قوموں کا عروج و زوال ، انحطاط و ارتقاء اور زندگی کا دارومدار ان کی اپنی تاریخ پر منحصر ہے ۔ زندہ قومیں ہمیشہ اپنی تاریخ کے آہم و روش ادوار پر گہر رکھتی ہیں جو قوم اپنی تاریخ کو بھلا دتی ہے ۔ یقینا وہ ایک دن زوال پذیر ہو جاتی ہے ۔
تاریخ اصل مین افراد کی حیات و ممات کے علاوہ تمدنی ، معاشی ، معاشرتی ، سیاسی مذہبی و اخلاقی اور دماغی کارناموں کا مرقع ہوتی ہے ۔ سوانح و تذکرے تاریخ ، ہی کا حصہ ہیں ۔ جن میں فرد کے خصوصی کانامے ،مذہبی و اقتصادی اصلاحات کے ساتھ ساتہ ان تمام افکار رو عوامل کیاسیر حاصل تذکرہ موجود ہوتا ہے ۔ جس کے ذریعہ فرد عوام کی نگاہوں میں غیر معمولی مقبولیت و جاذبیت کا حامل ہوتا ہے ۔
سوانح و تذکروں کی ترتیب کا دوسرا اہم مقصد یہ ہوتا ہے کہ فرد کے اہم کا رناموں کی انجام دہی ملی و مذہبی عظیم اصلاحی پہلوؤں کی طرف خیالات و افکار کا میلان فطری و جبلی صلاحیتوں کی نشوونما اور کار ز ارحیات کے نشیب و فراز کی واضح تصویر کو قارئین کے سامنے لایا جائے ۔ نئی نسلیں ماضی میں اپنے اسلاف کے حیات آفرین کارناموں سے واقفیت کے بعد ہی مستقبل کے لیے ٹھوس اور پائیدار لائحہ عمل معین کرتی ہیں ۔ اس میدان میں جب ہماری نظریں کسی مشہور و معروف شخصیت کی تاریخ سے مزین صحفہ پر پڑتی ہیں تو اچانک ایک ہمہ گیر شخصیت سامنے آجاتی ہے ۔ یا کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جس قوم کی سطح ذہن پر آجاتی ہیں۔ اسی طرح ملتوں اور جماعتوں کی تاریخ کا حالہے ۔
مولانا ثناء اللہ امر تسری مرحوم کی عظیم شخصیت عموما عالم اسلام اور خصوصا ً ہندو پاک میں محتاج تعارف نہیں ۔ قوم کا ایک ایک فرد ان کی ذات گرامی سے واقف ہے ۔ مرحوم کے تحبر علمی کا اعتراف عرب و عجم نے کیا ، جیسا کہ عالم اسلام کے نامور عالم علامہ سید رشید رضا مصری نے اپنے عالمگیر شہرت رکھنے والے پرچہ ’’ المنار ‘‘ میں لکھا ۔
’’کہ مولانا ثناء اللہ برصغیر ہند میں اسلام اور مسلمانوں کے سب سے بڑے وکیل ہیں اور ان کی خدمت اور ان کے زہد و تقویٰ کو دیکھ کر ایک آدمیں کہہ سکتا ہے کہ وہ عام آدمی نہیں بلکہ رجل الہی ہیں ‘‘
(مجلہ المنار !) لمجلد الثالث و الثلاثون السنۃ 1351ص 639
اللہ تعالیٰ نے جن خصوصیات سے آپ کو نوازا تھا۔ اس کی مثال و نظیر جلید میں نہیں مل سکتی ۔ دنیائے اسلام میں ماہ درخشندہ بن کر چمکے ۔ عم و فضل میں ، زہدو و رع میں ، دیانت و امانت میں ، راستبازی و حسن معاملگی میں ہمیشہ سلف رہے ۔ فن حدیث ہو یا فن تفسیر فن منطق ہو یا فلسفہ ، فن ادب ہو یا تاریخ ، ہر فن میں آپ ایک امام کی حیثیت سے نظر آتے ہیں ۔ ذہانت وخطابت میں اپنی نظیر آپ تھے ۔
جب بھی کتاب و سنت پر کسی نے حملہ کیا تو اس شیر خدا نے فوراً دنداں شکن جواب دیا ۔ جب بھی کسی فرقے والے نے مناظرہ کا چیلنج کیا تو اس مرد مجاہد نے آگے بڑھ کر چیلنج کا جواب دیا ۔ چنانچہ مسیحیت ،قادیانیت ،بہائیت اور روافض اور دوسرے بہت سے فرقوں سے مناظرہ کر کے حریف کو شکست فاش دی ۔ آپ اسلام کے نڈر اور بہادر سپاہی تھے ۔
آہ کس طرح مرحوم لکھوں ۔ جو زندگی سے بھر پور تھے ۔ جس نے اسلام اور ملت اسلامیہ کی صلاح و فلاح کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی تھی ۔ جس نے زندگی کی ساری امنگوں اور حوصلوں کو ، ترقی کے سارے امکانات کو ،عروج و زوال کےتمام توقعات کو ٹھکرا دیا ۔ وہ عربی زبان میں وہی دسترس رکھتے تھے جو ایک اہل زبان رکھتا ہے ۔ فارسی بر بھی کافی عبور تھا ۔
اردو تو گویا ان کے گھر کی لونڈی تھی ۔ جس کا دل بھی مسلمان تھا ۔ دماغ بھی ، اور فکر و تخیل بھی ، وہ دشمنوں کو دوست بنا لیتے تھے ۔ دوستوں سے مخالفت مول لے لیتے تھے ۔ اپنوں سے رو ٹھ جاتے تھے ۔ اگر مقصد اور منزل کا سوال در پیش ہو ۔
مولانا ثناء اللہ مرحوم برصغیر پاک و ہند کی ایک عظیم شخصیت تھے ۔ ان کا شمار 20 ویں صدی عیسوی اور 14 ویں صدی ہجری کے ان اکابر علما میں ہوتا ہے ۔ جو بیک وقت کئی عظیم صفات کے مالک تھے ۔ بقول شاعر مشرق ؏
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
آپ کی ہستی مجموعہ حسنات مجسمہ ٔ صفات تھی ۔ آپ بذات خود اکی انجمن تھے ،آپ بیک وقت محدث و مفسر بھی تھے اور محقق و مدقق بھی ،خطیب و مقرر بھی تھے ۔ مناظرو صحافی بھی تھے اور کہنہ مشق انشا پروازبھی ۔ عالم و فاضل ،زاہد و عابد ،مجاہد وقت ،غازی دوراں ، مرد مومن اور عاشق رسول بھی تھے ۔ غرضیکہ !
بہت سی خوبیاں تھیں آپ کی ذات گرامی میں ۔
حضرت مولانا مرحوم نے جب ہوش سنبھالا تو اس وقت کئی غیر اسلامی تحریکیں ملک میں جنم لے چکی تھیں جو اسلام پر پوری شدت سے حملہ آور ہو رہی تھیں ۔ مولانا مرحوم سب سے پہلے شہسوار تھے جنھوں نے مخالفین کو ہر میدان میں للکارا ۔ اسلام کے محاذ پر ہر مخالف و معاندا ور منافق و شاطر سے مقابلہ کیا اور اسلام کی صداقت و حقانیت کا غلغلہ بلند کیا ۔ تحریر تقریر میں ایک خاص مقام کے حامل تھے ۔
آپ کی ساری عمر علمی و ادبی ،اخلاقی اور اصلاحی خدمات میں گزری ۔ آپ کی علمی و ادبی خدمات قابل داد ہیں ۔ آپ نے ابنے علم و فضل میں وہ شہرت حاصل کی کہ مسلمانوں کے علاوہ غیر اسلامی قوموں نے بھی ان کی خداداد لیاقت و علمیت کا اعتراف کیا ۔ ان کے ہاتھ چومے ۔ اور دل و جان سے اپنے سر آنکھوں پر بٹھا یا ۔
مولانا مرحوم نےجب علوم اسلامیہ سے فراغت پائی تو وہ دور ایک مناظروں کا دور تھا ۔ تمام مذاہب اپنے اپنے مسلک کی حقانیت ثابت کرنے پر زور دے رہے تھے ۔ مولانا محروم نے ہندو ، آریہ سماجی ،شاتن دھرمی ، دیو سماجی ،عیسائی ، بہائی ،یہودی ،پارسی سکھ ، نیچری ،مرزائی ،رافضی ،سب کے سب لیڈروں سے کامیاب مناظر ے کیے ۔ اسلام پر جب بھی کسی غیر مسلم نے حملہ کیا تو سب سے پہلے مدافعت کرنے میں پیش پیش مولانا ثناء اللہ مرحوم ہوتے تھے ۔ چنانچہ جب مہاشہ راجپال نے اپنی رسوائے زمانہ کتا ب میں خاکم بدہن نبی اکرم ﷺ پر بے جا اعتراض کیے تو آپ نے سب سے پہلے اس کا جواب ’’مقدس رسول ‘‘ کی صورت میں دیا ۔ اس کے بعد جب سوامی دیانند سرسوتی نے اپنی ایک لیکچر اور بے ہودہ کتاب ستیار تھ پر کاش میں اسلام پر اعتراضات کیے تو آپ نے اس کے جواب میں ‘‘ حق پر کاش لکھی ۔ جس میں اسلام کی حقانیت ، اسلامی تہذیب کی خوبیاں ،اور بلند اخلاقی کا اعلیٰ معیار قائم کیا ۔ سرسید احمد خاں نے جب جدت پسندی سے کام لیا تو ان کے مذہبی افکار پر بھی مدلل تنقید کی ۔
ملت اسلامیہ کے مخالفین میں سب سے خطر ناک تحریک قادیا نیت تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ مولانا ثناء اللہ مرحوم نے سب سے زیادہ اس کی تردید میں علمی جہاد کیا ۔ آپ نے قادیانیت کی تردید میں تقریباً 21 کتابیں لکھیں ار قادیا نیت کی تردید میں اتنا کام کیا کہ جماعت مرزائیہ اور اس کے بانی مرزا غلام احمد قادیانی عاجز آگے ۔ اور آخر مولانا مرحوم سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے مرزا غلام احمد قادیانی کو ایک اشتہار شائع کرنا پڑا اور جس میں بانی جماعت مرزائیہ کو یہ کہنا پڑا ۔
کہ خدا مجھ میں اور ثناء اللہ میں فیصلہ فرما ۔
اور جھوٹے کو سچے کی زندگی میں ہلاک کر دے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا مرحوم نے قادیا نیت کی تردید میں جو قابل قدر خدمات انجام دی ہیں ۔ اس سلسلہ میں خود تحریر فرماتے ے ہیں ۔
’’قادیانی لٹریچر کو جمع کرنے اور ان کی واقفیت حاصل کرنے میں میں نے بڑی محنت کی ہے ۔ جس کا اثر یہ ہو ا کہ مولانا حبیب الرحمٰن صاحب مرحوم مہتمم مدرسہ دیوبند نے مجھ کومخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم تیس 30 سال تک محنت کریں تو بھی اس بارے میں آپ کی واقفیت تک نہیں پہنچ سکتے ۔ میں نے کہا ۔ یہ تو آپ کا حسن ظن اور تواضع ہے ۔ (اہلحدیث امر تسر 23 جنوری 1942ء )
مولنا ثناء اللہ مرحوم کی ہستی اسلامی دنیا میں وہ مایہ ناز، یکتائے روز گار ہستی تھی ۔ کہ ان کی نظیر نہ ان کے معاصرین میں ملتی ہے ، نہ بعد والوں میں ۔ مولانا مرحوم منقول و معقول کے ایک زبردست جامع عالم و فاضل تھے ۔ آپ بہترین فصیح و بلیغ ، متکلم اور بہترین مصنف ، باکمال مفسر ، اعلیٰ درجہ کے مناظر ، بلکہ رئیس المناظرین اور شیخ الاسلام تھے ۔ آپ نے جوا سلام اور جماعت اہل حدیث کی گونا گوں زریں خدمات دیں وہ اظہر من الشمس اور ناقابل فراموش ہیں ۔
آپ کو جو اللہ تعالیٰ نے ہمہ قسم کی خوبیاں بخشی تھیں وہ قابل قد رو قابل رشک ہیں ۔ توکل زہدو و اتقا وحسن اخلاق ، مہمان نوازی ،علم و برد باری ،قناعت و سنجیدگی ، بے باکی ، حاضر جوابی میں اپنی مثال نہیں رکھتے تھے ۔ آپ نے علم و دین ،قوم و جماعت و ملت کی وہ بیش بہا خدمات انجام دیں جن کو موجودہ اور آنے والی نسلیں ہمیشہ یادرکھیں گی ۔
مولانا ثناء اللہ جون 1868ء میں امر تسر میں پیدا ہوئے ۔14 سال کے تھے کہ مولانا احمد اللہ امر تسری کے حلقہ ء درس میں شامل ہوئے ۔ اس کےبعد استاد حدیث مولا نا حافظ عبدالمنان صاحب محدث وزیر آبادی کی خدمت مین حاضر ہوئے ۔ وزیر آباد میں تکمیل حدیث کےبعد دیوبند تشریف لے گ‘ے ۔ جیسا کہ مولانا مرحوم خود فرماتے ہیں ۔
’’وزیر آباد میں حدیث شریف پڑھ کر 1307ء میں دیو بند گیا ۔ وہاں کتب درسیہ معقول و منقول شرح چغمینی تک پڑھیں ۔ حدیث کے دور سے بھی استفادہ کیا ۔ دیوبند سے ثم خیرا مجھے مدرسہ فیض عام کان پورے گیا ۔ کیونکہ ان دنوں مولانا احمد حسن صاحب مرحوم کے منطقی درس کا شہرہ بہت زیادہ تھا ۔مجھے بھی علوم معقول و منقول سےخاص شغف تھا اس لیے مدرسہ فیض عام کان بور میں جا کر داخل ہو گیا ۔ کچھ شک نہیں مولانا مرحوم کا تبحر علمی واقعی قابل تعریف تھا وہاں جا کر میں کتب مقررہ میں شریک ہوا اور قند مکرر کا لطف اٹھایا ۔ انھیں دنوں مولانا مرحوم کو حدیث پڑھانے کا تازہ تازہ شوق ہوا تھا ۔ میں ان کے درس حدیث میں شریک ہوا ۔ پنجاب میں مولانا حافظ عبدالمنان صاحب مرحوم(اہل حدیث مشرب )میرے شیخ الحدیث تھے ۔ دیوبند میں مولانا محمود الحسن صاحب اور کان مبں پور مولانا احمد حسن صاحب (رحمۃ اللہ علیہم اجمعین )استاذ العلوم و الحدیث میرے شیخ الحدیث تھے ۔ اس لیے میں حدیث کے تین استادوں سے جو طرز تعلیم سیکھا ۔ وہ بالکل ایک دوسرے سے مختلف ہے ۔ جس کے ذکر کا یہ موقع نہیں ۔
اثنائے قیام دیو بند ہی میں میں نے حضرت میاں صاحب دہلوی مرحوم و مغفور کی خدمت میں حاضر ہو کر سند اجازت حاصل کر لی تھی ۔ شعبان 1310ء مطابق 1892ء فیض عام کان پور کا جلسہ ہوا ۔ جس میں آٹھ طلبا کو دستار فضیلت ، اور سند تکمیل دی گ‘ی ۔ ان آٹھ میں سے ایک گمنام بھی تھا ۔ فیض عام کا یہ جلسہ وہ ہے جس میں زیر صدارت مولانا لطف اللہ صاحب مرحوم و معقور مذوۃ العلماء کی بنیاد رکھی گئی تھی ۔ اس جلسہ کی یہی یاد گار کافی ہے ۔ (اہلحدیث امر تسر 23 جنوری 1942ء)
کان پور سے فراغت کے بعد مولانا مرحوم امر تسر تشریف لائے ۔ اور امر تسیر کے ایک مدرسہ میں درس نظامیہ کی تعلیم پر مامور ہوئے ۔ مولانا کی طبعیت میں تجسس بہت زیادہ تھا ۔ زمانہ طالب علمی ہی میں طبعیت اس طرف مائل تھی ۔ غیر مذاہب کی کتابیں پڑھتے تھے ۔ اور ان کی علماء سے بحث مباحثہ میں مشغول رہتے تھے ۔ عیسائی اور آریہ اپنے مذہب کی صداقت کے لیے آئے دن بحث مباحثہ کرتے رہتے تھے ۔ اور انہی دنوں قادیانی تحریک بھی شروع ہو چکی تھی ۔ چنانچہ مولانا محروم نے اس طرف دلچسپی لینی شروع کی ۔جیسا کہ آپ فرماتے ہیں ۔
مسلمانوں کی طرف سے اس دفاع کے علمبردار مولانا ابو سعید محمد حسین صاحب
بٹالوی مرحوم تھے ۔ میر طبعیت طالب علمی ہی کے زمانہ سے مناظر ات کی طرف بہت راغب تھی ۔ اس لیے درس و تدریس کی علاوہ میں ان تین گروہوں (عیسائی ،آریہ اور قادیانیوں ) کے علم کلام اور کتب مذہبی کی طرف متوجہ رہا ۔
بفضل تعالیٰ میں نے کافی واقفیت حاصل کر لی ۔ ہاں اس میں شک نہیں کہ ان تینوں مخاطبوں میں سے قادیانی مخاطب کا نمبر اول رہا ۔ شائد اس لیے کہ قدرت کو منظور تھا کہ مولانا بٹالوی مرحوم کے بعد یہ خدمت میرے سپرد ہو گی ۔ جس یک بابت مولانا مرحوم کوعلم ہوا ہو تو شاید شعر پڑھتے ہو ں گے ۔
آکے سجادہ نشیں قیس ہوا میرے بعد
رہی خالی نہ کوئی دشت میں جا میرے بعد
(اہل حدیث امر تسر 23 جنوری 1942ء)
مولانا محروم نے جو تحریر اور تقریری خدمات سر انجام دی ہیں ان کا احاطہ کرنا مشکل ہے ۔ آپ نے ہزاروں مضامین اور مقالے اخبار اہل حدیث میں لکھے ۔ اس کے علاوہ عیسائیت ، آریہ مت ، قادیانیت ، شیعیت ، منکریں حدیث ، نیچر یت اور مقلدین کی تردید میں بے شمار کتابیں لکھیں ، مجھے مولانا مرحوم کی جن تصانیف کا پتہ چل سکا ہے ان پر میں اکی مفصل مضمون الاعتصام لاہور اور اسلام گوجرانوالہ مین شائع کر اچکا ہون مجھے جو فہرست دستیاب ہو سکی ہے اس کی تفصیل حسب ذیل ہے ۔
$11. قرآن مجید کی تفاسیر
$12. عامۃ المسلمین اور اسلامی کتب
$13. مقلدین کی ہدایت اور اہل حدیث کی حمایت
$14. تروید آریہ سماج
$15. تردید عیسائیت
$16. تردید قادیانیت
قادیانیت کی تردید میں آپ نے جو خدمات سرانجام دی ہیں ۔ اس کے متعلق مولانا مرحوم فرماتے ہیں ۔
کہ قادیانی تحریک کے متعلق میر کتابیں اتنی ہیں کہ مجھے خود ان کا شمار یا د نہیں ہاں اتنا کہ سکتا ہوں کہ جس شخص کے پاس یہ کتابیں موجود ہوں ۔ قادیانی مباحث میں اسے کافی واقفیت حاصل ہو سکتی ہے ۔ جس کا ثبوت مرزا صاحب بانی تحریک قادیان کی اس تحریر سے ملتا ہے جو انھوں نے 15 اپریل 1907ء کو شائع کی تھی جس کا عنوان تھا ۔
مولوی ثناء اللہ کے ساتھ آخری فیصلہ
اس کے شروع میں ہی میر نسبت جو خاص گلہ و شکایت کی گئی ہے وہ خصوصا قابل دید و شنید ہے ۔ مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ مولوی ثناء اللہ نے مجھے بہت بد نام وشنید ہے ۔ مرزا صاحب نے لکھا ہےکہ مولوی ثناء اللہ نے مجھے بہت بد نام کیا ۔ میرے قلعہ کو گرانا چاہا ، وغیرہ ۔ اس لیے میں دعا کرتا ہوں کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہو وہ سچے کی زندگی میں مرجائے ۔
کوئی خاص وقت تھا کہ جب یہ دعا ان کے منہ اور قلم سے نکلی اور قبولیت اسے لینے آئی ۔ آج قادیان کی بستی میں دھر ادھر دیکھو ثو رونق بہت پاؤ گے مگر ایسی کہ دیکھنے والا اہل قادیان کو مخاطب کر کے داغ مرحوم کا یہ شعر سنائے گا ۔
آپ کی بز م میں سب کچھ رہے مگر داغ نہیں
آج وہ خانہ خراب ہم کو بہت یاد آیا
(اہل حدیث امر تسر 23 جنوری 1942ء)
مولانا ثناء اللہ مرحوم جامع الصفات شخصیت تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو گو نا گون صفات سے موصوف فرما یا تھا ۔ پاکیزہ سیرت ، خوبصورتی کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان کو زبان کی بلاغت و فصاحت بھی اعلی درجہ کی عطا فرمائی تھی ۔ عربی فارسی پر بھی کافی عبور حاصل تھا ۔ آپ نے اپنی عربی تفسیر القرآن بکلا الرحمان ‘‘ میں اپنی خدادا د ذہانت کے موتی بکھیرے ہیں ۔ قرآن وحدیث کے معانی ومطالب کو علمی انداز میں عقلی و نقلی دلائل سے مبرہن کر کے علوم دینیہ کے شائقین کے لیے قلبی اطمینان کا سامان فراہم کیا ہے ۔
مولانا مرحوم کی عربی تفسیر کے بارے میں مصر کے نامور عالم علامہ سید رشید رضا نے اپنی مجلہ المنار ہیں بہترین خراج تحسین پیش کیا ۔ اور برصغیر کے نامور مورخ علامہ سید سلیمان ندوی مرحوم نے اپنے علمی رسالہ معارف اعظم گڑھ کی اشاعت جلد 24 ص 316 پر لکھا ۔ ’’کہ تفسیر القرآن بکلام الرحمان اس قابل ہے کہ اسے نصاب درس میں داخل کر لیا جائے ‘‘
ایک شخص تدریس و تصنیف میں ماہر ہو تو ضروری نہیں کہ تحریر و تقریر میں بھی خاص مہارت رکھتا ہو ۔ یا اگر میدان تحریر کا شہسوار ہو تو وہ اکی شعلہ نوا مقر ر بھی ہو ۔ مگر مولانا امر تسری مرحوم کو اللہ تعالیٰ نے جامعیت عطا فرمائی تھی ۔ وہ ایک اعلی ٰ درجہ کے مقرر ، مناظر ، حاضر جواب تھے تو دوسری طرف اعلیٰ درجہ کا تصنیفی سلیقہ بھی رکھتے تھے ۔ مولانا مرحوم ایک کریم النفس اور شریف الطبع انسان تھے ۔ اپنے پہلو میں ایک درد مند دل رکھتے تھے ۔ دوستوں کے دکھ درد میں شریک ہوتے ۔ ان کی راحت و تکلیف کا خیال رکھتے ۔ وہ بہت زیادہ خود دار بھی تھے ۔ عفاف و استغفار کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوٹا ۔ طبعیت میں قناعت تھی جاہ و ریاست کے طالب نہ تھے ۔ اپنی قیمت پہچانتے تھے اور اس کا صحیح اندازہ لگاتے تھے ۔ کریمانہ اخلاق اور ستو و صفات كى حامل تھے ۔ ان کے اتنے کھرے اور صاف گو ہونے کے باوجود احباب اور عقیدت مندو ں کا حلقہ بہت وسیع تھا یہ ان کے وسعت اخلاق کی دلیل تھی ۔ قناعت و استقامت کے پہاڑ تھے ۔ ایقان و توکل آب کا خاص وصف تھا ، زہدو تقویٰ میں مثالی کردار کے حامل تھے ۔ مکارم اخلاق کی مجسمہ تصوریر تھے ۔ اعزا و اقارب سے حسن سلوک میں یکتا تھے ۔ فراست و دانائی آپ کا موروثی وصف تھا ۔ نظافت و نفاست ارو سلیقہ پسندی میں آپ کو خاص ذوق اور ملکہ حاصل تھا ۔
گفتار : میں ساحرانہ حلاوت وفصاحت ، حق گوئی و حق جوئی تھی ، کسی مجلس میں بھی آپ کی کشائی ،عقدہ کشا اور حق نما، نتیجہ خیز وسبق آموز و عبرت آموز ہوتی تھی ۔
رفتار : ۔ جوانمردو مقہورانہ
تقریر:۔ پر منغر ، مثمر و معنی خیز۔
تحریر :۔ نظافت و نفاست و عمدگی میں خطاطی کا نمونہ
مضمون :۔ میں سلاست و جامعیت ، ربط و ضبط ، استحضار و تسلسل کے اوصاف تھے ۔
تنقید :۔ شاہین کی طرح جرات مندانہ و محققانہ ۔؏
آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی
جود و سخا آپ کی خاندانی عادت تھی ۔
اور ٖپ صحیح طور بر اس شعر کے مصداق تھے ۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
پون صدی امر تسر میں قیام کے بعد آب کو اپنا وطن مالوف چھوڑنا پڑا۔ اورآپ ہجرت کرکے پاکستان تشریف لے آئے ۔
ترک مال و ترک جان و ترک پسر
در موز عشق اول منزل اس
جن اسباب کے تحت آپ کو وطن چھوڑنا پڑا ۔ وہ اسباب ظاہری تھے یعنی تقسیم ملک ، مسلمانوں نے اپنے لیے ایک علیحدہ آزاد مملکت کا مطالبہ کیا جو بہت بڑی قربانیوں کے بعد پورا ہوا ۔ مشرق پنجاب میں ماچ 1947ء سے ہی فسادات شروع ہو چکے ۔ اور جو فسادات میں امر تسر کیسے محفوظ رہ سکتا تھا ۔ امر تسر اور اس کے گرد و نواح سکھوں کی کثیر آبادی تھی جو مسلمانوں کو تباہ وبرباد و ہلاک کرنے کے لیے جمع ہو گئی ۔ لہذا امر تسر میں مسلمانوں پر جو ظلم و ستم ہوا اس کی مثال شاید سارے ہندوستان میں نہ مل سکے ۔ قیام امن کے سلسلے میں ہندوستان میں امن کمیٹیاں بنی تھیں اور اس سے امر تسر کیسے مستثنی ٰ رہ سکتا تھا ۔ امر تسر میں بھی امن کمیٹیاں قائم ہوئیں مگر ہندو اور سکھ اس سلسلہ میں مخلص نہ تھے ۔ اور مسلمانوں نے حتی المقدورس کوشش کی کہ شہر میں امن و امان رہے ۔
مولانا امر تسری مرحوم چونکہ خود امن آشتی کے بہت حامی تھے اور وہ صلح و سلام کے خوگر تھے ۔ اس لیے آپ نے ان امن کمیٹیوں کا خیر مقدم کیا ۔ خود بھی ممبر بنے اور دوسرے احباب کو بھی ممبر بنایا ۔ مگر یہ امن کمیٹیاں صحیح طور پر اپنا مشن جاری نہ رکھ سکیں اور فسادات دن بدن بڑھتے ہی گئے اور ان پر قابو نہ پایا جا سکا ۔
جب فسادات دن بدن زیادہ بڑھتے گئے اور امن و امان کی کوئی صورت نظر نہ آئی ۔
تو آپ نے ہجرت کا قصد فرمایا ۔ چنانچہ جس روز آپ نے امر تسر چھوڑنے کا ارادہ فرمایا ۔ اسی دن آپ کے اکلوتے صاحبزادے مولوی عطاء اللہ صاحب کو ایک بم کے ذریعے شہید کر دیا گیا ۔
آپ نے خود نماز جنازہ پڑھائی ۔ تجہیزوتکفین سے فارغ ہو کر گھر تشریف لائے ۔ اس کے بعد آپ نے امر تسر کو خیر باد کیا اور آپ لاہور تشریف لے آئے ۔ لاہور میں کچھ عرصہ قیام کے بعد مولانا محمد اسمعیل السلفی رحوم سابق امیر جمعۃ اہل حدیث پاکستان کے صرار پر گوجرانوالہ تشریف لے آئے ۔ گوجرانوالہ میں آپ کا قیام وسط جنوری 1948ء تک رہا ۔ اس کےبعد آپ سرگودھا تشریف لے گئے ۔ جہاں آپ کو حکومت نے ثنائی برقی پریس امر تسر کے عوض ایک پریس الاٹ کر دیا تھا ۔
سرگودھا کے قیام میں آپ دوبارہ اخبار اہل حدیث کے اجراء کاسلسلہ شروع کرنے والے تھے ۔ اخبار اہل حدیث جو آپ نے 1902ء میں جاری کیا تھا ۔ اور جس کا آخری شمارہ اگست کے پہلے ہفتے میں شائع ہوا تھا ۔ جو تقریباً 44 سال تک توحید و سنت اور اسلام کی اشاعت میں مصروف رہا ۔ تقریبا ً 9 ماہ سے بند ہوگیا تھا ۔ اس کو دوبارہ جاری کرنے والے تھے ۔ اس کے لیے بروگرام بھی وضع کر لیا تھا کہ 12 فروری 1948ء کو آپ کو دائیں جانب فالج گرا ۔ حملہ نہایت شدید تھا ۔سماعت ، شناخت اور تکلم کی قوتیں جواب دے گئیں ۔ احبا ب و عزہ نےعلاج ومعالجہ میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی ۔ مگر کوئی دوا کار گر نہ ہوئی ۔ اور آخر کل نفس ذائقہ الموت کے اٹل قانون کے تحت اسلام کے اس مرد غازی نے 15 مارچ 1948ء دو شنبہ کے روز صبح کے وقت اپنی جان جان آفرین کے سپر د کر دی ۔ انا اللہ وانا الیہ راجعون ‘‘ مولانا ثناء اللہ مرحوم اکثر تقاریر میں یہ اشعار پڑھا کر تے تھے ۔
مارا دیار غیر میں لا کر وطن سے دور
رکھ لی خدا نے میری بےکسی کی لاج
شہر میں چین نہ جنگل میں امان ملتی ہے
دیکھیے قبر مسافر کو کہاں ملتی ہے
آپ کے انتقال سے برصغیر پاک و ہند کے تمام علمی حلقوں میں صف ماتم بچھ گئی ۔ برصغیر پاک وہند کے جرائد نے آپ کی وفات پر ما تمی مقالے لکھے ۔ دونوں حکومتوں میں تغریت کے اجلاس منعقد ہوئے ۔ دہلی کے ایک بہت بڑے سیاسی جلسہ میں مولانا ابو الکلام آزاد اور مولانا حفظ الرحمن صاحب ناظم جمعیۃ علمائے ہند نے آپ کے انتقال پر ایک غیر معمولی نقصان اور علمی فقدان کا درد انگیز ماتم کیا ۔
برصغیر کے تمام شعراء اخبارات اور ممتاز علمائے کرام و دانشوروں نے آپ کو خراج عقیدت پیش کیا ۔ یہاں صرف شعراء میں جماعت اہل حدیث کے مشہور عالم و شاعر مولانا نور حسین گھر جاکھی مرحوم کے چنداشعار پیش کیے جاتے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں ؏
وہ عالم تھا ، مجاہد تھا ، محدث تھا ، زمانے کا
وہ ہر میدان کا غازی تھا ، مجدد تھا زمانے کا
مناظرہ تھا ، مجاہد تھا وہ سب علموں میں اعلم تھا
غرض وہ اپنی قوم میں سپہ سالار اعظم تھا
زباں عربی لو اردو میں لکھی ہیں چار تفسیریں
خزینہ علم وحکمت کاگل و گلزار تفسیریں
مفسر تھا کلام اللہ کا وہ محبوب حقانی
وہ اپنے دور کا رازی وابن تیمیہ ثانی
وہ اپنا فرض پورا کر چکا تھا ، بحر ہستی میں
بالآخر سو گیا آکر وہ سرگودھا کی بستی میں
وہ علم و فضل کاسورج ، قوی پنجہ مناظر تھا
وہ فاتح قادیاں اسلام کا ایک گوہر نادر تھا (سیرت ثنائی )
ندائے مدینہ بحبور نے اپنے ادارتی کالموں لکھا۔
اگر پورے دنیائے اسلام کے مکابر ، علما، کسی ایک مجلس علمی میں جمع ہوں اور بیک وقت عیسائیوں ، آریوں ، سناتن دھرمیوں ، ملحدوں ، نیچریوں ، شیعوں ، منکرین حدیث ، چکڑالو یوں ، بریلویوں ، دیوبندیوں سے غرض ہر فرقے سے ایک ایک گھنٹہ مسلسل نو گھنٹے بحث و مذاکرہ کی نوبت آئے ۔ تو عالم اسلام کی طرف سے کون سی ہستی ہو گی ۔ مجھے معلو م نہیں ۔ لیکن پاکستان ،ہندوستان ، برما ، لنکا ۔ جزیرہ ، جاوہ ، سماٹرا کی طرف سے صرف ایک ہستی پیش ہو سکتی ہے ۔ اور وہ حضرت شیخ الاسلام مولانا ابو فاء ثناء اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی ہستی تھی ۔ ان کی رحلت کے بعد ہندوستان و پاکستان کی یہ سربلندی شاید باقی نہ رہے ؏
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
علامہ سید سلیمان ندوی عالم اسلام کے ایک مشہور نامور فرزند تھے ۔ آپ مشہور ادیب مورخ سرۃ نگار اور انشاء پرداز تھے ۔ مولانا ثناء اللہ مرحوم آپ کے خاص دوستوں میں سے تھے ۔ اور آب سے آپ کے دیرینہ تعلقات تھے ۔ مولانا سلیمان ندوی نے آب کی وفات پر اپنےمشہور علمی رسالہ معارف اعظم گڈھ میں آب کی زبردست خراج تحسین پیش کیا ۔ یہ خراج تحسین اس قابل ہے کہ آپ بھی اس ے لطف اندوز ہوں سید سلیمان ندوی مرحوم فرماتے ہیں ۔
مولانا ہندوستان کے ماہیر علما میں تھے فن مناظرہ کے امام تھے خوش بیان مقر ر تھے ۔ متعدد تصانیف کے مصنف تھے ۔ مہبا اہل حدیث تھے اور اخبار اہلحدیث کے ایڈیٹر تھے قومی سیاسیاست کے مجلسوں میں کبھی کبھی شریک ہوتے تھے ۔ مرحوم سے مجھے نیازی اپنی طالب علمی ہی سے تھا ۔ وہ سال میں ای دو دفعہ ہندوستان کے مختلف شہروں میں آتے جاتے ۔ لکھنو آتے تھے اور دار العلوم ندوہ میں تشریف لا کر احباب سے ملتے تھے اسی سلسلہ میں مجھے بھی نیازی حاصل ہوا ۔
ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ مرحوم مدرسہ میں تشریف لائے ۔ میں درس میں تھا ۔ ان کو آتا دیکھ کر ان کی طرف لپکا مگر مرحوم نے میرے بجائے سبقت استاذی شمس العلماء مولنا حفیظ اللہ صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ کی طرف کی ۔ اور حدیث کا یہ ٹکڑا پڑھا ۔ کبرا لکبر یعنی بڑے کو بڑائی دو ۔
مرحوم مذوہ کے رکن اکثر رہے ۔ بلکہ خود ان کے بقول مذوہ کانپور میں ان کی دستار بندی ہی کے جلسہ میں پیدا ہوا ۔ مرحوم نے ابتدائی تعلیم کے بعد کچھ دنوں مدرسہ دیوبند میں پڑھا ۔ پھر وہ کانپور آکر مدرسہ فیض عام میں داخل ہوئے اور یہیں 1314ھ میں فراغت پائی ۔
یہ وہ زمانہ تھا کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے دعووں سے پنجاب میں فتنہ پیدا تھا ۔ انھوں نے مرزا کے خلاف صف آرائی کی ۔ اور اس وقت سے لے کر آخر دم تک اس تحریک اور اس کے امام کی تردید میں پوری قوت صرف کر دی ۔ یہا ں تک کہ طرفین میں مباہلہ بھی ہوا ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صادق کے سامنے کا ذب نے وفات پائی ۔ یہ پرانے قصے ہیں ۔ جن کو دہرانے کی چنداں ضرورت نہیں ۔ موجودہ سیاسی تحریکات سے پہلے جب شہروں میں اسلامی انجمنیں قائم تھیں ۔ اور مسلمانوں اور قادیونیوں اور آریوں اور عیسائیوں میں مناظرے ہوا کرتے تھے ۔تو مرحوم مسلمانوں کی طرف سے عموما ً نمائندہ ہوتے تھے اور اس سلسلہ میں وہ ہمالیہ سے لے کر خلیج بنگال تک ہمیشہ رواں اور دواں رہتے تھے ۔
اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف جس نے بھی زبان کھولی اور قلم اٹھایا ۔ اس کے حملے کو روکنے کے لیے ان کا قلم شمشیر بے نیام ہوتا تھا اور اسی مجاہد انہ خدمت میں انھوں نے عمر بسر کر دی ۔ فجراه الله عن الاسلام خير الجزا-
وه مصنف بھی تھے ۔ مخالفین اسلام کے اعتراضوں کے جواب میں ان کے اکثر رسالے ہیں ۔ ان کی تصنیفات میں دو تفسیریں خاص ذکر کے قابل ہیں ۔ تفسیر ثنائی اردو اور تفسیر القرآن بکلام الرحمان عربی میں ۔ مرحوم کو خود بھی یہ تفیسریں پسند تھیں ۔ مرحوم چونکہ مناظر تھے اس لیے عربی تفسیر میں آیات صفات کے باب میں سلفی عقائد کے بجائے حضرت شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی پیروی میں تاویل کی راہ اختیار کی تھی ۔ اس سے امر تسر کے غزنوی علمائے اہل حدیث نے ان کی بشدت مخالفت کی 1926ء میں جب حج کی تقریب میں خاکسار اور مرحوم اور دیگر علمائے اہل حدیث کا حجاز جانا ہوا ۔ تو یہ نزاع سلطان ابن سعود کے سامنے بھی پیش ہوئی اور سلطان نے کوشش کر کے فریقین میں صلح کر ادی ۔ مرحوم وہیں مجھ سے فرماتے تھے کہ افسوس ہے کہ نجد کے علماء حضرات شاہ ولی اللہ کی قدروقیمت سے واقف نہیں۔ اور مجھ سے چاہتے تھے کہ میں اس باب میں سلطان سے کچھ غرض کروں ۔
مرحوم کبھی کبھی قومی مجلسوں میں بھی شرکت کرتے تھے ۔ 1912ء کی غددہ کی تحریک اصلاح کے سلسلہ میں جب حکیم اجمل خاں مرحوم کی دعوت پر دہلی میں ایک عظیم الشان اجلاس ہوا ۔ جس میں سارے ہندوستان کے مسلمان نمائندے شریک تھے تو مولانا شبلی کی تحریک پر مرحوم ہی صدر مجلس قرار پائے تھے ۔ 1919ء میں جب تحریک خلافت کا پہلا ابتدائی جلسہ لکھنؤ میں ہوا جس میں سارے ملک کے اکابر اور مشاہیر جمع تھے اس میں بھی مرحوم شریک تھے ۔ 1925ء کی جمعیۃ العلماء کے اجلاس کلکتہ میں جس میں اس خاکسار کی صدارت تھی ۔ مرحوم موجود تھے اور خاص طور سے اس لیے آئے تھے کہ جمعیۃ کے اس اجلاس میں دارالحرب میں سود کے مسئلہ پر بحث کرنے والے تھے ۔ حضرت مولانا انور شاہ صاحب اور دوسرے علمائے دیوبند بھی بشریف فرما تھے ۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ اگر حضرات علمائے دیوبند حنفیہ کے مشہور مسلک ’’لاربو ابن الحربي والمسلم في دار الحرب ‘‘ پر متفق ہوں تو میں بھی تائید کروں گا مگر علماء میں نج کی گفتگو ہو کر رہ گئی ۔ کھلے اجلاس میں کوئی بحث نہیں ہوئی ۔
مرحوم 1926ء میں حجاز کے موتمر اسلامی میں نمائندہ اہل حدیث کی حیثیت سے شریک تھے اور عربی میں ایک دو مختصر تقریریں بھی اپنے طرز کی موتمر میں کی تھیں ۔ مدینہ منورہ بھی حاضر ہوئے تھے ۔ کہتے تھے کہ جو اہل حدیث یہاں نہ آئے وہ محبت سے خالی ہے ۔ (ان کا اصل فقرہ اس وقت پوری طرح یاد نہیں )
ڈاکٹر اقبال کی وفات کےبعد میرا لاہور جانا ہوا ،اور ان کو خبر ہوئی تو مجھے پیغام بھیجا کہ واپسی میں ان سے ملے بغیر نہ جاؤں ۔ چنانچہ واپسی میں امر تسراترا ۔ اور ان کے پاس دو دن ٹھہرا ۔ اور بہت سی باتیں ہوئیں ۔ جن میں سے ایک جیسا خیال آتا ہے ۔ اہل حدیث کے انتشار اور پراگندگی کی گفتگو تھی ۔ میں مرحوم کو لکھتا رہتا تھا کہ آپ آمین ،رفع یدین وغیرہ مسائل فقہ جن کا ہر پہلو جائز اور ثابت ہے ۔ مناظر اور تحریروں میں وقت ضائع نہ کریں ۔ مگر وہ ان کی اہمیت پر مصر تھے ۔
ان کی عمر میرے خیال میں 80سے کچھ متحاوز ہو گئی ۔ ابھی چند سال ہوئے وہ گر پڑے تھے ۔ جس سے کو لہے کی ہڈی پڑ چوٹ لگی تھی ۔ جس کے سبب سے وہ چلنے پھرنے سے معذور ہو گئے تھے ۔ پنجاب کے گزشتہ حادثہ میں جو ان بیٹے کی مفارقت کا اثر یقینا پڑا ہو گا ۔ لیکن اس کے بعد پاکستان و ہندوستان کے درمیان جو دیوار قائم ہوگئی ۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مجھے مرحوم کی وفات کی اطلاع بھی اس سے پہلے نہیں ہوئی ۔ اور یہ اطلاع بھی جمعیۃ العلماء دہلی کے تازہ جلسے میں تعزیت کی تجویز سے ہوئی ۔ انا الله وانا اليه راجعون –
مرحوم اسلام کے بڑے مجاہد سپاہی تھے ۔ زبان اور قلم سے اسلام پر جس نے بھی حملہ کیا اس کی مدافعت میں جو سپاہی سب سے آگے بڑھتا ۔ وہ وہوتے ۔ اللہ تعالیٰ اس غازی اسلام کو شہادت کے درجات و مراتب عطا فرمائے ۔ آمین (معارف مئی 1948ء جلد61۔ ص5)
تفسیر الخارن مع النسفی
الترتیب و البیان عن تفصیل آمی القرآن ، تفسیر روح البیان ، احکام القرآن للحصاص ،شرح شزور الذہب فی معرفۃ الکلام العرب ، اعلام الموقعین الابن قیم ، منہاج السنۃ الابن تیمیہ الحادی للفتاوی ٰ الخصائص الکبریٰ للسیوطی ،مروج الذہب و معاون الجوا ہر (التاریخ الفتاویٰ الحدثییہ الابن حجر مکی تنقیح الرواۃ فی تخریج احادیث المشکوٰۃ علاوہ ازین بے شمار عربی اردو کتب کا ذخیرہ ۔ آپ اپنی کوئی کتاب بچنا چاہیں تو ہمیں یاد فرمائیں ۔
عبدالرحمن عاجز مالک رحمانیہ دار الکتب ۔ امین پور بازار فیصل آباد