قرآءاتِ سبعہ و عشرہ ۔۔۔ فسانہ یا حقیقت
حدیث نمبر 5
امام ترمذی اپنی جامع ترمذی اور امام احمد اپنی مسند میں اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ
"لَقِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جِبْرِيلَ فَقَالَ : " يَا جِبْرِيلُ ، إِنِّي بُعِثْتُ إِلَى أُمَّةٍ أُمِّيِّينَ ، مِنْهُمُ الْعَجُوزُ وَالشَّيْخُ الْكَبِيرُ ، وَالْغُلَامُ وَالْجَارِيَةُ وَالرَّجُلُ الَّذِي لَمْ يَقْرَأْ كِتَابًا قَطُّ ، قَالَ : " يَا مُحَمَّدُ ، إِنَّ الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ "
"حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جبریل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: "اے جبریل! میں ایسی امت کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں جو اَن پڑھ (لوگوں پر مشتمل) ہے، ان میں سے کوئی بوڑھا ہے اور کوئی بہت زیادہ سن رسیدہ بھی ہے، کوئی لڑکا ہے اور کوئی لڑکی ہے، کوئی ایسا آدمی ہے جس نے کبھی کوئی تحریر (یا کتاب) نہیں پڑھی۔ تو جبریل نے جواب دیا کہ اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم قرآن سات حروف پر نازل کیا گیا ہے۔
یہ روایت تو امام ترمذی نے بیان کی ہے۔ امام احمد اور ابوداؤد کی روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں کہ جبریل علیہ السلام نے مزید فرمایا کہ
"قرآن جن حروف پر نازل ہوا ہے، وہ سب کے سب شافی اور کافی ہیں۔"
یعنی ان میں سے کسی قسم کی گمراہی کا خطرہ نہیں ہے جس طرح ایک حرف کے مطابق قرآن کا پڑھنا شافی اور کافی ہے اسی طرح باقی چھ بھی ۔۔۔ کسی حرف کی تلاوت کرنے سے اس بات کا خطرہ نہیں کہ قرآن کا اصل منشا اور مفہوم بدل جائے۔
سنن نسائی کی روایت میں یہ لفظ بھی آئے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
"حضرت جبریل اور میکائیل میرے پاس آئے۔ جبریل میری دائیں طرف بیٹھے اور میکائیل میری بائیں طرف۔ پھر حضرت جبریل نے مجھے کہا کہ قرآن مجید ایک حرف پر پڑھاؤ۔ حضرت میکائیل نے مجھے کہا کہ ایک اور حرف پر پڑھنے کی اجازت مانگئے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں اجازت مانگتا گیا یہاں تک کہ سات حرفوں پر پڑھنے کی اجازت دے دی گئی جو کہ شافی اور کافی ہیں۔"
اس حدیث میں ایک تو قراءات کا وحی الہیٰ ہونا ثابت ہوا، دوسرا حروف کی تعداد سات معلوم ہئی۔ تیسرا امت کی آسانی کا خیال رکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عذر پیش کرنا معلوم ہوا کہ میری امت امیین کی ہے۔ اگر قرآن کو ایک ہی طریقے پر پڑھنا پڑا تو ان پر مشقت ہو گی۔
اس حدیث کے بعض طرق میں فمرهم فليقرؤا القرآن على سبعة احرف یعنی "ان کو حکم دیجئے کہ قرآن کو سات حروف پر پڑھیں" کے الفاظ بھی وارد ہوئے ہیں جس سے مزید یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان قرآءات کے پڑھنے کا حکم وجوبی ہے کیونکہ امر بغیر قرینہ صارفہ کے وجوب کے لئے ہوتا ہے جبکہ یہاں کوئی قرینہ بھی صارف نہیں ہے۔ لیکن یہ وجوب ہر ایک کے لئے نہیں بلکہ اتنے اشخاص کے لئے جن کے سیکھنے سے دوسروں سے کفایت ہو جائے یعنی قرآءات کا علم حاصل کرنا فرضِ کفایہ ہے۔
لیکن یہ بات ذہن نشین رہے کہ جس طرح قرآن کا پڑھنا واجب نہیں، عمل ضروری ہے، اسی طرح اس کا عقیدہ رکھنا بھی ضروری ہے کہ یہ منزل من الله ہیں۔ کیونکہ تمام حروف قرآن ہی ہیں۔
حدیث نمبر 6
امام احمد اپنی "مسند" میں ابوقیس مولی عمرو بن العاص سے روایت کرتے ہیں کہ:
" أن رجلا قرأ آية من القرآن فقال له عمرو بن العاص : إنما هي كذا وكذا بغير ما قرأ الرجل فقال الرجل : هكذا أقرأنيها رسول الله صلى الله عليه و سلم فخرجا إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم حتى أتياه فذكرا ذلك له فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إن هذا القرآن نزل على سبعة أحرف بأي ذلك قرأتم أصبتم فلا تمارون في القرآن فإن مراء فيه كفر "
"ابوقیس مولی عمرو بن العاص روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے کسی آیت کو پڑھا تو عمرو بن العاص نے فرمایا کہ یہ آیت تو یوں ہے یعنی جیسے تم نے پڑھی ویسے نہیں ہے تو وہ آدمی کہنے لگا کہ مجھے تو ایسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھائی ہے۔ پھر دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے جب دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو عمرو بن العاص نے معاملہ ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ قرآن سات حروف پر نازل ہوا ہے۔ جو بھی حرف تم پڑھو گے درستگی کو پہنچو گے۔قرآن میں جھگڑا نہ کیا کرو کیونکہ اس میں جھگڑا کرنا کفر ہے۔"
امام ابوعبید فرماتے ہیں کہ حدیث میں دو صحابیوں کا جو اختلاف ذکر ہوا ہے، وہ کوئی تاویل میں اختلاف نہیں تھا۔ بلکہ وہ تو الفاظ کے ردوبدل میں اختلاف تھا جن سے تنوع و تغایر معلوم ہوتا تھا نہ کہ تناقض اور تضاد لیکن دونوں منزل من الله تھے اور صحابیوں کی قراءت کا طریقہ پڑھا جاتا تھا۔ جب ایک نے دوسرے پر اس کے حرف کا انکار کیا تو پھر یہ انکار اس کو کفر سے بچا نہیں سکتا پھر وہ ضرور کفر کا ارتکاب کرے گا۔ کیونکہ اس نے اس حرف کا انکار کیا ہے جو اللہ نے نازل کیا ہے۔ اس لئے حکم صادر فرمایا: ان المرآء فيه كفر
اس حدیث سے ایک تو قرآءات کا وحى من الله ثابت ہوا۔ دوسرا یہ کہ جو بھی قراءت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھائی ہو گی اس کا اعتبار ہو گا کیونکہ تمام قراءتیں انہوں نے صحابہ کو پڑھائیں تھیں تبھی تو صحابی نے کہا تھا کہ أقرأنيها رسول الله صلى الله عليه و سلم
حدیث نمبر 7
امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ اپنی سنن میں اور امام احمد اپنی "مسند" میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ
"ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال نزل القرآن على سبعة احرف، والمراء فى القرآن كفر ثلاث مرات فما عرفتم منه فاعملوا، وما جهلتم منه فردوه الى عالمه اى فتعلموه ممن هو اعلم منكم"
"ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسالتماب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ قرآن سات حروف پر نازل کیا گیا ہے اور قرآن میں جھگڑا کرنا کفر ہے۔ تین مرتبہ یہ کہا۔ پس جو تم ان حروف سے جان لو اس پر عمل کرو اور جس کے بارے تمہیں علم نہ ہو سکے تو اس حرف کو اس کے جاننے والے کی طرف لوٹا دو یعنی جو تم میں سے زیادہ جاننے والا ہے اس سے وہ سیکھ لو۔"
معلوم ہوا کہ اگر تو تمہیں سمجھ آ جائے تو خود بھی پڑھنا اور عمل کرنا اور آگے پہنچانا لیکن اگر تمہاری کم علمی کی وجہ سے سمجھ نہ آ سکے تو پھر اس کم علمی کو انکار کی شکل مت دینا بلکہ کسی عالم کی طرف رجوع کرنا۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ امت میں کافی افراد کے لئے ان حروف (قرآءات) کا عالم ہونا بھی ضروری ہے تاکہ بوقتِ ضرورت اس سے تصدیق و تحقیق کی جا سکے اگر عالم ہونا صحیح نہیں تو پھر الى عالمه کا لغو ہونا صادق آئے گا۔
حدیث نمبر 8
ابن حبان اپنی مسند میں اور حاکم اپنی مستدرک میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ:
" أقرأني رسول الله - صلى الله عليه وسلم - سورة من آل حم، فرحت إلى المسجد فقلت لرجل: اقرأها، فإذا هو يقرأ حروفا ما أقرؤها، فقال: أقرأنيها رسول الله - صلى الله عليه وسلم -، فانطلقت إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم -، فأخبرناه، فتغير وجهه وقال: إنما أهلك من كان قبلكم الاختلاف، ثم أسر إلى علي شيئاً، فقال علي: إن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يأمركم أن يقرأ كل رجل منكم كما علم. قال: فانطلقنا وكل رجل منا يقرأ حروفا لا يقرؤها صاحبه."
"حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حم سے شروع ہونے والی کوئی سورت پڑھائی۔ جب میں مسجد میں گیا تو میں نے ایک آدمی کو وہ سورت پڑھنے کو کہا۔ وہ سورت کو اس انداز سے پڑھنے لگا جس طرح میں نے نہیں پڑھا۔ اور کہنے لگا کہ مجھے یوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھایا تھا۔ چنانچہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلے گئے۔ اور اس معاملے کی خبر دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ غصہ کی وجہ سے متغیر ہو گیا اور فرمانے لگے تم سے پہلے لوگ اختلاف کی وجہ سے ہلاک ہوئے تھے۔ پھر علی رضی اللہ عنہ سے کوئی بات کہی تو علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسالتماب صلی اللہ علیہ وسلم حکم فرما رہے ہیں کہ تم میں سے ہر کوئی اسی طرح پڑھے جس طرح وہ سکھایا گیا ہے۔ پھر ابن مسعود فرماتے ہیں کہ ہم چلے گئے اور ہم میں سے ایک شخص ان حروف کی قراءت کرتا تھا جن کی اس کا ساتھی نہیں کرتا تھا۔"
اس حدیث سے ایک تو قرآءات کا وحی ہونا ثابت ہوتا ہے دوسرا یہ کہ ہر قراءت کی صحابہ کو تعلیم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خود ثابت ہوتی ہے اور تیسرا یہ کہ اس کے بارے اختلاف کرنے کو ہلاکت کا موجب قرار دیا ہے۔
یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم مختلف قراءتیں پڑھتے تھے۔ گویا کہ ان کو روز مرہ بنایا ہوا تھا کسی ایک قراءت کو نہیں پڑھتے تھے بلکہ مختلف پڑھتے تھے، اپنے علاقہ کے اعتبار سے اور جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائی ہوئی تھی۔
حدیث نمبر 9
طبرانی اپنی معجم میں اور ابن جریر طبری زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ:
" جاء رجل إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فقال: أقرأني ابن مسعود سورة أقرأنيها زيد بن ثابت وأقرأنيها أُبي ابن كعب فاختلفت قراءتهم، فبقراءة أيهم آخذ؟ فسكت رسول الله - صلى الله عليه وسلم -، وعلي إلى جنبه، فقال علي: ليقرأ كل إنسان منكم كما علم، فإنه حسن جميل."
"زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ مجھے ایک سورت ابن مسعود نے پڑھائی اور اسی کو زید بن ثابت نے پھر ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے پڑھایا ہے، لیکن ان تینوں کی قراءت مختلف ہے۔ میں کس کی قراءۃ کو لوں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے اور علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں تھے۔ چنانچہ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم میں ہر ایک جیسے سکھایا گیا ویسے ہی پڑھے۔ یہ ہی اچھا اور بہتر ہے۔"
اس حدیث سے ایک تو یہ ثابت ہوا کہ ان کا وجود صحابہ کے دور میں تھا اور جو صحابہ کے دور میں ہو اور نبی حیات ہوں وہ غیر شریعت نہیں ہو سکتا گویا کہ وہ قرآن تھا جس کو پڑھتے اور پڑھاتے تھے۔ دوسرا یہ کہ کبار صحابہ مختلف قراءتیں پڑھتے تھے۔ تیسرے یہ کہ ہر قراءۃ میں تلقی لازمی ہے جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ نے سیکھا اور صحابہ سے تابعین نے وهلم جرا ۔۔۔ اس سے قرآءات کا مفتریات سے ہونے کا اعتراض بھی لغو ثابت ہو گیا۔
حدیث نمبر 10
امام احمد اپنی مسند میں حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ:
"لقى رسول الله جبريل وهو عند احجاز المرى فقال: ان امتك يقرون على سبعة احرف فمن قرا منهم على حرف فليقرا كما عُلِم ولا يرجع عنه"
"حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جبریل آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مری جگہ کے پتھروں کے پاس تھے تو جبریل کہنے لگے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت سات حروف پر قرآن پڑھتی ہے اور پڑھے گی۔ چنانچہ جو بھی کسی حرف پر پڑھے وہ اس طریقے کے مطابق پڑھے جیسے وہ سکھایا گیا ہے اور اس سے مت پھرے۔"
اس حدیث سے ایک تو حیات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں قراءتوں کا ہونا ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ جبریل نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پڑھتی ہے تو وحی کے بغیر پڑھنا صحابہ کے لئے ممکن تھا۔ چنانچہ قراءتوں کا تعلق وحی سے ہوا۔ دوسرا یہ کہ صحابہ ساتوں کے ساتوں حروف پڑھتے ہیں۔ جو ہم کو حدیث کے الفاظ يقرون على سبعة احرف سے معلوم ہوتا ہے لیکن اس کی نوعیت بیان نہیں ہوئی کہ جدا جدا پڑھتے تھے یا پھر سنا رہے ہیں۔ ہاں یہ بات تو متفق علیہ ہے کہ صحابہ ساتوں پڑھتے تھے خواہ جدا جدا پڑھتے ہوں یا پھر سارے کے سارے۔
فوائد الاحادیث
مذکورہ احادیث پر غور کیا جائے تو مندرجہ ذیل فوائد حاصل ہوتے ہیں:
(1)تمام کی تمام قرآءات مساوی ہیں کیونکہ تمام کی تمام حق ہیں۔ یہ فائدہ ہمیں ان فرامین نبویہ اور اقوال سے حاصل ہوا ہے۔
1۔ أيما حرف قرؤوا عليه فقد أصابوا
2۔ فأي ذلك قرأتم أصبتم
3۔اور اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا احسنت کہنا (جیسا کہ بعض روایات میں ہے)
4۔ راوی کا یہ کہنا کہ فحسن النبي صلى الله عليه وسلم شأنهما
5۔ اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ و حضرت ابی رضی اللہ عنہ کے انکار پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اتفاق نہ کرنا جو کہ انہوں نے اپنے ساتھیوں پر کیا تھا۔ اس سے قرآءات کا مساوی ہونا سمجھ میں آتا ہے۔
یہ تمام الفاظ اس امر پر دال ہیں کہ ہر حرف جو منزل من الله ہے، اس کی قراءت جائز ہے۔ اس سے یہ اعتراض بھی دور ہوا کہ روایت حفص اصل اور باقی فروع یا مفتریات ہیں۔
(2) تمام کی تمام قرآءات اختلاف لفظی کے ساتھ منزل من الله ہیں اور تلقی، (مشافہہ کے مستند طریقہ) سے ماخوذ ہیں اور کسی شخص کی رائے کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے۔ کسی کے لئے قطعا یہ جائز نہیں خواہ وہ کہیں بھی رہتا ہو اور کس درجہ کا بھی عالم و متقی ہو کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق قرآن پڑھے ار عبارت میں کوئی معمولی سی بھی تبدیلی کر دے یا مترادف یا مساوی عبارت لے آئے۔یہ فائدہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان اقوال سے معلوم ہوتا ہے:
1۔كذلك اُنزلت
2۔اقرانيها رسول الله
3۔ مختلف صحابہ رضی اللہ عنہم کی مختلف قراءتوں پر آپ کا یوں فرمانا کہ "میں نے ہی ایسے پڑھایا ہے۔"
چنانچہ اگر کسی کے لئے جائز ہوتا کہ وہ جو چاہے پڑھ لے تو قرآن باطل ہو جاتا۔ اس کا اعجاز جاتا رہتا اور الہیٰ فرمان ( إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ) مکمل نہ ہو پاتا۔
(3) مسلمانوں کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ قرآءات کے اختلاف کو مسئلہ نزاع و جدل بنائیں اور نہ تشکیک و تکذیب کا سبب بنائیں کیونکہ قرآن کا وجوہِ مختلفہ پر نازل ہونا تو امت پر رحمت اور آسانی کی وجہ سے ہے۔ چنانچہ اس آدانی کو جدل کے ذریعے تنگی کی طرف لے جانے کا کوئی جواز نہیں۔ یہ فائدہ عمرو بن العاص کی حدیث کے ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے:
1۔ فلا تماروا فى القرآن فان المراء فيه كفر
"تم قرآن کے بارے میں جھگڑو مت کیونکہ اس میں جھگڑنا کفر ہے۔"
2۔ انما اهلك من كان قبلكم الاختلاف
"تم سے پہلے لوگوں کو اسی طرح اختلاف نے ہلاک کر دیا"
3۔ فتغير وجهه
"اس اختلاف پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ متغیر ہو گیا"
4۔ ضرب فى صدر ابى رضى الله عنه و عمر رضى الله عنه
اختلاف کرنے پر "نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر و ابی رضی اللہ عنہما کے سینے پر مارا۔"
(4) حروف سبعہ پر قراءت کی اجازت مکہ میں نہیں بلکہ مدینہ میں حاصل ہوئی کیونکہ حدیث میں ہے کہ "عند اضاءة بنى غفار" اور یہ جگہ مدینہ میں ہے نہ کہ مکہ میں۔ اور اسی طرح صحابہ کا کسی قراءت کے بارے میں مسجد کے اندر اختلاف کرنے سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔ اور یہ بات واضح ہے کہ مسلمانوں کی مسجد مکہ میں نہیں بلکہ مدینہ میں تھی۔
(5) تمام حدیثوں سے پتہ چلتا ہے کہ سات حروف نازل ہوئے۔ اس پر ازخود زیادتی اور کمی نہیں کی جا سکتی ہے۔
سبعہ احرف سے کیا مراد ہے؟
مناسب یہ ہے کہ "علی سبعہ احرف" کی تشریح ہو جائے تاکہ معلوم ہو سکے کہ حروف سے کیا مراد ہے؟ آیا وہ قرآءات ہیں یا پھر کوئی اور چیز؟
لغوی طور پر "حرف" کا لفظ چھ معانی میں استعمال ہوتا ہے:
(1)حافہ (2) ناحیہ (3) وجہ (4) طرف (5) حد (6) کسی چیز کا ٹکڑا۔
حافظ ابو عمرو دانی کے مطابق احرف کے دو معنی ہو سکتے ہیں:
(1)حرف بمعنی وجہ: یہ لغوی معنی کے مطابق ہے یعنی قرآن سات وجوہ پر نازل ہوا ہے اور (وَمِنَ النَّاسِ مَن يَعْبُدُ اللَّـهَ عَلَىٰ حَرْفٍ) بھی اسی معنی سے ہے۔ یعنی "بعض لوگ اللہ کی عبادت ایک وجہ پر کرتے ہیں" پھر آگے اس کی توضیح فرمائی ہے کہ اگر ان کو خیر (نعمت و راحت، مال، عافیت، دعا کی قبولیت وغیرہ) حاصل ہوتی ہے تو ایمان پر جمے رہتے اور عبادت کرتے رہتے ہیں، اور اگر سختی، نقصان اور آزمائش کی حالت پیش آ جاتی ہے تو کفر اختیار کر کے (حرف بمعنی) عبادت چھوڑ دیتے ہیں۔
(2) حرف بمعنی قراءت: حرف کا یہ معنی مجازی ہے۔ اور یہ اس بنا پر کہ عرب کی عادت ہے کہ کبھی کسی شے کا وہ نام بھی رکھ دیتے ہیں جو اس چیز کا جزو یا قریب یا مناسب یا سبب یا اس سے تعلق رکھنے والی چیز کا نام ہو۔ بس چونکہ مختلف قرآءات حروف میں تغیر سے پیدا ہوتی ہیں مثلا حرکات کی تبدیلی،ایک حرف کا دوسرے سے ابدال، تقدیم و تاخیر، امالہ، زیادتی و کمی اس لئے عرب کے استعمال پر اعتماد کرتے ہوئے رسالتماب صلی اللہ علیہ وسلم نے قراءت کو (گو وہ طویل کلام ہو) حرف فرما دیا۔ گویا یہاں کل کے بجائے جزو کا نام استعمال کیا ہے جس کو اصطلاح میں مجاز مرسل کہتے ہیں (یعنی حرف کہہ کر وہ کلمہ قرآنیہ مراد لیا گیا) جس میں خاص قراءت پائی جا رہی ہو۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے (فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ) سے مراد صرف گردن آزاد کرنا نہیں بلکہ پورا غلام آزاد کرنا ہوتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ حدیث میں سبعۃ احرف لفظ کا جو استعمال ہوا ہے، وہ لغوی اعتبار سے وجہ کے معنی میں ہے اور مجازا قراءت کے معنی میں ۔۔۔ لیکن اگر مذکورہ احادیث پر غور کیا جائے تو حرف کی حقیقت واضح تر ہو جاتی ہے:
حروف سے مراد "قرآءت" ہیں
(1)حدیث نمبر 1 میں دیکھیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ہشام کو سنا "يقرا على حروف كثيرة" ۔۔۔ اس کے بعد جب حضرت ہشام نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے پر پڑھنا شروع کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں "فقرا عليه القراءة التى سمعته يقرا" ۔۔۔ اب دیکھیں پہلے جملے میں فرمایا کہ وہ حروف پڑھے تھے۔ بعد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس نے وہ قراءت پڑھی جو میں نے اسے پڑھتے سنا تھا۔ گویا حروف سے مراد انہوں نے قراءت لیا ہے ۔۔۔ اور ہم قراءت کی تعریف میں یہ واضح کر چکے ہیں کہ "عبارة عن اللفظ الاحرف مجموعا" یعنی حروف کے مجموعہ کو قراءۃ کہتے ہیں۔ یہی مراد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس حدیث میں استعمال کی ہے۔ پہلے حروف کہا بعد ازاں دوسرے جملے میں ان حروف کو قراءت سے تعبیر کر دیا۔
(2) اسی طرح حدیث نمبر 4 میں دیکھیں کہ حضرت ابی بن کعب نے "فقرا قراءة انكرتها عليه" کہا ہے۔ حالانکہ نزول تو حروف کا ہوا تھا۔ چونکہ قراءت حروف سے مرکب ہوتی ہے اس لئے قراءت کہہ دیا اور بعد میں بھی اسی لفظ کو دھرایا ہے "ان هذا قرا قراءة، سوى قراءة صاحبه" ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اختلاف تو حروف میں تھا جس کو قراءت کہہ رہے چونکہ حروف کے مجموعہ کو قراءت کہتے ہیں لہذا نہوں نے حروف کو قراءت کہہ دیا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حروف کا تعلق قراءت سے ہے۔ جیسا کہ علامہ دانی نے تعریف میں اس کی وضاحت کر دی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سات حروف پر نازل ہونے کا سبب کیا تھا؟
سات حروف پر نازل ہونے کا سبب ۔۔۔ امت کی سہولت
قرآن مجید کا سات حرف پر نازل ہونے کا سبب امت کو آسانی اور وسعت دینا ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو اعلیٰ ترین کتاب اور اشرف ترین رسول عطا فرما کر سب امتوں پر فوقیت دی۔ اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش، امت کی ضرورت اور اپنی خصوصی رحمت سے امت کے لئے مزید آسانی فرماتے ہوئے قرآن مجید کو سات حروف پر نازل فرمایا۔ چنانچہ احادیث میں گزر چکا ہے کہ جبریل علیہ السلام نے آ کر عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو ایک حرف پر قرآن پڑھائیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ میں اللہ تعالیٰ سے عافیت اور مدد چاہتا ہوں، میری امت اس پر عمل نہیں کر سکے گی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بار بار درخواست کرتے رہے۔ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے سات حروف کی اجازت دے دی۔ نیز صحیح بخاری سے یہ بھی ثابت ہے کہ قرآن سات دروازوں سے سات حروف پر نازل ہوا۔ اور پہلی کتابیں ایک ہی دروازے سے ایک ہی حرف پر نازل ہوتی تھیں۔ اور یہ فرق اس لئے تھا کہ پہلے انبیاء کو صرف ان کی قوم کے لئے بھیجا جاتا تھا اور رسالتماب صلی اللہ علیہ وسلم کو عرب و عجم، سرخ و سفید و سیاہ تمام مخلوق کی طرف بھیجا گیا اور قرآن عرب کی لغت میں نازل ہوا تھا اور عرب کی لغات جدا جدا تھیں۔ زبانیں متفرق تھیں اور ایک لغت والے کو دوسروں کے لغت میں پڑھنا دشوار تھا بلکہ بعض تو پڑھ ہی نہیں سکتے تھے دوسری قوم کے انداز قراءت میں پڑھنا تعلیم و تدبیر سے بھی ممکن نہیں تھا۔ خصوصا بوڑھوں، عورتوں، اَن پڑھ لوگوں کو اور بھی دشواری تھی جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشاد میں اس کی طرف اشارہ فرمایا۔ پس اگر ہر حالت میں یہ حکم ہوتا کہ ایک ہی حرف پر قرآن مجید پڑھا ہے تو یہ ان کی طاقت سے باہر ہوتا یا سخت مشقت درپیش ہو آتی اور طبیعتیں قرآن کی تلاوت سے مشکل محسوس کرتیں۔
چنانچہ ابو محمد عبداللہ بن قتیبہ اپنی کتاب "مشکل" میں کہتے ہیں کہ حق تعالیٰ نے آسانی عطا کرنے کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ "اپنی امت کو ان کی زبان اور عادت کے مطابق الفاظ میں قرآن پڑھائیں۔" چنانچہ اصحاب ھذیل (حتى) کی بجائے (عتى) بولتے تھے اور بنو اسد (تَعْلَمُونَ،تَعْلَمْ ،تَسْوَدُّ وُجُوهٌ،أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ) وغیرہ میں علامتِ مضارع کو کسرہ سے ادا کرتے تھے جبکہ بنی تمیم (يَأْلَمُونَ،شِئْتَ،يُؤْمِنُونَ) وغیرہ میں ہمزہ پڑھتے تھے لیکن قریش اس ہمزہ میں ابدال کرتے اور بعض (قِيلَ لَهُمْ) اور (غِيضَ الْمَاءُ) میں اشمام کرتے تھے۔
اسی طرح (لَا تَأْمَنَّا) میں ادغام اور ضمہ کا اشمام کرتے ۔۔۔ بعض (عَلَيْهِمْ،فِيهِمْ) جبکہ بعض (عليهمو اور منهمو) پڑھتے تھے۔ اسی طرح بعض (قَدْ أَفْلَحَ ،قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ) میں نقل کرتے جبکہ بعض (موسى، عيسى، دنيا) کو امالہ سے، بعض تقلیل، (تھوڑے امالہ) سے پڑھتے تھے۔ اسی طرح بعض ( خَبِيرًا اور بَصِيرًا) کی راء کو ترقیق کے ساتھ اور بعض (الصلوة اور الطلاق) کی لام کو تفخيم سے پڑھتے تھے۔
ابن قتیبہ کہتے ہیں کہ اگر ان حضرات سے ہر گروہ یہ چاہتا کہ وہ اپنی لغت یعنی بچپن، جوانی اور بڑھاپا کی پڑی ہوئی عادت کو چھوڑ دے تو اس میں ان کو بڑی دشواری پیش آتی اور بڑی محنت کرنا پڑتی اور ایسا عرصہ تک مشق کرنے اور زبان کو مسخر کرنے اور عادت کو ترک کرنے کے بعد ممکن ہوتا پس اللہ تعالیٰ نے جس طرح امت کو دین میں آسانی دی تھی اسی طرح اپنے لطف و کرم و انعام سے قرآن مجید کو پڑھنے میں بھی وسعت کر دی۔ تاکہ آسانی ہو جائے اور امت سے رحمت کا معاملہ ہو جائے۔
قرآن مجید سات حروف پر کیوں نازل ہوا؟ کم یا زیادہ پر کیوں نہیں؟
اکثر حضرات کہتے ہیں کہ عرب کے اصل اور بڑے بڑے قبیلے سات ہی تھے یا عرب کی فصیح اور باقاعدہ لغات سات ہی تھیں۔ اسی لئے قرآن مجید سات حروف پر ہی نازل ہوا کم یا زیادہ پر نہیں لیکن یہ محض دعویٰ ہے۔ اسی طرح بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ سبعہ سے سات کا مخصوص عدد مراد نہیں جس میں زیادتی و کمی کی گنجائش نہ ہو بلکہ مراد یہ ہے کہ اس میں وسعت و سہولت دے کر حق تعالیٰ نے مطلقا اجازت دی ہے کہ قرآن مجید کو عرب کی لغات میں سے کسی لغت میں پڑھنا چاہو پڑھ سکتے ہو۔ لیکن شرط یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح پڑھ کر سکھایا ہو۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ عرب کی عادت ہے کہ سبعة، سبعين اور سبع مائة بول کر اس سے معین عدد کی بجائے کثرت مراد لیتے ہیں۔ جیسے قرآن میں بھی استعمال ہوا ہے: (كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ ۔۔۔ إِن تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَن يَغْفِرَ اللَّـهُ لَهُمْ) حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی یہ استعمال موجود ہے: (والجنة الى سبعمائة ضعف الى اضعاف كثيرة) اور (الايمان بضع و سبعون شعبة) اسی قبیل سے ہیں۔ یہ توجیہ بظاہر تو بڑی عمدہ ہے لیکن در حقیقت یہ بھی درست نہیں ہے۔ (جس کی وجہ آگے ذکر ہو گی)
علامہ ابن الجزری فرماتے ہیں کہ میں نے اس حدیث پر 30 سال تک غوروفکر کیا۔ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اس کا ایک مطلب ظاہر فرما دیا اور وہ یہ کہ میں نے تمام قرآءات کو تلاش کیا تو ان کے تغیر کو ذیل کی سات انواع سے مزید نہیں پایا۔ انہیں میں نے دیکھا سات قسموں میں سے کسی نہ کسی طرح کا تغیر ہوتا ہے:
(1)حرکات میں تغیر ہو جائے لیکن لفظ کی صورت اور معنی میں کوئی فرق نہ آئے جیسا کہ بالبُخل،بالبَخل
(2) حرکات اور معنی میں تغیر ہو جائے لیکن صورت میں نہ ہو جیسے (فَتَلَقَّىٰ آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ) اور (آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ)
(3) حروف اور صورت میں تغیر ہو جائے لیکن معنی میں نہ ہو۔ جیسا کہ (بصطة) اور (بسطة) اور (الصراط و السراط) میں ہے۔
(4) حروف اور معنی میں تغیر ہو جائے لیکن صورت میں نہ ہو جیسے (تبلوا تتلوا) اور ننجيك ننجيك
(5) حروف و معنی و صورت تینوں ہی میں تغیر ہو جائے جیسے (اشد منكم، اشد منهم) اور (ياتل، يتال)
(6) تقدیم و تاخیر کا تغیر فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ اور فَيَقْتُلُونَ، وَيُقْتَلُونَ
(7) حروف کی زیادتی و کمی کا تغیر ہو واوصى ووصى
آپ مزید کہتے ہیں کہ اصولی اختلافات جیسے اظهار، ادغام، روم، اشمام، تفخيم، ترقيق، مد، قصر، اماله، فتحته، تحقيق، تسهيل، ابدال اور نقل وغیرہ میں لفظ و معنی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی بلکہ صرف کیفیت ہی میں ہوتی ہے اور اگر مان لیں کہ تبدیلی ہوتی ہے تو پھر یہ ان سات میں سے پہلی قسم میں داخل ہوں گے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ علامہ ابوالفضل رازی اور ابن قتیبہ نے بھی قدرے مختلف عناوین سے یہی تشریح مراد لی ہے۔ یعنی انہوں نے بھی سات حروف سے لفظی تغیر مراد لیا کہ جو بھی حرف ہو گا ان تغیرات سے باہر نہیں ہو گا۔
بعض علماء محققین نے اس کی تشریح یوں کی ہے کہ جب ہم قرآءات متواترہ میں تغیرات کا شمار کرتے ہیں تو وہ ان سات صورتوں سے زیادہ ہوتی ہیں اور نہ ہی کم۔ اور وہ صورتیں یہ ہیں:
(1)اسماء میں اختلاف: جو مفرد، تثنيه،جمع اور مبالغہ کے قبیل سے ہو گا۔
جیسا کہ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ (بقرہ) وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ (بقرہ) فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ (مائدہ) اللَّـهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ (انعام) وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ (اعراف) أَن يَعْمُرُوا مَسَاجِدَ اللَّـهِ (توبہ) وَسَيَعْلَمُ الْكُفَّارُ (رعد) إِذَا قِيلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوا فِي الْمَجَالِسِ (مجادلہ) (یہ تمام الفاظ مِسْكِينٍ،كُتُبِهِ،رُسُلِهِ، إِصْرَهُمْ، مَسَاجِدَ، الْكُفَّارُ، الْمَجَالِسِ مفرد و جمع پڑھے گئے ہیں۔ان میں ہر ایک میں دو دو قراءتیں ہیں۔ ایک مفرد کے ساتھ اور دوسری جمع کے ساتھ۔
کبھی اسماء میں تذکیر و تانیث کے اعتبار سے اختلاف ہوتا ہے۔
جیسا کہ وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ کو ولا تقبل منها شفاعة (بقرہ) كَأَن لَّمْ تَكُن بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُ مَوَدَّةٌ کو كان لم تكن بينكم و بينه مودة (نساء) فَإِن يَكُن مِّنكُم مِّائَةٌ (انفال) فان تكن منكم مائة پڑھا گیا ہے۔ اسی طرح کبھی اسماء میں اختلاف مبالغہ کا ہوتا ہے۔ جیسے عالم الغیب کو علام الغیب پڑھا گیا ہے۔
(2) افعال میں اختلاف: افعال میں اکتلاف تصرف و تغیر کے قبیل سے ہوتا ہے۔
جیسا کہ وَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا (بقرہ) کو ومن يطوع خيرا، وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ (بقرہ) کو واتخذا من مقام ابراهيم، قَالَ كَمْ لَبِثْتُمْ کو قل كم لبثتم (مومنون) قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (بقرہ) کو قال اِعلم ان الله على كل شىء قدير پڑھا گیا ہے۔
(3) اعراب کے وجوہ میں اختلاف:
جیسا کہ وَلَا تُسْأَلُ عَنْ أَصْحَابِ الْجَحِيمِ (بقرہ) کو ولا تسئل عن اصحاب الجحيم، إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً (نساء) کو الا ان تكون تجارة، للَّـهِ الَّذِي لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ (ابراہیم) کو الله الذى له ما فى السموات والارض اور فِي لَوْحٍ مَّحْفُوظٍ کو فى لوح محفوظ (بروج) پڑھا گیا ہے۔
(4) زیادتی اور نقص کا اختلاف
جیسا کہ وَسَارِعُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ (آل عمران) کو سارعوا الى مغفرة، وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا (توبہ) کو الذين اتخذوا مسجدا، وَمَا عَمِلَتْهُ أَيْدِيهِمْ (یٰس) کو وما عملت ايديهم، وَفِيهَا مَا تَشْتَهِيهِ الْأَنفُسُ (زخرف) کو وما تشتهى الانفس، فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ (شوریٰ) کو مما كسبت ايديكم، فَإِنَّ اللَّـهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ کو فان الله الغنى الحميد پڑھا گیا ہے۔
(5) تقدیم و تاخیر کا اختلاف:
جیسا کہ وَقَاتَلُوا وَقُتِلُوا (آل عمران) کو وقتلوا وقتلوا، وَنَأَىٰ بِجَانِبِهِ (بنی اسرائیل) کو وناء بجانبه، أَفَلَمْ يَيْأَسِ الَّذِينَ آمَنُوا (رعد) کو افلم يئيس الذين امنوا، اور خِتَامُهُ مِسْكٌ (مطففین) کو ختمه مسك پڑھا گیا ہے۔
(6) ابدال کا اختلاف:
ایک کلمہ کو دوسرے کلمہ کی جگہ بدل دینا:
جیسا کہ هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ (یونس) کو هو الذى ينشركم، وَمَا أَنتَ بِهَادِي الْعُمْيِ (نمل،روم) کو وما انت تهدى العمى، لَنُبَوِّئَنَّهُم مِّنَ الْجَنَّةِ غُرَفًا (عنکبوت) کو (؟)يَقُصُّ الْحَقَّ (انعام) کو يقضى الحق، كَيْفَ نُنشِزُهَا (بقرہ) کو كيف ننشوها، وَالْعَنْهُمْ لَعْنًا كَبِيرًا کو لعنا كثيرا، هُنَالِكَ تَبْلُو كُلُّ نَفْسٍ (یونس) کو هنالك تتلوا كل نفس، وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍ (التکویر) کو بظنين، وَلَا يَخَافُ عُقْبَاهَا (شمس) کو فلا يخاف عقباها پڑھا گیا ہے۔
(7) لہجات میں اختلاف:
جیسا کہ فتحہ، امالہ، اظہار، ادغام، روم، اشمام، تفخیم، ترقیق، تسہیل، تحقیق، ابدال، نقل، تخفیف، اور تشدید اس میں وہ کلمات بھی داخل ہیں جن کی ادائیگی میں قبائل نے اختلاف کیا ہے۔
جیسا کہ خطوات کو خطوات، بيوت کو بِيوت، خفية کو خِفية، يحسِب کو يحسَب، بزعمهم کو بزعمهم، يعزب کو يعزبِ، القسطاس کو القسطاس، يلحدون کو يلحِدون، بالبخل کو بالبَخل، ضعفا کو ضَعفا، شنان کو شنان، يقنط کو يقنِط، فليسحتكم کو فاليسحتكم پڑھا گیا ہے۔
اب آئیے ان اقوال کی روشنی میں درج ذیل عبارت کی مدد سے سمجھتے ہیں کہ سات میں کمی و زیادتی کیوں نہیں؟
حدیث میں آیا ہے کہ جبریل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قرآن کو ایک غرف پر لے کر آئے تو میکائیل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ زیادتی کی درخواست کیجئے۔اس پر اللہ تعالیٰ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لئے آسانی کی درخواست کی۔ پھر وہ دو حروف لے کر آئے۔ میکائیل علیہ السلام نے پھر کہا کہ زیادتی کی درخواست کیجئے۔ سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر آسانی کی درخؤاست کی، پھر تین حروف لے کر آئے۔ اور اسی طرح ہوتا رہا یہاں تک کہ حروف کی تعداد سات تک پہنچ گئی۔
ابوبکرہ کی حدیث میں ہے کہ اس کے بعد میں نے میکائیل علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ خاموش ہو گئے میں نے اس سے سمجھا کہ اب شمار ختم ہو چکا ہے۔ (اس پر زیادتی نہیں ہو گی) پس یہ دلیل ہے کہ معین عدد سات ہے۔
اصل میں اس حدیث سے جو ابوبکرہ نے روایت کی ہے اور دیگر احادیث جن کا مضمون بھی یہی ہے، سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے بعد آپ کا درخواست نہ کرنا اور دل کا مطمئن ہو جانا اس بات پر دال ہے کہ سات کے عدد کو کافی سمجھ لیا۔ ظاہر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اطمینانِ قلب بھی قدرتی حکمت کے تابع ہے گویا اللہ کی مرضی و منشا بھی یہ تھی کہ سات حروف میں قرآن مجید کو نازل کریں۔ اسی لئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کو اطمینان نصیب ہوا تو انہوں نے مزید سوال نہیں کیا تھا۔ دراصل معلوم یہ ہوتا ہے کہ جتنے بھی الہیٰ عظیم افعال ہیں، ان میں خدا نے سات کی رعایت رکھی ہے۔ دیکھیں آسمان سات بنائے تو سات، زمینیں بنائی تو سات، اور ان دونوں کی تکمیل کے بعد ساتویں دن ہی عرش پر مستوی ہوئے۔
اور حدیث میں آتا ہے کہ سات سال کا بچہ ہو جائے تو اس کو نماز کا حکم دو۔ اس لئے کہ وہ یہ مدت ہے کہ جب اس کو بہرصورت اللہ کے ساتھ تعلق جوڑنا چاہئے۔ گویا جتنے بھی بڑے کام، انجام کے اعتبار سے ہوں یا بنفسہ معظم ہوں، اس میں سات کے عدد کی رعایت کی ہے۔ اس طرح برتن میں اگر کتا منہ ڈال دے تو سات بار دھونے کا حکم ہے۔ گویا صفائی یہ بھی اللہ کو چونکہ نہایت ہی پسند ہے، اس میں بھی سات کو پسند فرمایا۔ قرآن مجید کا معاملہ بھی یہی ہے کہ اسے کل کائنات کے لئے نمونہ اور کتاب ہدایت بننا تھا تو اس کو بھی سات حروف پر نازل کیا۔ کمی و زیادتی نہیں کی۔ لیکن اب اگر کوئی قرآن کو ایک حرف پر محصور کر دے تو گویا اس نے اللہ کے حکم اور حکمت کی مخالفت کی جس کا حساب اسے روز حشر اللہ تعالیٰ کے سامنے دینا ہو گا۔
قرآءات کے اختلاف کی حقیقت اور اس کے علمی فوائد
قرآءت کا بظاہر اختلاف تنوع اور تغایر کی قسم سے ہوتا ہے تضاد و تناقض کے قبیل سے نہیں یعنی قرآءت سے طرح طرح کے معانی سامنے آتے ہیں جو ایک دوسرے سے الگ ہونے کے باوجود باہم متضاد اور مخالف نہیں ہوتے کیونکہ کتاب اللہ میں تضاد محال ہے چنانچہ ارشاد خداوندی ہے:
أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ ۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا﴿٨٢﴾
یعنی اگر یہ قرآن اللہ کے علاوہ کسی اور طرف سے ہوتا تو اس میں اختلافِ کثیر ہوتا چنانچہ ناممکن ہے کہ ایک قراءت میں امر ہو اور دوسری میں نہی ہو یا کسی طرح تعارض ہو۔
علامہ جزری فرماتے ہیں کہ تمام قراءتوں کے اختلاف میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مصداق کے اعتبار سے اختلاف کی تین قسمیں ہیں:
اول: یہ کہ لفظ مین تبدیلی ہو جائے لیکن معنی دونوں قراءتوں میں ایک ہی رہے جیسے الصراط، السراط ۔۔۔ علیہِم علیہُم ۔۔۔ القدس، القُدس ۔۔۔ یحسِب، یحسَب
دوم: لفظ اور معنی میں تبدیلی تو ہو جائے لیکن دونوں کا مصداق ایک ہو یعنی دونوں ایک ہی ذات پر صادق آتے ہوں جیسے سورہ فاتحہ میں ملك اور مَلِكِ دونوں اللہ تعالیٰ کی صفتیں ہی ہیں، اس لئے کہ وہ قیامت کے دن کے مالک بھی ہیں اور اس روز کے بادشاہ بھی کیونکہ اس دن سب مجازی سلطنتیں بھی ختم ہو جائیں گی ۔۔۔ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ اور يُكذبون (بقرہ) اس میں دونوں قراءتوں پر فعل کی ضمیر منافقین کے لئے ہے۔ پہلی قراءت کی صورت میں معنی یہ ہوں گے "یہ منافقین اپنے آپ کو مومن بتلانے میں جھوٹ بولتے ہیں" جبکہ دوسری قراءت کے یہ ہوں گے کہ "یہ منافقین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹا بتاتے ہیں" ۔۔۔ كَيْفَ نُنشِزُهَا اور ننشزها (بقرہ) اس میں بھی دونوں قراءتوں میں مفعول کی ضمیر عظم (ہڈیوں) کے لئے ہے جو مونث لفظی ہے چنانچہ پہلی قراءت کے معنی یہ ہوں گے کہ ہڈیوں کو دیکھو ہم ان کو کس طرح ایک دوسرے پر چڑھاتے ہیں حتیٰ کہ وہ سب جُڑ کر ایک ہو جاتی ہیں جبکہ دوسری قراءت کا معنی یہ ہو گا کہ دیکھو ہم ان ہڈیوں میں جان ڈال کر ان کو کس طرح زندہ کر دیتے ہیں۔ پس قراءتوں کے ذریعے دونوں معانی ادا ہو گئے۔
سوم: لفظ و معنی دونوں میں تبدیلی آ جائے اور دونوں کا مصداق بھی جدا جدا ہو لیکن کوئی ایسی توجیہ کرنا ممکن ہو جو دونوں کو متحد کر دے اور تضاد پیدا نہ ہونے پائے۔
مثالیں: وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوا اور كذبوا میں ذال کی تخفیف والی قراءت پر ظن، وہم کے معنی میں ہے اور جمع کی تینوں ضمیریں کفار کے لئے ہیں اور معنی یہ ہیں کہ کفار کو یہ وہم ہو گیا کہ رسولوں نے جو خبریں دی ہیں ان میں ہم سے جھوٹ بولا گیا ہے۔ تشدید کی صورت میں ظن یقین کے معنی میں ہے اور تینوں ضمیریں رسولوں کے لئے ہیں یعنی رسولوں کو اس بات کا یقین ہو گیا کہ اب ان کی قوم نے انہیں پوری طرح جھٹلا دیا ہے۔ ضد اور مخالفت کے سبب اب ان کے ایمان لانے کی کوئی امید نہیں رہی۔
2۔ وَإِن كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُولَ مِنْهُ الْجِبَالُ: پہلی قراءت میں ان نافیہ ہے جو لام نفی کی تاکید کے لئے ہے جبکہ مضارع ان مقدرہ کی بنا پر منصوب ہے۔ اور الجبال سے مجاز کے طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت، دین اسلام اور قرآن مجید مراد ہے یعنی کفار کی تدبیریں تو فی نفسہا بڑی بڑی اور مضبوط تھیں لیکن اس کے باوجود بھی ان کی تدبیر ایسی نہ تھی جن سے پہاڑ (نبوت، قرآن، دین حق) اپنی جگہ سے ہٹ جاتے اور دین الہیٰ مٹ جاتا بلکہ ان کی مخالفت کے باوجود بھی دین حق غالب ہی رہا اور ان کی تدبیریں نیست و نابود ہو گئیں اور دوسری قراءت پر ان مخففه من المثقله ہے اور لتزول کے پہلے لام پر فتحہ ہے اور یہ لام ابتدائیہ ہے جبکہ دوسرے لام کا رفع ہے اور الجبال حقیقی معنی میں ہے پس اس سے یہی ظاہری پہاڑ مراد ہیں یعنی یہ بات یقینی ہے کہ کفار کی تدبیریں اس قدر مضبوط اور سنگین تھیں کہ ان سے پہاڑ بھی اپنی جگہ سے مٹ جاتے لیکن اس کے باوجود وہ دین الہیٰ کو مغلوب نہ کر سکے جو دین اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت پر واضح ترین دلیل ہے۔
3۔ قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ اور علمتُ (اسراء) تاء مفتوحہ کی صورت میں عَلِمْتَ کا فاعل اور مخاطب فرعون ہے یعنی موسیٰ علیہ السلام نے ڈانٹتے ہوئے فرمایا کہ اے فرعون تو خوب جانتا ہے کہ یہ آیات و معجزات حق تعالیٰ نے نازل کیے ہیں۔ پس علم کے باوجود تیرا انکار ضد اور عناد کی بنا پر ہے، شک و شبہ کے طور پر نہیں اور تاء مضمومہ والی قراءت میں فاعل موسیٰ علیہ السلام ہیں اور اس میں فرعون کے قول (إِنَّ رَسُولَكُمُ الَّذِي أُرْسِلَ إِلَيْكُمْ لَمَجْنُونٌ) کا جواب ہے کہ اس نے موسیٰ علیہ السلام کو مجنون کہا تھا۔ پس قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ میں فرمایا کہ مجھے اس بات کا پورا علم ہے کہ یہ احکام و آیات آسمان و زمین کے رب کے نازل کئے ہوئے ہیں۔ اور کیا مجنون عالم ہو سکتا ہے پس عالم کو مجنون کہنے والا خود مرضِ جنون میں گرفتار ہے۔
ان مثالوں پر غور کرنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ ضدیت اور منافات کسی بھی قراءت میں نہیں۔ اگر ہمیں کسی قراءت کی ضدیت کا شبہ ہو تو وہ ہماری ہی کم فہمی اور کم علمی و کم عقلی کا نتیجہ ہے جس سے کلام الہیٰ بالکل بری اور پاک ہے۔ ہر قراءت میں متفقہ مراد کی توجیہ ممکن ہے۔
جو قراءت بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت ہو جائے اس کا ماننا واجب ہے اور اس کو قبول کرنا لازم ہے، اور امت میں سے کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ اس کو رد کرے، اس پر ایمان لانا ضروری ہے۔ اور اس امر پر یقین رکھنا بھی ضروری ہے کہ ہر قراءت حق تعالیٰ کی جانب سے نازل شدہ ہے کیونکہ ہر قراءت کا تعلق دوسری قراءت کے ساتھ ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک آیت کا دوسری آیت کے ساتھ ہے پس ہر آیت اور قراءت جس معنی پر مشتمل ہے اعتقادا بھی اس کی پیروی کرنا ضروری ہے اور عملا بھی اور یہ بھی جائز نہیں کہ دو قراءتوں میں تعارض و مخالفت کا گمان کر کے ایک پر تو عمل کر لیا جائے اور دوسری کے حکم کو نظر انداز کر دینے کا طرز عمل اختیار کیا جائے۔
چنانچہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"لا تختلفوا في القرآن ولا تنازعوا فيه فإنه لا يختلف ولا يتساقط"
"قرآن مجید میں جھگڑا نہ کرو کیونکہ نہ تو اس میں اختلاف کی گنجائش ہے اور نہ کوئی حصہ اس کا حذف ہو سکتا ہے۔"
چنانچہ فقہاء اور قرآء کے اختلاف میں نمایاں فرق یہ ہے کہ فقہاء کا اختلاف اجتہادی ہوتا ہے اور قراء کا اختلاف روایتی ہوتا ہے۔ اس لئے فقہ کی اختلافی وجوہ میں فی الواقعہ ایک ہی صحیح، حق اور راست ہے اور ہر مذہب دوسرے کی نسبت سے درست ہے لیکن خطا کا احتمال رکھتا ہے جبکہ قراءتِ متواترہ کی اختلافی وجوہ میں سے واقع میں ہر ایک صحیح حق اور منزل من اللہ ہے اور کلام الہیٰ ہے جس پر ہم ایمان رکھتے ہیں اور ہمارا اعتقاد ہے کہ جس صحابی رضی اللہ عنہ یا تابعی کی طرف اس کی نسبت ہے اس نے اس کو اسی طرح پڑھا اور اپنا معمول بنا رکھا تھا اور وہ اس کے لئے اضبط و اقرا یعنی اس کو سب سے زیادہ محفوظ رکھتا اور نہایت عمدگی سے پڑھتا تھا اور قراءت کے اماموں اور راویوں کی طرف قرآءات اور روایات کی جو نسبت ہوتی ہے اس کے بھی یہی معنی ہیں کہ قاری یا راوی نے معتبر حضرات سے پڑھ کر ان وجوہ کو اختیار کر کے اپنے لئے لازم کر لیا تھا اور ہمیشہ انہیں وجوہ کو پڑھتا اور پڑھاتا تھا اور لوگوں نے اس سے اسی کو روایت کیا۔ معلوم ہوا کہ قرآءات کی کسی قاری یا صحابی کی طرف نسبت ترتیب، اختیار و لزوم اور ہمیشگی کی وجہ سے ہے اس لئے نہیں کہ انہوں نے ان وجوہ کو اپنے اجتہاد اور رائے سے خود بنا لیا تھا۔ اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف وجوہ پڑھنے والوں میں سے ہر ایک کو احسنت، اصبت اور هكذا انزلت فرما کر درست بتایا تھا۔ حدیث عمر رضی اللہ عنہ گزر چکی ہے کہ حضرت اُبی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے مسجد میں آ کر سورہ نمل پڑھی برخلاف اس کے جیسا کہ میں پڑھتا تھا۔ میں نے پوچھا کہ تجھے یہ سورت کس نے پڑھائی ہے تو کہنے لگا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ۔۔۔ پھر ایک اور شخص آیا اور اس نے بھی سورہ نحل پڑھی اور ہم دونوں کے خلاف تیسری طرح پڑھی میں نے جب اس سے پوچھا تو اس نے بھی وہی جواب دیا جس سے میرے دل میں شک پیدا ہو گیا اور میں ان دونوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سے سن کر فرمایا: احسنت "تو نے اچھی پڑھی" اور دوسرے سے سن کر فرمایا: اصبت "تو درستی کو پہنچا" پھر مجھ سے سن کر فرمایا: هكذا انزلت "یہ سورت اسی طرح نازل کی گئی ہے" اور پھر میرے سینہ پر ہاتھ مارا اور ارشاد فرمایا: اعيذك بالله يا ابى من الشك "اے ابی رضی اللہ عنہ! میں تمہیں شک و شبہ سے اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں۔"
عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ان میں سے جو وجہ بھی پڑھو وہ ہی درست ہے شک نہ کرو کیونکہ ان میں شک کرنا کفر ہے۔
ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جو شخص ایک حرف پڑھے، وہ اس کو ترک کر کے دوسرے کی طرف نہ جائے یعنی کسی وجہ کا انکار نہ کرے۔
قرآءات کے مزید فوائد
1۔ انتہاء درجہ کی بلاغت، کامل درجہ کا اعجاز اور اکمل ترین اختصار ۔۔۔ اس لئے کہ جب ہر قراءت ایک آیت کے مرتبہ میں ہے تو ایک کلمہ کی متعدد قراءتیں کئی آیتوں کے قائم مقام ہوں گی پس اگر ہر قراءت کی بجائے مستقل آیت نازل ہوتی تو ظاہر ہے عبارت بہت ہی طویل ہو جاتی۔
2۔ قرآءات کا اختلاف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور قرآن مجید کی صداقت پر عظیم الشان اور واضح ترین دلیل ہے اس لئے کہ جدا جدا قراءتوں میں طرح طرح کا اختلاف ہوتے ہوئے بھی ضدیت و مخالفت معدوم ہے بلکہ ہر ایک قراءت سے دوسری کی تصدیق و تشریح، تائید و تفسیر ہوتی ہے اور ہر عاقل جانتا ہے کہ یہ صفت اللہ تعالیٰ کے کلام میں ہی ہو سکتی ہے، پس جب قرآن کلام الہیٰ ہے تو جس نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ نازل ہوا وہ بلاشبہ صادق ہے۔
3۔ اسی انتہائی بلاغت و اختصار کے سبب امت کو قرآن مجید کا یاد کرنا اور اس کا نقل کرنا آسان ہو گیا ہے کیونکہ ہر قراءت کے لئے مستقل آیتوں اور جملوں کا یاد کرنا، نقل کرنا دشوار ہے اور ایک ہی کلمہ میں اس کی متعدد قرآءتوں کا یاد کر لینا (بالخصوص جبکہ اس کلمہ کا رسم الخط بھی یکساں ہو) آسان ہے۔
4۔ اسی اختلاف کے سبب امت کے علماء کے اجر و ثواب میں روز افزوں اضافہ ہوتا ہے۔ اس لئے کہ وہ ہر قراءت کے معنی تلاش کرنے اور ہر لفظ کی دلالت سے احکام نکالنے اور پوشیدہ بھیدوں اور اشارات کو ظاہر کرنے میں پوری طرح کوشش کرتے ہیں اور گہری نظر سے توجہ کر کے اپنے علم و فن کے مطابق ہر قراءت کی توجیہ، تعلیل اور اس کے مضمون کی تفصیل بیان کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا دستور ہے کہ وہ محنت و مشقت کے مطابق ہی اجر عطا فرماتے ہیں۔
5۔ اسی سے باقی امتوں کے مقابلے میں امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت اور عظمت ظاہر ہوتی ہے۔ اس لئے کہ اس نے کتاب الہیٰ کو پورے شوق اور کامل توجہ کے ساتھ پڑھا اور پڑھایا، اس کے ایک ایک لفظ کی بحث کی، ایک ایک صیغے کی تحقیق کی۔ اسی کی صحت و درستی کو آشکارا کیا، اس کی تصحیح کو درجہ کمال تک پہنچایا اور کسی گمراہ کو اس میں ادل بدل اور زیادتی و کمی کرنے کا موقع نہیں دیا۔ حرکت، سکون، تفخیم، ترقیق حتی کہ مدات تک کی مقداروں اور امالوں کے تفاوت کو بھی ضبط کیا، غرض اس قدر اہتمام کیا کہ کسی اور امت کا فکر و وہم بھی اس حد تک نہ پہنچ سکا اور توفیق و الہام الہیٰ کے بغیر اس درجہ تک کسی کی رسائی ہو ہی نہیں سکتی۔
فسبحان الله من اصطفهم ووفقهم لحفظ كتابه الجليل و اعطاهم بذلك الاجر الجزيل
6۔ ہر قاری اپنی اختیار کی ہوئی وجوہ کو متصل سند کے ذریعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاتا ہے۔ جس سے اہل باطل کا قلع قمع ہو جاتا ہے اور یہ صرف اسی امت اور اسی کتاب کی خصوصیت ہے۔
7۔ حق سبحانہ و تعالیٰ ہر زمانے میں ایسے اماموں کو موجود رکھتا ہے جو فن میں حجت ہوتے ہیں، اور ان کا وجود صرف قرآءات کی خدمت کے لئے وقف ہوتا ہے، اور وہ طرق و روایات و وجوہ کی تحقیق کرتے رہتے ہیں اور ان کی بقا سے قرآن عظیم لوگوں کے سینوں اور مصاحف میں صحت و درستی کے ساتھ باقی رہتا ہے اور اس سے قدرت الہیٰ کا کرشمہ ظاہر ہوتا ہے کہ اپنی کتاب عظیم کی کس طرح حفاظت فرماتے ہیں۔
علمی فوائد
1۔ متفق علیہ کا اظہار، جیسا کہ سورہ نساء میں أَخٌ أَوْ أُخْتٌ کے بعد، سعد بن ابی وقاص کی قرآئت میں "من اُم" کا لفظ بھی ہے۔ اس سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ یہاں وہ بہن بھائی مراد ہیں جو اخیافی (ماں شریک) ہوں اور اس پر تمام علماء کا اتفاق ہے، اور اسی لئے مسئلہ مشترکہ میں علماء کی رائے مختلف ہے۔ وہ مسئلہ یہ ہے کہ کسی مرنے والے نے چار قسم کے وارث چھوڑے: 1۔ میاں بیوی میں سے کوئی ایک، 2۔ ماں یا دادی یا نانی میں سے کوئی ایک، 4۔ اخیافی بہن بھائی، عینی بھائی بہنوں میں سے ایک یا زائد، چنانچہ اکثر صحابہ رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد والے لوگوں کی رائے میں اخیافی اور عینی دونوں قسم کے بہن بھائی ایک تہائی میں شریک ہوں گے۔ کیونکہ سب ایک ماں سے ہیں۔ اور یہی شافعی رحمۃ اللہ علیہ، مالک رحمۃ اللہ علیہ، اسحاق رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کا مذہب ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی ایک جماعت کی رائے یہ ہے کہ صحیح قرآءت کے ظاہر الفاظ کی بناء پر تہائی حصہ صرف اخیافی بہن بھائیوں کو ملے گا اور عینی بہن بھائی محروم ہونگے یہ موقف امام ابوحنیفہ، ان کے تینوں اصحاب اور احمد بن حنبل اور داؤد ظاہری وغیرہ کا ہے۔ رحمہم اللہ
2۔ مختلف فیہ مسئلہ میں ایک جانب کو ترجیح دینا۔ جیسے قسم کے کفارہ میں جو غلام آزاد کیا جاتا ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کے مذہب میں اس کا مومن ہونا شرط ہے، جبکہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب میں یہ شرط نہیں، بلکہ کافر غلام سے بھی کفارہ ادا ہو جاتا ہے، پس سورہ مائدہ میں وَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ کی قرآءت سے امام شافعی کے مذہب کو ترجیح ہو جاتی ہے اور ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا جواب یہ ہے کہ دوسری قرآءات میں مومنة کا لفظ نہیں ہے اس لئے مطلق کو مقید کرنا مناسب نہیں ہے۔
3۔ دو مختلف حکموں کو جمع کر دینا، جیسے سورہ بقرہ میں حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ اور يطهرن ۔۔۔ پہلے يطهرن میں دو احتمال تھے۔ 1۔یہ کہ خون بند ہو جائے۔ 2۔غسل کر لیں مگر تشدید کی قرآءت نے بتا دیا کہ حیض والی عورت سے صحبت کرنا اس وقت جائز ہے جب دونوں شرطیں پائی جائیں، یعنی خون بھی بند ہو جائے اور غسل بھی کر لیں۔
4۔ مراد کے خلاف دوسرے وہم کو دور کر دینا جو ایک قراءت کے ظاہر سے پیدا ہوتا ہے جیسے سورۃ جمعہ میں (فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّـهِ) کی بجائے (فامضوا الى ذكر الله) ہے چنانچہ دوسری قرآءت نے بتلا دیا کہ پہلی قرآءت سے جو وہم ہوتا ہے کہ اذان کے بعد جمعہ کے لئے لازما دوڑ کر چلنا چاہئے، یہاں یہ معنی مراد نہیں بلکہ صرف چلنا کافی ہے، گو آہستہ ہو کیونکہ زیادہ قدموں کا بھی بڑا ثواب ہے مسجد کی طرف جاتے ہوئے۔
5۔ مشکل لفظ کی تفسیر کر دینا جس میں یہ احتمال ہو کہ سننے والا سمجھ نہ سکے گا، جیسے القارعة میں كَالْعِهْنِ الْمَنفُوشِ کی بجائے كالصوف المنفوش ہے، چنانچہ لفظ موصوف نے بتا دیا کہ عِهْنِ اون کے معنی میں ہے۔
6۔ اہل حق کے لئے حجت اور اہل باطل کی تردید ہو جاتی ہے جیسے سورہ دہر میں ابن کثیر وغیرہ کی قرآءت پر و مَلِكا كببيرا میں میم کا فتحہ اور لام کا کسرہ ہے اور یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آخرت میں مومنین کو اللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب ہو گا۔ جبکہ معتزلہ اس کا انکار کرتے ہیں جو غلط ہے۔
7۔ بعض علماء کے قول کی ترجیح و تقویت کا باعث بن جانا جسے أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ (سورہ نساء) کیونکہ لمس جماع کے معنی بھی دیتا ہے اور چھونے کے بھی۔ چنانچہ سورہ انعام میں ہے فَلَمَسُوهُ بِأَيْدِيهِمْ اى مسوه
8۔ بعض نحویوں کے قول کے صحیح ہونے کی دلیل بنتا ہے جیسے نساء میں به والارحاممیں میم کے جر کی قراءت سے معلوم ہو گیا کہ کوفیین کا یہ قول صحیح ہے کہ ضمیر مجرور کے اعادے کے بغیر عطف کرنا جائز ہے جبکہ بصری اس کو نہیں مانتے۔
9۔ دو قراءتوں سے جدا جدا احکام کا ثبوت مثلا ارجلكم (مائدہ) میں ایک قراءت پر لام کا نصب اور دوسری پر جر ہے۔ پس نصب کی قرآءت کا تقاضا یہ ہے کہ وضو میں پیروں کو دھونا فرض ہو اور جر والی قرآءت کا تقاضا یہ ہے کہ پیروں کا مسح فرض ہو سو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث میں واضح فرما دیا کہ پاؤں کا دھونا تو اس پر فرض ہے جو موزے پہنے ہوئے نہ ہو اور مسح اس کے لئے ہے جس نے موزے پہن رکھے ہوں۔
وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ
یہاں قرآءات کے بعض منکرین یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اگر ارجلِكم کی قرآءت کو تسلیم تو پاؤں کا مسح ماننا پڑے گا حالانکہ سنتِ ثابتہ پاؤں کا دھونا ہے اور دوسرا اس قرآءت کو تسلیم کرنے سے قرآن کا کمال مجروح ہوتا ہے اور عربیت کی رو سے عبارت مسخ ہو جاتی ہے ایسے کہ اگر اس قرآءت کو تسلیم کر لی جائے تو الى الكعبين کی غایت جو مسح کے ساتھ ماننی پڑتی ہے کے کیا معنی ہیں گویا ان الفاظ کو زائد ماننا پڑے گا حالانکہ قرآن اس سے مبرا ہے۔ چنانچہ قرآن کا متن اس قراءت کو قبول نہیں کرتا۔
جواب: مکمل آیت یوں ہے: (إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ)
لفظ ارجلكم میں دو قراءتیں متواتر ہیں:
أَرْجُلَكُمْ: ابن کثیر مکی، ابو عمرو بصری، شعبہ، حمزہ کوفی اور خلف العاشر کی قرآءت ہے۔
ارجلَكم: نافع مدنی، ابن عامر شامی، حفص، کسائی کوفی اور یعقوب بصری کی قرآءت
اگر تو ارجلَكم پڑھیں تو یہ فَاغْسِلُوا کا مفعول بنے گا جس طرح وُجُوهَكُمْ یعنی چہروں کا دھونا ہے اسی طرح پاؤں کا دھونا واضح ہے لیکن اگر ارجلِكم پڑھیں تو "یہ بقول منکرین قرآءات وَامْسَحُوا کا معمول بنے گا جس کا مطلب ہو گا کہ پاؤں پر مسح کرو" لیکن درحقیقت یوں نہیں بلکہ ارجلَكم کے باوجود یہ فَاغْسِلُوا کا معمول ہی رہے گا جس سے پاؤں کا دھونا ہی مراد ہے جہاں تک لام کے مکسور ہونے کا تعلق ہے تو یہ جر بالجوار (پڑوس کی وجہ سے جر کا آجانا) کے قبیل سے ہے کیونکہ اس سے پہلے وُجُوهَكُمْ مجرور ہے تو بالاتباع ارجلِكم بھی مجرور ہو گیا۔
ارجلكم مجرور بجرالجوار ہے
اگر اس تقریر کو مان لیا جائے جو بالکل واضح ہے تو پھر کوئی اشکال باقی نہیں رہتا کیونکہ یہ چیز (جر بالجوار) عرب کلام میں عام ہے، چنانچہ علامہ امین بن محمد المختار شنقیطی اپنی تفسیر اضواء البیان جلد 2 ص 7-9 پر رقمطراز ہیں کہ ارجلِكم جر والی قرآءت کو مجاورت کی بناء پر جر دی گئی ہے۔ حالانکہ یہ محل کے اعتبار سے منصوب ہے اور عرب میں یہ بات عام تھی کہ وہ کلمہ کو مجاورت کی وجہ سے جر دیتے۔ اگرچہ وہ اعرابی لحاظ سے مرفوع یا منصوب کیوں نہ ہو۔
بعض نے اس جر بالجوار کو لحن (غلطی) پر بھی محمول کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی گنجائش صرف ضرورتِ شعری کی بناء پر ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ ان کی غلطی ہے۔ کیونکہ لغت کے ائمہ نے اس کے جواز کی تصریح کی ہے جن میں سے اخفش اور ابوالبقاء وغیرہ بھی ہیں۔ قرآن کریم میں ہی اس کی ایک اور مثال یوں ہے: (عَذَابَ يَوْمٍ أَلِيمٍ) قرآن میں ہی یہاں "أَلِيمٍ" مجرور ہے جو کہ جر بالجوار ہے حالانکہ "أَلِيمٍ" یوم کی صفت نہیں بلکہ عذاب کی صفت ہے جو کہ مرفوع ہے تو لامحالہ اس کو بھی مرفوع ہونا چاہئے کیونکہ صفت موصوف کا اعراب ایک ہوتا ہے لیکن جر بالجوار کی بناء پر "أَلِيمٍ" مجرور ہے جس سے معنی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور یہ عذاب کی ہی صفت ہے۔
اسی طرح قرآن میں (عَذَابَ يَوْمٍ مُّحِيطٍ) میں بھی محیط مجرور ہے بوجہ جر بالجوار۔ مزید دیکھئے (بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَّجِيدٌ ﴿٢١﴾ فِي لَوْحٍ مَّحْفُوظٍ ﴿٢٢﴾) یہاں "محفوظ" ہونا چاہئے تھا لیکن جر بالجوار ہے (اس کی امام قرطبی نے تصریح کی ہے)
قرآن مجید کے علاوہ کلام عرب میں بھی یہ بکثرت مستعمل ہے چنانچہ جحر ضب ضرب (سانڈھے کی بل خراب ہے) یہاں "ضرب" ہونا چاہئے تھا کیونکہ "جحر" کی صفت ہے جو کہ مرفوع ہے ناکہ "ضب" کی صفت ہے لیکن چونکہ یہ جر بالجوار ہے اس لئے مجرور ہے ۔۔۔ کلام عرب کے علاوہ شعراء کے کلام میں بھی یہ استعمال موجود ہے۔ چنانچہ امرؤالقیس کے شعر میں صفت کے اندر جر بالجوار مستعمل ہوئی ہے:
كان ثبيرا فى عرانين ودقه
كبير اناس فى بجاد مزمل
اب یہاں "مزمل" کو جر کے ساتھ پڑھا گیا ہے حالانکہ یہ کبیر (جو کان کی خبر ہے اور وہ منصوب ہوتی ہے) کی صفت ہے تو صفت موصوف کا اعراب ایک ہوتا ہے، چاہئے تو منصوب تھا لیکن جر بالجوار کے قبیل سے ہے۔
اسی طرح عرب کے نامور شعراء ذوالرمہ، زہیر اور نابغہ ذبیانی وغیرہ کے شعروں میں بکثرت ہے جن کو بغرضِ اختصار حذف کیا جاتا ہے۔
چنانچہ "ارجلِكم" کی قراءت بھی جر بالجوار کے قبیل سے ہے، اس کو ابن قدامہ نے المغنی میں اور سنن کبریٰ میں امام بیہقی نے ایک مستقل باب قائم کر کے ذکر کیا ہے جس کا عنوان باب من قرا وارجِلكم ۔۔۔ الخ پھر اعمش کی کلام ذکر کی ہے کہ كانو يقرؤن بالخفض وكانوا يغسلون یعنی صحابہ "ارجلِكم" پڑھتے تھے لیکن پاؤں دھوتے تھے۔
*علامہ شیخ احمد صاوی مالکی نے بھی اپنی کتاب حاشية الصاوى على تفسير الجلالين جلد نمبر1 ص 27 میں اس کو بالجر علی الجوار کہہ کر اس موقف کی تائید کی ہے۔
*سلیمان بن عمر العجیلی الشافعی نے اپنی کتاب "الفتوحات الالهية" کی جلد نمبر 1 ص 467 پر
*جمال الدین قاسمی نے تفسیر القاسمی المسمی محاسن التاویل جلد نمبر4 ص 108 میں
*ابن الجوزی نے زادالمعاد جلد نمبر2 کے ص 301 پر ابوالحسن الاخفش کا قول ذکر کر کے
* شیخ فتح محمد اعمیٰ نے عنایاتِ رحمانی جلد نمبر 2 ص 227 پر بزبانِ سیبویہ، اخفش اور عبید اسی موقف کی تائید کی ہے۔
چنانچہ اس لمبی تقریر سے ایک تو اس اعتراض کا جواب مل گیا کہ یہ قراءۃ قرآنی مفہوم کے خلاف ہے دوسرا یہ بھی معلوم ہو گیا کہ معطوف کے اندر بھی جر بالجوار جائز ہے جیسا کہ مثالیں گزریں (جب کہ بعض نے گمان کیا ہے کہ نہیں ہو سکتا)
مسح بمعنی "غسل"
لیکن اگر ارجلِكم کو وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ کے ساتھ معمول بنائیں تو پھر بھی مسئلہ حل ہو سکتا ہے اور وہ یوں کہ عرب غسل کو مسح کا نام بھی دیتے ہیں جیسا کہ ابن الانباری نے کہا ہے اور ابو علی بھی یہی فرماتے ہیں کہ مسح سے مراد غس ہے۔
چنانچہ ابوزید کا قول زاد المعاد کے ص 301 جلد 2 پر ہے کہ اہل عرب تمست للصلوة اس وقت کہتے ہیں جب وہ اعضاء کو دھو لیتے تھے گویا آیت میں مسح کو اگر مان لیں تو پھر بھی اس سے مراد غسل ہی ہو گا۔
اسی طرح امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ جلد 6 ص 92 پر رقم طراز ہیں کہ لفظ مسح، غسل اور مسح دونوں کے لئے آتا ہے اس کا معنی دھونا اور مسح کرنا دونوں آتے ہیں۔
علامہ ہروی بھی لمبی سند ذکر کے کے ابوزید انصاری سے بیان کرتے ہیں کہ کلامِ عرب میں لفظ مسح غسل کے معنی میں بھی مستعمل ہے اس لئے جب کسی آدمی نے وضوء کیا ہو اور اپنے اعضاء کو دھویا ہو تو تمسح کے الفاظ بولتے ہیں، اور اسی طرح مسح الله ما بك اس وقت کہتے ہیں جب مخاطب کے لئے اللہ تعالیٰ سے گناہوں کے دھو دینے اور پاک کر دینے کی دعا کی جائے۔
اور مسح بمعنی دھونا، سنن بیہقی کی اس حدیث سے بھی واضح ہوتا ہے جس کو انہوں نے جلد1 ص 75 پر نزال بن سبرہ سے علی بن ابی طالب کے بارے میں ذکر کیا ہے کہ: (أَنَّهُ صَلَّى الظُّهْرَ ، ثُمَّ قَعَدَ فِي حَوَائِجِ النَّاسِ فِي رَحَبَةِ الكُوفَةِ ، حَتَّى حَضَرَتْ صَلاَةُ العَصْرِ ، ثُمَّ أُتِيَ بِمَاءٍ ، فَشَرِبَ وَغَسَلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ ، وَذَكَرَ رَأْسَهُ وَرِجْلَيْهِ ۔۔ الخ)
یہاں پانی کے چلو کے بعد لفظ مسح ہے، جو کہ دھونے پر دال ہے۔
حافظ ابن حجر بہز بن حکیم عن ابیہ عن جدہ کی روایت میں بیان کرتے ہیں کہ:
فاخذ منه كفا فمسح وجهه و ذراعيه و راسه و رجليه
اسی طرح اعمش کی روایت سے ہے کہ "و مسح بوجهه و راسه و رجليه اور مسح المطر الارض اس وقت کہتے ہیں جب زمین کو بارش دھو دے۔"
بعض نے دونوں قراءتوں کو یوں جمع کیا ہے کہ نصب والی قراءۃ سے مراد دھونا ہے اور جر والی قراءۃ سے مراد لك باليد بھی ہے جس کی حکمت یہ ہے کہ چونکہ پاؤں گندگی کے زیادہ قریب ہوتے ہیں، اس لئے دھونے کے ساتھ جر والی قراءت لا کر دَلک کو شامل کیا، تاکہ صفائی میں مبالغہ کا معنی مراد لیا جا سکے۔ واللہ اعلم