مقدّمہ ملّتِ اسلامیہ

سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ جو جماعت اسلامی نظامِ خلافت کا دعویٰ لے کر اُٹھتی ہے وہ خود کن صفات سے متصف ہونی چاہئے؟ اس کی وضاحت سورۂ شوریٰ کی مندرجہ ذیل آیات میں ملتی ہے جو مکی دور کے آخر میں نازل ہوئیں۔ ارشاد باری ہے:
﴿وَما عِندَ اللَّـهِ خَيرٌ وَأَبقىٰ لِلَّذينَ ءامَنوا وَعَلىٰ رَبِّهِم يَتَوَكَّلونَ ﴿٣٦﴾ وَالَّذينَ يَجتَنِبونَ كَبـٰئِرَ الإِثمِ وَالفَوٰحِشَ وَإِذا ما غَضِبوا هُم يَغفِرونَ ﴿٣٧﴾ وَالَّذينَ استَجابوا لِرَبِّهِم وَأَقامُوا الصَّلوٰةَ وَأَمرُهُم شورىٰ بَينَهُم وَمِمّا رَزَقنـٰهُم يُنفِقونَ ﴿٣٨﴾ وَالَّذينَ إِذا أَصابَهُمُ البَغىُ هُم يَنتَصِرونَ ﴿٣٩﴾...الشورى
اور جو خدا کے ہاں ہے وہ بہتر اور قائم رہنے والا ہے ان لوگوں کے لئے جو:
$11.      ایمان لائے (یعنی اللہ، اس کے رسول اور یومِ حساب پر)
$12.      اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں۔
$13.      بڑے گناہوں اور بیحیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں۔
$14.      جب غصہ آتا ہے تو معاف کر دیتے ہیں (آپس میں ایک دوسرے کو)
$15.      اپنے رب کا فرمان قبول کرتے ہیں۔
$16.      نماز قائم کرتے ہیں۔
$17.      اپنے معاملات باہمی مشورہ سے[1] طے کرتے ہیں (جس میں امیر کا انتخاب بھی شامل ہے)
$18.      جو مال ہم نے انہیں دیا اس میں خرچ کرتے ہیں (زکوٰۃ اور اس کے علاوہ بھی)
$19.      جب ان پر ظلم و تعدّی ہو تو (مناسب طریقے سے) بدلہ لیتے ہیں (اغیار سے)
جب تک کسی امیر کو ایسی صفات کی حامل جماعت میسر نہ آئے، اسلامی انقلاب نہیں لایا جا سکتا۔ حتّٰی کہ ایک نبی ﷺ جو اسلامی انقلاب لانے کے لئے اللہ کی طرف سے مامُور ہوتا ہے ایسی جماعت کے بغیر اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا نبیؑ ایسے اوصاف کی حامل جماعت خود تیار کرتا ہے حضور اکرم ﷺ کو اللہ کی مہربانی سے ایسی جماعت میسر آگئی تو ایسا انقلاب بپا کرنے میں کامیاب ہو گئے اور حضرت موسیٰؑ علیہ السلام جیسے اولو العزم پیغمبر کو جب ایسے اوصاف کی حامل جماعت مہیا نہ ہو سکی تو انقلاب بپا نہ ہو سکا۔ اور ان کی قوم مدتوں بھٹکتی پھری۔
اس کے بعد اس جماعت میں وہ لوگ بھی شامل ہو سکتے ہیں جو بعد میں اسلام قبول کریں۔ مگر شرط یہ ہے کہ وہ اپنے ایمان میں مضبوط ہوں، نماز قائم کرتے ہوں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہوں بموجب ارشاد باری تعالیٰ:
﴿فَإِن تابوا وَأَقامُوا الصَّلوٰةَ وَءاتَوُا الزَّكوٰةَ فَإِخوٰنُكُم فِى الدّينِ ... ﴿١١﴾...التوبة
پھر اگر توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو تمہارے دینی بھائی ہیں۔
یعنی تین باتیں (ایمان، نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی) ہیں جو کسی فرد کو ایک اسلامی مملکت میں شہریت کے حقوق عطا کرتی ہیں۔ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا:
امرت ان اقاتل الناس حتی یشھد وان لا اله الا الله وان محمدًا رسول الله ویقیموا الصلٰوة ویؤتوا الزکوٰة فاذا فعلوا ذلک عصموا منی دماءھم إلا بحق الإسلام وحسابھم علی الله (مسلم۔ کتاب الایمان باب الامر لقتال الناس)
ترجمہ:
مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروں۔ یہاں تک کہ وہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیں۔ نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں اگر وہ یہ شرائط تسلیم کر لیں تو ان کی جانیں محفوظ ہو جائیں گی۔ اِلّا یہ کہ وہ اسلام کے کسی حق کے تحت وہ اس حفاظت سے محروم کر دیئے جائیں رہا ان کے باطن کا حساب تو وہ اللہ کے ذمہ ہے۔
وجہ یہ ہے کہ ایک مسلمان شہری پر اللہ کا سب سے پہلا حق نماز ہے اور دوسرے مسلمانوں کا حق زکوٰۃ ہے نماز کے متعلق تو واضح الفاظ میں حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:
من ترک الصلوٰة متعمداً فقد کفر (متفق علیه)
جس نے عمداً نماز چھوڑی۔ اس نے کفر کیا۔
اور زکوٰۃ کی عدم ادائیگی بھی دائرۂ اسلام سے خارج کر دیتی ہے جس کی دلیل اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتی ہے کہ خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیقؓ نے نامساعد حالات کے باوجود مانعین زکوٰۃ کے خلاف لشکر کشی کی تھی۔
مِلّی وحدت
 ایسے اوصاف سے تمصف جماعت بھی صرف اسی صورت میں مثبت نتائج پیدا کر سکتی ہے جب کہ یہ خوب منظم ہو۔ اتحاد کو ہر قیمت پر برقرار رکھے اور انتشار سے محفوظ ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَاعتَصِموا بِحَبلِ اللَّـهِ جَميعًا وَلا تَفَرَّقوا ...﴿١٠٣﴾...آل عمران
اور سب مل کر خدا کی (ہدایت کی) رسی کو مضبوط پکڑے رہنا اور متفرق نہ ہونا۔
ملی وحدت تین عناصر سے عبارت ہے، جماعت۔ امیر اور فرد۔ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:
لا اسلام الا بالجماعة، ولا جماعة الا بالامیر، ولا امیر الا بالسمع والطاعة۔
ترجمہ: جماعت کے بغیر اسلام کی سربلندی ناممکن ہے اور امیر کے بغیر جماعت متحد نہیں رہ سکتی اور امیر کی امارت اس وقت تک بار آور نہیں ہو سکتی جب تک کہ ہر شخص اس کا حکم سن کر اس کی بات نہ مانے۔
اب اس ملی وحدت کو برقرار رکھنے کے لئے ارشاداتِ نبوی ملاحظہ فرمائیے:
ملت اسلامیہ کا خلیفہ ایک ہی شخص ہو سکتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:
اذا يويع الخليفتين فاقتلوا الأ منھما (مسلم، کتاب الامارۃ والقضاء)
ترجمہ: جب دو خلیفوں کی بیعت ہونے لگے تو بعد والے کو قتل کر دو۔
اور فقہائے امت کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ اگر ایک ہی وقت (بغیر تقدیم و تاخیر) دو خلیفوں کا انتخاب واقع ہو تو دونوں کا انتخاب کالعدم قرار پائے گا اور نئے سرے سے خلیفہ کا انتخاب ہو گا۔
امیر کی اطاعت اور جماعت سے وابستگی:
ارشاد باری ہے:
﴿أَطيعُوا اللَّـهَ وَأَطيعُوا الرَّسولَ وَأُولِى الأَمرِ مِنكُم ...﴿٥٩﴾...النساء
اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ پھر حاکموںکی جو تم میں سے ہوں۔
’’اولی الامر‘‘ سے خلیفہ کے علاوہ وہ دوسرے تمام حکام بھی مراد ہیں جو شوریٰ انتظامیہ یا عدلیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ملی وحدت سے متعلق اب ارشادات نبوی ملاحظہ فرمائیے:
$11.عن ابی ھریرة ان رسول الله ﷺ قالم من اطاعنی فقد اطاع الله ومن عصانی فقد عصی الله ومن اطاع امیری فقد اطاعنی ومن عصٰی امیری فقد عصانی (بخاری، کتاب الاحکام)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہؓ ہتے ہیں آنحضرت ﷺ نے فرمایا جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ اور جس نے میرے مقرر کیے ہوئے حاکم کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے امیر کی نافرمانی کی اس کے گویا میری نافرمانی کی۔
$12.  عن عبد الله بن عمر یقول کنا نبایع رسول الله ﷺ علی السمع والطاعة یقول لنا فیما استطعتم (مسلم، کتاب الامارۃ باب البیعة علی السمع والطاعة، بخاری)
ترجمہ: عبد اللہ بن عمرؓ کہتے ہیں ہم رسول اللہ ﷺ سے حکم سننے اور فرمانبرداری کرنے کی شرط پر بیعت کرتے تھے۔ آپ ہمیں کہتے: اپنی استطاعت کے مطابق (یا مقدور بھر تمہیں سمع و طاعت لازم ہے)
$13. عن عرفجة قال سمعت رسول الله ﷺ یقول من اتاکم و امرکم جمیع علی رجل واحد یرید ان یشق عصاکم او یفرق جماعتکم فاقتادہ (مسلم، کتاب الامارہ والقضاء)
ترجمہ: عرفجہؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے اگر تمہارے معاملات کسی ایک شخص پر اکٹھے ہوں پھر کوئی شخص تمہاری قوت کو توڑنے یا تمہاری جماعت میں تفرقہ ڈالنے کی کوشش کرے تو اسے قتل کر دو۔
$14.عن ابی ھریرة قال قال رسول اللّٰہ ﷺ من خرج من الطاعة وفارق الجماعة ثم مات، مات میتة جاھلیة (مسلم، کتاب الامارة)
ترجمہ: ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو کوئی امیر کی اطاعت سے نکلا اور جماعت سے الگ ہوا، پھر مر گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔
امیر اگر نسل کے لحاظ سے کہتر یا شکل کے لحاظ سے بد صورت ہو تو بھی اس کی اطاعت بدستور واجب ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
$15. ان اُمِّر علیکم عبد مجدَّع یقودکم بِکتٰبِ الله فاسمعوا له واطیعوا (مسلم۔ ایضا)
ترجمہ: اگر تم نکٹا غلام بھی امیر بنا دیا جائے تو جب تک وہ تمہیں اللہ کے احکام کے مطابق چلاتا ہے اس کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو۔
ایسے امیر کے احکام کی ہر حال میں تنگی یا آسانی، وہ احکام رعایا کو پسند ہو یا ناپسند طاعت واجب ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
$16.السمع والطاعة علی المرءِ المسلم فیما احب وکرہ مَا لم یومر بمعصیة واذا امر بمعصیة واذا امر بمعصیة فلا سمع ولا طاعة (متفق علیه) بخاری کتاب الاحکام)
’’ہر مسلمان پر سننا اور طاعت کرنا لازم ہے خواہ وہ حکم اسے پسند ہو یا ناپسند جب تک کہ وہ گناہ کا حکم نہیں دیتا۔ اور اگر وہ گناہ کا حکم دے تو پھر نہ اس کی بات سنو نہ اطاعت کرو۔‘‘
اور عبادہ بن صامت کہتے ہیں کہ:
$17. بایعنا رسول اللّٰہ ﷺ علی السمع والطاعة فی العسر والیسر والمنشط والمکرہ (متفق علیه) بخاری کتاب الاحکام)
’’ہم نے رسول اللہ ﷺ کی سننے اور اطاعت کرنے کی شرط پر بیعت کی خواہ اس میں تنگی ہو یا آسانی، خوشی کی صورت میں ہو یا نا خوشی کی (ہرحال میں اطاعت امیر فرض ہے)‘‘
اگر امام بد اعمال ہو جائے تو بھی اس کی اطاعت لازم ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
$18.یکون علیکم اُمَرَاءُ تعرفون وتنرکون فمن انکر فقد بریٔ ومن کرہ فقد سلم ولکن من رٰ وتابع، قالوا افلا تقاتلھم؟ قال: ’’لا، ما صلُّوا‘‘ ای من کرہ بقلبه وانکر بقلبه (مسلم۔ ایضاً)
’’تم پر ایسے امیر ہوں گے جو اچھے کام بھی کریں گے اور برے بھی تو جس نے انکار کیا (کھُل کر ان کی برائی بیان کی) وہ بَری ہوا اور جس نے (دل سے) بُرا جانا وہ محفوظ رہا مگر جو شخص راضی ہو گیا اور ان کے پیچھے چل پڑا (وہی قابل مواخذہ ہے) صحابؓہ نے عرض کیا ’’کیا ہم ایسے امیروں سے جنگ نہ کریں؟ فرمایا: نہیں جب تک وہ نماز پڑھتےہیں۔‘‘ یعنی جس شخص نے دل سے مکروہ سمجھا اور انکار کیا۔
اگر امیر اپنے حقوق تو رعایا سے پورے وصول کرے لیکن رعایا کے حقوق پورے نہ کرے تو بھی اس کی اطاعت لازم ہے۔ وائل بن حجرؓ سے روایت ہے کہ سلمہ بن یزید حُجفی نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا:
$19.یا نبی الله! ارایت ان قامت علینا امراء یسئلونا حقھم ویمنعونا حقنا فما تامرنا قال اسمعوا واطیعوا وانما علیھم ما حُمِّلُوا وعلیکم ما حملتم (مسلم۔ ایضا)
’’اے اللہ کے نبیؐ! اگر ہم پر ایسے امیر مسلط ہوں جو ہم سے اپنا حق تو مانگیں لیکن ہمیں ہمارا حق نہ دیں تو ایسی صورت میں ہمارے لئے آپ کا کیا حکم ہے؟ فرمایا: ’’ان کی بات سنو اور اطاعت کرو۔ ان کی ذمہ داری کا وبال ان پر ہے اور تمہاری ذمہ داری (سمع و طاعت) کا تم پر۔‘‘
نیز فرمایا:
$110.من رایٰ من امیرہ شیئاً یکرھه فلیصبر فانه لیس احد یُفَارِقُ الجماعة شبرًا فیموت الافات میتة جاھلیة (متفق علیہ) (بخاری ۔ کتاب الاحکام)
’’جو شخص اپنے امیر میں ناپسندیدہ فعل دیکھے تو چاہیے کہ صبر کرے کیونکہ جو کوئی جماعت سے بالشت بھر بھی جدا ہوا اور مر جائے تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔‘‘
$111.عن ابی ھریرة عن النبی ﷺ قال: من خرج من الطاعة وفارق الجماعة فمات مات میتة جاھلیة ومن قاتل تحت رایة عمیة یغضَبُ العصبیة او یدعوا الی عصبیة او ینصر عصبة فقُتِل فقتلَة جاھلیة (مسلم کتاب الامارۃ باب ملازمه جماعة المسلمین)
’’حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص امیر کی اطاعت سے اور مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہوا۔ پھر مر گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا اور جو شخص کسی اندھے (نشان) کے تحت لڑائی کرے۔ تعصب کے لئے غصہ دلائے یا تعصب کے لئے بلائے۔ یا تعصب کے لئے مدد کرے پھر قتل کیا جائے تو وہ بھی جاہلیت کی موت مرا۔‘‘
امام چونکہ مقتدر اعلیٰ ہستی نہیں ہوتی بلکہ وہ صرف قرآن و سنت کے احکام کے نفاذ پر مامور ہوتا ہے لہٰذا اس کی اطاعت اسی حد تک واجب ہے جب تک کہ وہ قرآن و سنت کے مطابق ہو اور اگر مخالف ہو تو اس کی اطاعت قطعاً واجب نہیں ہے۔ ارشاد نبوی ہے:
$112.لا طاعةفی معصیة انما الطاعةفی المعروف (متفق علیه)
’’خدا تعالیٰ کی نافرمانی میں کوئی اطاعت نہیں۔ اطاعت صرف بھلائی کے کاموں میں ہے۔
اسی مضمون کی دوسری حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں:
$113.لا طاعة لمخلوق فی معصیة الخالق (شرح السنة)
’’اللہ کی نافرمانی کا معاملہ ہو تو کسی مخلوق کی اطاعت نہیں ہے۔‘‘
اس ایک بات کے علاوہ امیر کی اطاعت ہر حال میں واجب ہے۔
ملی وحدت کی اہمیت:
ماحصل یہ ہے کہ امیر کی اطاعت ہر حال میں واجب ہے۔ وہ غلام ہو، بدصورت ہو، کہتر ذات کا ہو، خود فاسق ہو۔ رعایا کے حقوق پورے نہ کرتا ہو، سب کچھ گوارا ہے مگر ملّی وحدت میں تشتّت و انتشار کسی قیمت پر گوارا نہیں ہے۔ ہاں اگر لوگوں کو قرآن و سنت کے خلاف حکم دے تو گویا امارت کا مقصد ہی فوت ہو گیا اور ایسی حکومت اسلامی حکومت ہی نہیں رہتی اس صورت میں اس کی کوئی اطاعت نہیں۔ اس صورت میں وہی شوریٰ جس نے اسے منتخب کیا اس کے معزول کرنے کا بھی حق رکھتی ہے۔
ملت اسلامیہ کے لئے امام کے بغیر ایک لمحہ بھی گزارنا ناقابلِ برداشت ہے۔ وفات النبی ﷺ کے بعد اسی دن جب انصار نے خلافت کا قصہ شروع کر دیا تو حضرت ابو بکرؓ اور دوسرے اکابر صحابہؓ کو فوری طور پر ادھر توجہ مبذول کرنا پڑی جب کہ ابھی تجہیز و تکفین کا کام باقی تھا۔ حضرت ابو بکرؓ نے اپنی وفات سے پہلے ہی حضرت عمرؓ کو خلیفہ بنا دیا۔ حضرت عمرؓ نے چھ رُکنی کمیٹی بنائی اور ساتھ ہی یہ تاکید فرمائی کہ تین دن کے اندر اندر خلیفہ کا انتخاب لازمی ہو گا۔
دریں اثنا حضرت صہیبؓ نے آپ کی وصیت کے مطابق بحیثیت قائم مقام خلیفہ کے فرائض سر انجام دیئے۔
امام کی اہمیت حضورِ اکرم ﷺ کے اس ارشاد سے بھی واضح ہوتی ہے:
عن مالک ابن حویرث قال اِنْصَرَفْتُ من عند النبی ﷺ فقال لنا انا وصاحب لی: آذِنَّا واقیما ولیُؤْمّکما اکبر کما۔ (بخاری، کتاب الجھاد والسیر باب سفر الاثنین)
’’مالک بن حویرث کہتے ہیں میں جب نبی ﷺ کے پاس سے (اپنے وطن کو) لوٹا تو آپ ﷺ نے مجھے اور میرے ایک ساتھی سے کہا۔ دونوں راستے میں اذان کہنا۔ اور نماز قائم کرنااور تم دونوں میں سے جو بڑا ہو وہ امام ہے۔‘‘
گویا دو مسلمان بھی کہیں علیحدہ ہوں تو نماز باجماعت ادا کرنی اور جماعتی تنظیم کا خیال رکھنا چاہئے۔ اسی طرح آپ ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اگر تین آدمی بھی سفر کریں تو اپنے میں سے ایک امیر بنا لیں۔
اور یہ تو واضح ہے کہ اسلام میں جماعت کی امامت اور ملّت کی امامت (امارت یا خلافت) فردِ واحد ہی انجام دیتا رہا ہے۔ نماز یا جماعت، جمعہ کا اجتماع، حج کی فرضیت اور امیر کا تقرر یہ سب ملّت کی اجتماعیت کے تدریجی مراحل ہیں۔
[1]  مندرجہ بالا آیات میں باہمی مشورت کی اہمیت تو اس بات سے ہی واضح ہو جاتی ہے کہ اس سورت کا نام ہی ’’شوریٰ‘‘ رکھا گیا ہے لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ ’’امرھم شوریٰ بینھم‘‘ کے الفاظ اقاموا الصلوٰۃ اور ومما رزقنٰھم ینفقون کے درمیان ہیں۔ تو کیا جس طرح آج کل ’’مشاورت‘‘ کے پہلوؤں پر غور کیا جا رہا ہے ہمارے سیاسی رہنماؤں کو کبھی یہ توفیق بھی نصیب ہوئی کہ وہ نماز اور زکوٰۃ کے جملہ پہلوؤں پر غور فرما کر ان پر عمل پیرا ہونے کی بھی تلقین فرمائیں۔