انتخاب حضرت حسنؓ اور ضمني مباحث

حضرت علیؓ کی وفات کے قریب آپ سے لوگوں نے کہا اِسْتَخْلِفْ (یعنی اپنا ولی عہد مقرر کر جائیے) آپ نےجواب میں فرمایا: ’’میں مسلمانوں کو اسی حالت میں چھوڑوں گا جس میں رسول اللہ نے چھوڑا تھا‘‘ (البدایۃ ج ۸ ص ۱۳-۱۴)
2. ثم قال اِن مِتُّ فاقتلوہ وان شتُ فانا اعلم کیف اصنع به۔‘‘ فقال جندب بن عبد الله ’’یا امیر المومنین! ان مت نبایع الحسن؟‘‘ فقال ’’لا امرکم ولا انھا کم، انتم اَبْصَدُ۔‘‘ (البدایہ والنہایہ ص ۳۲۷، ج۷)
پھر حضرت علیؓ نے فرمایا: اگر میں مر گیا تو اس (قاتل) کو قتل کر دینا اور اگر میں زندہ رہا تو میں جانوں میرا کام۔‘‘ حضرت جندب بن عبد اللہ نے کہا۔ ’’اے امیر المؤمنین! اگر آپ فوت ہو جائیں تو ہم حضرت حسنؓ کے ہاتھ پر بیعت کر لیں؟ فرمایا: ’’میں نہ تمہیں اس کا حکم دیتا ہوں نہ منع کرتا ہوں۔ تم خود بہتر سمجھتے ہو۔‘‘
3. بُوْیَعَ للحسن بن علی علیه السلام بالخلافة وقیل ان اوّل من بایعه قیس بن سعد قال له ابسط یدک ابا یعک علٰی کتاب الله عزوجل وسنة نبیه (طبری ج ۵ ص ۱۵۸)
حضرت حسنؓ بن علیؓ کی خلافت پر بیعت ہوئی اور کہتے ہیں کہ پہلا شخص جس نے بیعت کی وہ قیس بن سعد تھا۔ اس نے کہا اپنا ہاتھ اُٹھائیے۔ میں آپ کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت پر بیعت کرتا ہوں۔‘‘

ضمنی مباحث

ہم نے خلفائے راشدین کی خلافت کے انعقاد سے متعلق حتی الامکان صحیح روایات اولین ماخذوں سے پیش کر دی ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل نتائج سامنے آتے ہیں۔
$11.   آیا خلافت ایک انتخابی منصب ہے؟
$11.   استخلاف یا نامزدگی:
الف۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ پہلے خود حضورِ اکرم ﷺ نے حضرت ابو بکرؓ کو خلیفہ نامزد کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ لیکن اس یقین کی وجہ سے یہ ارادہ ترک کر دیا کہ ’’مسلمان کسی دوسرے کا خلیفہ بننا گوارا نہیں کر سکتے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہے۔‘‘ تو پھر خلیفہ نامزد کر دینے سے نامزد نہ کرنا ہی بہتر ہے۔ آپ کا ترک ارادہ جملہ مسلمانوں کی دلجوئی اور ان پر آپ کی شفقت کا مظہر تھا۔ یعنی اگر کچھ لوگ آس لگائے بیٹھے ہوں تو ان کی دل شکنی نہ ہو۔
ب۔ حضرت ابو بکرؓ نے حضرت عمرؓ کو خلیفہ نامزد کر دیا۔ نامزدگی کے وقت ان کے سامنے مندرجہ ذیل باتیں تھیں۔
$11.      ان کے نزدیک امت میں حضرت عمرؓ سے زیادہ خلافت کے لئے کوئی اہل تر نہ تھا۔
$12.      انہوں نے اپنے کسی قریبی رشتہ دار کو نامزد نہیں کیا۔
$13.      نامزدگی کے سلسلہ میں خدا کے سامنے جوابدہی کا تصور غالب تھا۔
ج۔ حضرت عمرؓ کو جب یہ کہا گیا کہ خلیفہ نامزد کر جائیے تو آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ ایسا کیوں کہتے ہو۔ خلافت تو محض ایک انتخابی منصب ہے۔ بلکہ یوں فرمایا (اور اس وقت آپ کے ذہن میں مندرجہ ذیل باتیں تھیں۔):
$11.      اگر میں خلیفہ نامزد کر جاؤں تو بھی ٹھیک ہے کہ یہ سنت اپنے سے بہتر آدمی (حضرت ابو بکرؓ) کی سنت ہے اور اگر نہ کروں تو بھی ٹھیک ہے کہ یہ مجھ سے بہتر آدمی (خود حضور اکرمؐ) کی سنت ہے۔
$12.      آپ نامزدگی کی اس صورت میں ترجیح دے سکتے تھے جب کہ کوئی اہل تر آدمی ان کے پاس موجود ہوتا۔ جیسا کہ آپ نے حضرت عبیدہ بن الجراحؓ اور سالمؓ کے نام بھی لیے۔ کہ اگر ان میں سے کوئی بھی زندہ ہوتا تو اسے ہی نامزد کرنے کو ترجیح دیتے۔
$13.      اپنے بیٹے حضرت عبد اللہ کو آپ نے اس لئے نامزد نہیں کیا تھا کہ وہ خلافت کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا ایک کٹھن کام سمجھتے تھے اور خدا کے سامنے جوابدہی کے تصور سے ڈر کر خلافت کو اپنے تک ہی محدود رکھنا چاہتے تھے۔
$14.      اب ثانوی شکل یہ رہ گئی تھی کہ انہوں نے خلافت کے لئے۶ آدمیوں کو نامزد کر دیا۔ کسی ایک کے نامزد نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ آپ کی نظر میں ان چھ آدمیوں میں سے ہر ایک میں کچھ نہ کچھ خامی تھی(  الفاروق۔ شبلی نعمانی۔) ۔ لہٰذا انتخاب کی ذمہ داری انہی پر ڈال دی۔ اگر انہیں کسی ایک شخص پر بھی اطمینان ہو جاتا تو وہ یقیناً نامزدگی کو انتخاب پر ترجیح دیتے۔
د۔ حضرت عثمانؓ سے بھی ایک مرتبہ لوگوں نے خلیفہ نامزد کرنے کو کہا تھا۔ یہ سوال جواب بھی ملاحظہ فرما لیجیے۔
اخبرنی مروان بن الحکم قال: اصاب عثمان ابن عفان رُعافٌ شدید سنة الرُّعاف حتّٰی حبسه عن الحج واوصٰی فدخل علیه رجل من قریشٍ قال: استخلف قال ’’وقالوہ‘‘؟ قال نعم۔ قال ’’ومن؟‘‘ ففدخل علیه رجلٌ اٰخِرُ احسبه الحرث فقال استخلف فقال عثمان ’’وقالوا؟‘‘ قال نعم، قال ومن ھو؟ فَسَکَتَ۔ قال: فلعلھم قالوا الزبیر؟‘‘ قال نعم‘‘: قال ’’اما والذی نفسی بیدہ انه لخیرھم ما علمت وان کان لَاَحَبَّھُمْ الی رسول الله ﷺ (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب مناقب زبیر بن العوام)
مروان بن حکم نے مجھے خبر دی کہ حضرت عثمانؓ کو ایک سال نکسیر پھوٹنے کی ایسی بیماری لاحق ہوئی کہ وہ حج کو بھی نہ جا سکے اور وصیت کرنے لگے۔ قریش کے کسی آدمی نے انہیں کہا۔ ’’کوئی خلیفہ بنا جائیے۔‘‘ کہنے لگے۔ ’’کیا لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں۔‘‘ وہ کہنے لگا۔ ہاں۔ آپ نے پوچھا ’’کس کے متعلق کہتے ہیں؟‘‘ تو وہ چپ ہو رہا۔ پھر ایک اور آدمی آیا۔ میرا خیال ہے وہ حارث تھا۔ اس نے بھی یہی کہا کہ کسی کو خلیفہ بنا دیجیے۔ حضرت عثمانؓ نے پوچھا۔ کیا لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں؟ کہنے لگا ’’ہاں‘‘ آپ نے پوچھا ’’کس کے متعلق؟‘‘ تو وہ بھی چپ رہا۔ پھر آپ نے فرمایا۔ ’’شاید وہ حضرت زبیرؓ بن عوام کو خلیفہ بنانا چاہتے ہیں؟ اس نے کہا۔ ’’ہاں۔‘‘ آپ نے فرمایا خدا کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ جتنے لوگوں کو میں جانتا ہوں زبیرؓ بن عوام ان سب سے بہتر ہیں اور سب سے زیادہ آنحضرت ﷺ سے محبت رکھتے تھے۔
اس کے ساتھ ہی اگلی حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں۔ حضرت عثمانؓ نے تین بار یہ بات دہرائی کہ ’’تم خود جانتے ہو کہ زبیر بن عوام تم سب میں سے بہتر ہیں۔‘‘
بخاری شریف کے مترجم علامہ وحید الزمان نے اس حدیث پر یہ نوٹ بھی دیا ہے۔
کہتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ نے اپنے بعد خلافت عبد الرحمٰنؓ بن عوف کے لئے لکھ کر اپنے منشی کے پاس وہ کاغذ رکھوا دیا تھا۔ مگر حضرت عبد الرحمٰنؓ بن عوف ان کی زندگی میں ہی    ۲۲  ؁ھ میں انتقال کر گئے۔
اس حدیث سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی اہل تر آدمی موجود ہو تو نامزدگی کو نہ تو خلفائے راشدین ہی ناجائز تھے اور نہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین۔
ھ۔ حضرت علیؓ کو آخر وقت میں حضرت حسنؓ کو خلیفہ نامزد کرنے کو کہا گیا تو آپ نے نہ تو یہ فرمایا کہ استخلاف ناپسندیدہ یا ناجائز کام ہے اور نہ ہی یہ فرمایا کہ باپ کے بعد بیٹا کیونکر نامزد کیا جا سکتا ہے۔ جب حضرت جندب بن عبد اللہؓ صحابی رسول نے آپ سے فرمایا کہ ہم حضرت حسن کے ہاتھ بیعت کر لیں۔ تو آپ نے فقط یہ فرمایا:
’’نہ میں تمہیں اس کا حکم دیتا ہوں نہ اس سے منع کرتا ہوں۔ تم لوگ اچھی طرح دیکھ سکتے ہو۔‘‘
ان تصریحات سے یہ واضح ہے کہ خلافت محض انتخابی منصب نہیں بلکہ خلیفہ وقت خدا کے سامنے جوابدہی کے تصور کو سامنے رکھ کر اگر خلیفہ نامزد کر جائے تو یہ صورت صرف جائز ہی نہیں بلکہ بہتر ہے۔ جیسا کہ حضرت عمرؓ کے ارشادات سے واضح ہوتا ہے اور دوسرا نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ باپ کے بعد بیٹا بھی خلیفہ بن سکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت حسنؓ کی خلافت کو متفقہ طور پر خلافت راشدہ میں شمار کیا جاتا ہے اور تیسرا یہ کہ باپ اگر خود بیٹے کو نامزد کر دے بشرطیکہ وہ اس کا اہل ہو تو یہ بھی کوئی گناہ کی بات نہیں۔ بلکہ جائز ہے۔ جیسا کہ حضرت علیؓ کے ارشاد سے واضح ہوتا ہے۔
خلافت و ملوکیت:
یہاں آکر خلافت اور ملوکیت کی ایک سرحد آپس میں مل جاتی ہے۔ ہم یہ پہلے بتلا چکے ہیں کہ خلافت، ملوکیت اور موجودہ جمہوریت کے درمیان اعتدال کی راہ ہے۔ اسے نہ ملوکیت سے بَیر ہے نہ موجودہ جمہوریت سے کوئی کد۔ حضرت داؤد علیہ السلام بیک وقت خلیفہ بھی تھے اور بادشاہ بھی۔ داؤد علیہ السلام کے متعلق درج ذیل آیت میں بعض علماء نے خلیفہ کا ترجمہ ’’بادشاہ‘‘ سے بھی کیا ہے:۔ مثلاً:
﴿يـٰداوۥدُ إِنّا جَعَلنـٰكَ خَليفَةً فِى الأَرضِ ... ﴿٢٦﴾...ص
’’اے داؤد ہم نے تجھے زمین میں بادشاہ بنایا ہے۔ (احمد علیؒ)
............................................... (فتح محمد جالندھری)
اللہ تعالیٰ نے خود بھی داؤد علیہ السلام کو خلیفہ بھی کہا ہے اور بادشاہ بھی۔ بادشاہ کے لئے ملک اور بادشاہت کے لئے ملک کا لفظ استعمال ہوا ہے۔
﴿وَقَتَلَ داوۥدُ جالوتَ وَءاتىٰهُ اللَّـهُ المُلكَ وَالحِكمَةَ ...﴿٢٥٢﴾...البقرة
اور داؤدؑ نے جالوت کو مار ڈالا اور اللہ نے سلطنت اور حکمت داؤد کو دی (احمد علیؒ)
اور داؤد نے جالوت کو قتل کر ڈالا اور خدا نے ان کو بادشاہی اور دانائی بخشی۔(فتح محمدؒ)
گویا داؤد علیہ السلام خلیفہ بھی اور بادشاہ بھی تھے۔ جب نظامِ حکمرانی کا پہلو اجاگر کرنا مقصود تھا کہ وہ حق کے ساتھ فیصلے کریں اور خواہشات کی پیروی نہ کریں تو ان کے لئے خلیفہ کا لفظ استعمال کیا گیا اور جب ان کے اقتدار، سلطنت، بادشاہی یا حکومت کی طرف اشارہ مقصود تھا تو مَلِک یا مُلَک کا لفظ استعمال کیا گیا جیسا کہ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے داؤد علیہ السلام کے متعلق فرمایا:
﴿وَشَدَدنا مُلكَهُ وَءاتَينـٰهُ الحِكمَةَ وَفَصلَ الخِطابِ ﴿٢٠﴾...ص
اور ہم نے داؤد کی سلطنت کو مستحکم بنایا اور اسے حکمت اور قوتِ فیصلہ بھی بخشی۔
معلوم ہوا کہ ملوکیت فی نفسہٖ مذموم نہیں جیسا کہ آج کل مغربی جمہوریت سے متاثر لوگ محسوس کرتے ہیں۔ داؤد علیہ اسلام کے بیٹے سلیمان علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے خود بادشاہی کے لئے یوں دعا مانگی۔
﴿قالَ رَبِّ اغفِر لى وَهَب لى مُلكًا لا يَنبَغى لِأَحَدٍ مِن بَعدى ...﴿٣٥﴾...ص
اے پروردگار مجھے مغفرت کر اور مجھ کو ایسی بادشاہی عطا کر جو میرے بعد کسی کو شایان نہ ہو۔ (فتح محمد جالندھری)
اور سلیمان علیہ السلام کی یہ دعا اللہ تعالیٰ نے قبول بھی فرمائی۔ اسی طرح یوسف علیہ السلام کو خدا نے بادشاہت عنایت فرمائی۔ (۱۳/۱۰۱)
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل نے اپنے نبی سے عرض کی کہ کوئی بادشاہ مقرر کر دیجیے تو نبی نے فرمایا:
﴿وَقالَ لَهُم نَبِيُّهُم إِنَّ اللَّـهَ قَد بَعَثَ لَكُم طالوتَ مَلِكًا ... ﴿٢٤٧﴾...البقرة
اور پیغمبر نے ان سے کہا کہ خدا نے تم پر طالوت کو بادشاہ مقرر فرمایا ہے۔
اس نبی نے بنو اسرائیل سے یا خدا نے نبی سے یہ نہیں فرمایا کہ ملوکیت تو بری شے ہے اس کا سوال کیوں کرتے ہو؟ اور اللہ تعالیٰ نے خود اپنی قدرت اور حاکمیت ان الفاظ میں بیان فرمائی کہ جسے چاہے بادشاہی عطا کرے اور جس سے چاہے چھین لے۔
﴿قُلِ اللَّـهُمَّ مـٰلِكَ المُلكِ تُؤتِى المُلكَ مَن تَشاءُ وَتَنزِعُ المُلكَ مِمَّن تَشاءُ...﴿٢٦﴾...آل عمران
کہو! اے اللہ! بادشاہی کے مالک! تو جسے چاہے بادشاہی بخشے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لے۔
پھر اللہ تعالیٰ جس طرح اپنے فرمانبردار بندوں پر خلافت کی نعمت کا ذکر کرتے ہیں۔ (جیسا کہ پہلے گزر چکا) اسی طرح بادشاہ بنانے کی نعمت کا بھی ذکر فرماتے ہیں:
﴿ فَقَد ءاتَينا ءالَ إِبرٰهيمَ الكِتـٰبَ وَالحِكمَةَ وَءاتَينـٰهُم مُلكًا عَظيمًا ﴿٥٤﴾...النساء
سو ہم نے خاندان ابراہیم کو کتاب اور دانائی عنایت فرمائی تھی اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی۔
﴿وَإِذ قالَ موسىٰ لِقَومِهِ يـٰقَومِ اذكُروا نِعمَةَ اللَّـهِ عَلَيكُم إِذ جَعَلَ فيكُم أَنبِياءَ وَجَعَلَكُم مُلوكًا ...﴿٢٠﴾...المائدة
اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ بھائیو! تم پر خدا نے جو احسان کیے ہیں ان کو یاد کرو کہ اس نے تم میں سے پیغمبر پیدا کیے اور تمہیں بادشاہ بنایا۔
ہاں اگر بادشاہ اللہ کی فرمانبرداری کے بجائے سرکشی کی راہ اختیار کرے تو ملوکیت ایک مذموم چیز بن جاتی ہے۔ فرعون، نمرود، شداد، ہامان اسی قسم کے بادشاہ تھے۔ ایسی ہی مطلق العنان اور استبدادی حکومت کو قرآن کریم نے مذموم قرار دیا ہے۔ اور حضور اکرم ﷺ نے ’’ملک عضوض‘‘ کے نام سے پکارا ہے۔ (خلافت و ملوکیت کے فرق کی تفصیل کسی دوسرے مقام پر ہے)۔
حضرت عمرؓ نامزد ہوئے یا منتخب؟:
خلافتِ راشدہ میں استخلاف کی واضح مثال حضرت عمرؓ کی نامزدگی ہے۔ جنہیں حضرت ابو بکرؓ نے اپنی وفات سے قبل نامزد کیا تھا۔ لیکن بعض دوستوں نے اسے بھی انتخابی خلافت ہی میں شمار کیا ہے۔ کیونکہ استخلاف کا یہ تصوّر موجودہ جمہوریت کے تصوّر انتخاب سے متصادم ہے۔ یہ حضرات اسے انتخاب ثابت کرنے کے لئے یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکرؓ نے نامزدگی کا اعلان کرنے سے پیشتر اکابر صحابہؓ سے مشورہ کر لیا تھا۔ لہٰذا یہ نامزدگی بھی فی الحقیقت عوام کا انتخاب ہی تھا۔
اس معاملہ میں بھی حقائق کو موڑ توڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔ اصل واقعہ بہ روایت صحیحہ ہم پیش کر چکے ہیں۔ حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمرؓ کے استخلاف یا نامزدگی کا پتہ عزم رکھتے تھے جیسا کہ پہلی روایت کے ابتدا ہی میں لفظ عقد سے واضح ہو جاتا ہے۔ آپ نے حضرت عبد الرحمٰن بن عوف کو بلا کر ان سے تذکرہ کیا۔ تو انہوں نے ان کی سختی کا شکوہ کیا۔ تو آپ نے حضرت عبد الرحمٰن کی رائے قبول نہیں کی بلکہ ان کی رائے کو ہموار کیا۔ حضرت عثمانؓ سے بلا کر تذکرہ کیا تو انہوں نے اس نامزدگی کی داد دی۔
بعد ازاں جب اس بات کا تذکرہ عام ہونے لگا تو حضرت علیؓ نے حضرت عمرؓ کی تیزیٔ طبیعت کا شکوہ کیا تو آپ نے یہ کہہ کر ان کی رائے کو بھی ہموار کر لیا کہ اس نامزدگی کے لئے خدا کے حضور میں جواب دِہ میں ہوں۔ میں کہہ دوں گا کہ ’’مجھے تیری امت میں عمرؓ سے بہتر کوئی آدمی نہ ملا۔‘‘
مشورہ وہ ہوتا ہے جس میں دوسروں سے رائے لے کر اس پر غور کیا جائے۔ لیکن یہاں دوسروں کی رائے کو ہموار کر کے مطمئن کیا جا رہا ہے۔ ان کے حقائق کے باوجود بھی اگر ہمارے یہ دوست اس واقعہ کو انتخابی خلافت کے زمرہ میں شمار کریں تو ہم اس کے سوا اور کیا کہہ سکتے ہیں:
﴿رَبَّنا لا تُزِغ قُلوبَنا بَعدَ إِذ هَدَيتَنا ...﴿٨﴾...آل عمران
اے پروردگار!جب تو نے ہمیں ہدایت بخشی ہے تو اس کے بعد ہمارے دلوں میں ٹیڑھ نہ پیدا کرنا۔
انتخابی خلافت کا تصوّر؟
نظامِ خلافت میں انتخاب کا وہ تصوّر سرے سے ناپید ہے جو مغربی طرزِ انتخاب کا طرۂ امتیاز ہے جس میں فیصلہ کثرت رائے کی بنیاد پر ہوتا ہے جبکہ حضرت ابو بکرؓ کو بقول حضرت عمرؓ صرف ایک شخص (حضرت عمرؓ) نے انتخاب کیا۔ حضرت حسنؓ کو صرف ایک شخص قیس بن سعد نے انتخاب کیا۔ حضرت علیؓ کو اہلِ بدر اور شوریٰ میں سے (جو کہ بقول حضرت علیؓ انتخاب کے جائز حق دار تھے) ایک قلیل تعداد نے انتخاب کیا تھا۔
البتہ حضرت عثمانؓ کے معاملہ میں حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ کا استصواب عام انتخابی خلافت کے لئے ایک واضح ثبوت ہے۔ لیکن ہمیں افسوس ہے کہ یہ ثبوت بھی اس معیار پر پورا نہیں اترتا۔ جس معیار پر ہمارے یہ دوست اتارنا چاہتے ہیں۔ پوری مملکت اسلامیہ ایک وقت ایک لاکھ ۲۰ ہزار مربع میل میں پھیلی ہوئی تھی جب کہ یہ انتخاب صرف مدینہ میں ہوا اور وہ بھی چیدہ چیدہ لوگوں سے۔
حضرت عثمانؓ کے انتخاب سے دو باتیں سامنے آتی ہیں:
$11.      انتخاب کا فیصلہ حضرت عبد الرحمان بن عوف نے کیا اور اس اختیار کی بنا پر کیا جو انہیں حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ نے دیا تھا۔ کثرتِ رائے اس کی حقیقی بنیاد نہ تھی۔
$12.      حضرت عبد الرحمٰن بن عوف نے جیسا کہ حدیث مندرجہ سے واضح ہے۔ اس اصول کی بنا پر حضرت عثمان کو منتخب کیا تھا کہ وہ کتاب و سنت کے علاوہ پہلے دونوں خلفاء کے نظائر کا اتباع کریں گے۔ یہ بات حضرت علیؓ نے تسلیم نہ کی تھی۔ لہٰذا ان کو منتخب نہ کیا گیا گویا فیصلہ بہرحال اصول کے تحت تھا۔ محض کثرت رائے کے تحت نہ تھا۔ البتہ کثرت رائے بھی اس دلیل کے ساتھ مل گئی تو فیصلہ کرنا مزید آسان ہو گیا۔
$13.      حضرت عبد الرحمان بن عوف نے صرف ان لوگوں سے ہی مشورہ کیا تھا جن کو وہ مشورہ کا اہل سمجھتے تھے۔ جیسا کہ روایات کے الفاظ سے صاف واضح ہے۔ خواہ وہ چرواہے تھے یا مدرسہ کے طالب علم، پردہ نشین عورتیں تھیں یا راہ چلتے مسافر۔ مشورے کا یہ تصوّر بھی موجودہ طرزِ انتخاب (حق بالغ رائے دہی) کو باطل قرار دیتا ہے۔
انتخاب عام:
اگر حضرت ابو بکرؓ چاہتے تو پوری مملکت میں استصواب کروا سکتے تھے۔ ان کے پاس وقت تھا۔ اور اگر حضرت عمر چاہتے تو وہ بھی کروا سکتے کیونکہ وسائل رسل و رسائل اتنی ترقی کر چکے تھے کہ مسلمانوں کی مردم شماری کی لسٹ تیار کرنے کا کام عہد نبوی میں ہی شروع ہو چکا تھا (بخاری۔ کتاب العباد والسیر باب کتابۃ الامام الناس) اور حضرت عمرؓ کے عہد میں یہ کام ایک علیحدہ شعبہ کی حیثیت اختیار کر چکا تھا۔ لیکن ان بزرگوں نے اسے کوئی اہمیت نہیں دی جو اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ اسلام میں خلیفہ کے انتخاب کا وہ تصور ہی سرے سے مفقود ہے جو مغربی طرزِ انتخاب میں پایا جاتا ہے۔
ماحصل
$11.      خلیفہ کو اگر شوریٰ منتخب کرے تو یہ سب سے بہتر صورت ہے۔ کیونکہ حضور اکرم ﷺ کا اسوہ یہی ہے اور حضرت عمرؓ کا ارشاد ہے:
لا خلافۃ الا عن مشورۃ( مصنف ابن ابی شیبۃ ج ۳ ص ۱۳۹)
مشورہ کے بغیر خلافت نہیں( بعض علماء کا یہ خیال ہے کہ حضرت عمرؓ کے اس قول سے ان کی مراد خلافت کے کاروبار یا انتظام سلطنت میں مشورہ کرنا ہے۔ یعنی ’’اصول حکومت مشورہ‘‘ ہے۔ خلیفہ کے تقرر پر مشورہ ضروری نہیں۔ اور یہ بات بہت) ۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری بیان کرتے تھے:
الا مرۃ ما اؤتمر فیھا وان الملک ما غلب علیہ بالسیف (طبقات ج ۴۔ ص ۱۱۳)
امارت وہ ہے جسے قائم کرنے میں مشورہ کیا گیا ہو اور بادشاہی وہ ہے جس پر تلوار کے زور سے قبضہ حاصل کیا گیا ہو۔
خود حضور اکرم ﷺ، حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ نے اپنے عمل سے اس منصب کو شوریٰ کے سپرد کیا۔ اگرچہ اول الذکر دونوں ہستیاں استخلاف کی طرف مائل نہیں۔
$12.      شوروی انتخاب کے بعد نامزدگی یا استخلاف کا نمبر ہے جسے حضرت ابو بکرؓ نے عملاً اختیاز کیا۔ حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ نے بھی اسے درست سمجھا۔
$13.      ہنگامی صورتِ حال میں شوریٰ کے ایک ممبر کی بیعت سے خلافت منعقد ہو جاتی ہے۔ جیسے حضرت ابو بکرؓ اور حضرت حسنؓ کی خلافت منعقد ہوئی۔ اسی طرح ہنگامی صورت میں عوام الناس (شوریٰ کے بغیر) کی بیعت سے بھی خلافت منعقد ہو جاتی ہے جیسا کہ حضرت علیؓ کی خلافت منعقد ہوئی۔
باپ کے بعد بیٹے کی خلافت بھی جائز ہے بشرطیکہ وہ اہل ہو۔ جیسے حضرت حسن کی خلافت یا حضرت داؤدؑ کے بعد حضرت سلیمانؑ خلیفہ سے مندرجہ بالا مختلف صورتوں سے بآسانی یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ خلافت ان معنوں میں انتخابی منصب ہرگز نہیں ہے جو معنی جمہوریت نواز پہنانا چاہتے ہیں۔ یہاں عوامی رائے دہندگی یا موجودہ قسم کی نمائندگی کا کوئی چکر نہیں۔ 

طریقِ انتخاب

ہمارے جمہوریت نواز دوست عموماً یہ تاثر دیتے ہیں کہ:

1.      سقیفہ بنی ساعدہ اس دَور کا پارلیمان تھا۔

2.      جہاں انصار و مہاجرین نے سرکردہ حضرات نے جو اس دَور کے قبائلی نظام کے مطابق اپنے اپنے قبیلہ کے نمائندہ کی حیثیت رکھتے تھے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے انتخاب میں حصہ لیا اور

3.      نتیجۃً حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کثرت رائے سے منتخب ہو گئے تھے۔

4.      انصار و مہاجرین کی حیثیت بھی آج کل کی سیاسی پارٹیوں سے ملتی جلتی تھی۔

لہٰذا اندریں صورت موجودہ دَور کے طرز انتخاب میں کوئی ایسی بات نظر نہیں آتی جو اسلامی طرزِ انتخاب سے متصادم ہو۔

اب ہم ان چاروں اجزا کا تفصیلی جائزہ لیں گے۔

1.   سقیفہ بنی ساعدہ:

سقف عربی زبان میں چھت کو کہتے ہیں۔ دو مکانوں کے درمیان اگر کوئی گلی ہو اور اس پر چھت ڈال کر خواہ وہ محض سائبان ہو یا لکڑی وغیرہ کی چھت۔ گلی کو سایہ دار بنا لیا جائے تو اسے سقیفہ کہا جاتا تھا۔ سقیفہ کا ترجمان مولانا وحید الزمان نے ’’منڈوا‘‘ کہا ہے، بعض دوسرے علماء اسے سائبان سے تعبیر کرتے ہیں۔ کچھ لوگ اسے ڈیرا (پنجابی دارا) کہتے ہیں۔

یہ ڈیرہ محض قبیلہ خزرج کی ایک شاخ ’’بنو ساعدہ‘‘ کا تھا۔ جس سے حضرت سعد بن عبادہ تعلق رکھتے تھے۔ اور یہ ڈیرہ یا سائبان ان ہی کے مکان سے ملحق تھا۔ فراغت کے اوقات روزہ مرہ کی عام گفتگو کے لئے یہاں چند لوگ جمع ہوجاتے تھے۔ یہ نہ تو کوئی ایسا مقام تھا جو مدینہ(  آنحضرت ﷺ کی وفات کا حال سن کر ایک طرف مسجد نبوی میں لوگ جمع ہو گئے تھے ان میں قریباً سب مہاجرین تھے۔ کیونکہ مہاجرین کے مکانات اسی علاقہ میں زیادہ تھے۔ یہاں انصار بہت کم تھے۔ دوسری طرف بازار کے متصل سقیفہ بنی ساعدہ میں مسلمانوں کا اجتماع تھا۔ اس مجمع میں تقریباً سب انصار ہی تھے۔ کوئی دو مہاجر بھی اتفاقاً وہاں موجود تھے۔ (تاریخ اسلام۔ اکبر خاں نجیب آبادی ج ۱ ص ۲۷۵) )بھر کے معززین کے لئے مخصوص ہو۔ یا اس جگہ اتنے آدمیوں کی گنجائش ہو۔ پھر یہ کوئی پولنگ سنٹر بھی نہ تھا کہ کسی کے دل میں یہ خیال تک آسکتا کہ انتخاب کے وقت یہ جگہ ہی موزوں رہے گی۔ لہٰذا اسے، اس سقیفہ کو پوری امت کا پارلیمان قرار دینا ہر لحاظ سے حقائق کے خلاف ہے۔

2.   نمائندگان کی موجودگی:

جب عام لوگ اور خصوصاً مہاجرین حضور اکرم ﷺ کی تجہیز و تکفین میں مشغول تھے تو رئیس انصار حضرت سعد بن عبادہؓ نے اس موقع کو غنیمت سمجھ کر اپنے چند ہمراہیوں کو اکٹھا کیا۔ ان کا یہی خیال تھا کہ مہاجرین کو اطلاع دیئے بغیر ان کی بے خبری میں خلیفہ کا انتخاب ہو جائے تو پھر کسی کو بھی اس سے اختلاف کرنے کی گنجائش باقی یہ رہے گی۔ لہٰذا وہ اس مسئلہ کو جلد از جلد طے کر لینا چاہتے تھے۔

اتفاقاً کسی صحابی نے حضرت عمرؓ کو اس صورتِ حال سے مطلع کیا اور کہا کہ آپ کو جلد وہاں پہنچ کر خبر لینی چاہئے۔ تو ایک روایت کے مطابق وہ حضرت ابو بکرؓ کو ساتھ لے کر وہاں پہنچے۔ اور ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت ابو عبیدہؓ بھی دو اور ساتھیوں کو لے کر وہاں پہنچ گئے تھے۔ کیونکہ سقیفہ بنی ساعدہ میں کل چار یا پانچ مہاجرین نے حضرت ابو بکرؓ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔

اب تاریخی حقائق یہ ہیں کہ فہر بن مالک (لقب قریش، قبیلہ قریش کے جد امجد) تک تیرہ پشتوں پر حضور اکرم ﷺ کا نسب جا کر جل جاتا ہے۔ عہد نبوی میں قبیلہ قریش کی بے شمار ذیلی شاخیں موجود تھیں تاہم یہ دس قبیلے زیادہ مشہور تھے۔ جو سب مسلمان ہو چکے تھے۔ ہاشم، اُمیہ، نوفل، عبد الدار، اسد، تیم، مخزوم، عدی، جمح، سہم۔

زمانہ جاہلیت میں قریش کی شرافت و حکومت زیادہ تر ان دس خاندانوں میں منحصر و منقسم تھی۔ ان معزز سردار خاندانوں کی ذمہ داریاں یہ تھیں۔

بنوہاشم کے ذمہ سقایت یعنی حاجیوں کو پانی پلانے کا کام تھا۔

بنو نوفل بے زاد حاجیوں کو توشہ اور زادِ سفر مہیا کرتے تھے۔

بنو عبد الدار کے پاس خانہ کعبہ کی چابی اور دربانی تھی۔

بنو اسد سے متعلق مشورہ اور دار الندوہ کا کام تھا۔

بنو تمیم کے متعلق خوں بہا اور تاوان کا فیصلہ تھا۔

بنو عدی سے متعلق سفارت اور قومی مفاخر سے کام تھا۔

بنو جمح کے پاس شگون کے تیر تھے۔

بنو سھم کے متعلق بتوں کا چڑھاوا وغیرہ تھا۔

بنو امیہ سپہ سالاری ان سے متعلق تھی۔

بنو مخزوم۔ سپہ سالاری (خالد بن ولید اسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے)

حضرت ابو بکرؓ اپنے قبیلہ تمیم کے سردار جو خوں بہا اور تاوان کا فیصلہ کرتے تھے۔

حضرت عمرؓ بنو عدی سے تھے اور سفارت کی خدمت انجام دیتے تھے۔ جنگ میں سفیر بن کر جاتے اور مقابلہ میں قومی تفاخر بیان کرتے تھے۔

حضرت ابو عبیدہ بن الجراح فہر کے پوتے الخلج کی اولاد سے تھے گویا یہ مندرجہ بالا دس مشہور قبیلوں کے علاوہ قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔

حضرت عبد الرحمٰن بن عوف اور سعد بن وقاص بنو تیم (بن مرہ بن کعب بن لوئی بن غالب بن فہما کی اولاد سے تھے۔ یہ خاندان بھی مندرجہ دس خاندانوں کے علاوہ ہے۔

سقیفہ مذکورہ میں بیعت کرنے والے مہاجرین کی زیادہ سے زیادہ پانچ تک ثابت ہے ضروری نہیں کہ یہ سب قریش سے ہی تعلق رکھتے ہوں۔ اگر ان سب کو قریشی ہی فرض کر لیا جائے تو بھی یہ مندرجہ تین یا زیادہ سے زیادہ چار قبیلوں کے نمائندہ تھے تو کیا اس طرح مغربی طرزِ انتخاب کے تقاضے پورے ہو جاتے ہیں جب کہ قریش کے اکثر قبیلوں کے ووٹ کاسٹ ہی نہیں ہوئے۔

پھر انصار کا معاملہ تو اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ انصار میں دو بڑے قبائل اوس اورخزرج شامل تھے۔ جن کی ذیلی شاخوں کی تعداد سینکڑوں تک جا پہنچتی ہے تو کیا وہاں سینکڑوں قبائل کے نمائندوں کی گنجائش تھی۔

پھر انصار نے جس عجلت میں یہ مہم سر انجام دینے کی ٹھان رکھی تھی۔ یہ بات قطعاً بعید از قیاس معلوم ہوتی ہے کہ تمام قبائلی نمائندوں کو شرکت کی دعوت دی جا سکتی ہو۔ یا اس قلیل وقت میں یا غیر متوقع موقع پر سب سرداروں کا جمع ہونا از خود ناممکنات سے ہے۔

پھر یہ قبائلی سردار اس طرح منتخب نہیں ہوتے تھے جس طرح آج کل کسی وارڈ کے ممبر کا انتخاب کثرت رائے سے ہوتا ہے۔ ان قبائل کا معیار انتخاب بالکل سادہ اور فطری ہوتا تھا۔ عام طور پر تین باتیں ملحوظ رکھی جاتی تھیں۔

(۱) عمر میں بڑا ہونا (۲) سمجھ دار اور تجربہ کار ہونا (۳) اپنی عادات و خصائل کی بنا پر محترم ہونا۔

گویا ان سرداروں کا انتخاب کسی مخصوص مجلس یا مخصوص وقت میں نہیں ہوتا تھا۔ بلکہ فیصلہ کے لئے چند معززین لوگ اپنی نجی گفتگو اور مجلس میں یہ رائے قائم کر لیتے تھے کہ آج کل فلاں شخص ہی اس رتبہ کا اہل ہے۔ ایسی ہی چند متفرق اور نجی مجلسوں میں رائے زنی کے بعد اسے سردار منتخب کر لیا جاتا تھا۔ اس سردار کے اس منصب کی توثیق کے لئے قبیلہ کے ہر کہ دمہ سے رائے لینا چنداں ضروری نہیں سمجھا جاتا تھا۔

اسلام نے آکر ان اہلیتوں میں صرف علم اور تقویٰ کا اضافہ کیا اور پہلی اہلیتوں کو برقرار رہنے دیا۔

اب ایک دوسرے پہلو سے بھی غور فرمائیے۔ اس وقت مسلمان صرف مہاجرین و انصار ہی کا نام نہ تھا۔ بلکہ وفات النبی ﷺ کے وقت جزیرۃ العرب میں مسلمانوں کی تعداد بیس لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ تو کیا یہ تصور بھی کیا جا سکتا ہے کہ ان بیس لاکھ افراد کے نمائندوں نے سقیفہ بنی ساعدہ میں شرکت کی ہو گی اور انصار و مہاجرین کے قبائل کے علاوہ دوسرے قبیلوں  کے نمائندے بھی شامل ہوئے ہوں گے۔ ان حالات میں تو یہ انتخاب بالواسطہ انتخاب کے تقاضے بھی پورے نہیں کرتا۔ براہِ راست انتخاب تو دُور کی بات ہے۔

نمائندگی کی ضرورت؟

عوام کے نمائندوں  کی ضرورت اس مشہور واقعہ سے جائز ثابت کی جاتی ہے جو بخاری میں متعدد مقامات پر مذکور ہے کہ جب قبیلہ ہوازن کے قیدی حضور اکرم ﷺ نے مسلمانوں میں تقسیم کر دیئے تو اسی قبیلہ کے سر کردہ لوگ آنحضرت ﷺ کے پاس آئے اور التجا کی کہ ان کے قیدیوں کو چھوڑ دیا جائے۔ حضور اکرم ﷺ نے مسلمانوں کو خطاب فرمایا اور کہا:

’’............. اور میں مناسب سمجھتا ہوں کہ ان کے قیدی ان کو پھیر دوں۔ جو کوئی خوشی سے چاہے ایسا کرے اور جو اپنا حصہ واپس نہ کرنا چاہے تو وہ ٹھہرا رہے۔ آئندہ جب غنیمت کا مال آئے تو ہم اسے معاوضہ ادا کر دیں گے۔‘‘

لوگوں نے عرض کیا۔ ’’یا رسول اللہ ہم بخوشی یہ قیدی واپس کر دیتے ہیں۔‘‘

آپ نے فرمایا: ’’مجھے یہ کیسے معلوم ہو کہ تم میں سے کون راضی ہے اور کون نہیں (کیونکہ مسلمان بہت تھے) تم ایسا کرو۔ کہ تم اپنے اپنے نقیبوں (حدیث میں عرفاءکم کا لفظ ہے، عرفاء، عریف بمعنی چودھری کی جمع ہے) سے اپنی اپنی مرضی کہلا بھیجو۔‘‘

یہ سن کر لوگ چلے گئے اور عریف لوگ اپنے اپنے لوگوں سے گفتگو کر کے آپ کے پاس آئے اور کہا۔ ’’لوگ برضا و رغبت قیدی واپس کرنے کو تیار ہیں۔‘‘ (بخاری کتاب الجہاد والسیر)

اس واقعہ سے موجودہ طرزِ انتخاب میں نمائندوں کی ضرورت اور جواز ثابت کیا جاتا ہے جب کہ اس واقعہ اور موجودہ انتخابات میں بنیادی فرق یہ ہے کہ اس واقعہ میں لوگوں کو فرداً فرداً اپنے حقِ ملکیت سے دست بردار ہونے کی اپیل کی گئی تھی اور اگر کسی ایک آدمی کی بھی مرضی نہ ہوتی اور وہ مجموع عام میں خاموش رہتا تو یہ ایک قسم کا ظلم تھا۔ لہٰذا ہر ایک ہی فرداً فرداً مرضی معلوم کرنے کی ضرورت تھی جو اہل محلہ یا محلہ کے چوہدری ہی بذریعہ بات چیت معلوم کر سکتے تھے۔ مگر شوریٰ یا امیر کا انتخاب اسلامی نقطۂ نظر سے عوام کا حق ہے ہی نہیں۔ وہ تو ایک ذمہ داری ہے۔ انتخاب کرنے والے اور منتخب ہونے والے سب کے متعدد اوصاف ہیں۔ اور انتخاب کنندگان (یا اہل الرائے) پر ایک ذمہ داری اور بوجھ ہے کہ وہ یہ امات اسی شخص کے حوالے کریں جو اس کا اہل تر ہو ورنہ وہ خدا کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔

3.   کثرت رائے اور انتخاب حضرت ابو بکرؓ

ہم بخاری کی حدیث سے ثابت کر چکے ہیں کہ حضرت عمرؓ کے اپنے بیان کے مطابق صرف انہوں نے اکیلے بیعت کی جسے اللہ تعالیٰ نے کامیاب بنا دیا۔ حضرت عمرؓ کے بعد حضرت ابو عبیدہؓ بن الجراح نے، پھر دو تین ’’مزید‘‘ وجود قریشیوں نے بیعت کی۔ اس کے بعد انصار کے موجود لوگوں میں سے اکثر نے بیعت کر لی۔

اب حضرت عمرؓ کا بیان یہ ہے کہ میں نے اکیلے حضرت ابو بکرؓ کی بیعت کی اور خدا نے اسے کامیاب بنایا۔ جس کا مطلب بالکل واضح ہے کہ بیعت کرنے والوں کی گنتی مقصود نہیں بلکہ خلافت کے انتخاب کے متعلق مشورہ دینے والوں کی گنتی مقصود ہے۔ اور وہ صرف حضرت عمر کی ذات تھی۔

اسی طرح حضرت حسنؓ کی بیعت بھی صرف ایک شخص قیس بن سعد بن عبادہ نے کی۔ بعد میں دوسرے لوگوں نے بیعت کی اور یہ خلافت بھی منعقد ہو گئی جس کی صحت میں انکار کی گنجائش نہیں ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر ایک فردِ واحد کی رائے پر بھی خلافت کا منعقد ہو جانا ثابت ہے اگرچہ یہ ہنگامی حالات کے تقاضے تھے۔ تو پھر کثرت رائے کا سوال ہی کہاں باقی رہ جاتا ہے۔ جب کثرت رائے حق کا معیار ہی نہیں (جیسا کہ مشورہ کے عنوان کے تحت تفصیلاً مذکور ہے) تو پھر کثرت رائے کو ثابت کرنے کا فائدہ بھی کیا ہے؟ کیا جمہوری طرز انتخاب میں ایسی گنجائش موجود ہے کہ ہنگامی صورت میں کوئی شخص برسرِ اقتدار آجائے یا اسے چند اشخاص لے آئیں تو اسے آئینی سربراہ سمجھ لیا جائے؟

3. سیاسی جماعتوں کا وجود

کیا انصار و مہاجرین سیاسی جماعتیں تھیں؟

مہاجرین و انصار میں خلافت کے معاملہ پر سقیفہ بنی ساعدہ میں چند لمحات کے لئے نزاع پیدا ہوئی جو اسی مقام پر ختم ہو گئی۔ تو اس واقعہ کی بنا پر مہاجرین و انصار کو آج کل کی سیاسی پارٹیوں کے مماثل قرار دینا، میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے جمہوریت نواز دوستوں کی بہت بڑی جسارت ہے۔ جب یہ مہاجرین اولین مکّہ کی گلیوں میں پِٹ رہے تھے اور کفّار کے ظلم و تشدد کا نشانہ بنے ہوئے تھے تو کیا یہ سب کچھ اس لئے ہو رہا تھا کہ ہم کسی نہ کسی وقت کاروبارِ حکومت پر قابض ہوں جیسا کہ موجودہ دور کی سیاسی پارٹیوں کا بنیادی مقصود ہی یہ ہوتا ہے۔

مہاجر اور انصار تو صفاتی نام ہیں جو ان کو خود اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائے تھے۔ کیا یہ گروہ مہاجرین و انصار ایسے ہی اغراض و مقاصد کے تحت وجود میں آئے تھے۔ جیسے موجودہ دور میں سیاسی جماعتوں کی تشکیل ہوتی ہے؟ کتنا گھناؤنا الزام ہے یہ صحابہ کبارؓ پر۔

اب ذرا جمہوریت کے علمبرداروں کی زبانی سیاسی جماعت کی تعریف سنیے۔ بعد میں فیصلہ ہم قارئین پر چھوڑتے ہیں۔

1.      میک آئیور۔ ’’ایسی جماعت جو کسی اصول یا پالیسی کی بنیاد پر منظم ہو اور جو آئینہ ذرائع سے حکومت سنبھالنے کی کوشش کرے۔‘‘

2.      گلکرائسٹ۔ ’’شہریوں کا ایک منظم گروہ جو ایک ہی سیاسی عقیدہ رکھتے ہیں اور جو سیاسی اتحاد کے ذریعہ اقتدار حکومت کے حصول کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘

3.      لارڈ برائس۔ ’’منظم جماعتیں جن کی رنکیت رضا کارانہ ہوتی ہے اور جن کا پورا زور سیاسی طاقت کے حصول پر صرف ہوتا ہے۔‘‘ (اصول سیاست مصنفہ صفدر رضا صدر شعبہ سیاسیات  بعنوان سیاسی جماعتیں ص ۳۰۹ پانچواں ایڈیشن)

گویا موجودہ جمہوری دَور میں ایک سیاسی جماعت میں تین عناصر کا وجود ضروری ہے (۱) کسی مخصوص سیاسی عقیدہ کی بنا پر اس کی تشکیل (۲) رضا کارانہ تنظیم اور (۳) تشکیل کا مقصد اقتدار کا حصول ہوتا ہے۔

علاوہ ازیں جو سیاسی جماعتیں الیکشن ہار جاتی ہیں۔ وہ حزبِ اختلاف کی شکل میں اپنا مستقل وجود برقرار رکھتی ہیں۔ یہ جمہوری طرزِ انتخاب میں لازمی ہے جس کے بغیر اسمبلیاں تشکیل پا ہی نہیں سکتیں۔ اب بتلائیے کہ حضرت ابو بکرؓ کی خلافت کے انعقاد کے بعد کونسا حزبِ اختلاف باقی رہ گیا تھا؟

پھر اس حزب اختلاف کا کام حکومت کی پالیسیوں پر نکتہ چینی کرنا ہے۔ اور چونکہ ہر سیاسی جماعت۔ خواہ وہ حزب اقتدار ہو یا حزبِ اختلاف میں ہو۔ اپنا مستقل سیاسی عقیدہ  رکھتی ہے۔ لہٰذا حکومت کی پالیسی پر تنقید کے وقت فریقین میں انا کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ لہٰذا مفاہمت کی بجائے مناقشت ہی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اب فرمائیے کہ سقیفہ بنی ساعدہ میں کیا ہوا؟ حضرت ابو بکرؓ نے رسولِ خدا کا ایک فرمان پیش کیا۔ جس کے آگے انصار نے سر تسلیمِ خم کر دیا اور امت میں پیدا شدہ انتشار کا طوفان اسی دم تھم گیا۔ وجہ یہ ہے کہ ان کے ’’سیاسی عقیدے‘‘ الگ الگ نہیں تھے۔ تو کیا اندریں صورت حال انصار یا مہاجرین کو موجودہ سیاسی جماعتوں کے مماثل قرار دیا جا سکتا ہے؟

کیا عرب قبائل سیاسی جماعتیں تھیں؟

بعض دوسرے دوست مہاجرین و انصار کا نام تو نہیں لیتے وہ قبائل کو سیاسی جماعتوں کے مماثل قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اوس اور خزرج میں اندرونی طور پر رقابت موجود تھی۔ لیکن وہ اس ’’انتخابی معرکہ‘‘ میں متحد ہو گئے تھے۔ اسی طرح بنو ہاشم اپنے مفاد کی خاطر مہاجرین سے الگ ہو گئے تھے اور عرب میں قبائلی نظام، ان کی آپس میں رقابتیں اور لڑائیاں، یہ سب کچھ ایک دوسرے پر مسابقت اور حصولِ اقتدار کے لئے ہوتا تھا۔ اور پھر اس قبائلی نظام کی اسلام نے مذمت نہیں کی بلکہ یہ کہہ کر حوصلہ افزائی ہی کی ہے۔

﴿ـٰأَيُّهَا النّاسُ إِنّا خَلَقنـٰكُم مِن ذَكَرٍ وَأُنثىٰ وَجَعَلنـٰكُم شُعوبًا وَقَبائِلَ لِتَعارَفوا...﴿١٣﴾...الحجرات

لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو۔

اس آیت کا مطلب تو صاف ہے کہ قبائل کا وجود فطری طور پر ظہور میں آیا ہے اور اس کا فائدہ یہ ہے کہ جب آبادی بڑھ جاتی ہے تو ایک دوسرے کو پہچاننے کا یہ ایک ذریعہ ہے۔ ہم ان دوستوں کی ذہانت کی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ جنہوں نے تعارف کے معنی کو بھی ’’غالب و مغلوب‘‘ کا جامہ پہنا دیا۔

برا ہو جمہوریت پرستی کا، اس نے انسانی ذہن کو کن راہوں پر ڈال دیا ہے۔ کیا ان بزرگ ہستیوں کے متعلق یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ اسلام لانے کے بعد بھی ان میں پرانی جاہلیت برقرار رہی تھی؟ کیا وہ سقیفہ بنی ساعدہ میں چند لمحات کی نزاع کے بعد اسی طرح شیر و شکر نہیں ہو گئے تھے۔ جس طرح پہلے تھے؟ کیا ایسے اہم معاملہ میں وقتی شکر رنجی کے بعد فوری مفاہمت کے بلند کردار کی کوئی اور مثال بھی پیش کی جا سکتی ہے؟

یہ درست ہے کہ بنو ہاشم کے چند افراد نے کچھ عرصہ تک بیعت نہیں کی۔ لیکن کیا کوئی ایک ادنیٰ سی مثال بھی پیش کی جا سکتی ہے کہ انہوں نے حکومت کی پالیسیوں پر نکتہ چینی کر کے حزب اختلاف کا کردار ادا کیا ہو؟ یا اپنا مستقل وجود برقرار رکھنے پر اصرار کیا ہو۔ اگر کسی اجتہادی غلطی یا بشری لغزش اور قرابتداری کی بنا پر بنو ہاشم خود کو خلافت کا حق دار سمجھتے تھے تو کیا انہوں نے اس معاملہ میں عصبیت اختیار کی تھی؟ آخر وہ کون سی بنیاد ہے کہ انہیں ہم موجودہ سیاسی جماعتوں کے مماثل قرار دے سکیں؟

سیاسی فرقوں اور مذہبی فرقوں میں فرق:

سیاسی جماعتوں کے وجود کے جواز میں یہ دلیل بھی پیش کی جاتی ہے کہ اگر فقہی اختلاف یا مذہبی فرقوں کا وجود برداشت کر لیا گیا ہے تو آخر سیاسی اختلاف اور سیاسی جماعتوں کے وجود کو کیوں ناجائز سمجھا جاتا ہے؟ ہم یہ عرض کریں گے کہ فقہی اختلاف سے مراد قرآن و سنت کی تعبیر کا اختلاف ہے۔ قرآن و سنت کے علاوہ کچھ نہیں لیکن اس اختلاف میں بھی جب عصبیت پیدا ہو جائے تو فرقہ پرستی تک نوبت پہنچ جائے تو یہ بھی کفر ہے(  دیکھیے حدیث نمبر ۱۱ زیر عنوان ملّی وحدت۔ )۔ پھر ایک غلط بات کو جائز قرار دے کر اس کو دوسری غلط چیز کے لئے بنیاد قرار دے دینا کہاں تک درست ہے؟ سیاسی اختلاف ہونا ایک فطری بات ہے لیکن اس اختلاف کو عقیدہ کا رنگ دینا پھر اپنے ہم خیال لوگوں کا منظم ہونا اور پھر حصولِ اقتدار کے لئے کوشش کرنا اور پھر اسے درست سمجھنا اور اس پر اڑے رہنا ایک گمراہ کن امر ہے۔

مذہبی فرقوں اور سیاسی فرقوں میں دوسرا فرق یہ ہے کہ مذہبی قائدین نے کبھی اپنے قیاس و مسلک کو قابلِ اتباع قرار نہیں دیا کہ اس عقیدہ کو لوگ اپنا کر فرقہ بنائیں اور اگر لوگ بنا لیں تو ان کو اپنی غلطی ہے جس سے قائد بیزار ہوتے ہیں۔ جبکہ سیاسی جماعتوں میں ایسی تنظیم بنانا لازمی شرط ہے۔ اور ان قائدین کا یہی مقصد ہوتا ہے۔

اور تیسرا فرق یہ ہے کہ مذہبی فرقوں کا مقصد عوام کی اکثریت کو اپنے ساتھ ملانا اور اقتدار پر قبضہ یا اس کے حصول کی کوشش کرنا نہیں ہوتا جبکہ سیاسی جماعتوں کا اصل مقصود ہی یہ ہوتا ہے کہ ملک میں اپنی اکثریت پیدا کرنے کے لئے نشست و انتشار پیدا کیا جائے اور پھر اس راستہ سے حکومت میں سے حصہ رسدی حاصل کرنے کے لئے راستہ ہموار کیا جائے۔

ایک اعتراض اور اس کا جواب:

ایک استفسار یہ بھی کیا جاتا ہے کہ ’’اگر اسلام سیاسی جماعتوں کا وجود گوارا نہیں تو جماعت اسلامی اور سید احمد شہید کی جماعت کے متعلق کیا خیال ہے؟‘‘

جواب:

سطح زمین پر آباد مخلوق انسانی کی دو ہی قسمیں قرآن کریم نے بتلائی ہیں۔

ھو الذی خلقکم فمنکم کافرو منکم مومن (۶۴/۲)

وہی تو ہے جس نے تم کو پیدا کیا۔ پھر کوئی تم میں کافر ہے اور کوئی مومن۔

اسی مضمون کو قرآن کریم نے ایک دوسرے مقام پر حزب اللہ اور حزب الشیطان کے نام سے پکارا ہے۔ گویا بنیادی طور پر سیاسی پارٹیاں دو ہی ہیں (۱) اللہ کی پارٹی یا مسلمانوں کی جماعت (۲) شیطان کی پارٹی یا پوری دنیائے کفر۔

مسلمانوں کی جماعت میں تفرقہ و انتشار پیدا کرنا یا مذہبی اور سیاسی پارٹیاں بنانا بڑا جرم ہے جس کی تفصیل ہم ’’امت مسلمہ‘‘ کے تحت پیش کر چکے ہیں۔ مغربی جمہوریت جیسے لا دینی نظام میں ایسی سیاسی پارٹیوں کا وجود، جو خلوص نیت سے دین کی سربلندی کے لئے کوشاں ہوں، صرف اس حد تک اضطراراً گوارا کیا جا سکتا ہے کہ بے دینی کے بڑھتے ہوئے سیلاب میں کچھ نہ کچھ رکاوٹ پیدا کرتی رہیں۔ اور یہ اَھْوَنُ الْبَلِیّتَیْن میں سے ایک کم ضرر والی صورت کو اختیار کرنے کی شکل ہے۔ اب یہ جماعتیں خواہ جماعت اسلامی ہو، یا جمعیت علمائے اسلام یا جمعیت علمائے پاکستان، سب کی ایک ہی حالت ہے۔ جمہوری نظام کا تقاضا یہ ہے کہ یہ جماعتیں اپنا تشخص برقرار رکھیں جب کہ اسلام نظام کا تقاضا یہ ہے کہ ایسی سب پارٹیاں اپنا تشخص ختم کر کے ایک ملت واحدہ میں مدغم ہو کر حزب اللہ بن جائیں اور حزب الشیطان کے مقابلہ میں ڈٹ کر مقابلہ کریں۔ اگر ایسا نہ کریں تو اسے مسلمانوں کی بد بختی کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے۔

اور سید احمد شہید کی جماعت معروف معنوں میں کوئی سیاسی جماعت نہیں تھی جس نے اپنا علیحدہ نام تک رکھنا گوارا نہ کیا بلکہ وہ ایک تحریک تھی۔ جیسا کہ اسلام بذات خود ایک تحریک ہے۔ اس تحریک نے تبلیغ، ہجرت اور جہاد کا بالکل وہی طریق اختیار کیا جو انبیاء علیہم السلام کا شیوہ رہا ہے اور جس طریق سے حضور اکرم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی رہنمائی میں۔ امتِ مسلمہ کی قیادت کی تھی۔ لہٰذا اسے تحریک علی المنہاج النبوۃ کہنا بالکل بجا ہے۔ اس جماعت نے گاندھی کا طرزِ سیاست اختیار نہیں کیا کہ ظالم کا گریبان پکڑنے کی بجائے اپنا گریبان پھاڑ کر سڑکوں پر واویلا کیا جائے تاکہ اندرونی اور بیرونی رائے عامہ اپنے حق میں استوار کرے۔ گرفتاریاں پیش کرے یا جیل میں اے کلاس کی درخواست کرے اور ضمانت پر رہائی کے بعد پھر گرفتاری اور اس کے بعد بھوک ہڑتال (خود کشی) کی دھمکیاں دیتی پھرے۔

سوچنے کی بات ہے کہ اگر سڑک پر آکر مرنا شہادت ہے تو گولی چلانے والوں کے لئے کیا فتویٰ ہے؟ اور پیٹھ پھیر کر بھاگنے والوں کے متعلق کیا رائے ہے؟ رائے عامہ کو ہموار کرنے کی یہ کوشش اسلام اور جہاد کا نام لیے بغیر بھی کی جا سکتی ہے۔ آخر یہ انداز فکر اسلامی سیاست کا کونسا حصہ ہے۔ جہاں اسلام اور جہاد کا نام لینا ضروری ہو جاتا ہے؟

سید احمد شہید کی تحریک ایسے بے ہودگیوں سے یکسر پاک تھی اور اس نے جو قدم اُٹھایا اسلامی نقطۂ نظر سے بالکل صحیح سمت میں اُٹھایا تھا اور ہماری یہ دعا ہے کہ موجودہ دین پسند سیاسی جماعتیں بھی متحد ہو کر حضور اکرم ﷺ کے اسی اسوہ کی تقلید کریں۔4. بیعتِ خاص اور بیعتِ عام

 

ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ حضرت ابو بکرؓ کے ہاتھ پر خلافت کے انعقاد کے لئے بیعت سقیفہ بنو ساعدہ میں ہوئی۔ پھر دوسرے دن مسجد نبوی میں عام بیعت ہوئی۔ حضرت عمرؓ کو حضرت ابو بکرؓ نے نامزد کیا۔ نامزدگی کے متعلق گفتگو آپ کے گھر پر ہوتی رہی۔ لیکن عام بیعت مسجد نبوی میں ہوئی۔ اسی طرح حضرت عثمان کی خلافت سے متعلق مشورے تو حضرت مسور بن مخرمہ کے گھر پر ہوتے رہے لیکن عام بیعت مسجد نبوی میں ہوئی۔ حضرت علیؓ بھی یہی کچھ چاہتے تھے۔ کہ ان کا انتخاب اور بیعت حسبِ دستور ہو۔ مگر ہنگامی حالات کی وجہ سے ان کی یہ آرزو پوری نہ ہو سکی۔ البتہ بیعتِ عام مسجد نبوی میں ہی ہوئی۔

ان تصریحات سے واضح ہے کہ بیعت دو قسم کی ہوتی ہے:

1.   بیعتِ خاص:

یہ بیعت خلافت کے انعقاد کے لئے ہوتی ہے اور اس میں صرف معزز افراد یا اہل شوریٰ حصہ لیتے ہیں جیسا کہ حضرت علیؓ نے باغیوں کے گروہ سے فرمایا تھا کہ:

’’خلیفہ کا انتخاب اہلِ شوریٰ اور اہل بدر کا کام ہے۔ ہم کسی وقت جمع ہوں گے اور اس پر غور کریں گے۔‘‘ ابن قتیبہ۔ الامۃ والسیاسۃ جلد ۱۔ صفحہ ۴۱۔

اس بیعت سے مقصد خلیفہ کا انتخاب، انتخاب کی توثیق اور سمع و اطاعت (حلفِ وفاداری) سب کچھ شامل ہوتا ہے۔

2.   بیعتِ عام:

بیعت خاص کے لئے کوئی خاص مقام مقرر نہیں لیکن بیعتِ عام کسی مرکزی مسجد میں برسرِ عام ہونی چاہئے۔ خلفائے اربعہ کی بیعتِ عام مسجد نبوی میں بر سرِ عام اور اعلانات کے ذریعے ہوتی رہی۔ بیعت عامہ کا مقصد محض سمع و اطاعت ہے جیسا کہ تمام متعلقہ اور محولہ احادیث سے ثابت ہوتا ہے۔ عوام کا کام صرف یہ ہے کہ وہ خواص کے فیصلہ کو تسلیم کر لیں۔ خلیفہ کے انتخاب میں عوام کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ نہ ہی انہیں اس بات کا اختیار ہے کہ خواص کے فیصلہ کو مجلس عام میں رد کر دیں۔ نہ ہی ایسی کوئی مثال پیش کی جا سکتی ہے۔ اس کے باوجود ہمارے کچھ دوست یہ کہنے میں باک محسوس نہیں کرتے کہ اہل شوریٰ کے انتخاب کے بعد یہ فیصلہ عوام کے سامنے بغرض قبولیتِ عامہ‘‘ پیش کیا جاتا تھا چاہے تو اسے منظور کریں یا رد کریں۔

اور میں سمجھنے میں شاید غلطی پر نہ ہوں گا کہ حضرت علیؓ کے زمانہ میں امتِ مسلمہ جس تشتّت و انتشار کا شکار رہی اور جنگ جمل و صفین جیسے معرکے پیش آئے تو اس کی وجہ محض یہ تھی کہ ان کی بیعتِ عامہ تو ہو گئی لیکن اس سے پہلا اقدام ’’بیعتِ خاص‘‘ ان کی آرزو کے باوجود انہیں میّسر نہ آسکا۔ کیونکہ خلیفہ کے انتخاب کے اہل ذمہ دار اور حق دار ’’اعیان ملّت‘‘ ہیں عوام نہیں۔

ہمارے جمہوریت نواز دوست بیعتِ خاص اور بیعت عام کے موضوع سے تعرض نہیں کرتے کیونکہ اسی سے موجودہ طرزِ انتخاب کے بنیادی عقیدہ ’’حق بالغ رائے رہی‘‘ پر کاری ضرب پڑتی ہے۔

ہمارے ہاں ’’ووٹ‘‘ کی مروجہ اصطلاح پہلے معنوں یعنی بیعت خاص کی ترجمانی کرتی ہے۔ جیسا کہ اس کے عنوان ’’حق بالغ رائے دہی‘‘ سے ظاہر ہے جب کہ بیعت عامہ محض ایک ذمہ داری ہے۔ حق نہیں۔

عموماً یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ عہد نبوی یا خلفائے راشدین میں براہِ راست یا بالواسطہ انتخاب کا کوئی باضابطہ نظام موجود نہ تھا۔ لہٰذا مدینہ میں موجود بزرگ صحابہ (جو تمام عرب کے قبائل کے نمائندہ کی حیثیت رکھتے تھے) ہی خلیفہ کے انتخاب میں حصہ لیتے رہے۔

یہ بات بھی حقیقت کے خلاف ہے۔ مسلمانوں کی باقاعدہ مردم شماری کا رواج تو حضور اکرم ﷺ کے عہد میں ہی پڑ چکا تھا جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔

عن حذیفۃ قال: قال النبی ﷺ: ’’اکتبوا لِیْ منْ تَلَفَّظَ بالاسلام من الناس۔‘‘ فکتبنا لہٗ اَلْفَا وخمس مائۃِ (بخاری۔ کتاب الجھاد والسیر۔ باب کتابۃ الامام الناس)

حضرت حذیفہؓ کہتے ہیں۔ ہمیں حضور اکرم ﷺ نے حکم دیا کہ ہر وہ شخص جس نے اسلام کا کلمہ پڑھا ہے ان کے نام لکھ کر مجھے دیئے جائیں۔‘‘ سو ہم نے آپ ﷺ کے لئے فہرست تیار کی تو ایک ہزار پانچ سو 1500 مسلمان ہوئے۔

اور حضرت عمرؓ کے زمانہ میں تو یہ مردم شماری کا ایک الگ محکمہ بھی قائم ہو گیا تھا۔ اگر بالغ رائے دہی فی الواقع کوئی پسندیدہ چیز تھی تو کسی بھی دَور میں ان رجسٹروں سے کیوں نہ کام لیا گیا جب کہ انتخابی فہرستیں پہلے سے ہی موجود تھیں۔

بالغ رائے دہی کے حق میں دلائل

پہلی دلیل:

حق بالغ رائے دہی کے جواز میں مندرجہ ذیل آیات سے استدلال پیش کیا جاتا ہے۔

اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّ الْاَمَافَاتِ اِلٰی اَھْلِھَا (۴/۵۸)

کہا یہ جاتا ہے کہ اس حکم میں نمائندہ پر تو پابندی ہے کہ وہ اس کا اہل ہو۔ لیکن ووٹر پر کوئی عمل صالح کی کوئی پابندی نہیں۔ پھر اس عام حکم کو کس رُو سے مقید کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں ہمارے پاس کون سا ایسا معیار ہے کہ ہم لوگوں کے اندرونی حالات کا پتہ لگاتے پھریں کہ کون صالح ہے اور کون غیر صالح؟ جبکہ قرآن کریم میں یہ بھی واضح حکم ہے کہ:

ولا تجسَّسُوْا (۱۲/۴۹)

اور کسی کا بھید نہ ٹٹولو۔

جواب:

قرآن کریم میں بے شمار ایسے احکامات موجود ہیں جن میں صیغۃ جمع حاضر استعمال ہوا ہے۔ حکم عام ہے لیکن اس کا اطلاق صرف اس کے اہل افراد پر ہوتا ہے۔ مثلاً قرآن کریم میں ہے:

وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْا اَیْدِیَھُمَا (۵/۳۸)

اور جو چوری کرے مرد ہو یا عورت، ان کے ہاتھ کاٹ ڈالو۔

آیت مذکورہ میں حکم عام ہے لیکن اس کے مخاطب صرف عمال حکومت ہی ہو سکتے ہیں۔ جو سزا دینے کے اہل ہیں۔ اب اگر اس حکم کو عام سمجھ کر عام لوگ بھی یہ فریضہ سر انجام دینے لگیں تو جو حشر ہو گا اس کا آپ اندازہ کر سکتے ہیں۔

اسی طرح ’’وآتوا الزکوۃ‘‘ کا حکم عام ہے اور قرآن کریم میں سینکڑوں جگہ استعمال ہوا ہے لیکن اس کے مکلّف صرف وہ لوگ ہیں۔ جو زکوٰۃ دینے کے اہل یا صاحب نصاب ہیں۔

گوہم پہلے خلافتِ راشدہ کے نظائر سے یہ ثابت کر چکے ہیں کہ عوام انتخاب میں حصہ لینے کے مکلف نہیں ہیں۔ تاہم اگر ہمارے دوستوں کو یہ اصرار ہے تو ہم وہ قیود بھی پیش کر دیتے ہیں جو شریعت نے اس عام حکم پر لگائی ہیں۔

ووٹر کی اہلیت:

1.      پہلی پابندی تو یہ ہے کہ وہ مسلمان ہو کیونکہ اس آیت کے مخاطب مسلمان ہیں۔ کسی نام نہاد اسلامی ریاست کے عوام نہیں۔ اور مسلمان کی قانونی تعریف یہ ہے کہ وہ کم از کم اور روزہ کا پابند ہو اور ایک اسلامی مملکت میں وہ حقوق شہریت کا مجاز نہیں ہے۔ ارشاد نبوی ہے۔

امرت ان اتا تل الناس حتّی یشھدوا ان لا الٰہ الا اللّٰہ وان محمدًا رسول اللّٰہ ویقیموا الصلوٰۃ ویوتوا الزکوٰۃ فاذا فعلوا ذلک تعصموا منی وماءھم الا بحق الاسلام وحسابھم علی اللّٰہ (مسلم۔ کتاب الایمان باب الامر لقتال الناس)

مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروں یہاں تک کہ وہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیں۔ نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں۔ اگر ایسا کریں تو ان کی باتیں محفوظ ہو جائیں گی۔ الا یہ کہ وہ اسلام کے کسی حق کے تحت اس حفاظت سے محروم رہیں اور ان کے باطن کا حساب اللہ پر ہے۔

2.      ووٹ جیسے ایک مقدس امانت ہے۔ ویسے ہی ایک شہادت بھی ہے کہ دور فی الواقعہ (بدل و جان) اس نمائندے کو نمائندی کا اہل  تر سمجھتا ہے۔ جیسے وہ ووٹ دے رہا ہے۔ لہٰذا جس شخص کی شہادت اسلام ناقابل قبول قرار دیتا ہے اس کو ووٹ دینے کا بھی حق نہیں پہنچتا۔ اور ایسے لوگ درج ذیل ہیں:

1.      جس پر حدّ قذف نافذ ہو چکی ہے: ارشاد باری ہے:

وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصِنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَۃِ شُھَدَآءَ فَاجْلِدُوْھُمْ ثَمٰنِیْنَ جِلْدَۃً وَّلَا تَقْبَلُوْا لَھُمْ شَھَادَۃً اَبَدًا (۲۴/۴)

اور جو لوگ پرہیز گار عورتوں کو بدکاری کا عیب لگائیں اور اس پر چار گواہ نہ لائیں تو ان کو اسی ۸۰ دُرے مارو۔ اور کبھی ان کی شہادت قبول نہ کرو۔

2.      جھوٹی گواہی دینے والے لوگ جن کی جھوٹی گواہی ہو چکی ہو۔ قرآن میں مومن کی صفات سے ایک یہ بھی ہے:

وَالَّذِیْنَ لَا یَشْھَدُوْنَ الزُّوْر (۲۵/۷۲)

اور جو لوگ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔

جھوٹی گواہی دینا کبیرہ گناہوں سے ہے اور قابلِ تعزیر جرم بھی۔ حضرت عمرؓ جھوٹے گواہوں کا سر مونڈ کر چہرہ پر سیاہی لگا دیتے، پیٹھ پر کوڑے لگاتے اور طویل عرصے کے لئے قید کر لیا جاتا۔

حضور اکرم ﷺ سے کسی نے پوچھا کبیرہ گناہ کیا کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا:

الا شراک باللّٰہ وعقوق الوالدین وقتل النفس وشھادۃ الزور (بخاری۔ کتاب الشھادات)

خدا تعالیٰ سے شرک کرنا، والدین کی نافرمانی، کسی کو قتل کرنا اور جھوٹی گواہی۔

3.      فاسق کی شہادت قبول نہ کرنی چاہئے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

یٰٓاَیَّھُا الَّذِیْنَ اَمَنُوْآ اِذَا جَآءَکُمْ فَاسِق فَتَبِیَّنُوْا (۴۹/۶)

اے مومنو! اگر کوئی بد کردار تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کر لیا کرو۔

انہی نصوص سے فقہاء نے درج ذیل قسم کے اشخاص کی گواہی ناقابلِ قبول قرار دی ہے۔

(۱) نماز روزے کا عمداً تارک (۲) تمیم کا مال کھانے والا (۳) زانیہ۔ زانی (۴) لواطت کا مرتکب (۵) جس پر حدّ نافذ ہو چکی ہو (۶) چور۔ ڈاکو (۷) ماں باپ کی حق تلفی کرنے والا۔ (۸) خائن ۔ خائنہ۔

اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ ہمارے پاس وہ کونسا معیار ہے جس سے ہم صالح اور غیر صالح کی تمیز کر سکیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ آپ اپنی مسجد سے رابطہ قائم فرمائیے یہ مسئلہ خود بخود حل ہو جائے گا۔ وہاں سے آپ نماز ادا کرنے والوں، زکوٰۃ ادا کرنے والوں، چوروں، ڈاکوؤں، خائنوں اور فاسقوں سب کا پتہ چل جائے گا۔ پھر اگر کچھ غلطی ہو بھی جائے تو اس کا حساب اللہ پر ہے (بموجب حدیث) اور ایک مسلمان کے لئے یہ بات کافی ہے۔

دوسری دلیل:

حق بالغ رائے دہی کے اثبات میں مندرجہ ذیل آیت پیش کی جاتی ہے جو آیۂ استخلاف کے نام سے مشہور ہے۔

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوْا الصَّلِحٰتِ لِیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِیْ الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ (۲۴/۵۵)

اللہ نے وعدہ فرمایا ہے، تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے۔

اس آیت کی مختلف تعبیریں مولانا ابو الاعلی مودودیؒ کی زبان سے سنیے۔ ایک طرف آپ ایک سیاسی جماعت کے بانی اور جمہوریت نواز ہیں تو دوسری طرف مفسر قرآن۔ لہٰذا ان کی اپنی دونوں تحریروں میں یہ تضاد بہت واضح ہو گیا ہے۔

تشریح نمبر ۱:

’’خلیفہ بنانے کا وعدہ تمام مومنوں سے کیا گیا ہے۔ یہ نہیں کہا کہ ان میں سے کسی ایک کو خلیفہ بناؤں گا۔ اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ سب مومن خلافت کے حامل ہیں۔ یہاں ہر شخص خلیفہ ہے۔ کسی شخص یا گروہ کو حق نہیں کہ عام مسلمانوں سے ان کی خلافت کو ساب کر کے خود حاکم مطلق بن جائے۔ یہاں جو شخص حکمران بنایا جاتا ہے اس کی اصل حقیقت یہ ہے کہ تمام مسلمان یا اصطلاحی الفاظ میں تمام خلفاء اپنی رضا مندی سے اپنی خلافت کو انتظامی اغراض کے لئے اس کی ذات میں مرکوز کر دیتے ہیں جو ایک طرف خدا کے سامنے جوابدہ ہے اور دوسری طرف ان عام خلفاء کے سامنے جنہوں نے اپنی خلافت ان کو تفویض کی ہے۔‘‘ (اسلام کا سیاسی نظریہ)

بات سیدھی سی تھی۔ اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل پر اپنی نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

وَجَعَلَ فِیْکُمْ اَنْبِیَاءَ وَجَعَلَکُمْ مَلُوْکًا (۵/۲۰)

اور اللہ نے تم میں سے انبیاء بھی بنائے اور تم کو بادشاہ بھی بنایا۔

 اب اس آیت میں صیغہ کُمْ جمع حاضر اور ملوک بھی جمع کا لفظ ہے۔ لیکن اس آیت سے کبھی کسی نے یہ نہیں سمجھا کہ بنی اسرائیل کے جملہ افراد سارے کے سارے ہی بادشاہ تھے۔ جو اپنا حق ملوکیت کسی ایک خاص فرد کو منتقل کر دیتے تھے۔ لیکن آیت استخلاف میں مندرجہ بالا معنیٰ کر کے بالغ رائے دہی کا حق ثابت کیا جاتا ہے۔

تشریح نمبر ۲:

اب اسی آیت مذکورہ کی تفسیر تفہیم القرآن میں اس طرح ہے:

’’اس ارشاد سے مقصود منافقین کو متنبہ کرنا ہے کہ اللہ نے مسلمانوں کو خلافت عطا فرمانے کو جو وعدہ کیا ہے اس کے مخاطب محض مردم شماری کے مسلمان نہیں بلکہ وہ مسلمان ہیں جو صادق الایمان ہوں، اخلاق و اعمال کے اعتبار سے صالح ہوں، اللہ کے پسندیدہ دین کا اتباع کرنے والے ہوں اور ہر طرح کے شرک سے پاک ہو کر خالص اللہ کی بندگی و غلامی کے پابند ہوں۔ ان صفات سے عاری اور محض زبان سے ایمان کے مدعی لوگ نہ اس وعدے کے اہل ہیں اور نہ یہ ان سے کیا ہی گیا ہے لہٰذا وہ اس میں حصہ دار ہونے کی توقع نہ رکھیں۔‘‘

یہاں حق بالغ رائے دہی کو بہت حد تک مقید کر دیا گیا ہے۔

اور تیسرے مقام پر مولانا موصوف خود ہی حق رائے بالغ دہی کا فیصلہ یہ فرما رہے ہیں

’’حضرت عثمان کی شہادت کے بعد جب کچھ لوگوں نے حضرت علیؓ کو خلیفہ بنانا چاہا تو انہوں نے کہا

’’تمہیں ایسا کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ یہ تو اہلِ شوریٰ اور اہلِ بدر کے کرنے کا کام ہے۔ جس کو اہل شوریٰ اور اہلِ بدر چاہیں گے۔ وہی خلیفہ ہو گا۔ پس ہم جمع ہوں گے اور اس معاملے پر غور کریں گے۔‘‘ (خلاف و ملوکیت ص ۸۶ بحوالہ ابن قتیبہ: الامامۃ والسیاسۃ)

’’اسلام کا نظریہ سیاسی‘‘ کے مطابق تو ہر بالغ مسلمان ووٹ کا حق دار ہے جب کہ تفہیم القرآن کے مطابق ووٹ دینے کا اہل صرف نیک، صالح اور متقی مسلمان ہو سکتا ہے۔ اب خلافت و ملوکیت کے مطابق حضرت علیؓ کی اپنی وضاحت یہ ہے کہ انتخاب صرف اہل بدر اور اہل شوریٰ کا کام ہے۔

بالفاظ دیگر نیک اور متقی لوگوں میں سے بھی چہ افضل ترین افراد (جسے اعیانِ ملّت یا ارباب حل و عقد کہا جاتا ہے) کا انتخابی مہم میں حصہ لیتے ہیں۔ اور یہی بات حق ہے کہ بالغ رائے دہی کے حق کا عام تصور عقل اور شرع دونوں کے خلاف ہے۔ کسی لا مذہب سیاست میں تو اسے قبول کیا جا سکتا ہے لیکن اسلامی نظام میں ایسے بے ہودہ نظریات کے لئے کوئی گنجائش نہیں۔

عورت کا ووٹ اور سیاسی حقوق

مغربی طرز انتخاب کے ثمرات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس نے عورت کو بھی اس میدان میں لا گھسیڑا ہے اور پھر مساوات مرد و زن کے نعرہ کی بدولت وہ ووٹر بھی ہے۔ ممبر اسمبلی بھی بن سکتی ہے۔ صدر بھی بن سکتی ہے اور دوسری کلیدی سامیوں پر بھی فائز ہو سکتی ہے۔ عہد نبوی سے لے کر خلافت راشدہ کی پوری تاریخ دیکھ جائیے آپ کو کوئی ایسی مثال نہ مل سکے گی کہ عورت نے ووٹ دیا ہو یا مجلس شوریٰ کی ممبر ہو یا کوئی کلیدی اسامی اس کے سپرد کی گئی ہو یا میدانِ امارت و سیاست میں اس کا کسی قسم کا عمل دخل ہو[1]۔ قرآن میں بھی عورتوں کی بیعت کا ذکر ہے۔ اور بخاری کتاب الاحکام اور اسی طرح دوسری احادیث کی کتابوں میں بھی۔ ان احادیث میں انہی پر بیعت کا ذکر ہے۔ جن کا ذکر قرآن کریم نے کر دیا ہے:

یَآاَیُّھَا النَّبِیُّ اِذَا جَآءَکَ الْمُؤْمِنٰتُ یُبَایِعُنَکَ عَلٰی اَنْ لَّا یُشْرِکْنَ بِاللّٰہِ شَیْئًا وَّلَا یَسْرِقْنَ وَلَا یَزْنِیْنَ وَلَا یقتُلْنَ اَوْلَادَھُنَّ وَلَا یَاْتِیْنَ بِبُھْتَانٍ یِّفْتَرِیْنَہُ بَیْنَ اَیْدِیْھِنَّ وَاَرْجُلِھِنَّ وَلَا یَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوْفٍ فَبَاَیِعْھُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَھُنَّ اللّٰہَ. (۶۰/۱۱)

اے پیغمبرؐ! جب تمہارے پاس عورتیں اس بات پر بیعت کرنے کو آئیں کہ خدا کے ساتھ نہ تو شرک کریں گی، نہ چوری کریں گی، نہ بدکاری کریں گی، نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی اور نہ اپنے ہاتھ پاؤں میں کوئی بہتان باندھ لائیں گی (یعنی جو کہ ان کا نہ ہو اس کو اپنے خاوندوں سے منسوب نہ کریں گی) نہ نیک کاموں میں تمہاری نافرمانی کریں گی تو ان کی بیعت لے لو اور ان کے لئے خدا سے بخشش مانگو۔

مساوات مرد و زن:

اسلام مساواتِ مرد و زن کا ہرگز قائل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کی شہادت کو مکمل نہیں بلکہ نصف قرار دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَاسْتَشْھِدُوْا شَھِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِکُمْ فَاِنْ لَّمْ یَکُوْنَا رَجُلَیْنِ فَرَجُلْ وَّامْرَاتٰنِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّھَدَآءَ (۲/۲۸۲)

اور اپنے میں سے دو مردوں کو گواہ بنا لیا کرو۔ اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جن کو تم گواہ بنانا پسند کرو۔

صرف یہی نہیں بلکہ میراث میں بھی عورت کا حصہ مرد سے نصف ہے اور عبادت میں بھی عورت مراد کے برابر نہیں۔ حیض و نفاس کے ایام میں عورت سے نماز ساقط ہو جاتی ہے۔ انہی وجوہ کی بنا پر رسول اللہ ﷺ نے عورت کو ’’ناقص العقل والدین‘‘ کہا ہے۔

اور امارت و سیاست کے معاملات میں تو عورت کی شمولیت کو اسلام نے ہرگز پسند نہیں کیا۔ نہ ہی خلفائے راشدین کے انتخاب میں عورت کے ووٹ کی کوئی مثال ملتی [2]ہے۔ وجہ یہ ہے کہ نہ تو عورت کی جسمانی ساخت اور فطری صلاحیت ایسی ہے کہ امارت و سیاست جیسے معاملات میں وہ حصہ لے اور اسلام امیر کے لئے جس شرائط کی پابندی لگاتا ہے ان پر پوری اتر سکے اور نہ ہی اسلام ایسی بے حیائی اور مرد و عورت کے آزادانہ اختلاط کی اجازت دیتا ہے جس کے بغیر ایسے امور میں حصہ لینا ناممکن ہے۔ نیز ایسی صورت میں عائلی نظام بھی تباہ ہو کر رہ جاتا ہے جو اسلامی نکتہ نگاہ سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ جب اہل ایران نے بنت کسریٰ (پوران، نوشیرواں کی پوتی اور شیرویہ کی بہن) کو اپنا بادشاہ بنا لیا۔ یہ خبر حضور اکرم ﷺ کو پہنچی تو آپﷺ نے سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور فرمایا:۔

کیف یفلح قوم وَلَّوا امرھم امراۃً (بخاری۔ کتاب المغازی)

وہ قوم کیسے فلاح پا سکتی ہے جس نے اپنی سربراہ ایک عورت کو بنا لیا ہے۔

ایک اسلامی معاشرے میں ایسے امور کا عورتوں کے ہاتھ میں چلے جانا کوئی اچھی علامت نہیں ہوتی۔ درج ذیل حدیث اس پہلو پر پوری روشنی ڈالتی ہے۔

عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللّٰہ ﷺ: اذا کان اُمُرَاءکم خیارکم واغنیاءُکم سُمحَاءُکم واُمورُکم شوریٰ بَیْنَکُمْ فَظَھَرَ الارض خیرٌ لکم من بطنھا واذا کان اُمراءَکم شِرَارکم واغنیاءکم بخلاءُکم وامورکم الی نساءِکُمْ فبطن الارض خیرٌ من ظَھْرِھَا (ترمذی بحوالہ مشکوٰۃ باب تغیر الناس)

حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تمہارے حکمران اچھے لوگ ہوں اور تمہارے دولتمند سخی ہوں اور تمہارے معاملات باہمی مشورہ سے طے ہوں تو تمہارے لئے زندگی موت سے بہتر ہے اور تمہارے حکمران بدکردار ہوں اور دولت مند بخیل ہوں اور تمہارے معاملات بیگمات کے حوالے ہوں تو تمہاری موت زندگی سے بہتر ہے۔

اسلامی نقطۂ نظر سے عورت کا مقام:

ہو سکتا ہے ہمارا نوجوان طبقہ اور موجودہ دَور کی مہذب عورتیں ان احکام و ارشادات سے یہ تاثر لیں کہ اہل مغرب نے عورت کو جو حقوق عطا کیے ہیں وہ اسلام کے عطا کردہ حقوق سے کہیں زیادہ ہیں۔ لہٰذا ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ مغرب نے عورت کو کس طرح کے حقوق بخشے ہیں اور اسلام نے کیسے؟

مغرب نے عورت کو آزادی اور مساوات کے نام پر جو حقوق دیئے ہیں وہ انہوں نے عورت کو پہلے مرد بنا کر عطا کیے ہیں۔ اسے ملازمتوں اور کھیلوں، مقابلۂ حسن اور دوسری تفریحات کے بہانہ گھر سے نکال کر بازار میں لا کھڑا کیا تو مردوں نے اس سے اپنی جنس ہوس کی تکمیل کی۔ فحاشی اور بے حیائی عام ہوئی۔ اور جب عورت اپنی جوانی کی عمر سے گزر کر اپنی رعنائی کھو بیٹھتی ہے تو اس کی حالت قابلِرحم ہوتی ہے۔ مگر کوئی اس کا پرسان حال نہیں ہوتا اور بڑھاپے کے ایام اپنی اولاد کی یاد اور تڑپ میں سسکیاں بھر کر گزار دیتی ہے جبکہ اس کی اولاد۔ اسی کی طرح۔ اپنی رنگ رلیوں میں مصروف ہوتی ہے اور اس بوڑھی کھوسٹ کی آرزوؤں کو اپنی عیش و طرب میں مداخلت تصور کر کے اسے دھتکار دیتی ہے۔ ایسے بے شمار واقعات مغربی دنیا کے جرائد میں آئے دن چھپتے رہتے ہیں۔

اسلام نے عورت اور مرد کے دائرۂ کار الگ الگ مقرر کیے ہیں۔ اور ایک کے دائرۂ میں دوسرے کی مداخلت برداشت نہیں کرتا۔ عورت کی فطرتی ساخت اور طبیعت اسی بات کا تقاضا کرتی ہے کہ وہ معاشی اور سیاسی الجھنوں سے آزاد ہو کر بال بچوں کی نہایت اطمینان سے تربیت کرے اور گھر کے اندر کا پورا انتظام سنبھالے اور نہایت باوقار طریقے میں اپنے گھر میں خود مختار بن کر اپنی اولاد کی بہتر سے بہتر تربیت کرے۔ مرد کے دائرۂ کار میں اس کی مداخلت کو اسی لئے ناپسند کیا گیا ہے[3]۔ اس پہلو کو مستثنیٰ کرنے کے بعد کہیں تو عورت کا درجہ مرد کے بالکل برابر قرار دیا گیا ہے جیسے کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔

وَمَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحّٰتِ مِنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَاُوْلٰٓئِکَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ وَلَا یُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا (۴/۱۶۴)

ترجمہ: اور جو نیک کام کرے گا مرد ہو یا عورت اور وہ صاحب ایمان ہو گا تو ایسے لوگ بہشت میں داخل ہوں گے اور ان کی تل برابر بھی حق تلفی نہ ہو گی۔

اور کہیں عورت کا درجہ مرد سے بہت زیادہ بلند قرار دیا گیا۔ ارشاد نبوی ہے:

عن ابی ھریرۃ قال جاء رجل الی رسول اللّٰہ ﷺ فقال یا رسول اللّٰہ! من احَقُّ بِحُسنِ صحابتی؟ قال ’’اُمُّک‘‘ قال ثم من؟ قال ’’اُمُّک‘‘ قال ثم من؟ قال ’’اُمُّک‘‘ قال ثُمّ من؟ قال ’’ابوک‘‘ (بخاری کتاب الادب)

ابو ہریرہؓ کہتے ہیں۔ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا۔ یا رسول اللہ! میرے بہتر سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے۔ فرمایا ’’تیری ماں‘‘ وہ کہنے لگا۔ اس کے بعد۔ فرمایا۔ ’’تیری ماں‘‘ پھر کہنے لگا۔ اس کے بعد۔ فرمایا ’’تیری ماں‘‘ پھر کہنے لگا اس کے بعد؟ فرمایا۔ ’’تیرا باپ‘‘

دوسرے مقام پر فرمایا:

عن المغیرۃ عن النبی ﷺ قال: اِنَّ اللّٰہ حرم علیکم عقوق الامھات (بخاری حوالہ مذکورہ)

حضرت مغیرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے تم پر ماؤں کی نافرمانی کو حرام کیا ہے۔‘‘

کہیں آپ ﷺ نے یوں فرمایا کہ ’’ماؤں کے قدموں میں جنت ہے۔‘‘ (ترغیب ترہیب) اور کہیں فرمایا کہ ’’لڑکیوں کی تربیت انسان کو دوزخ کے عذاب سے بچا لے گی‘‘ (بخاری) توبہ ہیں عورت کے وہ حقوق جو اسے معاشرہ میں بلند مقام عطا کرتے ہیں۔

ایک دفعہ آپ نے فرمایا۔ ’’تف ہے اس شخص پر جو اپنے بوڑھے ماں باپ کی خدمت کر کے جنت حاصل نہیں کرتا (بخاری) گویا جس وقت عورت بوڑھی ہو، اہل مغرب کے معاشرہ میں اہل ناکارہ اور ناقابلِ التفات چیز ہوتی ہے، اس وقت اسلام اسے وہ مقام عطا کرتا ہے جو معاشرہ میں بلند تر ہوتا ہے۔

4.    طلبِ امارت اور اس کی آرزو

ہم ’’خلافت ابو بکرؓ کا پس منظر‘‘ کے عنوان کے تحت ’’امتناع طلب امارت‘‘ کی سرخی کی متعدد مستند احادیث درج کر آئے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ امارت طلب کرنے والوں حضور اکرم ﷺ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا کہ ’’خدا کی قسم ہم ایسے لوگوں کو کرسی نہیں دیتے جو اس کو طلب کرتے ہیں۔‘‘ آپ نے اس کی آرزو رکھنے والوں کی بھی مذمت فرمائی ہے۔ اس کی کئی وجوہ آپ نے بیان فرمائی ہیں مثلاً:

پہلی یہ کہ ’’انسان کی دولت اور مرتبے[4] سے محبت اس کے دین میں اس چیز سے زیادہ تباہ کر ڈالتی ہے جیسے دو بھوکے بھیڑیے کسی بکریوں کے ریوڑ میں پڑ کر تباہی مچا سکتے ہیں۔

دوسری یہ کہ: ’’امارت جب تک رہے تو امیر سمجھتا ہے کہ خوب مزے ہیں لیکن اس کا انجام برا ہوتا ہے۔

تیسری یہ کہ: ’’امارت ایک عظیم ذمہ داری ہے اور قیامت کے دن ذلّت اور مذامت کا باعث بنے گی۔ اِلّا یہ کہ کسی نے اس کی ذمہ داریوں کا پورا پورا حق ادا کر دیا ہو۔‘‘

اب ہم ان ارشادات کے تحت خلفائے راشدین کا تعامل دیکھیں تو حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت حسنؓ سے کسی نے بھی امارت کی خواہش نہیں کی۔

حضرت علیؓ نے جس وقت اس کی خواہش کی اس وقت انہیں ملی نہیں اور جب وہ خلافت قبول کرنے پر تیار نہ تھے تب یہ انہیں سونپ دی گئی۔

حضرت ابو بکرؓ نے بیعتِ عام کے بعد مسجد نبوی میں جو پہلی تقریر فرمائی۔ اس میں امارت کی ذمہ داریوں کو بوجھ محسوس کر کے اسے ناپسند فرمایا:

’’میں آپ لوگوں پر حکمران بنایا گیا ہوں۔ حالانکہ میں آپ کا سب سے بہتر آدمی نہیں ہوں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ میں نے یہ منصب اپنی رغبت اور خواہش سے نہیں لیا ہے۔ نہ یہ میں چاہتا تھا کہ کسی دوسرے کی بجائے یہ مجھے ملے۔ نہ میں نے کبھی خدا سے اس کے لئے دعا کی۔ نہ میرے دل میں کبھی اس کی حرض پیدا ہوئی۔ میں نے تو اس بادلِ ناخواستہ اس لئے قبول کیا ہے کہ مجھے مسلمانوں میں فتنۂ اختلاف اور عرب میں فتنۂ ارتداد برپا ہو جانے کا اندیشہ تھا۔ میرے لیے اس منصب میں کوئی راحت نہیں ہے بلکہ یہ ایک بار عظیم ہے جو مجھ پر ڈال دیا گیا ہے جس کے اٹھانے کی طاقت مجھ میں نہیں ہے۔ اِلّا یہ کہ اللہ ہی میری مدد فرمائے۔ میں یہ چاہتا تھا کہ میرے بجائے کوئی اور یہ بار اُٹھائے۔ اب بھی اگر آپ لوگ چاہیں تو اصحابِ رسول میں سے کسی اور کو اس کام کے لئے چن لیں۔ میری بیعت آپ کے راستے میں حائل نہ ہو گی۔‘‘ (السیرۃ النبویہ ج ۴ ص ۴۹۳، کنز العمال ج ۵ احادیث نمبر ۲۲۶۱، ۶۴، ۶۸، ۷۸، ۹۱، ۲۲۹۹)

اور حضرت عمرؓ یہ فرمایا کرتے تھے۔ جب یومِ فتح خیبر سے پہلی شام جب حضور اکرم ﷺ نے یہ فرمایا کہ میں کل صبح اس مستحق کو جھنڈا دوں گا جس کے ہاتھوں خیبر فتح ہو گا۔‘‘ اس رات بہت سے صحابہ کبار کو یہ آرزو تھی کہ شاید کل اسے ہی یہ جھنڈا مل جائے اور یہ جھنڈا حضرت علیؓ کے نصیب میں تھا۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ ’’بس اس ایک دن کے علاوہ مجھے کبھی امارت کی خواہش نہیں ہوئی۔ (بخاری۔ کتاب المغازی، باب غزوہ خیبر)

اور جب آپ سے ان کے بیٹے عبد اللہ بن عمر کو خلیفہ نامزد کرنے کو کہا گیا تو آپ نے فرمایا:

’’ہمیں تمہارے معاملات کی کوئی خواہش نہیں۔ اگر یہ خلافت اچھی چیز تھی تو اس کا مزہ ہم نے چکھ لیا اور اگر یہ بری چیز تھی تو عمر کے خاندان کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ کل کو خدا کے سامنے ان میں سے صرف ایک آدمی سے ہی حساب لیا جائے گا۔ (بخاری۔ باب الاستخلاف)

طلبِ امارت کے دلائل

ان تصریحات کے بعد ایک مسلمان کے لئے تو اعتراض کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ لیکن جمہوریت پرستوں نے یہاں بھی بہت سی جولانیاں دکھائی ہیں اور مندرجہ ذیل آیات سے طلب امارت کی درخواست یا آرزو ثابت کی ہے:

پہلی دلیل:

حضرت یوسف علیہ السلام کی عزیز مصر سے درخواست۔

قَالَ اجْعَلْنِیْ عَلٰی خَزَائِنِ الْاَرْضِ۔ اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْم (۱۲/۵۵)

ترجمہ: یوسفؑ نے بادشاہ مصر سے کہا: اس ملک کے خزانوں پر مجھے مقرر کر دو کیونکہ میں حفاظت بھی کر سکتا ہوں اور اس کام سے واقف ہوں۔

حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ طلب عہدہ کی درخواست نہیں تھی۔ اقتدار تو انہیں پہلے سے بِن مانگے ہی مل چکا تھا۔ اس سے پہلی آیت اس طرح ہے:

قَالَ الْمَلِکُ ائْتُوْنِیْ بِہٖ اَسْتَخْلِصہُ لِنَفْسِیْ فَلَمَّا کَلَّمَہٗ قَالَ اِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِیْنٌ اَمِیْنٌ (۱۲/۵۴)

بادشاہ نے کہا۔ یوسف کو میرے پاس لاؤ تاکہ میں اسے اپنے لئے مخصوص کر لوں۔ جب یوسفؑ نے اس سے گفتگو کی تو کہنے لگا۔ آج سے آپ ہمارے نزدیک قدر و منزلت رکھتے ہیں۔

حضرت یوسف علیہ السلام کے قال اجعلنی علی خزائن الارض کہنے سے مراد وزارت مالیات کی درخواست نہیں تھی بلکہ آپ نے مکمل اقتدار کا مطالبہ کیا تھا جو حالات کی نزاکت کے پیش نظر فرعون کو ماننا پڑا۔ جس کے بعد فرعون مصر کی بادشاہت ختم ہو کر رہ گئی۔ چنانچہ اس سے اگلی آیت یوں ہے:

وَکَذٰلِکَ مَکَّنَّا لِیُوْسُفَ فِیْ الْاَرْضِ یَتَبَوَّاُ مِنْھَا حَیْثُ نَشَآءُ (۱۲/۵۶)

اسی طرح ہم نے اس سرزمین میں یوسف کو اقتدار بخشا۔ وہ مختار تھا کہ اس میں جہاں چاہے اپنی جگہ بنائے۔

چنانچہ اس تبدیلیٔ اقتدار کے بعد قرآن نے پہلے فرعونِ مصر کو کبھی مَلِک کے لفظ سے یاد نہیں کیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کی ہستی ہی ختم ہو چکی تھی۔ اس واقعہ کے بعد مَلِک کا لفظ حضرت یوسف علیہ السلام کے لئے استعمال ہوا ہے۔

پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ کیا ایک نبی یہ گوارا کر سکتا ہے کہ ایک کافرانہ حکومت کا کل پرزہ بن کر اس کی چاکری گوارا کرے۔  اگر حضرت یوسف علیہ السلام کو ایسی ملازمت کی خواہش ہوتی تو اس طرح کے موقعے تو وہ اس سے پہلے بھی پیدا کر سکتے تھے۔ اتنی مدت قید و بند کی سختیاں کیوں جھیلیں؟

دوسری دلیل:

دوسری آیت جس سے طلب امارت کا جواز پیش کیا جاتا ہے وہ یہ دعا ہے جو مسلمانوں کو سکھلائی گئی ہے:

وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا (۲۵/۷۴)

اے خدا تو ہمیں متقین کا امام بنا دے۔

کہا یہ جاتا ہے کہ ’’متقین کی امامت اسلامی مملکت میں ایک بلند ترین منصب ہے جب دعا کے ذریعے اس کی خواہش کی جا سکتی ہے تو دوسرے مناصب کو کس طرح شجر ممنوعہ قرار دیا جا سکتا ہے۔‘‘

اس کا جواب ہم اپنی طرف سے نہیں دیتے بلکہ تفہیم القرآن کے حاشیہ پر ہی اکتفا کریں گے۔

’’یعنی ہم تقویٰ اور طاقت میں سب سے بڑھ جائیں۔ بھلائی اور نیکی میں سب سے آگے نکل جائیں۔ محض نیک ہی نہ ہو بلکہ نیکوں کے پیشواہوں اور ہماری بدولت دنیا بھر میں نیکی پھیلے۔ اس چیز کا ذکر بھی یہاں دراصل یہ بتانے کے لئے کیا گیا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو مال و دولت اور شوکت و حشمت میں نہیں بلکہ نیکی و پرہیزگاری میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرتے ہیں مگر ہمارے زمانے میں کچھ اللہ کے بندے ایسے ہیں جنہوں نے اس آیت کو بھی امامت کی امیدواری اور ریاست کی طلب کے لئے دلیلِ جواز کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ان کے نزدیک اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ ’’یا اللہ! متقی لوگوں کو ہماری رعیت اور ہم کو ان کا حکمران بنا دے۔‘‘ اس سخن فہمی کی داد ’’امیدواروں‘‘ کے سوا اور کون دے سکتا ہے؟

بعض دوسرےلوگ اس آیت سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ مملکت کے تمام حکام کا متقی ہونا ضروری ہے۔ اور امیر یا سربراہ تو بہت ہی زیادہ متقی ہونا چاہئے۔ گویا یہ آیت امارت کی اہلیتوں میں سے ایک اہم اہلیت پر دلالت کرتی ہے۔

تیسری دلیل:

تیسری آیت جس سے استدلال کیا جاتا ہے وہ یوں ہے:

وَاجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْکْ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًا (۱۷/۸۰)

اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنا دے۔

حقیقت یہ ہے کہ اسلام دنیا میں جو اصلاح چاہتا ہے وہ صرف وعظ و تذکیر سے ناممکن ہے۔ اس کے لئے سیاسی اقتدار کے حصول سے کسے انکار ہو سکتا ہے اور اسلام کی سربلندی، اقامتِ دین، نفاذ شریعت اور حدود اللہ کے اجراء کے لئے سیاسی اقتدار کے حصول کی خواہش رکھنا جائز ہی نہیں عین مطلوب یہ ہے اور اسی لئے اللہ نے خود یہ دعا حضور کو سکھائی۔

یہ آیت سورۂ بنی اسرائیل کی ہے جو مکی دور کے آخر میں نازل ہوئی۔ جبکہ اسلام ابھی کمزور تھا اور اسلامی ریاست قائم نہیں ہوئی تھی۔ مکی دور میں ہی آنحضرت ﷺ نے یہ دعا بھی فرمائی تھی۔ ’’اے اللہ ہر دو عُمر میں سے (عمر بن الخطاب اور عمر بن الحکم یعنی ابو جہل) کسی ایک عمر کو مسلمان کر کے اسلام کی مدد فرما۔‘‘ چنانچہ آپ کی یہ دعا قبول ہوئی۔ اسی طرح آیت کا مفہوم واضح ہے کہ یا تو خود مجھے اقتدار عطا کر یا کسی حکومت کو میرا مددگار بنا دے تاکہ اسلام سر بلند ہو سکے۔ اور اگر یہی خواہش جاہ طلبی اور مفاد پرستی پر مبنی ہو تو گناہ بن جاتی ہے جیسا کہ بے شمار احادیث سے ثابت ہے۔ جن کا ذکر پہلے گزر چکا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ مندرجہ بالا آیات سے جو طلبِ عہدہ کی درخواست کا جواز ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ حضرت علیؓ کے اس قول سے مناسبت رکھتی ہے جو آپ نے ’’تحکیم قرآن‘‘ کے سلسلہ میں خوارج کے متعلق کہی۔ آپ نے فرمایا تھا۔ کلمۃ الحقِّ ارید بہ الباطل یعنی بات سچی ہے لیکن اسے غلط معنی پہنائے جا رہے ہیں۔

طلب عہدہ سے متعلق احادیث پر اعتراض

ہمارے جمہوریت نواز دوستوں نے ہی انکشاف بھی فرمایا ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے جس جس مقام پر بھی طلب عہدہ سے منع کیا ہے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ ﷺ اس شخص کو کسی نہ کسی ....... سے اس کا اہل نہ سمجھتے تھے۔ مثال کے طور پر صرف ایک حدیث پیش کرتے ہیں جو یہ ہے:

یا ابا ذرٍّ انک ضعیف وانھا امانۃ وانھا یوم القیمۃ خزیٌ وندامۃٌ الا من اخذ بحقھا وادی الذی علیہ (مسلم کتاب الامارۃ)

اے ابو ذر! تو ایک ضعیف آدمی ہے اور امارت ایک امانت ہے۔ جو قیامت کو رسوائی اور ندامت کا باعث ہو گی۔ مگر جس نے اس کی ذمہ داریوں کو پوری طرح نبھایا اور اس کے سب حقوق ادا کیے۔

ساتھ ہی ساتھ یہ ارشاد بھی ارشاد بھی فرما دیا گیا ہے کہ ایسی احادیث جن میں طلب عہدہ سے منع کیا گیا ہے۔ اور خبر واحد کی بنا پر قرآنی آیات و احکام کو مقید نہیں کیا جا سکتا۔ یا اگر تعارض پیدا ہو تو نص قرآنی کے مقابلہ میں خبر واحد کا ترک اولیٰ ہے۔

امتناع طلب امارت کے متعلق بے شمار صحیح احادیث موجود ہیں۔ ان میں سے نہایت اختصار کے ساتھ ہم نے صرف پانچ احادیث درج کی ہیں۔ انہیں ایک بار پھر پڑھ لیجیے کہ ان احادیث میں سائل کی کون کونسی کمزوری کا ذکر ہے۔ نیز یہ بھی ملاحظہ فرمائیے کہ ان احادیث میں جاہ طلبی، اس کی خواہش اور درخواست سے کس شدت سے منع کیا گیا ہے۔

اور یہ خبر واحد کا نکتہ بھی خوب رہا۔ یہ نکتہ اگر دوسرے موضوعات سے متعلق متواتر اور صحیح احادیث پر آپ اگر فٹ گرنے لگیں تو شاید ہمارے دین کا حلیہ ہی بگڑ کر کچھ کا کچھ بن جائے۔

اگر اسی طرح پہلے آیات کی من مانی تاویل کر لی جائے۔ پھر احادیث کو خبر واحد قرار دے کر ان کو درخورِ اعتنا نہ سمجھا جائے تو پھر بے چارے مرزائیوں کا کیا قصور ہے اور پرویزی کیوں موردِ الزام ٹھہرتے ہیں۔ وہ بھی اس سے زیادہ تو کچھ نہیں کرتے۔ ہم ایک بار پھر یہ دعا کرتے ہیں۔

رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا (۳/۸)

اے پروردگار! جب تو نے ہمیں ہدایت بخشی ہے تو اس کے بعد ہمارے دلوں میں ٹیڑھ نہ پیدا کر۔

چند استفسارات اور ان کا جواب:

بحث کے آخر میں چند سوالوں کا جواب دینا ضروری ہے پہلا سوال یہ ہے کہ آیا شوریٰ کی رکنیت کوئی منصب ہے بھی یانہیں۔ اور کیا شوریٰ کے علاوہ دوسرے مناصب مثلاً منصفی، ججی، ڈپٹی کمشنری، تحصیلداری، کلرکی، چوکیداری وغیرہ سب کے لئے درخواست دینا ممنوع قرار پائے گی؟

اس سوال میں بڑی ہوشیاری سے خلط مبحث کیا گیا ہے۔ آپ حضرات تو اسمبلی کی وکالت کر رہے ہیں لہٰذا بات بھی اسی کی ہونی چاہئے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ فی الواقعہ ایک منصب ہے۔ اسمبلی کے ارکان قومی خزانہ سے تنخواہ اور کئی طرح کے الاؤنس وصول کرتے ہیں۔ نیز ان سے حلف وفا داری بھی لیا جاتا ہے[5]۔ کیا پھر بھی  اس کے منصب ہونے میں کوئی شک رہ جاتا ہے۔ رہا شوریٰ کی رکنیت کا مسئلہ تو بلا خوف ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ بھی ایک منصب [6]ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح کہ خلافت ایک منصب ہے۔

جو لوگ اولو الامر کی تعریف میں آسکتے ہیں ان سب کے لئے درخواست دینا ممنوع ہے۔ اولو الامر کو ہم اپنی زبان میں ’’حکام‘‘ کہہ سکتے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو شوری، انتظامیہ اور عدلیہ کی کلیدی اسامیوں پر فائز ہوتے ہیں۔ کلرک، تحصیلدار اور چپڑاسی وغیرہ حاکم نہیں ہوتے۔ اولو الامر سے مراد آج کے دَور میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے جج، انتظامیہ میں کلیدی اسامیوں پر براجمان افسر ہیں۔ جن کا انتخاب (Selection) آج بھی صدر مملکت اپنی صوابدید پر کرتا ہے۔ وہ اپنے مشیروں سے مشورہ ضرور لیتا ہے۔ مگر اس مشورہ کو قبول کرنے کا پابند نہیں۔ ایسے حکام نہ خود درخواست کرتے ہیں نہ ان سے درخواست طلب کی جاتی ہے۔

البتہ یہ بات حیران کن ضرور ہے کہ کلرک اور چپڑاسی تک تو اس کے منصب کے مطابق اس کی اہلیتوں کو دیکھا اور پرکھا جاتا ہے مگر ایک قانون ساز ادارہ کے لئے فرد کے لئے اس کے سوا کسی اہلیت کا ذکر نہیں ملتا کہ وہ ۲۵ سال سے کم عمر کا نہ ہو۔ اس نام فہرست میں درج ہو اور پچھلے ۵ سالوں میں کسی عدالت سے سزا یافتہ نہ ہو؟ کیا اس منصب کے لئے اتنی اہلیت یا نا اہلیت کا کافی ہے۔ فیا للعجب۔

کسی دوست نے یہ نکتہ بھی اُٹھایا تھا کہ آج کل نمائنگی کی درخواست میں نام کوئی دوسرا پیش کرتا ہے اور تائید بھی کسی اور کی طرف سے ہوتی ہے۔ اور یہی کچھ حضرت ابو بکرؓ کی خلافت کے وقت ہوا۔ نام حضرت عمرؓ نے پیش کر دیا۔ تائید حضرت ابو عبیدہ بن الجراح اور پھر دوسروں نے کی۔ اب اگر حضرت ابو بکرؓ کی خلافت درست اور جائز ہے تو درخواست دہندہ کی یہ کارروائی کیسے ناجائز ہوئی؟

اسی طرح ایک اور صاحب نے خلفائے راشدین کے انتخاب پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ:

حضرت عمرؓ کی نامزدگی ہوئی اور چند افراد سے مشورہ کیا گیا۔ اس کے بعد حضرت .... کا انتخاب چھ نامزد کردہ آدمیوں سے ہوا۔ حضرت علیؓ کا انتخاب برسرِ عام ہوا۔ اگر تدریجی ارتقا جاری رہتا تو تھوڑی ہی مدت بعد انتخاب یہی شکل اختیار کر لیتا۔ جو آج کل پایا جاتا ہے۔

پہلے سوال کے جواب میں تو ہم یہ عرض کریں گے آج کل معاملہ صرف نام پیش کرنے اور تائید کرنے تک محدود نہیں۔ عہدہ کی خواہش۔ درخواست (از طرف نمائندہ) نشان کنویسنگ، تشہیر، بے پناہ اخراجات، امیدواری کا حلاف نامہ، ضمانت، الیکشن ایجنٹ اور پولنگ ایجنٹ کا تقرر اور اس دوران ہر طرح کے جائز و ناجائز حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ تو کیا یہ سب کچھ حضرت عمرؓ کے نام پیش کرنے اور ابو عبیدہ بن الجراحؓ کی تائید سے جائز ثابت ہو جاتا ہے؟

آج کل مسجدوں میں مسجد کی انتظامیہ کمیٹی کے انتخابات بھی بالاکل سادہ اور فطری طریقہ سے ہوتے ہیں۔ ایک شخص صدارت کے لئے نام پیش کرتا ہے۔ کوئی دوسرا اس کی تائید کر دیتا ہے تو وہ صدر نامزد ہو جاتا ہے۔ نہ کوئی درخواست نہ تشہیر نہ ووٹوں کی گنتی، نہ ہی دوسرے دھندے ہوتے ہیں۔ اسی طرح سیکرٹری اور دوسرے عہدہ داروں کا انتخاب عمل میں آتا ہے۔ یہی طریقۂ انتخاب فطری اور شریعت کے عین مطابق ہے۔ اب اس طریق انتخاب اور موجودہ الیکشن اسسٹنٹ میں جو فرق ہے وہ ہر کوئی سمجھ سکتا ہے۔                               ؎

ببیں تفاوت ایں از کجاست تابہ بکجا

اور دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ واقعات کو گول مول کر کے پیش کرنا تو درکنار یہ تبصرہ نگار صاحب خلافت راشدہ کی پہلی اور آخری کڑی (یعنی حضرت ابو بکرؓ اور حضرت حسنؓ کا انتخاب) کا ذکر چھوڑ گئے۔ کیونکہ ایسا کرنے سے ان کا یہ نظریۂ ارتقاء باطل قرار پاتا تھا۔ اسی سے آپ کی دیانت کا پتہ چل جاتا ہے۔


[1]  حضرت عائشہ اور جنگ جمل:

خلافت راشدہ کے چالیس  سالہ دور میں ہمیں صرف ایک مثال ایسی ملتی ہے جہاں میدان سیاست میں کسی عورت نے حصہ لیا ہو اور وہ ام المومنین حضرت عائشہؓ کی جنگ میں شمولیت اور قیادت ہے جنہوں نے شہادت عثمان اور قصاص کے جذبہ شدید کی وجہ سے جنگ میں شمولیت اختیار کی۔ تو حضرت علیؓ نے اس اقدام کے متعلق انہیں لکھا کہ:

فانک خرجت غاضبۃً لِلّٰہ ولرسولہ تطلبین امرا کان علیک موضوعاً ما بال النسوۃ والحرب واصلاح بین الناس (الامامۃ والسیاسۃ لابن قتیبۃ من ۷۰)

’’آپ اللہ اور رسول (کے احکام، قصاص) کے لئے غضب ناک ہو کر ایک ایسے معاملہ کے لئے نکلی ہیں۔ جس کی ذمہ داری سے آپ سبکدوش تھیں۔ بھلا عورتوں کا جنگ اور لوگوں میں مصالحت سے کیا تعلق ہے؟‘‘

اور حضرت عبد اللہ بن عمرؓ جو اس جنگ جمل میں غیر جانبدار تھے اور جنہیں حضور اکرمؓ نے ’’نیک بخت آدمی‘‘ (بخاری کتاب المناقب) فرمایا تھا۔ کی حضرت عائشہؓ کی جنگ میں شمولیت کے متعلق یہ رائے تھی۔

ان بیت عائشۃ خیر لھا من ھودجھا (الامامۃ والسیاسۃ لابن قتیبۃ ص ۶۱)

’’حضرت عائشہؓ کا گھر ان کے لئے ہودج سے بہتر ہے۔‘‘

ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ:

1.      حضرت عائشہؓ کی جنگ میں شمولیت کی اصل وجہ حضرت عثمانؓ کا قصاص تھا نہ کہ سیاسی معاملات میں دلچسپی اور عمل دخل۔ اگر قانون شرعی کے مطابق قصاص کا مسئلہ طے ہو جاتا تو انہیں شمولیت سے کوئی غرض نہ تھی۔ جیسا کہ اس موقع پر صلح کی بات چیت سے بھی ثابت ہوتا ہے۔ حضرت عائشہؓ کے نزدیک اس معاملہ کی نوعیت سیاسی ہرگز نہ تھی۔

2.      ان حالات میں بھی اکابر صحابہؓ نے حضرت عائشہؓ کی شمولیت کو مناسب نہیں سمجھا۔

[2]  حضرت عبد الرحمٰنؓ بن عوف نے خلافت عثمان کے تقرر کے سلسلہ میں بعض پردہ نشین عورتوں سے بھی مشورہ لیا تھا۔ اس واقعہ سے عورت کا حق رائے دہی ثابت کیا جاتا ہے۔ جو دو جہ سے غلط ہے:۔

1.      مشورہ ان کے گھر پر لیا گیا، پردہ کی حدود و قیود کو توڑا نہیں گیا۔ نہ انہیں خود کہیں جا کر مشورہ سے مطلع کرنے کو کہا گیا۔

2.      صرف ان عورتوں سے مشورہ کیا گیا۔ جنہیں اس کا اہل سمجھا گیا۔

رہا صاحب الرائے عورتوں کے مشورہ سے استفادہ کا معاملہ تو اس پر کوئی پابندی نہیں۔ اکابر صحابہؓ حضرت عائشہؓ سے مسائل پوچھتے اور مشورہ لیا کرتے تھے۔

[3]  مغربی تہذیب مذہب سے بیزاری اور لا دینیت کے نتیجہ میں معرض وجود میں آئی۔ موجودہ دور کا مہذب انسان اپنے مسائل خدا کی ہدایت سے بے نیاز ہو کر حل کرنے پر مصر ہے۔ انہی مسائل میں سے ایک شادی کا مسئلہ بھی ہے۔ ’’مساوات مرد و زن اور عورت کی آزادی‘‘ کے نعروں کی مقبولیت کے بعد۔ عورت کی آزادی سے یہ مطلب لیا جانے لگا کہ وہ اپنے گھر کو خیر باد کہہ کر ہر شعبہ میں مرد کے دوش بدوش کام کرے۔ اب عورت مرد کے ساتھ صرف صنفی حد تک منسلک رہ گئی ہے۔ گھر کے کام کاج اور بچوں کی تربیت سے اس نے خلاصی حاصل کر لی ہے۔ معاشی طور پر بھی اب وہ مرد کے زیرِ بار نہیں۔ جب دونوں میں سے کسی ایک کا دوسرے سے جی بھر جاتا ہے تو نئے ازدواجی تجربے شروع کرنے لگتے ہیں۔ اس طرح نکاح کا یہ بندھن جو مقدس اور مذہبی فریضہ سمجھ کر زندگی بھر اسے نبھانے کی کوشش کی جاتی تھی۔ محض ایک ذاتی فعل سمجھا جاتا ہے۔

عورت کو مساویانہ حقوق اور آزادی دینے کے بعد مغربی ممالک بے شمار خاندانی مسائل سے دو چار ہو چکا ہے۔ خاندانی زندگی کا شیراہ بکھر رہا ہے۔ اکثر بچے نرسریوں اور سکولوں میں پلتے ہیں۔ ماں کی مامتا، باپ کی شفقت اور خاندانی برکات سے محروم رہتے ہیں۔ مشرقی ممالک جوں جوں مغربی تہذیب کا اثر قبول کر رہے ہیں وہ بھی ایسے ہی مسائل سے دو چار ہو رہے ہیں۔ اس ’’جدید خاندان‘‘ کا سب سے بڑا مسئلہ اس کی ناپائیداری اور طلاقوں کی بھرمار ہے اور بہت کم شادیاں صحیح معنوں میں کامیاب قرار دی جا سکتی ہیں۔ عائلی نظام کی ناپائیداری کے باعث بہت سے دیگر ذیلی مسائل پیدا ہو گئے ہیں مثلاً:

(۱) طلاقوں کی کثرت (۲) میاں بیوی میں اکثر ناچاقی رہنا (۳) بچوں سے عدم توجہی اور غفلت (۴) نافرمان اولاد (۵) میاں بیوی دونوں کا گھریلو ذمہ داریوں کو ادا کرنے سے گریز کرنا وغیرہ۔

ایسی صورتِ حال کی وجہ سے ہی سیاسیات کے مفکرین میں اس بات پر اختلاف رائے ہے کہ خواتین کو حق رائے دہی ملنا چاہئے یا نہیں۔ دنیا کے متمدن ترین ممالک میں بیسویں صدی کے ربع اوّل تک عورتوں کو حق رائے دہی نہیں ملا تھا۔ انگلستان میں یہ حق ۱۹۲۸ء میں، فرانس میں ۱۹۴۶ء میں اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ۱۹۶۴ء میں عورتوں کو یہ حق دیا گیا۔ سوئٹزر لینڈ میں جو کہ دنیا کی متمدن ترین اول درجے کی جمہوری ریاست شمار ہوتی ہے ابھی تک خواتین کو حق رائے دہی نہیں دیا گیا۔ وجہ یہ ہے کہ خواتین کا چونکہ دائرۂ کار الگ ہے اس لئے انہیں ملکی سیاسیات کی خار دار وادیوں میں گھسیٹ لانا مناسب نہیں سمجھا گیا۔ اب بھی جو یہ حق عورتوں کو عطا ہوا ہے تو اس کے پیچھے دراصل مرد و زن کی ظاہری مساوات کا وہ مغربی تصور ہے جس کے مطابق خواتین کے قدرتی فرائض اور ان کی گھریلو ذمہ داریوں کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔

حقیقی مساوات:

مساوات کا کبھی یہ مطلب نہیں لیا جاتا کہ ہر شخص ایک ہی جیسا معیار زندگی رکھتا ہو اور ایک ہی پیشہ اختیار کیے ہوئے ہو۔ جس طرح ایک ڈاکٹر اور ایک انجینئر بالکل الگ الگ نوعیت کے فرائض ادا کرنے کے باوجود مساوی مرتبہ کے انسان ہی رہتے ہیں اسی طرح اگر عورت اپنے مخصوص دائرۂ کار میں اپنے گھریلو فرائض اچھے طریقے سے سرانجام دے رہی ہے تو وہ بھی مساوی انسانی مرتبہ سے گِر نہیں جاتی۔

[4]  طلب جاہ کا امام فرعون اور طلب مال کا امام قارون تھا۔

[5]  تحریک آزادی و دستور پاکستان از فاروق اختر نجیب ص ۴۵۲

[6]  ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے اہل شوریٰ سے خطاب کرتے ہوئے کہا:

’’تمہیں عوام نے اس منصب پر فائز نہیں کیا بلکہ اس منصب کے لئے تمہیں اس لئے اہل تصور کیا گیا ہے کہ تمہارا تعلق رسول اللہ ﷺ سے قریبی تھا اور حضور اکرم ﷺ بھی تمہیں عزیز رکھتے تھے۔ (طبری۔ بحوالہ واقعہ کربلا از ابو بکر غزنویؒ) 

 

ہمارے جمہوریت نواز دوست عموماً یہ تاثر دیتے ہیں کہ:

1.      سقیفہ بنی ساعدہ اس دَور کا پارلیمان تھا۔

2.      جہاں انصار و مہاجرین نے سرکردہ حضرات نے جو اس دَور کے قبائلی نظام کے مطابق اپنے اپنے قبیلہ کے نمائندہ کی حیثیت رکھتے تھے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے انتخاب میں حصہ لیا اور

3.      نتیجۃً حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کثرت رائے سے منتخب ہو گئے تھے۔

4.      انصار و مہاجرین کی حیثیت بھی آج کل کی سیاسی پارٹیوں سے ملتی جلتی تھی۔

لہٰذا اندریں صورت موجودہ دَور کے طرز انتخاب میں کوئی ایسی بات نظر نہیں آتی جو اسلامی طرزِ انتخاب سے متصادم ہو۔

اب ہم ان چاروں اجزا کا تفصیلی جائزہ لیں گے۔

1.   سقیفہ بنی ساعدہ:

سقف عربی زبان میں چھت کو کہتے ہیں۔ دو مکانوں کے درمیان اگر کوئی گلی ہو اور اس پر چھت ڈال کر خواہ وہ محض سائبان ہو یا لکڑی وغیرہ کی چھت۔ گلی کو سایہ دار بنا لیا جائے تو اسے سقیفہ کہا جاتا تھا۔ سقیفہ کا ترجمان مولانا وحید الزمان نے ’’منڈوا‘‘ کہا ہے، بعض دوسرے علماء اسے سائبان سے تعبیر کرتے ہیں۔ کچھ لوگ اسے ڈیرا (پنجابی دارا) کہتے ہیں۔

یہ ڈیرہ محض قبیلہ خزرج کی ایک شاخ ’’بنو ساعدہ‘‘ کا تھا۔ جس سے حضرت سعد بن عبادہ تعلق رکھتے تھے۔ اور یہ ڈیرہ یا سائبان ان ہی کے مکان سے ملحق تھا۔ فراغت کے اوقات روزہ مرہ کی عام گفتگو کے لئے یہاں چند لوگ جمع ہوجاتے تھے۔ یہ نہ تو کوئی ایسا مقام تھا جو مدینہ[1] بھر کے معززین کے لئے مخصوص ہو۔ یا اس جگہ اتنے آدمیوں کی گنجائش ہو۔ پھر یہ کوئی پولنگ سنٹر بھی نہ تھا کہ کسی کے دل میں یہ خیال تک آسکتا کہ انتخاب کے وقت یہ جگہ ہی موزوں رہے گی۔ لہٰذا اسے، اس سقیفہ کو پوری امت کا پارلیمان قرار دینا ہر لحاظ سے حقائق کے خلاف ہے۔

2.   نمائندگان کی موجودگی:

جب عام لوگ اور خصوصاً مہاجرین حضور اکرم ﷺ کی تجہیز و تکفین میں مشغول تھے تو رئیس انصار حضرت سعد بن عبادہؓ نے اس موقع کو غنیمت سمجھ کر اپنے چند ہمراہیوں کو اکٹھا کیا۔ ان کا یہی خیال تھا کہ مہاجرین کو اطلاع دیئے بغیر ان کی بے خبری میں خلیفہ کا انتخاب ہو جائے تو پھر کسی کو بھی اس سے اختلاف کرنے کی گنجائش باقی یہ رہے گی۔ لہٰذا وہ اس مسئلہ کو جلد از جلد طے کر لینا چاہتے تھے۔

اتفاقاً کسی صحابی نے حضرت عمرؓ کو اس صورتِ حال سے مطلع کیا اور کہا کہ آپ کو جلد وہاں پہنچ کر خبر لینی چاہئے۔ تو ایک روایت کے مطابق وہ حضرت ابو بکرؓ کو ساتھ لے کر وہاں پہنچے۔ اور ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت ابو عبیدہؓ بھی دو اور ساتھیوں کو لے کر وہاں پہنچ گئے تھے۔ کیونکہ سقیفہ بنی ساعدہ میں کل چار یا پانچ مہاجرین نے حضرت ابو بکرؓ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔

اب تاریخی حقائق یہ ہیں کہ فہر بن مالک (لقب قریش، قبیلہ قریش کے جد امجد) تک تیرہ پشتوں پر حضور اکرم ﷺ کا نسب جا کر جل جاتا ہے۔ عہد نبوی میں قبیلہ قریش کی بے شمار ذیلی شاخیں موجود تھیں تاہم یہ دس قبیلے زیادہ مشہور تھے۔ جو سب مسلمان ہو چکے تھے۔ ہاشم، اُمیہ، نوفل، عبد الدار، اسد، تیم، مخزوم، عدی، جمح، سہم۔

زمانہ جاہلیت میں قریش کی شرافت و حکومت زیادہ تر ان دس خاندانوں میں منحصر و منقسم تھی۔ ان معزز سردار خاندانوں کی ذمہ داریاں یہ تھیں۔

بنوہاشم کے ذمہ سقایت یعنی حاجیوں کو پانی پلانے کا کام تھا۔

بنو نوفل بے زاد حاجیوں کو توشہ اور زادِ سفر مہیا کرتے تھے۔

بنو عبد الدار کے پاس خانہ کعبہ کی چابی اور دربانی تھی۔

بنو اسد سے متعلق مشورہ اور دار الندوہ کا کام تھا۔

بنو تمیم کے متعلق خوں بہا اور تاوان کا فیصلہ تھا۔

بنو عدی سے متعلق سفارت اور قومی مفاخر سے کام تھا۔

بنو جمح کے پاس شگون کے تیر تھے۔

بنو سھم کے متعلق بتوں کا چڑھاوا وغیرہ تھا۔

بنو امیہ سپہ سالاری ان سے متعلق تھی۔

بنو مخزوم۔ سپہ سالاری (خالد بن ولید اسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے)

حضرت ابو بکرؓ اپنے قبیلہ تمیم کے سردار جو خوں بہا اور تاوان کا فیصلہ کرتے تھے۔

حضرت عمرؓ بنو عدی سے تھے اور سفارت کی خدمت انجام دیتے تھے۔ جنگ میں سفیر بن کر جاتے اور مقابلہ میں قومی تفاخر بیان کرتے تھے۔

حضرت ابو عبیدہ بن الجراح فہر کے پوتے الخلج کی اولاد سے تھے گویا یہ مندرجہ بالا دس مشہور قبیلوں کے علاوہ قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔

حضرت عبد الرحمٰن بن عوف اور سعد بن وقاص بنو تیم (بن مرہ بن کعب بن لوئی بن غالب بن فہما کی اولاد سے تھے۔ یہ خاندان بھی مندرجہ دس خاندانوں کے علاوہ ہے۔

سقیفہ مذکورہ میں بیعت کرنے والے مہاجرین کی زیادہ سے زیادہ پانچ تک ثابت ہے ضروری نہیں کہ یہ سب قریش سے ہی تعلق رکھتے ہوں۔ اگر ان سب کو قریشی ہی فرض کر لیا جائے تو بھی یہ مندرجہ تین یا زیادہ سے زیادہ چار قبیلوں کے نمائندہ تھے تو کیا اس طرح مغربی طرزِ انتخاب کے تقاضے پورے ہو جاتے ہیں جب کہ قریش کے اکثر قبیلوں کے ووٹ کاسٹ ہی نہیں ہوئے۔

پھر انصار کا معاملہ تو اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ انصار میں دو بڑے قبائل اوس اورخزرج شامل تھے۔ جن کی ذیلی شاخوں کی تعداد سینکڑوں تک جا پہنچتی ہے تو کیا وہاں سینکڑوں قبائل کے نمائندوں کی گنجائش تھی۔

پھر انصار نے جس عجلت میں یہ مہم سر انجام دینے کی ٹھان رکھی تھی۔ یہ بات قطعاً بعید از قیاس معلوم ہوتی ہے کہ تمام قبائلی نمائندوں کو شرکت کی دعوت دی جا سکتی ہو۔ یا اس قلیل وقت میں یا غیر متوقع موقع پر سب سرداروں کا جمع ہونا از خود ناممکنات سے ہے۔

پھر یہ قبائلی سردار اس طرح منتخب نہیں ہوتے تھے جس طرح آج کل کسی وارڈ کے ممبر کا انتخاب کثرت رائے سے ہوتا ہے۔ ان قبائل کا معیار انتخاب بالکل سادہ اور فطری ہوتا تھا۔ عام طور پر تین باتیں ملحوظ رکھی جاتی تھیں۔

(۱) عمر میں بڑا ہونا (۲) سمجھ دار اور تجربہ کار ہونا (۳) اپنی عادات و خصائل کی بنا پر محترم ہونا۔

گویا ان سرداروں کا انتخاب کسی مخصوص مجلس یا مخصوص وقت میں نہیں ہوتا تھا۔ بلکہ فیصلہ کے لئے چند معززین لوگ اپنی نجی گفتگو اور مجلس میں یہ رائے قائم کر لیتے تھے کہ آج کل فلاں شخص ہی اس رتبہ کا اہل ہے۔ ایسی ہی چند متفرق اور نجی مجلسوں میں رائے زنی کے بعد اسے سردار منتخب کر لیا جاتا تھا۔ اس سردار کے اس منصب کی توثیق کے لئے قبیلہ کے ہر کہ دمہ سے رائے لینا چنداں ضروری نہیں سمجھا جاتا تھا۔

اسلام نے آکر ان اہلیتوں میں صرف علم اور تقویٰ کا اضافہ کیا اور پہلی اہلیتوں کو برقرار رہنے دیا۔

اب ایک دوسرے پہلو سے بھی غور فرمائیے۔ اس وقت مسلمان صرف مہاجرین و انصار ہی کا نام نہ تھا۔ بلکہ وفات النبی ﷺ کے وقت جزیرۃ العرب میں مسلمانوں کی تعداد بیس لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ تو کیا یہ تصور بھی کیا جا سکتا ہے کہ ان بیس لاکھ افراد کے نمائندوں نے سقیفہ بنی ساعدہ میں شرکت کی ہو گی اور انصار و مہاجرین کے قبائل کے علاوہ دوسرے قبیلوں  کے نمائندے بھی شامل ہوئے ہوں گے۔ ان حالات میں تو یہ انتخاب بالواسطہ انتخاب کے تقاضے بھی پورے نہیں کرتا۔ براہِ راست انتخاب تو دُور کی بات ہے۔

نمائندگی کی ضرورت؟

عوام کے نمائندوں  کی ضرورت اس مشہور واقعہ سے جائز ثابت کی جاتی ہے جو بخاری میں متعدد مقامات پر مذکور ہے کہ جب قبیلہ ہوازن کے قیدی حضور اکرم ﷺ نے مسلمانوں میں تقسیم کر دیئے تو اسی قبیلہ کے سر کردہ لوگ آنحضرت ﷺ کے پاس آئے اور التجا کی کہ ان کے قیدیوں کو چھوڑ دیا جائے۔ حضور اکرم ﷺ نے مسلمانوں کو خطاب فرمایا اور کہا:

’’............. اور میں مناسب سمجھتا ہوں کہ ان کے قیدی ان کو پھیر دوں۔ جو کوئی خوشی سے چاہے ایسا کرے اور جو اپنا حصہ واپس نہ کرنا چاہے تو وہ ٹھہرا رہے۔ آئندہ جب غنیمت کا مال آئے تو ہم اسے معاوضہ ادا کر دیں گے۔‘‘

لوگوں نے عرض کیا۔ ’’یا رسول اللہ ہم بخوشی یہ قیدی واپس کر دیتے ہیں۔‘‘

آپ نے فرمایا: ’’مجھے یہ کیسے معلوم ہو کہ تم میں سے کون راضی ہے اور کون نہیں (کیونکہ مسلمان بہت تھے) تم ایسا کرو۔ کہ تم اپنے اپنے نقیبوں (حدیث میں عرفاءکم کا لفظ ہے، عرفاء، عریف بمعنی چودھری کی جمع ہے) سے اپنی اپنی مرضی کہلا بھیجو۔‘‘

یہ سن کر لوگ چلے گئے اور عریف لوگ اپنے اپنے لوگوں سے گفتگو کر کے آپ کے پاس آئے اور کہا۔ ’’لوگ برضا و رغبت قیدی واپس کرنے کو تیار ہیں۔‘‘ (بخاری کتاب الجہاد والسیر)

اس واقعہ سے موجودہ طرزِ انتخاب میں نمائندوں کی ضرورت اور جواز ثابت کیا جاتا ہے جب کہ اس واقعہ اور موجودہ انتخابات میں بنیادی فرق یہ ہے کہ اس واقعہ میں لوگوں کو فرداً فرداً اپنے حقِ ملکیت سے دست بردار ہونے کی اپیل کی گئی تھی اور اگر کسی ایک آدمی کی بھی مرضی نہ ہوتی اور وہ مجموع عام میں خاموش رہتا تو یہ ایک قسم کا ظلم تھا۔ لہٰذا ہر ایک ہی فرداً فرداً مرضی معلوم کرنے کی ضرورت تھی جو اہل محلہ یا محلہ کے چوہدری ہی بذریعہ بات چیت معلوم کر سکتے تھے۔ مگر شوریٰ یا امیر کا انتخاب اسلامی نقطۂ نظر سے عوام کا حق ہے ہی نہیں۔ وہ تو ایک ذمہ داری ہے۔ انتخاب کرنے والے اور منتخب ہونے والے سب کے متعدد اوصاف ہیں۔ اور انتخاب کنندگان (یا اہل الرائے) پر ایک ذمہ داری اور بوجھ ہے کہ وہ یہ امات اسی شخص کے حوالے کریں جو اس کا اہل تر ہو ورنہ وہ خدا کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔

3.   کثرت رائے اور انتخاب حضرت ابو بکرؓ

ہم بخاری کی حدیث سے ثابت کر چکے ہیں کہ حضرت عمرؓ کے اپنے بیان کے مطابق صرف انہوں نے اکیلے بیعت کی جسے اللہ تعالیٰ نے کامیاب بنا دیا۔ حضرت عمرؓ کے بعد حضرت ابو عبیدہؓ بن الجراح نے، پھر دو تین ’’مزید‘‘ وجود قریشیوں نے بیعت کی۔ اس کے بعد انصار کے موجود لوگوں میں سے اکثر نے بیعت کر لی۔

اب حضرت عمرؓ کا بیان یہ ہے کہ میں نے اکیلے حضرت ابو بکرؓ کی بیعت کی اور خدا نے اسے کامیاب بنایا۔ جس کا مطلب بالکل واضح ہے کہ بیعت کرنے والوں کی گنتی مقصود نہیں بلکہ خلافت کے انتخاب کے متعلق مشورہ دینے والوں کی گنتی مقصود ہے۔ اور وہ صرف حضرت عمر کی ذات تھی۔

اسی طرح حضرت حسنؓ کی بیعت بھی صرف ایک شخص قیس بن سعد بن عبادہ نے کی۔ بعد میں دوسرے لوگوں نے بیعت کی اور یہ خلافت بھی منعقد ہو گئی جس کی صحت میں انکار کی گنجائش نہیں ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر ایک فردِ واحد کی رائے پر بھی خلافت کا منعقد ہو جانا ثابت ہے اگرچہ یہ ہنگامی حالات کے تقاضے تھے۔ تو پھر کثرت رائے کا سوال ہی کہاں باقی رہ جاتا ہے۔ جب کثرت رائے حق کا معیار ہی نہیں (جیسا کہ مشورہ کے عنوان کے تحت تفصیلاً مذکور ہے) تو پھر کثرت رائے کو ثابت کرنے کا فائدہ بھی کیا ہے؟ کیا جمہوری طرز انتخاب میں ایسی گنجائش موجود ہے کہ ہنگامی صورت میں کوئی شخص برسرِ اقتدار آجائے یا اسے چند اشخاص لے آئیں تو اسے آئینی سربراہ سمجھ لیا جائے؟



[1]  آنحضرت ﷺ کی وفات کا حال سن کر ایک طرف مسجد نبوی میں لوگ جمع ہو گئے تھے ان میں قریباً سب مہاجرین تھے۔ کیونکہ مہاجرین کے مکانات اسی علاقہ میں زیادہ تھے۔ یہاں انصار بہت کم تھے۔ دوسری طرف بازار کے متصل سقیفہ بنی ساعدہ میں مسلمانوں کا اجتماع تھا۔ اس مجمع میں تقریباً سب انصار ہی تھے۔ کوئی دو مہاجر بھی اتفاقاً وہاں موجود تھے۔ (تاریخ اسلام۔ اکبر خاں نجیب آبادی ج ۱ ص ۲۷۵)