انتخاب حضرت عثمانؓ
حضرت عمرؓ سے نامزدگی کی درخواست
عن عبد اللہ ابن عمر قال: قیل لِعُمَرَ: ’’الا تستخلف؟‘‘ قال ان استخلف مَنْ ھُوَ خیر منی ابو بکرٍ وان اترک فقد ترک من ھو خیر منی رسول الله ﷺ فاثنوا علیه فقال: رَاغِبٌ راھبٌ وددت انی نجوت منھا لَا لِی ولا عَلَیّ، لَا اَتُحَمَّلُھا حیًّا ومیتًا۔ (بخاری۔ کتاب الاحکام۔ باب الاستخلاف نمبر ۸۹۲)
عبد اللہ بن عمرؓ کہتے ہیں (جب) حضرت عمرؓ (زخمی ہوئے تو ان) سے کہا گیا۔ آپ کسی کو خلیفہ بنا دیجیے؟‘‘ فرمایا: ’’اگر خلیفہ مقرر کروں تو (بھی ٹھیک ہے کیونکہ) حضرت ابو بکرؓ نے، جو مجھ سے بہتر تھے خلیفہ مقرر کر گئے تھے اور اگر نہ کروں تو (بھی ٹھیک ہے کیونکہ) حضور اکرمؐ جو مجھ سے بہتر تھے خلیفہ نہیں بنا گئے تھے۔‘‘ پھر لوگوں نے آپ کی تعریف شروع کی تو آپ نے فرمایا۔ کوئی تو میری تعریف دل سے کرتا ہے۔ اور کوئی مجھ سے ڈر کر اور میں تو یہی غنیمت سمجھتا ہوں کہ خلافت کے مقدمہ میں برابر چھوٹ جاؤں نہ مجھے ثواب ملے نہ عذاب ہو۔ میں اس بوجھ کو جسے زندگی بھر اٹھایا ہے۔ مرتے وقت بھی اٹھانا نہیں چاہتا۔
دوسری بار جب یہ بات دہرائی گئی تو آپ نے یوں جواب دیا:
ان عمر بن الخطاب لما طُعِنَ قیل له: یا امیر المؤمنین، لو استخلفت قال لمن استخلف؟ لو کان ابو عبیدۃ بن الجراح حیاً، استخلفته، فان سئلنی ربی قلت، سمعت نبیُّک یقول: وانه امین ھذہ الامة۔ ولو کان سالم مولی ابی حذیفة حیًّا استخلفه، فان سئلنی ربی قلت سمعت نبیک یقول: ان سالمًا شدید الحب الله۔
فقال له رجل: ادلک علیه؟ عبد الله بن عمر، فقال: قاتلک الله والله ما اردت بھذا، ویحک کیف استخلف رجلا عجز من طلاقِ امرأته الا اَرَبَ لَنَا فی امورکم، ما حمدتھا فارغب فیھا احدًا من اھل بیتی: ان کان خیرًا فقد اصبنا منه، وان کان شرًا نشرعنا اٰل عمر یحسب ال عمران یحاسب منھم رجل واحدٌ۔ (الطبری .....)
حضرت عمرؓ بن الخطاب پر جب خنجر کا وار ہوا تھا تو آپ سے کہا گیا اے امیر المومنین کسی کو خلیفہ بنا جائیے۔ آپ نے کہا۔ ’’ کس کو جانشین بناؤں؟ اگر ابو عبیدہ بن الجراحؓ زندہ ہوتے تو ان کو جانشین مقرر کر جاتا۔ میرا رب اگر مجھے اس بارے میں پوچھتا تو کہہ دیتا کہ تیرے نبی کی زبان سے سنا تھا کہ ابو عبیدہ اس امت کے امین ہیں۔‘‘
پھر اگر ابو حذیفہ کے مولیٰ سالمؓ زندہ ہوتے تو انہیں خلیفہ نامزد کر جاتا۔ میرا رب پوچھتا تو کہہ دیتا کہ میں نے تیرے نبی کو فرماتے ہوئے سنا تھا۔ ’’سالمؓ اللہ سے بہت محبت کرنے والا ہے۔‘‘
کسی نے کہا: ’’عبد اللہ بن عمرؓ کو نامزد کر جائیے۔‘‘ آپ نے ناراضی کا اظہار فرمایا اور کہنے والے کو سخت سست کہا اور فرمانے لگے کہ ’’میں ایسے آدمی کو اپنا جانشین بنا جاؤں جو اپنی عورت کو طلاق دینے میں جذبات پر قابو نہ رکھ سکا۔ ہمیں تمہارے معاملات کی کوئی خواہش نہیں۔ میں نے اسے کچھ اچھا نہیں پایا کہ اپنے گھر میں سے کسی اور کے لئے بھی اس کی خواہش کروں۔ اگر یہ حکومت اچھی چیز تھی تو اس کا مزہ ہم نے چکھ لیا۔ اور اگر یہ بری چیز تھی تو عمرؓ کے خاندان کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ کل کو خدا کے سامنے ان میں سے صرف ایک ہی آدمی سے حساب لیا جائے۔‘‘ (الطبری ج ۴ ص ۲۲۷-۲۲۸)
نامزدگی سے متعلق حضرت عمرؓ کے خیالات کی ترجمانی علامہ شبلی نعمانی نے تحقیق کے بعد ان الفاظ میں کی ہے:
’’اس وقت (آپ کے زخمی ہونے کے بعد) اسلام کے حق میں جو سب سے اہم کام تھا وہ ایک خلیفہ کا انتخاب کرنا تھا۔ تمام صحابہ بار بار حضرت عمرؓ سے خطاب کرتے تھے کہ اس مہم کو آپ طے کر جائیے۔ حضرت عمرؓ نےخلافت کے معاملے میں مدتوں غور کیا تھا۔ اور اکثر سوچا کرتے تھے۔ بار بار لوگوں نے ان کو اس حالت میں دیکھا کہ سب سے الگ متفکر بیٹھے ہیں اور کچھ سوچ رہے ہیں۔ دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ خلافت کے باب میں غلطاں و پیچاں ہیں۔
مدت کے غور و فکر پر بھی ان کے انتخاب کی نظر کسی شخص پر جچتی نہ تھی۔ بارہا ان کے منہ سے بے ساختہ آہ نکل گئی کہ افسوس! اس بارِ گراں کا اٹھانے والا کوئی نظر نہیں آتا۔ تمام صحابہ میں اس وقت چھ شخص تھے جن پر انتخاب کی نظر پڑ سکتی تھی۔ علیؓ، عثمانؓ، زبیرؓ، طلحہؓ، سعد بن ابی وقاصؓ اور عبد الرحمان بن عوفؓ لیکن حضرت عمرؓ ان سب میں کچھ نہ کچھ کمی پاتے تھے اور اس کا انہوں نے مختلف موقعوں پر اظہار بھی کر دیا تھا۔ چنانچہ طبری وغیرہ میں ان کے ریمارک بہ تفصیل مذکور ہیں۔ مذکورہ بالا بزرگوں میں وہ حضرت علیؓ کو سب سے بہتر جانتے تھے لیکن بعض اسباب سے ان کی نسبت بھی قطعی فیصلہ نہ کر سکتے تھے۔
غرض وفات کے بعد جب لوگوں نے اصرار کیا تو فرمایا کہ ان چھ شخصوں میں س جس کی نسبت کثرت رائے ہو وہ خلیفہ منتخب کر لیا جائے۔‘‘
چھ رُکنی کمیٹی اور اس کا طریقِ کار
بعد ازاں جب حضرت عمرؓ آخری وصیتیں فرما رہے تھے تو لوگوں نے پھر ولی بنانے کو کہا: اس بارہ میں حضرت عمرؓ کی تجاویز یہ تھیں (طویل حدیث سے اقتباس لیا گیا ہے)
فقالوا اَو مِنْ یا امیر المومنین استَخْلِفْ۔ قال مَا اَجِدُ احق لھذا الامر من ھٰؤُلاء النفرِ او الرھط الذین توفی رسول الله ﷺ وھو عنھم راضٍ فسمّٰی علیًا وعثمان والزبیر وطلحة وسعد وعبد الرحمٰن۔ وقال یشھدکم عبد اللّٰہ بن عمر ولیس لَه من الامر شَیٌٔ کھیئة التعزیة له فان اصابت الامرة سعدًا ذاک والا فلیستعن به ...... فلما فُزِغ من دفنه اجتمع ھؤلاء الرھط فقال عبد الرحمن اجعلوا امرکم الی ثلثة منکم۔ فقال الزبیر قد جعلت امری اِلٰی عَلَیِّ، وقال طلحة قد جعلت امری الی عثمان، وقال سعدٌ قد جعلت اَمْرِی الی عبد الرحمن بن عوفٍ۔ فقالی عبد الرحمٰن ایکما تبرَّاَ من ھذ الامر؟ فیجعلہٗ الیه، والله علیه والاسلام لِیَنظرنّ افضلھم فی نفسه۔ فاسکت الشیخان۔ فقال عبد الرحمٰن افتجعلونه والله عَلَیَّ اَنَّ لا آلوا عن افضلکُمْ؟ قالا۔ نعم۔ فاخذ بِیَدِ احدھما فقال لک قرابة من رسول الله ﷺ والقدم فی الاسلام ما قد علمتَ فالله علیک لئن امرک لِتَعْدِلَنَّ ولئن اَمَّرْتُ عثمان لتسمعن ولتطیعنَّ ثُمَّ خَلَا بالْاٰخر فقال له مثل ذلک۔ فلما اخذ المیثاق قال ارفع یدک یا عثمان فَبَایَعَه فیایع له عَلِیٌّ وَوَیَحَ اھل الدار فیایعوہ۔ (بخاری. کتاب المناقب باب قصةالبیعت والاتفاق علٰی عثمان)
لوگوں نے کہا اے میر المؤمنین کسی کو خلیفہ بنا جائیے! آپ نے کہا۔ خلافت کا حق دار ان چند لوگوں کے سوا کوئی نہیں جن سے آنحضرت ﷺ راضی رہے۔ انہوں نے علیؓ، عثمانؓ، زبیرؓ، طلحہؓ اور عبد الرحمٰن بن عوف[1] کا نام لیا اور کہا کہ عبد اللہ بن عمرؓ مشورہ میں تمہارے ساتھ شریک رہے گا۔ لیکن خلافت میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔ یہ عبد اللہ کو تسلی دینے کے لئے کہا۔ پھر اگر خلافت سعدؓ کو مل گئی توبہتر، ورنہ جو خلیفہ ہو وہ سعد سے مدد لیتا رہے۔
پھر جب ان کے دفن سے فراغت ہوئی تو یہ چھ آدمی ایک جگہ اکٹھے ہوئے۔ عبد الرحمٰن بن عوف نے کہا۔ چھ آدمی تین کو اپنے میں سے مختار کر دو۔ چنانچہ زبیرؓ نے حضرت علیؓ کو، طلحہؓ نے حضرت عثمانؓ کو اور سعدؓ نے حضرت عبد الرحمٰنؓ بن عوف کو اختیار دے دیا(ان کے حق میں دستبردار ہو گئے (اور چھ سے تین رہ گئے۔)
پھر حضرت عبد الرحمٰنؓ بن عوف نے حضرت علیؓ اور حضرت عثمانؓ دونوں سے کہا۔ تم دونوں میں سے جو کوئی خلافت کا طالب نہ ہو ہم اس کو خلیفہ بنائیں گے اللہ اور اسلام گوا رہےہیں۔ میں اسی کو تجویز کروں گا جو میرے نزدیک افضل ہے۔ یہ سن کر دونوں بزرگ خاموش ہو گئے۔
پھر عبد الرحمٰنؓ نے دونوں سے کہا۔ ’’کیا تم مجھے مختار بناتے ہو؟ خدا کی قسم میں اسی کو خلیفہ بناؤں گا جو افضل ہو گا۔‘‘ دونوں نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے‘‘ حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ نے ان میں سے ایک (حضرت علیؓ) کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا۔ تمہیں آنحضرت سے قرابت ہے اور تمہارا اسلام بھی پرانا ہے جیسا کہ تم خود جانتے ہو۔ اللہ تمہارا نگہبان ہو۔ اگر میں تمہیں خلیفہ بناؤں تو تم عدل کرو گے اور اگر عثمان کو بناؤں تو اس کا حکم سنو گے اور اس کی طاعت کرو گے۔ پھرعثمانؓ سے تنہائی میں یہی گفتگو کی۔ جب دونوں سے اقرار لے چکے تو کہنے لگے۔ عثمانؓ اپنا ہاتھ اٹھاؤ۔ سو عبد الرحمٰنؓ نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی پھر علیؓ نے بیعت کی اور سارے مدینہ والے گھس پڑے اور انہوں نے بھی بیعت کر لی۔
حضرت عثمانؓ کو کیوں منتخب کیا گیا (معیار انتخاب)
حضرت عبد الرحمٰن بن عوف نے ان دونوں بزرگوں میں سے حضرت عثمان کو کیسے افضل قرار دیا۔ اس کی تفصیل درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔
ان المسور بن المخرمة اخبرہ ان الرّھط الذین ولّا ھم عمر۔‘ اجتمعوا فقشاروا۔ قال لھم عبد الرحمٰن لست بالذی انا فسکم علی ھذا الامر، ولٰکنکُمْ ان شئْتُمْ اخترتُ لکم منکم۔ فجعلوا ذلک الٰی عبد الرحمٰن۔ فلما ولّوا عبد الرحمن امرھم فمال الناس عَلٰی عبد الرحمٰن حتّٰی ما اریٰ احدًا من الناس یَتْبَعُ اولئک الرھط ولا یَطَا عَقِبَه ومال الناس علٰی عبد الرحمٰن یشاورونه تلک اللیالی حتّٰی اذا کانت اللیلة التی اصبحنا منھا فَبَایَعْنَا عثمان قال المِسْوَرُ طرقنی عبد الرحمٰن بعد ھجعٍ من اللیل فضرب الباب حتّٰی استیقظت فقال اراک نائِمًا فو الله ما اکْتَحَلْتُ ھذا اللیلة بکبیر نومٍ۔ انطلق فادع الزبیر وسعدًا۔ فدعوتھما لَه فشاورھما ثم دعانی فقال: ادع فی عَلِیًّا۔ فدعوته فناجاه حتی ابھاذّ اللیل۔ ثم قام عَلِیٌّ من عندہ وھو علی طمع وقد کان عبد الرحمٰن یخشی من عَلِیٍّ شیئاً۔ ثم قال ادع لی عثمان فدعوته فتاجاہ حتّٰی فرق بینھما الموذن بالصبح۔ فلما صلی الناس الصبح واجتمع اولئک الرھط عند المنبر فارسل الی من کان حاضرًا من المھاجرین والانصار وارسل الی امراء الاجنادِ وکانوا وافوا تلک الحجة مع عمر فلما اجتمعوا تشھد عبد الرحمٰن ثم قال اما بعد! یا علیُّ اِنِّیْ قد نظرت فی امر الناس فلم ارھم یعدلون بعثمان فلا تجلعن علی نفسک سبیلا۔ فقال ابا یعک علی سنة الله ورسوله والخلیفتین من بعدہ فبایعه، عبد الرحمان وبایعه الناس المھاجرون والانصار وامراءُ الاجناد والمسلمون (بخاری۔ کتاب الاحکام باب کیف یبایع الامام الناس)
حضرت مسور بن مخرمہ نے بیان کیا کہ حضرت عمرؓ جن چھ آدمیوں کو خلافت کے لئے نامزد کر گئے تھے، وہ سب جمع ہوئے اور مشورہ کیا۔ حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ نے کہا مجھے اس امر خلافت سے کوئی دلچسپی نہیں۔ ہاں اگر تم چاہو تو تم میں انتخاب کر سکتا ہوں۔ انہوں نے عبد الرحمٰن کو یہ اختیار دے دیا۔ جب اختیار دے چکے تو لوگ عبد الرحمٰن کی طرف مائل ہو گئے۔ کوئی آدمی ایسا نہ تھا جو ان نامزدگان کے پیچھے نہ چل رہا ہو اور جسے دیکھو وہ ان راتوں میں حضرت عبد الرحمٰنؓ سے مشورہ کر رہا ہوتا یہاں تک کہ وہ رات آگئی جس کی صبح ہم نے عثمانؓ کی بیعت کی۔
مسور بن مخرمہ کہتے ہیں جب وہ رات آئی تو تھوڑی رات گئے عبد الرحمانؓ بن عوف نے میرا دروازہ کھٹکھٹایا۔ میں جاگ اُٹھا تو کہنے لگے۔ واہ تم سو رہے ہو۔ میں اس رات (یا دن تین راتوں میں) کچھ زیادہ نہیں سویا۔
جاؤ (زبیر (بن عوام) اور سعد بن ابی وقاص) کو بلاؤ۔ میں انہیں بلا لایا۔ عبد الرحمٰنؓ ان سے مشورہ کرتے رہے۔ پھر مجھے بلایا اور کہا۔ اب علیؓ کو بلا لاؤ میں بلا لایا تو آدمی رات تک ان سے سرگوشیاں کرتے رہے۔ جب علیؓ ان کے پاس سے اُٹھے۔ حضرت علیؓ پر امید تھے۔ لیکن لیکن عبد الرحمٰنؓ بن عوف کو حضرت علی کے سلسلہ میں کچھ خطرہ تھا۔
پھر مجھے کہا اب عثمانؓ کو بلا لاؤ۔ میں بلا لایا تو سرگوشیاں کرنے لگے تآنکہ مؤذن کی صبح کی اذان نے انہیں جدا کیا۔ جب لوگوں نے صبح کی نماز پڑھ لی تو یہ (چھ اشخاص) منبر کے پاس جمع ہو گئے تو حضرت عبد الرحمٰنؓ نے مدینہ میں موجود سب مہاجرین و انصار کو بلا بھیجا۔ اور ان فوج کے سرداروں کو بھی جنہوں نے حضرت عمرؓ کے ساتھ حج ادا کیا تھا اور وہ موجود تھے۔ جب سب لوگ جمع ہو گئے تو آپ نے تشہد پڑھا پھر کہنے لگے۔ ’’علیؓ! تم برا نہ ماننا میں نے سب لوگوں سے اس معاملہ میں گفتگو وہ عثمانؓ کو مقدم رکھتے ہیں ان کے برابر کسی کو نہیں سمجھتے۔
پھر عثمانؓ سے کہا۔ میں تم سے اللہ کے دین، اس کے رسول کی سنت اور اس کے بعد دونوں خلیفوں کے طریق پر بیعت کرتا ہوں۔ یہ کہہ کر عبد الرحمٰن نے بیعت اور جتنے مہاجرین و انصار، فوجوں کے سردار اور عام مسلمان وہاں موجود تھے، سب نے بیعت کر لی۔
استصواب عامہ
حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ نے حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کے انتخاب میں کس قدر جانفشانی سے کام لیا۔ البدایہ والنہایہ کی درج ذیل عبارت میں اس کا تفصیلی ذکر ہے:۔
ثم نھض عبد الرحمن رضی اللّٰہ عنه یستشیر الناس فیھما ویجمع رأی المسلمین برای رءُوس الناسِ واقیادھم جمیعًا واشتاتا، مثنیٰ وفرادٰی، ومجتمعین، سرًّا وجھرًا حتی خؒص الی النساء المخدِّرات فی حجابین، وحتّٰی سَاَل الولدان فی المکاتب، وحتّٰی سَاَل من یرد من ......؟..... والاعراب الی المدینة، فی مدة ثلاثة ایام ولیالیھا۔ فلم یجد اثنین یختلفین فی ..........؟.......... عثمان بن عفان، اِلَّا ما ینقل عما روا لمقداد انھما اشار بعلی بن ابی طالب ثم بالجامع الناس علی ما سنذکرہ۔ فسعٰی فی ذلک عبد الرحمٰن ثلاثة ایام بلیالیھا یغتھض بکثیر یومٍ الا صلٰوة ورعاءًا واستخارة وسؤا لامن من ذوی الرأی عنھم، فلم یجد احدا بعدل لعثمان بن عفان رضی اللّٰہ عنہ۔ (البدایة والنھایة ج ۷ ص ۱۴۷)
پھر حضرت عبد الرحمانؓ بن عوف ان دونوں (حضرت عثمانؓ و حضرت علیؓ) کے متعلق لوگوں سے مشورہ کرنے میں مشغول ہو گئے۔ آپ اکابر سے بھی مشورہ کرتے اور ان کے پیروکاروں سے بھی۔ اجتماعاً بھی اور متفرق طور پر بھی۔ اکیلے اکیلے سے بھی اور دو دو سے بھی۔ خفیہ بھی اور علانیہ بھی۔ حتّٰی کہ پردہ نشین عورتوں سے بھی مشورہ کیا۔ مدرسے کے طالب علموں سے بھی، اور مدینہ کی طرف آنے والے سواروں سے بھی، بدووں سے بھی جنہیں وہ مناسب سمجھتے۔ تین دن اور تین راتیں یہ مشورہ جاری رہا۔ آپ کے دو آدمیوں کے سوا سب لوگوں کو حضرت عثمانؓ کی خلافت کے حق میں پایا۔ البتہ حضرت عمار اور مقدادؓ نے حضرت علیؓ کے حق میں مشورہ دیا۔ بعد میں ان دونوں نے بھی (حضرت عثمانؓ) کی دوسرے لوگوں کے ساتھ بیعت کی جیسا کہ ہم ابھی بیان کریں گے۔
سو حضرت عبد الرحمٰنؓ ان تین دن اور تین راتوں میں بہت کم سوئے۔ وہ اکثر نماز، دعا، استخارہ اور ان لوگوں سے مشورہ میں وقت گزارتے تھے جن کو وہ مشورہ کا اہل سمجھتے۔
سو آپ نے (اس مشورہ کے دوران) کسی کو بھی نہ پایا۔ جو حضرت عثمانؓ کے برابر کسی کو سمجھتا ہو۔
قواعدِ انتخاب
$11. خلیفہ کے انتخاب کے لئے تین دن کی مدت حضرت عمر فاروقؓ نے مقرر کی تھی۔
$12. حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کو صرف رائے دینے کی حد تک نامزد شدہ کمیٹی میں شامل ہونے کی اجازت تھی۔
$13. حضرت مقدادؓ کو یہ حکم دیا گیا کہ جب تک یہ لوگ اپنے میں سے خلیفہ منتخب نہ کر لیں کسی دوسرے کو اندر نہ جانے دینا۔
حضرت مقداد الاسود اور ابو طلحہ انصاریؓ نے وصیت فاروقی کے مطابق حضرت صہیبؓ کو تین دن کے لئے عارضی طور پر (تا انتخاب خلیفہ) مدینہ کا امام مقرر کیا اور خود اپنے آدمیوں کی جمعیت لے کر (۵۰ آدمی) حضرت مسور بن مکرمہ اور بقول بعضے حضرت عائشہؓ کے مکان۔ جہاں نامزد شدہ ارکان خلیفہ کے انتخاب کے لئے جمع ہوئے تھے۔ کے دروازے پر حفاظت کی غرض سے بیٹھ گئے سوائے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کے کوئی اس میں داخل نہ ہو سکتا تھا۔
حضرت عمرو بن العاص اور حضرت مغیرہ بن شعبہ بھی آکر دروازہ پر بیٹھ گئے۔ حضرت سعد بن وقاصؓ کو معلوم ہوا تو انہوں نے ان دونوں کو وہاں سے اٹھوا دیا۔ تاکہ وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ ہم بھی اصحابِ شوریٰ میں شامل تھے۔
تین دن بعد جب حضرت عبد الرحمان بن عوف مسجد میں خلافت کا اعلان کرنے والے تھے تو کچھ لوگوں نے اعلان سے قبل اپنی رائے ظاہر کرنا شروع کر دی تھی۔ حالانکہ یہ لوگ شوری میں سے نہ تھے۔ مثلاً حضرت عمارؓ نے کہا کہ میں حضرت علیؓ کو مستحق خلافت سمجھتا ہوں۔ ابن ابی سرحؓ اور عبد اللہ بن ابی ربیعہؓ نے کہا کہ ہم حضرت عثمان کو زیادہ مستحق و مناسب پاتے ہیں۔ یہ صورتِ حال دیکھ کر حضرت سعد بن وقاصؓ نے حضرت عبد الرحمٰنؓ بن عوف سے کہا۔ ’’اب دیر کیوں کر رہے ہو؟ اندیشہ ہے کہ مسلمانوں میں کوئی فتنہ نہ پیدا ہو جائے لہٰذا جلد اپنی رائے کااظہار کر کے یہ مسئلہ ختم کرو۔‘‘ چنانچہ آپ نے اعلان کر دیا جس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔ (البدایہ والنہایہ جلد ۷، ص ۱۴۵)
[1] عشرہ مبشرہ سے یہی لوگ باقی تھے۔ ابو عبیدہؓ بن الجراح تو وفات پا چکے تھے اور سعید بن زیدؓ حضرت عمرؓ کے چچا زاد بھائی تھے۔ اس نے نام آپ نے عمداً نہیں لیا۔ (البدایۃ والنہایہ ج ۷ ص ۱۴۴)