کمپیوٹر اور علم و تحقیق کے بدلتے رُجحانات
محدث کے گذشتہ شماروں میں راقم نے کمپیوٹر کے حوالے سے مضامین کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا، جس کے بارے میں قارئین سے آراء طلب کی گئی تھیں کہ آیا اِن مخصوص نوعیت کے مضامین کو جاری رکھا جائے یا نہیں۔ یہ امر میرے لئے باعثِ مسرت ہے کہ صرف دو مضامین کی اشاعت پر جس کثرت سے قارئین نے اپنا رد عمل ریکارڈ کرایا، اس سے قارئین کی اس موضوع سے دلچسپی کھل کر سامنے آ گئی۔ مختلف علمی و تحقیقی اداروں سے ان شمارہ جات کی اس قدر زیادہ طلب رہی کہ اب یہ شمارے ادارہ کے ریکارڈ میں بھی تقریبا ناپید ہو چکے ہیں۔ بہرحال یہ ہمارے قارئین کی علمی دوستی اور اس رجحان کی ایک طرح ترجمانی ہے کہ اسلام اور علم و تحقیق سے وابستہ حضرات ایسے موضوعات سے غافل نہیں بلکہ وہ کچھ جاننا چاہتے اور ان جدید وسائل علم سے استفادہ کرنے کے شدید خواہش مند ہیں۔
جہاں تک میری ذاتی دلچسپی کا تعلق ہے تو یہ امر میرے لئے کوئی خوش آئند نہیں کہ دینی تعلیم کے حصول کے بعد میری علمی و تحریر کاوشوں کا محور صرف کمپیوٹر بن کر رہ جائے لیکن فی زمانہ اس کی اہمیت اور اپنے قارئین کو اس سے متعارف کرانے کی خاطر میں آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رکھنے کی کوشش کروں گا۔ اگر کسی وقت قارئین مجھے کسی افراط و تفریط پر مائل محسوس کریں تو ان کے ردِ عمل اور مشوروں کو خوش آمدید کہوں گا۔ اللہ ہماری نیتوں کو خالص رکھے، آمین!
یہ بات بھی بخوبی میرے علم میں ہے کہ بعض قارئین کے لئے یہ ساری گفتگو ایک بیکار اور "غیر اسلامی" سرگرمیوں سے بڑھ کر کوئی حیثیت نہیں رکھتی اور شاید کہ وہ مسلسل اس موضوع کو محدث کے اوراق میں جگہ دینے پر کبیدہ خاطر بھی ہوں۔ ان سے معذرت کے ساتھ عرض پرداز ہوں کہ اس زمانہ میں کسی کے لئے بھی اب کمپیوٹر سے صرفِ نظر کرنا ممکن نہیں رہ گیا۔ جس طرح ممکن نہیں رہ گیا۔ جس طرح کاغذ کی ایجاد سے علم کی دنیا میں عظیم انقلاب رونماز ہوا اور علم کو پھلنے پھولنے کے بے شمار مواقع میسر آئے، اسی طرح صدیوں کے بعد کمپیوٹر کی صورت میں ایک عظیم تر وسیلہ، علم و تحقیق کے لئے دستیاب ہوا ہے علم کو کثیر سہولتوں والا ایک پیراہن نصیب ہوا ہے ۔۔ اگر ان مضامین سے گنتی کے چند اہل علم ان جدید علمی وسائل کو استعمال کرنے کے قائل ہو جائیں تو میں اسے بڑی کامیابی اور پیش رفت سمجھوں گا۔ (حسن مدنی)
کمپیوٹر کی قیمتوں میں حیرت انگیز کمی اور اس کے استعمال کا بڑھتا رجحان
ایک ماہ قبل جولائی 99ء میں مجھے کمپیوٹر مارکیٹ جانے کا اتفاق ہو ااور وہاں تازہ ترین قیمتوں کا جائزہ لینے کا موقعہ میسر آیا۔ صرف قیمتوں کے اس جائزے نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔
دنیا بھر میں گرانی جس طرح روز بروز بڑھتی جا رہی ہے، عجب حقیقت ہے کہ الیکٹرونکس بالخصوص آلات کمپیوٹر کی قیمتیں روز بروز ناقابل یقین حد تک گرتی جا رہی ہیں۔ اس کی بنیادی وجوہات میں، عالمی طور پر اس ٹیکنالوجی سے استفادہ کی ترغیب، صارفین کی روز افزوں کی کچرت اور جدید ترین ٹیکنالوجی کی معرفت اور کمپیوٹر بنانے والی کمپنیوں میں شدید مقابلے کی فضا وغیرہ شامل ہیں۔ یوں تو قیمتوں میں کمی کا رجحان میرے علم میں تھا ہی لیکن گذشتہ چند ماہ میں گرنے والی قیمتوں کے بارے میں یہ جان کر میں ششدر رہ گیا کہ چند سالوں سے تواتر سے کمپیوٹر کی جو اوسط قیمت 30 ہزار روپے کے لگ بھگ چل رہی تھی اب 15 سے 18 ہزار روپے تک آ چکی ہے۔ یہ اطلاع ایک طرف میرے لئے خوش آئند تھی لیکن دوسری طرف تفکر آمیز بھی، کیونکہ اس سے میرے لئے یہ اندازہ لگانا قطعا مشکل نہ تھا کہ دنیا بھر میں کمپیوٹر کا استعمال اور دائرہ کار کس کثرت سے پھیل چکا ہے اور ان قیمتوں میں نمایاں کمی کے بعد کس قدر حیرتناک طریقے سے مزید پھیلنے کے واضح امکانات ہیں۔ مجھے پریشان کرنے کو ایک مزید نکتہ یہ بھی تھا کہ پاکستان کی کرنسی کی عالمی حیثیت کے پس منظر میں، درآمد و برآمد کے پر پیچ نظام میں جکڑے ہوئے ملک ہونے کی حیثیت سے اور جن ممالک میں یہ ٹیکنالوجی خودبن (Manufactur) رہی ہے انہیں اپنی مضبوط کرنسی میں اس کی کتنی معمولی قیمت ادا کرنا ہوتی ہو گی۔
آج کے دور میں غیر ممالک میں کمپیوٹر خریدنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے پاکستان میں ٹیپ ریکارڈ کی خریداری۔ قیمتوں کے اس ہوش رُبا تفاوت کو سامنے رکھیں تو بیرونی دنیا کے بالمقابل پاکستان میں اس حیران کن ایجاد سے استفادے کے امکانات بھی بہت محدود اور مختلف نظر آتے ہیں۔ اشیاء کی گرانی ان کے بڑے پیمانے پر پھیلاؤ میں بڑی رکاوٹ ہوتی ہے۔[1] جیسا کہ میں پہلے ذکر کر چکا ہوں کہ کمپیوٹر صرف ایک سائنسی ایجاد نہیں بلکہ جس طرح کاغذ کی ایجاد نے مجموعی طور پر بیسیوں حوالوں سے حیات انسانی کو نئی جہت عطا کی تھی، اسی طرح کمپیوٹر کا کاغذ سے بڑھ کر ہر شعبہ زندگی میں وسیع اور ناگزیر استعمال مجموعی قومی کارکردگی میں واضح اضافے کا ضامن ہے۔ اگر ہم تھوڑی سی گہری نظر سے اپنے اردگرد کا جائزہ لیں تو اس امر کو ثابت کرنے کے لئے کیس لمبے چوڑے اعدادوشمار کی کوئی ضرورت نہیں۔ ذیل میں ہمارے مخصوص موضوع کے حوالے سے کمپیوٹر کی کارکردگی کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔ میں اس امر پر متفکر ہوں کہ مختلف میدانوں میں اپنے ہم عصروں سے پیچھے ہونے کے ساتھ ساتھ اگر ہم اپنی کرنسی کی کم مائیگی کی بنا پر اس شعبے میں بھی پیچھے رہ جاتے ہیں تو ہماری قومی کارکردگی اس سے ضرور متاثر ہو گی۔ بہرحال اگر ہم اس کی اہمیت سے آشنا ہو جائیں تو کسی طرح بھی ان روبہ تنزل ہونے والی قیمتوں سے فائدہ اٹھا کر یہ جدید وسائل علم حاصل کر سکتے ہیں۔
بیسیوں صدی کا آفتاب غروب ہونے کو ہے اور ہم اکیسویں صدی کی دہلیز پر قدم رکھنے والے ہیں۔ ملتِ اسلامیہ کے ذمہ دار افراد ہونے کے ناطے ہمیں یہ غوروفکر کرنا ہے کہ اکیسویں صدی میں ہمیں اپنی ملت میں کن رجحانات کی آبیاری کرنا ہے۔ ایسے رویوں کی تعمیر کے لئے سنجیدہ غوروفکر اور منصوبہ بندی کرنی ہے تاکہ آئندہ صدی ہمارے لئے کامیابی کا پیغام بن کر آئے۔ یوں تو قوموں کے عروج و زوال میں سائنس و ٹیکنالوجی سے بہت زیادہ ان عناصر ترکیبی اور جذبہ ایمانی و قومی کا دخل ہوتا ہے جو ان کے فکر و نظریے میں نقش ہوتی ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ دیگر عناصر کو نظر انداز کرنا بھی عقل مندی نہیں ہو گی۔
ملتِ اسلامیہ کے مذہبی و دینی قوتوں کو عصری تقاضوں کے پیش نظر اپنی اپنی اِبلاغی حکمتِ عملی میں جن تبدیلیوں کو بروئے کار لانے کی اشد ضرورت ہے، ان میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کی طرف مثبت میلان اور قومی رجحان کی آبیاری نہایت اہم ہے۔ ٹیکنالوجی فی نفسہ منفی یا مثبت قدروں کی حامل نہیں ہوتی، اس کا استعمال البتہ اس کی حیثیت کا تعین ضرور کرتا ہے۔ امت مسلمہ کو اپنی کھوئی ہوئی علمی میراث کی بازیابی کے لیے دورِ جدید کی ایجادات کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال میں لانا چاہئے۔
جس طرح دورِ جدید میں ملتِ کفریہ سے جہاد کے لیے جدید اسلحہ کا استعمال ناگزیر ہو گیا ہے، اسی طرح اسلام اور مغرب کے درمیان علمی و تہذیبی کشمکش کے فیصلہ کن معرکہ میں فتح و کامرانی کے لئے کمپیوٹر جیسی مفید ایجاد کا استعمال ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ ٹیکنالوجی کی برق رفتار ترقی نے عالمی، علاقائی اور مقامی ثقافتوں کے خدوخال اور نقوش کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ گذشتہ چند دہائیوں میں ٹرانسپورٹ، ٹیلی ویژن، ٹیلی فون اور برقی آلات نے انسانی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔
اکیسویں صدی کی پہلی چند دہائیوں میں کمپیوٹر کے انسانی معاشرت پر اثرات ایک نوشتہ دیوار حقیقت معلوم ہوتی ہے۔ مذہبی علوم و فنون کی ترویج و اشاعت اور تبلیغی و فروغ کے لیے کمپیوٹر کے استعمالات کے فوائد کا اِدراک کرنا اور ذہنی طور پر اس معجزاتی ایجاد کو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں داخل کرنا ایک ناگزیر تقاضا ہے۔
ملتِ اسلامیہ کو اس وقت جن اُمور کی طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے اور آئندہ لائحہ عمل طے کرنے کے لئے جن خطوط کی نشاندہی کرنا ہے، وہ سب غوروفکر، تحقیق و جستجو، تجزیہ و تبصرہ کے بعد اعلیٰ انسانی سوچ و بچار کے بغیر پورے ہونے ناممکن ہیں۔ آئندہ منصوبہ سازی اور تشکیل نو کے لئے "ریسرچ" ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ ایک عالمی جائزے کے مطابق دنیا بھر میں ہونے والی تمام تحقیق میں مسلمانوں کا حصہ فی زمانہ صرف 3 فیصد ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس میں دروغ گوئی کا عنصر بھی شامل ہو لیکن بحیثیتِ مجموعی ملت اسلامیہ علمی و تحقیق رجحان تقریبا ناپید ہے۔ اسلام جیسے عظیم الشان نظریہ حیات کی تشریح و ترجمانی کے لئے جو تمام دنیا کے لئے راہِ ہدایت بن کر آیا ہے، اس کے پیروکاروں کی کاوشیں ایک مخصوص دائرہ تک محدود ہیں۔ ان کے فکری و عقلی تانے بانے بعض بڑے جزوی مسائل پر صدیوں سے اُلجھے چلے آ رہے ہیں۔ اسلام کی حامل قوم ہونے اور نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے علمی دینی وارث ہونے کے ناطے جس علم دوستی اور عالمی ذمہ داری کا احساس ہمارے لئے ضروری تھا آج وہ تقریبا مفقود نظر آتا ہے۔
جدید دنیا حقائق، اعدادوشمار، ترتیب و سلیقہ اور عقل و منطق کے اسلوب میں ڈھلی بات سمجھتی ہے۔ دم توڑتی رواں صدی میں علوم کے جن نئے دھاروں کی راہیں کھلی ہیں اور انسان کو جن فکری، معاشرتی سیاسی اور اقتصادی نظریات سے واسطہ پڑا ہے، وہ اسلام کے نام لیواؤں سے بھی بہت محنت کا تقاضا کرتے ہیں لیکن افسوس کہ ہنوز ہُو کا عالم طاری ہے۔ صرف دو صدیوں قبل تک مسلم اُمہ میں جو عظیم الشان علمی مزاج اور تحقیقی کام ہوتا رہا ہے بلکہ برصغیر میں ایک صدی قبل علماء نے جو علمی پہاڑ سر کئے، آج ان کی مثال بھی نہیں ملتی۔
جدید دنیا ازموں (ISMS) کی دنیا ہے۔ یہ ملتِ اسلامیہ کے علمی شعور سے مالیاتی نظام، معاشرتی و خاندانی نظام کے مربوط خاکے، دو ٹوک نظریے اور نکتہ وار اَحکامات مانگتی ہے۔ یوں تو اسلام میں نظاموں کی یہ موجودہ مصنوعی تقسیم نہیں ہے بلکہ ایک فطری رنگ میں زندگی گزارنے کا مکمل لائحہ عمل دیا گیا ہے، جس کا ایک ایک حکم متعدد خاکہ ہائے نظام میں فٹ ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے یہ کوئی شرعی تقاضا نہیں ہے لیکن امورِ حیات کو منضبط کرنے کے اس جدید اُسلوب کی ایسی نفی بھی اسلام میں نہیں ملتی۔ آج جبکہ فلاحِ انسانی کا دعویدار ہر نظریہ حیات اس رنگ میں بات کر رہا ہے تو امت کے علمی شعور کو بھی اس عالمی ڈائیلاگ میں بھرپور شرکت کر کے اسلامی نظریہ زندگی اُجاگر کرنے پر توجہ دینی چاہئے۔
ہمارے روایتی دینی لٹریچر میں بھی دینی احکام کی اس طرح کی تقسیم بندی موجود ہے جس میں اسلام کا نظامِ طہارت، نظامِ قضاء اور فلسفہ عدل وغیرہ ایسے بیسیوں موضوعات کے اعتبار سے احادیث کو جدا کیا گیا ہے، فقہی ابواب بندی بھی کی گئی ہے۔ لیکن موجودہ دور کی اشاریہ بندی اور موضوعاتی تقسیم کے تحت احکام کے اندراج وغیرہ کے کام میں جو فائدہ کمپیوٹر سے اُتھایا جا سکتا ہے ہو کسی اور چیز سے ممکن نہیں۔ گذشتہ چند برسوں میں اسلامی حوالے سے کمپیوٹر پر جو کام سامنے آیا ہے وہ خوش کن بھی ہے، حیرت ناک اور چشم کشا بھی۔ کمپیوٹر بڑے سے بڑے مواد کی ترتیب میں اور برموقع اس کو پیش کرنے میں انتہائی باریک بینی سے کام لیتا ہے۔ یونہی میرا دل یہ گواہی دیتا ہے کہ یہ سب جدید آلات اسلام علم و فن کی ترویج میں خوب کام آنے کے لیے عالم وجود میں آئے ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں اور اسلامی ذخیرہ علم و فنون میں وہ وسعت اور جامعیت ہے جس کے ذریعے عالم گم گشتہ کو نور کی روشنی عطا کی جا سکتی ہے۔
بہرحال بات سے بات نکلتی چلی جاتی ہے اور فکر کے دھارے ایک موضوع سے دوسرے موضوع تک پھیلتے چلے جاتے ہیں۔ کمپیوٹر کے حوالے سے مجھے یہ شدید احساس دامن گیر ہے کہ اگر ہمارا علم و تحقیق سے وابستہ طبقہ جدید دور کے بدلتے رجحانات کے ساتھ ساتھ جدید آلاتِ تحقیق سے استفادہ نہ کر پایا تو امتِ مسلمہ کے لئے دنیا کی فکری قیادت کے تقاضے پورے کرنے مشکل ہوں گے۔
میں ایک مثال سے اپنی بات کو واضح کرتا ہوں کہ آج کے اس سائنسی دور میں جب کسی علمی مسئلے پر بحث و تحقیق کا مسلم اور غیر مسلم محقق کو برابر کی سطح پر واسطہ پیش آتا ہے تو غیر مسلم کمپیوٹر سے استفادے کی بدولت صرف چند منٹوں میں وہ بنیادی مواد جمع کر لیتا ہے جس سے اس مسئلہ کی حقیقی صورت گری ممکن ہوتی ہے۔ جبکہ ہمارا محقق ہفتہ بھر کی جانفشانی کے بعد جس میں نہ حکومتی مدد شامل ہوتی ہے نہ عوامی تائید، نہ مالی مفاد کی کوئی توقع، نہ ہی اپنی فکری کاوش کے وسیع تر اِبلاغ کا کوئی واضح امکان، صرف اس قابل ہو پاتا ہے کہ بڑے محدود پیمانے پر وہ گذشتہ محققین کا کام یکجا کر سکے۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ ہمارے ہاں کتب کی دستیابی ایک مشکل امر ہے۔ کتب کی گرانی کے باعث وسیع ذاتی لائبریری ہر کسی کے بس میں نہیں اور پبلک لائبریریوں کا حال ایک کھلی حقیقت ہے۔ ایک طرف ان کی تعداد اور ان میں کتب کا شمار بہت کم ہے تو دوسری طرف ان دستیاب کتب تک رسائی کا کوئی ٹھوس نظام نہیں۔ ان سب مشکل مراحل سے گزرنے کے بعد مزید محنت کی ہمت تو کچھ سر پھرے علم دوست ہی کر سکتے ہیں۔ دراصل ہر کام ایک مربوط نظام کے باعچ چلتا ہے۔ ہمارے ہاں تحقیق کی مشکلات کا اگر اندازہ کریں تو کوئی حیرت نہیں رہ جاتی کہ اس ضمن میں ہماری کارکردگی اس قدر کم کیوں ہے۔ کیوں کہ جن ممالک سے ہم موازنہ کرنے کی جسارت کر رہے ہیں وہاں تحریری کاوشوں کو ایک قانونی تحفظ بھی حاصل ہے۔ پوری کتاب کی طباعت تو ایک طرف رہی، صرف ایک صفحہ کی فوٹو کاپی یا کسی اقتباس کے نقل کرنے کے لئے بھی مصنف سے پیشگی اجازت لینا پڑتی ہے۔ اور ہمارے ہاں اس چیز کا کوئی تصور بھی نہیں اور معاشرہ بھی اس مشن سے وابستہ لوگوں کی قدروقیمت سمجھنے اور عزت و احترام دینے کی بجائے انہیں خبطی اور نجانے کیا کیا سمجھا جاتا ہے۔ ان علم کش حالات میں ہمارا اور مغربی ممالک کا کوئی مقابلہ ہی نہیں۔
بہرحال ان سب مسائل کی موجودگی میں مسلمان محقق تو صرف بحث پر اکتفا کر جاتا ہے اور کسی تخلیقی کاوش کی نوبت نہیں آ پاتی۔ ہم اپنے تیار کردہ ریسرچ پیپرز دیکھیں تو اس کی صداقت میں مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ جبکہ غیر مسلم محقق پورے حکومتی تعاون اور عوامی اعتماد کے ساتھ بحث کے بعد تحقیق اور تخلیقی صلاحیت کے ذریعے اس مسئلے کے حقیقی حل کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔ نتیجہ جو نکلتا ہے، اس سے ہم سب آگاہ ہیں۔ بڑے شرحِ صدر کے ساتھ میں یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ اپنی ذہنی صلاحیت اور علمی استعداد کے ناطے مسلمان قوم ایک عظیم مقام رکھتی ہے۔ قرآن کے نام لیوا اور اسلامی تعلیمات کے علمبردار اولا تو غیر مسلموں سے اس ناطے ہی واضھ برتری رکھتے ہیں کہ وہ ہدایتِ الہیٰ اور تعلیماتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے بہرہ ور ہیں، دوسرے علم دوست اسلامی نظریات مسلمان قوم کی درست بنیادوں پر فکری و ذہنی نشوونما کرتے ہیں۔ لیکن واقعاتی حقائق بھی ٹھوس حقیقت رکھتے ہیں جس کو بڑے اختصار سے اوپر درج کیا گیا ہے ۔۔ کمپیوٹر سے استفادہ کرنے کی صورت میں ان مسائل میں یوں کمی ہوتی ہے:
(1) ہر شخص اپنی ذاتی لائبریری کو بہت وسیع کر سکتا ہے۔ کیونکہ صرف 60 روپے کی CD میں وہ لاکھوں صفحات خرید سکتا ہے۔
(2) محقق بڑی محنت سے صرف اپنے شہر کی لائبریریوں تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ جبکہ انٹرنیٹ کے ذریعے جہاں وہ لمحات میں دنیا بھر کی لائبریریوں سے مربوط ہو کر نہ صرف کتاب یا کمپیوٹر کی سکرین پر مطالعہ کر سکتا ہے بلکہ بوقتِ ضرورت اس کی گھر بیٹھے خریداری بھی کر سکتا ہے۔ اس میں وقت اور وسائل کی حیرت انگیز بچت بھی ہے۔
(3) اوراق پر موجود کتاب کی بجائے کمپیوٹر میں موجود کتاب (Digital Publication) سے استفادہ کرنا بہت آسان اور قلیل ترین وقت کا متقاضی ہے۔ جس میں مطالعہ کرنے کے لئے متعلقہ صفحات کا پرنٹ (Print) لمحہ بھر میں لیا جا سکتا ہے۔
(4) ہمارے ہاں کتاب کی تیاری کے بعد مصنف کو یہ مسئلہ بھی درپیش رہتا ہے کہ سنجیدہ کتابوں کو پبلشر چھاپنے پر راضی نہیں ہوتے۔ کتاب کو شائقین تک پہنچانے کے لئے اُن کی منت سماجت بھی کرنا پڑتی ہے۔ جبکہ کمپیوٹر سے فائدہ اٹھانے والے حضرات چند روپوں میں ذاتی طور پر کتاب کی اشاعت (Digital Publication) کا انتظام انٹرنیٹ یا CD کے ذریعے کر سکتے ہیں۔
(5) کاتب سے کتابت کروانا ایک دردسری سے کم نہیں۔ جن لوگوں کو اس سے واسطہ پیش آیا ہے، وہ اس صبر آزما کام سے بخوبی آگاہ ہیں۔ کمپیوٹر کے آنے کے بعد جہاں کتابت کی دلکشی اور یکسانیت میں اضافہ ہوا ہے وہاں کاتبوں کے نخروں سے بھی جان چھوٹ گئی ہے۔ اس کے علاوہ کام کی رفتار میں حیرت ناک اضافہ ہوا ہے۔ پہلے اگر کتابت پر دو ماہ صرف ہو جاتے تھے تو آج دو دن میں یہ کام بخوبی پایہ تکمیل کو پہنچ سکتا ہے۔
(6) ہاتھ کی کتابت میں دوسرے ایڈیشن میں اضافہ جات یا کسی بہتری، غلطی کی تصحیح، کتاب اور لکھائی کے سائز میں تبدیلی وغیرہ کے کوئی امکانات نہیں تھے۔ کمپیوٹر کے آنے کے بعد اس نوعیت کی اس قدر سہولتیں میسر آ گئی ہیں کہ اب ان سہولتوں کی کثرت ہی بسا اوقات کتاب کی تکمیل میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ ان سہولتوں سے واقعتا کام میں بہت آسانی اور خوبصورتی پیدا ہوئی ہے۔
(7) کمپیوٹر سے اگر بحث و تحقیق میں مدد لی جائے تو کارکردگی میں حٰرتناک اضافہ ہوتا ہے۔ وہ کام جو روایتی انداز میں ہفتوں کی مدت کا متقاضی تھا، کمپیوٹر پر صرف چند گھنٹوں میں ہو سکتا ہے۔
(8) انٹرنیٹ سے استفادہ کیا جائے تو آپ کے رابطے کے جہاں اخراجات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں وہاں یہ رابطہ بھی بہت فوری بنیادوں پر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اس عظیم ترین عالمی نیٹ ورک کے ذریعے
۔۔ تمام دنیا کے اخبارات و رسائل اور ان کے پرانے ایڈیشن لمحہ بھر میں حاصل کئے جا سکتے ہیں۔
۔۔ مطلوبہ موضوع پر دنیا بھر کام کرنے والے اداروں کا چند لمحات میں پتہ چلا کر ان سے فوری طور پر معلومات کا تبادلہ کیا جا سکتا ہے۔
۔۔ تمام متعلقہ افراد اور ماہرین سے الیکٹرانک میل (ڈاک) کے ذریعے سوالات کے جوابات اور Live Chat (فوری گفتگو) کی جا سکتی ہے۔ ضرورت پڑنے پر اپنی تمام تحقیق ایک لمحہ میں انہیں یا ان کی تحقیق خود وصول کی جا سکتی ہے۔
۔۔ مختلف موضوعات پر کتب کی دستیابی اور ان کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں
۔۔ دنیا بھر کی عظیم ترین لائبریریوں سے کتابوں کا مطالعہ بھی کیا جا سکتا ہے وغیرہ وغیرہ
جوں جوں انسان کا دائرہ کار اور اس کی جہد و کاوش کا حلقہ وسیع ہوتا جا رہا ہے توں توں نظام فطرت کے مطابق ایسی ہی سہولتیں بھی دریافت ہو رہی ہیں۔ اس لئے آج کے پرپیچ اور وسیع المنظر مسائل سے نمٹنے کے لئے صدیوں پرانے وسائل سے کام چلانا کافی مشکل ہے۔ اس بات پر ہمیں یقین کر لینا چاہئے کہ اِس دور کے کثیر مسائل کے حل کے لئے اِسی دور کے وسائل سے استفادہ کر کے ہی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔
میں اپنے پچھلے مضامین میں لکھ چکا ہوں کہ آئندہ دور جمع و ترتیب کا نہیں، تجزیہ و تخلیق کا ہے۔ اگر ہمارے محققین اس جمع و ترتیب کی ڈگر پر چلتے رہے تو کبھی زمانے کے تقاضوں کا ساتھ نہ دے سکیں گے۔ اس واقع ہونے والے عظیم انقلاب سے فائدہ اٹھانے کے لئے خصوصیت سے توجہ اور محنت کی ضرورت ہے۔
یہ دہرانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ کمپیوٹر یہ سب کام ازخود نہیں کرتا۔ اگر ہمارے اہل علم کمپیوٹر پر اپنی کوئی کتاب نہیں پیش کرتے، کوئی تحقیق نہیں داخل کرتے، اس پر اپنے رابطہ یا اپنے اداروں کے رابطے نہیں حاصل کرتے، انٹرنیٹ پر اپنی نمائندگی نہیں دیتے تو کیونکر ممکن ہے کہ کمپیوٹر ازخود ان کے بارے میں کوئی اطلاع دے سکے۔ اگر ہم مجموعی طور پر اس سے فائدہ اٹھانے کے لئے آج میدانِ عمل میں آئیں گے تو تب یہ تمام سہولتیں ہمیں اور اہل علم کے ہمارے عالمی حلقے کو حاصل ہوں گے۔
اوپر درج ہونے والی ان تمام سہولیات سے اس وقت عالم کفر مسلسل فائدہ اٹھا رہا ہے۔ ہمارے بعض لوگ اگر اس میدان میں اُترتے بھی ہیں تو یہ شکوہ کر کے پیچھے ہٹ جاتے ہیں کہ انٹرنیٹ پر ہمارے مخصوص ذوق کے نہ روابط موجود ہیں نہ کمپیوٹر پروگرام۔ لیکن انہیں سمجھنا چاہئے کہ ان سے دوسروں کو بھی یہی شکوہ ہے کہ ان کا انٹرنیٹ پر کوئی رابطہ موجود نہیں ہے۔ اول تو کمپیوٹر پر اسلامی حوالے سے میسر سہولیات کوئی کم بھی نہیں ہیں بلکہ زیادہ مسئلہ لاعلمی اور کم توجہی کا ہے۔ ثانیا اگر یہ مسئلہ موجود بھی ہے تو مسئلہ کا خاتمہ اس کو ختم کرنے سے ہو گا۔ ہمیں اپنے حصے کا کام بجا لانا چاہئے اور اس عالمی نیٹ ورک کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ ورنہ آج سے 10 برس بعد بھی ہم اسی مقام پر کھڑے ہوں گے اور باقی تمام دنیا ان وسائل سے خوب خوب لطف انداز ہو رہی ہو گی۔ آج اگر ہر دسواں اسلامی ادارہ اپنا انٹرنیٹ چینل بنانے کا عزم کر لے جس کی کوئی زیادہ لاگت بھی نہیں ہے تو چند ماہ کے قلیل عرصے میں یہ روایت چل پڑے گی۔ اور عنقریب اسلامی اداروں کا ایک عظیم الشان نیٹ ورک انٹرنیٹ پر موجود ہو گا اور ان وسائل سے جہاں خود خوب خوب استفادہ کرے گا وہاں اس کی اثرانگیزی اور اپنے مشن کی تبلیغ کے بھی حیرت ناک مواقع پید اہو جائیں گے۔
انٹرنیٹ پر اپنی نمائندگی پیش کرنے کے علاوہ ہمیں کاغذ کے ساتھ ساتھ پردہ سکرین پر بھی اشاعت و تبلیغ کا آغاز کرنا چاہئے۔ میں نے CD کے حوالے سے جن کتب کی موجودگی کا گذشتہ مضمون میں تذکرہ کیا ہے، ان میں مزید کتب کے اضافے کے لئے CD میں داخل کرنے کے کام میں بھی دینی اداروں کو شرکت کرنی چاہئے۔ ایک تو کتب کی صورت میں اشاعت کے بعد اس کو صرف معمولی سی اضافی محنت سے CD پر بھی منتقل کروایا جائے۔ علاوہ ازیں پہلے سے موجود شدہ لٹریچر کی ترتیب و اشاریہ بندی (Indexing) کر کے انہیں بھی کمپیوٹر پر پیش کیا جائے۔ ہمارے علمی سرمائے میں جمع و ترتیب کے حوالے سے پہلے ہی بےشمار کام کئے گئے ہیں۔ سب سے پہلے تو ان کتب سے فائدہ اٹھا کر اپنے ذخیرہ علمی کو کمپیوٹر کمپنیوں کے ذریعے ترتیب دلوایا جائے۔ بعدازاں دوسرے غیر مرتب موضوع کی ترتیب و اشاریہ بندی کا کام ہنگامی سطح پر کیا جائے۔ اور یہ کام کمپیوٹر کمپنیوں کے حوالے کیا جائے تاکہ وہ اس سے استفادہ کرنے کا مکمل نظام وضع کر کے دے سکیں۔ یوں تو یہ کام عرب ممالک میں بڑے پیمانے پر کافی برسوں سے جاری ہے۔ اس کا ثمرہ ہے کہ آج بنیادی مصادر اسلام سے چند منٹوں میں استفادہ کیا جا سکتا ہے لیکن ہمارا اُردو لٹریچر جو اسلام پر کام کا ایک وسیع و عظیم ذخیرہ اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے، اور ہمارے مخصوص رجحانات کے تحت موضوعات کی تیاری اور ترتیب بندی کا کام تو ہمیں اپنے طور پر ہی کرنا پڑے گا۔
اس سارے کام کی ضرورت و اہمیت سے آگاہ ہونے کے لئے ایک مثال ہماری آنکھیں کھول دینے کو کافی ہو گی۔ یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک نے کمپیوٹر کی مدد سے یہ حیرت انگیز کامیابی حاصل کر لی ہے کہ تحقیق کے تمام بنیادی اجزاء میں مدد مہیا کرنے والی کتب کو اشاریے بنا کر کمپیوٹرز میں محفوظ کر دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر جب کسی موضوع پر تحقیق کی نوبت پیش آتی ہے تو معروف اسلوبِ تحقیق کے مطابق سب سے پہلے معروف لغات سے اس کا لغوی و اصطلاحی معنی و مفہوم درج کیا جاتا ہے۔ اس موضوع کا تاریخی ارتقاء اور اس پر اس موضوع کے متحضصین (Specialists) کی آراء، بااعتماد کتب سے حوالہ جات، مختلف اخبارات و میڈیا میں اس حوالے سے نشر ہونے والی خبریں وغیرہ، عموما تحقیق میں اس سے ملتی جلتی ترتیب اختیار کی جاتی ہے۔ بعد ازاں محقق اس پر اپنا تجزیہ و تبصرہ اور نتیجہ وغیرہ شامل کرتا ہے۔ مختلف علمی آراء میں اپنے مخصوص علم و ذوق کے مطابق ترجیح دیتا اور سوالات پیش کرتا، بعض اعتراضات کو ختم کرتا ہے۔ اس سارے تحقیقی عمل کو تین مراحل میں تقسیم کیا جاتا ہے: ریسرچ فیلوز، ریسرچ ایسوسی ایٹس اور پروفیسرز (محققین) ۔۔ اگر آخری درجے کے کام کی بہت زیادہ اہمیت ہے تو دوسری طرف ابتدائی اعدادوشمار، اور اس موضوع پر سابقہ تحقیقات وہ فریم ورک متعین کر دیتی ہیں جس کو سامنے رکھ کر مزید کام کیا جانا چاہئے۔ محقق کے لئے ان سے صرفِ نظر کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ جدید دنیا میں پہلے درجہ کی حد تک کمپیوٹر سے استفادے پر کامیابی سے عمل شروع ہو چکا ہے۔ مثال کے طور پر کمپیوٹر کو صرف ایک موضوع بتا دیا جائے تو وہ جملہ عناصر تحقیق سے دی گئی ہدایات کے مطابق ازخود استفادہ کر لیتا ہے اور چند لمحات میں وہ ریسرچ پیپر تیار کر کے رکھ دیتا ہے، بنیادی طور پر یہ ریسرچ فیلو کے درجے کا کام ہوتا ہے۔ اس کے بعد پروفیسر کے درجے کا کام کرنا باقی رہ جاتا ہے۔ جو اس پر اپنی طرف سے تجزیہ و تبصرہ، موجودہ حالات میں اس کی صورت گری اور اپنے مخصوص معروضی جائزے کے مطابق اس کا انطباق کرتا ہے۔
الحمدللہ اسی اسلوب پر مسلمان ممالک میں بھی کمپیوٹر پر کچھ کام ہوا ہے۔ گذشتہ سال چند CD پر مشتمل بیروت سے تیار ہونے والے کمپیوٹر پروگرام میں ساٹھ ہزار فقہی موضوعات کو تیار کر دیا گیا تھا۔ یعنی اگر کوئی خواہشمند کسی فقہی مسئلہ پر اسلامی ذخیرہ علم کھنگالنا چاہے تو صرف موضوع دے کر، اس موضوع سے متعلق تمام آیات، مفسرین کی جملہ آراء، تمام متعلقہ احادیث، احادیث پر ائمہ فن کی تخریج اور جرح و تعدیل، فقہ میں اس کے متعلق ائمہ کی آراء، ان کے دلائل اور مختلف کتب میں بکھری ایک امام کی منتشر آراء ایک مقام پر جمع کر سکتا ہے۔ یہ سارا کام صرف چند ساعتوں میں کمپیوٹر مکمل کر لیتا ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ان معلومات کو مزید منقح کیا جائے۔ ترتیبات میں زیادہ دقت اور عرق ریزی سے کام لیا جائے اور اسی طرز پر تمام کتب کو آہستہ آہستہ چند ایک برسوں میں کمپیوٹراز کر دیا جائے۔
میں گذشتہ مضمون میں اس کا تفصیلی طریقہ کار لکھ چکا ہوں کہ یہ کام کمپیوٹر کیونکر ہوتا ہے؟ اس مقصد کے لئے اہل علم باری باری مختلف کتب کو باریک بینی سے تجزی (ٹکڑے ٹکڑے کرنا) اور تحلیل کے مراحل سے گزارتے ہیں اور ہر قدرِ مشترک رکھنے والی چیز کو مخصوص سلسلہ وار شمار دیتے جاتے ہیں۔ ایسے بھی ہو سکتا ہے کہ ایک صفحہ کی تحلیل میں اس پر 25 جداگانہ اکائیاں بنیں جن میں سے ہر ایک کسی مستقل تسلسل میں پروئی جائے۔ جز بندی یا موضوع بندی کے لئے اولا تو اس ضرورت کے مدِنظر لکھی جانے والی کتب سے بنیادی کام لیا جاتا ہے۔ بعد ازاں اہل علم کی مختلف کمیٹیاں نئے عنوانات کی تقسیم بندی کر دیتی ہیں۔ درحقیقت یہ کام مشکل اور دقیق ہونے سے زیادہ وسعت کا متقاضی ہے۔ کوئی بھی درمیانے درجے کا صاحب، علم کچھ عرصہ کی مہارت کے بعد یہ کام بخوبی انجام دے سکتا ہے۔ لیکن کمپیوٹر کا کام وہاں شروع ہوتا ہے جب ایک موضوع کے تحت لاکھوں اندراجات کو کمپیوٹر محفوظ کر لیتا اور ضرورت پڑنے پر لمحہ بھر میں سامنے لے آتا ہے۔ اس سلسلہ کو مزید سمجھنے کے لئے مارچ 99ء کے محدث میں مطبوعہ مضمون (ص 47) ملاحظہ فرمائیں۔
اس سارے انقلاب کی ابتدا کہاں سے ہوتی ہے، کون سا ایسا وہ عظیم کارنامہ رونما ہوا ہے جو گذشتہ سارے کام کو نئے روپ میں لانے کا متقاضی ہے۔ اس کے لئے ہمیں پیچھے جا کر موازنہ کرنا ہو گا کہ اس وقت بحث کا کام کس طرح کیا جاتا تھا اور آج اس میں کیا تبدیلی رونما ہوئی ہے۔
اپنی ناقص معلومات کے مطابق کمپیوٹر کے متعارف ہونے سے قبل ہمارا کام کرنے کا انداز درج ذیل تھا۔ آج تو ہم کتب اور اس کے ہر صفحہ میں موجود مختلف اکائیوں (یونٹس) کی انڈیکسنگ کی بات کرتے ہیں، اس سے پہلے ہمیں مکمل کتاب تک رسائی کے لئے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے تھے۔ کتاب جو علم کا بنیادی وسیلہ ہے تک رسائی کے لئے ہر لائبریری میں بڑی دردسری سے کیٹلاگنگ کی جاتی۔ لائبریری میں کیٹلاگنگ کا عملا روزانہ اوسطا 15 سے 20 کتب کی تکمیل کرتا۔ اس طرح برسوں میں ایک لابئریری متعدد صاحبِ فن حضرات کی دن رات کی محنت سے اس قابل ہوتی تھی کہ صرف تین طریقوں (نام مصنف، نام کتاب اور موضوع کے ذریعے) سے کسی کتاب کو حاصل کرنا ممکن ہوتا تھا۔ اس کامیابی تک پہنچنے کے لئے لائبریرین حضرات کو جس قدر پاپڑ بیلنے پڑتے، وہ یہ کام کو کرنے والوں کو علم ہے یا جنہیں اس کام کی نگرانی/مشاہدے کا کبھی موقع ملا ہو۔ اس کے بعد تیار کردہ کیٹلاگ سے استفادہ کرنا بھی ایک مشکل کام ہوتا۔ بعض اوقات کسی کتاب کو ان کارڈز سے ہی حاصل کرنے میں گھنٹوں صرف ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں تمام اہم لائبریریوں میں ابھی تک یہی طریقہ زیراستعمال ہے اور اسی کو جدید سائنسی کلاسفکیشن (ترتیب بندی) کہا جاتا ہے۔
ابجدی ترتیب کے مطابق تقسیم کرنے اور مطلوبہ لفظ تک پہنچنے کا یہ سلسلہ برسہا برس سے جاری ہے۔ رواں صدی میں جب قرآن کریم کے الفاظ اور پھر احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچنے کے لئے المعجم المفهرس لالفاظ القرآن اور المعجم المفهرس لالفاظ الحديث کی جب ترتیب مکمل ہوئی تو واقعتا علماء نے اسے نعمتِ غیر مترقبہ تصور کیا۔ ایک جرمن مستشرق کے ذریعے حدیث کی 9 کتب اور بعد ازاں متعدد کتب کے الفاظ تلاش کی سہولت مہیا کرنے والی کتابیں کثیر جلدوں میں سامنے آئیں تو ایک انقلاب کا آغاز ہوا۔ کئی صدیاں قبل ڈکشنریوں، معجمات ، اسماء الرجال اور اسی طرح کے موضوعات پر لکھی جانے والی کتب میں بھی ابجدی ترتیب والا طریقہ ہی رائج رہا۔ لیکن چونکہ یہ مطلوب و مراد تک پہنچنے کا بہت ہی محدود طریقہ تھا اور اس کی تیار میں بھی جس قدر محنت صرف ہوتی تھی اس کا اندازہ بھی تھوڑے سے غوروفکر سے بخوبی ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد ان سے فائدہ اٹھانے میں بھی معقول وقت صرف ہوتا لہذا اس میں آسانی کی عرصہ سے ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔
یہ تو وہ صورتِ حال ہے جس کی مثال اسلامی لٹریچر میں ہمیں صدیوں سے اور روزہ مرہ معمولات میں بھی بکثرت ملتی ہے کہ ابجدی ترتیب کے ذریعے بڑے مواد کو ترتیب دیا جائے۔ اگر ہم گذشتہ چند دہائیوں میں کتابوں میں اسی حوالے سے جدید رجحان کا جائزہ لیں تو بالخصوص ترقی یافتہ قوموں میں شائع ہونے والی کتابوں کے آخر میں انڈیکسنگ اور مختلف الفاظ کے ذریعے مطلوب تک پہنچنے کا رجحان بکثرت دیکھنے میں آیا ہے۔ جو ابھی ہمارے ہاں زیادہ رواج تو نہیں پا سکا لیکن بعض با سلیقہ مصنفین نے اس کا اہتمام کرنے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ انہی برسوں میں منظر عام پر آنے والی تفاسیر مثلا تفہیم القران، تیسیر القرآن اور تدبرِ قرآن وغیرہ کے آخر میں اشاریہ بندی کا اہتمام دیکھنے میں آتا ہے۔ جدید اسلوبِ تحریر کی بات چلی ہے تو یہ بھی ذکر کرتا چلوں کہ ہمارے لٹریچر میں موضوعات بندی، موضوع پر نکات وار اپنا نکتہ نظر پیش کرنے اور پیراجات کے ذریعے مختلف اُمور کو جدا کر کے دکھانے اور اس طرح قاری کے ذہن میں اپنے استدلال کا ایک واضح خاکہ ازخود بنا دینے کا رجحان بھی رواں صدی میں ہی زیادہ متعارف ہوا ہے۔ اب جبکہ قاری کے پاس وقت کی قلت ہوتی ہے اور بے شمار مصروفیات میں ذہن اُلجھا ہونے کے باعث اسے یکسوئی سے مطالعے میں دقت کا سامنا ہوتا ہے۔ اس لئے اس کے ساتھ ساتھ اُسلوبِ تحریر و تحقیق میں بھی نمایاں تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔ ہمارے اہل علم طبقہ کو چاہئے کہ اپنے موقف و استدلال کو بیان کرتے ہوئے اس جدید اسلوب کو بھی پیش نظر رکھیں۔
کمپیوٹر کے آنے کے بعد بے شمار حوالوں سے پیش رفت ہوئی ہے۔ کمپیوٹر اپنے اندر تمام اندراجات کو ازخود حروفِ تہجی کی ترتیب دے دیتا ہے۔ اس کے لئے صرف ضرورت اس بات کی ہے کہ معلومات یا پوری کتاب کی عبارت اس میں داخل کر دی جائے۔ اب نہ تو حروف کی ترتیب میں طویل وقت لگانے اور محنت و مشقت کے صبر آزما مراحل سے گزرنے کی ضرورت ہے، نہ ہی اس مطلوب کو حاصل کرنے میں چند ساعتوں اور چند بٹنوں سے زیادہ دبانے کی کوئی ضرورت۔ صرف یہ نہیں کہ کمپیوٹر میں داخل شدہ تمام الفاظ کی ازخود ترتیب بندی ہو جاتی ہے بلکہ کسی لفظ کے درمیانی حروف کی ترتیب بھی تیار ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر جهاد کا لفظ کمپیوٹر میں شامل ہو تو هاد (کوئی درمیانی حرف) اور جهد (بنیادی مادہ Root) کی ترتیب بندی بھی ہو چکتی ہے اور اس طرح بھی الفاظ کو ڈھونڈا جا سکتا ہے۔
ادارہ محدث میں ایسے کمپیوٹر پروگرام بھی موجود ہیں جن کے ذریعے کسی کتاب کا مکمل انڈیکس بھی لمحوں میں تیار کیا جا سکتا ہے۔ مصر کی معروف کمپنی صَخَر کے تیار کردہ الفهرسة نامی پروگرام میں کسی کتاب کو لایا جائے تو چند منٹ میں وہ تیار شدہ انڈیکس آپ کے حوالے کر دے گا۔ صاحبانِ تصنیف بخوبی جانتے ہیں کہ انڈیکس تیار کرنے کا کام بھی کس قدر محنت طلب کام ہوتا تھا۔
کمپیوٹر کی دو اہم خصوصیات
ہمارے لئے کمپیوٹر کی دو خوبیاں بالخصوص قابل ذکر ہیں:
(i)کمپیوٹر بہت بڑے مواد کو مکمل اور محفوظ ترین صورت میں بآسانی بڑی مختصر جگہ پر محفوظ کر لیتا ہے۔ اسی خاصیت کی وجہ سے عبارت (Text) آواز (Audio) اور تصویری حرکت (Video) کی پیشکش کے لئے اس کو ان دنوں بکثرت استعمال کیا جا رہا ہے۔ محفوظ ہونے کی جگہ (ظرف) کے طور پر CD کو استعمال کیا جاتا ہے جس کی مالیت ان دنوں مزید کم ہو کر 50/60 روپے تک آ پہنچی ہے اور روزانہ لاکھوں صفحات (کتب) ہزاروں آوازیں (کیسٹیں) اور سینکڑوں فلمیں (ویڈیو کیسٹیں) CD کے ذریعے عام مارکیٹ میں پیش کی جا رہی ہیں۔
(ii) دوسری اہم ترین خاصیت تمام جمع شدہ مواد کو طلب کرنے پر سیکنڈوں میں پیش کر دیتا ہے یعنی Search (تلاش) ۔۔ کتابوں میں حروفِ ابجد کی بنیاد پر تلاش کی سہولت انقلاب خیز ہے۔ چند برسوں سے جس موضوع پر سائنس دان سرگرم عمل ہیں کہ کمپیوٹر مفہوم و مراد سمجھنے کے قابل ہو جائے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک مشکل ترین امر ہے کہ اپنے اندر موجود تمام مواد کو کمپیوٹر ازخود سمجھنے کی صلاحیت بھی رکھے۔ اس سے یہ فائدہ حاصل ہو گا کہ کروڑوں صفحات کو سو فیصد یاد رکھنے والا کمپیوٹر جب اپنی سمجھ سے ازخود اس سے متعلقہ مباحث پیش کر دے گا تو یہ ایک تہلکہ مچا دینے والی صلاحیت ہو گی۔ اس صلاحیت کے حاصل ہونے کے بعد کتب کی تجزی و تحلیل کی ضرورت اور مختلف موضوعات کی لمبی چوڑی فہرست تیار کرنے کی ضرورت بھی ختم ہو جائے گی۔ جس طرح کسی کتاب کو صرف کمپیوٹر میں داخل کر دینے پر اس کے تمام الفاظ اور ان کے درمیانی حروف کی ترتیب بندی از خود ہو جاتی ہے، اسی طرح اگر کمپیوٹر عبارت کو بھی سمجھنا شروع ہو جائے تو اس کے ذریعے صرف موضوع دے دینے پر تمام کتب سے اس کے حوالے ازخود نکلنا شروع ہو جائیں۔
بنیادی طور پر موضوعات کے مطابق تلاش کا کام بھی دراصل پہلی سہولت کا ہی اعجاز ہے۔ میں اپنے پہلے مضمون مطبوعہ محدث، مارچ 99ء (صفحہ 44) میں تلاش کے دو طریقے لکھ چکا ہوں کہ لفظ وار یا موضوع وار سرچ (بحث)۔ موضوع وار سرچ میں دراصل مختلف موضوعات قائم کر کے اہل علم کتب کی مختلف اکائیوں کو ان موضوعات سے مربوط کر دیتے ہیں۔ بعد ازاں ان موضوعات کو بھی لفظ وار بحث کی مدد سے ہی تلاش کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر کمپیوٹر موضوع کو نہیں سمجھتا بلکہ صرف لفظ کی بنا پر امتیاز کرتا ہے تو صرف وہی موضوعات اور ان کی عبارتیں تلاش کر پائے گا جو موضوعات اور ان کی فہرستیں کمپیوٹر میں داخل کی گئی جبکہ اگر کمپیوٹر خود سمجھنا شروع کر دیتا ہے تو محدود موضوعات کا بھی مسئلہ باقی نہیں رہتا اور اہل علم کی کتب کی تحلیل و تجزی کا معاملہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔
آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ دو برس قبل سائنس دانوں نے اس بارے میں ابتدائی کامیابی حاصل کر لی ہے کہ کمپیوٹر عبارت کا مفہوم ازخود سمجھنا شروع کر دے۔ لیکن یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس میں مکمل کامیابی حاصل ہو جائے تو عبارت کو سمجھنے میں کمپیوٹر کی صلاحیت کم و بیش ہو گی۔ جس طرح ایک عبارت سے دو انسان اپنے اپنے ذوق، میلان اور علمی صلاحیت کے مطابق مفہوم اَخذ کرتے ہیں، اسی طرح کمپیوٹر کو بھی یہی مسئلہ درپیش ہو گا۔ دوسرے الفاظ میں مشینی انداز میں مفہوم سمجھنے کی اس کوشش میں غلطی کے بہت زیادہ امکانات کے ساتھ ساتھ عبارت کو سمجھنے کی صلاحیت بھی جزوی حد تک ہو گی، اس کے باوجود کسی بھی درجے کی یہ صلاحیت علم کی راہ میں ایک سنگِ میل ثابت ہو گی۔
سب سے پہلے تو اس کے لئے یہ سادہ ترین طریقہ استعمال کیا گیا کہ صرف ایک لفظ کو ڈھونڈنے کی بجائے مخصوص دائرہ کار میں متعدد الفاظ کو تلاش کیا جائے۔ مثال کے طور پر کسی شخص کو لندن کے اخبارات میں کارگل کے مسئلہ پر مختلف دنوں میں چھپنے والا مریکی ردعمل جمع کرنا ہے تو اس کے لئے وہ کمپیوٹر کو London+Newspapers+America+Kargel کے امتیازی الفاظ کے ساتھ مطلوبہ تاریخوں سے علیحدہ مقام پر محدود کر کے خبریں تلاش کرے گا۔ اس طرح اکثر اوقات مطلوبہ چیز تک رسائی نہیں ہو پاتی۔ کیونکہ ممکن ہے مطلوبہ مقام میں بعینہ یہ الفاظ استعمال نہ ہوئے ہوں بلکہ ان کا کوئی مترادف لفظ ہو۔ چنانچہ مترادف الفاظ کی ایک مکمل لائبریری بھی کمپیوٹر کے پاس موجود ہوتی ہے جن کے ذریعے وہ اس مقام تک پہنچے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن بعض پروگراموں میں ایسی ابتدائی کوششوں کے آثار ملتے ہیں کہ وہاں کمپیوٹر مختلف طریقوں سے مشینی انداز میں مفہوم سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ سائنس دان عنقریب کسی بھی درجہ میں اس کوشش میں بھی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔
بہرحال یہ ساری کوششیں فی الوقت بحث (Search) تک محدود ہیں۔ جمع شدہ معلومات کو جس طرح بھی جمع کر لیا جائے: لفظ وار بحث کے ذریعے یا مفہوم کا امتیاز کر کے، ان پر تبصرہ و تجزیہ کا کام تو انسان کو ہی کرنا ہے۔ ہمیں اس مقام پر اپنی محنت کو کام میں لانا چاہئے جب اس کے سوا کوئی چارہ کار نہ ہو۔ جہاں یہ کام مشینیں کر سکتی ہوں تو وہاں مشینوں کی کارکردگی سے فائدہ اٹھا کر اپنا وقت اور محنت بچائی جا سکتی ہے اور اسے زیادہ اہم تر مقام پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
چونکہ یہ بالکل نئے موضوعات ہیں جن پر سرے سے کوئی لٹریچر موجود نہیں چنانچہ اکثر اوقات بات کی وضاحت اور استدلالی خاکہ کی بناوٹ میں وہ ترتیب باقی نہیں رہتی کہ تمام مباحث منطقی ترتیب کے ساتھ یکجا ہو جائیں۔ میری طرف سے ان موضوعات میں زیادہ کوشش اس امر پر مرکوز ہوتی ہے کہ بات کس طرح قاری کو کچھ نہ کچھ مفہوم دے جائے۔ اور وہ ان پیچیدہ چیزوں کو کسی درجے میں سمجھ کر ذہن میں بٹھا لے، اسی کوشش میں اکثر اوقات بات سے بات نکلتی جاتی ہے کیونکہ ایک بات کو سمجھانے کے لئے دوسری کئی باتوں کا سمجھنا ضروری ہو جاتا ہے۔ بہرحال مجھے امید ہے کہ باذوق حضرات اس مشقت کو خوشدلی سے قبول کریں گے۔ مجھے یقین ہے ان موضوعات پر ان کے مضامین کے مطالعے کے بعد کوئی اور لکھنا چاہے تو زیادہ واضح طور پر اپنا مدعا قارئین کو پیش کر سکے گا۔ ذیل میں ہم علم و تحقیق کے حوالے سے دیگر بدلتے رجحانات کی طرف لوٹتے ہیں ۔۔ (جاری ہے)
[1] یہاں میں عرب ممالک کے متعدد سفروں کے دوران اپنے مشاہدے کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ عرب ممالک بالخصوص مالدار خلیجی ممالک میں مجھے ہر گھر میں کمپیوٹر کے ساتھ ساتھ دینی نوعیت کے پروگرام بھی بڑی تعداد میں دیکھنے کا اتفاق ہوا ۔۔ جہاں تک پاکستانی قوم کی سائنسی اور تکنیکی صلاحیت اور کمپیوٹر کے پاکستان میں عام ہونے کا تعلق ہے تو عرب ممالک کا پاکستان سے کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔ اُن کے ہاں ابھی تک کمپیوٹر سے نجی بنیادوں پر کوئی سنجیدہ کام نہیں لیا جا رہا اور نہ ہی اس کی کوئی مہارت وہاں دیکھنے کو ملتی ہے۔ جبکہ پاکستانی قوم اپنے مخصوص ماحول کی وجہ سے ٹیکنیکل صلاحیت اور کمپیوٹر کے میدان میں انفرادی سطح پر دوسری بہت سی قوموں حتیٰ کہ یورپی ممالک سے بھی آگے ہے۔
ہمارے دیندار طبقے کی طرح وہاں بھی اس حوالے سے کمپیوٹر کے استعمال کا کوئی خاص ذوق نہیں ہے۔ اس کے باوجود مجھے اس کثرت سے ایسے گھروں میں کمپیوٹر کی ازرانی ہے۔ ایک ماہ کی آمدنی سے وہ کمپیوٹر خرید سکتے ہیں۔ پھر یہ بھی ایک معروف حقیقت ہے کہ مصنوعات کی زیادہ ورائٹی بھی انہی بازاروں میں ہوتی ہے جہاں کے خریداروں کی قوتِ خرید بہتر ہو۔ چنانچہ ہمارے ہاں بچے کھچے کمپیوٹر پروگرام ہی بڑی دیر کے بعد پہنچتے ہیں۔
انہی دنوں اس موجوع پر لکھنے سے قبل ان موضوعات پر کچھ لٹریچر دیکھنے کی خواہش ہوئی۔ ظاہر ہے کہ اس حوالے سے عربی میں ہی کتب میسر آ سکتی تھیں۔ بڑی دردسری سے اس موضوع پر ملنے والی تازہ ترین عربی کتابوں میں یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ بعض بڑی بنیادی نوعیت کی معلومات اور کچھ اعداوشمار کے علاوہ ان میں کوئی نئی تحقیق یا معلومات موجود نہیں ہیں۔ اسی طرح انگریزی کتب میں بھی ہمارے مخصوص موضوع پر کچھ نہیں مل سکا۔