اِسلام کا تصورِعدل
اسلام دین فطرت ہے۔ فطرت خواہ انسان سے متعلق ہو یا کائنات سے، اس میں حسن توازن، تناسب اور اعتدال کا نقش بہت واضح اور نمایاں ہے۔ عدل صفاتِ الہیہ میں ایک ممتاز صفت ہے جس کا اظہار حیات اور آفرینش کے تمام تر مظاہر میں دکھائی دیتا ہے۔ اس کائنات کی مختلف مخلوقات اور مظاہر فطرت، عدل کے باعث موجود و برقرار ہیں۔ انسان چونکہ اشرفُ المخلوقات ہے، اس باعث اسے عدل کو سمجھنے اور اختیار کرنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ انبیاء علیہم السلام کی دعوت میں بھی عدل کا پہلو نمایاں ہے۔ انسان کو اس جہاں رنگ و بو میں جو تمیز اور ارادہ کی قوتیں اور اختیارات بخشے گئے ہیں، عدل کا تقاضا ہے کہ اس کائنات کی صفوں کو لپیٹ کر ایک ایسا دن برپا کیا جائے جہاں اور جب انسانی اعمال کی جزاوسزا کا فیصلہ عدل کے ساتھ کیا جا سکے۔
اسلامی شریعت میں عدل کا تصور دو اجزاء سے عبارت ہے: ایک یہ کہ بنی نوع انسان کے درمیان مختلف حقوق و رعایات میں توازن و تناسب قائم کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ ہر کسی کو اس کا استحقاق دیا جائے اور اس کے حق کو ادا کرنے کی یقینی صورت پیدا کی جائے۔ اس تصورِ عدل کے بغیر فرد ہو یا معاشرہ یا ریاست، ہلاکت خیز اور سنگین نتائج کا سامنا کرتے ہیں۔
عَدَل عربی گرائمر کی رو سے مصدر ہے۔ یہ لفظ قرآن مجید میں چھبیس مقامات پر بیان ہوا ہے۔ قرآن مجید میں عدل کو مزید برابری، نیک نیت، قیمت، مردِ صالح اور حق و انصاف کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ اُردو زبان میں عدل کے لیے عموما انصاف کا لفظ مترادف کے بطور استعمال ہوتا ہے جو علمی اور لغوی اعتبار سے چنداں درست نہیں ہے۔ انصاف کے معنی "تصنیف یا نصف نصف کرنے" کے ہیں۔ یوں اس سے مراد حقوق کو محض برابر تقسیم کر دینا ہے۔ لیکن عدل کی قرآنی اصطلاح محض مساویانہ تقسیم حقوق کا نام نہیں ہے۔ کیونکہ مساوات مجرد انداز میں، خلافِ فطرت امر ہے۔ حقیقت میں عدل کا تقاضا یہ ہے کہ مساوات کی بجائے توازن و تناسب قائم کیا جائے۔ مساوات اگرچہ عدل کی روح میں شامل ہے، جیسا کہ مدنی حقوق اور شہری آزادیوں میں یہ تصور موجود ہے مگر جہاں تک والدین اور اولاد کے درمیان معاشرتی مساوات کا تعلق ہے، یہ اخلاقا درست نہیں ہے۔ شریعت کی رو سے عدل کا تقاضا ہے کہ ہر فرد کے قانونی، آئینی، تمدنی، سیاسی، معاشی، معاشرتی اور اخلاقی حقوق کو پوری ذمہ داری اور آخرت کی جوابدہی کے احساس کے ساتھ ادا کیا جائے۔
عدل کی حقیقت کو جاننے کے لیے یہ ضروری ہے کہ حق تعالیٰ نے اس کائنات کے تکوینی امور میں اس صفت کا کمال درجہ خیال رکھا ہے۔ اس کائنات کے تمام اجزائے آفرینش عدل کے باعث برقرار ہیں اور ان کے منافع اور ثمرات بھی تکوینی امور میں عدل کی موجودگی کے باعث میسر ہیں۔ کائنات کے یہ تمام اجزا اور عناصر ایک خاص تناسب اور توازن کے ساتھ موجود ہیں۔ ان اجزا میں حرکت اور سکون کا عمل اپنی اپنی جگہ بہت حکمت آموز ہے۔ اس کائنات میں جو کمال درجہ توازن و تناسب دکھائی دیتا ہے، اس حقیقت کی طرف قرآن مجید نے مختلف مقامات پر توجہ دلائی ہے ۔۔
سورۃ الملک میں ارشاد ہوتا ہے:
﴿مَّا تَرَىٰ فِي خَلْقِ الرَّحْمَـٰنِ مِن تَفَاوُتٍ ۖ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَىٰ مِن فُطُورٍ ﴿٣﴾ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ يَنقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَهُوَ حَسِيرٌ ﴿٤﴾...الملک
"تم رحمٰن کی تخلیق میں کسی قسم کی بے ضابطگی نہ پاؤ گے۔ پھر پلٹ کر دیکھو، کہیں تمہیں کوئی خلل نظر آتا ہے ۔۔ بار بار نگاہ دوڑاؤ، تمہاری نظر تھک کر نامراد پلٹ آئے گی۔"
یہ کائنات عدلِ تکوینی کا ایک سدا بہار اور زندہ جاوید خزانہ ہے۔ اس جہاں کی ساری نعمتیں عدلِ تکوینی کے باعث ہیں۔ زمین کے خزانے اور فضا کے انعامات سبھی تناسب و توازن کے باعث ہمیں میسر ہیں۔ اگر اس کائنات کے اجزاء میں عدلِ تکوینی کی صفت غائب ہو جائے یا کم پڑ جائے تو یہ زمین آسمان کے درمیان موجود کائنات، انسانیت اور دوسری مخلوقات اور افزائش و پیدائش کے لیے جہنم زار بن جائے۔ فطرت کا یہ مستقل ضابطہ اور قاعدہ ہے کہ جو چیز تناسب اور توازن کو اختیار کر کے عدل تکوینی کا مظہر بن جائے گی، وہ انسانیت کے لیے رنگا رنگ اور متنوع فوائد اور ثمرات پیش کرے گی اور جن اجزائے کائنات میں سے عدل گستری اور توازم و تناسب کا یہ حسب ختم ہو جائے گا، وہ انسانیت کے لیے فائدے کی بجائے نقصان کا موجب ہوں گے۔
قرآن مجید میں عدل کی صفت کو قسط اور حسن کے الفاظ کے ساتھ بھی تعبیر کیا گیا ہے۔ سورہ آل عمران اور سورہ ص کی یہ آیات ملاحظہ کیجئے ۔۔۔
﴿شَهِدَ اللَّـهُ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ ۚ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿١٨﴾...آل عمران
"اللہ نے خود اس بات کی شہادت دی ہے کہ اس کے سوا کوئی الہٰ نہیں ہے اور فرشتے اور سب اہل علم بھی راستی اور انصاف کے ساتھ اس پر گواہ ہیں کہ اس زبردست حکیم کے سوا فی الواقع کوئی الہٰ نہیں۔"
دوسری آیت میں حضرت داود علیہ السلام کو زمین کی خلافت عطا کرتے ہوئے حق و انصاف اور عدل کی تعلیم ان الفاظ میں دی ہے:
﴿يـٰداوۥدُ إِنّا جَعَلنـٰكَ خَليفَةً فِى الأَرضِ فَاحكُم بَينَ النّاسِ بِالحَقِّ وَلا تَتَّبِعِ الهَوىٰ فَيُضِلَّكَ عَن سَبيلِ اللَّـهِ ...﴿٢٦﴾...ص
"اے داؤد! ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا ہے، لہذا تم لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ حکومت کرو اور خواہش نفس کی پیروی نہ کرو، وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی۔"
یوں عَدَل کے تصور کو قرآن مجید میں حق اور قسط کے الفاظ کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ آخرت میں اعمال کے لیے جو ترازو لگائی جائے گی، اس کو بھی عربی زبان میں قسطاس کہتے ہیں۔ بعثت انبیاء کے ساتھ جن فرائض اور ذمہ داریوں کو وابستہ رکھا گیا ہے، ان میں بھی عدل کا قیام بنیادی امور میں شامل ہے۔ سورہ شوریٰ میں پیغمبر آخر الزماں کو فرائض نبوت کے سلسلے میں یوں خطاب کیا گیا ہے:
﴿قُلْ آمَنتُ بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ مِن كِتَابٍ ۖ وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ ۖ اللَّـهُ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ ۖ لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ ۖ لَا حُجَّةَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ ۖ اللَّـهُ يَجْمَعُ بَيْنَنَا ۖ وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ ﴿١٥﴾...شوریٰ
"مجھے حکم دیا گیا ہے میں تمہارے درمیان انصاف کروں۔ اللہ ہی ہمارا رب ہے اور تمہارا رب بھی، ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے، ہمارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں۔ اللہ ایک روز ہم سب کو جمع کرے گا اور اسی کی طرف سب کو جانا ہے۔" (سورۃ الشوریٰ: 15)
سورہ شوریٰ کی اس آیت میں نظامِ عدل کے ساتھ قیامِ عدل کی بات کی گئی ہے۔ یہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک قاضی اور جج کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے اور آپ کو ضوابطِ شریعت کے مطابق عدل قائم کرنے کا فریضہ سونپا جا رہا ہے۔ وقائع سیرت سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے مکی زندگی میں عقائد میں عدل کرنے کی تلقین کی اور پھر مدنی زندگی میں جب ابتداء چار مربع میل کی اسلامی ریاست وجود میں آ گئی تو اس میں قیامِ حق اور نفاذِ عدل کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں تاآنکہ اسلامی ریاست کا رقبہ آپ کی حیاتِ طیبہ میں بارہ لاکھ مربع میل تک پھیل گیا۔ اس وسیع سلطنت میں آپ کے قیام عدل کی ذمہ داریوں کے لیے بعض دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی امورِ عدل اور فرائض انصاف تفویض کیے اور یوں ان حضرات کے فیصلوں کے بعد آپ کی حیثیت ایک اپیلیٹ کورٹ کی اختیار کر گئی۔
حضور سرورِ کائنات نے عدل کے قیام میں سب لوگوں کے ساتھ یک نیت کا اسلوب اختیار فرمایا، اپنوں اور بیگانوں کے درمیان تفریق کو ختم کر دیا، انصاف میں عربی عجمی، گورے کالے، امیر غریب، اعلیٰ اور ادنیٰ نسب کے تمام تر تعصبات کو ختم کر دیا۔ یوں عدل کے قیام میں دنیا کے سامنے نئے نظائر اور جدید شواہد سامنے آئے جن سے انسانیت اس سے قبل محروم تصور کی جاتی تھی۔
مکی زندگی میں اگرچہ نفاذِ عدل کے تقاضے موجود نہ تھے مگر دین حق کی پیشکش میں کوئی امتیاز رَوا نہ رکھا۔ یہ دعوت سب کے لیے یکساں تھی۔ اس کی قبولیت کے لیے حلال تھا تو سب کے لئے، حرام تھا تو سب کے لیے حرام تھا۔ شریعت کے ضابطے رنگ و نسل، علاقہ اور زبان کے تصورات سے مورا تھے۔ اور سب کے لیے یکساں لائق تعمیل تھے۔ پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری دنیا میں عدل قائم کرنے کی دعوت دی۔ لوگوں کے درمیان انصاف کرنے کی نہ صرف دعوت دی بلکہ قیامِ امن کی تمام صورتوں کو بروئے کار لائے اور مختلف طبقات کے درمیان پائی جانے والی بے اعتدالیوں کا مداوا کیا۔ بچوں، عورتوں، ضعیفوں، غلاموں، مزدوروں حتیٰ کہ جانوروں، درختوں اور فصلوں تک کے ساتھ حق و انصاف کی ایک اصولی تعلیم دی گئی ہے۔ دوست تو کجا، دشمن کے ساتھ بھی انصاف کا رویہ اختیار کرنے کی تعلیم دی گئی۔ اسلامی شریعت میں عدل کی اہمیت قرآنی آیات اور اُسوہ رسول سے واضح ہو جاتی ہے۔ عدل چونکہ صفاتِ الٰہیہ میں شامل ہے، اس لیے قرآن مجید میں حق تعالیٰ نے اسے اپنی کائنات اور اپنی سر زمین پر قائم کرنے کا بھی حکم دیا ہے ۔۔ سورۃ النحل میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿إِنَّ اللَّـهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَيَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ﴿٩٠﴾...النحل
"اللہ تعالیٰ عدل و احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے اور برائی، بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے، وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق حاصل کرو۔"
عدلِ اجتماعی
شریعتِ الٰہیہ میں عدل کا کیا مقام ہے؟ اس کے قیام پر کس درجہ توجہ دی گئی ہے؟ فرائض نبوت میں اسے کیونکر شامل کیا گیا ہے نیز عام مسلمانوں کو عدل کی روش اختیار کرنے کی تعلیم کیوں دی گئی ہے؟ ان سب امور پر ہمیں بھرپور توجہ دینی چاہئے۔ عدل کا ہماری عملی زندگی سے ایک گہرا تعلق ہے۔ لیکن انفرادی دائرے سے آگے بڑھ کر اسلام ہمیں عدلِ اجتماعی کو اختیار کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ یوں عدل انفرادی زندگی کو متاثر کرنے کے بعد دینی اجتماعی شکل میں معاشرتی، معاشی، قانونی اور سیاسی پہلوؤں کو متاثر کرتا ہے۔ اسلام پہلی صدی کے آخر تک تین براعظموں کو مسخر کر چکا تھا۔ یہ اعجاز آفرینی اسلام کے عادلانہ پیغام کے باعث ہے۔ اسلام نے دنیا کی دوسری اقوام کو جس تیزی اور شرعت کے ساتھ اپنے اندر سمو لیا، یہ تاریخ ساز پہلو اسلام کے عدلِ اجتماعی کے باعث ہے۔ اسلام اور دین شریعت کی عادلانہ روش نے اس نظام زندگی کے تمام تر روشن امکانات کو اہل دنیا کے سامنے واضح کیا اور انہوں نے جوق دَر جوق اسے تسلیم کر لیا، اسلام کے اس عادلانہ پہلو کی تعریف میں سینکڑوں مستشرقین اور یورپی اہل علم رطبُ اللسان دکھائی دیتے ہیں۔ آئیے ہم عدل کے انفرادی، اجتماعی، معاشرتی، سیاسی، معاشی اور قانونی پہلوؤں کا بالتفصیل جائزہ لیں ۔۔
جہاں تک انفرادی عدل کا تعلق ہے، اسلام نے ایک فرد کے لیے حقوق و فرائض کا ایک دائرہ کھینچ دیا ہے، اسے حلال و حرام کی واضح تمیز عطا کر دی گئی ہے۔ اسے ظلم، شرک، بددیانتی، بدعہدی، بدکرداری، دھوکہ بازی، دجل، فریب اور اخلاقِ فاسدہ کے تمام پہلوؤں سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔ پیدائش سے موت تک ایک مسلمان کو معاشرے کے مختلف اداروں اور معاملات سے تعلق استوار کرنا ہوتا ہے۔ شریعت نے ایک فرد کی حیثیت سے ہر جگہ اسے عدل اختیار کرنے کی تلقین کی ہے۔
قرآن مجید نے سورہ مائدہ میں عدل کے اسی پہلو کو متعارف کراتے ہوئے ہمیں تلقین کی ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّـهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ ۖ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا ۚ اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ۖ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ﴿٨﴾...المائدة
"اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جاؤ۔ عدل کرو، یہی خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے، اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو، جو کچھ تم کرتے ہو۔ اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح باخبر ہے" ۔۔
پھر ایک دوسرے مقام پر قرآن مجید یوں بیان کیا گیا:
قُلْ أَمَرَ رَبِّي بِالْقِسْطِ ۖ
"کہہ دو میرے پروردگار نے (مجھے) انصاف کرنے کا حکم دیا ہے۔"
قسط کا لفظ بھی عدل ہی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں عدل کی اس مترادف اصطلاح کو 22 مرتبہ استعمال کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں مومنوں کی صفات میں عدل گستری کو ایک اہم مقام دیا ہے ۔۔ سورہ اعراف ہی میں بیان ہوا ہے:
﴿وَمِمَّنْ خَلَقْنَا أُمَّةٌ يَهْدُونَ بِالْحَقِّ وَبِهِ يَعْدِلُونَ ﴿١٨١﴾...الأعراف
"اور ہماری مخلوق میں سے ایک وہ لوگ ہیں جو حق کا راستہ بتاتے ہیں اور اس کے مطابق انصاف بھی کرتے ہیں۔"
دین و شریعت کا علم رکھنے والے اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اسلام انفرادی تربیت کے نتیجے میں ایک اجتماعی ماحول پیدا کرنا چاہتا ہے۔ تمام عبادات کا مزاج اجتماعیت پسندانہ ہے۔ مسجد، مکتب اور معاشرہ بھی اجتماعی ادارے ہیں۔ عدل اجتماعی کا تقاضا ہے کہ یہ عدل کے عالمگیر پہلو کو سامنے لائیں۔ عدل کا عمل فرد، خاندان، معاشرہ اور ریاست کے تمام اداروں کے ساتھ متعلق ہے۔ حقوق الاولاد، حقوقِ والدین، حقوق الزوجین، ہمسائے کے حقوق، وراثت کے حقوق، بنیادی حقوق حتیٰ کہ نفس کے حقوق سے لے کر عالمی حقوق تک کے ہر مرحلے کے لئے شریعت کی ترجمانی ہمارے سامنے ہے۔ جنگ و جہاد میں اسلام نے مفتوحین کے حقوق تک کے ہر مرحلے کے لئے شریعت کی ترجمانی ہمارے سامنے ہے۔ جنگ و جہاد میں اسلام نے مفتوحین کے حقوق کو کس شان کے ساتھ مرتب کیا ہے۔ میثاقِ مدینہ میں ایک اسلامی ریاست کی حدود میں بسنے والے مختلف مذاہب اور ملتوں کے افراد کے حقوق کو بھی تحفظ دیا گیا ہے۔
اسلام نے عدلِ اجتماعی میں معاشرتی حقوق کو بہت نمایاں مقام دیا ہے۔ نام و نسب کے حوالے سے دُنیا میں بہت سے فتنے موجود ہیں۔ قرآن مجید نے انسان کی تخلیق کا ذکر کرتے ہوئے ہر قسم کے معاشی امتیاز اور جاہلیت کی جڑ کاٹ دی ہے ۔۔ وحدتِ آدم کا درس سورۃ النساء کی پہلی آیت میں یوں دیا گیا ہے:
﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا ﴿١﴾...النساء
"لوگو! اپنے رب سے ڈرو، جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دئیے۔ اس خدا سے ڈرو! جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو اور رشتہ قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔"
انسانی معاشرت میں رنگ و نسل کے امتیازات کے باعث بے انصافی کو فروغ ملتا ہے۔ قرآن مجید نے سورۃ الحجرات میں افراد کے امتیازات کو رنگ و نسل کی بجائے عبادت و تقویٰ سے جوڑ دیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿يـٰأَيُّهَا النّاسُ إِنّا خَلَقنـٰكُم مِن ذَكَرٍ وَأُنثىٰ وَجَعَلنـٰكُم شُعوبًا وَقَبائِلَ لِتَعارَفوا إِنَّ أَكرَمَكُم عِندَ اللَّـهِ أَتقىٰكُم ...﴿١٣﴾...الحجرات
"اے انسانو! ہم نے تم کو ایک ہی مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمہاری مختلف قومیں اور خاندان بنائے تاکہ ایک دوسرے کی پہچان کر سکو۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ معزز وہی ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے"
معاشرتی عدل کی اہمیت کا اندازہ ہمیں خطبہ حجۃُالوداع کے اس حصے سے بھی ہوتا ہے جس میں حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اے لوگو! تم سب آدم سے ہو اور آدم مٹی سے بنایا گیا، نسب قابل فخر بات نہیں۔ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فوقیت نہیں تم میں سے سب سے زیادہ معزز وہی ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔"
معاشرتی عدل کے نمونے تاریخ اسلام کا انمول سرمایہ ہیں۔ عدل کا یہی وہ پہلو ہے جس نے غلاموں کو آقاؤں کے برابر ہی نہیں، ان کی قیادت میں کام کرنے کا عظیم درس دیا ہے۔ بالتخصیص عورتوں کو اسلام نے جو حقوق دیے، وہ معاشرتی عدل کا سب سے عظیم پہلو ہے۔ اسلام، دنیا کا واحد دین ہے جس نے عورت کے شرف کا تحفظ کیا اور بلند ترین مقام سے نوازا ہے۔ اسی طرح معاشرتی عدل میں بیوہ اور یتیموں کے حقوق کی پاسداری کا جو درس دیا گیا ہے، وہ بھی قابل توجہ ہے۔
اسلام اپنے ماننے والوں کو ایک اجتماعی نظام میں پرو کر ان کا ایک معاشرہ اور ان کی ایک ریاست قائم کرنا چاہتا ہے۔ مدینہ کی ریاست عدلِ اجتماعی کا پہلو گہوارہ ہے۔ اسلامی ریاست میں اگر سیاسی عدل کو قائم کیا جائے تو اس کے نتیجے میں افراد کو اور اداروں کو ہر نوعیت کے ظلم سے چھٹکارا نصیب ہوتا ہے۔ ریاست ایک قوت کا نام ہے جس کے زیر سایہ مختلف افراد اور ادارے عدل سے کام لیتے ہیں اور ریاست ہر قسم کے ظلم اور جبر کا دفاع کرتی ہے۔ سیاسی عدل کے حوالے سے ریاست افراد کو انتظامی اداروں کے ظلم سے بھی محفوظ رکھتی ہے۔ اگر سیاسی عدل کو برقرار نہ رکھا جائے تو معاشرے اور ریاست کا وجودِ معرضِ خطر میں آجاتا ہے۔ کنز العمال کی ایک حدیث ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو انتظام کی اہمیت سے باخبر کرتے ہوئے فرمایا:
"اے ابوذر رضی اللہ عنہ! تم کمزور آدمی ہو اور حکومت کا منصب ایک امانت ہے۔ یہ منصب قیامت کے دن رُسوائی اور ندامت کا باعث ہو گا بجز اس شخص یا عہدہ دار کے جس نے اپنے عہدے کا حق ادا کرنے کی کوشش کی ہو گی اور خود پر عائد شدہ داری ذمہ داری کوئی حقہ ادا کیا ہو گا۔"
تاریخ اسلام میں خلافتِ راشدہ سیاسی عدل کی بہترین مثال ہے۔
معاشی عدل
عدل کی مختلف اقسام اور نوعتیوں میں ایک نازک تر پہلو معاشی عدل کا ہے۔ آج پوری دنیا معاشی لوٹ کھسوٹ، سود، ذخیرہ اندوزی، نفع خوری اور اسراف و تبذیر کے شکنجوں میں جکڑی نظر آتی ہے۔ اسلام معاشی ظلم کی ہر شکل کو مٹانا چاہتا ہے اور معاشی لحاظ سے ایک عادلانہ معاشرے کا تمنائی ہے ۔۔ قرآن مجید میں سورۃ البقرۃ میں مسلمانوں کو تعلیم دی گئی ہے:
﴿وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿١٨٨﴾...البقرة
"اور آپس میں ایک دوسرے کے اموال باطل طریقوں سے نہ کھاؤ اور نہ حاکموں کے آگے اُن کو اِس غرض کے لیے پیش کرو کہ تمہیں دوسروں کے مال کا کوئی حصہ قصدا ظالمانہ طریقے سے کھانے کا موقع مل جائے۔"
قرآن مجید کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت نے معاشی عدل کے لحاظ سے یتیموں کے اموال کے بارے میں احتیاط ملحوظ رکھنے کی تعلیم دی ہے۔ بیع کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔ کم تولنے والوں کے لیے تباہی کا ذکر کیا ہے۔ اسراف و تبذیر سے بچنے کی تلقین کی ہے۔ مال و دولت پر سانپ بن کر بیٹھنے اور ارتکازِ دولت کو ممنوع قرار دیا ہے۔ یوں اسلامی معاشی عدل کے ایک ایسے پہلو کو پیش کرتا ہے جس سے اسلامی معاشرہ ہر قسم کی لوٹ کھسوٹ اور معاشی ناہمواریوں کی تباہ کاریوں سے محفوظ ہوتا ہے۔
قانونی عدل
عدل کی سب سے اہم نوعیت قانونی عدل ہے۔ شریعت معاشرے میں ہر نوعیت کے ظلم اور حق تلفی کا ازالہ کرتی ہے اسلام، کسی فرد/ادارے یا ریاست تک کو بھی اس امر کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ کسی کی حق تلفی کرے یا ناحق مال ہڑپ کرے یا کسی کی عزتِ نفس کو مجروح کرے۔ شریعت ہر فرد کے جان و مال اور مسلمہ بنیادی حقوق کی حفاظت کرتی ہے۔ لیکن بعض وہ حقوق بھی فرد کو عطا کرتی ہے جن کا تصور آج کے جدید اور مہذب معاشروں میں موجود نہیں۔ اسی لیے سورۃ النساء میں حکم دیا گیا:
وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ ۚ
"اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل و انصاف کے ساتھ کرو۔"
اسلام نے عدل و انصاف کے ضوابط متعین کر دیے ہیں۔ حدود کا نظام واضھ اور تعزیرات کو جرائم کی نوعیت کے مطابق اختیار کرنے کی حدود بتا دی ہیں۔ یہی باعث (وجہ) ہے کہ کہ جس معاشرے میں اسلامی قوانین کا اطلاق اور نفاذ ہوتا ہے وہاں بدامنی ظلم اور لوٹ کھسوٹ کا خاتمہ ہوتا ہے۔ فرد کے جان و مال اور عزت و ناموس کو تحفظ ملتا ہے۔ ہر فرد کی معاشی کفالت کی ذمہ دار ریاست ہے۔
اسلامی قانون میں حلال و حرام واضح اور حدود تعزیرات متعین ہیں۔ مگر انفرادی اجتماعی، معاشرتی، سیاسی، معاشی اور قانونی عدل اسی وقت قائم ہو سکتا ہے جب کہ اسلامی ریاست اپنے تمام اداروں سمیت قائم ہو، احتساب کا عمل پختہ ہو اور مناصب پر خداترس، مستحق اور ایماندار لوگ فائز ہوں۔ یہی باعث ہے کہ قرآن نے ہمیں حکم دیا ہے:
إِنَّ اللَّـهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ ۚ
"مسلمانو! اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔"
قیامِ عدل کے بغیر شرفِ انسانی کا تحفظ ممکن نہیں۔ اس کے لیے انفرادی اور اجتماعی ہر دو سطح پر کوششیں ہونا چاہئے۔ اگر وحی الہیٰ کے مطابق عدل گستری نہ کی جائے تو یہ مشرکانہ، فاسقانہ اور کافرانہ طرزِ عمل ہے۔ قیام عدل کے بغیر امن ممکن نہیں جو ایک مہذب ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ تاریخ انسانی، خلافت علی منہاج النبوۃ سے بہتر عادلانہ معاشرے کی آج تک کوئی دوسری مثال پیش نہیں کر سکی۔ جس کی پیروی میں تاریخ اسلام نے ہو دور میں عدل کی روشن، حکمت آموز اور بصیرت افروز مثالیں قائم کی ہیں۔