محدثُ العصر علامہ البانی اور شاہ فیصل ایوارڈ
" مؤسسة الملك فيصل الخيرية " مملکتِ سعودی عرب کی مؤقر تنظیم ہے جس کے زیر اہتمام ہر سال عالم اسلام اور بیرونی دنیا کے مفکرین اُدباء، اَطباء اور علماءِ دین کو ان کی دعوتی، تبلیغی تصنیفی، سماجی اور رفاہی خدمات پر 'شاہ فیصل ایوارڈ' دیا جاتا ہے۔
سعودی عرب منطقہ عَسِير کے امیر شاہ خالد فیصل کے حسبِ ارشاد شعبان المعظم 1397ھ میں اس تنظیم کا قیام عمل میں لایا گیا۔ 1977ء میں اس تنظیم کے ذمہ داروں نے 'شاہ فیصل ایوارڈ' عالم اسلام کے نمایاں خدمات والے حضرات کو دئیے جانے کی قرارداد منظور کی اور " جائزة الملك فيصل العالمية " کا رئیس شاہ خالد فیصل کو مقرر کیا۔
شاہ فیصل ایوارڈ عالم اسلام میں اپنی نوعیت کا پہلا گرانقدر ایوارڈ ہے جو 1399ھ مطابق 1979ء میں پہلی بار دیا گیا اور اس وقت سے اب تک اس ایوارڈ کا سلسلہ جاری ہے۔ اب تک 157 افراد کو یہ ایوارڈ دیا جا چکا ہے۔ مختلف حوالوں سے نمایاں کارکردگی پیش کرنے والے حضرات کو اس ایوارڈ کے لئے منتخب ہونے پر تعریفی سند کے ساتھ ساتھ ساڑھے سات لاکھ سعودی ریال کا نقد انعام بھی دیا جاتا ہے۔
طالبانِ علوم و نبوت و علمبردارانِ کتاب و سنت کو یقینا اس روح پرور خبر سے مسرت و شادمانی حاصل ہو گی کہ سالِ رواں (1419ھ مطابق 1999ء) کا عالمی شاہ فیصل ایوارڈ برائے "تحقیقاتِ اسلامی و خدماتِ حدیث" ملک شام کے محدثِ نبیل، فقیہ بے مثیل، بقیۃ السلف، یگانہ روزگار علامہ زمان شیخ محمد ناصر الدین البانی حفظہ اللہ کو دیا گیا ہے اور اس سال نامزد ہونے والوں کو یہ انعام 'ریاض' میں تقسیم کیا گیا البتہ شیخ البانی حفظہ اللہ نے اپنا قائم مقام شیخ محمد بن ابراہیم شقرہ کو بنا کر بھیجا تھا۔
شیخ البانی حفظہ اللہ کی شخصیت محتاج تعارف نہیں کہ آپ کی زندگی کھلی ہوئی کتاب کی مانند ہے، علماء کے لئے اُسوہ ہے آپ اپنی دینی خدمات، بےنظیر تصنیفات، مقالات، تحقیقات، تالیفات و تخریجاتِ احادیثِ نبویہ کی وجہ سے عالم اسلام کے گوشے گوشے میں اہل علم کے درمیان خصوصیت سے معروف ہیں۔ آپ کو حدیثِ نبوی، رجال اور اسانید پر عبور حاصل ہے۔ جس انداز سے آپ نے دین اسلام کی بے لوث خدمت انجام دی ہے، وہ قابل شکر و امتنان اور لائق مبارکباد ہے۔ اس وقت علم حدیث میں آپ کا کوئی ہمسر اور ثانی نظر نہیں آتا ہے۔ محدث موصوف سینکڑوں کتابوں کے مصنف و محقق، حسن اخلاق کے پیکر، بزرگ عالم دین، شبِ زندہ دار انسان ہیں۔ حق گوئی، راست بازی اور بے باکی آپ کا امتیازی وصف ہے۔ حکومت و اشخاص کی خوشامد اور چاپلوسی سے آپ کو سخت نفرت اور چڑ ہے اور اسی وجہ سے آپ کو اپنے وطن مالوف اور بعض دوسری جگہوں کو احقاقِ حق کے لئے خیرباد کہنا پڑا۔ آپ جہاں جاتے اور قیام کرتے ہیں وہاں کے بعض مخصوص ذہنیت و عقیدے کے حامل افراد آپ سے خوفزدہ اور سہمے رہتے ہیں اور اپنے راستے کا کانٹا تصور کرتے ہیں۔ محاضرات و بیانات اور خطابات و ملاقات اور کیسٹوں پر پابندیاں عائد کرواتے ہیں لیکن اتنی سخت پہرہ داری کے باوجود بھی آپ دعوتی و تبلیغ مشن و کاز کو فروغ دینے میں کوشاں رہتے ہیں اور ہمہ وقت اس دھن میں مگن رہتے ہیں۔ غرضیکہ بڑی خوبیوں کا حامل ہے یہ فرشتہ خصلت انسان۔
کم فرشتوں سے نہیں ہوتے خصائل جن کے
ایسے انسان بھی مل جاتے ہیں انسانوں میں
آپ کا وجود ملتِ اسلامیہ کے لئے بہت بڑی نعمت ہے۔ عرصہ دراز سے آپ زبان و قلم کے ذریعہ دین اسلام کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ اس وقت آپ کی عمر 84 سال سے متجاوز ہے تاہم اس عالم پیری میں بھی آپ کا قلم دورِ حاضر کے ڈاکٹروں اور مشائخ سے زیادہ زور آور ہے۔ عالم اسلام کے تمام کے تمام علماء کی مسلک و مذہب کے استثناء کے بغیر یہ ذمہ داری تھی کہ وہ سنن اربعہ کی صحیح و سقیم روایتوں کو الگ کر دیتے تاکہ اہل علم و قارئین حضرات صحیح روایات سے استدلال کرتے۔ اس عظیم کام کا بار بھی آپ نے خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کیا اور باحسن و خوبی انجام دیا۔ ہر ایک کتاب کی صحیح و ضعیف روایتوں کو الگ کر کے کتابی شکل دے کر طباعت کے حوالے کر دیا جو چھپ کر منظر عام پر آ چکی ہیں۔ علم حدیث کا کوئی بھی طالب علم خواہ چھوٹا ہو یا بڑا آپ کی علمی کاوشوں اور تحقیق و تخریج سے مستغنی نہیں ہو سکتا۔ اس لئے آپ کی شخصیت علمی مصدر و مرجع کی حیثیت رکھتی ہے۔ اے اللہ ان کا سایہ امت مسلمہ پر تادیر قائم و دائم رکھ اور ان کو خدمت حدیث کی مزید توفیق سے بہرہ ور فرما۔ آمین
مملکتِ سعودی عرب نے آپ کی اسلامی خدمات و کمال علم و فضل کا اعتراف کرتے ہوئے 1999ء کا شاہ فیصل ایوارڈ برائے تحقیقاتِ اسلامی آپ کو عنایت کیا ہے، اس حسن انتخاب پر سعودی عرب اور " جائزة الملك فيصل العالمية " کے تمام ذمہ داران مبارکباد کے مستحق ہیں۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ شیخ البانی کی علمی شخصیت اس ایوارڈ سے کہیں زیادہ بالاتر اور وقیع ہے۔ یہ آپ کی خدمات کا ایک ادنیٰ اعتراف ہے۔ اس ایوارڈ سے آپ کی شخصیت کی علمی وجاہت میں تو کوئی اضافہ نہیں ہوا بلکہ اس ایوارڈ کا اعزاز اور اعتماد دو چند ہوا ہے۔ (بشکریہ ماہنامہ السراج، نیپال)