"جدید تحریکِ نسواں اور اسلام"

مضبوط جلد میں درمیانے سائز کے 456 صفحات/قیمت: 180
سفید کاغذ، بہترین طباعت اور دیدہ زیب کمپوزنگ
ملنے کا پتہ: ادارہ خواتین میگزین، چیمبرلین روڈ، لاہور


گذشتہ چار صدیوں کے دوران مغرب کے چشمہ ظلمات سے ضلالت اور گمراہی کے جتنے بھی فتنہ پرور فوارے پھوٹے ہیں ان میں "آوارگی نسواں" کا فتنہ اپنی حشر سامانیوں اور تہذیبی ہلاکتوں کی وجہ سے سب فتنوں سے بڑا فتنہ ہے۔
سیکولر ازم، لبرل ازم، سوشلزم، فاش ازم جیسے باطل نظریات نے مغرب کی مذہبی اساس کو ریزہ ریزہ کر دیا تھا لیکن ان کی یلغار سے خاندانی اقدار اور سماجی قدریں بڑی حد تک محفوظ رہیں۔ مردوزن کے سماجی رشتوں کی وجہ سے قائم خانگی توازن خاصی حد تک قائم تھا لیکن "عورت ازم" (Feninism) کے ہوش ربا فتنہ نے خاندانی نظام کی عمارت کو اس قدر زمین بوس کر دیا ہے کہ مغرب میں سماجی ادارے کے طور پر خاندان کا تصور تک معدوم ہوتا جا رہا ہے۔
موضوع کی اہمیت اور پس منظر
بیسویں صدی کے آخری عشرے میں یورپی دانشور خاندانی نظام کی تباہی پر نوحہ کناں ہیں اور اس کی بحالی و تحفظ کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں، یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ پاکستان میں ایک مغرب زدہ متحرک اقلیت "روشن خیالی" اور "مساوی حقوق" کے نام پر ہمیں خاندانی نظام کی اس عظیم نعمت سے محروم کرنے کی سازشوں میں مصروف ہے کہ جس سے ہمارے اسلامی اور مشرقی تشخص کی اب تک آبرو قائم ہے۔ حالیہ برسوں میں مغربی سرمائے سے چلنے والی این جی اوز کے ٹڈی دل نے ایک خطرناک سیلاب کی صورت اختیار کر لی ہے۔ ان کی بڑھتی ہوئی پذیرائی اور ذرائع ابلاغ کی سرپرستی فی الحقیقت ہمارے فکری گلستان کی ہریالی کی بقا کے لیے عظیم خطرے کا روپ دھار چکی ہے۔ اس خطرناک فتنے کا سدباب کرنے کی بجائے اس سے چشم پوشی کا مظاہرہ ایک قومی غفلت ہے کہ جو ہمیں بالآخر انسانی اور سماجی پستی کے اس اندھی غار میں دھکیل سکتا ہے جہاں اس وقت مغربی سماج پہنچا ہوا ہے۔
عورتوں کے حقوق کا مطالبہ پر آج سے دو سو سال پہلے یورپ میں چلائی جانے والی تحریک افراط کا شکار ہو کر بالآخر "تحریک بربادی نسواں" کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ مغرب سے اٹھنے والے ہر فتنے کو محکوم اقوام کے بہ زعم خویش روشن خیالوں نے ہمیشہ جدید فکر کے روشن چراغ سمجھ کر قبول کیا ہے اور اس "روشنی" کے پھیلاؤ کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں خرچ کی ہیں۔ مغرب کی ثقافتی استعماریت کے تنخواہ دار ایجنڈوں نے پاکستان میں عورتوں کی سماجی حالت کی مبالغہ آمیز تصاویر کھینچ کر اچھے خاصے معصوم ذہنوں کو غیر محسوس طریقے سے متاثر کیا ہے، ان کے پروپیگنڈہ کا اصل ہدف اس نام نہاد اور خودساختہ ناانصافی کے لیے اسلام کو مورد الزام ٹھہرا کر خواتین کو بغاوت پر آمادہ کرنا ہے۔ کراچی، لاہور، اسلام آباد اور دیگر بڑے شہروں میں ان کی اس مکروہ سازش کے اچھے خاصے جال پھیل چکے ہیں۔
ملت کا درد رکھنے والے حساس دلوں نے خاندانی نظام کو خطرات سے دوچار کرنے والے اس تازہ ترین فتنہ کے ہولناک نتائج سے فردا فردا قوم کو خبردار کرنے کا فریضہ تو ایک حد تک انجام دیا ہے لیکن اس فتنہ کی سرکوبی کے لیے جس اجتماعی جدوجہد اور تحریک کی ضرورت تھی، وہ ابھی تک برپا نہیں کی جا سکی۔ ہماری مذہبی اور دینی جماعتیں بھی شاید اس خطرناک فتنہ کے گھمبیر نتائج کا ابھی تک مکمل ادراک نہیں کر سکی ہیں۔ یہ امر بے حد خوش آئند ہے کہ بربادی نسواں کے اس عظیم فتنہ کے خلاف مؤثر ترین آواز ایک خاتونِ محترم نے اٹھائی ہے۔ پروفیسر ثریا بتول علوی صاحبہ نے اپنی تازہ ترین تالیف "جدید تحریکِ نسواں اور اسلام" کے ذریعے بلاشبہ پاکستانی قوم کے لیے کفارہ ادا کرنے کا فریضہ انجام دیا ہے۔ اس کتاب کے موضوعات کا دائرہ کافی وسیع ہے۔ مصنفہ نے تحریک آزادی نسواں کے تقریبا تمام اہم مقدمات کا معروضی اور مفصل جائزہ لے کر بالآخر واضح کیا ہے کہ
"صرف اسلام ہی طبقہ نسواں کا حصن حصین (مضبوط قلعہ) ہے۔"
تعارفِ کتب
ایک عورت ہونے کے باوجود محترمہ نے جس جراءت مندی اور خود اعتمادی سے مغرب کے نام نہاد "عورتوں کے حقوق" کا ابطال کیا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ کتاب کا صفحہ صفحہ گواہی دے رہا ہے کہ (اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ میں) دانش افرنگ کے جلوے ان کی نگاہوں کو خیرہ نہیں کر سکے ہیں کیونکہ یثرب کی خاک ان کی آنکھوں کا سرمہ ہے، اسلام کی حقانیت ان کے دل میں جاگزیں ہے، اسی لیے وہ ان آزادیوں کو پائے حقارت سے ٹھکراتی ہیں جو انہیں خیرالبشر صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں رہنے کے قابل نہ چھوڑیں۔ مذکورہ بالا کتاب اسلام پسند خواتین کی عظیم اکثریت کے دل کی سچی آواز اور ان کے جذبات کی صحیح ترجمانی ہے۔ یہ کتاب مٹھی بھر مغرب زدہ عورتوں کی فکری گمراہی کو بھی واشگاف کرتی ہے کہ جنہیں ہم ان کے حیاتیاتی وجود کے حوالے سے تو "عورت" کہنے پر مجبور ہیں لیکن امر واقعہ کا اعتبار کرتے ہوئے علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے "نازَن" اور سید ابواعلیٰ مودودی نے انہیں "مکشوفات" کا نام دیا ہے۔
"جدید تحریک نسواں اور اسلام" میں شامل موضوعات کو مصنفہ نے حسن ترتیب کے ساتھ 22 ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ ان میں چند ابواب کا ذکر موضوعات کے تنوع اور توسع کو سمجھنے میں مدد دے گا:
باب نمبر 1: مغرب کا نظریہ مساوات، مردوزن
باب نمبر 3: مساواتِ مردوزن کا اسلامی تصور
باب نمبر 4: گھریلو نظم میں مرد کی سربراہی
باب نمبر 8: عورت اور معاشی مسائل
باب نمبر 9: ولایتِ نکاح کا مسئلہ
باب نمبر 11: تعدادِ ازدواج
باب نمبر 15: اسلام میں عورت کی وراثت
باب نمبر 17: اسلام میں عورت کی سربراہی
باب نمبر 18 صرف اسلام ہی طبقہ نسواں کا محسن ہے
باب نمبر 20: موجودہ مسلمان عورت کی زبوں حالی اور اصلاح احوال
باب نمبر 22: مغربی نومسلم خواتین کے اسلام کے بارے میں تاثرات
مساواتِ مردوزن، مرد کی سربراہی، ولایتِ نکاح، تعدادِ ازدواج، اور عورت کی نصف وراثت و شہادت، جیسے حساس موضوعات کے متعلق محترمہ ثریا بتول نے جیسے کھلے دل کے ساتھ اپنے نظریات کو قرآن و سنت کی تعلیمات سے ہم آہنگ کیا ہے، اس سے بعض اوقات یہ گماں گزرتا ہے کہ یہ سطور کسی مسلم مرد مصنف کے اعجازِ قلم کا ثمر ہیں۔ اور یہی اُن کی عظمتِ فکر کا وہ مؤثر ہتھیار ہے کہ جس سے مسلح ہو کر انہوں نے "آزادی نسواں" کے گمراہ کن فتنے کا تیاپانچہ کر کے رکھ دیا ہے۔ کتابِ مذکور کے درج ذیل اقتباسات ہماری اس رائے کی تائید میں پیش کیے جاتے ہیں:
(1)مساواتِ مردوزن کا اسلامی تصور بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں:
"اسلام تو مرد اور عورت دونوں کی فکری اور جسمانی صلاحیتوں کے لحاظ سے معاشرے میں ان کو الگ الگ ایسا دائرہ کار کہیا کرتا ہے، جس میں کام کر کے وہ بہترین طریقے پر معاشرے کو فائدہ پہنچا سکیں اور تعمیر تمدن میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ اس کے برعکس مرد و عورت دونوں کو مغربی نظریہ مساوات یکساں صلاحیتوں والا قرار دے کر دونوں کو ایک ہی حیثیت سے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عورت اپنی فطری صلاحیتوں کے برعکس دوسرے مقام پر استعمال کی جاتی ہے تو اس کا اپنا تشخص اور صحت بھی برباد ہو جاتی ہے۔ اور معاشرہ بھی اس کے خراب نتائج سے نہیں بچ سکتا۔ اسلام اس نظریہ مساوات کا بہت سخت مخالف ہے جہاں دونوں اصناف کا ایک ہی میدانِ کار ہو ۔۔ اسلام کو تو یہ بھی گوارا نہیں کہ عورتیں مردوں کا سا لباس پہنیں یا رفتار و گفتار میں ان جیسا بننے کی کوشش کریں۔ اللہ نے جس کو جو کچھ بنا دیا ہے، وہ اس پر مطمئن اور قانع رہے"
'اسلام دین فطرت ہے اس نے دونوں صنفوں کو ان کی فطرت، افتادِ طبع اور مزاج کے مطابق ذمہ داریاں دی ہیں۔ اس تقسیم سے کوئی نہ تو اول درجہ کا شہری بنتا ہے اور نہ کوئی دوم درجہ کا آخر مکمل مساوات کے حقیقی تقاضوں پر بھی غور کرنا چاہئے! کیا عورت پر ہر ماہ، ہر سال یا دو سال بعد ایسے طویل دور نہیں آتے جن کے دوران میں وہ غیر معمولی جسمانی اور ذہنی محنت، مشقت کا کوئی کام نہیں کر سکتی، پھر بھی نسل انسانی کے حمل، رضاعت، پرورش اور تربیت کے ساتھ ساتھ فکر معاش کو بوجھ اس کے نازک کندھوں پر لاد دینا کیا عورت کے ساتھ ہمدردی ہو گی؟" (صفحات 74،75،80)
(2) کیا عورت گھر کی سربراہ ہو سکتی ہے؟ اس سوال کا جواب مصنفہ یوں دیتی ہیں:
"گھر کا سربراہ بننے کے لیے مرد ہی موزوں ہے۔ عورت عقلی، علمی اور جسمانی ہر لحاظ سے مرد سے کمتر ہے، علاوہ ازیں ایک اہم وجہ مرد کا مالی بوجھ اٹھانا بھی ہے۔ یہاں اعتراض اٹھایا جا سکتا ہے کہ اب تو خواتین معاشی لحاظ سے خود کفیل ہو رہی ہیں، اس لیے وہ کیوں مرد کو اپنے سے برتر اور سربراہ مانیں؟ تو جواب یہ ہے کہ صرف معاش ہی زندگی میں فیصلہ کن امر نہیں ہے۔ عورت جذباتی لحاظ سے سہارے کی محتاج ہے ۔۔ اصل حقیقت یہی ہے کہ عورت کو اپنی فطری کمزوریوں کا اعتراف کرتے ہوئے اللہ، رسول کے فرمان کے مطابق شہر کا شکر گزار ہونا چاہئے، اس کی سربراہی کو دل سے تسلیم کر کے اس کی خدمت اور اطاعت کرنی چاہئے۔ جب وہ ذاتی زندگی میں کسی لمحہ بھی (بیٹی ہو یا بیوی) مرد سے بے نیاز نہیں ہو سکتی، تو حقیقت کا اقرار کرنے میں عار کیسی؟ مرد اپنی برتری کے باوجود یہ نہیں کہتا کہ عورت سے بے نیاز ہے تو پھر عورتوں کو ہی ایسی کونسی افتاد آن پڑی ہے کہ وہ مساوات کے چکر میں خوار ہو رہی ہیں" (صفحہ 92)
(3) مغرب نے اسلام کو تعدادِ ازدواج کی اجازت دینے پر خاصا تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ پروفیسر ثریا بتول علومی نے اس معاملے کے تمام پہلوؤں کا ناقدانہ تجزیہ کرنے کے بعد اسلام کی تعلیمات کو پُراَزحکمت ثابت کیا ہے۔ مرد کی جبلی ضرورت کو تعداد ازدواج کے جواز کے طور پر بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں:
"مرد اور عورت دونوں کی فطرت کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ ابتداء ہی سے مرد کا ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی طرف رجحان رہا ہے۔ اگر وہ ایک شادی پر اکتفا کرتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ فی الواقع دوسری بیوی کی خواہش یا ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ اب جن لوگوں کے اندر جنشی خواہش زیادہ شدید ہوتی ہے اور ایک بیوی سے ان کا گزارہ نہیں، ان کو دوسری شادی کی اجازت نہ ہو تو وہ ضرور حرام کاری میں مبتلا ہو جائیں گے۔ سوچنا چاہئے کہ کیا حرام کاری کی خرابیاں زیادہ ہیں یا دوسری شادی کرنے کی" (صفحہ 228)
"پھر ایک سے زیادہ شادی کرنے کی اجازت دینا مسلمانوں پر فرض نہیں کہ تم ضرور چار شادیاں کرو جیسا کہ مخالفین کا پراپیگنڈہ ہے بلکہ یہ تو ہنگامی حالات کے لیے بوقت مجبوری ایک اجازت ہے اور اجازت بھی کئی پابندیوں کے ساتھ مقید ہے۔" (صفحہ 232)
"مرد کا گناہ میں ملوث ہونا زیادہ بڑا گناہ ہے یا عورت کو سوکن برداشت کرنے پر آمادہ کرنا! لہذا شریعت نے گناہ کو تو حرام قرار دیا ہے، دوسری طرف عورت کے حقوق کا اس طرح دفاع کیا کہ مرد کو سب بیویوں کے درمیان عدل و مساوات کا پابند کر دیا" (صفحہ 234)
"حقیقت یہ ہے کہ اسلام سے زیادہ معقول، منصفانہ اور انسان کی فلاں کا ضامن کوئی مذہب نہیں ہے"
(4) اسلام کے قانونِ شہادت میں عورت کے مقام و مرتبہ پر بحث کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
"اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان کے غالب طبقہ نسواں کو اللہ کی طرف سے دئیے گئے حقوق پر کوئی گلہ شکوہ نہیں، کوئی اعتراض نہیں بلکہ وہ اسی کو اپنے لیے محفوظ جائے عافیت سمجھتی ہیں ۔۔ البتہ ہمارے ملک میں ایک افرنگ زدہ طبقہ ایسا موجود ہے، جو اسلام کے ہر حکم پر اعتراض کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا" (صفحہ 295)
اہل مغرب کی اسلام پر تنقید دیکھ کر کسی قسم کے معذرت خواہانہ رویہ کی بجائے پوری ایمانی قوت کے ساتھ اسلام کی حقانیت کو صدقِ دل سے قبول کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے لکھتی ہیں:
"اگر ہم اس طرح اہل مغرب کے سامنے پسپا ہونے لگیں تو پھر اسلام کے کس کس قانون پر نشتر چلائیں گے، کہاں کہاں سے بدنامہ کا داغ دھوئیں گے! پھر تو ہمارے دین و ایمان کا پورا سرمایہ جدید زمانے کی مصلحتوں پر قربان ہوتے ہوئے دریا برد ہو جائے گا۔ اپنے دین و ایمان کو بچانے کی ایک ہی سبیل ہے کہ پوری ایمانی قوت و مومنانہ جراءت سے کام لے کر دلائل کی قوت سے یہ ثابت کیا جائے کہ جس چیز کو دشمن اسلام بدنامی کہہ رہے ہیں، دراصل وہی نیک نامی کا طرہ امتیاز ہے۔ پس عورت کی نصف شہادت کے سلسلے میں بھی ہمیں یہی راہ اپنانی ہو گی کیونکہ یہ مسئلہ نص قرآنی، احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم تعامل صحابہ اور اجماعِ امت کی روشنی میں ایک مسلمہ مسئلہ کی حیثیت رکھتا ہے" (صفحہ 296)
(5) عورت کی وراثت کے بارے میں اسلامی قانون کی تعریف ان الفاظ میں ملتی ہے:
"یہ حقیقت ہے کہ حقوق اور ذمہ داریوں کے تعین کے حوالہ سے وراثت کی یہ تقسیم فطری اور منصفانہ ہے، عدل و توازن پر مبنی ہے۔ اس سے بہتر تقسیم کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا" (صفحہ 304)
(6) (الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ۔۔۔) کی تشریح کرتے ہوئے وہ لکھتی ہیں:
"عربی زبان میں قوام منتظم اور نگران کو کہتے ہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے صراحت کے ساتھ قوامیت کا منصب مرد کو عطا کیا ہے۔ اگرچہ اس آیت کا تعلق خانگی معاملات سے ہے مگر اسے صرف خانگی امور تک محدود رکھنے کی کوئی وجہ نہیں۔ اگر گھر کی چھوٹی سی ریاست کی سربراہی بھی عورت کو نہیں دی گئی، تو گھروں کے مجموعے کے وسیع دائرے یوری پوری اسلامی ریاست کی سربراہی کا منصب اسے کیسے دیا جا سکتا ہے۔ عورت کو سربراہ بن بنانا اس کی کوئی حق تلفی یا تحقیر نہیں ہے، بلکہ یہ تفاوت صلاحیتوں اور تقسیم کی بنیاد پر ہے" (صفحہ 326)
(7) پروفیسر ثریا بتول صاحبہ کو اسلام اور علوم القرآن میں گہری دلچسپی ورثہ میں ملی ہے۔ قرآن و حدیث، تاریخ، آثار صحابہ اور مسلمہ فقہاء کی آراء پر ان کی گہری نگاہ ہے۔ ان کی تصنیف نقلی و عقلی دلائل کا خوبصورت مرقع ہے۔ انہوں نے قرآن و سنت کے عقلی دلائل سے ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ عقلی دلائل کو بھی قرآن و سنت کی روشنی میں مستحکم کیا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے جدید تحریکِ نسواں کی خرابیوں کو بیان کرنے کے لیے انصاف پسند مگربی مصنفین کی تحریروں سے بکثرت اقتباسات نقل کیے ہیں۔ اس لحاظ سے ان کی تحریر میں نہ صرف توازن پیدا ہوا ہے بلکہ اس کا علمی درجہ بھی نہایت بلند ہو گیا ہے ۔۔ اقوام متحدہ کے تحت منعقد ہونے والی خواتین کی بیجنگ کانفرنس کے بارے میں محترمہ ثریا بتول کا تبصرہ ملاحظہ فرمائیے:
"یہ کانفرنس در حقیقت تذلیل نسوانیت کانفرنس تھی۔ جس کا مقصد وحید عورتوں کو مادر پدر آزادی دلانا تھا تاکہ وہ بچوں کو جنم دینے کے فریضہ بلکہ جھنجٹ سے آزاد ہو سکیں۔ اگر ہو جائے تو اپنی مرضی سے اسقاطِ حمل کروا سکیں، ہم جنس پرستی اور آزادانہ شہوت رانی میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو سکے۔ یہ ہے یو، این، او کی حقوقِ نسواں اور شرفِ نسواں کے سلسلے میں کوششوں کی معراج! وہ عورت کو مساوات، حقوق اور ترقی دینے چلے ہیں مگر!
مردوں کے اگر شانہ بشابہ رہے عورت
کچھ اور ہی بن جاتی ہے عورت نہیں رہتی
(صفحہ 373)
محترمہ ثریا بتول علوی کی مذکورہ کتاب کے مطالعہ کا فوری اثر ایک قاری یا قاریہ پر یہ پڑتا ہے کہ قرآن و سنت کی آفاقی، ابدی اور انسانیت کی فلاح پر مبنی تعلیمات پر اعتماد مزید بڑھ جاتا ہے اور تہذیب مغرب کا کھوکھلا پن، سفلگی، عاصیانہ پن اور حیوانیت اس کی آنکھوں کے سامنے ننگی ہو کر آ جاتی ہے۔ قاری کا ذہن اسلام سے وابستگی کے ایک عجیب نشے سے جھومنے لگتا ہے جو حق کی معرفت اور وجدانی کیفیات کے زیراثر جنم لیتا ہے ۔۔ مذکورہ کتاب کا درج ذیل اقتباس ملاحظہ ہو:
"اس کے برعکس اسلام نے عورت کو تحفظ مہیا کیا ہے، اسے عزت و احترام دیا ہے۔ اسے وقار عطا کیا ہے، سچی بات ہے کہ عورت نے جتنا اعلیٰ و ارفع مقام اسلام کے جوارِ رحمت میں پایا ہے۔ اس کی نظیر تمام مذہاب عالم میں تو کجا،  خود موجودہ دور کی نام نہاد مہذب مغربی تہذیب میں بھی پایا جانا بلکہ اس کا صرف عشر عشیر بھی پایا جانا ناممکن ہے۔ قرآن و سنت میں اس صنف نازک کے حقوق کی پاسداری، تمام معاملات میں اس کی خصوصی نگہداشت اور فطری کمزوری کے باعث اس کی رعایت پر نظر ڈالی جائے تو بے اختیار یہ بات زبان سے نکلتی ہے کہ یہ واقعی خالق کائنات کی حکمت بھری تعلیم ہے" (صفحہ 373)
محترمہ ثریا بتول علوی نے جس طرح جذبہ ایمانی سے سرشار ہو کر یہ کتاب تصنیف کی ہے، وہ قابل ستائش ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دیگر تعلیم یافتہ اسلام پسند خواتین بھی جدید تحریک نسواں کے طوفان کی الحادی موجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کا نذرانہ پیش کریں۔ زیرنظر کتاب نے اسلامی تحریک مزاحمت کے لیے وقیع لٹریچر فراہم کر دیا ہے ۔۔ محترمہ کے لیے بالخصوص اور دیگر اہل علم کے لیے بالعموم اس کام کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
درج ذیل موضوعات تک قلمی جدوجہد اور جولانی فکر کے منتظر ہیں:
1۔ 1800ء سے لے کر اب مغرب میں تحریک آزادی نسواں جن ارتقائی مراحل سے گزری ہے، ان کا تفصیلی جائزہ
2۔ آزادی نسواں کی تحریک کے محرکات اور اس کو مقبول بنانے والے سیاسی، سماجی، نفسیاتی اور دیگر عوامل کا ناقدانہ جائزہ
3۔ جنگ عظیم دوم کے بعد جدید تحریک نسواں کی نئی جہات اور فکری آوارگی کا عملی محاکمہ
4۔ 1980ء کے بعد خواتین کے حقوق کے نام پر صیہونی لابی کی زیر سرپرستی این جی اوز کا سیلاب بلا خیر ۔۔ ترقی کے نام پر الھاد کی تبلیغ کا ایجنڈہ
5۔ مغرب میں خاندانی نظام کی تباہی میں تحریک نسواں کا حصہ اور اس کے مضمرات پر تفصیلی جائزہ
6۔ عالمی سطح پر ہیومن رائٹس کے نام پر وومن رائٹس کے ایجنڈے کی تبلیغ اور دنیا بھر سے ان کو منوانے کے لیے مغربی دباؤ ۔۔ مغرب میں 1990ء کے عشرے میں مساوی حقوق کے فتنہ کی بلاخیزی اور اس کے متعلق شائع ہونے والے وسیع لٹریچر کا محققانہ تجزیہ
7۔ پاکستان میں تحریکِ نسواں کی ابتداء، اپوائی بیگمات کا کردار، عائلی قوانین کا تفصیلی پس منظر، اور اس کا ناقدانہ جائزہ
8۔ حقوقِ نسواں کمیٹی 1976ء کی رپورٹ کے حصہ اول اور حصہ دوم کا ناقدانہ جائزہ/اس کی اسلام سے متصادم سفارشات کی نشاندہی
9۔ جسٹس اسلم ناصر زاہد کی سربراہی میں قائم شدہ خواتین انکوائری کمیشن کی سفارشات کا تفصیلی محاکمہ اور تعاقب
10۔ پاکستان میں خواتین کے حقوق کے نام پر کام کرنے والی ملک و دین دشمن این۔جی۔اوز کے "نیٹ ورک" کی نشاندہی بالخصوص انسانی حقوق کمیشن، عورت فاؤنڈیشن، شرکت گاہ اور (Simorgh) وغیرہ ۔۔ ان تنظیموں کی اسلام دشمن سرگرمیوں کا جائزہ۔ حالیہ برسوں میں ان کی طرف سے شائع کردہ سینکڑوں کتابوں کے مواد کی چھان بین اور اس کے قابل اعتراض حصوں کی نشاندہی۔ وسائل و ذرائع آمدن اور ملک دشمن رابطوں کو ضبطِ تحریر میں لانا
11۔ مسلمان ملکوں میں اسلامی خواتین کی طرف سے قائم کردہ ایسی تنظیموں کے بارے میں مفصل رپورٹ جو تہذیب مغرب کی یلغار کے سامنے بند باندھنے میں مصروف ہیں۔
محترمہ ثریا بتول علوی نے اگرچہ مندرجہ بالا موضوعات میں سے اکثر کے متعلق کچھ نہ کچھ ضرور تحریر کیا ہے، لیکن ان کے متعلق مزید تفصیلات کی ضرورت بدستور قائم ہے۔ امید رکھی جانی چاہئے کہ ان کی طرف سے کھڑی کی جانے والی اس فکری عمارت کے نامکمل حصوں کو پائی تکمیل تک پہنچانے کے لیے اجتماعی اور انفرادی سطح پر کاوش بروئے کار لائی جائے گی۔