غیرمسلم غیر کتابی باورچی کے تیارکردہ کھانے کاحکم

چند ضروری معروضات


ماھنامہ"محدث"لاھور کا تازہ شمارہ پیش نظر ہے۔اس شمارہ میں محترم مولانا عبد السلام کیلانی صاحب،حفظہ اللہ کا ایک فتویٰ( ماہنامہ محدث لاہور ج19 عدد نمبر7 ص 30-34 بمطابق ماہ رجب سئہ 1409ھ)"غیرمسلم،غیرکتابی باورچی کےتیارکردہ کھانے کاحکم"کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔تقریباََ ڈھائی سال قبل ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کے ایک بیان سے یہ مسئلہ یہاں سعودی عرب میں بعض مسلمانوں کے درمیان نزاعی صورت اختیار کر گیاتھا۔غالباََ اسی دوران ایک دردمند ھندوستانی مسلمان جناب افضل الرحمٰن محبوب شریف صاحب بنگلوری نے اس مسئلہ میں رہنمائی کی غرض سے چند دوسرے مکاتبِ فکر کے علماءکے ساتھ ادارہ"محدث"کی طرف بھی رجوع کیاتھا۔جس کا جواب ادارہ"محدث"کی طرف سے بہت تاخیر سے موصول ہوا ہے۔جناب افضل الرحمٰن صاحب ہی کی خواہش اور مسلسل اصرار پراس نزع کو رفع کرنے اور باہمی اتھاد واتفاق کی فضاءکوبرقراررکھنے کےلیے وقتی طور پر راقم نے یکم مئی سئہ1986ءکو ایک مضمون زیر عنوان:"غیر اہل کتاب کے ساتھ کھانا کھانے کا مسئلہ"لکھا تھا بعدہ بعض حلقوں کی طرف سے اس پر جو اعتراضات موصول ہُوئے ان کا جواب12مئی سئہ1986ءکو علیحدہ ایک مضمون:"غیر مسلمین کے ساتھ معاملات کاحکم(استدراک)"کی شکل میں مرتب کیا تھا۔مذکورہ دونوں مضامین حسبِ معمول اولاََ ماھنامہ"محدث"کو بغرض اشاعت بھیجے گئے تھے۔مگر شاید ادارہ کی کسی خاص مصلحت کا شکار ھو گئے یاماھنامہ کے مقررہ اعلیٰ معیار پر پُورے نہ اترپائے،بہر حال بعد میں ان دونوں مضامین کو جناب ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کے ملاحظہ اور جواب کے لیے بھیجا گیا۔آں محترم نے یہ دونوں مضامین اپنے دو رسالوں"ماھنامہ میثاق لاھور(ماہنامہ حکمت ماہنامہ میثاق لاہور ج نمبر 35 عدد 9 ص69-86-91 بمطابق ماہ ستمبر سئہ 1986ء)"اور"ماہنامہ حکمت قرآن لاہور(ماہنامہ حکمتِ قرآن لاہور ج5 عدد نمبر 8-9 ص 55، 74 بمطابق اکتوبر-نومبر سئہ 1986ء)"میں بعینہ شائع فرمادیئے۔

زیرِ نظر فتوی میں سوال کے پہلے حصّہ کا جواب مجموعی اعتبار سے ماشاءاللہ بہت خوب ہے۔البتہ سوال کے دوسرے حصّہ کی بعض عبارتوں کے متعلق راقم کو چند معروضات خاص طور پر پیش رنی ہیں:

(1)سوال کے پہلے حصّہ کے جواب میں فاضل کیلانی صاحب تحریر فرماتے ہیں:

"۔۔۔۔اگر وہ عینی نجات سے پرہیز کرنے والے ہوں،نظافت کےپابند ہوں،بالخصوص جب اسلامی اصولِ نظافت سے باخبر ہوں تو ضرورت کے وقت اور بوقت مجبوری ان کا پکا ہوا کھانا حلال ہے۔"( ماہنامہ محدث لاہور ج19، عدد 7، ص 24،25)

اس بارےمیں آں محترم نے اوپرجن شرائط(مثلاََ نظافت کےپابند ہوں اور ضرورت کے وقت اور بوقت مجبوری)کاذکر کیا ہے۔ہم بصد احترام ان سے اس کی دلیل طلب کرتے ہیں اور یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا اگر کوئی غیرمسلم شخص کھانے کے تمام برتن اور کھاناپکانےمیں استعمال ہونےوالے اپنے جسمانی اعضاءپانی سے بخوبی دھو کر حلال اشیاءپرمشتمل کھانا پکائے تو ایک مسلم کے لیے یہ کھاناکھانا محض اس لیے حلال نہ ہوگاکہ اس کا پکانے والا اپنی عام زندگی میں نظافت و طہارت کا اس درجہ پابند نہیں ہے کہ جو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک مسلم سے متوقع ہے یا وہ اسلامی اصولِ نظافت وطہارت سے سرے سے بیخبر ہےیاباخبر تو ہے مگر عموماََ اس کا اہتمام نہیں کرتا یااس کا پکایا ہُوا کھانا کھانے کی کوئی ناگزیر ضرورت یامجبوری درپیش نہیں ہے؟

اس بارے میں جو چند شرائط کتاب وسنت میں بصراحت مذکور ہیں ان کا تفصیلی ذکر راقم نے اپنے مضمون"غیر اہل کتاب کے ساتھ کھانا کھانے کا مسئلہ"میں کیا ہے۔یہان غیرضروری طوالت سےبچنے کی خاطر ان شرائط کو مکمل نقل کرنےسے قصداََ گریز کیاجارہا ہے۔

(2)بنی آدم کے لعابِ دہن کی طہارت کی بحث۔۔۔۔میں آں محترم ایک مقام پر تحریر فرماتے ہیں:

"ابنِ قدامہ(مغنی لابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 49)رحمۃ اللہ علیہ اور احمد شاکر رحمۃ اللہ علیہ کے مطابق تو اہلِ اسلام کی اکثریت اس کی طہارت کے قائل ہیں،یعنی وہ یہ فرق نہیں رکھتے کہ لعاب مسلمان کا ہےیاکہ کافر یامشرک کا،لیکن تعجب ہےکہ انھوں نے کوئی دلیل پیش نہیں کی۔جب کہ بعض اہل ظاہر رحمۃ اللہ علیہ،حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ اور ان سے ماقبل حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب قول یہی ہےکہ:"مشرک چونکہ نجس ہیں اس لیے ان کا لعاب بھی نجس ہے۔"( محدث ج نمبر 19 عدد نمبر7 ص 29-30)

امام ابن قدامہ مقدسی حنبلی رحمۃ اللہ علیہ اوراستاذ احمد شاکر رحمۃ اللہ علیہ کا اپنے قول کی تائید میں کوئی دلیل پیش نہ کرنے کا شکوہ بجا ہے لیکن چونکہ یہ امر جمہور کے نزدیک مشہور ومعروف رہاہے۔شاید اسی باعث آں رحمہمااللہ نے اس کی دلیل جمع کرنے کی حاجت محسوس نہ کی ہو،واللہ اعلم،بہرحال جہاں تک قرآنِ کریم میں﴿انما المشركون نجس﴾ (حقیقتاََ مشرک نجس ہیں)مذکور ہونے کا تعلق ہے تو اس سے مراد مشرکین کی اعتقادی نجاست ہے نہ کہ ظاہری،جسمانی اور حقیقی جیسا کہ تمام مفسرین متقدمین ومتاخرین نے اس آیت کی تفسیر میں بیان کیا ہے،چنانچہ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں:"مشرکین اپنی باطنی خباثت کے باعث نجس(القرآن الکریم مع تفسیر جلالین رحمۃ اللہ علیہ بھامش المصحف الشریف ص 244)ہیں۔"حافظ ابنِ کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں یہ آیتِ کریمہ مشرک کی نجاست پر دلالت کرتی ہے جیسا کہ صحیح میں موجود ہے:«المؤمن لا ينجس»مگر مشرک کے بدن کی نجاست کےمتعلق جمہور کا قول ہےکہ ان کا بدن اور ذات نجس نہیں ہیں(تفسیر ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 346)الخ"شیخ عبدالرحمٰن الجزیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں۔"اللہ تعالیٰ کا قول﴿انما المشركون نجس﴾سے مراد معنوی نجاست ہےکہ جس کا حکم شارع نے بیان فرمادیاہے۔اس سے یہ مراد ہرگز نہیں ہےکہ مشرک کی ذات بھی خنزیر کی ذات کی طرح نجس ہے۔( الفقہ علی المذاھب الاربعہ للجزیری ج1 ص 6)"علامہ ابنِ نجیم حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں:"اللہ تعالیٰ کےقول کہ مشرکین نجس ہیں سے مراد ان کے اعتقاد کی نجاست ہے۔( بحرالرائق لابن نعیم رحمۃ اللہ علیہ )"مولانا اشرف علی تھانوی مرھوم نے اس آیت کا ترجمہ یوں فرمایا ہے۔"مشرک لوگ(بوجہ عقائد خبیثہ)نرے ناپاک ہیں۔( تفسیر و ترجمہ اختصار شدہ بیان القرآن للتھانوی ص 172)"اور مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ مرھوم فرماتےہیں:"ناپاک ہونے سے یہ مراد نہیں ہےکہ وہ بذاتِ خود ناپاک ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہےکہ ان کے اعتقادات،ان کے اخلاق،ان کےاعمال اور ان کے جاہلانہ طریق زندگی ناپاک ہیں(تفہیم القرآن للمودودی ج2 ص 187 حاشیہ نمبر 25)الخ۔"مشہور صحیح حدیث:«ان المسلم ْ المؤمن لا ينجس حيا وميتا»( صحیح بخاری مع فتح الباری ج1 ص 390-391، ج3 ص 125، صحیح مسلم ، کتاب الحیض ص 115، 116، سنن ابوداؤد مع عون المعبود ج1 ص 92، جامع ترمذی مع تحفۃ الاحوذی ج1 ص 116، سنن نسائی مع التعلیقات السلفیہ ج1 ص 32-33، سنن ابن ماجہ ، کتاب الطہارۃ باب 80، مسند احمد ج2 ص 235،382،471، ج5 ص384، 402)کا تقاضا بھی یہی ہےکہ مشرکین کی نجاست محض حکمی اور اعتقادی ہو،بدنی اور حقیقی نہیں۔علامہ ابو الولید محمد بن احمد بن رشد القرطبی رحمۃ اللہ علیہ"بدایۃ المجتہد ونہایۃ المققد"میں فرماتےہیں:جن علماءنے مشرکین کے لعاب کو نجس قراردیا ہے انھوں نے اصلاََ مشرک کو خنزیر پر قیاس کیا ہے کہ جس کی نجاست عینی اور حقیقی کتاب اللہ میں وارد ہے۔"( بدایۃ المجتہد لابن رشد ج1، ص 30-31)

امام حافظ ابن حجر عقلانی رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ بالا صحیح حدیث"ان المؤمن لا ينجس"کی شرع میں بیان فرماتےہیں:

"بعض اہل الظاہر نے اس حدیث سے یہ مفہوم لیا ہے کہ کافر نجس العین ہیں۔اپنے اس مفہوم کی تائید میں وہ اللہ تعالےٰ کا یہ ارشاد پیش کرتےہیں﴿انما المشركون نجس﴾لیکن جمہور علماءنےجواباََ اس حدیث کی یہ مراد بیان کی ہےکہ مؤمن مجانبت النجاست سے اعتیاد کےباعث طاہرالاعضاءہوتاہےبرخلاف اس کے مشرک نجاست سے عدم تحفظ کے باعث نجس ہوتا ہیں۔نیز اس آیت کی مراد یہ ہےکہ مشرک اپنے اعتقادواستقذار میں نجس ہیں۔جمہور علماءکی دلیل یہ ہےکہ اللہ تعالےٰ نے اہل کتاب کی عورتوں کے ساتھ نکاح کو مباح قراردیاہے۔جو مسلمان مردان کتابیہ عورتوں سے مضاجعت کرتے ہوں بظاہر وہ ان کے پسینہ سے نہیں بچ سکتے،مگر کسی مسلمان مرد پرکسی کتابیہ کے پسینہ کے باعث غسل واجب نہیں ہوتا۔اس پر غسل فقط ان باتوں سے واجب ہوتا ہے جن سے کسی مسلمان عورت کے باعث ہوتاہے۔پس یہ اس بات کی دلیل ہےکہ اگرمردوزن کے درمیان(احکام میں)کوئی فرق نہ ہو تو زندہ آدمی نجس عین نہیں ہے۔"( فتح الباری لابن حجر ج1 ص 390 وکذا فی عون المعبود شرح سنن ابی داؤد ج1 ص92 و تحفۃ الاحوذی شرح جامع الترمذی ج1 ص 116)

واضح رہےکہ پسینہ اورلعاب دونوں کاحکم باتفاق علماءیکساں اور ایک ہی ہے۔جہاں تک"بعض اہل ظاہر رحمۃ اللہ علیہ،حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ اور ان سے ماقبل حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب قول کا تعلق ہے تو اس کا ضعف اوپر واضح کیا جاچکا ہے۔یہاں ابنِ ملک کی اس روایت کا ذکر کردینابھی فائدہ سے خالی نہیں جسے ملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے متعلق نقل کیا ہے یعنی یہ کہ آں رضی اللہ عنہ مشرکین کو خنزیر کی طرح نجس جانتے تھے اورحسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق مروی ہے کہ اگر کوئی مشرک ان سے مصافحہ کرلیتاتو وہ وضو فرمایا کرتے تھے۔حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے اس مبالغہ آمیز فعل کو اشعث رحمۃ اللہ علیہ کی روایت امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی"تفسیر(تفسیر ابن کثیر ج1 ص 346)"میں بھی ذکر کیاہے۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ اور بعض اہل الظاہر کا مذکورہ موقف دراصل مشرکین سے بُعد اور احتراز میں مبالغہ پر محمول کیا گیا ہے۔جیساکہ شارح ترمذی رحمۃ اللہ علیہ علامہ عبدالرحمٰن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ نے"تحفۃ الاحوذی(تحفۃ الاحوذی شرح جامع الترمذی للمبارکفوری ج1 ص 116)"میں بیان کیا ہے،والله اعلم بالصواب

اللہ تعالےٰ کا شکر ہےکہ خود محترم مولانا کیلانی صاحب نے ص24پرغیرمسلم مشرک کی نجاست کو"حکمی"اورص30پربعض اہل الظاہر رحمۃ اللہ علیہ،حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے اقوال کو"شاذ"درج کیا ہے۔

(3)نمبر2کے تحت نقل کردہ قول کو"شاذ"تسلیم کرنےکےبعد فاضل کیلانی صاحب اس طرح رقمطرازہیں:

"لیکن اگر ہم اس شاذقول کو چھوڑ دیں تو بھی مکروہ تو ہوگاہی۔کیونکہ بنی آدم کے جسم میں جراثیم کا سلسلہ تو قائم ہی ہے بالخصوص لعابِ دہن میں،صرف مسلمان کا لعاب پاک بھی ہے اورشفابھی الخ۔"( ماہنامہ محدث ج19، عدد7، ص 30)

سوال کے اس دوسرے حصّے کے جواب میں محترم مولانا کیلانی صاحب نے پورا زور کافرومشرک کے لعابِ دہن کی نجاست کے بجائے اس کی"کراہت"ثابت کرنے پر صرف کیا ہے۔چنانچہ آں محترم نے اس عبارت میں لعابِ کافر کے"مکروہ"ہونے کی پہلی علت بنی آدم کے لعاب میں جراثیمی سلسلہ کا وجود بتائی ہے۔کیا"مسلمان"یا"مومن"بنی آدم سے فرق تر کوئی اور مخلوق ہوتا ہےکہ اس کے لعاب میں جراثیمی سلسلہ کی مذکورہ علت موجود نہیں ہوتی؟بلکہ ان محترم کے جواب کے پیش نظر تو یہ نتیجہ اخذ کرنا بھی غلط نہ ہوگا کہ شاید مسلمان یا مومن کے لعاب میں جراثیم کش مادہ کی آمیزش ہوتی ہے۔حالانکہ یہ دونوں باتیں خلاف واقعہ امرہیں۔

(4)فاضل کیلانی صاحب نے لعابِ کافر کے"مکروہ"ہونے کی دوسری دلیل کے طور پرمسندامام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ج1ص413،ج3ص82کے حوالہ سے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ والی حدیث نقل فرمائی ہے اورپھر اس سے جو فائدہ اخذ فرمایاہے وہ آں محترم کے الفاظ میں اس طرح ہے:

"اور شیطان چونکہ راس المشرکین ہے اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز نہ چھوڑی اور نہ ہی ہاتھ دھویا تومعلوم ہواکہ مشرک کا لعاب بھی پاک ہے۔البتہ کراہت سے انکار نہیں کیاجاسکتا جیسا کہ پہلے گزر چکاہے۔"( ماہنامہ محدث ج نمبر 19 عدد 7 ص 30)

افسوف کہ محولہ بالا روایت میں بھی اس بات کی کوئی صراحت موجود نہیں ہےکہ آں صلی اللہ علیہ وسلم نے شیطان کے لعاب کے باعث نماز میں کسی قسم کی"کراہت"فرمائی تھی،لہٰذا ہمیں تو یہ روایت آں محترم کے موقفِ"کراہت"کی تائید کے بجائے کافرومشرک کے لعاب دہن کی عدم نجاست اور عدم کراہت کی دلیل معلوم ہوتی ہے۔

(5)محترم کیلانی صاحب لعابِ کافر کو"مکروہ"قرار دینے کی آخری دلیل اس طرح بیان فرماتےہیں:

"علاوہ ازیں لعابِ دہن کی ایک ایسی خصوصیت بھی ہےجو کہ باقی جسم کو حاصل نہیں ہےکہ جیسے انسان کھٹی چیز کھانے لگے تو لعاب میں کٹھاس(کھٹاس)آجائیگی،میٹھی چیز کھانےلگے تو مٹھاس کا اثر ہوگا۔کڑوی چیز کھانے سے پہلے کڑواہٹ پہلے ہی معلوم ہونے لگتی ہے۔علی ہذاالقیاس۔دماغ میں نفرت ہوتو لعابِ دہن مین بھی اس کی خصوصیت اور اگر محبت ہوتو اس مین اس کی ملاوٹ ہوگی۔اس لیے اگر دونوں کے لعاب کو پاک بھی کہاجائے تو بھی مشرک کا لعاب مومن کو لعاب کا مقابلہ نہیں کرسکتا اور نہ ہی دونوں کی ایک حیثیت ہوگی الخ۔"(ايضا ص:30)

آں محترم نے لعابِ دہن کی جس خصوصیت کا اوپر ذکر کیا ہے وہ راقم کے نزدیک تو کافر ومشرک اور مومن ومسلم ہر ایک کے لعاب کے لیے بلاامتیاز یکساں ہے۔یہ نہیں ہوسکتا کہ کافر کوئی میٹھی چیز کھائے تو اسے کڑوی لگے اور کوئی مسلم کڑوی چیز بھی کھائے تو اُسے حلاوت محسوس ہو۔پھر لعابِ دہن(جو دراصل مخصوص قسم کے غدود کا رقیق ہوتا ہے)مین کسی خارجی مادہ کی آمیزش سے اس کے ذائقہ کا بدل جانا ایک خالص طبیعی وکیمیاوی تبدیلی کا ثمرہ ہے۔فکری ونفسیاتی عوامل سے لعابِ دہن کے خواص میں جن تبدیلیوں کی طرف آں محترم نے نشاندہی فرمائی ہے اس سے علومِ نفسیاتِ انسانی اور طب کے اکثر ماہرین تاہنوزلاعلم ہیں۔شاید اس خیالی اساس پر آں محترم نفوسِ انسانی کو نہیں بلکہ اس کے لعابِ دہن کو کفر/شرک اوراسلام/ایمان سے متصف کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔

یہاں محترم کیلانی صاحب کے،لعابِ مشرک کو"مکروہ"بتانےوالے موقف کے متعلق یہ وضاحت بھی ضروری محسوس ہوتی ہےکہ بلاشبہ مشرک کے لعابِ دہن کو علماءکےایک گروہ نے"مکروہ"بتایا ہے،لیکن صرف اس وقت جب کہ وہ شراب پئے ہوئے ہوں اور یہ مذہب ابن القاسم رحمۃ اللہ علیہ کا ہے جیساکہ علّامہ ابن رشدالقرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے"بدایۃ المجتہد(بدایۃ المجتہد لابن رشد، ج1 ص 28)"میں ذکرکیاہے،لیکن کسی سے کافر کے لعاب کے مکروہ ہونے کے اسباب میں جراثیمی سلسلہ کی موجودگی یا لعاب میں ذائقہ کی مانند نفسیاتی عوامل کا اثر انداز ہونا منقول نہیں ہے۔

(6)اُوپر نمبر3کےتحت فاضل کیلانی صاحب کا یہ قول گزرچکاہےکہ:

"صرف مسلمان کا لعاب پاک بھی ہے اور شفاءبھی بالخصوص۔۔۔۔۔الخ"(ماہنامہ محدث ج19، عدد نمبر7، ص 30)

اس عبارت میں خط کشیدہ لفظ"صرف"بتاتا ہےکہ مسلمان کے علاوہ ہربنی آدم کا لعابِ دہن ناپاک اور شفاءکی ضد یعنی مرض ہے۔کیا یہ مقامِ تعجب نہیں ہےکہ آں محترم نے اپنے اس دعویٰ کی تائید میں کوئی دلیل پیش نہیں فرمائی ہے؟ممکن ہے کہ آں محترم نے مسلمان کے لعابِ دہن کے شفاءہونے کا اشارہ صحیحین کی اِس حدیث سے اخذ کیا ہو:

«أَنَّ النَّبِيَّ ـ صلى الله عليه وسلم ـ كَانَ مِمَّا يَقُولُ لِلْمَرِيضِ "‏ بِسْمِ اللَّهِ تُرْبَةِ أَرْضِنَا بِرِيقَةِ بَعْضِنَا لِيُشْفَى سَقِيمُنَا بِإِذْنِ رَبِّنَا »( صحیح بخاری مع فتح الباری ج 10، ص 206، صحیح مسلم، کتاب السلام باب نمبر 53، سنن ابی داؤد مع عون المعبود ج نمبر 4 ص 19، ابن ماجہ ج نمبر4 ص 1163، مسند احمد بن حنبل ج نمبر6 ص 93)

"بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم مریض سے فرمایاکرتےتھے:اللہ کے نام سے،ہماری زمین کی یہ مٹی ہم میں سے کسی کے لعاب کے ساتھ مل کر ہمارے رب کے حکم سے ہمارے مریض کو شفادیتی ہے۔"

لیکن فتویٰ کے آخری چند جملے اس شک کو تقیت دیتے ہیں کہ فاضل کیلانی صاحب کے نزدیک بھی مومن کے لعاب کو شفاءقراردینے کی محرک وہی عوامی اور(؟)حدیث ہے جس کی طرف آں محترم نے اپنے ان جملوں میں اشارہ فرمایاہے:

"اس لیے اگر دونوں کے لعاب کو پاک بھی کہا جائے تو بھی مشرک کا لعاب،مومن کے لعاب کا مقابلہ نہیں کرسکتااور نہ ہی دونوں کی ایک حیثیت ہوگی۔ہوسکتاہےایک شفاءہواور دوسرا بیماری"سؤر للمؤمن شفاء"يا کامفہوم مخالف بھی یہی ہےکہ«سؤر الكافر مرض»۔"( ماہنامہ محدث ج 19، عدد7، ص 30)

اگر واقعی آں محترم کا اشراہ اسی عوامی حدیث(یعنی: "سؤر للمؤمن شفاء"یااس کی ہم معنی دوسری عوامی حدیث«ريق المؤمن شفاء»کی طرف ہے تو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ دونوں حدیثیں قطعی طور پر"بے اصل"ہیں جیساکہ مرفقہ مضمون میں بدلائل ثابت کیاگیاہے۔ان سطور کےساتھ ہی ہم اپنی معروضات کے اس سلسلہ کو تمام کرتےہیں۔