انکار حدیث و سُنّت
برصغیر میں فرنگی استعمار نے مسلمانوں کے"جذبہ جہاد"پر کاری ضرب لگانے کیلیے"تجدید نبوت"کی صورت میں"آنجہانی غلام احمد قادیانی"کے ذریعے"تفریق دین"کا جو منصوبہ بنایا تھا،اسی کی تکمیل کے لیے مستشرق ہندی"مسٹر غلام احمدپرویز"کے ہاتھوں"جدید اجتہاد"کے دعویٰ سے نئے طلوعِ اسلام کا کھیل رچایا ہے۔دونوں غلامانِ احمد کا قدرِمشترک حدیث و سنت میں تشکیک پیدا کر کے اپنے اسحاد و زندقہ کو فروغ دینا ہے۔پہلے نے"بروزی نبوت"کے دعوے سے"تعمیر نو"کا چکر چلایا تھا،تو دوسرے نے"مرکز ملّت" کی اصطلاح پیش کر کے ہر مسلمان حکومت کے لیے"تجدید رسالت"کا فتنہ کھولا۔اس طرح دونوں نے اپنے آقائے ولی نعمت کے مقاصد کی تکمیل کے لیے"اللہ اور اس کے رسول"میں تفریق کا وطیرہ اختیار کیا۔قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی نقاب کشائی ان الفاظ میں کی ہے ارشاد ہے:
﴿إِنَّ الَّذينَ يَكفُرونَ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيُريدونَ أَن يُفَرِّقوا بَينَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيَقولونَ نُؤمِنُ بِبَعضٍ وَنَكفُرُ بِبَعضٍ وَيُريدونَ أَن يَتَّخِذوا بَينَ ذٰلِكَ سَبيلًا ﴿١٥٠﴾ أُولـٰئِكَ هُمُ الكـٰفِرونَ حَقًّا وَأَعتَدنا لِلكـٰفِرينَ عَذابًا مُهينًا ﴿١٥١﴾... سورة النساء
ترجمہ:جو لوگ خدا سے اور اس کے پیغمبروں سے کفر کرتے ہیں۔اور خدا اور اُس کے پیغمبروں میں فرق کرنا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بعض کو مانتے ہیں اور بعض کہ نہیں مانتے اور ایمان اور کفر کے بیچ میں ایک راہ نکالنی چاہتے ہیں۔
وہ بِلا اشتباہ کافر ہیں اور کافروں کے لیے ہم نے ذلّت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔
اسی طرح رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مندرجہ بالا قرآنی آیت کے ایک مصداق کا ذکر اپنے ایک ارشاد میں وضاحت سے پیش کیا ہے جس کی آنجہانی غلام احمد پرویز اور اس کے فرقہ بندوں کو بڑی تکلیف ہے چنانچہ وہ اس حدیث پاک کو مشکوک قرار دینے کے لیے اس کے ایک ٹکڑے«اوتيت القرآن ومثله ومعه»پر کئی طرح کے اعتراضات جڑنے کی ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں۔طلوعِ اسلام نے اپنی مارچ،اپریل سئہ1989ءکی مشترکہ اشاعت میں اس حدیث پر بھی طبع آزمائی کی ہئ۔اگرچہ مضمون نگار کا ذکر نہیں کیا گیا لیکن آخر میں﴿والسلام على من ابتع الهدىٰ﴾کے الفاظ مخصوص قادیانی ذہن کی عکاسی کر رہے ہیں کیونکہ مرزا غلام احمد قادیانی کی یہ عادت تھی کہ وہ اپنی جعلی نبوت کی دھاک بٹھانے کے لئے اپنے مخاطبین کو اسی انداز کے جملوں سے اپنی دعوت دیا کرتا تھا۔بہر صورت ان دونوں نام کے غلامان احمد کو احمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی کے سوا سب کچھ منظور ہے جب کہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے اسی غلامی کو ایمان کی بنیاد قرار دیا ہے اگر کوئی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب کچھ مان کر"معراج انسانیت"کیوں نہ قراردے لےلیکن آپ کے خاتم المرسلین ہونے کا قائل نہ ہو تو اس نے کچھ نہ مانا یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالےٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالتِ کاملہ کا ذکر کلمہ حصر سے کیا ہے۔﴿وَما مُحَمَّدٌ إِلّا رَسولٌ﴾... سور ةآل عمران (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف رسول ہیں) گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وصف رسالت اتنی کامل ہے کہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جملہ صفات کا احاطہ کر لیا ہے۔اس لیے اسی پر ایمان کی ضرورت ہے اور وہ کافی ہے۔
آپ کی اس وصفِ رسالت کا تقاضا ہے کہ قرآن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کہنے کے بموجب کلامِ الہٰی قرار پایا ورنہ کس نے اللہ سے یہ کلام سنا یا اس کے دل پر اُس کا نزول ہوا؟رسول کے کہنے سے ہی ہم اسے کتاب اللہ مانتے ہیں اور چونکہ اس کا نزول تئیس23سال کے عرصہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں رفتہ رفتہ ہُوا ہے اسی لیے ملتِ اسلامیہ کے گلے کا یہ ہار سنت کی لڑی میں ہی قرآنی جواہرات سے تکمیل پایا ہے۔دراصل جن لوگوں کو کتاب و سنت کی باہمی مناسبت سے چڑ ہے انہیں قرآن و حدیث کی غیریت و تفریق ثابت کرنے کی ہر وقت فکر دامن گیر رہتی ہے اور وہ من مانی تعبیروں سے انہیں باہمی متعارض بنانے کی سعی لاحاصل کرتے رہتے ہیں حالانکہ کتاب و سنت شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دوسرا نام ہے دونوں کا فرق صرف اعتباری ہے یعنی"کتاب"میں الفاظِ الہٰی کا لحاظ ہے تو سنت میں مراد الہٰی کا،یعنی مرادِ الہٰی سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شکل میں پیش ہوئی۔اگر دونوں کا یہ تعلق پیش نظر رہے تو اس امر کا مغالطہ ہی نہیں ہوتا کہ قرآن کے علاوہ سنتِ رسول وحی الہٰی کیسے ہے؟اللہ تعالےٰ نے دونوں کو تنزیلِ وحی قرار دیا ہے،ارشاد ہے:
﴿وَأَنزَلَ اللَّهُ عَلَيكَ الكِتـٰبَ وَالحِكمَةَ ...﴿١١٣﴾... سورة النساء
یعنی اللہ تعالیٰ نے تجھ پر کتاب اور حکمت(سنت)نازل کی۔
ان واضح قرآنی ارشادات کے باوجود منکرین حدیث کی طرف سے جو اعتراضات اٹھائے گئے ہیں،ان پر"محدث"کی مجلسِ تحریر کے ایک رکن مولانا محمد رمضان سلفی کا تبصرہ فکر و نظر کے کالموں میں ہدیہ قارئین ہے۔(ادارہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منکرینِ حدیث جس طرح قرآنِ کریم کی پُوری آیت درج کرنے کی بجائے اس کے کچھ حصّے کو حسبِ منشا اپنے حق میں استعمال کرلیا کرتے ہیں۔بعینہ ہی انہوں نے حدیث"مثله معه"سے کیا ہے۔اور اس
حدیث کو مکمل ذکر کرنے کی بجائے اس کے ایک جملے کو لے کر اعتراض کر دیا ہے۔انہیں ایسا کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آتی ہے کہ افکارِ حدیث کے بعد ان چیزوں کی حرمت و ممانعت قرآن سے ثابت کرنا ان کے لیے دشوار ہے جن کے کھانے اور استعمال میں لانے کی تحریم اس حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ذکر ہُوئی ہے،چنانچہ یہی حدیث کتبِ حدیث میں یوں ذکر ہوئی ہے۔
«عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِيكَرِبَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ قَالَ " أَلاَ إِنِّي أُوتِيتُ الْكِتَابَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ أَلاَ يُوشِكُ رَجُلٌ شَبْعَانُ عَلَى أَرِيكَتِهِ يَقُولُ عَلَيْكُمْ بِهَذَا الْقُرْآنِ فَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَلاَلٍ فَأَحِلُّوهُ وَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوهُ أَلاَ لاَ يَحِلُّ لَكُمْ لَحْمُ الْحِمَارِ الأَهْلِيِّ وَلاَ كُلُّ ذِي نَابٍ مِنَ السَّبُعِ وَلاَ لُقَطَةُ مُعَاهِدٍ إِلاَّ أَنْ يَسْتَغْنِيَ عَنْهَا صَاحِبُهَا وَمَنْ نَزَلَ بِقَوْمٍ فَعَلَيْهِمْ أَنْ يَقْرُوهُ فَإِنْ لَمْ يَقْرُوهُ فَلَهُ أَنْ يُعْقِبَهُمْ بِمِثْلِ قِرَاهُ »(سنن ابى داؤو.باب لزوم السنة)
حضرت مقدام بن معدی کرب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں،کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:یاد رکھیں،مجھے قرآنِ کریم اور اس جیسی حدیث دونوں دیئے گئے ہیں۔خبردار رہیئے!کیونکہ عنقریب بِپھرا ہُوا شخص اپنے پلنگ پر ٹیک لگائے ہُوئے کہے گا کہ تم صرف قرآن ہی کو لازم پکڑو۔جو اس میں حلال ہو اسے حلال جانو،اور جو اس میں حرام ہو اُسے حرام سمجھو،خبردار!تمہارے لیے گھریلو گدھے کا کھانا حرام ہے اور چِیرنے پھاڑنے والے درندے بھی،کسی ذمّی کی گِری پڑی چیز کا اٹھانا بھی حلال نہیں۔سوائے اس چیز کے جس سے اس کا مالک بےنیاز ہو اور جو شخص کسی کے پاس مہمان ہو تو اس پر اس کی مہمان نوازی کرنا ضروری ہے۔اگر میزبان اپنا یہ فریضہ ادا نہ کرے تو وہ اپنی ضیافت کے بقدر وصول کرسکتا ہے۔
دیکھئے!اس حدیث«مثله معه»میں گھریلو گدھے اور تمام جنگلی درندوں کے کھانے کو حرام قرار دیا گیا ہے اور ان کی ممانعت قرآنِ کریم میں منصوص نہیں ہے،اسی لیے منکرینِ حدیث نے ایسی حرام چیزوں کو حلال،طّیب سمجھ کر استعمال کرنے والے کے لیے گنجائش پیدا کر دی اور یہ فتویٰ دے دیا کہ:
"مردار،بہتا ہُوا خون،﴿لحم خنزيز وما اهل﴾کے علاوہ کوئی شئی نہیں جسے خُدا نے حرام کیا ہو۔"
(تبویب القرآن،از پرویز:2/628)
یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ اعتراض کرنے والے کے لیے مذکورہ حدیث کے ایک جملے کو لے لیتے ہیں اور اس میں ذکر ہونے والے بقیہ محرمات کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔تاکہ ان کے ارتکاب میں لوگوں کو آزاد چھوڑا جا سکے۔اس مضمون میں دعویٰ انکارِ حدیث پر جتنے بھی دلائل نقل کئے گئے ہیں۔افسوس ہے کہ وہ اسے ثابت نہیں کرتے،بلکہ وہ سب،حدیثِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شرعاََ حجت ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔
سب سے پہلے ان دلائل پر ایک نظر ڈال لیں،جنہیں ان حضرات کی طرف سے پیش کیا گیا ہے۔
٭۔۔۔۔تعلیماتِ نبویہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پسِ پشت ڈال کر ﷺرآنی مطالب حسبِ منشا متعین کرنے کی تائید میں ان کی طرف سے سورۃ الانعام کی یہ آیت درج کی گئی ہے۔
﴿قُل أَىُّ شَىءٍ أَكبَرُ شَهـٰدَةً قُلِ اللَّهُ شَهيدٌ بَينى وَبَينَكُم وَأوحِىَ إِلَىَّ هـٰذَا القُرءانُ لِأُنذِرَكُم بِهِ وَمَن بَلَغَ...﴿١٩﴾... سورة الانعام
یعنی اے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ لوگوں سے کہہ دیں کہ سب سے بڑھ کر کس کی گواہی ہو سکتی ہے؟اور فرما دیں کہ میرے اور آپ کے درمیان اللہ تعالےٰ گواہ ہے اور میری طرف یہ قرآن وحی کیا گیا ہے تاکہ میں اس کے ذریعے آپ کو اور جن تک بھی اس کی دعوت پہنچے،آگاہ کر دوں۔اس آیت سے ان کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف رسولِ کریم کو صرف قرآن ہی دیا گیا ہے اور حدیثِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس میں کوئی ذکر نہیں لہٰذا وہ حجت نہیں۔
٭۔۔۔۔دوسری آیت جو انکارِ حدیث کی تائید کے لیے لکھی گئی ہے وہ بھی ملاحظہ ہو
﴿الرَّحمـٰنُ ﴿١﴾ عَلَّمَ القُرءانَ ﴿٢﴾... سورة الرحمٰن
یعنی خدائے رحمٰن نے(اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کو قرآن کی تعلیم دی ہے۔
منکرینِ حدیث کے خیال میں اس آیت میں بھی قرآنِ کریم کے علاوہ کسی چیز کا تذکرہ نہیں کیا گیا،اس لیے۔۔۔۔۔بقول ان کے۔۔۔۔حجت صرف قرآن ہی ہے۔
٭۔۔۔۔اس کے بعد پیش کی جانے والی آیت پر صاحبِ مضمون کی تعلیق سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ہاں حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بالخصوص حدیث«اوتيت القرآن ومثله متعه»کی تردید کیلئے جو آیت بڑی وزنی دلیل ہے وہ یہ ہے۔
﴿قُل لَئِنِ اجتَمَعَتِ الإِنسُ وَالجِنُّ عَلىٰ أَن يَأتوا بِمِثلِ هـٰذَا القُرءانِ لا يَأتونَ بِمِثلِهِ وَلَو كانَ بَعضُهُم لِبَعضٍ ظَهيرًا ﴿٨٨﴾ ... سورة الإسراء
یعنی اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،آپ لوگوں سے فرمادیں کہ اگر تمام جِنّ و انس اس قرآن جیسی کتاب لانے پر جمع ہو جائیں تو وہ اس کی مِثل نہیں لا سکتے اگرچہ وہ ایک دوسرے کی مدد بھی کریں۔
اس آیت پر تبصرہ کرتے ہوئے"طلوعِ اسلام"میں کہا گیا ہے:
"جب اللہ تعالےٰ دنیا بھر کے انسانوں اور جنوں کو یہ چیلنج دیتا ہے،کہ تم تمام مل کر بھی اس قرآن کی مثل نہیں لا سکتے تو آپ لوگ کون سے خُدا سے قرآن کیلیئے قرآن کی مثل قرآن کے ساتھ«مثله معه»لانے کا دعویٰ کرتےہیں۔"
٭۔۔۔۔بعد ازیں منکرینِ حدیث کی طرف سے انکارِ حدیث کے لیے"صحیح مسلم"کی یہ حدیث بھی نقل کی گئی ہے"
«لاَ تَكْتُبُوا عَنِّي وَمَنْ كَتَبَ عَنِّي غَيْرَ الْقُرْآنِ فَلْيَمْحُهُ»
ان مذکورہ آیات کو جب آپ غوروفکر سے سمجھنے کی کوشش کریں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان سے وہ دعوےٰ بالکل ثابت نہیں ہوتا جس کے لیے انہیں منکرینِ حدیث کی طرف سے پیش کیا گیا ہے اور نہ ہی ان سے صاحبِ قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کو الگ کرکر قرآنی مطالب حسبِ منشا از خود متعین کرنے کا جواز نکلتا ہے جبکہ ان میں سے ہر آیت کریمہ،اُمتِ مسلمہ کے لیے حدیثِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سند اور حجت ہونے کا بیّن ثبوت ہے۔
٭۔۔۔۔پہلی آیت پر غور کریں جس میں کہا گیا ہے:
﴿وَأوحِىَ إِلَىَّ هـٰذَا القُرءانُ لِأُنذِرَكُم بِهِ وَمَن بَلَغَ...﴿١٩﴾... سورة الانعام
"یعنی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم دیا گیا کہ آپ لوگوں کو بتا دیں کہ قرآن کریم میری طرف اس لیے نازل کیا گیا ہے تاکہ میں تمہیں اس قرآن کے ذریعے آگاہ کروں۔"
غور فرمائیں کہ اس آیت میں قرآن اور صاحبِ قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کو آپس میں کس طرح لازم و ملزوم قرار دیا گیا ہے۔اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرآن کا شارح اور مفسّر ہونے کا حق دیا جا رہا ہے اور﴿ومن بلغ﴾کے الفاظ سے قیامت کے دن تک آنے والے لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات و ہدایات کا مُکلّف بنا دیا گیا،اور یہ اجازت نہیں دی گئی کہ ہر شخص اپنی خرافات کو مقبولِ عام بنانے کے لئے قرآنی آیات کو ان پر چپکانے لگ جائیں،بلکہ جس مقدس ہستی کو یہ قرآنِ کریم عطاء کیا گیا ہے اسی کو اس کا مفسر و منذر بھی بنا دیا گیا ہے۔
اہلِ اسلام کو اس پر اللہ تعالےٰ کا بے حد شکر گزار ہونا چاہیئے،کہ اس نے قرآنِ مجید کی تعبیر و تشریح کی سند بھی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ونایت فرما دی ہے اور اُمّتِ مسلمہ کو اسی کا ہی مکلف بنایا ہے،ورنہ لوگوں کو ہر دور میں نجانے کتنے ہی افلاطونیت کے دعویداروں کی فکری غلاظتوں کو چاٹنا پرا اور کتنے ہی نام نہاد مفکروں کی غلامی اختیار کرنا پڑتی۔
اب قارئین فیصلہ کر لیں کہ انہوں نے قرآنِ کریم کو اس مقدس ہستی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں حل کرنا ہے جس پر وہ نازل کیا گیا ہے۔یا ان نتھو خیروں کی ذہنی اختراعات کی روشنی میں جو غیر مسلموں کے اشاروں پر قرآنی آیات کو مشقِ ستم بناتے ہیں؟
٭۔۔۔۔اس کے بعد دوسری آیت﴿الرَّحمـٰنُ ﴿١﴾ عَلَّمَ القُرءانَ ﴿٢﴾... سورة الرحمٰن کی طرف آجائیے۔جس کا مطلب ہے کہ رحمٰن جل شانہ نے قرآن کی تعلیم دی ہے۔۔۔۔اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کے صرف الفاظ پڑھ کر نہیں سنا دیئے گئے کیونکہ اسے تو قرات کہا جاتا ہے اور تعلیم دینے سے مراد ہوتا ہے کہ کوئی چیز متعلم کو ایسے سکھانا کہ اس کی پوری حقیقت کھل کر سامنے آجائے اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرآن کی تعلیم دینے سے مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرآنی الفاظ کے ساتھ،ان کے مفاہیم و مطالب بھی سمجھا دیئے گئے ہیں یعنی جہاں﴿وَأَقيمُوا الصَّلوٰةَ وَءاتُوا الزَّكوٰةَ ...﴿٤٣﴾... سورة البقرة کے الفاظ پڑھائے گئے وہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ بھی بتایا گیا کہ صلوٰۃ و زکوٰۃ کے متعدد لغوی معانی میں سے کون سا معنی اور مفہوم اللہ تعالیٰ کے ہاں مراد ہے اور سورۃ القیامۃ میں اسی چیز کی وضاحت میں ارشادِ باری تعالےٰ ہے:
﴿إِنَّ عَلَينا جَمعَهُ وَقُرءانَهُ ﴿١٧﴾ فَإِذا قَرَأنـٰهُ فَاتَّبِع قُرءانَهُ ﴿١٨﴾ ثُمَّ إِنَّ عَلَينا بَيانَهُ ﴿١٩﴾ ... سورة القيامة
یعنی اس قرآن کا جمع کرنا اور اس کا پڑھنا یقیناََ ہمارے ذمہ ہے،جب ہم اسے پڑھیں تب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی قرات کریں اور اس(قرآن)کا بیان کرنا(اور اس کے مفاہیم و مطالب کی وضاحت کرنا)بھی ہمارے ذمے ہے۔"
احادیثِ نبویہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں یہی ذکر ہوتا ہے کہ قرآنی الفاظ کے وہ کون سے مطالب ہیں،جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سکھائے گئے۔اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے قول و عمل سے انہیں امّت تک پہنچایا لیکن یہ چیز اس شخص کو گوارہ نہیں،جس نے فرنگی افکار کو اپنا دین بنا لیاہو،اور وہ ان افکار و آراء کو مسلمانوں پر بھی مسلط دیکھنا چاہتا ہو،اور ایسے شخص کے لیے حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے انکار کئے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں ہے،کیونکہ اس کی گاڑی چلتی ہی تب ہے۔جبکہ وہ محدثین کو سازشی قرار دے کر لوگوں کو ان سے متنفر کرنے لگے اور ان کی جگہ پر فرنگی مفکّروں کو مذہبی ہیرو بنا کر پیش کرے۔
٭۔۔۔۔رہی آخری آیت جسے انکارِ حدیث کی دلیل بنایا گیا ہے تو یہ بھی اس آیت میں غور و غوض کے فقدان کا نتیجہ ہے،ویسے بے چارے منکرینِ حدیث کو قرآن کریم میں غور کرنے اور اُسے صحیح سمجھنے کی توفیق میسّر ہی کب ہوئی ہے،سطح بینی سے انہوں نے حدیث«و مثله معه»قرآن کی مذکورہ آیت سے متعارض ہونے کا دعویٰ کر دیا ہے،حالانکہ دونوں میں کوئی تضاد نہیں،کیونکہ احادیث،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ اقوال و افعال ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرآن کریم کے بیان اور تعبیر و تشریح کے طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ودیعت کئے گئے ہیں اور حدیث«اوتيت القرآن ومثله معه»سے یہی مقصود ہے کہ صاحبِ قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن اور اس کی مثل حکمت(حدیثِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)دونوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیئے گئے ہیں،جبکہ سورۃ اسراء کی مذکورہ آیت میں قرآن کی مثل لانے کی جو نفی کی گئی ہے،اس کا تعلق عام جِنّ و انس سے ہے،
نیز«و مثله معه»میں مثل سےمراد قرآن کریم کا عین نہیں ہے اور نہ ہی یہ ضروری ہے کہ کسی چیز کی مثیل اس کا اصل ہی ہو،قرآنِ کریم میں کئی دفعہ بعض اوصاف میں مشارکت کی بنا پر ایک چیز کو دوسری کی مثل کہا گیا ہے ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿اللَّهُ الَّذى خَلَقَ سَبعَ سَمـٰوٰتٍ وَمِنَ الأَرضِ مِثلَهُنَّ... ﴿١٢﴾... سورة الطلاق
یعنی اللہ تعالیٰ وہ ذات ہے جس نے سات7آسمان پیدا فرمائے اور ان کی مثل زمینیں بھی۔
دیکھئے ارض و سماء میں تفاوت کے باوجود زمین کو آسمان کی مثل قرار دیا گیا ہے۔اسی طرح قرآن و حدیث میں اگرچہ اعجاز اور عدم اعجاز میں فرق ہے اور علماءِ حدیث میں سے کسی نے حدیث کے الفاظ کو قرآن مجید کی طرح معجز قرار نہیں دیا،لیکن حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چونکہ قرآن کے ساتھ اتباع و اطاعت میں مشترک ہے۔اس لیے اسے«مثله معه»کہا گیا ہے۔
٭۔۔۔۔آخر میں صاحبِ مضمون کی طرف سے اپنے دعویٰ کے اثبات کیلئے"صحیح مسلم"کی حدیث ان الفاظ کے ساتھ نقل کی گئی ہے۔
«لاَ تَكْتُبُوا عَنِّي وَمَنْ كَتَبَ عَنِّي غَيْرَ الْقُرْآنِ فَلْيَمْحُهُ»
علمی خیانت:حیف ہے کہ حدیث کے اس نادان مخالف نے مکّھی پر مکّھی مارتے ہُوئے"مقامِ حدیث"سے اُسی طرح یہ حدیث درج کر دی ہے جس طرح مسٹر پرویز نے اسے غلط لکھا تھا اور اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ اس کی تحقیق کر لی جائے۔کیونکہ مستشرق پرویز نے اس حدیث کا اس قدر حصہ تو ضرور نقل کیا ہے جس کو ان کے زعمِ باطل میں۔۔۔۔حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت میں دلیل بنایا جا سکے۔لیکن اسی حدیث کے آخری حصّہ کو وہ گول کر گئے ہیں۔جس میں حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آگے بیان کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور امّتِ مسلّمہ کے لیے اس کے سند اور حجّت ہونے کا ذکر موجود ہے۔
"صحیح مسلم"کی وہ حدیث جسے انکارِ حدیث کے لیے اَدھورا پیش کیا گیا ہے اصل کتاب میں اس طرح ہے:
«أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ " لاَ تَكْتُبُوا عَنِّي وَمَنْ كَتَبَ عَنِّي غَيْرَ الْقُرْآنِ فَلْيَمْحُهُ وَحَدِّثُوا عَنِّي وَلاَ حَرَجَ وَمَنْ كَذَبَ عَلَىَّ - قَالَ هَمَّامٌ أَحْسِبُهُ قَالَ - مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ " »
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھ سے لکھا نہ کرو،اور جس نے مجھ سے قرآن کے بغیر کچھ لکھا ہو وہ اُسے مٹا دے اور مجھ سے حدیث بیان کیا کرو اس میں کوئی ممانعت نہیں لیکن جس نے مجھ پر قصداََ جھوٹ باندھا۔گویا اس نے اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لیا۔"
غور فرمایئے!جن لوگوں کو علمی بددیانتی کا چسکا لگا ہوا ہے وہ"صحیح مسلم"کی اس حدیث کا وہ آخری حصّہ ہضم کر جاتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث کو آگے پہنچانے کا حکم دیا ہے اور اسے عوام کے سامنے آنے ہی نہیں دیتے،کیونکہ یہ حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سند اور حجّت ہونے پر دلالت کرتا ہے۔لیکن اس کے پہلے حصّے کو وہ درج کر دیتے ہیں،حالانکہ اس سے بھی ان لوگوں کا اصل مقصد عوام کو دھوکہ اور فریب دینا ہے۔کیونکہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کتابتِ حدیث سے مطلقاََ نہیں روکا تھا بلکہ قرآنِ کریم کے الفاظ کی حفاظت و صیانت کے پیشِ نظر اُن کے ساتھ ان احادیث کو ایک ہی جگہ لکھنے سے منع فرما دیا تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآنی آیات کی تفسیر و تعبیر کے طور پر ذکر فرمایا کرتے تھے،جیسا کہ مسندِ احمد رحمۃ اللہ علیہ میں اس کی صراحت موجود ہے:
"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو سنتے،لکھ لیتے تھے،ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پُوچھا،کیا لکھتے ہو؟ہم نے کہا،جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنتے ہیں وہی لکھتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،کیا اللہ تعالیٰ کی کتاب کے ساتھ دوسری کتاب لکھتے ہو؟اللہ تعالیٰ کی کتاب کو خالص کرکے لکھو،اور اُسے(اس کے)غیر کے ساتھ نہ لکھو،ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے ان نوشتوں کو جمع کر کے انہیں جلا دیا۔"(3/12)
مسند احمد رحمۃ اللہ علیہ کی اس حدیث سے معلوم ہُوا کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیث کو قرآن کے ساتھ خلط ملط کرنے سے روکا تھا اور اسے لکھنے سے مطلقاََ ممانعت نہیں فرمائی تھی،اور اگر بالفرض آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیث کو قرآنِ کریم سے الگ کرکے لکھنے سے بھی روک دیا تھا۔۔۔۔جیسا کہ منکرینِ حدیث کا دعویٰ ہے۔۔۔۔تو فرقہ"طلوعِ اسلام"کے مذہبی پیشواؤں کو یہ بتانا ہوگا کہ"صحیح مسلم"کی مذکورہ حدیث اُن کے پاس کیسے پہنچ گئی جسے اُن کی طرف سے ہی انکارِ حدیث کی دلیل بنا کر پیش کیا جاتا ہے،اور یہ حدیث« لاَ تَكْتُبُوا عَنِّي وَمَنْ كَتَبَ عَنِّي غَيْرَ الْقُرْآنِ»کی نہی اور ممانعت سے کیونکر محفوظ رہ گئی؟آخر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس حدیث کو قرآنِ کریم سے الگ لکھا تھا تب ہی تو یہ قرآن سے باہر آج تک محفوظ چلی آرہی ہے۔جس کا مطلب یہ ہُوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حدیث کو قرآن سے الگ کرکے لکھا کرتے تھے۔
٭۔۔۔۔لیکن حقیقت یہ ہےکہ منکرینِ حدیث کے ہاں سند اور حجّت خدا کی کتاب قرآنِ کریم بھی نہیں۔بلکہ ان کے ہاں قابلِ اعتبار جو چیز ہے وہ ان کے ادارے کی طرف سے شائع کیا جانے والا لٹریچر ہے،جس پر یہ لوگ ایسے بند ہوکر بیٹھ گئے ہیں،جیسے بنی اسرائیل سامری کے بنے ہُوئے بچھڑے پر معتکف ہو کر بیٹھ گئے،اور اسی لٹریچر سے متاثر ہوکر انھوں نے حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف یہ ذہن بنالیا کہ یہ عجمی سازش ہے۔لہٰذا اس کی کوئی ضرورت نہیں،صرف قرآن ہی کافی ہے اسی لیے ہی وہ آیات جو حدیث کے شرعاََ حجّت ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔انہیں وہ اس کے خلاف نظر آنے لگی ہیں۔مگر حیرت اس پر ہےکہ اس لٹریچر کے مؤلف مسٹر پرویز خود اپنے ایسے دعوؤں پر ثابت قدم نہیں رہے،پروپیگنڈے کی حد تک تو وہ بھی یہی کہتے رہے کہ قرآن ہی کافی ہے اور اُسے خالی الذہن ہوکر سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔مگر عملی طور پر وہ اس پر قائم نہیں رہے اور خود ہی انھوں نے بہت سی غیر قرآنی چیزوں کو ذہن میں رکھ کر قرآن کریم کو ان غیر اسلامی اشیاء کا محتاج بنائے رکھا،جیسا کہ وہ قرآنِ مجید کے ایک مقام کو اناجیلِ محّرفہ سے حل کرتے ہُوئے لکھتے ہیں:
"قرآن کریم تک آنے سے پیشتر ہمیں ایک بار پھراناجیل پر غور کرلینا چاہیے،اناجیل جیسی کچھ بھی آج ہیں بہرحال انہی کے بیانات کو سامنے رکھا جائے گا اس کے سوا چارہ ہی کیا ہے"(شعلہ مستور:98)
اگر مسٹر پرویز کے ہاں قرآن فہمی کے لیے ان اناجیل کے بیانات کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے جو صرف منسوخ ہی نہیں بلکہ تحریف شدہ بھی ہیں تو مسلمانوں کے ہاں صاحبِ قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت اور تعلیمات کی روشنی میں قرآنِ مجید کو سمجھنے پر ان کا شکایت کرنا نا معقول حرکت ہے۔
٭۔۔۔۔اور دوسرے مقام پر وہ قرآنی الفاظ کو جاہلی کلام کا محتاج بناتے ہُوئے رقمطراز ہیں:
"بہرھال شعراء جاہلیہ کے کلام کا بیشتر حصّہ اپنے اصلی الفاظ میں عربی ادب کی کتابوں میں مدون اور محفوظ ہو گیا۔۔۔۔۔اس لیے ان اشعار کی مدد سے ان الفاظ کا وہ مفہوم بھی متعین کیا جا سکتا ہے جو اِن سے زمانہ نزولِ قرآن میں لیا جاتا تھا۔
(لغات القرآن:1/12)
اگر زمانہ جہالت کا کلام عربی ادب کی کتابوں میں آج تک محفوظ رہ سکتا ہے اور وہ جاہلیت جسے قرآن مٹانے کے لیے نازل ہُوا تھا،اس کے کلام سے قرآن کے مفاہیم متعین کئے جاسکتے ہیں،تو تعلیماتِ نبویہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج تک محفوظ کیوں نہیں رہ سکتیں؟اور ان سے قرآنی مطالب متعین کرنے پر تکلیف کیوں ہے؟اگر اب بھی کسی کو اصرار ہے کہ مستشرق پرویز خالی الذہن ہو کر ہی قرآنی میں غور و فکر کرتے رہے ہیں،تو ہمیں بتایا جائے،یہ کیا ہوتا رہا ہےکہ:
"حقیقت یہ ہےکہ جس قوم پر صدیوں سے سوچنا حرام ہو چکا ہو اور تقلیدِ کہن،زندگی کی محمود روش قرار پاچکی ہو،ان میں فکری صلاحیتیں بہت کم باقی رہ جاتی ہیں،لہٰذا ہمیں اس مقصد کےلیے بھی مغرب کے محققین کی طرف ہی رجوع کرنا ہوگا۔" (سلیم کے نام:3/151)
بتائیے یہ«حسبنا كتاب الله»پر عمل ہوتا رہا ہے؟اور کیا اناجیلِ محرفہ اور مغرب کے محققین کے افکار قرآن کے لیے قرآن کی مثل اور قرآن کےساتھ«مثله معه»ہیں کہ انہیں ناگزیر قرار دیا جا رہا ہے۔فرض کیا کہ ہمارے ہاں مغربی طرز کی بعض تحقیقات نہیں ہوئیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مغربی افکار کو قرآنی آیات میں ٹانکنا شروع کردیا جائے۔اگر فرنگی ملاؤں کے ہاں کافرانہ افکار کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے تو وہ بڑی خوشی سے انہیں اختیار کریں،لیکن دھوکہ اور فریب سے انہیں مسلمانوں پر مسلط کرنے کی حماقت کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
دراصل یہ تو ہر ایک کی قسمت ہے اور اپنا اپنا نصیب کہ قرآن فہمی کےلیے کسی نے محّرف اناجیل اور کافرانہ آراء و افکار کو ناگزیر قرار دے کر انہیں اختیار کرلیا،اور کسی نے اسی غرض کےلیے،صاحبِ قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات و ہدایات کو منتخب کرلیا،کیونکہ