اسلامی نظامِ عدل کے نفاذ کی ضرورت

حکومت اور اعلیٰ عدالتوں کے فاضل ججوں کی طرف سے تسلسل اور تکرار کے ساتھ یہ بات کہی جا رہی ہے کہ عوام کو فوری انصاف مہیا کیا جانا ضروری ہے۔ بلکہ اس سلسلے میں دونوں طرف سے بعض اقدامات کئے جانے کا بھی دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ جیسے وزیراعظم بہ اصرار یہ کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے کراچی میں فوجی عدالتیں فوری طور پر عدل و انصاف مہیا کرنے اور امن و امان قائم کرنے کے لیے قائم کی تھیں۔ اسی طرح سپریم کورٹ کا ایک حالیہ فیصلہ اس کی واضح مثال ہے جو اس نے وفاقی محتسب کے فیصلوں پر صدرِ مملکت کی نظر ثانی کے سلسلے میں دیا ہے جس پر ابھی مزید گفتگو عدالت میں ہو گی۔ جو یہ ہے کہ وفاقی محتسب نے ایک شخص محمد طارق پیرزادہ کے حق میں ایک فیصلہ 17 اکتوبر 1993ء کو دیا تھا۔ اور قانونی طور پر وفاقی محتسب کے فیصلے کے خلاف متاثرہ فریق کو بعض معاملات میں اپیل کرنے کا حق حاصل ہے جو 30 یوم کے اندر اندر استعمال ہو سکتا ہے۔ لیکن صدر مملکت کے لیے ان اپیلوں پر فیصلہ کرنے کے لیے وقت کی کوئی قید نہیں، وہ چاہیں تو اپنا فیصلہ کئی کئی سال تک زیر التوا رکھ سکتے ہیں۔ اس قانونی سقم کی وجہ سے ادارہ وفاقی محتسب کی طرف سے بھی بعض دفعہ فوری انصاف نہیں ملتا، جس کو 1983ء میں بنایا ہی اس مقصد کے لیے گیا تھا کہ عوام کو سستا اور جلد انصاف ملے۔ علاوہ ازیں صدرِ مملکت اس امر کے بھی پابند نہیں ہیں کہ وہ اگر وفاقی محتسب کے فیصلے کو رد کریں تو اس کے دلائل بھی تفصیل سے پیش کریں، بلکہ وہ اس کے بغیر بھی مذکورہ احتسابی ادارے کا فیصلہ کالعدم کر سکتے ہیں۔
شخص مذکورہ محمد طارق کے حق میں وفاقی محتسب کی طرف سے جو فیصلہ 1993ء میں دیا گیا، اس میں متاثرہ فریق حکومت تھی، چنانچہ حکومت نے اس فیصلے کے خلاف صدرِ مملکت کو نظرثانی کی عرضداشت پیش کی، جس پر صدر مملکت نے 2 مئی 1998ء کو اپنا فیصلہ سنایا، یعنی تقریبا ساڑے چار سال بعد۔ سپریم کورٹ نے اس عمل کو فوری انصاف کے تقاضوں کے منافی جانتے ہوئے از خود اس صورت حال کا نوٹس لیا ہے اور متعلقہ فریقوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ 18 مارچ 1999ء کو اس سوال پر دلائل دیں کہ کیوں نہ صدر کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ وفاقی محتسب کے فیصلے پر اول تو جلد از جلد ورنہ زیادہ سے زیادہ 90 دن کے اندر اپنا فیصلہ سنائیں۔ نیز وہ اس کے لیے دلائل بھی باقاعدہ ضبطِ تحریر میں لائیں۔
ابھی ان دونوں مذکورہ نکتوں پر فاضل عدالتِ عظمیٰ میں بحث ہونا باقی ہے، اور اس کے بعد ہی عدالت کا اصل فیصلہ سامنے آئے گا۔ اس وقت ہمارا مقصد اس مثال کو پیش کرنے سے یہ ہے کہ حکومت کی طرف خود اعلیٰ عدالتوں کی طرف سے بھی فوری انصاف مہیا کرنے کے دعوے، بلکہ بعض اقدامات کئے جا رہے ہیں اور عدالتِ عظمیٰ کا اَز خود نوٹس لینا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ مذکورہ واقعے میں ساڑھے چار سال کی تاخیر ان کے نزدیک فوری انصاف کے منافی ہے۔
یوں حکومت اور عدلیہ دونوں اس اَمر پر متفق ہیں کہ عوام کو فوری انصاف مہیا کیا جانا چاہئے۔ لیکن اس خواہش اور بعض اقدامات کے باوجود صورت حال نہایت مایوس کن ہے اور عدالتیں انصاف مہیا کرنے کی بجائے، ظلم کی پشتیبان بنی ہوئی ہیں۔ یہ نظام کی خرابی ہے یا کرپشن کا نتیجہ؟ اس نظام عدل سے وابستہ وکلاء اور جج حضرات کی اکثریت کا اصرار ہے کہ نظام میں کوئی خرابی نہیں۔ اس کی اصل وجہ حکومت کا اپنے پسندیدہ حضرات کو جج بنانے پر اصرار اور ججوں کی تعداد میں کمی ہے، جب کہ بعض لوگ اس کی وجہ موجودہ نظام اور کرپشن کو قرار دیتے ہیں۔
ہمارے نزدیک انصاف کی راہ میں دونوں ہی باتیں رکاوٹ ہیں، یہ نظام عدل بھی مثالی نہیں، یہ انگریز کا عطا کردہ ہے اور ہم لکیر کے فقیر بنے ہوئے، اسی کو اپنائے ہوئے ہیں۔ حالانکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں عدل و انصاف کا نظام تیار کرنا چاہئے، جس میں امیر و غریب کے درمیان کوئی فرق نہ ہو۔ ایک غریب سے غریب آدمی کی بھی داد رسی کا انتظام ہو۔ موجودہ عدالتی نظام مہنگا بھی ہے اور پیچیدہ بھی۔ ایک غریب آدمی بعض دفعہ وکلا کی فیسیں دینے سے عاجز ہوتا ہے اور بعض دفعہ عدالتی طریق کار کی پیچیدگیوں اوراس کی طوالت سے نالاں اور بعض دفعہ خود کورٹ کی بھاری فیسیں ادا کرنے سے قاصر۔ پھر اس نظام میں تاخیری حربے اختیار کرنے کی جو گنجائش ہے، اس نے عملا انصاف کے حصول کو ناممکن سا بنا رکھا ہے۔ رہی سہی کسر کرپشن نے پوری کر دی ہے۔ جیسے 19 مارچ 1999ء کے قومی اخبارات میں پنجاب بار کونسل کے وائس چئیرمین عبدالعزیز کانجو کا بیان شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ماتحت عدالتوں میں 90 فیصد کرپشن ہے اور میں اس کے ثبوت دے سکتا ہوں، ان عدالتوں میں انصاف بکتا ہے۔ کوئی شخص بلاجواز تاخیر پر جج کو یہ نہیں کہہ سکتا کہ فیصلہ جلدی کرو، کیونکہ اسے توہین عدالت قرار دے دیا جاتا ہے۔ (روزنامہ جنگ، لاہور: 19 مارچ 1999ء)
حالانکہ عدالتوں میں بلاجواز تاخیر کا یہ حال ہے کہ ایک ایک مقدمے کو کئی کئی نسلیں بھگتتی ہیں۔ حال ہی میں ایک کالم نگار نے اپنے ایک کالم میں یہ واقعہ درج کیا ہے جس میں موجودہ عدالتی نظام کی اصلاح سے غافل لوگوں کے لیے بڑی عبرت و موعظت ہے۔ اس کالم کا متعلقہ حصہ حسب ذیل ہے:
"بار کی صدارت پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے میں کسان زادے جسٹس (ر) ڈاکٹر خالد رانجھا کو ایک سچی کہانی بھی سنانا چاہوں گا جو 28 مئی کے کچھ قومی اخبارات میں مع تصویر چھپ چکی ہے۔ اس خبر کے مطابق ایک غریب گھرانے کے اکلوتے کماؤ بیٹے کو 14 سال قبل کسی نے قتل کر دیا، مقدمہ درج ہوا اور ملزم گرفتار، جسے کچھ عرصہ بعد ضمانت پر رہائی مل گئی۔ گذشتہ 14 سال سے مقدمہ عدالت میں زیر سماعت تھا، مقتول کا معذور باپ اور دیگر اہل خانہ وکلا کے اخراجات ادا کرتے کرتے خود بک چکے تھے بلکہ مقروض ہو چکے تھے لیکن مقدمہ مسلسل چلے جا رہا تھا پھر ایک پیشی پر معذور باپ عدالت پہنچا، مجرم بھی موجود تھا، "اگلی تاریخ" کی تیاری ہو رہی تھی کہ مقتول کے معذور باپ نے اچانک ریوالور نکالا اور پے درپے پانچ گولیاں اپنے بیٹے کے قاتل کے سینے میں اتار دیں۔ مجرم موقع پر ہلاک ہو گیا اور پولیس نے "قاتل" کو گرفتار کر لیا۔ دیوالیہ اور دیوانہ ہو چکے معذور باپ نے سکھ کاسانس لیا اور مسکراتے ہوئے کہا:
"عدالت جس مقدمہ کا فیصلہ چودہ سال میں نہ کر سکی، وہ فیصلہ میں نے چند منٹ میں کر دیا"
کیا ڈاکٹر خالد رانجھا بار کی مضبوطی اور آزادی کے بعد عدلیہ کی ایسی مضبوطی اور آزادی کی بھی کوئی امید رکھتے ہیں جو مظلوموں کو ظالم اور مقتولوں کو قاتل بننے سے روک سکے کیونکہ کسی بھی ایسے ادارے کی مضبوطی اور آزادی کا اصل مقصد تو یہ یہی ہے کہ وہ عوام کی مضبوطی اور آزادی کو یقینی بنا سکے۔
ایک اور قصہ اکبر اعظم کے زمانے کا ہے جب کسی وی آئی پی نے کسی درویش کے ساتھ حد سے زیادہ بدتمیزی اور بدزبانی کی تو درویش نے جلال میں آ کر اس VIP کے پھولے ہوئے گال پر زبردست قسم کا طمانچہ رسید کر دیا۔ مقدمہ کوتوال شہر کے پاس پہنچا جس نے مافیا کے ممبر یعنی اپنے جیسے معزز کے حق اور درویش کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے درویش کو 8 آنے جرنامہ کر دیا۔ درویش نے اپیل کی جسے عرونت و حقارت کے ساتھ مسترد کر دیا گیا اور درویش کو حکم ہوا کہ جرمانہ ادا کرو، ورنہ جیل جانے کے لیے تیار ہو جاؤ۔ درویش نے جیب سے ایک روپیہ نکال کر کوتوال کو دیتے ہوئے ایک زور دار تھپڑ کوتوال شہر کے منہ پر رسید کرتے ہوئے کہا: "حضور! آپ اور یہ معزز آدمی دونوں آٹھ آٹھ آنے آپس میں بانٹ لیں اور مجھے اجازت دیں"
میں بھی اجازت چاہتے ہوئے امید کرتا ہوں کہ ڈاکٹر خالد رانجھا بار کی مضبوطی اور آزادی کے نتیجے میں عدلیہ کی مضبوطی اور آزادی کے ساتھ ساتھ عوام کی مضبوطی اور آزادی کے لیے بھی بہت کچھ کر سکیں گے تاکہ کسی باپ کو 14 سال میں نہ ہو سکنے والا فیصلہ چند منٹ میں نہ کرنا پڑے اور کوئی درویش اس طرح "جرمانہ" ادا کرنے کی ضرورت محسوس نہ کرے جیسا "اس" درویش نے کیا، کیونکہ عدالتوں اور کوتوالوں کا وقار اور بھرم بنا ہی رہے تو بہتر ہے ۔۔۔" (کالم از حسن نثار، روزنامہ جنگ: 2 مارچ 1999ء)
مقصد اس تفصیل سے یہ ہے کہ فاضل عدالتِ عظمیٰ کا بعض معاملات میں دلچسپی لے کر تاخیر کے خلاف آواز اٹھانا، بلاشبہ ایک اچھا بلکہ نہایت ضروری عمل ہے۔ لیکن ہم فاضل عدالت عظمیٰ سے عرض کریں گے کہ اس کی یہ فعالیت اور سرگرمی صرف اونچی سطح کے بعض مقدموں تک ہی کیوں محدود ہے؟ کیا اسے ماتحت عدالتوں کی یہ کرپشن اور صاف نظر آنے والی تاخیر نظر نہیں آتی؟ وہ ماتحت عدالتوں کی اس کرپشن اور مقدمات میں تاخیر کا نوٹس کیوں نہیں لیتی اور اس کا مداوا کیوں نہیں سوچتی؟
ہمارے نزدیک اس صورت کی سب سے بڑی وجہ حکومتوں اور عدالتوں کا فکری و عملی تضاد ہے۔ یہ سب اس بات کو تو مانتے ہیں کہ اسلام کا نظامِ عدل و تعزیر مؤثر اور فوری انصاف کا ضامن ہے، لیکن عملی طور پر وہ اسلام کے نظامِ عدل کو اپنانے کے لیے تیار نہیں۔ اور اس کی وجہ ان کی اپنی خودغرضی اور نااہلی ہے، وہ شریعت سے عام طور پر بے خبر ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اگر عدالتوں کو قرآن و حدیث کے مطابق فیصلے کرنے کا پابند بنا دیا گیا، تو موجودہ ججوں کی ایک بڑی تعداداِس معیار پر پورا نہیں اُتر سکے گی۔
بہرحال یہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ موجودہ عدالتی نظام میں انقلابی تبدیلیاں کرے، کیونکہ موجودہ نظام، انصاف کی فراہمی میں بالکل ناکام ہے۔ یہ انقلابی تبدیلی اسلامی نظامِ عدل کے نفاذ کے سوا کوئی نہیں۔ صدرِ مملکت جناب رفیق تارڑ نے بھی چند دن قبل اس بات کا اعتراف فرمایا تھا کہ موجودہ نظام عدل تبدیلیوں کا متقاضی ہے۔ اس لیے صدرِ مملکت کو بھی اپنا سارا وزن اسی اسلامی نظامِ عدل کے پلڑے میں ڈالنا چاہئے اور اس کے لیے اپنے اختیارات بھی بروئے کار لانے چاہئے، وزیراعظم میاں محمد نواز شریف بھی نظام تبدیل کرنے اور عوام کو فوری انصاف مہیا کرنے کی بات کرتے رہتے ہیں۔ انہیں بھی سنجیدگی سے اس کے لیے کوئی فوری لائحہ عمل تیار کرنا چاہئے ورنہ محض اخباری یا مجلسی اعلانات ان دونوں حضرات کو عنداللہ سرخرو کرنے کے لیے کافی نہیں ہوں گے۔ وما علينا الا البلاغ المبين
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رؤیتِ ہلال کو بہتر بنانے کے لیے چند ضروری اقدامات


20 مارچ (یکم ذوالحجہ) کے روزنامہ "جنگ" میں بعض لوگوں کا یہ بیان شائع ہوا ہے کہ رؤیتِ ہلال کمیٹی کا اعلان صحیح نہیں۔ جمعہ کے دن جو چاند نظر آیا ہے، وہ کافی نمایاں تھا یعنی وہ دوسرے دن کا تھا، اسے کمیٹی کے فیصلے کے مطابق پہلی رات کا چاند نہیں کہا جا سکتا۔ لہذا کمیٹی کو مستعفی ہو جانا چاہئے۔ دوسرے دن اس کے جواب میں ایک عالم دین کا بیان شائع ہوا ہے کہ جو نئی کمیٹی تشکیل دی جائے گی، اس کا طریق کار بھی تو یہی ہو گا جو اِس وقت ہے، اس کے پاس چاند دیکھنے کے لیے کون سا آلہ دین چراغ آ جائے گا۔
اُصولی طور پر یہ جواب صحیح اور معقول ہے، کمیٹی پورے ملک سے اطلاعات وصول کرتی ہے اور اس کے بعد اس کی روشنی میں چاند کے ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرتی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ شرعی طور پر تو انسان اپنی حد تک ہی کوشش کرنے کا مکلف ہے، اور اس کا اہتمام کمیٹی کی طرف سے کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود فیصلہ غلط ہو جائے، تو اس میں کسی پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ دو باتوں کا اہتمام پھر بھی ضروری ہے۔
ایک یہ کہ اگر مصدقہ اطلاعات ایسی ملیں جن سے کمیٹی کا فیصلہ غلط ثابت ہوتا ہو، تو ایسا انتظام ہونا چاہئے کہ کمیٹی کے ارکان دوبارہ جمع ہوں اور تحقیق و تفتیش کے بعد اگر فی الواقع پہلا فیصلہ غلط ہو تو اسے تبدیل کرنے میں کوئی عار اور سبکی محسوس نہیں کرنی چاہئے نہ اسے اَنا اور وقار کا مسئلہ بنانا چاہئے۔ شنید ہے کہ سعودی عرب میں بعض دفعہ فیصلہ تبدیل کر کے نیا اعلان کیا گیا ہے۔ اس نظیر پر یہاں بھی عمل کیا جانا چاہئے، یہ ایک شرعی مسئلہ ہے جس میں شریعت ہی کی رو سے فیصلہ تبدیل کرنے کی گنجائش موجود ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ملک میں عیسوی تقویم کی بجائے قمری تقویم کو اختیار کیا جائے، تاکہ لوگ چاند دیکھنے کی کوشش کیا کریں۔ ہم نے چونکہ قمری تقویم سے تعلق بالکل منقطع کر دیا ہے، اس لیے لوگ چاند دیکھنے کا اہتمام ہی نہیں کرتے، جو ایک بہت بڑی کوتاہی ہے۔ اس کوتاہی کا ازالہ بھی نہایت ضروری ہے۔ اور اس کا ایک طریقہ تو وہی ہے جو ہم نے عرض کیا یعنی قمری تقویم کو اختیار کرنا، قمری تاریخیں ہی ملک میں رائج ہوں، اِسی کے مطابق تنخواہیں ملیں اور اسی کے مطابق تعطیلات وغیرہ ہوں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہر قمری تاریخ کو 29 ویں شب کے لیے حکومت کی طرف سے چاند دیکھنے کی اپیل شائع ہو۔ حکومت اپنے مخصوص مقاصد و عزائم کے اظہار کے لیے بلامبالغہ کروڑوں روپے اشتہارات کی مد میں خرچ کرتی ہے، اگر وہ چند لاکھ روپے اس کام پر بھی صرف کر دیا کرے، تو اس کے بہترین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ چاند کی ہر 29 تاریخ کے قومی اخبارات میں اشتہار کے طور پر یہ اعلان شائع ہو کہ "لوگ آج شام کو چاند دیکھنے کا اہتمام کریں اور چاند نظر آنے کی صورت میں حسبِ ذیل نمبروں پر فون کے ذریعے سے اطلاع دیں ۔۔ ہر علاقے کے اخبارات میں وہاں کی زونل کمیٹی کا فون نمبر دیا جائے، دیگر ضروری نمبر دئیے جا سکتے ہیں۔" بہرحال ایک مسلمان مملکت کے لیے ضروری ہے کہ وہاں ذوق و شوق کے ساتھ چاند دیکھنے کا اہتمام ہو، اگر اس اہتمام میں کمی ہو تو اسے دور کیا جائے اور لوگوں میں چاند دیکھنے کی رغبت اور شوق پیدا کیا جائے ۔۔۔ (حافظ صلاح الدین یوسف)