جنوری 1998ء

قومی اسمبلى میں خواتین کی نشستیں

سید وصی مظہر ندوی صاحب کا مضمون بعنوان "خواتین کی نشستیں کیوں اور کیسے؟" کچھ عرصہ قبل قومی اخبارات میں شائر ہوا۔ ندوی صاحب کے خیالات سے ہمیں اصولی طور پر اتفاق ہے۔ اس مسئلے کے متعلق کچھ مزید باتیں غور طلب ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قومی اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشستوں کا کوئی قانونی یا اخلاقی جواز بھی ہے؟ ہمارے خیال میں اس مطالبے کا کوئی معقول جواز سامنے نہیں آیا۔ اگر اس کو "عورت دشمنی" کے زمرے میں شمار نہ کیا جائے تو درج ذیل نکات پیش خدمت ہیں:

1۔ عورتوں کے لئے مخصوص نشستوں کے مطالبے کی فکری بنیاد ہی غلط ہے۔ جس کی بنیاد مرد و زن کی تفریق پر مبنی ہے۔ اس "تفریق" پر اصرار گذشتہ چند دہائیوں میں "آزادی نسواں" کی تحریک کا نتیجہ ہے۔ یورپ میں ایک مخصوص طبقے نے اپنے خاص ذوق کی تسکین کے لئے عورتوں کو ہر میدان میں مردوں کے شانہ بشانہ چلنے کی ترغیب دی۔ جس کے نتیجے میں عورتیں گھر کی چار دیواری کو چھوڑ کر باہر کی دنیا میں آئیں۔ دفتروں، کارخانوں اور بازاروں کی رونق تو بن گئیں لیکن ان کی مردانہ مصروفیات کی وجہ سے ان کے اپنے گھر ویران ہو گئے اور خاندانی نظام تباہ ہو کر رہ گیا۔

2۔ یہ تصور مبالغہ آمیز مفروضات پر مبنی ہے کہ عورتوں کے حقوق کا تحفظ صرف عورتیں ہی کر سکتی ہیں۔ اگر یہ بات درست ہوتی تو بعض معاملات میں عورت ہی عورت کی بدترین دشمن نہ ہوتی۔ خاندانی تنازعات میں ساس اور بہو کی روایتی حریفانہ کشمکش اس کی واضح مثال ہے۔ عورتوں کے حقوق کی بات کرنے والی خواتین مردوں کو بلا استثناء ظالم اور اجبر کے روپ میں پیش کرتی ہیں۔ ان کا نقطہ نظر انتہا پسندی اور مجنونانہ صنف پرستی پر مبنی ہے۔ جبکہ عام زندگی میں عورتوں کے حقوق کے محافظ مرد ہی نظر آتے ہیں۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے درست فرمایا تھا

عزت نسواں کا نگہباں ہے فقط مرد

3۔ عورتوں کی مخصوص نشستیں ہوں یا نہ ہوں؟ یہ پاکستان کی عام عورت کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ مسئلہ ہے اصل میں ان چند مٹھی بھر افزنگ زدہ بیگمات کا، جو گذشتہ دس سالوں میں نامزدگی کی بنیاد پر اسمبلیوں میں رونق افروز رہی ہیں یا وہ متحرک خواتین جنہیں کسی بھی وجہ سے سیاست کا "لپکا" لگا ہوا ہے، مردوں کی مخلوط مجالس میں شریک ہونا جن کا نظریہ حیات ہے۔ ایسی خواتین اخبارات کے صفحات کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ اسمبلیوں میں نہ پہنچ جانے کا غم انہیں بے چین کئے رکھتا ہے۔ یہی خواتین مردوزن کی مساوات کے پرجوش نعرے لگاتی ہیں۔ لیکن عام انتخابات میں مساویانہ جدوجہد کی بجائے مردوں سے رعایتی نشستیں لینے کی درخواست بھی کرتی ہیں۔

4۔ اس بات کی کون ضمانت دے گا کہ قومی اسمبلی میں 20 نامزد خواتین کو بٹھا دینے سے عورتوں کے حقوق کا تحفظ یقینی ہو جائے گا۔ اگر ایسا ہو سکتا ہے تو پھر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ لیکن ظاہر ہے اس بات کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ ہمارا موقف یہ ہے گذشتہ دس بارہ سالوں میں جو خواتین ہماری اسمبلیوں میں جلوہ افروز رہی ہیں۔ اگر ویسی 200 خواتین بھی اسمبلی کی ارکان نامزد کر دی جائیں، پاکستانی عورت کی موجودہ حالت کے بدلنے کے امکانات پیدا نہیں ہو سکتے کیونکہ قومی اسمبلی میں بیٹھنے کی خواہشمند خواتین پاکستان کی عام عورت کی ہرگز نمائندہ نہیں ہیں۔ ان کا طرز حیات، ان کی سوچوں کا دائرہ، ان کی ترجیحات، ان کے ثقافتی میلانات غرضیکہ کسی بات میں بھی قدر مشترک نظر نہیں آتی۔ وہ جس چکا چوند چلت پھرت کی عادی ہیں پاکستان کی 99 فیصد خواتین اس کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔

5۔ اگر قومی اسمبلی کی 20 نشستیں بحال بھی کر دی جائیں تب بھی مردوں کے تعاون کے بغیر نامزد خواتین کسی قسم کی قانون سازی میں موثر کردار ادا نہیں کر سکتیں۔ وہ ہمیشہ مردوں کی غالب اکثریت کے رحم وکرم پر رہیں گی۔ اگر ان کی بے بسی کا یہ عالم ہے تو پھر چند زیبائشی مہروں کے لئے آئین میں ترمیم کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے۔

6۔ قومی اسمبلی منتخب نمائندوں کا ایوان ہے۔ اس کے تمام ارکان براہ راست عوام سے منتخب ہو کر آتے ہیں۔ اگر اس میں نامزدگی کی بنیادی پر ارکان کو بھیجنے کے طریقہ کار کی منظوری دے دی جائے تو اس کا نمائندہ تشخص مجروح ہو گا۔ برطانیہ اور امریکہ اور دیگر یورپی ممالک میں کہیں بھی ایوان زیریں میں نامزدگی کی بنیادی پر نمائندے نہیں بھیجے جاتے۔پاکستان میں بھی ایسے نہیں کیا جانا چاہئے۔ اس وقت پاکستان کی قومی اسمبلی میں چھ خواتین ارکان ہیں جو عام انتخابات میں منتخب ہو کر آئی ہیں۔ ان میں سے محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ بھی ہیں جو دو مرتبہ اس ملک کی وزیراعظم رہ چکی ہیں، اپنے سیاسی تجربے اور اثرورسوخ کی بنیاد پر وہ سینکڑوں خواتین پر بھاری ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ اور دیگر پانچ تجربہ کار خواتین ارکان کی موجودگی میں خواتین کی مخصوص نشستوں کو بحال کرنے کا کوئی معقول جواز نہیں ہے یہ خواتین موثر طریقے سے خواتین کے مسائل کو عوام میں اٹھا سکتی ہیں۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ اس وقت قائد حزب اختلاف بھی ہیں۔ لہذا ان کی موجودگی میں کسی قسم کی نامزدگیوں کی ضرور محسوس نہیں ہونی چاہئے۔ سیدہ عابدہ حسین اور تہمینہ دولتانہ بارہا خواتین کی مخصوص نشستوں کی مخالفت کر چکی ہیں

7۔ خواتین کی مخصوص نشستوں کی بحالی کے لئے سب سے زیادہ مطالبہ "لاہوری خواتین" کے ایک مخصوص حلقے کی طرف سے کیا جاتا رہا ہے۔ یہ مٹھی بھر خواتین اپنے سیاسی قدوقامت کے تناسب سے بڑھ کر ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بنتی رہتی ہیں۔ مغرب پسندی، مذہب بیزاری، مخلوط مجالس میں شرکت کی تڑپ، آزادی نسواں، نسوانیت سے بغاوت، مردانہ اعمال سے رغبت ان کا طرہ امتیاز ہے۔ خواتین کے حقوق کے نام پر اسلام اور قومی ثقافت کو تضحیک کا نشانہ بنانا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ کھاتے پیتے گھرانوں کی یہ روشن خیال عورتیں، پاکستان کی غریب عورتوں کی بات محض فیشن اور ذہنی عیاشی کے طور پر کرتی ہیں۔ ورنہ ان کو سوائے اپنی تشہیر کے کسی بات سے غرض نہیں ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ اسمبلی کی رکن بن جانے کے بعد معاشرے میں ان کے مقام و منزلت میں اضافے کے ساتھ ذرائع ابلاغ میں ان کی پذیرائی بھی بڑھ جائے گی۔ اسی لئے وہ عورتوں کے حقوق کے نام پر اپنے استحقاق کی بات کرتی ہیں۔ اگر ان بیگمات کو دوبارہ اسمبلیوں میں جانے کا موقع مل گیا تو یہ اسمبلی کے ایوان کو اپنی اسلام دشمن سرگرمیوں کے لئے استعمال کریں گی۔ ان کے بے باکانہ اور باغیانہ طرز حیات نے پہلے ہی ہماری نوجوان پڑھی لکھی لڑکیاں کے ذہنوں پر منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔

8۔ یورپ اور امریکہ میں عورتوں کے حقوق کا تذکرہ 1800ء کے لگ بھگ شروع ہوا۔ نیوزی لینڈ پہلا ملک تھا جس نے 1893ء میں عورتوں کے ووٹ کے حق کو تسلیم کیا۔ دیگر ممالک میں عورتوں کو اس حق کو تسلیم کرانے میں طویل صبر آزما مراحل سے گزرنا پڑا۔ چند ممالک کے متعلق تفصیلات حسب ذیل ہیں:

1۔ ناروے: 1915ء میں ۔۔۔ 2۔ امریکہ: 1920ء ۔۔۔ 3۔ جرمنی: 1919ء ۔۔۔ 4۔ روس: 1917ء ۔۔۔ 5۔ برطانیہ: 1928ء ۔۔۔ 6۔ سپین: 1931ء ۔۔۔ 7۔ ترکی: 1935ء ۔۔۔ 8۔ رومانیہ: 1935ء ۔۔۔ 9۔ فلپائن: 1937ء ۔۔۔ اور 10۔ تھائی لینڈ: 1932ء میں عورتوں کو ووٹ کا حق دیا گیا۔

برطانیہ میں عورتوں کے لئے شروع میں شادی شدہ ہونے اور ایک خاص عمر کے ہونے کی شرط کو شامل کیا گیا بعد میں اسے ختم کر دیا گیا۔ اگرچہ مغرب میں بالغ حق رائے دہی کی بنیاد پر عورتوں کو مساوی سطح پر ووٹ کا حق دے دیا گیا لیکن اس کے باوجود پارلیمنٹ میں ان کی رکنیت کا تناسب شروع سے بہت کم رہا ہے۔ انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا (صفحہ 912) کے مطابق برطانیہ کے دارالعلوم میں خواتین ارکان کا تناسب 3 فیصد، امریکہ کے ایوان نمائندگان میں 2 فیصد، جرمن پارلیمنٹ میں 7 فیصد، سوویت یونین (سابقہ) میں 30 فیصد رہا ہے۔ یہ اعداد و شمار اگرچہ چند سال پہلے کے ہیں لیکن موجودہ تناسب بھی بہت زیادہ نہیں ہے۔ یہ ان ممالک کا حال ہے جہاں زندگی کے تمام شعبوں میں عورتوں کی شرکت کو ضروری سمجھا جاتا ہے اور جہاں آزادی نسواں عروج پر ہے، جہاں تعلیم یافتہ خواتین کا تناسب بہت زیادہ ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان ممالک میں بھی سیاسی عہدوں کے لئے عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں موزوں خیال کیوں نہیں کیا جاتا؟ اس کا جواب سوائے اس بات کے اور کیا ہو سکتا ہے کہ سیاست عورت کے فطری فرائض سے مطابقت نہیں رکھتی۔ امور مملکت کی انجام دہی، قانون سازی اور دیگر اداروں کے مناصب کے لئے ترقی یافتہ ممالک میں بھی مردوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔

مغربی ممالک میں عورتوں کی سیاسی نمائندگی کے تناسب کی روشنی میں اگر ہم پاکستان میں عورتوں کے تناسب کا جائزہ لیں تو پاکستانی خواتین کا عمل دخل بہت زیادہ معلوم ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان اپنی ترقی کے لحاظ سے مغربی ممالک سے سو سال پیچھے ہے۔ لیکن یہاں کی خواتین کو ان ممالک سے زیادہ سیاسی حقوق حاصل ہیں۔ امریکہ میں آج تک کوئی خاتون صدر نہیں بن سکی، پاکستان میں بے نظیر بھٹو صاحبہ دو مرتبہ وزیراعظم بننے کا اعزاز حاصل کر چکی ہیں۔ پاکستان کی وہ مغرب زدہ خواتین جو اپنے ہی وضع کردہ مساوات کے معیار کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسمبلیوں میں نامزدگی کی بنیاد پر جانے کے لئے بے چین ہیں، انہیں چاہئے کہ وہ یورپ اور امریکہ میں خواتین کو ملنے والے سیاسی حقوق کے ارتقاء کا جائزہ لیں۔ ان کا موجودہ رویہ بے صبری پر مبنی ہے۔ پاکستانی معاشرہ، ابھی جمہوری اقدار کے بہت سے مراحل سے نہیں گزرا جن سے مغربی معاشرہ گزر چکا ہے۔ ہماری ان روشن خیال خواتین کو چاہئے کہ وہ پکی پکائی کھیر کھانے کی بجائے ایثار و قربانی اور جدوجہد کے عمل سے گزر کر اپنا استحقاق ثابت کریں۔

9۔ مغرب کی تحریک آزادی نسواں کی گذشتہ دو سو سالہ تاریخ پر غور کیا جائے تو ایک بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ مغرب میں عورتوں کے حقوق کی مبلغات نے کسی ایک بات پر اکتفا نہیں کیا۔ ایک حق کے تسلیم کئے جانے کے بعد انہوں نے نئے اہداف مقرر کر لئے۔ جنگ عظیم دوم سے پہلے ووٹ کا حق، جائیداد کا حق اور تعلیم کا حق، ان کے مطالبات میں شامل تھا۔ جنگ عظیم دوم کے بعد ملازمتوں میں برابر کا حصہ، شادی کے معاملات میں برابر کے حقوق وغیرہ پر خاص توجہ دی گئی۔ اب نوبت باایں جا رسید کہ انہی عورتوں نے مردوں کے شوق کی تسکین کے لئے "عورت" رہنے سے انکار کر دیا ہے۔ وہ بچوں کی پیدائش کا فریضہ نبھانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ہر معاملے میں آبادی کے تناسب سے اپنی شرکت کا حق مانگ رہی ہیں۔ یہاں تفصیلات بیان کرنے کا محل نہیں ہے۔ مختصر یہ کہ اگر آزادی نسواں کی پرچارک خواتین کا ہر مطالبہ مان لیا جائے تو پھر عورت، عورت نہیں رہے گی۔ پاکستان میں جو خواتین آج 20 مخصوص نشستوں کی بحالی کا مطالبہ کر رہی ہیں، یہی خواتین بہت ہی جلد قومی اسمبلی میں خواتین کی نشستوں کی تعداد کا تعین عورتوں کی آبادی کے تناسب سے کریں گی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کیا ان کے اس مطالبے کو بھی مان لیا جائے گا؟

10۔ مغربی تہذیب کی دلدادہ یہ بیگمات اپنے حقوق کے حصول کے لئے بے حد عجیب فکری تضادات میں مبتلا ہیں۔ وہ مساوات مرد و زن کی بات کرتی ہیں۔ لیکن جہاں انہیں فائدہ پہنچ رہا ہو وہاں اس اصول کو توڑنے میں کسی قسم کی عار محسوس نہیں کرتیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کے سابقہ دور میں عورتوں کے لئے سزائے موت کو ختم کر دیا گیا تو ان بیگمات نے اسے روشن خیالی تصور کیا۔ وہ صرف "امتیازی سلوک" وہاں دیکھ پاتی ہیں جہاں ان کے مزعومہ حقوق پر زد پڑتی ہو ورنہ وہ اسے اپنا نسوانی استحقاق سمجھتی ہیں۔ چند سال پہلے میڈیکل کالجوں میں طالبات کے لئے نشستیں مخصوص تھیں تو انہوں نے مطالبہ کیا کہ لڑکیوں کے ساتھ نا انصافی ہو رہی ہے۔ عدالت نے ان کے موقف کو تسلیم کیا۔ حالانکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے پاکستان کو مرد ڈاکٹروں کی زیادہ ضرورت ہے کیونکہ وہ فیلڈ میں جا کر کام کر سکتے ہیں۔ یہ روشن خیال بیگمات اپنے گھروں میں مردوں کی سربراہی کو قبول نہیں کرتیں لیکن اسمبلی میں پہنچنے کے لئے فورا ہی عورت کی مظلومی کا رونا رونا شروع کر دیتی ہیں۔ چونکہ وہاں اس طرح کے جذباتی نعروں کی بنیادی پر ہی ان کے مطالبات کے تسلیم کئے جانے کا امکان ہوتا ہے۔

11۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک اگر مرد ارکان اسمبلی خواتین کے "حقوق" کا تحفظ کرتے آئے ہیں تو اب بھی ہو سکتا ہے۔ جب فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں اسمبلی نے فیملی لاءز آرڈیننس منظور کیا تھا تو اس وقت کتنی خواتین ایوان کی رکن تھیں؟ اس قانون کی وجہ سے عورتوں کو طلاق دینے کا حق، مردوں کی دوسری شادی پر پابندی وغیرہ لاگو کی گئی تھی جو کہ اسلام کی واضح تعلیمات کے منافی ہے اور پھر جب ضیاء الحق نے اس آرڈیننس کو فیڈرل شریعت کورٹ کے دائرہ کار سے باہر رکھا، تو تب بھی مرد حضرات نے یہ کارنامہ سر انجام دیا۔ اس ملک کی یونیورسٹیوں میں مخلوط تعلیم کو آج تک ختم نہیں کیا جا سکا، حالانکہ عورتوں کو اسمبلیوں میں خاطر خواہ تناسب کبھی بھی حاصل نہیں رہا۔ اس ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں خواتین جج مقرر کی گئی ہیں۔ حالانکہ اسلامی فقہ کے مطابق عورت قاضی نہیں بن سکتی۔ قیام پاکستان کے فورا بعد بیگم شائستہ اکرام اللہ کو بیرون ملک سفیر مقرر کیا گیا۔ اس وقت عورتوں کی آزادی کی تحریک کا وجود تک نہیں تھا۔ آج کل عورتوں کے الگ بنک اور تھانے بن چکے ہیں۔ آخر وہ کون سا عورتوں کا حق ہے کہ جس کے حصول کے لئے پاکستان کی قومی اسمبلی کی 20 مخصوص نشستوں کو بحال کرنا ضروری ہے۔

1973ء کے آئین میں جب عورتوں کے متعلق محض صنف کی بنیاد پر کسی قسم کے امتیاز کو غیر آئینی قرار دیا گیا تو اس وقت کتنی عورتیں ایوان میں موجود تھیں۔ یہ تصور گمراہ کن اور بے بنیاد ہے کہ مرد عورتوں کے حقوق کا خیال نہیں کرتے۔

12۔ "اگر تو خواتین کی مخصوص نشستوں کی بحالی کا اصل مقصد مغربی رنگ میں رنگی ہوئی معاشرے میں اپنی خوب چلت پھرت دکھانے والی چند ایسی روشن خیال خواتین کو ایوان میں لا کر بٹھانا ہے جو مرد اراکین کی پسند پر پورا اترتی ہوں اور اسمبلی کے خشک ماحول میں کچھ سامان دل بستگی بھی فراہم کر سکیں" (بقول سید وصی مظہر ندوی) تو پھر اس سے زیادہ عورت ذات کا استحصال اور توہین کوئی اور نہیں ہو سکتی۔ مرد اگر اپنے ذوق جمال کی تسکین کے لئے ایسے اقدام کے لئے تیار ہو جائیں تو کیا وہ عورتیں جو مردوں کے استحصال کے خلاف بزعم خویش "جنگ" برپا کئے ہوئے ہیں۔ وہ اس استحصال کو محض قومی اسمبلی میں بیٹھنے کے لئے قبول کر لیں گی؟ مردوں کی دل بستگی کا سامان کرنے والی عورتوں کو اس ملک کی کروڑوں عورتوں کی نمائندگی کا حق کیونکر دیا جا سکتا ہے؟

13۔ مندرجہ بالا دلائل کے ضمن میں راقم نے شعوری طور پر اسلام کا نام نہیں لیا۔ مذہب کا نام سنتے ہی یہ روشن خیال بیگمات "رجعت پسندی" اور دقیانوسی کا فتویٰ صادر فرما دیتی ہیں۔ وہ مذہب کی محض ان تاویلات کو ماننے پر آمادہ ہیں جو ان کی "آزادیوں" کو سند جواز عطا کرتی ہوں اور ایسے "روشن خیال" علماء کی کمی نہیں ہے جو ان کے لئے ان "تاویلات" کو تلاش کرنے کا فریضہ انجام دیتے رہتے ہیں۔ اسلام کی تعلیمات ابدی ہیں۔ اگر مٹھی بھر عورتوں کا یہ مغرب زدہ گروہ انہیں صدق دل سے قبول کرنے کو تیار نہیں ہے تو اس سے اسلامی تعلیمات کی اہمیت کم نہیں ہو جاتی، اسلام نے عورت کا اصل مقام اس کا گھر قرار دیا ہے۔جس انداز میں پاکستان کی عورتیں اسمبلی کے ایوانوں میں شریک ہوتی رہی ہیں، قرآن و سنت کی تعلیمات سے ان کی تائید نہیں ہوتی۔ صائمہ کیس میں جسٹس خلیل الرحمٰن رمدے نے اسلام میں عورت کے مقام و حیثیت کے بارے میں جو مفصل دلائل نقل کئے ہیں ان کو سامنے رکھا جائے تو عورت کی کارگردگی کا اصل دائرہ کار اس کا گھر ہے۔ اسلام مردوزن کے ہر قسم کے اختلاط کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ مغرب زدہ خواتین کو اسلام کی ان تعلیمات سے چڑ ہے وہ ہر صورت میں یورپ کی عورتوں کی تقلید کرنا چاہتی ہیں۔ وہ ہر اس شخص کو شدید تنقید کا نشانہ بناتی ہیں جو ان کو اس طرح کی اسلامی تعلیمات کی طرف متوجہ کرے۔ گذشتہ چند سالوں میں بے چارے ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کو جو انہوں نے حشر کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے یہی وجہ ہے کہ ان کی مخالفت مول لینے کی جراءت بہت کم لوگ کرتے ہیں۔ اس کے باوجود مذہبی دانشوروں کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس موضوع پر مفصل روشنی ڈالنی چاہئے۔ انہیں کلمہ حق کہہ دینا چاہئے خواہ مغرب زدہ خواتین کو ناگوار ہی کیوں نہ گذرے۔

14۔ تقریبا ایک ماہ پہلے میاں نواز شریف صاحب کی حکومت نے پاکستان پیپلز پارٹی کے ارکان کی طرف سے عورتوں کی نشستوں کی بحالی کا پیش کردہ بل مسترد کر دیا تھا۔ یہ ایک قابل تعریف اقدام تھا۔ اب شنید یہ ہے کہ مسلم لیگ کی طرف سے اس موضوع پر بل پیش کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ مغرب زدہ خواتین اور ان کے حواریوں کی طرف سے حکومت پر مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ عورتوں کی نشستیں بحال کرانے کا بل پاس کرے۔ جناب میاں نواز شریف صاحب کو اس ضمن میں بے حد سوچ و بچار کے بعد قدم اٹھانا چاہئے۔ مذکورہ مخصوص نشستوں کی بحالی چند شہرت پسند اپوائی بیگمات کی محض خوشنودی پر منتج نہیں ہونی چاہئے۔

خواتین کی مخصوص نشستوں کی بحالی کے متعلق سب سے بڑی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ عورتیں پاکستان کی آبادی کا 52 فیصد ہیں۔ بعض حلقوں سے تو دبے لہجوں میں یہ مطالبہ بھی داغا جا رہا ہے کہ عورتوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے پارلیمنٹ میں نشستیں دی جائیں۔ اچھے خاصے سمجھدار لوگ بھی اس جذباتی دلیل کے قائل بلکہ گھائل نظر آتے ہیں، حالانکہ اگر وہ عورت کے فطری فرائض اور معاشرے میں اس کے اصل کردار پر غور فرمائیں، تو یہ دلیل محض ایک جذباتی نعرے سے زیادہ نہیں ہے۔ محض صنفی تفریق کے اعدادوشمار کو ہی نشستوں کی تخصیص کے لئے بنیاد ماننے پر اکتفا کیوں کیا جائے۔ دیگر تعصبات مثلا، زبان و نسل اور ذات پات، دیہاتی و شہری، صنعت کار و کاشتکار وغیرہ کو نظر انداز کیوں کر دیا جائے۔ پاکستان کی کل آبادی کا 45 فیصد حصہ بچوں پر مشتمل ہے، عورتوں کی مخصوص نشستوں کے جواز کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر بچوں کو ان کے تناسب سے بھی نمائندگی ملنی چاہئے۔ پاکستان کی 70٪ سے زیادہ آبادی زراعت پیشہ چھوٹے درجے کے کاشتکاروں پر مشتمل ہے، اگر وہ یہ کہیں کہ وڈیرے، جاگیردار اور صنعت کار ان کے حقوق کا تحفظ نہیں کر سکتے لہذا انہیں ان کی آبادی کے تناسب سے نمائندگی دی جائے، تو بظاہر یہ بات نامعقول نہیں ہو گی۔ اس وقت قومی اسمبلی کا شاید ہی کوئی رکن "غریب کاشتکار" کے زمرے میں شامل ہو۔ پاکستان کے 74٪ باشندے ان پڑھ ہیں، کل کلاں وہ اپنی "جہالت" کو پارلیمنٹ میں نمائندگی کے جواز کے طور پر پیش کریں، تو ان کی بات کو رد کرنے کا "معقول" جواز کیا ہو گا؟ امور جہاں داری، سیاست و حکومت سے متعلق امور کی انجام دہی ایک ہمہ وقتی ذمہ داری ہے، عورت بچوں کی نگہداشت اور گھریلو امور کی اہم ذمہ داریوں کو نظر انداز کیے بغیر سیاسی ذمہ داریوں سے عہدہ برا نہیں ہو سکتی۔مزید برآں جب مرد حکومت و سیاست کے معاملات کو عورتوں سے بہتر انداز میں چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، تو عورتوں کی طبع نازک کو ان گراں بار ذمہ داریوں کے زیر بار کیوں کیا جائے۔

"مساوی حقوق" کا مطالبہ "مساوی فرائض" کے تصور کے بغیر بے معنی ہے۔ اسی لئے مساوی حقوق کا مطالبہ عورتوں کے حق میں بھی بہتر نہیں ہے۔ "مساوی زندگی" کا مطالبہ صرف پارلیمنٹ تک محدود نہیں رہنا چاہئے۔ وہ تمام پیشے اور امور جن میں سخت جانفشانی کی ضرورت پیش آتی ہے وہاں بھی عورتوں کو "مساوی نمائندگی" ملنی چاہئے۔ "سیاچین" کے برف پوش سنگلاخ پہاڑوں کی جگرپاش فضا میں ارض وطن کا دفاع صرف مردوں کی ذمہ داری آخر کیوں ہو؟ پاکستان کی 52٪ آبادی کو بھی اس قومی فریضے کی ادائیگی میں "شانہ بشانہ" شامل ہونا چاہئے۔ لوہے اور سٹیل کے کارخانوں کے انگارے برساتے ماحول میں خون پسینہ ایک کرنے والے مردوں کی مشقت میں بھی خواتین کو شریک ہونا چاہئے۔ پشاور سے کراچی تک مال بردار ٹرک اور ٹرالر ڈرائیوروں میں ایک بھی خاتون نہیں ہے، اس جفاکش پیشے میں بھی خواتین کو "مساوی حق" مانگنا چاہئے۔ یورپ کی عورتیں یہ کام کر رہی ہے۔ پاکستان ی مغرب زدہ خواتین کو ان کی "اتباع" کرنی چاہئے چونکہ یہ عورتوں کو گھروں میں چین سے رہتے دیکھ کر بے حد بے چینی کا شکار ہیں۔ انہیں عملی مثال کے ذریعے ثابت کرنا چاہئے کہ عورتیں ہر وہ کام کر سکتی ہیں جو بظاہر مردوں کے کام کہلاتے ہیں۔

اسلام انسان کی حیثیت سے مردوزن کی مساوات کا درس دیتا ہے۔ اچھے اور برے اعمال کی سزا و جزا کے اعتبار سے دونوں صنفوں کے درمیان کسی قسم کی تفریق کو روا نہیں رکھتا۔ اسلام نے بعض عالمی مذاہب اور دور جاہلیت کے اس تصور کو مسترد کر دیا کہ جس میں عورت کو "گناہوں کی پوٹلی" سمجھا جاتا تھا۔ اسلام نے عزت، توقیر اور تکریم کے حصول کے لئے "تقویٰ" کو معیار ٹھہرایا۔ خالق کائنات کی نگاہ میں ایک نیکو کار عورت، کا مرتبہ ایک فاسق و فاجر مرد سے بدرجہا بلند ہے۔ اس فکری اور قانونی مساوات کے باوجود معاشرے کے ایک مفید رکن کی حیثیت سے اور فرائض کے تعین کے اعتبار سے دائرہ کار کی "مساوات" کا تصور اسلامی تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ عورت اور مرد کے "مساوی حقوق" کا جو پروپیگنڈہ اس وقت مغرب میں کیا جا رہا ہے، وہ ایک عظیم فتنہ سے کم نہیں ہے۔ یہ کہنا کہ عورت کو زندگی کے میدان میں مرد کے شانہ بشانہ چلنا چاہئے اور اسے ہر وہ کام کرنا چاہئے جسے مرد انجام دیتا ہے، مجرد حیاتیاتی حقیقتوں کی نفی کرنے کے مترادف ہے۔ عورت کا اصل مقام اس کا گھر ہے۔ وہ گھر کی ملکہ اور چراغ خانہ ہے۔ اسلامی تعلیمات کی رو سے خاندان کی معاشی کفالت کی ذمہ داری مرد پر عائد ہوتی ہے، اسی لئے اس کی سرگرمیوں کا اصل دائرہ گھر کی دہلیز کے باہر سے شروع ہوتا ہے۔ (محمد عطاءاللہ صدیقی)