رؤیتِ ہلال میں اختلافِ مطالع کا اعتبار ہے!!
"محدث" کے گزشتہ شمارے میں ہم نے عرض کیا تھا کہ رؤیتِ ہلال کے مسئلے میں جہاں اختلافِ مطالع کا فرق بہت زیادہ ہو، تو وہاں ایک علاقے کی رؤیت دور دراز کے علاقے کے لیے کافی نہیں ہونی چاہئے۔ اس کے برعکس حنفی مذہب میں ظاہر الروایہ کے مطابق اختلافِ مطالع کی کوئی اہمیت نہیں ہے، اس لیے پاکستان کے بعض احناف کے نزدیک پورے عالم اسلام میں ایک ہی دن عید اور رمضان کا آغاز کیا جا سکتا ہے اور علمائے احناف کا یہ گروہ اِسی پر زور دے رہا ہے۔
اکوڑہ خٹک سے استفتاء اسی سلسلے میں آیا تھا، جس کا مختصر جواب گزشتہ شمارے میں شائع ہو چکا ہے۔ حسن اتفاق سے اس کے معا بعد "جدید فقہی مسائل" میں یہ بحث نظر سے گزری، جو بھارت کے ایک حنفی عالم کی تالیف ہے، اس میں نہ صرف اختلافِ مطالعہ کو معتبر قرار دیا گیا ہے، بلکہ پورے بھارت کے تمام مکاتب فکر کے علماء کا متفقہ فیصلہ بھی نقل کیا گیا ہے جس میں اختلاف مطالع کے اعتبار کو تسلیم کیا گیا ہے۔
یہ گویا ہماری اُس رائے کی تائید ہے جو اکوڑہ خٹک کے مذکورہ استفتاء کے جواب میں گزشتہ شمارے میں ہم نے تحریر کیا تھا۔ اس لیے مناسب معلوم ہوا کہ اسے بھی افادہ عام کے لیے "محدث" میں شائع کر دیا جائے ۔۔ ادارہ
اختلافِ مطالع کی بحث
یہ مسئلہ گو اپنی نوعیت کے لحاظ سے قدیم ہے لیکن عصر حاضر کے اکتشافات نیز تیز ذرائع مواصلات کی دریافت نے اسے پھر جدید مسائل کی فہرست میں داخل کر دیا ہے۔
مطلع کے معنی "چاند کے طلوع ہونے کی جگہ" کے ہیں۔ اس طرح "اختلافِ مطلع" کا مطلب یہ ہوا کہ دنیا کے مختلف خطوں میں چاند کے طلوع ہونے اور نظر آنے کی جگہ الگ الگ ہوا کرتی ہے۔ لہذا عین ممکن ہے کہ ایک جگہ چاند نمودار ہو اور دوسری جگہ نہ ہو۔ ایک جگہ ایک دن چاند نظر آئے اور دوسری جگہ دوسرے دن ۔۔ اب یہاں دو سوالات ہیں۔ ایک یہ کہ "اختلافِ مطلع" پایا جاتا ہے یا نہیں؟ دوسرے اگر پایا جاتا ہے تو اس کا اعتبار بھی ہو گا یا نہیں؟
پہلا مسئلہ اب نظری نہیں رہا بلکہ یہ بات مشاہدہ اور تجربہ کی سطح پر ثابت ہو چکی ہے کہ دنیا کے مختلف علاقوں میں مطلع کا اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس لیے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کے بعض مقامات ایسے ہیں جن کے درمیان بارہ بارہ گھنٹوں کا فرق ہے۔ عین اس وقت جب ایک جگہ دن اپنے شباب پر ہوتا ہے تو دوسری جگہ رات اپنا آدھا سفر طے چکی ہوتی ہے۔ ٹھیک اس وقت جب ایک مقام پر ظهر ہوتی ہے دوسری جگہ مغرب کا وقت ہو چکا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے ان حالات میں ان کا مطلع ایک ہو ہی نہیں سکتا۔ فرض کیجئے کہ جہاں مغرب کا وقت ہے، اگر وہاں چاند نظر آئے تو کیا جہاں ظہر کا وقت ہے وہاں بھی چاند نظر آ جائے گا یا اس کو مغرب کا وقت تسلیم کر لیا جائے گا ۔۔؟؟
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اس مطلع کا اختلاف معتبر بھی ہو گا یا نہیں؟ احناف کا مشہور مسلک یہی ہے کہ اختلافِ مطالع کا اعتبار نہیں ہے۔ یعنی اگر مشرق کے کسی خطہ میں چاند نظر آیا تو وہ مغربی خطوں کے باشندوں کے لیے بھی حجت ہو گا اور یہی رؤیت ان کے لیے عیدین و رمضان ثابت کرنے کو کافی ہو گی۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور کچھ دوسرے فقہاء کے یہاں اس اختلافِ مطالع کا اعتبار ہے اور ان کے یہاں ایک مقام کی رؤیت دوسرے مقام کے لیے بھی رؤیت اور چاند دیکھے جانے کی دلیل نہیں ہے۔ وہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث سے استدلال کرتے ہیں۔ لیکن ابن عباس رضی اللہ عنہ کی جس روایت کو وہ اپنی دلیل بناتے ہیں وہ ان کے نقطہ نظر کے لیے صریح اور دوٹوک نہیں ہے۔ البتہ یہ بات بہت واضح ہے کہ نمازوں کے اوقات میں سبھی اختلافِ مطالع کا اعتبار کرتے ہیں۔ اگر ایک جگہ ظہر یا عشاء کا وقت ہو چکا ہو اور دوسری جگہ نہ ہوا ہو تو جہاں وقت نہ ہوا ہو وہاں کے لوگ محض اس بنا پر ظہر و عشا کی نماز ادا نہیں کر سکتے کہ دوسری جگہ ان نمازوں کا وقت ہو چکا ہے یا اگر ایک جگہ مہینہ کا 28واں ہی دن ہے اور دوسری جگہ 29واں، جہاں چاند نظر آ گیا تو محض اس بنا پر 28 ویں تاریخ ہی پر مہینہ ختم کر کے اگلے دن رمضان یا عید نہیں کی جائے گی کہ دوسری جگہ چاند نظر آ گیا ہے۔
اس لیے یہ بات فطری اور انتہائی منطقی ہے کہ مطلع کے اختلاف کا اور اسی لحاظ سے رمضان اور عید کا اختلاف تسلیم کرنا ہی پڑے گا۔ فقہاء متقدمین کے دور میں اول تو معلوم کائنات کی یہ وسعت دریافت ہی نہ ہوئی تھی اور ممالک ہی نہیں کئی براعظموں سے دنیا بے خبر اور نا آشنا تھی۔ پھر اس میں بھی مسلمان جزیرۃ العرب اور خلیجی علاقوں میں محدود تھے، اس وقت تک شاید یہ بات ممکن رہی ہو اور ان کے مطلع میں اتنا فرق نہ رہا ہو کہ اس کو الگ الگ سمجھا جائے، اس لیے فقہاء نے ایسا کہا ہے چنانچہ خود فقہاء احناف میں بھی مختلف محققین نے اختلافِ مطالع کا اعتبار کیا ہے۔
حضرت مولانا عبدالحئی لکھنؤی فرنگی محل نے اس موضوع پر تفصیل سے گفتگو کی ہے اور مختلف فقہاء کی عبارتیں نقل کی ہیں جو یہاں ذکر کی جاتی ہیں، مشہور کتاب "مراقی الفلاح" کے مصنف لکھتے ہیں:
" وقيل يختلف ثبوته باختلاف المطالع واختاره صاحب التجريد وغيره كما إذا زالت الشمس عند قوم وغربت عند غيرهم فالظهر على الأولين لا المغرب لعدم انعقاد السبب في حقهم."
"بعض حضرات کی رائے ہے کہ اختلاف مطالع کی وجہ سے رؤیتِ ہلال کے ثبوت میں بھی اختلاف ہو سکتا ہے۔ تجرید القدوری کے مصنف نے اسی کو ترجیح دیا ہے جیسا کہ جب کچھ لوگوں کے یہاں آفتاب ڈھل جائے اور دوسروں کے یہاں غروب ہو جائے تو پہلے لوگوں پر ظہر ہے نہ کہ مغرب اس لیے کہ ان کے حق میں مغرب کا سبب متحقق نہیں ہوا ہے"
نیز اسی کے حاشیہ پر علامہ طحطاوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
" هو الأشبه لأن انفصال الهلال من شعاع الشمس يختلف باختلاف الأقطار كما في دخول الوقت وخروجه، وهذا مثبت في علمك الأفلاك والهيئات، وأقل ما تختلف به المطالع مسيرة شهر كما في الجواهر "
"یہی رائے زیادہ صحیح ہے اس لیے کہ چاند کا سورج کی کرنوں سے خالی ہونا علاقوں کے بدلنے سے بدلتا رہتا ہے، جیسا کہ اوقات (نماز) کی آمدورفت میں۔ اور یہ فلکیات اور علم ہئیت کی مطابق ایک ثابت شدہ حقیقت ہے۔ نیز کم سے کم جس سے اختلافِ مطالع واقع ہوتا ہے، وہ ایک ماہ کی مسافت ہے جیسا کہ جواہر نامی کتاب میں ہے۔"
فتاویٰ تارتارخانیہ میں ہے:
" اهل بلدة اذا راوا الهلال هل يلزم فى حق بلدة, اختلف فيه فمنهم من قال لا يلزم ... وفى القدورى ان كان بين البلدتين تفاوت لا يختلف به المطالع, يلزمه "
"ایک شہر والے جب چاند دیکھ لیں تو کیا تمام شہر والوں کے حق میں رؤیت لازم ہو جائے گی، اس میں اختلاف ہے۔ بعض لوگوں کی رائے ہے: لازم نہیں ہو گی ۔۔ اور قدوری میں ہے کہ اگر دو شہروں کے درمیان ایسا تفاوت ہو کہ مطلع تبدیل نہ ہوتا ہو تو اس صورت میں رؤیت لازم ہو گی۔"
صاحبِ ہدایہ اپنی کتاب "مختارات النوازل" میں ان الفاظ میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں:
" أهل بلدة صاموا تسعة وعشرين يوماً بالرؤية وأهل بلدة أخرى صاموا ثلاثين يوماً بالرؤية، فعلى الأولين قضاء يوم إذا لم تختلف المطالع بينهما واما اذا اختلف لا يجب القضاء "
"ایک شہر والوں نے رؤیتِ ہلال کے بعد 29 روزے رکھے اور دوسرے شہر والوں نے چاند ہی کی بنا پر 30 روزے رکھے تو اگر ان دونوں شہروں میں مطلع کا اختلاف نہ ہو تو 29 روزے رکھنے والوں کو ایک دن کی قضا کرنی ہو گی۔ اور اگر دونوں شہروں کا مطلع جداگانہ ہو تو قضا کی ضرورت نہیں۔"
محدث علامہ زیلعی رحمۃ اللہ علیہ نے کنز الدقائق کی شرح "تبیین الحقائق" میں اس پر تفصیل سے گفتگو فرمائی ہے۔ انہوں نے اختلافِ مطالع کی بحث میں فقہاء احناف کا اختلاف نقل کرنے کے بعد خود جو فیصلہ کیا ہے، وہ یہ ہے:
" الاشبه ان يعتبر لان كل قوم مخاطبون بما عندهم وانفصال الهلال من شعاع الشمس يختلف باختلاف المطالع كما في دخول الوقت الصلوة وخروجه يختلف باختلاف الأقطار "
"زیادہ صحیح بات ہے کہ اختلافِ مطالع معتبر ہے اس لیے کہ ہر جماعت اسی کی مخاطب ہوتی ہے جو اُس کو درپیش ہو اور چاند کا سورج کی کرنوں سے خالی ہونا مطالع کے اختلاف سے مختلف ہوتا رہتا ہے جیسے نمازوں کے ابتدائی اور انتہائی اوقات علاقائی اختلاف کی بنا پر مختلف ہوتے رہتے ہیں"
پھر اس موضوع پر مفصل بحث کرنے کے بعد علامہ لکھنؤی نے جو جچا تلا فیصلہ کیا ہے وہ انہی کے الفاظ میں نقل کیا جاتا ہے ۔۔
"اصح المذاہب عقلا و نقلا ہمیں است کہ ہر دو بلدہ کہ فیما بین آنہا مسافتے باشد کہ دراں اختلافِ مطالع می شود و تقدیر ثں مسافت یک ماہ است دریں صورت حکم رؤیت یک بلدہ بہ بلدہ دیگر نخواہد شدودر بلادِ متقارِبہ کہ مسافت کم از کم یک ماہ داشتہ باشند حکم رؤیت یک بلدہ بہ بلدہ دیگر لازم خواہد شد (مجموعۃ الفتاویٰ علیٰ ہامش خلاصۃ الفتاویٰ: ج1، ص 255تا256)
"عقل و نقل ہر دو لحاظ سے سب سے صحیح مسلک یہی ہے کہ ایسے دو شہر جن میں اتنا فاصلہ ہو کہ ان کے مطلع بدل جائیں جس کا اندازہ ایک ماہ کی مسافت سے کیا جاتا ہے۔ اس میں ایک شہر کی رؤیت دوسرے شہر کے لیے معتبر نہیں ہونی چاہئے اور قریبی شہروں میں جن کے مابین ایک ماہ سے کم کی مسافت ہو ایک شہر میں رؤیت دوسرے شہر کے لیے لازم اور ضروری ہو گی۔"
راقم الحروف کے خیال مین یہ رائے بہت معتدل، متوازن اور قرین عقل ہے۔ البتہ اختلافِ مطالع کی حدیں متعین کرنے میں "ایک ماہ کی مسافت" کی قید کی بجائے جدید ماہرین فلکیات کے حساب اور ان کی رائے پر اعتماد کیا جانا زیادہ مناسب ہو گا۔
مجلس تحقیقاتِ شرعیہ ندوۃ العلماء لکھنؤ منعقدہ 3،4 مئی 1967ء کو مختلف مکاتبِ فکر کے علماء اور نمائندہ شخصیتوں نے مل کر اس مسئلہ کی بابت جو فیصلہ کی تھا، وہ حسب ذیل ہے:
(1)نفسُ الامر میں پوری دنیا کا مطلع ایک نہیں بلکہ اختلافِ مطالع مسلم ہے۔ یہ ایک واقعاتی چیز ہے اس میں فقہاء کرام کا کوئی اختلاف نہیں ہے اور حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔
(2) البتہ فقہاء اس باب میں مختلف ہیں کہ صوم اور افطارِ صوم کے باب میں یہ اختلافِ مطلع معتبر ہے یا نہیں؟ محققین احناف اور علماءِ امت کی تصریحات اور ان کے دلائل کی روشنی میں مجلس کی متفقہ رائے ہے کہ "بلادِ بعیدہ میں اس باب میں بھی اختلافِ مطلع معتبر ہے۔"
(3) بلادِ بعیدہ سے مراد یہ ہے کہ ان میں باہم اس قدر دوری واقع ہو کہ عادتا ان کی رؤیت میں ایک دن کا فرق ہوتا ہے۔ ایک شہر میں ایک دن پہلے چاند نظر آتا ہے اور دوسرے میں ایک دن کے بعد۔ ان بلادِ بعیدہ میں اگر ایک کی رؤیت دوسرے کے لیے لازم کر دی جائے تو مہینہ کسی جگہ 28 دن کا رہ جائے گا اور کسی جگہ 30 دن قرار پائے گا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت سے اسی قول کی تائید ہوتی ہے۔
(4) بلادِ بعيده وہ شہر ہیں جن کی رؤیت میں عادتا ایک دن کا فرق نہیں پڑتا، ایک ماہ کی مسافت کی دوسری جو تقریبا 500 یا 600 میل ہوتی ہے کو بلادِ بعیدہ قرار دیتے ہیں اور اس سے کم کو بلادِ قريبه ۔ مجلس اس سلسلہ میں ایک ایسے چارٹ کی ضرورت سمجھتی ہے جس سے معلوم ہو جائے کہ مطلع کتنی مسافت پر بدلتا ہے۔ اور کن کن ملکوں کا مطلع ایک ہے۔ ہندوستان و پاکستان کے بیشتر حصوں اور بعض قریبی ملکوں مثلا نیپال وغیرہ کا مطلع ایک ہے۔ علماءِ ہندوپاک کا عمل اسی پر رہا ہے اور غالبا تجربہ سے بھی یہی ثابت ہے۔ اِن ملکوں کے شہروں میں اس قدر بعدِ مسافت نہیں ہے کہ مہینہ میں ایک دن کا فرق پڑتا ہو۔ اس بنیاد پر اِن دونوں ملکوں میں جہاں بھی چاند دیکھا جائے، شرعی ثبوت کے بعد اِس کا ماننا ان دونوں ملکوں کے تمام اہل شہر پر لازم ہو گا۔
(6) مصر اور حجاز جیسے دوردراز ملکوں کا مطلع ہندوپاک کے مطلع سے علیحدہ ہے۔ یہاں کی رؤیت ان ملکوں کے لیے اور ان ملکوں کی رؤیت یہاں والوں کے لیے ہر حالت میں لازم اور قابل قبول نہیں ہے۔ اس لیے کہ اُن میں اور ہندوپاک میں اتنی دوری ہے کہ عموما ایک دن کا فرق ان میں واقع ہو جاتا ہے اور بعض اوقات اس سے بھی زیادہ ("جدید فقہی مسائل" ج1، ص 89 تا 94)