ترجمان القراٰن

برصغیر میں نواب صدّیق حسن خان ان ممتاز علمی شخصیات میں سے ھیں جو عرب و عجم کا سرمایہ اِنتخاد ہیں دُنیا کی کوئی اھم لائبریری آپ کی تالیفات سے خالی نہیں،آپ کی تفسیری خدمات میں عربی تفسیر"فتح البیان فی مقاصد القرآن"کے علاوہ"ترجمان القراٰن"جیسی جامع اور مفصل اردو تفسیر بھی ہے۔جسے بجاطور پر قرآنی علوم کا"انسائیکلو پیڈیا"کہا جاسکتا ہے۔یہ عظیم کتاب تقریباََ ناپید ہورہی تھی۔غالباََ پاک و ہند کے معدودے چند مکتبات ھی اس سے مزین ہوں گے۔یہ کتاب باریک رسم الخط کے بڑے سائز میں سولہ16ضخیم جلدوں میں شائع ہوئی تھی۔جس کی اردو بھی اب پرانی ہوچکی ہے۔

آجکل تفسیر اور قرآنی علوم و خدمات عموماََ فلسفہ زدگی کا شکار ہیں اور قرآن پر زیادتی یہ ہورہی ہے کہ جاھلیت قدیمہ اور جدیدہ سے ماخوذ من پسند افکار و نظریات کو ھی قرآنی نظاموں کا نام دے کر تحریکیں چلانے کا فیشن بن رہا ہے۔ان حالات میں سلفی انداز کی ایسی تفسیر کا وجُود جو جُملہ اھم تفسیری مباحث کی جامع ھو ایک بڑی نعمت ہے،لیکن"ترجمان القرآن"مذکورہ بالا خوبیوں کی حامل ھونے کے باد صف زبان و بیان میں جدّت کی متقاضی تھی چنانچہ اس"دائرۃ المعارف"کو نئے سرے سے ایڈٹ کرنے کاعزم ھمارے احباب کی ایک جماعت اہل علم نے کیا ہے۔جن مین انجنئیرنگ یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات کے پروفیسر چوہدری عبد الحفیظ،پروفیسر حافظ محمد اسرائیل فاروقی اور پروفیسر ملک ظفر اقبال پیش پیش ہیں۔ھماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں ھمت و فرصت عطا فرمائے کہ وہ اپنے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی سعادت سے بہرہ ورہوں۔آمین

ماہنامہ"محدث"میں اُسکا آغاز تفسیر کے مقدمہ سے ہورہا ہے اور ان شاءاللہ یہی سلسلہ اشاعت"الکتاب و الحکمۃ"کے مستقل عنوان سے چلتا رھیگا۔(ادارہ)

خانوادہ ولی اللہٰی کی فکری و عملی تحریک کے حاملوں اور قرآن و حدیث سے شغف رکھنے والی جماعت کے وارثوں میں نوّاب صدیق حسن خاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا نام اور کام بہت اُونچا ہے۔شرق و غرب میں آپ کے علم و فضل کا ڈنکا بجتا رہا۔عرب و عجم آپ کی غزارہ علمی کے معترف ہیں۔آپ نے عربی،فارسی اور اردو میں دوسوبائیس222کتابیں تصنیف کیں۔یہ اللہ کا آپ پر خاص فض ل وکرم تھا کہ دینِ اسلام کے مختلف پہلوؤں تفسیر،حدیث،عقائد،فقہ،سیاست،تاریخ وسیر،مناقب،علوم وادب اور اخلاق پر آپ نے بڑی فاضلانہ کتابوں کا بڑا گراں مایہ ذخیرہ چھوڑا ہے۔ان کتابوں پر عرب وعجم کے علماء،فقہاءاورمحدثین نے زوردارتبصرے لکھےاور نواب صاحب کی اس خدمت کو زبردست خراجِ عقیدت پیش کیا۔ان سب کتابوں کی فہرست سلیم فارس آفندی بن احمد فارس صاحب نگران مدیر جریدہ"الجوائب"نے"قرة الاعيان وصرة الاذهان"کے نام سے شائع کی تھی۔20ربیع الاوّل سئہ1290ءکو خلیفۃ المسلمین سلطان عبد الحمید غازی نے"فرمانِ جلالت نشان"مع"تمغہ مجیدی"نواب صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو عطاکیا۔پھر سید خیرالدین پاشا صدر اعظم دارالخلافہ اسلامیہ(ترکی)نے مؤرخہ18ربیع الاول سئہ1296ءکو نواب صاحب رحمۃ اللہ علیہ صاحب کو،آپ کی دینی اور اسلامی خدمات کے اعتراف کے طور پر"خطِ عظمت"عطاکیا۔( تراجم علمائے اہل حدیث ہند، ص 246)

تصنیفات کی یہ کثرت برِصغیر کے بہت کم علماءکو نصیب ہوئی۔زندگی کا کوئی پہلو ایسا نظر نہیں آتا جس پر نواب صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے خامہ فرسائی نہ کی ہو۔موضوعات کے تنوع اوردوسوبائیس222کتابوں کی یہ قوسِ قزح اپنی بوقلمونی کے اعتبار سے آج بھی اپنا جواب نہیں رکھتی۔نواب صاحب رحمۃ اللہ علیہ ایک بحرِ ناپیدا کنارتھے۔علم وادب اور فصاحت وبلاغت کے دریا بہاتے چلے جاتےتھے۔ذہانت وفطانت کاایک پیکر،علم وعمل کاایک سراپا،منبع رشدوہدایت اوراس منبعِ فیض سے قرآن وحدیث کی ندیاں رواں ہوتی تھیں۔نواب صاحب رحمۃ اللہ علیہ نابغہ روزگار ہستی تھے،علم وعمل کے اعتبارسے انہیں برّصغیر کا ابنِ تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کہا جائے تو یہ کوئی مبالغہ آرائی نہ ہوگی۔صرف قرآنِ مجید کی تفسیر،علمِ تفسیر اور اصولِ تفسیر کے حوالے سے نواب صدیق حسن خاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے کارناموں پر طائرانہ سی نگاہ ڈالیں تو انسان حیرت واستعجاب کے دریامیں ڈوب جاتاہے۔تصنیف وتالیف کا اتنا برا ذخیرہ یہ کسی ایک انسان کا کام ہوسکتا ہے؟،دراصل وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ان کی عربی تفسیر سات ضخیم جلدوں پر محیط ہے جو قرآن وسنت کا سیل رواں ہے۔عربی زبان پر مکمل عبوع،زبان وادب کی چاشنی،فقہی مسائل پر جچی تلی رائے اور علم وفضل کا ایک ذخیرہ۔یہ اندازہ لگانا مشکل نظر آتا ہےکہ"فتح البیان"کا مصنف ایک عجمی النسل ہے۔فارسی زبان میں"اکسیر فی اصولِ تفسیر"اصولِ تفسیر کے فن اور طبقاتِ مفسرین پر ایک نایاب کتاب ہے۔ڈاکٹر محمد حسین ذہبی کی"التفسیروالمفسرون"پڑھنے والے اگر نواب صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی"الاکسیر"پرنظر ڈالیں تو وہ حیران وہ جائیں گے کہ نواب صدیق حسن خاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے آج سے ایک صدی پیشتر یہ کتاب مرتب کی،جس میں تیرہ سو1300تفاسیر کا ذکر موجود ہے۔

قرآنِ مجید کے ناسخ ومنسوخ پر فقہاء،محدثین کا اختلاف رہا ہے۔کسی نے کل چار آیتیں ہیں۔کسی نے کافی زیادہ بتائیں۔نواب صدیق حسن رحمۃ اللہ علیہ نے"افادة الشيوخ يقدر الناسخ والمنسوخ"کے نام سے ناسخ و منسوخ پر مبسوط اور عالمانہ کتاب مرتب کی ہے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سےلے کر تابعین،تبع تابعین اور ائمہ کرام تک تمام آراءاورادلّہ جمع کردی ہیں۔قرآن کے طالب علموں کے لیے ایک بے بہا اورنایاب تحفہ ہے۔قرآنِ مجید میں"آیات الاحکام"کے سلسلے میں بھی تعداد کی کمی بیشی کا اختلاف اہل علم میں موجود رہا ہے۔نواب صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے:

"حافظ ابن الوزیر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہےکہ جن آیاتِ احکام کا حفظ رکھنا ایک مجتہدِ مطلق کے لیے ضروری ہے وہ ایک سو تینتیس133ہیں۔پس میں نے ان آیات کی تفسیر عربی زبان میں لکھی ہےجِس کا نام"نیل المرام"ہے۔( ترجمان القرآن ص17)

"نيل المرام فى تفسير آيات الاحكام"کے نام سے جو تفسیر نواب صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے لکھی ہے آج کے مفسرین محمد علی الصابونی(صاحب تفسیر آیات الاحکام)وغیرہم،نواب صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے خوشہ چین نظر آتے ہیں۔

سورۃ الفاتحہٰ کو قرآن مجید میں جو مقام حاصل ہے۔اس بنیاد پر سورہ فاتحہ کی بےشمار الگ تفاسیر بھی لکھی گئیں۔نواب صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے"تفسيرالكل بتفسير الفاتحة"لکھ کر قرآنِ مجید کے اِس جوہر کی فضیلت کا حق ادا کیا ہے۔نواب صاحب رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

"حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:اللہ نے ایک سو چار104کتابیں اتاری ہیں۔ان سب کتابوں کا علم ان چار کتابوں(تورات،زبور،انجیل،فرقان)میں موجود ہے۔پھر پہلی تیس کتابوں کا سارا علم فرقان میں ہے۔فرقان کا سارا علم مفصل سورتوں میں ہے،مفصل صورتوں کا سارا علم"فاتحۃ الکتاب"میں جمع کردیا گیا ہے۔جس نے سورہ فاتحہ کی تفسیر جان لی اس نے گویا سب آسمانی کتابوں کا علم حاصل کر لیا۔"( مقدمہ : ترجمان القرآن ص4)

یہ کتاب نظر سے نہیں گزری۔کچھ کہنا فی الحال محال ہے۔

یہاں نہ تو نواب صدیق حسن خاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت زیرِ بحث ہے اور نہ ہی ان کے علمی کارناموں پر کوئی مفصل مضمون پیشِ نظر ہے۔اس وقت پیشِ نظر صرف اور صرف نواب صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی اردو تفسیر کا مختصر سا تعارف ہے۔"تراجم علمائےحدیث ہند"میں ملک ابویحییٰ امام خان نوشہروی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ یہ پندرہ15جلدوں میں شائع ہوئی۔(ص:251) لیکن جو نسخہ ہمارے پیشِ نظر ہے اس کی تیرہ13جلدیں ہیں۔بڑی تقطیع اور نہایت اچھی چھپائی ہے۔یہ مطبع احمدی،لاہور میں چھپی ہے۔پہلے صفحہ پر لکھا ہے:

"از تالیف مجدد دین امام المفسرین حجۃ اللہ علی العالمین عالمِ ربّانی مقبول بارِگاہِ صمدانی نواب والا جاہ امیر الملک سیّد محمد صدیق حسن خاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ بہادر ادخلہ اللہ فی دارالجنان المسمٰی

"ترجمان القرآن بلطائف البیان"

تفسیر کلام الرحمٰن باہتمام شیخ احمد پسیرشیخ محی الدین غفر اللہ لہما تاجر کتب،بازار کشمیری ومالک مطبع احمدی لاہور صانہ اللہ تعالیٰ عن شرور الدنیا وآفاتِ یوم الدین۔

"درمطبع احمدی واقع لاہور مطبوع گردید"

اللہ صحت وعافیت عطافرمائے حضرت مولانا عبد الجمید مدّظلہ العالیٰ(حال وذیر آباد،جو حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی عحمۃ اللہ علیہ کے چھوٹے بھائی ہیں)کو،جن کی شفقت پدری اور علم پروری کےطفیل،نواب صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر تک رسائی ہوئی۔انھوں نے فیصل آباد کے کسی دوس سے2/1*2ہزار روپے میں خرید کر ہماری جھولی میں ڈال دی دل کی گہرائی سے نکلتی ہےکہ اللہ حضرت مولانا عبد المجید صاحب مدظلہ العالیٰ کو علم وفضل،اہل وعیال،مال ودولت اور عمر میں برکت عطافرمائےاور انہیں اپنے حفظ و امن میں رکّھے تاکہ وہ اپنی آرزو کو اپنی آنکھوں سے دوبارہ نئی صورت میں جلوہ گردیکھ سکیں۔حقیقت میں انہی کی علمی تڑپ نے ہمیں رغبت دلائی کہ نواب صدیق حسن خاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے اس گراں مایہ علمی کارنامے کوگوشہ گمنامی سے نکال کر ہرگھر کی زینت بنایاجائے۔اور یہ تفسیر اردو دان طبقہ کیلیے سرمایہ حیات بن جائے!

یہ حقیقت ہے"ترجمان القرآن"قرآن وسنت کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے۔جب انسان اس کے مطالعہ میں محو ہوجاتا ہے تو اُسے وہی سرور نصیب ہوتا ہے جو ایک ماہر تیراک کو سمندر کے سینے پر اس وقت کشتی رانی سے میسر آتا ہے جب سمندر کی لہریں چودھویں رات کی کشش سے بپھری ہوتی ہیں۔مقامِ افسوس فقط یہ ہے کہ پاکستان میں اَب تک اس دفینہ اور خزینہ کی طرف اہلِ علم کی نظریں کیوں نہ اٹھیں؟محققین اور طالبانِ قرآن وسنت اس سے بے نیاز کیوں رہے؟خصوصاََ جماعتِ اہل حدیث کے احباب اور اربابِ اختیار کو یہ دولت مفت لٹانی چاہیے تھی مگر:

ع اےبساآرزو کہ خاک شدہ


نئی نئی کتابوں کی نسبت اگر اسلاف کے ایسے گرانمایہ اور قابلِ قدر کارناموں کو صرف لوگوں کے دروازوں تک پہنچانے کا سامان کردیا جتا تو پھر بھی احبابِ جماعت اپنے اس حق سے سبکدوش ہو سکتے تھے جو مسلکِ سلف کے اعتبار سے ان کے لیے وبالِ دوش تھا۔

"ترجمان القرآن"کے مقدمہ میں خود نواب صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر لکھنے کا مقصد بیان کیا ہے۔اُن کا نقطہ نظر یہ ہےکہ جب تک قرآنِ مجید کے معانی سمجھنے کی کوشش نہیں کی جائے گی قرآن سے ہمارا استفادہ نامکمل ہوگا۔نواب صاحب رقمطراز ہیں:

"۔۔۔۔۔جو شخص معانی سمجھ لےگاتو قرآن پر عمل بھی کرے گا،کیونکہ بے سمجھے معنی کے عمل نہیں ہوسکتا۔بڑی شرم کی بات ہےکہ سارا قرآن تو حفظ ہو نوکِ زبان پر،طوطے کی طرح رات دن اس کو رَٹے،مگر معانی اس کو معلوم نہ ہوں۔"( مقدمہ ترجمان القرآن ص 18)

قرآنِ مجید کتابِ عمل ہے،کتابِ ہدایت ہے۔ہدایت اور عمل کا تعلق کسی چیز کے سوچ سمجھ کر پڑھنے سے ہے۔نواب صاحب رحمۃ اللہ علیہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ،ان کے فرزندِ ارجمند شاہ عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ اور اُن کے دوسرے لختِ جگر عبدالقادر شاہ رفیع الدین رحمۃ اللہ علیہ کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں جنہوں نے برّصغیر میں قرآن کے نور کو پھیلانے کیلئے فتح الرحمٰن(فارسی ترجمہ قرآنِ مجید)"تفسیر عزیزی"اور"موضح القرآن"کے ذریعے قرآن فہمی کا لوگوں کو شعور بخشا۔مگر نواب صاحب رحمۃ اللہ علیہ کاخیال ہے کہ اردو دان طبقہ کے لیے ایک تفصیلی تفسیر کی ضرورت تھی۔جس کے لیے میرے احباب مجھ پر اکثر دباؤڈالتے رہتے تھے۔قرآن وسنت کی اشاعت کے اسی جذبہ نے آخر کار ایک تحریک کی صورت اختیار کرلی اور نواب صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے رمضان المبارک سئہ1302ءکی ساعات سعید میں کاغذ قلم سنبھالا،بس پھر کیا تھا علم وفضل کے سوتے پھوٹ نکلے،الفاظ موتیوں کی صورت نظم ہونے لگے۔قرآن وسنت کی مئے صافی لنڈھانے کا اہتمام ہورہاتھا۔تشنگانِ راہِ حق کے لیے سلف صالحین کے پیمانوں میں شرابِ طہور کے جام انڈیلے جا رہے تھے۔خود نواب صاحب رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:۔

اس تفسیر میں ترجمہ آیتوں کا مع فوائد کے"موضح القرآن"سے لیا ہے،باقی مطالب تفسیر حافظ ابن کثیر،تفسیر فتح البیان،اورتفسیر قاضی محمد بن علی شوکانی(فتح القدیر)سےلےکرلکھے ہیں۔۔۔۔اس تفسیر سے یہ غرض ہے کہ عامہ اہل اسلام اپنی بولی میں اللہ کا کلام سمجھیں قرآن شریف کا مطلب بوجھ لیں۔اس سبب سے جو باتیں علمی تھیں،جنکو عام لوگ نہیں سمجھ سکتے،جیسے مسئلے علم صرف ونحو،معانی،بیان قرات وغیرہا کے،وہ اس تفسیر میں نہیں لکھے،فقط مقصود کتاب اللہ پر اکتفا کیا گیا۔جو تفسیر قرآن شریف کی حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا صحابہ رضی اللہ عنہم یا تابعین رحمۃ اللہ علیہم یا تبع تابعین رحمۃ اللہ علیہم یا لغتِ عرب سے ثابت ہے۔وہی اس تفسیر میں لکھی گئی ہے،کیونکہ جیسا مطلب اللہ کے کلامِ پاک کا،رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اور اہلِ قرونِ ثلاثہ مشہود لہا بالخیر سمجھتے تھے ویسا مطلب کوئی عالم بیان نہیں کرسکتا۔"( مقدمہ ترجمان القرآن ص 374)

نواب صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے قرآنِ مجید عربی زبان میں نازل ہوا۔اس لیے اہل ہند کو اس کا سمجھنا محال تھا اس لیے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے"فتح الرحمٰن"کے نام سے سب سے پہلے فارسی زبان میں ترجمہ کیا۔اس کے بعد شاہ عبد القادر رحمۃ اللہ علیہ نے اردو زبان میں ترجمہ کیا۔جس طرح فارسی ترجمہ سے اہل علم نے فائدہ اٹھایا یا اس طرح ترجمہ سے مسلم اہل ہند کو بڑا فائدہ ہُوا۔نواب صاحب رحمۃ اللہ علیہ غرض وغایت کے بارے میں خود لکھتے ہیں:

"اس لیے مدت سے ایک جماعت اہلِ دین کی مجھ سے یہ بات کہہ رہی تھی کہ تم اردو زبان میں ایک تفسیر لکھ دو جو نہ بہت لمبی چوڑی ہو نہ مختصر ہو بلکہ متوسط وسط ہو۔قرآنِ پاک کا مطلب سمجھادے،کم علموں کو ہدایت کا رستہ بتا دے،مجھ کو اتنی فرصت کہاں تھی کہ مین اس کام کا ارادہ کرتا۔لیکن جب تقاضا زیادہ ہوا،تو چاروناچار غرّہ رمضان سئہ1302ءروزدوشنبہ سے میں لکھنا اس تفسیر کا شروع کیا۔"موضح القراٰن"کو اُس کے مؤلف نے سئہ1205ءمیں لکھا تھا،جس کو تین کم سو برس ہُوئے وہ ترجمہ تھا اب یہ تفسیر ہے۔ترجمہ آیتوں کا مع فوائد"موضح القرآن"سے لیا ہے۔۔۔۔عبارت" موضح القرآن"کو مطابق روزمرّہ حال کے کرلیاہے۔اس لیےکہ تین کم سوبرس کی مدت میں بعض محاورے اردو زبان کے بدل گئے ہیں۔۔۔۔۔۔

بہرحال اس تفسیر کواردو زبان میں بہت سہل اور آسان کرکے لکھا گیا ہے اس کا تاریخی نام"ترجمان القرآن بلطائف البیان"( مقدمہ ترجمان القرآن ص 2،3،4) رکھا ہے۔"

اتفاق ملاحظہ ہو"موضح القرآن"نواب صاحب سے ستانوے97سال قبل لکھی گئی۔جس کی زبان انہیں سلیل بنانی پڑی۔یہی معاملہ آج کے قاری کو نواب صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر کے ساتھ درپیش ہے۔نواب صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر سئہ1302ءمیں لکھی گئی۔نواب صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کا سن سئہ1307ءہے۔آج سئہ1408ءکا سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا ہے گویا نواب صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے بعد پوری ایک صدی اس تفسیر پر بیت چکی ہے۔اگر کتاب کے سنِ آغاز کو لیا جائے تو"ترجمان القرآن"پرایک سوچھ106سال پورے ہوچکے ہیں۔مسئلہ آج پھر یہ درپیش ہےکہ نواب صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے جو زبان اپنے دور میں استعمال کی اُسے بھی سلیل بنانے کی ضرورت ہے اس لیے کہ عام اردو دان طبقہ کیلئے اس کا پڑھنا محال ہے۔پھر جو کتابت کے لیے رسم الخط اختیار کیا گیا ہے وہ بھی متروک ہو چکا ہے۔ہم زبان اور رسم الخط کی صرف ایک مثال پیش کریں گے۔تاکہ قارئین کو اندازہ ہوسکےکہ کیسی مشکل زبان،گنجلک ترکیبیں،پیچیدہ بندشیں اور محاورات استعمال کئے گئے ہیں۔جو اگرچہ نواب صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ میں"بہرحال اس تفسیر کو اردو زبان میں سہل اور آسان کرکے لکھا گیا ہے۔"اس دور کی سلیس زبان ہی ہوگی۔مثال ملاحظہ ہو:

"انسان کا حال بدرالخلق سے موت تک کیفیتِ موت وقبض روح کے ذکر کیا ہے۔پہریہ بیان کیا ہےکہ بعدعودِ روح کے طرف آسمان کے کیا ہوتا ہے۔مؤمنین کے لیے فتحِ باب کرتے ہیں اور کفار کو اُوپر سے نیچی گرادیتے ہیں۔عذابِ قبر،سوالِ قبر،مقرِّ ارواح،اشراط ساعت کبرےٰ کا الگ ذکر ہے۔یہ دس علامتیں ہیں۔نزول عیسے،خروج دجال،ظہور یاجوج وماجوج،سیردابۃالارض،دخان،رفع قرآن،طلوعِ شمس ازمغرب،بند ہونا دروازہ توبہ کا،ہونا خسف کا احوالِ بعث جیسے نفخِ صور واسطے نزع وصعق کے،دوسرا نفخ واسطے بعث وحشرونشرکے،اہوال موفق کا،شدت حرارت آفتاب کی،سایہ عرش کا،صراط،میزان،حوض،حساب،ایک قوم کا بےحساب ہونا،دوسری قوم کا معذب ہونا،گواہی اعضاءکی،دنیا کتاب دائیں یابائیں ہاتھ میں یاپسِ پشت سے،ذکر شفاعت وجنت کا اورجو کچھ جنت میں ہوگا جیسے ابوابِ ہشت گانہ،انہار واشجار،زیور،ظروف،درجات،روئیت الہٰی،ذکرنارکااور جو کچھ نارمیں ہے۔انواع ادویۃ وعقاب واقسامِ عذاب جسپرزقوم وحمیم وغسلین وغیرذلک ان سب کا حال اگربطریقِ بسط لکھاجاوےتو کئی مجلد میں آوے۔"(مقدمه ص:10)

اقتباس میں کہیں قومہ نہیں،کوئی فل سٹاپ نہیں،فقرےکاتسلسل کہاں ٹوٹتا ہے،کہاں سے دوسرا فقرہ شروع ہوتاہے۔نئے پیرے کاآغاز کہاں سے ہوتاہے،کوئی سرخی،کوئی عنوان،ساری کتاب میں نہیں۔اوپر والے اقتباس میں قومے،زیر زبر ہم نے خود لگائے ہیں کہ قارئین مفہوم تو سمجھ لیں۔جہاں خط کشیدہ الفاظ ہیں۔یہ اس رسم الخط کو نمایاں کرتےہیں"پھر"کو"پہر"لکھاگیاہے"کبریٰ"کو"کبرے"اس کو"اوس"انھوں کو"اونہوں"چھوڑ کو"چہوڑ"اُکھیڑ کو"اکہیڑ"اور پھینک دے کو"پہینکدے"لکھا گیا ہے۔ادبی نقطہ نظر سے،عربی معانی ومفہوم کے اعتبار سے عبارت بڑی زوردار،باوجود اتنی زبان پرانی ہونےکےپھر بھی زبان کا اپنا ایک حُسن ہے۔بہت سے جملے آج کی بالکل تازہ،سادہ اور فصیح وبلیغ زبان کی جابجانمائندگی کرتے ہیں۔

تفسیر کے جستہ جستہ مقامات دیکھنے کے بعد اندازہ ہوتاہےکہ ہم بڑی مدت اس گراں مایہ دولت سے محروم رہے۔صبح کا بُھولا اگر شام کو گھر آجائے تو اُسے بھولا نہیں کہتے۔اگر برصغیر میں یہ تفسیر بارپاجاتی تو اردو دان طبقہ کو آج ابنِ کثیر،فتح القدیر اور فتح البیان وغیرہ تفاسیر کے اردو ترجمے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی۔تفسیر بالقرآن،تفسیر بالحدیث کے ساتھ ساتھ نواب صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے آثار صحابہ رضی اللہ عنہم تابعین رحمۃ اللہ علیہم اور تبع تابعین رحمۃ اللہ علیہم کے اقوال سے تفسیر کو مزین کیاہے۔فقہی مسائل بھی زیرِ بحث لائے ہیں۔

مختلف فقہاءکا نقطہ نظر بیان کرنے کے بعد اپنی ترجیحی رائے بھی دی ہے۔احادیث کے صحیح و سقیم کا حال بھی دیا ہے۔اکثر وبیشتر احادیث کی تخریج کتبِ احادیث کے لحاظ سے نقل کی ہے۔مستند تاریخی واقعات قلمبند کئے ہیں۔اصلی مآخذ سے رجوع کرتے ہُوئے یہ بھی ضبط کیا ہے سچ کتناہے،جھوٹ کتناہے،مبالغہ اور دروغ گوئی کا کتنا عنصر ہے سورہ فاتحہ میں﴿ إِيّاكَ نَعبُدُ وَإِيّاكَ نَستَعينُ ﴿٥﴾... سورة الفاتحه کی تفسیر میں"استعانة بغير الله"پر بحث کرتے ہُوئے واقعہ نقل کیا ہے کہ جب والئ دمشق تاتاریوں کے خلاف جہاد میں مصروف تھا تو اس نے"يا خالدبن وليد"کہا۔شیخ السلام ابنِ تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ خود شریکِ جہاد تھے۔انہوں نے فرمایاتُو یہ کہتا ہے"یوں کہہ:"يَا مَالِكِ يَومِ الدِّيْنِ إِيّاكَ نَعبُدُ وَإِيّاكَ نَستَعينُ ﴿٥"اس نے فتح بخشی۔یہ برکت اس کو کلمہ توحید عبادت،تفرید استعانت سے نصیب ہوئی۔( ترجمان القرآن ص 29)

غرض قرآنِ مجید کی ایک بیمثال اور نادر تفسیر تادمِ تحریر نظروں سے اوجھل رہی۔سلف صالحین کےمسلک پراس سے بہتر اردو تفسیر ڈھونڈنا ناممکن ہے۔

"وما توفيقنا الا بالله العلى العظيم"