اقتصادی بحران ۔۔۔ جذبہ ایمانی اور حب الوطنی کے تقاضے
موجودہ دور میں پاکستانی قوم اپنی تاریخ کے ایک نازک مقام پر کھڑی ہے۔ وہ بہت سے ایسے مسائل سے دوچار ہے، جن میں دو ٹوک فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ان میں سرفہرست پاکستان کا موجودہ اقتصادی بحران ہے۔
پاکستان کی معیشت مدتِ دراز (1960ء) سے قرضوں کے سہارے چل رہی ہے اور آج ان قرضوں کے بڑھتے ہوئے جال نے صورت حال کو تشویشناک بنا دیا ہے۔ پاکستان کے قیام کے فورا بعد 1948ء میں تو پاکستان اس قابل تھا کہ وہ جرمنی کو غلہ برآمد کر سکتا۔ مگر حکمرانوں کی ناقص منصوبہ بندی کی بدولت جلد ہی وہ مرحلہ بھی پیش آیا کہ پاکستان میں گذائی بحران پیدا ہو گیا اور امریکہ سے گندم درآمد کرنا پڑی۔
اس نوزائیدہ مملکت کو چلانے کے لئے سادگی، کفایت شعاری، محنت اور درست منصوبہ بندی کی ضرورت تھی۔ مگر بدقسمتی سے یہ راہ (جو کٹھن اور جان گسل تھی) چھوڑ کر سہل پسندی اور تعیش کی راہ اختیار کی گئی۔ ترقی یافتہ اقوام کی رِیس کرتے ہوئے ائیرکنڈیشنڈ کوٹھیاں اور محلات نما دفاتر بنائے گئے۔ لہذا پاکستانی حکمرانوں کو غیر ملکی قرضوں پر انحصار کرنا پڑا۔ اپنے عیش و آرام کے لئے پاکستانی غریب قوم کو قرضوں کے زیربار کر دیا گیا۔ تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق ہر پاکستانی پیدا ہونے والا بچہ پانچ چھ ہزار یومیہ کا مقروض بن جاتا ہے۔ اب تو کیفیت یہ ہو چکی ہے کہ قرض ادا کرنے کے لئے بھی قرض لینا پڑتا ہے۔
مزید صورت حال اس طرح مشکل ہو رہی ہے کہ امریکہ سے ملنے والی امداد غیر متوقع ہے۔ خلیج سے پیدا ہونے والی صورت حال سے پاکستان کو دو بلین ڈالر کا خسارہ ہو چکا ہے۔ آئی۔ایم۔ایف بھی مزید مالی امداد دینے کے لئے ہم پر کڑی شرائط عائد کرنا چاہتا ہے اور پاکستانی قوم قوموں کی برادری میں مقروض قوم کی حیثیت سے بدنام ہو چکی ہے ۔۔۔ بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے علاوہ پاکستان کو اقتصادی و مالی امداد دینے والے ملکوں میں امریکہ کا نام سرفہرست ہے، جو سپر پاور ہونے کی حیثیت سے اپنی سیاسی اور علاقائی مفادات بھی رکھتا ہے۔ لہذا پاکستان کو مالی امداد دینے کا اس کا مقصد اس خطے میں اپنے مخصوص سیاسی اور معاشی مفادات کی حفاظت رہا ہے۔ جب اس کو اپنے مفادات کے پس منظر میں پاکستان کی ضرورت ہوتی ہے یہ امداد جاری رہتی ہے اور جب اس کے نقطہ نظر سے پاکستان غیر ضروری قرار پاتا ہے تو یہ امداد روک لی جاتی ہے اس نے ہر کڑے موقعہ پر پاکستان کو بے یار و مددگار چھوڑا ہے۔ وہ بنیادی طور پر ایک عالمی مہاجن ہے جو سود پر لین دین کا کاروبار کرتا ہے اور اپنی اسامیوں کو مختلف تدبیروں سے پہلے اپنا محتاج بناتا ہے پھر اپنے چنگل میں پھنساتا چلا جاتا ہے وہ ہمارا اقتصادی استحصال تو کر سکتا ہے مگر مشکل وقت میں دوستانہ تعاون سے معذور ہے۔ یہ بات خود امریکہ نے اپنے مسلسل طرز عمل سے ہمیں سمجھا دی ہے۔ جس کا تجربہ 1965ء اور 1971ء میں ہم کر چکے ہیں۔
(؟)کبھی اپنی امداد کو منشیات کے انسداد سے مشروط کرتا ہے اور کبھی آزادانہ انتخابات کے انعقاد سے۔ حد یہ ہے کہ اس کے سینیٹر سٹیفن سولارز جیسے لوگ بھی بھارت سے رشوت لے کر بڑھ بڑھ کر باتیں کرتے اور پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ مگر کوئی ان کو لگام دینے والا نہیں۔ ادھر ہماری قوم ہے کہ ہر سال یکم اکتوبر کو متوقع امداد کی منتظر ہوتی ہے جسے امریکی کانگریس مختلف بہانوں سے بند کرنے کی سازشیں کرتی رہتی ہے۔
اگر ایک ملک دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلاتا ہے تو اس کی فیصلہ کرنے کی آزادی ختم ہو جاتی ہے۔ آکر امریکہ ہماری آزادی و خود مختاری کے درپے کیوں ہے؟ یہ سوال بہت اہم ہے۔ آج کے دور میں معاشی امداد کا نام ہے ذہنی غلامی ۔ حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے اوپر ہوتا ہے۔ یعنی وہ لینے والے سے اپنی من مانی شرائط منوا سکتا ہے۔ قرض دینے والے ممالک نہایت ذلیل، گھٹیا اور رسوا کن شرائط پر قرض دیتے ہیں۔ وہ قرض دیتے وقت کمر توڑ سود کی شرح وصول کرنے کے ساتھ من مانی شرائط بھی منواتے ہیں۔ مثلا ان کے افسروں کو بھاری قرضے کی 80٪ رقم صرف اسی ملک کی اشیاء کریدنے پر صرف ہو جاتی ہے۔ مسلمانوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں پیچھے رہنے کی بنا پر قرضے لینے پر مجبور ہیں۔ ٹیکنالوجی صرف ان ہی سے ان کے منہ مانگے داموں پر وصول کرنا ہماری مجبوری بن چکی ہے حد یہ ہے کہ فلاں قادیانی کو لازما وفاقی وزیر بنایا جائے یا اہم قومی عہدوں پر تعینات کیا جائے، چاہے پوری قوم اس کے خلاف مجسم احتجاج ہو۔ پھر ان کے یہ ماہرین فحاشی، عریانی، اور بے راہ روی پھیلاتے ہیں۔ حتیٰ کہ صدر ایوب جیسے امریکہ نواز شخص کو بھی استحصالی روش کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا پڑی۔ انہوں نے اسی غرض سے اپنی مشہور کتاب “Friends not Masters” تصنیف کی جس کا اردو میں عنوان ہے "جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی"
آج پاکستانی قوم کو اس بڑے مسئلے سے واسطہ درپیش ہے کہ خلیج کی وجہ سے جو زرمبادلہ رُک چکا ہے، امریکی امداد کی بندش، آئی۔ایم۔ایف کی کڑی شرائط، تیل کی مہنگائی۔ درآمدات اور برآمدات میں نمایاں فرق اور اس میں عدم توازن۔ ان سب مسائل پر کیسے قابو پایا جائے۔
اس تمام صورتحال کا اگر بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ زیادہ تر قصور ہمارا ہے۔ آکر 50 سال بعد بھی ہم خود انحصاری اور خود کفالت کی منزل سے کیوں کوسوں دور ہیں کہ غیر ملکی امداد کی بندش ہوئی تو یہاں بڑا اقتصادی بحران پیدا ہو گیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ منصوبہ بندی بہت بڑا ہتھیار ہے۔ مگر آج تک ہم نے کسی بھی منصوبہ میں اس ہتھیار کو استعمال نہیں کیا۔ اگرچہ اس وقت کچھ لوگوں نے ہمیں صورت حال کو سنبھالا دینے کے لئے امداد کی پیشکش کی ہے مثلا سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اسلامی ترقیاتی بینک وغیرہ مگر یہ سب وقتی باتیں ہیں۔ پاکستان کو اپنی معیشت کو سنبھالا دینے کے لئے طویل المدت منصوبہ بندی کرنا ہو گی۔ آخر ہم کیوں ہر سال امریکی امداد کی بندش اور ناروا شرائط کا سامنا کریں۔ کیوں اپنی آزادی و خود مختاری پر آنچ آنے دیں۔ کیوں اپنے ایٹمی پروگرام پر کوئی سمجھوتہ کرنے کے لئے تیار ہوں۔
سچ تو یہ ہے کہ غیر ملکی امداد سے پاکستانی عوام ہمیشہ ہی نالاں رہے ہیں۔ کیونکہ پاکستان میں یہ سودی قرضے حکومت کی شاہ خرچیوں، اقرباء پروری، انتظامیہ اور بیوروکریسی کی ملی بھگت سے غیر ترقیاتی اخراجات پر استعمال ہو رہے ہیں۔ سیاسی بنیادوں پر اندھا دھند بھرتیاں کی جاتی ہیں۔ وزیروں مشیروں کی فوج ظفر موج پھر ان کے لئے قیمتی بنگلے، گاڑیاں، دفتر پھر اپنی پارٹی کے بندوں کو حکومت ایسے اداروں میں کھپا دیتی ہے جس سے ایک طرف تو ادارے پر بوجھ پڑتا ہے، دوسری طرف حقدار کی حق تلفی ہوتی ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ سرکاری مد میں چلنے والے تمام ادارے ہمیشہ خسارے کا بجٹ دکھاتے ہیں۔ پھر ان قرضوں کی ادائیگی کے لئے ہر سال عوام پر کئی بالواسطہ اور بلاواسطہ ٹیکس عائد کر دئیے جاتے ہیں۔ غریب عوام کو تو ان قرضوں میں سے یہ حصہ ملتا ہے کہ وہ اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر ٹیکسوں کی شکل میں اس کی ادائیگی کرتے رہیں۔ اور پھر صرف چند ہاتھ ان بھاری رقوم کا صفایا کر جاتے ہیں۔ جب غیر ترقیاتی منصوبوں پر بھاری سرمایہ خرچ ہو جائے تو عوام کے لئے ترقیاتی منصوبے خاک بنائے جائیں گے۔ لہذا عوام تو شکرگزار ہوتے ہیں امداد کے نام پر قرض دینے والے اداروں کے کہ وہ عین وقت پر مختلف حیلے بہانوں سے امداد روک کر ہماری غیرتِ ایمان کو للکارتے ہیں اور ہمیں اپنے پاوں پر کھڑے ہونے کا پیغام دیتے ہیں۔ جذبہ حب الوطنی کو چیلنج کرتے اور ہمیں خود کفالت کی طرف قدم بڑھانے کی اہمیت کا احساس دلاتے ہیں۔
اس صورت حال پر قابو پانا چنداں مشکل نہیں۔ اس کے لئے محنت دیانتداری، کفایت شعاری اور مناسب منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری قیادت ملک کو بحران سے نکالنے اور خودکفیل بنانے کا عزم کر لے۔ سرکاری شعبہ میں بچت، دیانتداری، منصوبہ بندی اور ٹھوس اقدامات کرے، عوام حکومت کے ساتھ ہیں۔ وہ اللہ کا نام لے کر آگے بڑھیں ان شاءاللہ کامیابیاں قدم چومیں گی، دو تین سال کے اندر ہم نہ صرف قرضے واپس کرنے کی پوزیشن میں آ سکیں گے بلکہ ملک کو تعمیر و ترقی کی راہ پر بھی ڈالا جا سکتا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی سے بھی ہم ان کے جال سے نکل سکتے ہیں۔
ہم اللہ کے فضل و کرم سے مسلمان ہیں۔ کلمہ گو اور ایک اللہ کو ماننے والے ہیں۔ ہمارا عقیدہ توحید تو ہمیں اپنےسوا کسی اور کے سامنے جھکنے سے روکتا ہے۔ خودشناسی ایک اچھا اخلاقی وصف ہے جس کے ذریعے انسان اپنے اندر چھپے ہوئے جوہروں سے آگاہ ہوتا ہے اور پھر ان اوصاف کو استعمال کر کے خود بھی فائدہ اٹھاتا ہے اور دوسروں کو بھی فیض پہنچاتاہے۔ پھر یہی خودشناسی انسان کو اپنی عزت، اپنی شان، اپنے مرتبہ اور حیثیت کی حفاظت کرنا سکھاتی ہے۔ یہ عزت و وقار تو سب سے پہلے اللہ رب العزت کو سزاوار ہے جس نے قرآن پاک میں 72 (بہتر) مواقع پر اپنے عزیز ہونے کا وصف بیان کیا ہے۔ اس کے بعد سچی عزت وہ ہے جو اللہ کے وسیلہ سے حاصل ہو۔ منافقین کے بارے میں ارشاد ربانی ہے:
﴿أَيَبْتَغُونَ عِندَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّـهِ جَمِيعًا ﴿١٣٩﴾ (سورہ نساء) ۔۔۔ اور پھر (قُلِ اللَّـهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ﴾
اس لئے مسلمان کا سر باطل کے سامنے اونچا رہنا چاہئے۔ اس کو اپنی دینی و دنیاوی خود مختاری کو ہر وقت محسوس کرنا چاہئے۔ ایک مسلمان قوم کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ غیروں سے سودی قرضے کے کر اس پر اپنی معاشیات استوار کرے۔
قناعت ایک مثبت اخلاقی قدر ہے۔ اس کا مقصود دوسروں کا دست نگر ہونے سے بچنا ہے۔ اس لئے ہر وہ طرز زندگی جس کا نتیجہ انفرادی یا اجتماعی طور پر افلاس اور تہی دستی ہو، اسلام اس سے دور رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ مگر افسوس ہم نے قرض اتنی فراخدلی سے لئے اور بھیک اتنا بے غیرت ہو کر مانگی کہ اس قرض اور بھیک نے شیرازہ ملت بکھیر کر رکھ دیا ہے۔
قرآن میں اللہ نے اپنے پیارے بندوں کی صفات بیان فرمائی ہیں تو وہاں فرماتا ہے:
﴿إِذَا أَنفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَٰلِكَ قَوَامًا ﴿٦٧﴾ (سورۃ الفرقان)
کہ "میرے پیارے بندے خرچ کرتے ہوئے نہ تو کنجوسی سے کام لیتے ہیں۔ نہ فضول خرچی کرتے ہیں بلکہ اعتدال سے کام لیتے ہیں۔"
پھر عیش پرستی اور اسراف سے سختی سے منع فرمایا۔ ارشاد ہوتا ہے:
﴿وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا ﴿٢٦﴾ إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ ۖ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا﴿٢٧﴾
کہ "فضول خرچی نہ کرو۔ فجول کرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہوتے ہیں اور شیطان تو ہے ہی اپنے رب کا ناشکرا"
مزید ستم یہ ہے کہ پاکستان کی اسلامی مملکت کا مقصد اولین تو اسلامی نظام کا نفاذ تھا جہاں سودی کاروبار بند ہوتا۔ سودی لین دین کرنے والا تو قرآن پاک کے مطابق خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اعلان جنگ کر دیتا ہے۔ تو اس لحاظ سے پاکستان بھاری شرح سود پر غیر قوموں سے قرضے لے کر اپنی معیشت کس طرح استوار کر سکتا ہے۔ جبکہ وہ اپنے رب اور اپنے رسول سے مسلسل جنگ کی حالت میں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سود پر قرضے لے کر معیشت کا استوار ہونا عقلی لحاظ سے اور علمِ معاشیات کی رو سے بھی ناممکن ہے۔
اب آئیے دیکھیں کہ ہمیں کیا کیا ترجیحات اختیار کرنا ہوں گی۔ جس سے ہمارا اقتصادی بحران کامیابی سے حل ہو جائے۔
خوش آئند ہے ہماری موجودہ قیادت کا یہ عزم کہ وہ قوم کو خود کفالت اور خود انحصاری عطا کرے گی۔اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے وہ ہمارا مددگار ہے اس نے پاکستانی قوم کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔ اَن گنت قدرتی وسائل دئیے ہیں، موزوں آب و ہوا ہمیشہ بہنے والے دریا، زرخیز زمین، جنگلات، کارآمد حیوانات، اور قدرتی معدنیات۔ ہمارے پاس افرادی قوت کی بھی کمی نہیں۔ ہماری زمینیں سونا اگلنے والی ہیں۔ پنجاب کا نہری نظام دنیا بھر میں مشہور رہا ہے۔ معدنیات کے بے پناہ ذخائر اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائے ہیں صوبہ سرحد اور صوبہ بلوچستان معدنیات سے مالا مال ہے۔ صنعت و زراعت کی ترقی جن قدرتی وسائل کی مرہونِ منت ہوتی ہے وہ سب ہمارے پاس موجود ہیں۔ ہماری 80٪ آبادی کاشتکاری کرتی ہے۔ اس وقت ہمارے ملک میں قریبا 46000 کے قریب صنعتیں موجود ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہمارے عوام محنتی اور جفاکش ہیں وہ اپنا خون اور پسینہ بہا کر ناممکن کام کو بھی ممکن کر دکھانے والے ہیں۔ ہمارے وطن عزیز میں اعلیٰ ذہنی و علمی استعداد کی بھی کمی نہیں۔ پھر دوسرے ممالک میں دس کنوئیں کھودنے پر ایک میں تیل نکلتا ہے جبکہ پاکستان میں چار کنوئیں کھودنے پر ایک میں تیل نکل آتا ہے۔ تو پھر دیر کس بات کی ہے؟ اور کوتاہی کہاں ہے؟ بس اسی کا سراغ لگانا ہے۔
اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے
اگر کسی جگہ اینٹیں، مٹی، سریا، سیمنٹ، بجری سب چیزیں اعلیٰ کوالٹی کی ڈھیر کر دی جائیں تو کیکر اس سے خود بخود ایک اعلیٰ پائے کی عمارت وجود مین آ جائے گی؟ جب تک عمارت کے لئے عمدہ ڈیزائن نہ تیار کیا جائے پھر اس ڈیزائن کے مطابق کام کی پوری نگہداشت نہ کی جائے اور کام کرنے والے معماروں اور مزدوروں سے منصوبہ بندی کے مطابق کام نہ لیا جائے۔ تمام تعمیراتی سامان بہترین قسم کا موجود ہونے کے باوجود اور عمدہ نقشہ و ڈیزائن ہونے کے باوجود محنت خلوص اور منصوبہ بندی کے بغیر مثالی کام ہونا ناممکن نہیں، تو مشکل ضرور ہے۔ پھر جب کہ مفاد پرست سیاستدان اور گھاگ بیورو کریٹ بھی موجود ہوں، کہ اچھے سے اچھے پاس ہونے والے قانون اور بل اور مفاد عامہ پر مبنی کسی سکیم کو چلنے ہی نہ دیں پھر بیروزگاری، افراط زر، مینگائی، رشوت اور کرپشن کے مسائل بھی موجود ہیں۔
پس اس وقت ضرورت ہے ایک مخلص اور پرعزم قائد کی وگرنہ مٹی بڑی نَم ہے۔ قیام پاکستان کا معجزہ اسی لئے رونما ہو سکا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مقصد سے مخلص، نڈر اور پُر عزم قائد عطا کر دیا جس نے ایک مقصد پیش نظر رکھ کر پوری امت کو ہم آواز کر دیا۔ وگرنہ بظاہر یہ کام ناممکن تھا۔ پاکستان کو اقتصادی بحران سے نکالنا تو اس کے مقابلے میں آسان کام ہی ہے۔ اس لئے اگر موجودہ قیادت مخلص ہو اور وطن عزیز کو خود مختاری اور خود انحصاری کی پالیسی پر گامزن کرنے کا عزم راسخ رکھتی ہو۔ تو بسم اللہ کرے، عوام کو اعتماد میں لے اور کام شروع کر دے۔ اس سلسلے میں کچھ ترجیحات کا تعین کرنا ہو گا۔
ملکوں کی مثال بھی گھرانے کی سی ہوتی ہے اگر کسی گھر پر بُرا وقت آ پڑے تو ایک کامیاب اور دور اندیش گھرانہ سب سے پہلے اپنے اخراجات کم کرتا ہے اور ساتھ ساتھ اپنی آمد اور پیداوار بڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔ چنانچہ پاکستان کو بھی سب سے پہلے اپنے اخراجات میں بچت کرنی چاہئے اور اگر قرض لینا ضروری ہے تو اپنی پیداوار بڑھانے کے لئے قرض لینا چاہئے، کاروبار حکومت کو چلانے کے لئے نہیں۔ بس یہی فرق ہے زندہ اور فعال قوموں اور سُست و کاہل قوموں میں۔ جو ملک اپنا کاروبار مملکت چلانے کے لئے قرض لے، وہ آہستہ آہستہ قرض کی دلدل میں پھنستا ہی چلا جاتا ہے جہاں سے پھر نکلنا ناممکن ہو جاتا ہے۔
جنگ عظیم دوم کے بعد یورپی ممالک کی معیشت بُری طرح تباہ ہو گئی تھی۔ ان کو بھی قرض لینا پڑے۔ مگر انہوں نے یہ قرضے اپنی تباہ شدہ معیشت کو بحال کرنے میں صرف کئےے اور آج وہ خود دنیا کو قرض دے رہے ہیں۔ اس عبوری دور میں انہوں نے اپنے عوام کو یہ باور کرا دیا تھا کہ کئی برس تک اپنی مصنوعات برآمد کرتے رہیں گے۔ تب کہیں جا کر اپنے قدموں پر کھڑے ہو سکیں گے۔ یہ لوگ خود سائیکلیں استعمال کرتے اور ساری گاڑیاں باہر برآمد کر دیتے۔ ان کو ایک گاڑی کے حصول کے لئے اپنا نام لسٹ میں درج کروا کر دو تین سال تک انتظار کرنا پڑا۔ اس طرح کی لگاتار قربانیوں کے بعد وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے قابل ہو گئے۔ اس کے مقابلے میں ہمارے ہاں یہ صورت حال ہے کہ شہر کے کسی بڑے بازار بلکہ سرکاری یوٹیلٹی سٹور میں چلے جائیں تو عجیب کیفیت نظر آئے گی۔ ایکی چھٹانک بھر سرخ مرچ اور سرکہ کا محلول کسی بیرونی لیبل کی وجہ سے 40-45 روپے میں فروخت ہو رہا ہے اور حکومت اس قسم کی فضولیات درآمد کرنے کے لئے قرض کی جستجو میں خوار ہو رہی ہے اس طرح تو ہم وہ خود دار قوم قیامت تک نہ بن سکیں گے جس کا وعدہ ہم نے تحریک پاکستان کے دوران کیا تھا۔ چنانچہ ہم نے جو 18 ارب ڈالر قرض لے رکھا ہے، اسے اکثر و بیشتر اپنے بجٹ کو سہارا دینے کے لئے ہی استعمال کر رہے ہیں لہذا ہماری معیشت 40٪ تک اسی قرض کے عوض گروی ہو چکی ہے۔
جاپان، چین، کوریا، تائیوان اور بے شمار دیگر ممالک ہمارے دیکھتے دیکھتے کیا سے کیا بن گئے۔ زبردست کوشش، محنت اور بچت اور پلاننگ کے نتیجہ میں انہوں نے اپنے آپ کو نہ صرف اپنے پاؤں پر کھڑا کیا بلکہ دنیا میں صنعتی میدان میں بڑا نام اور مقام حاصل کر لیا۔
پس ہمیں مرحلہ وار درج ذیل تین قسم کے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔ ہمارا 40٪ دفاع پر خرچ ہو جاتا ہے، 22٪ قرضوں اور ان کے سود ادا کرنے پر، باقی تمام اخراجات کے لئے صرف 38٪ بچتا ہے۔ اب ہمیں مرسڈیز گاڑیوں کی کیا ضرورت ہے۔ اسی طرح کی دوسری تحیشات درآمد کرنا جو ملک میں مزید مسابقت اور فضول خرچی کو جنم دے ایک لاحاصل شے ہے۔ بچت بڑھانے کے لئے حکومت خود بچت کی مثال قائم کرے۔ ابتدا سرکاری محکموں اور حکومتی اداروں سے کی جائے۔ ہم تو وہ قوم ہیں جس کے اسلاف نے خصوصا خلفاءِ راشدین نے بچت کی نہایت اعلیٰ پیمانے کی روایتیں قائم کی ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنا روزینہ محض اس وجہ سے کم کرا لیا کہ ان کی اہلیہ نے بچت کر کے گھر والوں کے لئے میٹھی ڈش تیار کر لی تھی۔ اور پھر بعد میں وہ سارا روزینہ بھی بیت المال کو اپنا مکان فروخت کر کے واپس کرنے کی تلقین کی۔ چنانچہ حکومت کو نئے دفتر، نئی کوٹھیاں اور نئی کاریں خریدنے کے بجائے پرانے سازوسامان سے کام چلانا چاہئے۔ عالی شان دعوتوں اور بیرونی دوروں پر لمبے چوڑے اخراجات کو محدود کیا جائے۔ وزیروں مشیروں کی تعداد مناسب حد تک کم کی جائے۔بچت کے لئے تو رقم کی نہیں بلکہ عزم، راسخ محنت اور دیانتداری کی ضرورت ہے۔ چنانچہ بچت بڑھانے کے لئے حکومت خود بچت کی عملی مثالیں قائم کرے، کھانے پینے اور رہائش میں ذاتی نمونہ پیش کرے۔ اور خالی وعظ و نصیحت سے کچھ نہیں ہو سکتا۔ برف جب تک پہاڑ کی چوٹی پر نہ پگھلے گی، سادگی نیچے نہیں اترے گی۔ اس طرز حکومت کے نتیجے میں ان شاءاللہ آدھے قرضے ختم ہو جائیں گے۔ پھر وہ تمام دولت جو ملک کے بڑے بڑے سیاستدان پاکستان سے باہر لے جا چکے ہیں اور غیر ملکی بنکوں میں رکھ چھوڑی ہے، واپس لائی جائے۔ وہ کالا دھن جو صنعت کاروں، جاگیرداروں، رسہ گیروں اور تاجروں نے اس ملک میں جمع کر رکھا ہے، ضبط کر لیا جائے، اپنے ملک کے ہنر مندوں پر انحصار کیا جائے غیر ملکی ماہرین سے نجات حاصل کی جائے۔
*زرعی ٹیکس لازما نافذ کیا جائے۔ نمودونمائش اور رسوم کے اوپر ختم ہونے والے اسراف کو قانونا روکا جائے۔
* ٹیکسوں کے نظام کی اصلاح کی جائے رشوت خور انکم ٹیکس افسروں کو معطل کر کے دیانتدار لوگ مقرر کئے جائیں اور احتساب کے محکمہ کو فعال اور متحرک کیا جائے۔ تاکہ وہ کرپشن، رشوت خور، بدیانتی اور کام چوری، سمگلنگ، منشیات کے کاروبار کے خلاف بھرپور کاروائی کر سکے۔ عوام سے خود انحصاری فنڈ کے لئے فی کس ایک روپیہ ماہانہ وصول کیا جائے۔ قیام پاکستان کے دوران خواتین کی "مٹھی بھر آٹا سکیم" اور 1965ء کی جنگ کے دوران "ایک پیسہ ایک ٹینک سکیم" نے اہم کردار ادا کیا تھا۔
* اب ہم ترقیاتی پیداوار کی طرف آتے ہیں اس کے لئے باگر قرض کی ضرورت پڑے تو اسلامی ممالک اور تیسری دنیا کے ممالک سے بلاسود قرضے لئے جائیں۔ (2) اپنی زرعی ترقی کو جدید اور سائنٹیفک خطوط پر استوار کیا جائے۔ (3) نئی چھوٹی صنعتوں کی حوصلہ افزائی کی جائے اور بیرون ملک پاکستانیوں اور غیر ملکیوں کو یہاں بیش از بیش سرمایہ کاری کرنے کے لئے سہولتیں اور تحفظ فراہم کیا جائے۔ ملک میں قومی آمدنی کی تقسیم منصفانہ کی جائے غیر ملکی قرضوں سے باتھ روم سجانے بند کر دئیے جائیں۔ اور اپنے قیمتی زرمبادلہ کو فحش فلمیں اور بلیو پرنٹ پر ضائع نہ کیا جائے۔
زرعی و صنعتی پیداوار بڑھانے کے سلسلے میں یہ نکتہ نہایت اہم ہے کہ ہمارے ہاں نہ انفرادی قوت کی کمی ہے نہ قابل جوہر کی اور نہ ہی وسائل کی، کمی صرف صحیح پلاننگ کی ہے ہمارا قابل قدر جوہر اور قومی ذہانت کا 3/2 حصہ ملک سے باہر ہے۔ بہترین سائنسدان اور انجنئیر یورپی اور امریکی یونیورسٹیوں میں مصروف عمل ہیں۔ ان ذہین افراد کی خود ساختہ جلا وطنی سے پاکستان میں علمی و فکری خلا پیدا ہو رہا ہے، ان کو واپس بلایا جائے۔ پھر اپنے طرز تعلیم، نصاب تعلیم اور نظام تعلیم کو بدل کر سادگی اپنائیں۔ تاکہ اپنے خوابوں کی تعبیر مل سکے۔
توانائی کا مسئلہ
صنعتوں کے قیام اور زراعت دونوں کے لئے بجلی اور پاکی کی ضرورت ہے۔ ہمارا اس وقت بہت اہم نازک اور حساس مسئلہ توانائی کا ہے جس کا صرف 35٪ اپنے وسائل سے حاصل ہو رہا ہے۔ اعلیٰ حکمران بھی اس حقیقت کا اظیار کر چکے ہیں کہ ہمیں ہائیڈل اور تھرمل بجلی کے ساتھ ساتھ ایٹمی ٹیکنالوجی سے بھی بجلی حاصل کرنا چاہئے۔ ماہرین اس بات کی بھی نشاندہی کر چکے ہیں کہ کم از کم بیس (20) ایٹمی بجلی گھروں کی ملک کو ضرورت ہے۔
اس وقت توانائی کے بحران کی وجہ سے ہمیں 20 ارب روپے کا اقتصادی نقصان ہو رہا ہے لوڈشیڈنگ اور پھر اَوور لوڈ شیڈنگ کی ضرورت بار بار پیش آ رہی ہے۔
کالا باغ ڈیم
کالا باغ ڈیم کا مسئلہ کھٹائی میں پڑا ہے۔ حالانکہ یہ ہمارے لئے ہر طرح سے ضروری ہے تربیلا ڈیم بننے سے قبل ہماری زمینیں سردیوں میں اپنی نہ ملنے کی وجہ سے بے کار پڑی رہتی تھیں۔ ڈیم بننے کے بعد پانی اور توانائی دونوں کا مسئلہ حل ہوا۔ پاکستان بہت سی چیزوں میں خود کفیل ہوا۔ اور ڈیم پر جتنی لاگت آئی تھی وہ پانچ سال کے اندر پوری ہو گئی۔ اب اگر کالا باغ ڈیم کی فی الفور تعمیر بھی شروع کی جائے۔ تب بھی اس کو مکمل ہونے سے چھ سات سال تو لازما لگیں گے۔ اس دوران توانائی کے متبادل ذرائع تلاش کرنا ہوں گے۔ ویسے بھی ہمارے قدرتی وسائل کے لھاظ سے ہمیں تھرمل بجلی بہت مہنگی پڑی ہے اس لئے پَن بجلی ہی صحیح رہے گی۔ کالا باغ ڈیم بننے سے ایک طرف ڈیرہ اسماعیل خان اور بنوں کے کافی بنجر علاقے زرخیز ہو جائیں گے اور دوسری طرف توانائی کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔
جوہری توانائی کا حصول
آج کل پوری دنیا صحت اور زراعت کے شعبوں میں ایٹمی توانائی سے مستفید ہو رہی ہے۔ اس لئے ہمیں بھی اپنی پیداوار بڑھانے اور پرامن مقاصد کے لئے جوہری توانائی کا حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ اس کے لئے ہمارے پاس نہ تو ماہرین کی کمی ہے نہ یورینیم کی۔ جو عیسیٰ خیل اور ڈیرہ غازی خان میں بکثرت موجود ہے۔ اس قت صرف کراچی میں 1971ء والا ایٹمی ری ایکٹر کام کر رہا ہے۔ مگر وہ ملکی ضروریات کے لئے بہت ناکافی ہے۔ لہذا مغربی ملکوں اور خصوصا امریکہ کی لگائی ہوئی پابندیوں کے باوجود ہمیں اپنے ایٹمی پروگرام کو بہرصورت جاری رکھنا چاہئے۔ یہ صنعتی بنیاد کے فروغ اور توانائی کی ضروریات پورا کرنے کے لئے انتہائی ضروری ہے۔
ہماری دفاعی ضروریات
ہمیں اپنی دفاعی ضروریات کے لئے بھی ایٹمی ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے ہمسایہ ملک بھارت سے بھی نبٹنا ہے۔ جس نے کبھی ہمارے ساتھ خوشگوار تعلقات نہیں رکھے۔ کشمیر کے مسئلہ پر اب تک اس سے تین جنگیں ہو چکی ہیں۔ اس وقت بھی اس کی فوجیں سرحدوں پر دباؤ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ اس کے وسائل ہم س تقریبا دس گنا زیادہ ہیں۔ وہ ایٹمی دھماکہ بھی کر چکا ہے۔ وہ روایتی فوج، گولہ بارود اور اسلحہ سازی کے میدان میں ہم سے کئی گنا آگے ہے۔ لہذا ہمارے دفاع تقاضے بھی ایٹمی پروگرام کے متقاضی ہیں۔ پھر اسرائیل کا مسئلہ بھی ہے۔ یہود و ہنود کے گٹھ جوڑ سے ہم صرفِ نظر نہیں کر سکتے۔
تمام قدرتی وسائل کا سروے
ہمارے ملک میں بہت سی انڈسٹریز کا خام مال موجود ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان پر جیالوجسٹوں کا تقرر کیا جائے۔ تاکہ ان معدنیات کو محنت اور منصوبہ بندی سے نکالنے اور خام مال کو صاف کرنے کا اہتمام کیا جائے پھر اس خام مال سے صنعت و حرفت کو آگے بڑھایا جائے۔ مثال کے طور پر ماہرین کے مطابق کالا باغ میں ایک اچھی سٹیل مِل بھی لگ سکتی ہے اور نیوکلئیر پاور پلانٹ بھی لگ سکتا ہے۔ پھر قدرتی وسائل کو صحیح طور استعمال کر کے اپنی مصنوعات کا معیار بلند کیا جائے اور نئی صنعتوں کے لئے مزید وسائل تلاش کئے جائیں۔ سیم اور تھور سے زمینیں ضائع ہو رہی ہیں۔ ان کا بھی تدارک کیا جائے۔ اسی طرح سے صنعتی اور زرعی انقلاب آنا کچھ مشکل نہیں۔ گزشتہ قومیائی گئی صنعتوں کو حکومتی شعبہ سے نکال کر نجی شعبہ میں دینے سے بھی کافی مفید اثر پڑے گا۔
بین الاقوامی طور پر
یورپ اپنی تمام تر ترقی کے باوجود ایک کامن مارکیٹ قائم کرنے کی ضرورت محسوس کر رہا تھا۔چنانچہ اب وہ فوری بنیادوں پر اقتصادی ترقی کے لئے کامن مارکیٹ کا عزم کئے ہوئے ہیں اور درجہ وار اس پروگرام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اسی طرح ایک منڈی ترقی پذیر ممالک بھی قائم کر سکتے ہیں۔ آپس میں ٹیکنالوجی اور جدید سائنسی تعلیم کا لین دین کریں۔ اور اس طرح خود انحصاری کا جذبہ پیدا کریں۔ پاکستان کو ایسی منڈی قائم کرنے کے لئے اسلامی ممالک اور تیسری دنیا کے ممالک سے رابطہ قائم کرنا چاہے۔ تاکہ عالمی مالیاتی اداروں اور امریکہ کے چنگل سے نجات ملے اور وہ مدد جو ایک ہاتھ سے لے کر دوسرے ہاتھ سے بٹور لی جاتی ہے، سے دامن پاک ہو سکے۔
نجی شعبہ میں خود انحصاری
صرف پاک و ہند میں خواتین کپڑے، زیور اور اعلیٰ فرنیچر بے شمار خرچ کرتی ہیں۔ جہیز اور رسومات پر خرچ کرتی ہیں، اس کو محدود کیا جائے۔ اس غرض کے لئے تعلیم اور ذرائع ابلاغ کے ذریعہ سے نوجوان نسل کو خصوصا دیہی آبادی کو نظریہ پاکستان اور اپنے ملی و قومی تشخص سے روشناس کرایا جائے۔ تو وہ پہلے ہی سودی قرضوں کے جال سے تنگ آئے ہیں۔ قیمتی زرمبادلہ مہلک اور مُضر فلموں اور ڈراموں پر صرف ہو جاتا ہے۔ اپنے ٹی وی کو غیروں کی تہذیب کی غلامی سے آزاد کریں اور زرمبادلہ بچائیں۔ فورا غیر ملکی مصنوعات چھوڑ کر جذبہ حب الوطنی کے تحت قومی اور وطنی مصنوعات استعمال کرنے کے پابند بن سکتے ہیں۔ معیار زندگی کی دوڑ کو کم کر کے اپنی ضروریات محدود کر کے کافی بچت کر سکتے ہیں۔ پھر خود انحصاری کا ان میں شعور پیدا کیا جائے۔ گاؤں کی سطح سے عوام کو ساتھ لے کر آگے بڑھا جائے۔ ہر گاؤں اپنا نظام خود قائم کرے۔ اپنی مدد آپ کے تحت تعلیمی ضروریات، کھادوں، شفا خانوں اور سڑکوں کی تعمیر کریں، جب گاؤں بھر کے لوگ کسی کام کے لئے کمربستہ ہو جائیں تو پھر راستے میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہتی۔ مثلا سب مل کر نیک جذبے سے سکول تعمیر کریں تو گاؤں کے پڑھے لکھے لوگ ہی بچوں کو پڑھانے پر تیار ہو جائیں گے۔ یہ نہیں ہو گا کہ جن استادوں کو شہر سے پڑھانے کے لئے گاؤں بھیج دیا جاتا ہے وہ یا تو لمبی چھٹی لے لیتے ہیں یا پھر اپنا تبادلہ کرا لیتے ہیں۔ اس طرح سب کام خراب ہو جاتا ہے۔ گاؤں کے لئے تمام ضروریات گاؤں کے اندر ہی مہیا ہونی چاہیں۔ کھادیں، آلات کشاد رزی، سبزیاں، گوشت، پولٹری، کپڑے اور دیگر سامان وغیرہ تو اس غرض کے لئے گاؤں میں سماجی تنظیموں کا قیام عمل میں لایا جائے۔ یہ کام تحصیل کی سطح پر، ضلع کی سطح پر، ڈویژن اور پھر صوبے کی سطح پر پھیلانا چاہئے۔ تاکہ نچلی سطح سے اوپر کی سطح تک اپنے اپنے علاقے میں خود کفالت کے رجھانات پیدا کئے جا سکیں۔ جب عوام اپنی حالت خود بہتر بنانے کے جذبے سے کام کریں گے تو حکومت کے لئے بھی تمام کام آسان ہو جائے گا اور سکولوں، سڑکوں، ڈسپنسریوں کا ملک بھر میں جال بچھ جائے گا۔
نظامِ اسلام کا نفاذ
آزاد قوموں کا باوقار کردار خود کفالت اور خود انحصاری ہی ہوتا ہے۔ اوپر خود انحصاری کو حاصل کرنے کے لئے جن تدبیروں کو ذکر کیا گیا۔ وہ سماوی ہیں، یہ سب تدبیریں پڑی رہ جائیں گی اگر ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اندر اسلامی نظام کو نہ نافذ کر سکیں۔ کلمہ گو مسلمان کا معاملہ غیر مسلم سے بالکل جداگانہ ہے۔ غیر مسلموں کا تو اللہ تعالیٰ سے کوئی عہد نہیں لہذا ان کا معاملہ دوسرا ہے۔ جبکہ ہر کلمہ گو اللہ تعالیٰ سے اللہ کی فرمانبرداری اور اطاعت کا عہد کرتا ہے۔ قیام پاکستان کے وقت بھی مسلمانوں نے اللہ سے اسلامی نظام کے نفاذ کا عہد کیا تھا۔ اب اگر ہم اس میں کامیاب نہ ہوں تو یہ عہد شکنی ہے۔ اس عہد شکنی کا اور اپنے قول و قرار سے پھر جانے کا انجام دنیا میں ذلت و خواری کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔ لہذا گزشتہ گناہوں پر اللہ سے توبہ کی جائے۔ سودی قرضوں کا باب ختم کیا جائے۔ زندگی کے تمام شعبوں میں اسلامی قانون کو نافذ کیا جائے۔ اگر ذرائع ابلاغ ریڈیوِ ٹی وی اپنے دینی، تہذیبی اور تمدنی اقدار کی تبلیغ کا کام کریں تو حکومت کا آدھا کام خود ہو جائے۔ جو کام سخت قوانین نہیں کر سکتے۔ وہ موثر تعلیم سے کئے جا سکتے ہیں
دل بدل جاتے ہیں تعلیم بدل جانے سے
یقین کیجئے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہونے سے آسمان سے دولت کی بارش ہو سکتی ہے۔ اور زمین سے 20 گنا زائد خرانے حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ ارشاد ربانی ہے:
﴿وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَىٰ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ﴾... (سورہ االاعراف)
"اگر بستی والے ایمان لائیں اور اللہ سے ڈریں تو ہم ان پر آسمان و زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیں"
تاریخ شاہد ہے کہ مسلمان جب تک قانون اسلامی پر قائم رہے، دنیا میں سرخرو رہے، خوشحالی اور کامیابی ان کے قدم چومتی رہی۔ جو حکمران جتنا زیادہ خدا ترس اور متقی تھا اس کے عہد میں اتنی ہی زیادہ خوشحالی تھی۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دور میں کوئی زکوٰۃ لینے والا نہ ملتا تھا۔ اب اگر تمام مسلمان اپنی زکوٰۃ ہی صحیح طور پر ادا کریں اور وہ درمیان میں خورد بَرد نہ ہو۔ دیانتداری سے بیت المال میں جمع ہوں۔ تو تنہا زکاۃ ہی تمام ٹیکسوں سے نجات سے سکتی ہے۔ ہمارا یہ ایمان ہے کہ جب تک سودی معیشت موجود ہے، خود کفالت کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ لیکن اسلامی نظام و قانون کو خلوص دل سے نافذ کرنے سے ان شاءاللہ، ان شاءاللہ چند سالوں کے اندر پاکستان نہ صرف خود کفیل ہو گا بلکہ مضبوط و مستحکم معیشت کا مالک اور خوشحال ہو گا بلکہ دوسری ممالک کو بھی قرضے دینے کے قابل ہو سکے گا۔
وَمَا ذَٰلِكَ عَلَى اللَّـهِ بِعَزِيزٍ"یہ بات اللہ کے لئے کچھ مشکل نہیں ہے"
بقول علامہ اقبال
سبب کچھ اور ہے تو جس کو خود سمجھتا ہے
زوال بندہ مومن کا بےزری سے نہیں