سانحہ کربلا میں اِفراط و تفریط کا جائزہ
محترم و مکرم مولانا عبدلرحمٰن مدنی صاحب ۔۔ زادکم اللہ عزا و شرفا
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاجِ گرامی!
"محدث" الحمدللہ ہر ماہ باقاعدہ مل رہا ہے بلکہ اس کے وقیع مضامین کی بنا پر اس کے آنے کا انتظار رہتا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ آپ کی خدمات کو قبول فرمائے اور اس ماہنامہ کے ذریعے جو علمی جہاد آپ کر رہے ہیں، اے شرفِ قبولیت سے نوازے ۔۔ آمین!
گذشتہ ماہ محرم الحرام 1419ھ کے شمارہ 5 میں ایک مضمون کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں جسے مولانا عبدالرحمٰن عزیز نے "سانحہ کربلا میں افراط و تفریط کا جائزہ" کے عنوان سے رقم فرمایا ہے۔ میرا خیال تھا کہ کوئی رجل رشید اس پر توجہ فرمائے گا مگر اس کے بعد شمارہ نمبر 6 موصول ہوا تو یہ خیال خواب ثابت ہوا یا کسی مہربان نے شائد اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ اس لئے مجبورا اپنے احساسات کا اظہار آپ کی خدمت میں ارسال کر رہا ہوں۔ اُمید ہے کہ آئندہ شمارہ میں اسے شائع کر دیں گے تاکہ اس موضوع سے متعلق ایک دوسرا پہلو بھی قارئین کرام معلوم کر سکیں۔ (اثری)
جنابِ محترم! آپ اور تاریخ و رجال سے دلچسپی رکھنے والے سبھی حضرات اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ حضرات صحابہ کرام کے مابین پیدا ہونے والے نزاعات/مشاجرات کے نتیجہ میں ان میں جو فکری اختلاف پیوا ہوا، ان میں رافضی، خارجی اور ناصبی نظریات اور ان کے اہداف کسی سے ڈحکے چھپے نہیں ان کے مقابلہ میں اہلسنت/اہلحدیث ہی ایک فکر ہے جو بحمداللہ صراطِ مستقیم پر قائم رہا، جادہ اعتدال کو ہاتھ سے نہ جانے دیا اور افراط و تفریط کی پگڈنڈیوں سے محفوظ رہا۔ رافضیوں کے برعکس اہل بیت کے ساتھ ساتھ سب صحابہ کرام کا احترام اُن کا جزوِ ایمان ہے۔ ناصبی جس طرح خاندانِ نبوت اور ان کے ہم نواؤں کے ساتھ عناد رکھتے تھے یا خارجیوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ وغیرہ کے بارے میں جوطوفانِ بدتمیزی کھڑا کیا تھا، اہل سنت ان نظریات سے ہمیشہ بیزاری کا اظہار کرتے رہے۔ ایک کے دفاع میں دوسرے کی تنقیص ان کا قطعا شیوا نہیں رہا۔ مگر سخت حیرت کی بات ہے کہ "سانحہ کربلا میں افراط و تفریط کا جائزہ" پیش کرتے ہوئے خود مولانا عبدالرحمٰن عزیز صاحب شعوری یا غیر شعوری طور پر افراط و تفریط کا شکار ہو گئے۔ اور جب یہ تحریر "محدث" جیسے علمی ماہنامہ میں شائع ہوئی تو گویا یہ سب محدثین رحمہم اللہ کے افکار کی اَمین جماعت کے موقف کی ترجمان بن گئی، حالانکہ ایسا قطعا نہیں مثلا
حضرت حجر بن عدی (صحابی) کو سبائی لیڈر کہا گیا
(1)کہا گیا ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے مصالحت ہوئی تو کوفیوں نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو ورغلانے کی کوشش کی۔ بلکہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی اس مصالحت کو بھی انہوں نے ناگوار سمجھا ۔۔ چنانچہ مولانا عبدالرحمٰن عزیز کے الفاظ ہیں:
"حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے جب اپنے حواریوں سے تنگ آ کر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے مصالحت کر کے بیعتِ خلافت کی تو سبائیوں کو انتہائی ناگوار گزرا۔ ان کی برابر کوشش ہی تھی کہ صلح نہ ہونے پائے چنانچہ سبائی لیڈر حجر بن عدی نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے اس سلسلہ میں گفتگو کی تو حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے اسے بڑی سختی سے ڈانٹا" (محدث، ص 14)
قطع نظر اس کے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے یہ مصالحت "حواریوں سے تنگ آ کر کی تھی یا اس کے اور بھی اَسباب تھے، مجھے صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ جن "سبائیوں" کو یہ مصالحت ناگوار گزری، ان کے جس "سبائی لیڈر" کا نام حَجَر بن عَدِي لیا گیا ہے، یہ کون ہے؟
جنابِ من! یہ سبائی لیڈر حجر بن عدى صحابی رسول ہیں ۔۔ ابن اثیر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
" وفد على النبى صلى الله عليه وسلم هو واخوه هانئ و شهد القادسية وكان من فضلاء الصحابة " (اسد الغابہ: ج1، ص 385)
کہ "حضرت حجر رضی اللہ عنہ اور ان کے بھائی ہانی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں وفد کی صورت میں حاضر ہوئے۔ جنگِ قادسیہ میں شریک ہوئے اور فضلائے صحابہ میں ان کا شمار ہوتا ہے۔"
امام حاکم نے مستدرک ج3 ص 468، حافظ ابن حجر نے الاصابہ ج1 ص 349، حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے سیر اعلام النبلاء، ج3 ص 463، تجرید اسماء الصحابہ ص 123، العبر ج ص 57، تاریخ الاسلام ج2 ص 33، ابن حماد رحمۃ اللہ علیہ نے شذرات الذہب ج1 ص 57، ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے جمہرۃ انساب العرب ص 426، اور ابن عساکر رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے انہیں صحابہ میں شمار کیا ہے۔ ابن سعد رحمۃ اللہ علیہ نے صحابہ میں ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں تابعین میں بھی شمار کیا ہے۔ مگر حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں " اما ان يكون ظنه آخر واما ان يكون ذهل " کہ انہوں نے یہ کوئی اور راوی سمجھا ہے یا ان سے بھول ہوئی کہ حجر بن عدی رضی اللہ عنہ کو تابعین میں بھی ذکر کر دیا۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ، امام ابو حاتم رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے بلاشبہ انہیں تابعین میں شمار کیا ہے مگر یہ صحیح نہیں جبکہ ابوبکر بن حفص جیسے تابعی ان کے بارے میں "حجر بن عدی رجل من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم" فرماتے ہیں (الاصابہ) اور معصب رضی اللہ عنہ بن عبداللہ الزبیری جیسے امام بھی انہیں صحابی قرار دیتے ہیں اور اکثر متاخرین کی بھی یہی رائے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں " قال غير واحد وفد مع اخيه هانئ" (السیر) لہذا ان پر "سبائی لیڈر" کا الزام اہل سنت کے فکر کی آئینہ دار نہیں۔ اسی "جرم" کی بنا پر مولانا عبدالرحمٰن عزیز نے ان پر " رضی اللہ عنہ" کی علامت بھی مناسب نہیں سمجھی ۔۔ یہ رویہ بھی بہرنوع غلط ہے۔
حضرت سلیمان رضی اللہ عنہ بن صرف خزاعی کو بطورِ صحابی متعارف نہیں کرایا گیا
(2) اسی طرح چند سطور بعد مولانا عبدالرحمٰن صاحب لکھتے ہیں:
"حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے کوفی لیڈر سلیمان بن صرف کو یہ جواب دیا" (محدث ص 14)
آگے چل کر موصوف اسی سلسلے میں مزید لکھتے ہیں:
"آخری خطوط کوفہ کے بڑے بڑے سرداروں کی جانب سے تھے جن میں سے سلیمان بن صرف، شیث بن ابی یزید، عزرہ بن قرن، عمر بن حجاج زیدی، عمر بن تمیمی، حبیب بن نجد، رفاعہ بن شداء اور حبیب بن مظاہر قابل ذکر ہیں" (محدث ص 16)
جب کہ امر واقعہ یہ ہے کہ ان "کوفی لیڈروں" میں جو سرفہرست "سلیمان بن صرف" ہیں، وہ بالاتفاق مشہور صحابی حضرت سلیمان رضی اللہ عنہ بن صرد خزاعی ہیں۔ صحاحِ ستہ میں ان سے روایات مروی ہیں۔ اس سلسلے میں زیادہ حوالہ جات کی ضرورت ہی نہیں۔ بلاریب انہوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو خطوط لکھے۔ جب ان کی مدد نہ کر سکے تو ندامت کا اظہار بھی کیا۔ ہمیں صرف یہ عرض کرنا ہے کہ ان کوفی لیڈروں میں حضرت سلیمان بن صرد خزاعی معروف صحابی ہیں۔ ان کے اسی "جرم" کی بنا پر مولانا عبدالرحمٰن صاحب نے ان کے نام پر بھی " رضی اللہ عنہ" کی علامت مناسب نہیں سمجھی۔ یہ رِوش بہرنوع درست نہیں جس سے ناصبیت کی بو آتی ہے۔
(3) انہی خط لکھنے والوں میں ایک جعدہ بن ہبیرہ بن ابی وہب ہے جیسا کہ محدث ص 14 میں ہے جبکہ یہ بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں شمار ہوتے ہیں جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا شرفِ زیارت حاصل ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے الاصابہ (ج1 ص 247، 269) میں بیان کیا ہے، مولانا عبدالرحمٰن صاحب نے یہاں بھی " رضی اللہ عنہ" کی علامت مناسب نہیں سمجھی۔
مشاجراتِ صحابہ کے بارے میں سلف کے موقف سے اہل علم واقف ہیں۔ سلف نے اس بارے گفتگو کی جو ممانعت کی ہے اس کا سبب یہی ہے کہ اس سے احترام و تقدسِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر حرف آتا ہے اور ان کے بارے میں ناروا زبانیں کھل جاتی ہیں۔ افسوس کہ مضمون کے مذکورہ مقامات سے اسی کی بو آ رہی ہے، اسی امر کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے۔
مقامِ یزید بن معاویہ امام احمد بن حنبل کی نظر میں
(4) اسی عنوان کے تحت (بحوالہ خطباتِ بخاری ص 385) لکھا گیا ہے:
"امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے یہ بات منسوب کی گئی ہے کہ "یزید بن معاویہ سے روایت نہ لی جائے۔" امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا دین اور پرہیزگاری میں بڑا بلند مقام ہے اور روایات قبول کرنے میں بڑی احتیاط کرتے تھے۔ بنا بریں امام احمد کی مستند کتاب سے یزید بن معاویہ کی روایت نقل کر دینا ہی یزید کی ثقاہت کے لئے کافی ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب الزہد میں یزید بن معاویہ کا قول نقل کیا ہے کہ یزید اپنے خطبہ میں کہا کرتا تھا (اس روایت کو قاضی ابوبکر ابن العربی نے اپنی مایہ ناز کتاب العواصم من القواصم میں بھی ذکر کیا ہے) "جب تم میں سے کوئی بیمار ہو کر قریبُ المرگ ہو جائے اور تندرست ہو جائے تو وہ غور کرے۔ جو افضل ترین عمل ہوں ان کو لازم پکڑے پھر اپنے کسی بدترین عمل کو دیکھے تو اسے چھوڑ دے" ۔۔
یزید کا یہ قول نقل کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یزید کا مقام امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کی نگاہ میں بلند تھا یہاں تک کہ اسی کو آپ نے ان زاہد صحابہ اور تابعین میں شمار کیا ہے جن کے اقوال کی پیروی کی جاتی ہے اور جن کے وعظ سے لوگ گناہ چھوڑتے ہیں" (محدث ص 32)
مجھے سمجھ نہیں آئی کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے قول کے لئے "خطباتِ بخاری" پر انحصار کیسے کیا؟ جس بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ "امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے یہ بات منسوب کی گئی ہے ۔۔" یہ بہرحال "خطبات" ہیں۔
واضح رہے کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے یہ "منسوب" ہی نہیں بلکہ امام ابوبکر الخلال رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اُن کا یہ قول نقل کیا ہے کہ " لا يذكر عنه حديث (المنتخب من العلل للخلال صفحہ 237 لابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ" اور حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی میزان الاعتدال ج4 ص 440 میں ان کا یہی قول ذکر کیا ہے۔ اسی لئے یہ بات محض فقط "منسوب" نہیں، ایک حقیقت ہے کہ واقعتا امام احمد کا یہ فرمان ہے۔
رہی یہ بات کہ "امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الزہد میں ان کا قول نقل کیا ہے ۔۔" یہ عبارت العواصم من القواصم ص 370 مترجم سے حرف بحرف نقل کی گئی ہے اور العواصم کے عربی ایڈیشن ص 233 میں یہ عبارت موجود ہے۔ مگر اس کے بعد امام ابن العربی رحمۃ اللہ علیہ نے جو فرمایا، اسے مولانا عبدالرحمٰن صاحب نے نقل نہیں کیا بلکہ وہ شاید اس سے بے خبر ہیں چنانچہ ان کے الفاظ ہیں:
" نعم وما ادخله الا فى جملة الصحابة قبل ان يخرج الى ذكر التابعين "
جس کا ترجمہ مترجم ہی کے الفاظ میں پڑھ لیجئے ۔۔" ہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے یزید کو صحابہ میں درج کیا ہے اور پھر اسی کے بعد تابعین کا تذکرہ کیا ہے"
مولانا عبدالرحمٰن صاحب جو "العواصم" کے حوالے سے یزید کی پاکدامنی اور اس کے زہدوتقویٰ کی دلیل بیان فرما رہے ہیں، وہ ذرا امام ابن العربی رحمۃ اللہ علیہ کے اس موقف کی طرف بھی توجہ دیں کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے تو یزید کو صحابہ میں درج کیا ہے۔ ہم تو اس پر انا لله وانا اليه راجعون کے سوا اور کیا کہہ سکتے ہیں۔ عہدِ عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ میں پیدا ہونے والا یزید صحابہ میں! ایں چہ بوالعجبی است، اور پھر اس قول کا انتساب امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کی طرف " ظلمات بعضها فوق بعض " کا مصداق ہے۔
امام ابن العربی رحمۃ اللہ علیہ بلاشبہ بہت بڑے امام، فقیہ اور مفسر گزرے ہیں مگر تھے تو انسان ہی۔ یہ کہنے میں یقینا ان سے سہو ہوا۔ بالکل اسی طرح یہاں یزید بن معاویہ بن ابی سفیان سمجھنے میں بھی ان سے سہو ہوا۔
اولا تو تتبع بسیار کے باوجود کتاب الزہد سے یزید بن معاویہ کا یہ قول نہیں ملا۔ البتہ امام عبداللہ بن مبارک نے کتاب الزہد بروایتِ نعیم بن حماد ص 39 رقم 156 میں یہی قول " انا حنظلة بن ابى سفيان قال نا ابن ابى ملكية قال سمعت يزيد بن معاوية يقول فى خطبة " ۔۔ الخ" نقل کیا ہے۔
ثانیا: یہاں یزید بن معاویہ سے ابن ابی سفیان نہیں بلکہ الکوفی النخعی مراد ہیں جو کہ تابعی تھے اور کوفہ کے عابدین و زاہدین میں ان کا شمار ہوتا تھا جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے التہذیب ج11 ص 360، میں اسی کا تذکرہ کیا ہے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب الزہد ص 367، میں ان کے صاجزادے عبداللہ کے زوائد میں اسی یزید بن معاویہ النخعی کا ایک اور قول بھی ذکر کیا ہے۔ اس لئے یہاں ابن ابی سفیان مراد لینا بالکل اسی طرح امام ابن العربی رحمۃ اللہ علیہ کا وہم ہے جیسا کہ یزید بن معاویہ کو صحابہ کہنے اور یہ قول امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب کرنے میں وہم ہوا۔
انتہائی تعجب کی بات ہے کہ العواصم کے حاشیہ میں علامہ محب الدین الخطیب نے جا بجا اپنی آراء کا اظہار کیا ہے مگر وہ اس مقام پر امام ابن العربی رحمۃ اللہ علیہ کی اس فروگذاشت پر خاموشی سے گزر گئے پھر اس کے تراجم اور حواشی لکھنے والے حضرات نے بھی یہاں خاموشی ہی میں عافیت سمجھی۔ معلوم نہیں کیوں؟ یزید کی صفائی میں حقائق سے آنکھیں بند کر کے مکھی پر مکھی مارنا کوئی تحقیقی اور علمی خدمت نہیں۔
ہمارا مقصد یہاں نہ یزید کا دفاع ہے نہ اس کے مثالب و محامد پر بحث مطلوب ہے بلکہ زیرنظر مضمون میں امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ سے یزید کے بارے میں ایک بات ذکر ہوئی بس اس کی حقیقت بیان کرنا ہے ۔۔ ان اريد الا الاصلاح ما استطعت وما توفيقى الا بالله لعلي العظيم