تورات،زبور،انجیل،قرآنِ مجید

بلاشبہ تورات،زبور،انجیل اور قرآنِ مجید چاروں الہامی وآسمانی کتابیں ہیں۔خالقِ کائنات نے انہیں مختلف عہود میں اپنے جلیل القدر اور عظیم المرتبت پیغمبروں،حضرت موسیٰ علیہ السلام،حضرت داؤدعلیہ السلام،حضرت عیسیٰ علیہ السلام اورامام الانبیاءحضرت محمد المصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم پربالترتیب نازل فرمائیں۔ان کی آمد کا اوّلین مقصد بنی نوع انسان کی فلاح وبہبود،رشدوہدایت اور مالک الملک سے تعلق کی استواری،دین اوردنیا میں طریق حق اورراہِ نجات کی راہنمائی۔ان پر عامل کیلئے دنیوی و اُخروی نعمتوں کی فراوانی کی بشارتیں اور اس کے برعکس پرسخت عذابِ الہٰی کی وعید تھا۔اسی حیثیت سے ان پر یقین واعتقاد رکھنا ہر ذی روح بشر پرواجب ہے۔اگر کوئی شخص جملہ کتب میں سے کسی ایک کا بھی انکاری ہے یا اس کے مُنزّل من اللہ ہونے میں اس کو تردد لاحق ہے تو بلاشبہ وہ کافر ہے۔روزِ محشر اس کی نجات ناممکن اور محال ہے۔

مشہور حدیث مسمیٰ حدیثِ جبریل علیہ السلام میں ایمان بالرسل وللکتب کو ایمانیات کا ایک اہم جز قرار دیا گیا ہے۔اگرچہ ان کے علاوہ بھی بہت سارے صحیفے اور کتابیں مختلف اوقات میں دیگر نبیوں اور رسولوں پر اترے اور ان کی تصدیق کرنا اور برھق سمجھنا فی الجملہ واجب ہے چونکہ وہ اس وقت ہمارے موضوعِ بحث سے خارج ہیں اس لیے اُن سے صرفِ نظر کرتا ہُوا،اس فرصت میں مذکورہ بالا کتبِ اربعہ پر توجہ مرکوز کرتا ہوں۔

واضح ہو کہ یہودی لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ماسوا دیگر دونوں نبیوں کی نبوت کے انکاری ہیں۔اورعیسائی قوم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور قرآنِ مجید کو الہامی کتاب تسلیم کرنے سے باغی ہیں۔لہذا دونوں گروہ مذکورہ حکم کی زدمیں ہیں جبکہ قرآنِ حکیم میں تصریح موجود ہےکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام عام اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت تمام اہل زمین کی طرف ہے ارشاد باری تعالےٰ ہے﴿ قُل يـٰأَيُّهَا النّاسُ إِنّى رَ‌سولُ اللَّهِ إِلَيكُم جَميعًا... ﴿١٥٨﴾... سورة الاعراف یعنی(اےمحمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کہہ دوکہ لوگو!میں تم سب کی طرف اللہ کا بھیجا ہُوا رسول ہوں۔دوسری جگہ فرمایا﴿ وَما أَر‌سَلنـٰكَ إِلّا كافَّةً لِلنّاسِ بَشيرً‌ا وَنَذيرً‌ا...﴿٢٨﴾...سورة سبا:اےمحمّد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم نے تم کو تمام لوگوں کے لیے خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بناکر بھیجا ہے۔یہ وہ عظیم بشارت ہےکہ ختم الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے قبل کسی بھی نبی کے حصّہ میں نہ آسکی بلکہ جملہ انبیاءکرام سے وعدہ لیا گیا تھا۔﴿لتؤمنن به ولتنصرنه﴾اس پرایمان لانا ہوگا اور ضرور اس کی مدد کرنی ہوگی۔لطف یہ ہےکہ اللہ جل جلالہ نے رُوئے زمین پر دیگر اقوام کی نسبت صرف امّتِ مسلمہ ہی کو یہ اعزاز واکرام بخشا ہےکہ اُس نے ہرنبی کی عزت وتوقیر کو پورے خلوص اور صحیمِ قلب سے فرضِ اوّلین سمجھا ہے۔یہاں تک کہ ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مناقب ومحاسن مقابلتاََ بیان کرنے سے منع فرمایا ہے۔جس سے کسی نبی کی توہین وتنقیص کا پہلو نکلتا ہوفرمایا"لا تخيرونى بين الانبياء"۔اس مسلّمہ امر کے باوجود کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رتبہ ومقام جملہ کائنات سے اعلیٰ وارفع ہے۔

اسناد کی اہمیّت:اس بناءپرآج کےدور میں اگر کسی کو سابقہ انبیاءعلیہم السلام اوران کے امتیوں کے صحیح واقعات وحوادث تک رہنامئی ورسائی مقصود ہوتواس کا واحد ذریعہ رسول الثقلین صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ہیں جوکتاب وسنت کی صورت میں ہمارے ہاں محفوظ ہیں۔

پھر تدوینِ حدیث وتحفظ میں تاریخ کے سلسلہ میں مسلمانوں کی گرانقدر خدمات رہتی دنیا تک روزِ روشن کی طرح عیاں رہیں گی۔دراصل مسلمانوں کی عظمت وترقی وعروج کا راز صرف اس بات میں مضمر تھاکہ خالق نےان کو سند جیسی نعمت سےبہرہ ور اوراس کی افادیت سے نوازا تھا یہ وہ شئی ہے جس بنا پر مسلمان جملہ اقوامِ عالم میں ممتاز حیثیت کے ھامل ہیں۔مقدمہ"صحیح مسلم رحمۃ اللہ علیہ"میں مشہور محدث عبد اللہ ابن المبارک رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے:"الاسناد سلاح"یعنی سندمومن کا ہتھیار ہے۔سند کو پرکھنے کی خاطر محدثینِ عظام کی کاوشیں بےحد قابلِ قدرہیں۔انھوں نے تراجم ورجال کے موضوع پر مستقل کتابیں تصنیف کیں۔جن میں لاکھوں راویوں کے حالات مدوّن ہیں جو کرامت سے کم نہیں پھر تعجب خیز بات یہ ہے کہ قدماءکو اسانید الحدیث اور متون الحدیث سب ازبرتھے۔برض محدث تو اس زمانے میں کتابتِ حدیث کو پسنت نہیں کرتے تھے کہیں ایسا نہ ہو کہ کتابوں کی وجہ سے لوگوں کی حافظے میں کمی پیدا ہوجائے۔یعنی کتابوں پراعتماد کرکےحفظ کرناترک کردیں۔ایسی بھی مثالیں موجود ہیں کہ بسااوقات ان کے حافظے ماور کتاب میں بھی تعارض پیدا ہوجاتا تھا جس پران کو کہنا پڑتا:فلاں بات کتاب میں یوں ہے اور میرے حافظے میں اس طرح،اس کی مثال سنن ابوداؤدکی"کواب الطہارت"میں موجود ہے"ان شئت فراجعها"علامہ صنعانی رحمۃ اللہ علیہ نے"سبل الاسلام"کے اوائل میں صراحت کی ہےکہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کو اتنی کتابیں زبانی یادتھیں کہ انہیں بارہ12اونٹ بمشکل اٹھا سکتے تھے۔

الغرض محدثین نے اپنی اپنی تصانیف میں ہرراوی کےبارے میں حتی المقدور وافرمعلومات جمع کرنے کی سعی کا التزام کیا تاکہ مجموعی صورتِ حالات سے نتیجہ اخذ کیا جاسکے کہ یہ راوی کس درجہ کا ہے اسی اعتبار سے حدیث پر صحت وضعف کا حکم لگایا جاتاہے۔مزید آنکہ علماءکااس بارے میں اختلاف ہےکہ متاخرین کو کسی حدیث کے صحیح یاضعیف کہنے کا اختیار ہےیانہیں؟امام ابن الصلاح رحمۃ اللہ علیہ نے"علوم الھدیث"کے شروع میں صراحت کی ہے کہ متاخرین کو یہ ھق نہیں بلکہ ائمہ محدثین نے اپنی اپنی تصانیفِ معتبرہ میں جو تصریح کی ہے اسی پر اکتفاءکی جائے گی۔البتہ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے ہم خیال اصحاب نے اس بات کی تردید کی ہےاسی بنا پرامام نووی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے ہم خیال اصحاب جیسے قطان،ضیاءمقدسی،حافظ منذری اور دمیاطی وغیرہ نے احادیث پر صحت اور ضعف کا حکم لگایا ہے۔

استاذی المکرم محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں:"لیکن اس مقام پر تھوڑی سی تفصیل ہے وہ یہ کہ جس حدیث کے متعلق ائمہ محدثین نے تصریح کردی ہے اس میں متاخرین کو دخل نہیں ہوسکتا اور جس حدیث کے صحت وضعف میں ائمہ محدثین کا اختلاف ہے اس میں متاخرین کو اصولِ حدیث کے تحت ترجیح کا حق حاصل ہے اور اگر کسی حدیث کے متعلق آئمہ محدثین سے کوئی حکم نہیں ملاتووہاں متاکرین کو اصولِ حدیث کے تحت تصحیح وتضعیف کا پُورا حق حاصل ہے۔"(مظہر النکات شرح المشکوۃ قلمی)

راقم الحروف یہ کہتا ہےکہ ائمہ محدثین کی شروطِ معتبرہ کے تحت اگر آج بھی کوئی محدث احادیث کی اسانید کی تحقیق کرتا ہے تو اس میں آخر کیا حرج ہے بشرطیکہ اس میں ابتداع کی بجائے اتباع کا پہلو ملحوظِ خاطر ہو،آج کے دور میں شیخناالمکرم علّامہ ناصرالدین البانی حفظہ اللہ محدث العصر کی مؤلفات میں ایسی امثلہ موجو ہیں ان میں سے ایک مثال"حدیث التعجین"ہے(ملاحظہ ہوإرواه الغليل کتاب الصلوٰۃ)جبکہ محقق العصر علامہ عبید اللہ مبارکپوری حفظہ اللہ کی مایہ ناز"شرح مرعاۃ المفاتیح"میں بھی اس کی جھلک موجودہے۔

نیز علّامہ ملّاں علی قاری رحمۃ اللہ علیہ"مرقاۃ"مذکورہ کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے فرماتےہیں:یہ ایسے ہی ہے جیسے بعض نے متاخر زمانہ میں اجتہاد کی اجازت نہیں دی۔تاکہ نااہل لوگ کتاب وسنت کو کھیل نہ بنالیں۔

لیکن مصنف"مرقاۃ"کا یہ قول محلِ نظر ہے کیونکہ ھدیث پر صحت ضعف کی بحث روایات کی قبیل سے ہے جو تاریخ کا حصّہ ہے بخلاف اجتہاد کےکہ یہ ورایت کی قسم ہے۔اسی شئی کے پیشِ نظر ابو المؤرخین امام طبری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی شہرہ آفاق تاریخ میں ہر واقعہ مع اس کی سند کے بیان کیا ہے۔اور اسانید کی تحقیق کو قاری پر چھوڑ دیا ہے۔امام طبری رحمۃ اللہ علیہ کا مشہور قول ہے:"من اسندلك فقد برئ"یعنی جو کسی شئی کی سند ذکر کردیتاہے وہ بَری الذّمہ ہے۔افسوس صدافسوس،آج کے پُر فتن دور میں بعض لوگوں نے حدیث کی چھان بین کے سلسلے میں اس کی اسنادی حیثیت سے صرفِ نظر کرتے ہُوئے صرف اپنے ذوق ہی کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے۔وہ لوگ سخت غلطی اور توہمات میں مبتلا ہیں اسی بے راہروی کا نتیجہ ہےکہ ان حضرات کے ہاں بسااوقات موضوع و من گھڑت روایات بھی صحت کا درجہ حاصل کر لیتی ہیں۔"انا لله وانا اليه راجعون"

المختصر واقعات وحوادث کی اسنادی حیثیت کو محفوظ رکھنا اہلِ اسلام کا عظیم کارنامہ ہے۔جبکہ یہود ونصاریٰ کی بےبضاعتی اس سلسلہ میں اظہر من الشمس ہے۔

یہی وجہ ہےکہ یہ لوگ اپنی تواریخ کا ضبط تو کجا اپنی آسمانی کتابوں کو بھی اصل شکل وصورت میں محفوظ نہ رکھ سکے۔

ان لوگوں کے لیے اپنے صحیح واقعات تک پہنچنے کا اگر کوئی قابلِ اعتماد واسطہ باقی ہے تو وہ صرف مسلم مؤرخین کی گراں قدر خدمات ہیں۔اللہ قبول فرمائے۔آمین۔

(جاری ہے)