مضبوط حکومت کےلئے نئے سے نئے جنگی اورزارا ایجاد کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ نئے سے نئے آلات موسیقی :
آیات بالا میں حضرت داؤد کی حکومت سے متعلق خبر دی گئی ہے ’’شددنا ملک‘‘ کہ ہم نے ان کی حکومت کو مضبوط پایا تو اس پر سوال پیدا ہوتا کہ مضبوط حکومت کے لیے نیا سے نیا اسلحہ ایجادکرنے کی ضرورت ہے یا نئے سے نئے آلات موسیقی یعنی طبلے طنبورے ،سرنگیاں ،ستاریں ،اکتارے ،کھنجریاں اور گھنگرو ایجاد کرنے کی ؟ سورہ سباء میں حضرت داؤد کے متعلق خبر دی گئی ہے :
﴿وَلَقَد ءاتَينا داوۥدَ مِنّا فَضلًا يـٰجِبالُ أَوِّبى مَعَهُ وَالطَّيرَ وَأَلَنّا لَهُ الحَديدَ ﴿١٠﴾أَنِ اعمَل سـٰبِغـٰتٍ وَقَدِّر فِى السَّردِ وَاعمَلوا صـٰلِحًا إِنّى بِما تَعمَلونَ بَصيرٌ ﴿١١﴾...سبإ
’’اور بلاشبہ ہم نے داؤد کو اپنی طرف سے (خلافت ارضی کی )فضیلت عطا فرمائی اور اس کی مضبوط جنگی قوت کی بدولت ہم نے اپنے قانون کی زبان سے کہہ دیاکہ ) اے پہاڑی لوگوں ! اور اے آزاد قبائل ،سب اس کے ساتھ مل کر میرے مطیع ہو جاؤ اور ہم نے اس کےلئے لوہے کو نرم پایا (اور حکم دیا کہ ) تو زرہیں بنا یا کر اور ان کے حلقوں میں صحیح صحیح اندازے رکھا کر یعنی تم (لوہے سے جنگی سامان تیار کر کے )صلاحیت بخش عمل کیا کرو۔ بیشک تم جوبھی عمل کرتے ہو میں اسے بہت اچھی طرح دیکھنے والا ہوں !
کیا یہ دشمنان اسلام کی اسلام کے خلاف ایک سازش نہیں ؟
قرآن کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد کو لوہے کی زر ہیں یعنی سامان حرب بنانے کا حکم دیا دیا تھا اور محرفین توراۃ کہتے ہیں کہ آپ جنگی سامان کی بجائے نئے سے نئے آلات موسیقی طبلے ،سرنگیا ہستاریں ،اکتارے ،و تارے ،طنبورے اور ناچنے کےلیے بلند آواز جھانجھیں یعنی گھنگرو ایجاد فرمایا کرتے تھے تو اس طرح جب ہم قرآن کریم اور محرف توراۃ کا غائرانہ توجہ کےساتھ تقابل کرتے ہیں تو معلوم ہونا ہےکہ حضرت داؤد کی طرف گانا بجانا اور نئے سے نئے آلات موسیقی ایجاد کرنا منسوب محض ہے اور اہل اسلام کے خلاف یہ ایک گہری سازش ہے کہ مسلمان قوم سنت داؤد کی سند کے ساتھ ناچ گانوں میں دن گانے بجانے میں مصروف رہ کر بزعم خویش سنت داؤدی ادا کرتے چلے جار ہے ہیں ’’النالة الحدية ‘‘ کے قرآنی اعلان سے اس قدر بے خبر ہیں کہ ساٹھ باسٹھ کے قریب اسلامی حکومتوں میں سے کسی ایک کے ہاں بھی جنگی اسلحہ کی فیکٹری کا وجود تو دور کی بات ہے کسی ایک اسلامی حکومت میں لوہے کا کارخانہ تک موجود نہیں ۔
ایک نکتۂ لطیف :
حضرت داؤد کی طرف ساز شانہ طور پر محرفین توراۃ کی طرف سے آلات موسیقی کے ایجاد کرنے کے بہتان عظیم پر مزید طویل تبصرہ تو اگلے صفحات میں پیش کیا جائے گا ۔ یہاں پر قرآن کریم کے بیان اسلوب تصریف آیات کے ذریعہ ایک لطیف نکۃ پیش خدمت ہے ۔ بغور ملاحظہ فرمائیں ۔ پچھلے صحفہ دی گئی آیات مجید ہ میں لوہے کی زرہیں یعنی لوہے کی مدد سے دفاعی جنگی سامان تیار کرنے کا حکم دینے کے بعد اراشد ہوا ہے ’’واعملو اصلحا‘‘ جس کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ اعمال صالح بجالاؤ۔
٭ ادھر سورۃ انبیاء میں زبور داؤد کی سند ہی کے ساتھ ارشاد ہوا ہے ۔
﴿وَلَقَد كَتَبنا فِى الزَّبورِ مِن بَعدِ الذِّكرِ أَنَّ الأَرضَ يَرِثُها عِبادِىَ الصّـٰلِحونَ ﴿١٠٥﴾...الأنبياء
’’اور بے شک ہم نے نصیحت کرنے کے بعد زبور میں لکھ دیا ۔ یہ کہ بلا شبہ زمین کے وارث میرے صالح بندے ہیں ۔
اس پر صالحین ہونے کے دعویداروں کی حیرت ایک لازمی امر ہے کہ مذکورہ بالا اعلان خداوندی کے مطابق زمین کے وارث وہ ہونے چاہیں جب کہ اس کے برعکس زمین کی حکومت ان لوگوں کے قبضے میں ہے جو ان کی نگاہ میں صالحین تو کیا مسلمان بھی نہیں ہیں یاتو وہ ہیں ہی منکرین باری تعالیٰ اور یا تین خداؤں کے ماننے والے مسلمانوں کی جہاں جہاں بھی حکومت قائم ہے وہ محض کافر حکومتوں کی طفیلی ہے غلہ ہو یا اسلحہ ضرورت کی ہر چیز کافر ملکوں سے حاصل کرنا پڑتی ہے ۔
لوہے کا جنگی دفاعی سامان بنانا اعمال صالحہ ہیں :
یہاں پہنچ کر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ کا دعویٰ غلط ہے کہ زمین کے وارث اس کے صالح بندے ہیں اور یا یہ دعویدار صالحین حضرات ،’’عبادی الصلحون ‘‘ کا معنی ٰ غلط سمجھے ہیں ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا دعویٰ تو کبھی بھی غلط نہیں ہو سکتا اس لیے ماننا پڑتا ہے کہ معنیٰ غلط سمجھ لیا گیا ہے کیونکہ جب تصریف آیات کے قرآنی اسلوب کے مطابق غور کیا جائے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ سورہ سباء کے مطابق لوہے سے سامان دفاع بنانے والے صالحین ہیں اور وہی وراثت ارضی کے مستحق ہیں کیونکہ ’’ اَنِ اعْمَلْ سٰبِغٰتٍ وَّ قَدِّرْ فِي السَّرْدِ كا حكم دينے کے بعد ارشاد ہوا ہے ۔ واعملوا صالحا‘‘ اعمال صالحہ بجالاؤ با الفاظ دیگر لوہے سے دفاعی سامان اور اسلحہ بنانا ایسا عمل صالح ہے جس سے زمین کی حکومت میسر آتی ہے ، مضبوط ہوتی ہے اور قائم رہتی ہے چنانچہ ناقابل انکار عالمی مشاہدہ گواہ ہے کہ زمین کے وارث وہی لوگ چلے آرہے ہیں جو جنگی ضروت کے لیے لوہے کا استعمال کرتے اور جدید سے جدید اسلحہ بنانے ہیں ۔ پرانے زمانہ میں تلواریں ۔ ڈھالیں نیزے ،بھالے اور خنجر پانچوں ،ہتھیار لوہے کے بنتے تھے ۔ تیر کمان ایجاد ہوئے تو تیر کی انی لوہے کی بنائی گئی جب تک لوہے کے یہ جنگی ہتھیار مسلمانوں کا ادڑھنا بچھونا رہے اس وقت تک وارثت ارضی ان کا حق رہا ۔ ابتدائی توڑے دار بندوق مسلمانوں ہی کی ایجاد ہے مگر جب یہ قوم لوہے سے نئے نئے جنگی اوزار بنانے کا صالح عمل ترک کر کے وارثت ارضی کے استحقاق کی رو سے خود ’’عبادی الصالحون ‘‘ سے خارج ہوگئی تو وراثت ارضی سے محروم کر دی گئی کے خدائی فیصلے کے مطابق وہ قومیں مستحق قرار دے دی گئیں جنہوں نے لوہے کے نئے سے نئے جنگی اوزار بنانا اپنا شعار ٹھہرا لیا سورہ حدید میں اعلان عام کر دیا گیا ہے ۔
وَ اَنْزَلْنَا الْحَدِيْدَ فِيْهِ بَاْسٌ شَدِيْدٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ
اور ہم نے لوہے کو یہ مخصوص اہمیت دی ہے کہ (قیامت ک کے لیے )اسی میں سخت ترین لڑائی کا سامان ہے اور تمام لوگوں کے لیے اس میں بہت سے فائدے بھی ہیں ۔
المحتصر !
تصریف آیات کے مستقل قرآنی اسلوب کےمطابق وراثت ارضی کے مستحق وہ لوگ ہیں جو لوہے سے جنگی سامان تیار کرتے ہیں اور استحقاق وراثت ارضی کی رو سے وہی اللہ کے صالح بندے ہیں حضرت داؤد کو خلافت ارضی کا مستحق اس لیے قرار دیا گیا کہ آپ کے ہاں ایسے کا رخانے قائم تھے جن میں لوہے کو نرم کرکے زرہیں وغیرہ یعنی جنگی ازار اور دفاعی سامان تیار کیا جاتا تھا آپ اس حربی قوت کی بدولت داؤد اعظم داؤد ذالاید ‘‘ کہلائے آپ کی طرف گانا بجانا موسیقی کے اوزان سارے گا ما ،پادا ، وغیرہ کی تدوین اور موسیقی کے نئے نئے آلات طبلہ ،سارنگی ،جھانجھ ،گھنگرو وغیرہ ایجاد کرنا منسوب محض ہے اور یہ اہل اسلام کے خلاف ایک گہر ی کامیاب سازش ہے ۔
تبصرہ نمبر :
دوسرے نمبر پر اقتباس زیر نظر میں یہ کہا گیا ہے ۔ کہ حضرت داؤد پر زبور نازل ہوئی اس میں ہر باب سے پہلے یہ ہدایت درج ہے کہ اسے سردار مغنی یعنی ہر گو یا کلاں ساز کے ساتھ گائے یعنی طبلہ ،سارنگی کے ساتھ یا ستار طپنورہ کے ساتھ یا جھائی گھنگروں یا گھڑے یا گھڑے چمٹے کے ساتھ ۔
4)واضح رہے کہ ہمارے یعنی اہل اسلام کے لئے ہر مسئلہ میں قول فیصل اللہ تعالیٰ کی کتاب لاریب قرآن مجید ہے ۔ اس لئے سورہ شعراء میں ارشاد ہوا ہے کہ سابقہ کتابیں توراۃ زبور اور انجیل وغیرہ قرآن مجید سے مختلف نہیں تھیں ان میں بھی قرآن مجید ہی موجود تھا :وَ اِنَّهٗ لَتَنْزِيْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَؕ۰۰۱۹۲نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُۙ۰۰۱۹۳عَلٰى قَلْبِكَ لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِيْنَ۰۰۱۹۴ بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِيْنٍؕ۰۰۱۹۵وَ اِنَّهٗ لَفِيْ زُبُرِ الْاَوَّلِيْنَ۰۰۱۹۶
’’اور بلاشبہ وہ (قرآن )رب العلمین کی طرف سے نازل کردہ ہے (اے رسول )اسے روح الامین واضح عربی زبان کے ساتھ لے کر آپ کے قلب اطہر پر نازل ہوا تاکہ آپ آگاہ کرنے والوں میں سے ہو جائیں اور بلا شبہ وہ قرآن ہی تما م پہلی کتابوں میں موجود تھا ۔
دیکھیئے ! ان آیات مجید ہ سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ قرآن عربی زبان کا قرآن ہے اور زبور مقدس اس زبان کا قرآن تھا جو حضرت داؤد اور آپ کی قوم کی زبان تھی عبرانی وغیرہ پس ثابت ہوا کہ اگر قرآن کی ہر سورت مجید کے شروع میں یہ ہدایت نازل کر دی گئی ہے کہ اسے طبلہ ،سارنگی ،طنبورہ ،اکتارہ یا گھڑے چمٹے کے ساتھ گایا جائے تو یہ چیز بھی باور کی جاسکتی ہے کہ زبور مقدس کے ہر باب کے شروع میں بھی یہ ہدایت نازل کردی گئی ہو گی کہ یہ باب فلاں ساز کے ساتھ گایا جائے ۔ مگر قرآن مجید میں چونکہ ایسی ہدایت کوئی نہیں اس لیے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی آیتوں کو خواہ وہ قرآن مجید کی ہوں یا تو راۃ شریف کی وراسی طرح خواہ انجیل پاک کی ہوں یا انجیل مقدس کی انہیں طبلہ ،سارنگی وغیرہ کے ساتھ گانے کا تصور ایک گہری سازش ہے جس کا اہل اسلام پر کم از کم اثر یہ ہو چکا ہے کہ سارنگی کی سر و رطبلے کی تھاپ ،جس سے خود بقول طلوع اسلام عقل کے سوئچ آف ہو جاتے ہیں ،سنت داؤدی کی سند سے حلال قرار دے کر پورے عالم اسلام کے ریڈیو اسٹیشن امت کو موسیقی کی افیون پلاتے چلے آرہے ہیں ۔
زبور مقدس بھی اکی ضابطہ حیات ہے :
پھر جیسے کہ کی سند ’’انه لفی زبر الاولین ‘‘ کے مطابق ثابت کیا چکا ہے کہ زبور داؤدی سمیت عام سابقہ کتابوں میں قرآن مجید ہی موجود تھا اور قرآن مجید اپنے تکراری اعلان :
اِنَّ هٰذِهٖ تَذْكِرَةٌ١ۚ فَمَنْ شَآءَ اتَّخَذَ اِلٰى رَبِّهٖ سَبِيْلًاؒ۰۰۱۹
كے مطابق خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ ضابطہ ٔ حیات ہے اس لئے ثابت ہو ا کہ جملہ ’’زبر الاولین ‘‘ معہ زبور مقدس ایک ہی ضابطہ حیات تھیں تو پھر کیا ضابطہ حیات کو بغور پڑھنے اور اس پر عمل کرنےکا حکم ،حکم خدحاوندی مانا جا سکتا ہے یا طبلہ ،سارنگی اور گھڑے بننے کے ساتھ گا کر عقل و بیصرت کا سوئچ آف کر دینا ارشاد باری تعاری تعالیٰ ہو سکتا ہے ؟جیسے کہ ربوا داؤدی یعنی عبرانی قرآن مجید کی ایک آیت مجید ہ پیچھے نقل کی جا چکی ہے جس کی خبر میں ’’ولقد كتبنا في الذبور من بعد الذكر ‘‘ کے الفاظ میں دی گئی ہے ۔’ ان الارض يرثها عبادي الصلحون ‘‘
’’یہ کہ بلاشبہ زمین کے وارث میرے صالح بندے ہیں۔
تو اب بتائیے کہ کیا زبور مقدس کی آیت مجیدہ کو بغور پڑھنے اور ایسے اعمال بجا لانے کا حکم ثابت نہیں ہوتا جن سے وراثت ارضی میسر آئے مگر اس کے برعکس ’’ان الارض يرثها عبادي الصلحون‘‘ کے جملے کو سرنگی کی سر اور طبلے کی تھاپ کے ساتھ گاتے رہنے کی کون سی تک ہے اور یہ تصور کس عقل و بصیرت کے میزان پر پورا اتر سکتا ہے ؟
زبور مقدس میں بھی وہی دین اور اس کی وہی شرع وحی کی گئی تھی جو قرآن مجید میں نازل کی گئی ہے :
سورہ شوریٰ میں ارشاد ہواہے : ’’ شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰى بِهٖ نُوْحًا وَّ الَّذِيْۤ اَوْحَيْنَاۤ اِلَيْكَ وَ مَا وَصَّيْنَا بِهٖۤ اِبْرٰهِيْمَ وَ مُوْسٰى وَ عِيْسٰۤى اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْهِ١ؕ
’’ایمان والو!اللہ نے تمہارے لیئے اسی دین کی شرع کر دی ہے جس کا حکم نوح ؐ کو دیا تھا اور وہی جو اے رسو ل ہم نے آپ ﷺ کی طرف وحی کی ہے اور وہی شرع جس کا حکم ابراہیم ،موسیؑ اور عیسیٰ ؑ کو دیا تھا ۔۔۔۔یہ کہ ہمارے اکلوتے دین اور اکلوتی شرع کو قائم رکھو اور الگ الگ نبیوں کی الگ الگ شرعوں کا باطل نظریہ قائم کر کے اس میں اختلاف پیدا نہ کر لینا ۔
اس آیت مجیدہ سے ثابت ہے کہ جو شریعت آنحضور ﷺ پر نازل کی گئی تھی وہی شریعت حضرت داؤد ؑ سمیت سابقہ جملہ انبیاء علیہم السلام پر نازل ہوئی تھی ۔ غور فرمائیں کہ اب شریعت مشتمل ہے ہر قسم کے مختلف احکام و مسائل پر مثلا صوم و صلوٰۃ اور حج و زکوٰۃ کے احکام :
6)كتب عليكم الصيام ،اقيمو ا الصلوة والتوالزكوٰة اور اتمو الحج والعمرة لله وغيره
كيا ان احکام کو موسیقی کے مختلف سازوں کے ساتھ گایا جائے گا ۔ یا ان پر الگ الگ عمل کیا جائے گا۔ ؟ اسی طرح قرآنی شریعت واحدہ کے اور درجنوں مسائل ہیں ،متعلقہ حصص وراثت ،نکاح و طلاق ،اور حیض و طہارت جو زبور مقدس میں بھی من وعن نقل کئے گئے تھے ۔ کیا ان میں سے ہر باب کے شروع میں یہ ہدایت نازل کر دی گئی تھی کہ اسے فلاں ساز کے ساتھ گایا جائے یعنی طبلے کی تھاپ کے ساتھ سارنگی کی سرہیں سر ملا کر گا یا جائے ۔
’’فاعتزلو النساء في المحيض ،ولا تقربوهن حتي يطهرن ‘‘ یعنی گایا کرو حیض کے دور ان عورتوں سے الگ رہو اور اس وقت تک ان کے قریب نہ جانا جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں ۔ کاش اہل اسلام ، محرفین توراۃ ، دشمنان اسلام کی سازش کو سمجھیں ۔ نہ اللہ کے نبی اور عظیم سلطنت کے سربراہ داؤد اعظم کو گویا اور نا چا ٹھہرائیں اور نہ ان کی سنت کے نام سے طبلہ ،سارنگی اور گھڑا ،چمٹا ، وغیرہ خرافات کو اسلام میں داخل کر یں ۔
تبصرہ نمبر 3:
تیسرے نمبر پر اقتباس زیر بحث میں کہا گیا ہے کہ زبور مقدس کے آخری باب میں ہدایت کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ستائش کرو ۔ قرنا پھونک کر ، ستار کی سر چھیڑ کر ، طبلہ بجا کر ،جھانجھ یعنی گھنگرو بجا کر اور ناچ کر ، پیچھے تبصرہ نمبر 2 میں یہ ثابت کیا جا چکا ہے کہ قرآن کریم اور زبور مقدس میں ایک ہی دین کی ایک ہی شرع ، ایک ہی خدائے واحد کی طرف سے نازل کی گئی تھی ۔ قرآن کریم کی رو سے جہاں تک اللہ تعالیٰ کی زبانی حمدو ثنا کرنے کا تعلق ہے وہ ہے مقام صلوٰۃ موقت یعنی نماز ۔ اب کیا یہ چیز تسلیم کی جاسکتی ہے کہ صلوٰۃ موقت یعنی نماز میں طبلے سارنگی کے ساتھ گا رکر اور پیروں میں گھنگرو باندھے ہوئے ناچ کر اللہ تعالیٰ کی حمدو ستائش کی جائے گی ۔ فاعتبروا يا اولي الابصار - آنحضور ﷺ کی بعثت مبارکہ سے پہلے اہل مکہ نے جو اپنے آپ کو دین ابراہیم کا پیروکار کہتے تھے ، صلوٰۃ موقت (نماز )کو تالیوں ،سیٹیوں میں تبدیل کر لیا ہوا تھا جس کی خبر سورۃ انفال میں بالفاظ ذیل دی گئی ہے ۔ ’’و مان كان صلاتهم عند البيت الا مكاء تصدية‘‘ او ر نہیں تھی ان کی صلوٰۃ بیت الحرام میں مگر تالیا ں اور سیٹیاں بجانا ، (ناچ گانا )تھی ۔
موسیقی کے دو حصے ہیں ۔ ساز اور آواز ۔ تالیاں از قسم ساز ہیں اور سیٹیاں ازقسم آواز ۔ خدا تعالیٰ نے ’’مکاء و تصدیہ ‘‘ کے الفاظ میں پوری موسیقی،ساز اور آواز دونوں کی مذمت کر کے رکھی ہے ۔ تالیوں میں بلند آواز سر پیدا ہوتی ہے اور سیٹیوں میں بھی ۔ تالیوں کے ضمن میں ہر قسم کی سریں ،جھانجھ ،گھنگھر و اور ناچ شامل ہے اور سیٹیوں کے ضمن میں سارے ،گاما ،پادا وغیرہ کے تمام راگ موجود ہیں ۔ آیت مجید 35/8 میں موسیقی کے ساز اور آواز دونوں کا رد کر دیا گیا ہے ۔ اب غور فرمائیں کہ وہ ناچ گانا جس کی قرآن کریم نے قیامت تک کے لیے مذمت کر دی ہے ۔ اسے محرفین تورات نے وزبور مقدس کا تنزیلی حکم منوانے کی گہری سازش کر رکھی ہے مگر خدا تعالیٰ نے موسیقی کے ساز اور آواز دونوں کا رد کر کے اسے بے نقاب کر دیا ہے ۔
اللہ تعالیٰ کی حمدو ستائش جس طرح مردوں پر فرض ہے اسی طرح عورتوں پر بھی فرض ہے :
پھر غور طلب یہ امر ہے کہ اللہ تعالی کی حمدو ستائش جس طرح مومن مردوں پر فرض ہے اسی طرح مومنہ عورتوں پر بھی فرض ہے ۔ پس اگر محرف تورات کے مطابق اللہ کی حمدو ثناء طبلہ سارنگی کے ساتھ ناچ گا کر کرنا فرض مانی جائے تو ظاہر ہے کہ عورتوں کو بھی مردوں کے ساتھ مل کر ناچنا ہو گا اور یا انھیں گھنگھرو باندھ کرنا چنے کے الگ اکھاڑے قائم کرنے ہوں گے ۔ العیاذ با اللہ ! کیونکہ اللہ کی حمدو ستائش کے فریضہ سے وہ بھی مستثنی ٰ قرار نہیں دی جا سکتیں ۔ لیکن اگر قرآنی بصیرت کے ساتھ معمولی سا غور کرنے کی زحمت بھی گوارا کی جائے توکھل کر سامنے آر ہا ہے کہ ناحق گانا ،تالیاں ،سیٹیاں وغیرہ جن کی اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب لاریب ،قرآن مجید میں مذمت فرمائی ہے ۔ کیا یہ ممکن ہے کہ انہی ناچ گانوں ، تالیوں ،سیٹیوں کا حکم اس نے اپنی سابقہ کتاب زبور مقدس میں نازل کیا ہو ۔
$1· پھر اقتباس میں زبور مقدس کی طرف منسوب کر کے اللہ تعالیٰ کی حمدو ستائش کا طریقہ بتایا گیا ہے ۔ بلند آواز جھانجھ یعنی گھنگھرو اور کھنجری وغیرہ بجا کر ۔ حالانکہ قرآن مجید نے خدا کی حمدو ثنا کے لیے خود انسان کی ذاتی آواز کو بھی درمیانہ رکھنے کا حکم دیا ہے ۔ چلا کر یا گلا پھاڑ کر حمد کرنے کی اجازت نہیں دی ۔ جیسے کہ سورۃ بنی اسرائیل میں خود آنحضور ﷺ کو مخاطب کر کے حکم ہوا ہے ۔
$1· ولا تجهر بصلاتك ولا تخافت بها وابتغ بين ذالك سبيلا – وقل الحمد لله الذي لم يتخذ ولد ‘‘ اور اے رسول ﷺ!آپ اپنی صلوٰۃ میں نہ اونچی آواز رکھیں (چلا کر بھی نہ لولیں )اور نہ اسے بالکل مخفی کر دیں بلکہ ان دونوں کا درمیانی راستہ اختیار کریں اور (درمیانہ آواز کے ساتھ )کہا کریں ۔ الحمد الله الذي ------الخ-
$1· تعجب کی بات ہےکہ ادھر خدا تعالیٰ قرآن حکیم میں اپنی حمدو ستائش کے لیے انسانی آواز تک کو اونچا کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور ادھر یہ مان لیا گیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زبور میں بلند آواز آلات موسیقی کے شور میں گا کر یعنی گلا پھاڑ کر حمد و ستائش کرنے کا حکم دے رکھا ہے ذرا ’’ لاتجهر بصلاتك ‘‘ کے الفاظ پر غور فرمائیں جو کہا گیا ہے کہ اے رسول ! اپنی نماز میں ہماری حمدو ستائش کے لیے او نچی آواز نہ کریں ۔ پس اس کے برعکس بلند آواز آلات موسیقی کے ساتھ گانے کے لیے خواہ حمد ہی کیوں نہ گائی جائے ،گو یوں کو پورے کا پورا گلا پھاڑ کر اس قدر اونچی آواز نکالنی پڑتی ہے کہ گردن کی رگیں پھول کر باہر ابھر آتی ہیں۔ کیامحرف زبور کے اس خرد تراشیدہ تصور کو قرآن مجید کے حکم ’’لا تجہر بصلاتک اور قل الحمد اللہ الذی‘‘ کے ساتھ کوئی دور کا تعلق بھی ہے ؟ جس میں کہا گیا ہے کہ ہماری حمدو ستائش کے لیے گلا پھاڑنا تو درکنا ر ،ذاتی آواز تک کو بھی اونچا نہ کریں ۔ پس ۔۔۔۔ کی آیت قرآنی سند ہے بصورت نصف النہار ثابت ہوا کہ ناچ کر ، گارکر اور بلند آواز جھانجھ گھنگھروں وغیرہ کے ساتھ اللہ کی حمدو ستائش کرنا نہ حکم زبور مقدس ہے نہ سنت داؤد علیہ السلام ۔
تبصرہ نمبر 4:
چوتھے نمبر پر اقتباس زیر نظر میں یہ کہا گیا ہے : اس میں شبہ نہیں کہ تورات میں بہت کچھ تحریف ہو چکی ہے لیکن ہم موسیقی کے متعلق اس بیان کو اس لیے قابل قبول سمجھتے ہیں کہ جب قرآن میں جنتی معاشرہ میں موسیقی کی محفلوں کا ذکر ہے تو یہ باور کیا جا سکتا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے اس فن کی تذئین و تہذیب کی ہو گی۔ جس کی تائید کتب احادیث کی شرحوں سے بھی ہوتی ہے جیسے کہ حافظ ابن حجر عسقلانی کی فتح الباری میں ہے کہ حضرت داؤد باجے کے ساتھ گایا کرتے تھے ۔
$1· اس اقتباس میں پہلے نمبر پر موجودہ تورات کو محرف تسلیم کرنے کے باوجود موسیقی سے متعلق مذکورہ خبر کو صحیح تسلیم کرنے کی یہ صد فیصد باطل دلیل دی گئی ہے کہ قرآن مجید میں جنتی معاشرہ میں موسیقی کی محفلوں کا ذکر موجود ہے ۔ پیچھے بتایا جا چکا ہے کہ سورۃ انفال میں ناچ گانوں ،تالیوں ،سیٹیوں کی مذمت کردی گئی ہے ۔ نیز ۔۔۔میں اعلان عام کیا گیا ہے کہ قرآن مجید میں اختلاف کا گزر تک موجود نہیں ۔ اس لیے یہ کہنا کہ قرآن مجید میں جنتی معاشرہ میں موسیقی کی محفلوں کاذکر ہے ،آیات مجیدہ ۔۔۔۔دونوں کی تکذیب ہے ۔ واضح رہے کہ طلوع اسلام کے مقالہ نگار کو ۔۔۔۔فا ما الذين امنوا و عملوا لصلحت فهم في روضة يحبرون ‘‘ میں آمدہ لفظ یجرون سے غلطی لگی ہے جیسے کہ صفحہ اپر ا س کا مفہو م لکھتے ہیں ۔ سرسبز و شاداب باغاب میں نہایت شستہ اور اعلیٰ پایہ کی موسیقی کی محفلیں ‘‘ اس آیت سے موسیقی کی محفلوں کا مفہوم اخذ رکنا سینہ زور ی کے سو ا کچھ نہیں کیونکہ اس آیت کا لفظی معنیٰ یہ ہے کہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور اصلاح معاشرہ کے کام کیے وہ باغ میں وافر ضروریات زندگی کے ساتھ مزین کیے جائیں گئے نوازے جائیں گے ۔ لفظ یجرون ‘‘ جمع مضارع مجہول کا صیغہ ہے ۔ مادہ ح۔ب۔ر حبر سے ۔ حبر کا معنیٰ ہے چمک دار روشنائی اور اس کا مصدری معنیٰ ہے ۔ مزین کرنا ،سنوارنا ،زینت دینا ۔ حبر اس آدمی کو کہتے ہیں جس نے اپنے آپ کو علم کے زیور سے مزین کر رکھا ہو ۔ جبر کی جمع احبار ہے جو یہود کے علماء کے لیے مستعمل ہے ۔تو اس طرح ’’فہم فی روضۃ یحبرون ‘‘ کا لفظی معنی یہ ہے کہ وہ باغ میں زینت دیے جائیں گے ۔ خوش رکھے جائیں گے یعنی انھیں ضروریات زندگی عمدہ اور وافر مہیا کی جائیں گی ۔ بہتی نہروں کے کنارے ہر قسم کے فرنیچر سے مزین خوبصورت رہائش گاہیں ،بالا خانے ۔۔۔ عمدہ ،نظر نواز ریشمی لباس ۔۔۔ اور ہر قسم کے عمدہ کھانوں اور پھلوں کی افراد ہے ’’ہم فی روضۃ یحبرون ‘‘ کی قرآنی تفسیر نہ کہ جنت میں جگہ بہ جگہ طبلہ اور سرنگی نواز استادوں کے جمگھٹوں میں ملکہ ترنم ملکہ موسیقی اور ریشماں وغیرہ اکتال اور ووتال کی سروں میں گھنٹوں نہ ختم ہونے والی ہاہا ہا ہا ہا کی سروں میں محو، مختلف قسم کے تلاطم خیز زادیوں کے ساتھ باہیں الار الار کر اعضاء جسمانی کی مصروف نمائش پائی جائیں گی ۔۔
$1· نیز ’’هم فی روضة یحبرون ‘‘ کی تفسیر بیان ہوئی ہے ۔ في جنت النعيم ‘‘ وفاكهة مما يتخيرون ولحم طير مما يشتهون ‘‘ اور انھیں دیے جائیں گے وہ میوے جنھیں وہ پسند کریں گے اور ان پرندوں کا گوشت جو وہ چاہیں گے ۔ ’’وحور عین کامثال اللولوا المکنون‘‘ اور وہ ایسے جوڑے ہوں گے جیسے موتی محفوظ کیے ہوئے ۔ لا يسمعون فيها لغوا ولا تاثيما الا قيلا سلما سلما ‘‘ اور نہ وہ اس میں کوئی لغوبات سنیں گے اور نہ گناہ کی کوئی خبر سوائے اس کے کہ ہر طرف سلام سلام کی گونج اٹھ رہی ہوگئی ۔
$1· دیکھییے جنت کی تعریف میں کہا گیا ہے کہ وہاں کوئی لغوبات سنائی نہیں دسے گی تو اب بتائیے کیا طبلہ سارنگی اور سارے گاما پادا کے اوزان پر چلائی ہوئی سریں لغو نہیں ؟ جبکہ لغو کا مصدری معنیٰ ہے چلانا ،شور مچانا ۔ کیا گویے :
$1· پوا گلا پھاڑ کر چلاتے نہیں ؟ لغو سے وہ فضول عمل مراد ہے جس سے کچھ حاصل نہ ہو ۔ اب بتائیے موسیقی کی محفلیں کیا فضول نہیں ہیں جن سے گھنٹوں کی سمع خراشی کے بعد تضیع اوقات کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ رات رات بھر کی موسیقی سے جگراتے کے ساتھ صحت کی خرابی کے سوا کیا حاصل ہوتا ہے ؟آدھی آدھی رات تک کا وقت ضائع کرنے والے صبح کو دس بجے بستر سے اٹھتے ہیں ۔ نہ نماز نہ سجدہ نہ اللہ کے حضور حاضری ۔ ایسے لغو اور فضول عمل کا جنت اور جنتی معاشرہ سے کیا تعلق ؟ پھر قوال قسم کے ہزاروں افراد کیا معاشرے پر بوجھ نہیں بنے رہتے ۔ اگر گانا اور گویے نہ ہوں تو معاشرہ کا کونسا کام رک جاتا اور معاشرہ کی گاڑی کو کون ساکن کر دیتا ہے ؟ کیا یہ اقوال لوگ بہترین صنعت کار ، کاشتکار ، ڈاکٹر ، انجنیئر اور سکول ماسٹر نہیں بن سکتے ؟ واضح رہے کہ جب ان کے بغیر معاشرہ کا کوئی کام ہرگز ہرگز نہیں رکتا تو صاف ثابت ہو ا کہ یہ لوگ قرانی لغو کی فہرست میں آتے ہیں ۔ اسلامی،قرآنی یا جنتی معاشرہ میں ازروئے قرآن موسیقی کا کوئی مقام نہیں ہے ۔
$1· قرآ کریم کا مستقل اسلوب بیان یہ ہےکہ وہ ہر الجھن کو تقابل ضدین کے ذریعے حل کرتا چلا جاتا ہے ۔ آيت مجیدہ میں مومنوں ، نیکو کاروں کے متعلق ارشاد ہوا ہے ’’ فَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَهُمْ فِيْ رَوْضَةٍ يُّحْبَرُوْنَ۰۰۱۵‘‘ اور اس سے اگلی آیت میں ان کی ضد کافروں بدکاروں کے متعلق بتایا گیا ہے ’’ وَ اَمَّا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَ لِقَآئِ الْاٰخِرَةِ فَاُولٰٓىِٕكَ فِي الْعَذَابِ مُحْضَرُوْنَ۰۰۱۶ جن لوگوں نے ہماری آیتوں اور آخرت کی عدالت عالیہ میں اعمال کی جوابدہی کا انکار کیا اور اسے جھٹلایا وہ عذاب میں حاضر کیے جائیں گے۔
$1· اب دیکھیے ’’ فِيْ رَوْضَةٍ يُّحْبَرُوْنَ۰۰۱۵ کی ضد لائی گئی ہے ۔ فِي الْعَذَابِ مُحْضَرُوْنَ یعنی يُّحْبَرُوْنَ۰۰۱۵ ضد بیان ہوئی ہے عذاب میں حاضر کیے جانے کی ۔ اب غور فرمائیں ! کیا عذاب کی ضد موسیقی کی محفلیں قرار دی جا سکتی ہیں ؟ جب کہ عذاب کا معنیٰ ہے ضرور یات زندگی سے محرومی اور اس کی ضد ہے ضروریات زندگی کی فراوانی ،نہ کہ موسیقی کے اکھاڑے پس قرآنی اسلوب بیان تصریف آیات اور تقابلی ضدین سے صاف ثابت ہو چکا کہ موسیقی لغو محض ہے جس کے بغیر معاشرہ کی گاڑی میں معمولی سی رکاوٹ بھی پیدا نہیں ہوتی ۔ اگر اسے ختم کر دیا جائے تو اقوالوں گویوں اور ناچوں کی قسم کے ہزاروں افراد سے معاشرہ کی ترقی و بہبود کے لیے افرادی قوت کی بہترین خدمت لی جاسکتی ہے ۔ قرآن کریم موسیقی کے حق میں ہرگز نہیں ، محرف تورات میں حضرت داؤد کی طرف موسیقی نوازی کا بہتان دشمنان اسلام محرفین تورات کا خو د ترشیداہ ہے ۔
$1· اقتباس نمبر 4۔ زیر نظر میں دوسرے نمبر پر دلیل لائی گئی ہے ۔ حافظ ابن حجر عسقلانی کی فتح الباری شرح بخاری کی ، کہ اس میں لکھا ہے ۔ حضرت داؤد باجے کے ساتھ گایا کرتے تھے جوابا ً عرض ہے کہ جس طرح محرف تورات سے طلوع اسلام کے مقالہ نگار کو دھوکا ہوا ہے اسی طرح حافظ ابن حجر بھی غلط فہمی کا شکار ہو گئے ہیں ۔ فتح الباری کے قول کو نہ قرآن کریم کی سند حاصل ہے اور نہ وہ حبت ہو سکتا ہے ۔
تبصرہ نمبر 5:
پانچویں نمبر پر اقتباس زیر نظر میں موسیقی کے جواز پر کتب روایات سے یہ دلیل پیش کی گئی ہے کہ مسجد نبوی میں حبشیوں کا ناچ ہو رہا تھا اور حضور ﷺ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ تماشا دیکھ رہے تھے ۔ جوابا ً عرض ہے کہ کتب روایات کو سند و حجت کا مقام حاصل نہیں ۔ سند و حجت صرف قرآن حکیم ہے جس کی رو سے موسیقی لغو کی فہر ست میں آتی ہے جس کے بغیر معاشرہ کا کوئی کام ہرگز نہیں رکتا ۔ کتب روایات نے آنحضو ﷺ کو ناچ نواز اور ناچ پسند کر کے آپ کی توہین کی ہے ۔ کیونکہ آنحضور ﷺ کو ۔۔۔۔۔ کے مطابق تالیوں ، سیٹیوں یعنی ناچ گانوں کے ساتھ کوئی لگاؤ نہیں تھا بلکہ بحکم باری ان لغویات سے سخت نفرت تھی ۔
تبصرہ نمبر 6:
طوع اسلام جولائی 1979ء کے فاضل مقالہ نگار موسیقی کے حق میں صحفہ 19 سطر 13 پر ایک دلیل یہ بھی لائے ہیں لہو کوگرما دینے والی موسیقی کے اثرات کا اندازہ تو ہم بھار ت کے ساتھ 1965ء کی جنگ میں کر چکے ہیں 6 ستمبر کی صبح کو لاہور پر ہندؤوں کے اچانک حملہ سے فضا میں جو اضطرابی کیفیت پیدا ہو گئی تھی ، شام کوجب ریڈیوں سے ’’ساتھیو! مجاہد و جاگ اٹھا ہے سار وطن ‘‘ کی فلک شگاف آواز پورے دبدبہ اور طنطنہ کے ساتھ سکوت شکن ہوئی تو اس نے ہوا کا رخ بدل دیا ۔ اس سے دلوں میں نئے ولولے پیدا ہو گئے اور ہمتیں بلند سے بلند تر ہو گئیں ۔ اس کے بعد مسلسل سترہ دن تک ملی ترانوں نے فضا میں ارتعاش پیدا کر رکھا تھا ۔۔۔۔۔ یہ ہمارا پہلا تجربہ تھا ۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پیغام حیات افروز کے ساتھ مغنی آتش نفس کی نشید جلال انگیز بھی شامل ہو جائے تو یہ کس قدر وجہ فروغ جنسیات ہو سکتی ہے ۔
$1· جوابا ً عرض ہے کہ محترم مقالہ نگار کی بھول ہے کہ 1965ء کی جنگ میں فتح کی اکی وجہ گویا مرد عورتوں کی نشید جلال انگیز بھی تھی ۔ جبکہ 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں بھی تو گویا عورتیں اور مرد گلا پھاڑ پھاڑ کر ساتھیوں ! مجاہدوں ! جاگ اٹھا ہے سارا وطن ‘‘ کے ترانے الاپتے رہے تھے مگر ہوا یہ کہ جنگ ایک ایسی شکست پر ختم ہوئی جس کی مثال تاریخ عالم میں موجود نہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ 1965ء کی جنگ میں پاکستان کی ہوائی طاقت بھارت کے مقابلے پر تیز رفتار طیاروں کی حامل تھی جس کی بدولت بھارتی فضائیہ پہلے ہی دو دنوں کے اندر مفلوج کر دی گئی اور اسے شکست نصیب ہوئی مگر 1971ء کی جنگ میں بھارت کی فضائی قوت پاکستان سے کئی گنا برتر تھی جس نے پاکستانی فضائیہ کو مفلوج کر دیا اور نتیحہ اس کے حق میں برآمد ہوا ۔ جس کی فوجی قوت زیادہ تھی ۔نہ 1965ء میں قومی ترانوں سے پاکستان کو فتح میں مدد لی اور نہ 1971ء میں بھارتی ترانوں نے اسے فتح سے ہمکنار کیا تھا ۔
دشمن کا مقابلہ کرنے کےلیے ارشاد باری ہے ’’ وَ اَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُوْنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَ عَدُوَّكُمْ ايمان والو!دشمن کے مقابلے کے لیے استطاعت بھر زیادہ سے زیادہ فوجی قوت تیار رکرتے رہو اور تمہارے ہاں ذرائع رسال ور سائل کی بھی بہتات ہو کہ تم اس فوجی قوت کے ساتھ اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو دہلاتے رہو (تاکہ وہ تمہاری طرف میلی نگاہ کے ساتھ دیکھنے تک کی بھی جرأت نہ کر سکیں ۔
موسیقی کی سرپرست ملوکیت ہے :
اسلامی ریاست جس میں حضرت عمر کی طرح کے محرومین روبیت کو ان کا حق ربوبیت بہم پہنچانا فرض ہوتا ہے ، سربراہ وحکام کا ذہن موسیقی کی فضولیات کی طرف کس طرح جا سکتا ہے ۔ یہ ناچ گانے کی عیاشی ملوکیت کی پیداوار ہے ۔ جحس میں عوام کے بھوکے رہیں یا ننگے ، سر براہ مملکت اور اس کے حکام کی بلا سے ، انھیں ہر شب ، شب برات اور روز ، روز عید کی صورت میں تعبیر کرنے کے لیے طبلہ ،سارنگی اور ناچ گانوں سے ہی سروکار ہوتا ہے اس لیے ظاہر ہے کہ موسیقی پیداوار بھی ملوکیت ہی کی ہے او ر اس کی سر پرستی کر کے اسے عروج پر پہنچانے کا سہرا بھی بادشاہوں ہی کے سر ہے جو مظلوم و مقہور عوام کی در د ناک فریادوں اور جگر پاش چیخوں کو سننے کے بجائے ہر وقت ساز کی آواز ہی کے ساتھ بد مست رہتے ہیں ۔ یہاں تک کہ بادشاہ سلامت کو صبح سویرے بسر سے جگانے کےلیے ایک حسین و جمیل لونڈی کو ان کے کان کے پاس سرنگی بجانا پڑتی تھی اور اب بھی بجانا پڑتی ہے ۔
حضرت داؤد اعظم سمیت جملہ انبیاء کرام کا ایک ہی مشن تھا ۔ تبلیغ وحدت باری اور قیام ربوبیت عالمینی ۔ ناچ گانا اور طبلہ سرنگی کے ساتھ انبیاء علیہم السلام کو دور کا تعلق بھی نہیں تھا ۔ کیونکہ ہر نبی اور ان کے خلفاء کا فریضہ ہی یہ تھا کہ ہر بھوکے کو کھانا ، ہر بیمار کا علاج ، ہر کسی کو حسب ضرورت لباس اور بلا کر ایہ مکان میسر رہے ۔
اس کے ثبوت کے لیے حضرت عمر کا تاریخی واقعہ کافی ہے کہ ان کے عہد خلافت میں ایک شخص نے آپ کو جو کی روٹی کھاتے ہوئے دیکھا تو عر ض کیا یا امیر المومنین مصر فتح ہو چکا ، مصر کی گندم یہاں پہنچ چکی ہے اور آپ اب بھی جو کی روٹی کھا رہے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ تمہارا کہنا درست ہے مگر ابھی تک مجھے یہ یقین نہیں ہوا کہ عوام کے ہر فرد تک گندم پہنچ چکی ہے ۔ پس اس واقعہ کے مطابق کھل کر ثابت ہوچکا کہ اگر طبلہ ،سرنگی اور ناچ گانا حلال بھی ہو تو کسی مسلمان سربراہ کا ذہن کا ذہن جو عوام کی ربوبیت عالمینی کے لیے وقف ہو چکا ہے ۔ اس کی طرف جا ہی نہیں سکتا ۔ جہ جائیکہ اللہ کی طرف سے موسیقی کی دونوں قسموں ، ساز اور آواز ’’ مکاء و تصدیۃ ‘‘ تالیوں اور سیٹیوں دونوں کی مذمت موجود ہوا اور اللہ تعالی کے عظیم المرتبت نبی داؤد اعظم خدا تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہوئے باجے گاجے اور ناچ گانے میں مشغول یائے جائیں اور اسلحہ سازی کے حکم باری کے خلاف نئے سے نئے ساز ،طبلہ ،