھتے ہیں:

"یہ لوگ خائن و بدکار ہیں۔ لوگوں کے مال پر ڈاکہ زنی سے پرہیز نہیں کرتے، مسلمانوں پر ٹیکس، خراج اور جزیہ عائد کرتے ہیں اور ٹیکس اور جزیہ وصول کرنے کے لئے راستوں کے اہم مقامات پر یہودیوں کو مقرر کرتے ہیں" (24)

خلیفہ اگر درست راستے پر نہ آئے اور کتاب و سنت کی مخالفت کرے تو "العنف الدموى" (سخت خون ریزی) کی اجازت ہے۔ اگر خلفاء کتاب و سنت کے مطابق ہم پر حکومت کریں تو ان کی اطاعت ضروری ہے۔ (25)

حکمرانوں کے خلاف مقابلہ مشکل ہو تو ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نرم رویہ اختیار کرنے کی ترغیب دلاتے ہیں:

(ا)ان حکمرانوں سے ظلم و زیادتی سرزد ہو جائے تو انہیں خطاب کر کے نصیحت کی جائے۔ (26)

(ب) اگر بذریعہ خطاب نصیحت ممکن نہ ہو اس کی کم از کم مذمت کی جائے۔ مدح و تعریف سے باز رہے۔ (27)

(ج) اگر یہ طریقہ بھی ممکن نہ ہو تو کم از کم دل سے نفرت کرے۔ (28)

(د) نافرمان حکمران کی زبان یا ہاتھ سے مدد نہ کی جائے۔

(ھ) اگر ان سے معاملہ داری کرنا ضروری ہو تو صرف اضطراری حد تک گنجائش ہے جس طرح یہودونصاریٰ کے ساتھ معاملہ داری پر اضطراری صورت میں کر سکتے ہیں۔ (29)

دوسری حکومتوں کے ساتھ سرکاری تعلقات

دور جدید میں جس کو "العلاقات الدولیۃ" یعنی دوسرے ممالک سے تعلقات اور خارجہ پالیسی کہا جاتا ہے، اس سے متعلق متعدد معاملات پر ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے حل نکالنے کی تجویز دی ہے:

(ا)ابن ھزم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک زمین پر بسنے والے ہر مومن و کافر کے لئے اسلامی قانون لازم ہے۔ دلیل کے لئے قرآنی آیات سے استدلال کیا ہے۔ جیسے اللہ کا ارشاد ہے: وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِّلنَّاسِ (سورۃ السبا: 34) "آپ کو ہم نے تمام لوگوں کے لئے بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے۔" ان کے خیال کے مطابق کفار بھی شرائع اسلام کے مکلف ہیں مگر عبادت کی قبولیت کے لئے شرط اسلام ہے۔ بغیر اسلام کے عبادات قابل قبول نہیں مثلا نماز، روزہ، حج وغیرہ (30)

(ب) ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مشرکین کے ساتھ وہی معاہدے صحیح ہیں جو اسلامی تعلیمات کے مطابق ہوں چنانچہ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مشرکین مکہ کے ساتھ رسول اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے جو صلح کی تھی۔ اس کی ان دفعات کو قرآن مجید نے منسوخ قرار دے دیا تھا۔ دلیل کے لئے اللہ کا یہ فرمان پیش کیا ہے:

﴿فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلَا تَرْجِعُوهُنَّ إِلَى الْكُفَّارِ﴾ (سورہ ممتحنہ: 10) یعنی اگر تمہیں وہ مومنہ عورتیں معلوم ہوں تو انہیں کفار کی طرف واپس مت کرو۔"

جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد و پیمان کو فسخ کیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کے لئے کون ہے جو دین کے خلاف کسی شرط کو جائز قرار دے۔

اسی طرح نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی ہے کہ

"لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ ایسی شرطیں کرتے ہیں جو کتاب اللہ میں نہیں ہیں۔ جو شرط کتاب اللہ میں نہیں ہے وہ باطل ہے خواہ سینکڑوں شرطیں ہوں، اللہ کی شرط سب سے زیادہ مضبوط ہے اور اللہ کی کتاب سب سے زیادہ برحق ہے۔"

(ج) مشرکین کے خلاف جنگ کے معاملہ میں عام فقہاء کی طرح ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ بھی اسلامی آدابِ جنگ کو ملحوظ خاطر رکھنے کے قائل ہیں۔ چنانچہ آپ کے نزدیک جنگلات کو تباہ کرنا جائز نہیں۔ صرف ضرورت پڑنے پر مشرکین کے باغات وغیرہ نذر آتش کرنے کی اجازت ہے۔ جیسا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر یہود کے باغات نذر آتش کرا دئیے تھے۔ (31)

حافظ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک کفار کی عورتوں اور نابالغ بچوں کا قتل جائز نہیں لیکن اگر وہ مسلمانوں سے قتال کریں تو انہیں قتل کرنے کی اجازت ہے۔ (32)

ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دارلاحرب میں جہاد کے علاوہ یا قیدی کا خط و پیغام پہنچانے کے علاوہ کسی اور مقصد سے جانا جائز نہیں۔ (33)

ان کے نزدیک کسی مسلمان قیدی کا فدیہ صرف مال ہو سکتا ہے یا کافر قیدی۔ (34)

خارجہ پالیسی اور دوسری حکومتوں سے روابط کے متعلق جن احکام کی تائید یا تنقید کے سلسلے میں امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ زیادہ تر کتاب و سنت کے قریب تر ہے۔

امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک قرآنی نصوص کے خلاف مشرکین سے ہونے والے معاہدوں کو باطل قرار دینے کے سلسلہ میں دراصل ان پالیسیوں پر تنقید کی گئی ہے جن پر شاھانِ طوائف اپنے زمانہ حکومت میں کاربند تھے۔ یہ لوگ اپنی حکومت کی حفاظت کے خاطر شاھانِ نصاریٰ سے دارالاسلام کے حساب پر معاہدے کر ڈالتے تھے۔

خلافت و غیر خلافت سے متعلق ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کے بعض سیاسی نظریات سے ہم اختلاف کر سکتے ہیں۔ لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے بعض ایسے جدید نظریات پیش کئے جو اسلام کے سیاسی فکر میں اثر انداز ہوئے۔ ان نظریات میں علمی استقلال اور آزادانہ اجتہاد کی روح بالکل ظاہر ہے۔

علاوہ ازیں امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے جن سیاسی موضوعات سے تعرض کیا ان کے تمام نقطہ ہائے نظر پر کافی و وافی تفصیل موصوف نے پیش کی ہے۔

دوسروں کے آراء کو پیش کرنے میں حسب عادت موصوف انصاف سے کام لیتے ہیں۔

موصوف مختصر نویسی کے بجائے طوالت و تفصیل کو ہمیشہ ترجیح دیتے ہیں اور مخالفین کی ہر ہر دلیل پر اپنی تیز و تند زبان میں نقاش و جرح و قدح کرتے ہیں۔ (34)

اپنی اس امانت دارانہ پیش کش کے ذریعے موصوف امام ابن ھزم رحمۃ اللہ علیہ نے سیاستِ اسلام (السیاسۃ الشرعیہ) کے میدان فکر میں ایک دوسرا بڑا احسان بھی کر ڈالا ہے۔

"رحمہ اللہ تعالیٰ رحمۃ واسعۃ و غفراللہ لہ"

حاشیہ جات

1۔ صاعد: طبقات الامم، بیروت، 1912ء، ص75 ۔۔۔ 2۔ طبقات الامم، ص77 ۔۔۔ 3۔ الحمیدی: جذوۃ المقتبس (الدارالمصریہ، 1966ء) ص 8،3، طبقات الامم، ص 77 ۔۔۔ 4۔ المقری: نفح الطیب (دارالکتاب العربی، بیروت، 1367ھ) 2/283 ۔۔۔ 5۔ وفیات الاعیان (دار صادر، بیروت، 1970ء) 3/325 ۔۔۔ 6۔ ابن حزم الاندسلی (المطبعہ الھاشمیہ، دمشق، 1359ھ) ص 41 ومعجم فقہ ابن حزم (دارالفکر، دمشق 1966ء) مقدمہ ص 13 ۔۔۔ 7۔الاعلام (مصر) 5/32 ۔۔۔ 8۔تذکرۃ الحفاظ (احیاء التراث العربی، بیروت، 1377ھ) 3/1153 ۔۔۔ 9۔ معجم المولفین (مطبعہ الترفی، دمشق، 1378ھ) 7/16 ۔۔۔ 10۔ طبقات الامم، ص 102، نفخ الطیب، 2/283 (بتحقیق محی الدین) ۔۔۔ 11۔ ڈاکٹر محمد سلیم: النطام السیاسی للدولہ الاسلامیہ (مصر، 1975ء) ص 68 ۔۔۔ 12۔ ابن حزم: جوامع السیرۃ (مصر) ص 340 ۔۔۔ 13۔ ابوزھرۃ: ابن ھزم رحمۃ اللہ علیہ حیاتہ و عصرہ (مطبعہ مخیمر) ص 237-238 ۔۔۔ 14۔ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ: الفصل فی الملل والنحل (موسسہ الکاطبی، القاھرہ) 4/45-46 ۔۔۔ 15۔ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ: نقطہ العروس (القاھرہ، 1951ء) ص 173 الفصل، 4/112 ۔۔۔ 16۔ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ: الفصل، 4/87 ۔۔۔ 17۔ التانی: معجم فقہ ابن حزم، ص 337 ۔۔۔ 18۔ شذرات من کتاب السیاسہ بتحقیق محمد ابراہیم الکتانی مجلہ تطوان عدد 5 الی 19۔ الفصل، 4/88 ۔۔۔ 20۔الفصل، 4/169-170، النظریات السیاسہ الاسلامیہ 1 ص 21197۔ بلا سیوث: ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ فی قرطبہ، ص 89، الفصل، 4/171 ۔۔۔ 22۔ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ: شذرات فی کتاب السیاسہ بتحقیق محمد ابراہیم الکتانی حجلہ تطون۔ عدد 5-1960، ص 3-4-5-6-7 ۔۔۔ 23۔ایضا ۔۔۔ 24۔ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ: رسالہ التلخیص لوجوہ التلخیص، ص 173-174 ۔۔۔ 25۔ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ: الفصل، 4/167-176 ۔۔۔ 26۔ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ: الفصل، 4/176 ۔۔۔ 27۔ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ: رسالہ التلخیص، 174 ۔۔۔ 28۔ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ: رسالہ التلخیص، 174 ۔۔۔ 29۔ایضا ۔۔۔ 30۔ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ: الاحکام، 5/678-679 ۔۔۔ 31۔ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ:المحلی بتحقیق زیدان، 7/467 ۔۔۔ 32۔ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ: المحلی بتحقیق زیدان، 7/472 ۔۔۔ 33۔ معجم فقہ ابن حزم، ص 349 ۔۔۔ 34۔ابوزھرۃ: ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ، ص 240