قرآن و سنت کا باہمی تعلق

ذیل میں ہم اس قسم کی بعض احادیث اور ان کے مخالف قرآن ہونے کی حقیقت پر تبصرہ پیش کرتے ہیںؒ
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے کذبات ثلاثہ کی حقیقت
قرآن کریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق ارشاد ہوتا ہے:
" وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا ﴿٤١﴾"(130)
یعنی "حضرت ابراہیم علیہ السلام انتہائی راست باز نبی تھے" لیکن ایک صحیح حدیث میں مروی ہے " لَمْ يَكْذِبْ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَام إِلَّا ثَلَاثَ كَذَبَاتٍ" (131) یعنی "حضرت ابراہیم علیہ السلام نے صرف تین مواقع پر جھوٹ سے کام لیا تھا" بظاہر یہ حدیث قرآن سے متصادم نظر آتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ زیر مطالعہ حدیث قرآن سے کس طرح متعارض نہیں ہے کیونکہ اس روایت میں جو تین کذب مذکور ہیں ان میں سے دو وقائع کا تذکرہ تو خود قرآن میں موجود ہے اور تیسرے واقعہ کا ذکر بائیبل (132) کے علاوہ کتب حدیث میں ہے، پس ان وقائع کا انکار کسی طرح ممکن نہیں ہے جہاں تک "توریہ" وغیرہ کے ساتھ اس کی تاویل کا تعلق ہے تو یہ اطلاق کذب کو مانع نہیں ہے، نہ اس سے کوئی محذور شرعی لازم آتا ہے اور نہ کسی اصول متفق علیہا کے خلاف ثابت ہوتا ہے۔ چونکہ "توریہ" و "تعریض" اصل واقعہ کے اعتبار سے صدق پر مشتمل ہوتا ہے لہذا اس حدیث سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عصمت قطعا داغدار نہیں ہوتی، جیسا کہ آگے واضح کیا جائے گا۔
غالبا امام رازی رحمۃ اللہ علیہ وہ پہلے شخص ہیں جن کو یہ حدیث پہلی بار کھٹکی تھی اور انہوں نے دبے الفاظ میں اس کے انکار کی کوشش کی تھی، چنانچہ فرماتے ہیں:
"انبیاء کی طرف جھوٹ کو منسوب کرنے سے بدرجہا بہتر یہ ہے کہ اس روایت کے راویوں کی طرف اسے منسوب کیا جائے" (133)
اور
"جب نبی اور راوی میں سے کسی ایک کی طرف جھوٹ کو منسوب کرنا پڑ جائے تو ضروری ہے کہ اسے نبی کے بجائے راوی کی طرف منسوب کیا جائے" (134)
لیکن آں رحمہ اللہ نے اس چیز پر غور نہ فرمایا کہ جن رواۃ سے یہ حدیث مروی ہے، انہی رواۃ سے اور بھی بہت سی احادیث مروی ہیں۔ جس عیب کی بناء پر زیر مطالعہ حدیث کو رد کیا جائے گا لامحالہ اس کا اثر ان کی باقی تمام احادیث پر بھی پڑے گا، اس لئے یہ انکار باعتبار نتائج آسان نہیں بلکہ انتہائی خطرناک ہے۔
امام رازی رحمۃ اللہ علیہ کے بعد علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس حدیث کا انکار کیا ہے۔ ان علماء کی رائے سے موافقت رکھنے والے علماء کا خیال یہ ہے کہ چونکہ یہ اخبار آحاد ہیں، اس لیے جراءت کے ساتھ کہہ دینا چاہئے کہ اگرچہ یہ روایتیں صحیحین کی ہیں اور اس لیے مشہور کی حد تک پہنچ گئی ہیں مگر راوی کو ان روایات میں سخت مغالطہ ہوا ہے، لہذا ہرگز قابل قبول نہیں ہیں۔ اس لیے ایک نبی کی جانب کذب کی نسبت کے مقابلہ میں راویوں کی غلطی کا اعتراف بدرجہا بہتر اور صحیح طریق کار ہے۔
متاخرین علماء میں مشہور مصری عالم عبدالوہاب نجار نے "قصص الانبیاء" میں امام رازی رحمۃ اللہ علیہ کی رائے کے ساتھ موافقت کرتے ہوئے کافی شرح و بسط کے ساتھ لکھا ہے، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام و سارہ کے واقعہ سے انکار کیا ہے۔
جناب حمید الدین فراہی صاحب بھی "مقدمہ نظام القرآن" میں لکھتے ہیں:
"بعض لوگ ایسی روایات تک کو قبول کر لیتے ہیں جو نصوص قرآنی کی تکذیب کرتی ہیں، مثلا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تین جھوٹ بولنے کی روایت یا آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف وحی قرآن پڑھ دینے کی روایت" (135)
امام رازی، عبدالوہاب نجار اور حمید الدین فراہی صاحبان وغیرہ کی اتباع میں بعض دوسرے علمائے حنفیہ نے بھی ان صحیح روایات کو رد کرنے کے لئے انتہائی مضحکہ خیز اور لا یعنی احتمالات پیش کیے ہیں۔ ذیل میں ایسی ہی کوششوں سے متعلق بعض مشہور حنفی علماء کی کتب سے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں۔
جناب حفظ الرحمین سیوھاروی رحمۃ اللہ علیہ صاحب لکھتے ہیں:
"لہذا از بس ضروری ہے کہ ایسی روایت یا روایت کے جملہ کو جو اپنی لفظی اور ظاہری تعبیر میں مسلم عقیدہ کے بارے میں ابہام پیدا کرتا ہو صحیح اور مقبول، مشہور اور متواتر روایات حدیث کے انکار پر حجت و دلیل قائم نہ کر لیں اور اس کو انکار حدیث کا ذریعہ بنا کر قرآن عزیز کو ایک ایسی اجنبی کتاب نہ بنا دیں، جس کی تعبیر کے لیے نہ کسی پیغمبر کے تفسیری اقوال ہیں اور نہ تشریحی اعمال ۔۔ البتہ اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ تمام احادیث رسول روایت باللفظ نہیں ہیں بلکہ بعض روایات بالمعنی ہیں یہ نہیں ہے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بھی الفاظ زبان مبارک سے فرمائے ہوں راوی نے ایک ایک لفظ اسی طرح نقل کر دیا ہو بلکہ معنی و مفہوم کے تحفظ کے ساتھ ساتھ اس روایت کے الفاظ راوی کی اپنی تفسیر ہوتے ہیں، پس ان اہم اور بنیادی اصولوں کو پیش نظر رکھنے کے بعد اب مسئلہ زیر بحث کو اس طرح حل کیا جا سکتا ہے کہ بخاری کی احادیث کو بلاشبہ تلقی بالقبول حاصل ہے اور یہ بھی تسلیم کہ یہ کتاب جرح نقد پر کسے جانے اور پرکھے جانے کے بعد امت میں شہرت و قبولیت کا وہ درجہ رکھتی ہے کہ کتاب اللہ کے بعد اس کو اَصح الکتب کہا جاتا ہے تاہم یہ ممکن ہے کہ روایت بالمعنی ہونے کی وجہ سے اس کی کسی روایت میں راوی سے لفظی تعبیر میں سقم پیدا ہو گیا ہو اور روایت اگرچہ اپنے سلسلہ سند اور مجموعہ متن کے اعتبار سے اصولا قابل تسلیم ہو مگر اس جملہ کی تعبیر کو سقیم سمجھا جائے اور اصل روایت کو رد کرنے کی بجائے صرف اس کے سقم کو ظاہر کر دیا جائے ۔۔۔ بغیر کسی شک اور تردد کے یہ تسلیم کرنا چاہئے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے متعلق یہ (طویل روایات) روایت بالمعنی کی قسم میں داخل ہیں، اور یہ دعویٰ ہرگز نہیں کیا جا سکتا کہ الفاظ اور جملوں کی پوری نشستوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان حق ترجمان کے نکلے ہوئے الفاظ اور جملوں کی نشست ہے بلکہ آپ کے مفہوم اور معنی کو ادا کرتی ہیں لہذا ہو سکتا ہے کہ (ہر دو روایات میں) بیان کردہ واقعات کی صحت کے باوجود زیر بحث الفاظ سلسلہ سند کے کسی راوی کے اختلال لفظی کا نتیجہ ہوں اور اس سے یہ تعبیری سقم پیدا ہو گیا ہو۔ خصوصا جب کہ اس کے لیے یہ قرینہ بھی موجود ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام و سارہ اور شاہ مصر کا یہ واقعہ توراۃ میں بھی مذکور ہے اور وہاں اس قسم کے غیر محتاط جملے بکثرت موجود ہیں، لہذا یہ ممکن ہے کہ راوی سے اس اسرائیلی روایت اور صحیح روایت کے درمیان تعبیر میں خلط ہو گیا اور اس لیے اس نے معاملہ کی تعبیر زیر بحث الفاظ سے کر دی ہو" (136)
عبدالوھاب نجار، حفظ الرحمٰن سیوھاروی، ابوالکلام آزاد، حمید الدین فراہی، شبلی نعمانی، امین احسن اصلاحی، سید ابو اعلی مودودی اور حبیب الرحمین صدیقی کاندھلوی صاحبان وغیرہم نے بھی اس صحیح حدیث کا انکار کیا ہے۔ یہاں ان تمام حضرات کے طویل اقتباسات نقل کرنے اور ان پر تبصرہ کرنے کی گنجائش نہیں ہے لہذا ذیل میں ہم صرف جناب سید ابوالاعلی مودودی اور حبیب الرحمٰن صدیقی کاندہلوی صاحبان کے اعتراضات نقل کرتے ہوئے ان پر تبصرہ کریں گے۔ جناب شبلی نعمانی صاحب کے اعتراضات کے جواب کے لئے "حسن البیان" مؤلفہ جناب محمد عبدالعزیز محمدی رحیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ (1338ھ) (137) وغیرہ کی طرف مراجعت مفید ہو گی۔ جناب امین احسن اصلاحی کے اعتراض کا جائزہ ان شاءاللہ آگے باب ہشتم ("حدیث کے غث دو سمین میں امتیاز کے لیے اصلاحی صاحب کی اساسی کسوٹیوں کا جائزہ") کے تحت مختصرا پیش کیا جائے گا۔ باقی حضرات کے اعتراضات کے جوابات بھی ان بحثوں میں آ جاتے ہیں۔
جناب سید ابواعلی مودودی صاحب نے اس حدیث پر "رسائل و مسائل" اور "تفہیم القرآن" میں کلام کیا ہے، چنانچہ فرماتے ہیں:
"حضرت ابراہیم بت شکنی کے اس فعل کو بڑے بت کی طرف جو منسوب کیا ہے اس سے ان کا مقصد جھوٹ بولنا نہ تھا۔ بلکہ وہ اپنے مخالفین پر حجت قائم کرنا چاہتے تھے۔ یہ بات انہوں نے اس لیے کہی تھی کہ وہ لوگ جواب میں خود اقرار کریں کہ ان کے یہ معبود بالکل بے بس ہیں اور ان سے کسی فعل کی توقع تک نہیں کی جا سکتی، ایسے موقع پر ایک شخص استدلال کی خاطر جو خلاف واقعہ بات کہتا ہے اس کو جھوٹ قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ نہ وہ خود جھوٹ کی نیت سے ایسی بات کہتا ہے اور نہ اس کے مخاطب ہی اسے جھوٹ سمجھتے ہیں، کہنے والا اسے حجت قائم کرنے کے لیے کہتا ہے اور سننے والا بھی اسے اسی معنی میں لیتا ہے۔
بدقسمتی سے حدیث کی ایک روایت میں یہ بات آ گئی ہے کہ حضرت ابراہیم نے اپنی زندگی میں تین مرتبہ جھوٹ بولے ہیں۔ ان میں سے ایک "جھوٹ' تو یہ ہے (کہ اس بڑے بت نے کیا ہے) اور دوسرا جھوٹ سورہ صافات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قول (إِنِّي سَقِيمٌ) ہے اور تیسرا جھوٹ ان کا اپنی بیوی کو بہن کہنا ہے۔ جس کا ذکر قرآن میں نہیں۔ بلکہ بائبل کی کتاب پیدائش میں آیا ہے۔ ایک گروہ روایت پرستی میں غلو کر کے اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ اسے بخاری مسلم کی چند راویوں کی صداقت زیادہ عزیز ہے اور اس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ اس سے ایک نبی پر جھوٹ کا الزام عائد ہوتا ہے۔ دوسرا گروہ ایک روایت کو لے کر پورے ذخیرہ حدیث پر حملہ آور ہوجاتا ہے اور کہتا ہے ساری ہی حدیثوں کو اٹھا کر پھینک دو کیونکہ ان میں ایسی ایسی روایتیں پائی جاتی ہیں حالانکہ نہ ایک یا چند روایات میں کسی خرابی کے پائے جانے سے یہ لازم آتا ہے کہ ساری ہی روایات ناقابل اعتماد ہوں۔ اور نہ فن حدیث کے نقطہ نظر سے کسی روایت کی سند کا مضبوط ہونا اس بات کا ملتزم ہے کہ اس کا متن خواہ کتنا ہی قابل اعتراض ہو مگر اسے ضرور آنکھیں بند کر کے صحیح مان لیا جائے۔ سند کے قوی اور قابل اعتماد ہونے کے باوجود بہت سے اسباب ہو سکتے ہیں جن کی وجہ سے ایک متن غلط صورت میں نقل ہو جاتا ہے اور ایسے مضامین پر مشتمل ہوتا ہے جن کی قباحت خود پکار رہی ہوتی ہے کہ یہ باتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمائی ہوئی نہیں ہو سکتیں۔ اس لیے سند کے ساتھ ساتھ متن کو دیکھنا بھی ضروری ہے۔ اور اگر متن میں کوئی قباحت ہو تو پھر خواہ مخواہ اس کی صحت پر اصرار کرنا صحیح نہیں ہے۔
یہ حدیث جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تین جھوٹ بیان کئے گئے صرف اسی وجہ سے قابل اعتراض نہیں ہے کہ ایک نبی کو جھوٹا قرار دے رہی ہے بلکہ اس بناء پر غلط ہے کہ اس میں جن تین واقعات کا ذکر کیا گیا ہے وہ تینوں ہی محل نظر ہیں۔ ان میں سے ایک "جھوٹ" کا حال ابھی آپ دیکھ چکے ہیں کہ کوئی معمولی عقل و خرد کا آدمی بھی اس سیاق و سباق میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس قول پر لفظ جھوٹ کا اطلاق نہیں کر سکتا کجا کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے معاذاللہ اس سخن شناسی کی توقع کریں۔ رہا (إِنِّي سَقِيمٌ) والا واقعہ تو اس کا جھوٹ ہونا ثابت نہیں ہو سکتا جب تک یہ ثابت نہ ہو جائے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام فی الواقع اس وقت بالکل صحیح و تندرست تھے اور کوئی ادنیٰ سی بھی شکایت ان کو نہ تھی۔ یہ بات نہ قرآن میں کہیں بیان ہوئی ہے اور نہ اس زیر بحث روایت کے سوا کسی دوسری معتبر روایت میں اس کا ذکر آیا ہے۔
اب رہ جاتا ہے بیوی کو بہن قرار دینے کا واقعہ تو وہ بجائے خود ایسا مہمل ہے کہ ایک شخص اس کو سنتے ہی یہ کہہ دے گا کہ یہ ہرگز واقعہ نہیں ہو سکتا۔ قصہ اس وقت کا بتایا جاتا ہے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی بیوی حضرت سارہ کے ساتھ مصر گئے ہیں۔ بائبل کی رو سے اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر 75 اور حضرت سارہ کی عمر 65 برس سے کچھ زیادہ ہی تھی۔ اور اس عمر میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ خوف لاحق ہوتا ہے کہ شاہ مصر اس خوبصورت خاتون کو حاصل کرنے کی خاطر مجھے قتل کر دے گا۔ چنانچہ وہ بیوی سے کہتے ہیں کہ جب مصری تمہیں پکڑ کر بادشاہ کے پاس لے جانے لگیں تو تم بھی مجھے اپنا بھائی بتانا اور میں بھی تمہیں اپنی بہن بتاؤں گا تاکہ میری جان تو بچ جائے۔ (پیدائش باب 12)
حدیث کی زیر بحث روایت میں تیسرے جھوٹ کی بنیاد اسی صریح لغو اور مہمل اسرائیلی روایت پر ہے۔ کیا کوئی معقول بات ہے کہ جس حدیث کا متن ایسی باتوں پر مشتمل ہو اس کو بھی ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنے پر صرف اس لیے اصرار کریں کہ اس کی سند مجروح نہیں ہے؟ اسی طرح کی افراط پسندیاں پھر معاملہ کو بگاڑ کر اس تفریط تک نوبت پہنچا دیتی ہیں جس کا مظاہرہ منکرین حدیث کر رہے ہیں" (138)
ایک اور مقام پر جناب ابو الاعلی مودودی صاحب رقم طراز ہیں:
" ۔۔۔ میں نے وہ دلائل بھی بیان کر دئیے ہیں جن کی بناء پر میں اس روایت کے مضمون کی صحت تسلیم کرنے میں متامل ہوں۔ اگر میرے ان دلائل کو دیکھ کر آپ کا اطمینان ہو جائے تو اچھا ہے اور نہ ہو تو جو کچھ آپ صحیح سمجھتے ہیں اسی کو صحیح سمجھتے رہیں۔ اس طرح کے معاملات میں اگر اختلاف رہ جائے تو آخر مضائقہ کیا ہے؟ آپ کے نزدیک حدیث کا مضمون اس لیے قابل قبول ہے کہ وہ قابل اعتماد سندوں سے نقل ہوئی ہے اور بخاری، مسلم، نسائی اور متعدد دوسرے اکابر محدثین نے اسے نقل کیا ہے۔ میرے نزدیک وہ اس لیے قابل قبول نہیں ہے کہ اس میں ایک نبی کی طرف جھوٹ کی نسبت ہوتی ہے اور یہ کوئی ایسی معمولی بات نہیں ہے کہ چند راویوں کی روایت پر اسے قبول کر لیا جائے ۔۔۔ مگر میں اس روایت کے ثقہ راویوں میں سے کسی کے متعلق یہ نہیں کہتا کہ انہوں نے جھوٹی روایت نقل کی ہے بلکہ صرف یہ کہتا ہوں کہ کسی نہ کسی مرحلے پر اس کو نقل کرنے میں کسی راوی سے بے احتیاطی ضرور ہوئی ہے۔ اس لیے اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قول قرار دینا مناسب نہیں ہے۔ محض سند کے اعتماد پر ایک ایسے مضمون کو آنکھیں بند کر کے ہم کیسے مان لیں جس کی زد انبیاء علیہم السلام کے اعتماد پر پڑتی ہے؟ ۔۔ الخ" (139)
اور انجمن اسوہ حسنہ پاکستان کے مؤسس جناب حبیب الرحمٰن صدیقی کاندھلوی صاحب جناب سید ابوالاعلی مودودی صاحب کے مقولہ بالا اقتباسات کو تائیدا نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
"یہ تو علامہ مودودی مرحوم کا بیان تھا لیکن محدثین کے یہاں حدیث کی ایک اصطلاح ادراج ہے اور اس کا مطلب تو ہوتا ہے کہ کسی صحیح روایت میں راوی کے الفاظ داخل کر دئیے جائیں اور اس راوی کے الفاظ کو غلطی سے حدیث سمجھ لیا جائے، تو ہو سکتا ہے راوی نے بطور تشریح اسرائیلی روایت بیان کی ہو اور بعد کے راوی نے اسے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ لیا ہو اور پھر حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہہ کر بیان کر دیا ہو۔ ایسی حدیث کو مدرج بولتے ہیں۔ یہاں مدرج کی تفصیل کی گنجائش نہیں ورنہ ہم اس کی تفصیل پیش کر دیتے" (140)
ہماری شدید خواہش ہے کہ جناب حفظ الرحمین سیوھاروی، سید ابواعلی مودودی اور حبیب الرحمٰن صدیقی کاندھلوی وغیرہ صاحبان کے مذکورہ بالا احتمالات کا تفصیلی جواب پیش کریں، لیکن بخوف طوالت اور موضوع سخن سے براہ راست متعلق نہ ہونے کے باعث ان منقولہ عبارتوں کی صرف چند واضھ اغلاط کی نشاندہی پر ہی اکتفا کرتے ہیں، کبھی اللہ تعالیٰ نے مہلت اور توفیق بخشی تو ان شاءاللہ اس موضوع پر مفصل بحث بھی کی جائے گی۔ فی الحال منقولہ اقتباسات کی چند واضح اور اہم اغلاط ملاحظہ فرمائیں:
1۔ جناب سیوھاروی صاحب کے انکار کی بنیاد کسی ٹھوس دلیل پر نہیں بلکہ فقط اس احتمال پر ہے کہ: "یہ ممکن ہے کہ روایت بالمعنی ہونے کی وجہ سے اس کی کسی روایت میں راوی سے لفظی تعبیر میں سقم پیدا ہو گیا ہو" اور "یہ دعویٰ ہرگز نہیں کیا جا سکتا کہ الفاظ اور جملوں کی پوری نشست نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان حق ترجمان کے نکلے ہوئے الفاظ اور جملوں کی نشست ہے" ۔۔۔ ہم پوچھتے ہیں کہ جناب سیوہاروی صاحب کو اس روایت کے باللفظ نہ ہونے کا علم کیوں کر ہوا ۔۔؟ اگر یہ قیاس ہے، اور یقینا قیاس ہے جیسا کہ الفاظ "یہ ممکن ہے کہ" سے مترشح ہے تو محض ایک بلادلیل قیاس کی بنیاد پر کسی صحیح حدیث کو رد کرنا کسی صحیح الذہن شخص کے نزدیک درست نہیں ہو سکتا۔ اگر یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ "الفاظ اور جملوں کی پوری نشستوں ۔۔ الخ" تو آخر یہ دعویٰ کس طرح کیا جا سکتا ہے کہ الفاظ اور جملوں کی پوری نشست نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان حق ترجمان کے نکلے ہوئے الفاظ اور جملوں کی نشست نہیں ہے؟
2۔ جناب مودوی صاحب کے انکار کی بنیاد یہ چند وجوہ ہیں:
(الف) "بدقسمتی سے حدیث کی ایک روایت میں یہ بات آ گئی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی زندگی میں تین مرتبہ جھوٹ بولے ہیں"
(ب) حضرت ابراہیم کے قرآن میں مذکورہ اقوال پر لفظ جھوٹ کا اطلاق نہیں ہوتا۔
(ج) یہ روایت ایک نبی کو جھوٹا قرار دے رہی ہے،
(د) اس میں جن تین واقعات کا ذکر کیا گیا ہے وہ تینوں ہی محل نظر ہیں
(ح) جس وقت شاہ مصر کا حضرت سارہ کو چھیننے کا واقعہ بیان کیا جاتا ہے اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر 75 اور حضرت سارہ کی عمر 65 سال تھی، چنانچہ اس عمر میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ خوف لاحق ہونا بجائے خود ایسا مہمل ہے کہ ہر شخص اس کو سن کر ماننے سے انکار کر دے گا۔
(و) سند کے قوی اور قابل اعتماد ہونے کے باوجود بہت سے ایسے اسباب ہو سکتے ہیں جن کی وجہ سے ایک متن غلط صورت میں نقل ہو جاتا ہے
(ذ) اس طرح کے معاملات میں اگر اختلاف ہو بھی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے اور
(ح) کسی نہ کسی مرحلے پر اس کو نقل کرنے میں کسی راوی سے بے احتیاطی ضرور ہوئی ہے۔
اس سلسلہ میں پہلی بات یہ جاننی چاہئے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے کذبات ثلاثہ "بدقسمتی سے حدیث کی ایک روایت میں" مذکور نہیں، بلکہ صرف 'صحیح البخاری" میں ہی ان کذبات ثلاثہ کا تذکرہ تقریبا پانچ مقامات پر مذکور ہے، کہیں پورا متن ہے، کہیں مختصر، کہیں تعلیقا اور کہیں مرفوعا۔ البتہ "کتاب الانبیاء" میں یہ حدیث پوری تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ اس کے علاوہ احادیث شفاعت میں بھی ان کذبات کا ذکر ہے، چنانچہ مروی ہے کہ قیامت کے دن جب میدان حشر میں لوگ پریشان ہو کر مختلف وجودہ بیان کریں گے۔ اس موقع پر حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی اپنے ان تینوں کذبات کا یوں ذکر کرتے ہوئے معذرت فرمائیں گے: " انى قد كذبت ثلاث كذبات" واضح رہے کہ میدان حشر سے متعلق یہ حدیث صحیح البخاری کے علاوہ صحیح المسلم، جامع الرمذی، مسند احمد، صحیح ابن خزیمہ، المستدرک للحاکم، معجم للطبرانی، مصنف ابن ابی شیبہ اور مسند ابن عوانہ میں بھی مختلف اصحاب رسول رضی اللہ عنھم سے مروی ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام سے "کذبات ثلاثہ" کے متعلق روایات "صحیح البخاری" (141)، "صحیح المسلم" (142) "جامع الترمذی" (143) "سنن ابی داؤد" (144) اور "مسند احمد" (145) کی طرف مراجعت مفید ہو گی۔
دوسری بات یہ ہے کہ حدیث میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اقوال (إِنِّي سَقِيمٌ) اور (بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَـٰذَا) وغیرہ پر "کذب" کا جو اطلاق کیا گیا ہے وہ لغۃ ہے، اصلا وہ کذب شرع میں محرم نہیں۔ خود مودودی صاحب نے اس جملہ میں کہ "حضرت ابراہیم نے بت شکنی کے اس فعل کو بڑے بت کی طرف جو منسوب کیا ہے اس سے ان کا مقصد جھوٹ بولنا نہ تھا۔" اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ آں علیہ السلام نے اگرچہ ایک خلاف واقعہ بات کہی تھی لیکن ان کا مقصد جھوٹ بولنا نہ تھا۔ دراصل جناب مودودی صاحب یا دیگر مفکرین نے حدیث میں وارد لفظ "کذب" کو شرع میں محرم "جھوٹ" پر محمول کر لیا ہے، حالانکہ عربی لغت میں کذب جھوٹ سے کہیں زیادہ وسیع تر مفہوم کا حامل ہے۔ مثلا " كذبته نفسه" سے مراد یہ ہے کہ "اسے اس کے نفس نے ترغیب دلائی"۔ جوہری اور فراء کے قول کے مطابق کذب بمعنی وجوب کے بھی ہیں۔ (146) کبھی کذب لزوم کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے مثلا یہ بولا جاتا ہے کہ " كذب عليكم الحج والعمرة" یعنی "تم پر حج اور عمرہ لازم ہو گیا" اسی طرح کذب غلطی اور خط کے لیے بھی بولا جاتا ہے مثلا: "کذب ابو محمد" یعنی (صحابی رسول) ابو محمد (سعود بن زید) نے غلطی کی" اجتہادی خطا پر بھی کذب کا اطلاق کیا جاتا ہے جیسے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے تابعی نوف بقالی کے متعلق فرمایا تھا: " كذب عدوالله" یعنی "اللہ کے دشمن (نوف) نے غلطی کی" اسی طرح عربی شاعر ذوالرومۃ کا قول ہے: " ما فى سماعه كذب" یعنی اس کے سماع میں غلطی نہیں ہے" کبھی کذب کا اطلاق تعریض و توریہ پر بھی ہوتا ہے یعنی جب متکلم خبر واقعہ اور مخبر عنہ کے مطابق دے لیکن امر واقعہ اور حقیقت کو مخاطب سے مخفی رکھنا چاہئے۔ توریہ و تعریض حقیقت میں سچ ہوتا ہے لیکن سامع کی فہم کے اعتبار سے اسے کذب بھی کہا جا سکتا ہے۔ علامہ راغب اصفہانی فرماتے ہیں:
" والتعريض كلام له وجهان من صدق و كذب او ظاهر و باطن قال فيما عرضتم به من خطبة النساء" (147)
یعنی "تعریض ایسی گفتگو ہوتی ہے جس کے دو پہلو ہوتے ہیں: صدق و کذب یا ظاہر و باطن جیسے  فيما عرضتم به من خطبة النساء سے واضح ہے"۔
علامہ ابن اثیر فرماتے ہیں
" أن الكذب ضد الصدق وإن افترقا من حيث النية والقصد ؛ لأن الكاذب يعلم أن ما يقوله كذب ، والمخطئ لا يعلم " (148)
اس قسم کے توریہ کی مثالیں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات وغیرہ میں بھی ملتی ہیں چنانچہ مروی ہے: "الحرب خدعة" (149) یعنی "جنگ میں دھوکہ درست ہے" اسی طرح سفر ہجرت میں جب کسی شخص نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق دریافت کیا ہے کہ "یہ آپ کے رفیق کون ہیں؟" تو حضرت ابوبکر نے جواب دیا تھا: " رجل يهدينى سبيل" یہ وہ شخص ہے جو میری رہنمائی کرتے ہیں" لوگ حضرت ابوبکر کے جواب سے دنیاوی رہبری مراد لیتے حالانکہ حضرت ابوبکر کی مراد آخرت کی رہنمائی تھی۔ کیا زیر مطالعہ حدیث کے منکرین اس جواب کی روشنی میں انہیں "کاذب" کہنے کی جسارت کریں گے؟ حالانکہ آں رضی اللہ عنہ کا لقب ہی "الصدیق" تھا۔ اگر نہیں، تو پھر اس قول کو تعریض پر ہی محمول کرنا پڑے گا، پس اگر ایک صحابی رسول کے لیے تعریض کا استعمال ممکن ہے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مقام نبوت کے پیش نظر ان کے اقوال کو تعریض سے تعبیر کرنا بدرجہا اولیٰ ہے۔
پس معلوم ہے کہ حدیث زیر مطالعہ میں "کذب" کو تعریض پر اس طرح محمول کرنا کہ " سَقِيمٌ" سے دو معنی مراد ہیں: جسمانی مریض اور روحانی مریض (اور یہاں دوسرا معنی مراد ہے) " كَبِيرُهُمْ" سے بھی دو معنی مراد ہیں: بڑا بت اور اللہ تعالیٰ (یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مراد دوسرے معنی سے ہے) اور " اختى" کے معنی بھی نسبتی اور دینی بہن کے ہیں (یہاں بھی دوسرا معنی مراد ہے)، گویا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعریض و توریہ کے ذریعہ اپنے مخاطبین کو ظاہری معنی میں الجھا دیا اور خود اس کا مخفی معنی مراد لیا ۔۔ ایک بالکل صحیح اور معقول توجیہہ ہے۔ اس سے نہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عصمت و نبوت پر کوئی "زد" پڑتی ہے اور نہ ہی کذبات ثلاثہ والی روایت، قرآن کی آیت إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا کے خلاف باقی رہتی ہے۔ واضح رہے کہ اس توجیہ میں جناب مودودی صاحب کے اس اعتراض کا جواب مل جاتا ہے کہ رہا " إِنِّي سَقِيمٌ" والا واقعہ تو اس کا جھوٹ ہونا ثابت نہیں ہو سکتا جب تک یہ ثابت نہ ہو جائے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام فی الواقع اس وقت بالکل صحیح و تندرست تھے اور کوئی ادنیٰ سی بھی شکایت ان کو نہ تھی"
اس تعریض و توریہ کے متعلق حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
" الكلام له نسبتان نسبة إلى المتكلم وقصده وإرادته ونسبة إلى السامع وإفهام المتكلم إياه مضمونه فإذا أخبر المتكلم بخبر مطابق للواقع وقصد إفهام المخاطب فهو صدق من الجهتين وأن قصد خلاف الواقع وقصد مع ذلك إفهام المخاطب خلاف ما قصد بل معنى ثالثا لا هو الواقع ولا هو المراد فهو كذب من الجهتين بالنسبتين معا وإن قصد معنى مطابقا صحيحا وقصد مع ذلك التعمية على المخاطب وإفهامه خلاف ما قصده فهو صدق بالنسبة إلى قصده كذب بالنسبة إلى إفهامه ومن هذا الباب التورية والمعاريض وبهذا أطلق عليها إبراهيم الخليل عليه السلام اسم الكذب مع أنه الصادق في خبره ولم يخبر إلا صدقا فتأمل هذا الموضع الذي أشكل على الناس وقد ظهر بهذا أن الكذب لا يكون قط إلا قبيحا وأن الذي يحسن ويجب إنما هو التورية وهي صدق وقد يطلق عليها الكذب بالنسبة إلى الإفهام لا إلى العناية ." (150)
یعنی "کلام و گفتگو کی دو نسبتیں یا حیثیتیں ہوتی ہیں: (1) متکلم کے قصد و ارادہ کے لحاظ سے، (2) سامع کے اعتبار سے، یعنی متکلم سامع کے ذہن میں کیا بات اتارنا چاہتا ہے۔ ان دونوں نسبتوں کے لحاظ سے کلام کی تین صورتیں ہو سکتی ہیں: (1) متکلم اصل واقعہ کے مطابق خبر دے اور اس کی نیت بھی یہی ہو کہ صحیح صورت حال سے مخاطب آگاہ ہو جائے۔ یہ صورت مذکورہ بالا دونوں نسبتوں کے اعتبار سے صدق پر مشتمل ہو گی (2) دوسری صورت یہ ہے کہ خلاف واقعہ خبر دی جائے اور جو متکلم کا مقصود ہے وہ بھی مخاطب پر ظاہر نہ ہونے دیا جائے بلکہ کوئی تیسرا مفہوم مخاطب کے ذہن میں اتارنے کی کوشش کی جائے جو نہ واقع کے بیان کے مطابق ہو اور نہ متکلم کے پیش نظر واقع کے مطابق صحیح خبر دینا ہی مقصود ہوتا ہے، لیکن وہ گفتگو کا اسلوب ایسا اختیار کرتا ہے کہ مخاطب کا ذہن متکلم کے اصل مقصد کو سمجھنے کی بجائے ایسے امر کی طرف منتقل ہو جائے جو متکلم کا منشاء نہیں ہے۔ یہ صورت اصل واقعہ کے لحاظ سے صدق ہے لیکن مخاطب کے فہم کے اعتبار سے اس پر کذب کا اطلاق ہو سکتا ہے۔ اس قسم کے اسلوب کلام کو توریہ اور تعریض کہا جاتا ہے۔ اس پہلو کے پیش نظر حضرت ابراہیم علیہ السلام پر کذب کا اطلاق کیا گیا ہے، ورنہ اصل واقعہ کے لحاظ سے دیکھا جائے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام اس گفتگو میں سچے ہیں"
" والخبر تارة يكون مطابقا لمخبره كالصدق المعلوم أنه صدق ، وتارة لا يكون مطابقا لمخبره كالكذب المعلوم أنه كذب وقد تكون المطابقة في عناية المتكلم وقد يكون في إفهام المخاطب إذا كان اللفظ مطابقا لما عناه المتكلم ولم يطابق إفهام المخاطب فهذا أيضا قد يسمى كذبا وقد لا يسمى ومنه المعاريض لكن يباح للحاجة" (151)
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ شرح "صحیح مسلم" میں فرماتے ہیں:
"بعض علماء مثلا طبری وغیرہ کا قول ہے کہ کذب کسی بھی بارے میں اصلا جائز نہیں ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ کذب کی اباحت کے متعلق حضرت ابراہیم و یوسف علیہما السلام کے واقعات میں جو کچھ وارد ہے اس سے مراد توریہ و تعریض کا استعمال ہے نہ کہ صریح کذب کا اور اس کا حاصل یہ ہے کہ ایسے کلمات کو ادا کیا جائے جس سے مخاطب متکلم کے اصل منشاء کو سمجھنے کے بجائے وہ مطلب سمجھے جو اصلا اس کا مقصد نہیں ہے۔ یہ معاریض مباح ہیں، پس یہ تمام وقائع جائز و درست ہیں۔ ان علماء نے حضرت ابراہیم و یوسف علیہما السلام کے واقعات کی معاریض کے طریقہ پر تاویل فرمائی ہے" (152)
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی 1239ھ زیر مطالعہ حدیث پر شیعوں کے طعن کا جواب دیتے ہوئے رقم طراز ہیں:
"اس روایت میں لفظ کذب کا تعریض کے معنی میں ہے کہ بحسب ظاہر جھوٹ معلوم ہو اور بحقیقت سچ ہو جیسا کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش طبیعوں میں منقول ہے: العجائز لا تدخلن الجنة وانى حاملك على ولدناقة وان فى عين زوجك بياضا اور مثل ہذا حضرت امیر (علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب) سے بھی ایسی تعریضیں بہت مروی ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تین جھوٹ اسی قسم سے تھے۔ اس لیے کہ انہوں نے جو اپنی بیوی کو بخوف ایک جبار کے خواہر بتایا مراد اس سے اخوۃ اسلامی رکھی ہے۔ اور یہ جو باوصف صحت إِنِّي سَقِيمٌ (یعنی میں روگی ہوں) اس سے بے مزگی اور کدورت روحانی کہ مرض جسمانی سے بڑھ کر ارادہ کی ہے، قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَـٰذَا (یعنی بلکہ یہ کام اس نے کیا ہے جو ان سب میں بڑا ہے) یہ واسطے حیلے اور کفار کے نہیں ہے، بلکہ ایک فرضی طور پر کہا ہے بس اطلاق کذب کا ان امور پر بسبب مشاکلت اور مشابہت کے ہے اور یہ بھی بنظرِ مصلحت ضروری ہے ایک جباری سے آپ کو بچانا تھا، حالانکہ ایسے مواقع پر جہاں اندیشہ مال اور جان اور ناموس کا ہو اگر صریح جھوٹ بھی ہو تو وہ بھی حلال ہے نہ کہ تعریضات۔ وہ جو کفار کو الزام دیا اور بتوں کی عبادت کا دیکھنا گوارا نہ کیا تو یہ سب درکنار الٹا روایات صحیح المضامین کو محل طعن بنانا اور اپنی روایتوں کو صریح دلالت برے برے واقعات پر جو انبیاء اور رسل کی نسبت لکھے ہیں اور کرتے ہیں بھول جانا پرلے درجے کی بے حیائی ہے ۔۔ الخ" (153)
اور جناب مفتی محمد شفیع صاحب "معارف القرآن" "میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قول جھوٹ نہیں بلکہ ایک کنایہ تھا، اس کی تفصیل و تحقیق" اور "حدیث میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف تین جھوٹ منسوب کرنے کی حقیقت" کے زیر عنوان تحریر فرماتے ہیں:
" ۔۔ اس کے جواب کے لیے حضرات مفسرین نے بہت سے احتمالات بیان فرمائے ہیں ان میں سے ایک وہ بھی ہے جس کو خلاصہ تفسیر بیان القرآن میں اختیار کیا گیا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کا یہ قول بطور فرض کے تھا یعنی تم یہ کیوں نہیں فرض کیے لیتے کہ یہ کام بڑے بت نے کیا ہو گا اور بطور فرض کے کوئی خؒاف واقعہ بات کہنا جھوٹ میں داخل نہیں ۔۔ لیکن بے غبار اور تاویل وہ توجیہ ہے جس کو بحر محیط، قرطبی، روح المعانی وغیرہ میں اختیار کیا ہے کہ یہ اسناد مجازی ہے جو کام ابراہیم علیہ السلام نے اپنے ہاتھ سے کیا تھا اس کو بڑے بت کی طرف بطور اسناد مجازی کے منسوب کر دیا ۔۔ یہ ایک اسناد مجازی ہے جیسے عربی کا مشہور مقولہ: " انبت الربيع القبلة" اس کی معروف مثال ہے (یعنی موسم ربیع کی بارش نے کھیتی اگائی ہے) کہ اگرچہ اگانے والا درحقیقت اللہ تعالیٰ ہے مگر اس کے ایک ظاہری سبب کی طرف منسوب کر دیا گیا ہے اور اس کو کوئی جھوٹ نہیں کہہ سکتا اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بڑے بت کی طرف اس کو عملا اور قولا منسوب کر دینا جھوٹ ہرگز نہیں ۔۔۔ یہ اسناد مجازی کے طور پر فرمایا تو اس میں کوئی جھوٹ اور خلاف واقعہ کا شبہ نہیں رہتا صرف ایک قسم کا توریہ ہے" (154)
اور
" ۔۔ اس حدیث میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف تین جھوٹ کی نسبت صراحۃ کی گئی ہے جو شان نبوت و عصمت کے خلاف ہے مگر اس کا جواب خود اسی حدیث کے اندر موجود ہے وہ یہ کہ دراصل ان میں سے ایک بھی حقیقی معنی میں جھوٹ نہ تھا۔ یہ توریہ تھا جو ظلم سے بچنے کے لئے جائز و حلال ہوتا ہے وہ جھوٹ کے حکم میں نہیں ہوتا۔ اس کی دلیل خود حدیث مذکور میں یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے حضرت سارہ سے کہا تھا کہ میں نے تمہیں اپنی بہن بتلایا ہے، تم سے پوچھا جائے تو تم بھی مجھے بھائی بتلانا اور بہن کہنے کی وجہ بھی ان کو بتلا دی کہ ہم دونوں اسلامی برادری کے اعتبار سے بہن بھائی ہیں، اسی کا نام توریہ ہے کہ الفاظ ایسے بولے جائیں جن کے دو مفہوم ہو سکیں، سننے والا اس سے ایک مفہوم سمجھے اور بولنے والے کی نیت دوسرے مفہوم کی ہو اور ظلم سے بچنے کے لیے یہ تدبیر توریہ کی بالاتفاق فقہاء جائز ہے ۔۔توریہ میں صریح جھوٹ نہیں ہوتا بلکہ جس معنی سے متکلم بول رہا ہے وہ بالکل صحیح اور سچ ہوتے ہیں جیسے اسلامی برادری کے لحاظ سے بھائی بہن ہونا، یہ وجہ تو خود حدیث مذکور کے الفاظ میں صراحۃ مذکور ہے جس سے معلوم ہوا کہ یہ درحقیقت کذب نہ تھا بلکہ ایک توریہ تھا، ٹھیک اسی جرح کی توجیہہ پہلے دونوں کلاموں میں ہو سکتی ہے، بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ کی توجیہ ابھی اوپر لکھی گئی ہے کہ اس میں بطور اسناد مجازی اس فعل کو بڑے بت کی طرف منسوب کیا ہے، اسی طرح إِنِّي سَقِيمٌ کا لفظ ہے کیونکہ سقيم کا لفظ جس طرح ظاہری طور پر بیمار کے معنی میں آتا ہے اسی طرح رنجیدہ و غمگین اور مضمحل ہونے کے معنی میں بھی بولا جاتا ہے۔ ابراہیم علیہ السلام نے اسی دوسرے معنی کے لحاظ سے إِنِّي سَقِيمٌ فرمایا تھا۔ مخاطبوں نے اس کو بیماری کے معنی میں سمجھا، اور اسی حدیث میں جو یہ الفاظ آئے ہیں کہ ان تین کذبات میں دو اللہ کی ذات کے لئے تھے یہ خود قرینہ قویہ اس کا ہے کہ یہ کوئی گناہ کا کام نہ تھاورنہ گناہ کا کام اللہ کے لیے کرنے کا کوئی مطلب ہی نہیں ہو سکتا اور گناہ کا کام نہ ہونا جبھی ہو سکتا ہے جب کہ وہ حقیقۃ کذب نہ ہو بلکہ ایسا کلام ہو جس کے دو معنی ہو سکتے ہوں، ایک کذب اور دوسرا صحیح ہو" (155)
اوپر گذر چکا ہے کہ کذب بہرحال قبیح ہے لیکن بوقت ضرورت توریہ و تعریض قابل قبول ہو سکتا ہے کیونکہ توریہ اصل واقعہ کے اعتبار سے صدق پر مشتمل ہوتا ہے، اس پر کذب کا اطلاق اس لحاظ سے کر دیا جاتا ہے کہ واقعہ کے مطابق اصل مقصود و مخاطب کو باور کرانا مطلوب نہیں ہوتا۔ تعریضات کی راہ زندگی کا ایسا لازمہ ہے کہ اس سے بچنا سخت دشوار ہے، چنانچہ علم بدیع کی اصطلاح معاریض فصحاء و بلغاء کے کلام میں بکثرت رائج ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے کذبات ثلاثہ کے متعلق بعض علماء کا خیال ہے کہ جھوٹ ہر حال میں حرام نہیں ہوتا، بلکہ بعض مخصوص حالات میں شرع نے ضرورۃ اس کی اجازت بھی دی ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
" ليس الكاذب الذي يصلح بين الناس" (156)
"وہ شخص جھوٹ نہیں جو لوگوں کے درمیان صلح کروانے کے لیے جھوٹ بولے"
بعض دوسری روایات میں مذکور ہے:
" لا يَحِلُّ الْكَذِبُ إِلا فِي ثَلاثٍ : يُحَدِّثُ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ لِيُرْضِيَهَا ، وَالْكَذِبُ فِي الْحَرْبِ ، وَالْكَذِبُ لِيُصْلِحَ بَيْنَ النَّاسِ" (157)
یعنی "جھوٹ بولنا صرف تین صورتوں میں جائز ہے: (1) جب کہ مرد اپنی ناراض بیوی کو رضامند کرنے کے لئے جھوٹ بولے (2) بحالت جنگ جھوٹ بولا جائے، اور (3) لوگوں کے درمیان صلح کروانے کے لئے جھوٹ بولا جائے"
لہذا اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ان تینوں وقائع کو کذب پر محمول کیا جائے تو بلاشبہ یہ کذبات، کذب مباح کی قبیل ہی سے ہوں گے۔ علامہ ابن حزم اندلسی کا رجحان اسی طرف ہے۔ بعض روایات میں تو اس مصلحت کی تصریح بھی موجود ہے کہ " ما منها كذبه الا ما حصل به عن دين الله" یعنی "ابراہیم علیہ السلام کے ان تینوں جھوٹ میں سے ہر ایک صرف اللہ تعالیٰ کے دین کی مدافعت و حمایت کے لیے ہی بولا گیا ہے"
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ شرح صحیح المسلم میں فرماتے ہیں:
"قاضی کا قول ہے کہ ان صورتوں میں کذب کے جواز کے متعلق کوئی اختلاف نہیں ہے، البتہ کذب مباح سے مراد کی تعیین میں علماء نے اختلاف کیا ہے۔ ایک گروہ جو اس کے اطلاق کا قائل ہے، اس نے حدیث بالا میں مذکور تین مواضع کے علاوہ مصلحت کے متقاضی ہونے کی صورت میں کذب کو جائز قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا یہ کہ کذب مذموم وہ ہے جس میں مضرت پائی جاتی ہو۔ یہ لوگ حضرت ابراہیم و یوسف علیہما السلام کے اقوال سے استدلال کرتے ہیں۔ ان کا قول ہے کہ اس بارے میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اگر کوئی ظالم شخص کسی کو قتل کرنے کا قصد کر لے تو اس پر جھوٹ بول کر اپنی جان بچانا واجب ہے۔ بعض دوسرے علماء مثلا طبری وغیرہ کا قول ہے کذب اصلا کسی میں بھی جائز نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کی اباحت کے بارے میں جو کچھ وارد ہے اس سے مراد توریہ معاریض کا استعمال ہے نہ کہ صریح کذب اور اس کا حاصل یہ ہے کہ ایسے کلمات ادا کرے جس سے مخاطب، متکلم کے اصل مطلب کو سمجھنے کے بجائے وہ مطلب سمجھے جو اس کا منشاء نہیں ہے۔ یہ معاریض مباح ہیں، پس یہ تمام وقائع جائز و درست ہیں۔ ان علماء نے حضرت ابراہیم اور حضرت یوسف علیہما السلام کے قصص کی معاریض کے اسی طریقہ پر تاویل کی ہے" (158)
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ ابن عقیل سے نقل فرماتے ہیں:
" دلالة العقل تصرف ظاهر الكذب على إبراهيم، وذلك أن العقل قطع بأن الرسول صلى الله عليه وسلم ينبغي أن يكون موثوقاً به ليعلم صدق ما جاء به عن الله، ولا ثقة مع تجويز الكذب عليه، فكيف مع وجود الكذب منه، إنما أطلق عليه ذلك لكونه بصورة الكذب عند السامع، وعلى تقديره فلم يصدر ذلك من إبراهيم عليه السلام - يعني إطلاق الكذب على ذلك - إلا في حال شدة الخوف لعلو مقامه، وإلا فالكذب المحض في مثل تلك المقامات يجوز، وقد يجب لتحمل أخف الضررين دفعاً لأعظمهما، وأما تسميته إياها كذبات، فلا يريد أنها تذم، فإن الكذب وإن كان قبيحاً مخلا، لكنه قد يحسن في مواضع، وهذا منها)." (159)
اور شیخ حسن احمد خطیب اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں:
" ومن ذلك اباحتهم الكذب اذا ترتب على الصدق مفسدة عظيمة وقد فصل الحموى فى الاشباه الكلام فى فقال ما خلاصته ان الكذب يجوز فى ثلاثة مواضع فى الاصلاح بين الناس وفى الحرب وعلى الزوجة لا صلاحها ... الخ ويراد بذلك استعمال المعاريض لا الكذب الصريخ ونقل ان الكذب يباح لا حياء حق ... الخ" (160)
واضح رہے کہ اس طرح کی تاویلات کی گنجائش خود امام رازی اور حمید الدین فراہی صاحب کے منقولہ کلام میں بھی موجود ہے لہذا حدیث زیر بحث کو بہراعتبار صحیح ہی قرار دیا جائے گا۔ اس بارے میں صحیحین کی روایات تلقی بالقبول کی وجہ سے صحت اور شہرت کے اس درجہ اور مرتبہ پر پہنچی ہوئی ہیں جنہیں محض اخبار آھاد کہہ کر مردود قرار نہیں دیا جا سکتا، لہذا متقدمین فقہائے سنت حتی کہ مشہور معتزلہ اور متکلمین سے بھی کسی نے فنی طور پر اس پر نہ کوئی اعتراض کیا اور نہ ہی اس پر اشتباہ کا اظہار کیا تھا۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ راوی کو جھوٹا کہنا نبی کو جھوٹا کہنے سے بہتر ہے تو یہ بات بھی نہایت سطحی ہے کیونکہ نبی کو جھوٹا کہنا تو باعث کفر ہے۔محدثین کرام جنہوں نے اس حدیث کی صحت بیان کی ہے وہ نبی کو جھوٹا کس طرح کہہ سکتے ہیں جب کہ ان کا تمام تر انحصار ہی نبوت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی صداقت و حقانیت پر ہوتا ہے۔
محض احتمال کی بنیاد پر یہ سمجھ لینا کہ "راوی سے لفظی تعبیر میں سقم پیدا ہو گیا ہو گا" یا یہ "کسی راوی کے اختلال لفظی کا نتیجہ ہو" یا "کسی نہ کسی مرحلے پر اس کو نقل کرنے میں کسی راوی سے بے احتیاطی ضرور ہوئی ہے" وغیرہ، انتہائی لغو اور بے اصولی کی بات ہے۔ محدثین میں سے آج تک کسی سے بھی ایسی جرح منقول نہیں ہے۔ فن جرح و تعدیل کے اعتبار سے کسی راوی کو مجمل طور پر ضعیف کہہ دینا کافی نہیں ہوتا بلکہ اس کے ضعف کا سبب مفصل، صریح اور غیر مبہم (مفسر) ہونا ضروری ہے۔ عقل بھی اس احتمال کو تسلیم کرنے سے اباء کرتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر اپنے مختلف اصحاب کے سامنے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ان "کذبات" کا تذکرہ کیا ہو، پھر ان سب صحابہ سے جن جن لوگوں نے سنا اور آگے اپنے تلامذہ کو منتقل کیا ہو۔ بیک وقت ان سب کو سننے یا سمجھنے یا نقل کرنے میں سہو یا "بے احتیاطی" یا "تعبیری سقم" یا اختلاط لفظی" لاحق ہوا ہو۔ پس اس قسم کے احتمالات نہ عقلا درست ہیں اور نہ نقلا، بلکہ انہیں بے اصولی اور بے ضابطگی کی زندہ مثال کہا جا سکتا ہے۔
حضرت ابراہیم کے تیسرے کذب کے متعلق جناب مودودی صاحب کا قول ہے کہ اس کا "ذکر قرآن میں نہیں بلکہ بائبل کی کتاب پیدائش میں آتا ہے" گویا جو چیز قرآن میں مذکور نہیں وہ آں محترم کی نگاہ میں معتبر نہیں ہے۔ حالانکہ دین کا ایسا بڑا حصہ قرآن میں مذکور نہیں بلکہ احادیث کے ذریعہ ہی ہم تک پہنچا ہے۔ اگر مودودی صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ جن چیزوں کا تذکرہ قرآن میں نہی اور احادیث کی کتب میں موجود ہے تو وہ چیزیں اصلا بائبل ہی سے منتقل ہو کر کتب احادیث میں جگہ پا گئی ہیں ۔۔۔ ایک انتہائی خطرناک اور مہلک سوچ ہے۔
اگر اس واقعہ کا انکار محض اس بنیاد پر کیا جا سکتا ہے کہ اس کا تذکرہ "قرآن میں نہیں ہے بائبل میں آیا ہے" تو میں پوچھتا ہوں کہ سفر مصر کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت سارہ کی عمروں کے متعلق جو کچھ آں موصوف نے تحریر کیا ہے وہ بھی تو قرآن میں نہیں بلکہ بائبل ہی میں مذکور ہے، پھر یہ چیز کس طرح آپ کے نزدیک لائق حجت ہو گئی ۔۔؟ جب کہ ان کی عمروں کا تذکرہ ذخیرہ احادیث میں کہیں نہیں ملتا، برخلاف اس کے اس واقعہ کا تذکرہ بائبل کے علاوہ کتب احادیث میں بھی پوری شرح و بسط کے ساتھ موجود ہے۔ پس ان واقعات کا کتب احادیث کے علاوہ بائبل میں بھی موجود ہونا اس وقوعہ کو مزید مؤکد کرتا ہے۔
جہاں تک قول: "سند کے قوی اور قابل اعتماد ہونے کے باوجود بہت سے اسباب ہو سکتے ہیں جن کی وجہ سے ایک متن غلط صورت میں نقل ہو جاتا ہے" ۔۔ کا تعلق ہے تو یہ موقع اس موضوع پر بحث کرنے کا نہیں ہے، ان شاءاللہ اس پر تفصیلی گفتگو باب چہارم کے تحت ہو گی۔
محترم مودودی صاحب کا یہ قول بھی درست نہیں ہے کہ "اس طرح کے معاملات میں اگر اختلاف رہ جائے تو آخر مضائقہ کیا ہے؟" یہ بات وہی شخص کہہ سکتا ہے جس کو علم حدیث سے کچھ زیادہ ممارست نہ ہو بلکہ بس ایک واجبی سا ہی تعلق رہا ہو۔ جو لوگ علوم حدیث پر گہری بصیرت رکھتے ہیں وہ اس چیز کو کوئی معمولی بات نہیں سمجھتے کیونکہ یہ صرف ایک حدیث کا ہی انکار نہیں ہے بلکہ اس کا اثر براہ راست ان تمام پر بھی پڑتا ہے جو ان رواۃ سے مروی ہیں۔
جہاں تک جناب حبیب الرحمٰن صدیقی کاندھلوی صاحب کے احتمال کا تعلق ہے تو جاننا چاہئے کہ "ادراج بھی محض دعویٰ یا احتمال کی بنیاد پر ثابت نہیں ہوتا، اس کے اثبات کے لیے کسی ٹھوس دلیل کا موجود ہونا شرط ہے۔ چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: " الادراج لا يثبت بمجرد الدعوى والاحتمال" (161) آں رحمۃ اللہ مزید فرماتے ہیں: " الاصل ما كان فى الخبر فهو منه حتى يقوم دليل على خلافه والاصل عدم الادراج ولا يثبت الا بدليل" (162) (مزید تفصیل کے لیے راقم کی کتاب "ضعیف احادیث کی معرفت اور ان کی شرعی حیثیت" (عنوان اثبات ادراج کے لیے دلیل کا ہونا شرط ہے") کی طرف مراجعت مفید ہو گی۔)
اگر دیکھا جائے تو زیرمطالعہ حدیث میں ادراج کی مندرجہ ذیل علامات میں سے کوئی بھی علامت موجود نہیں ہے:
1۔ کسی دوسری روایت میں اس ادراج کو الفاظ حدیث سے علیحدہ کر کے بیان کیا گیا ہو۔
2۔ بعض باخبر اور ماہر ائمہ حدیث کی اس ادراج پر صراحت موجود ہو۔
3۔ خود راوی کے اعتراف یا تصریح کرنا کہ اس نے اس کلام کو حدیث میں شامل کیا ہے، اور
4۔ مدرج کلام کی نوعیت ایسی ہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زبان مبارک سے اس کا صدور محال ہو۔
پس جناب حبیب الرحمٰن صاحب کا دعویٰ بھی اصولا باطل اور علوم حدیث سے ان کی بےبضاعتی کا مظہر ہے۔
خلاصہ یہ کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی "کذبات ثلاثہ" سے متعلق حدیث قطعا صحیح اور ہر اعتبار سے معقول ہے۔ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ سے قبل صدیوں تک ان روایات پر محدثین، فقہاء اور علماء اصول میں سے کسی کو کوئی اعتراض نہ تھا۔ جن لوگوں نے اس کو آیت كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا کے خلاف سمجھا ہے، انہوں نے خطا کی ہے، بلکہ مفتی محمد شفیع صاحب تو ایسا سمجھنے کو "جہالت" سے تعبیر فرماتے ہیں، چنانچہ لکھتے ہیں:
"حدیث کذبات ابراہیم علیہ السلام کو غلط قرار دینا جہالت ہے: مرزا قادیانیت اور کچھ دوسرے مستشرقین سے مغلوب مسلمانوں نے اس حدیث کو باوجود صحیح السند ہونے کے اس لیے غلط اور باطل کہہ دیا کہ اس سے حضرت خلیل اللہ کو جھوٹا قرار دیا جائے کیونکہ وہ قرآن کے خلاف ہے اور پھر اس سے ایک کلیہ قاعدہ یہ نکال لیا کہ جو حدیث قرآن کے خلاف ہو خواہ وہ کتنی ہی قوی اور صحیح اور معتبر اسانید سے ثابت ہو وہ غلط قرار دی جائے۔ یہ بات اپنی جگہ تو بالکل صحیح اور ساتی امت کے نزدیک بطور فرض محال کے مسلم ہے مگر علماء امت نے تمام ذخیرہ احادیث میں اپنی عمریں صرف کر کے ایک ایک حدیث کو چھان لیا ہے جس حدیث کا ثبوت قوی اور صحیح اسانید سے ہو گیا ان میں ایک ناطل کو کرنا چاہا تو اس کو قرآن سے ٹکرا دیا اور یہ کہہ کر فارغ ہو گئے کہ یہ حدیث خلاف قرآن ہونے کے سبب غیر معتبر ہے جیسا کہ اسی حدیث میں آپ دیکھ چکے ہیں کہ الفاظ کذبات سے توریہ مراد ہونا خود حدیث کے اندر موجود ہے، رہا یہ معاملہ کہ پھر حدیث میں توریہ کو کذبات کے لفظ سے کیوں تعبیر کیا گیا تو اس کی وجہ وہی ہے جو حضرت آدم علیہ السلام کی بھول اور لغزش کو عصی اور غویٰ کے الفاظ سے تعبیر کرنے کی ابھی سورہ طہ میں موسیٰ علیہ السلام کے قصہ میں گزر چکی ہے کہ مقربان بارگاہ حق تعالیٰ کے لیے ادنیٰ کمزوری اور محض رخصت اور جائز پر عمل کر لینا اور عزیمت کو چھوڑ دینا بھی قابل مواخذہ سمجھا جاتا ہے اور ایسی چیزوں پر قرآن میں حق تعالیٰ کا عتاب انبیاء کے بارے میں بکثرت منقول ہے ۔۔ الخ (163)
2۔ تعذیب المیت ببکاء اہلہ
قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:
وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ(164)
یعنی "اور کوئی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا"
لیکن آیت سے بظاہر متعارض حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی ایک مرفوع حدیث میں مروی ہے:
" إن الميت ليعذب ببكاء أهله عليه" (165)
"بےشک میت کو اس کے گھر والوں کے رونے پیٹنے کی بناء پر عذاب دیا جاتا ہے"
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس حدیث کو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے سہو، نسیان اور خطائے فہم پر محمول لیا ہے، چنانچہ فرماتی ہیں:
" يغفر الله لأبي عبد الرحمن ، أما إنه لم يكذب ولكنه نسي أو أخطأ" (166)
یعنی "اللہ تعالیٰ ابوعبدالرحمٰن کو معاف فرمائے، اصل بات یہ ہے کہ انہوں نے جھوٹ نہیں بولا ہے البتہ وہ بھول گئے یا ان سے خطا ہو گئی ہے"
پھر اس حدیث کا پس منظر یوں بیان فرماتی ہیں:
"  أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَى يَهُودِيَّةٍ يُبْكَى عَلَيْهَا ، فَقَالَ : " إِنَّهُمْ يَبْكُونَ ، وَإِنَّهَا تُعَذَّبُ فِي قَبْرِهَا "" (167)
یعنی "ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر یہودیہ کی قبر کے پاس سے ہوا جس کے اہل خانہ اس پر نالہ و شیون بپا کیے ہوئے تھے تو آں صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ لوگ اس پر ماتم کر رہے ہیں حالانکہ وہ اپنی قبر میں مبتلائے عذاب ہے"
بظاہر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس صراحت کے بعد حدیث اور قرآن میں کوئی تعارض باقی نہیں رہتا، لیکن چونکہ یہ حدیث صرف حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ہی نہیں، بلکہ دوسرے کئی صحابہ سے بھی مروی ہے (168) لہذا امام بخاری اس کی یہ توجیہ فرماتے ہیں:
" يعذب الميت ببعض بكاء أهله عليه إذا كان النوح من سنته) لقول الله تعالى: قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا (169) [التحريم: 6]، وقال النبي صلى الله عليه وسلم: ((كلكم راع ومسؤول عن رعيته))  (5) فإذا لم يكن من سنته فهو كما قالت عائشة رضي الله عنها وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى [فاطر: 18] وهو كقوله: وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلَىٰ حِمْلِهَا لَا يُحْمَلْ مِنْهُ (170) شَيْءٌ"   (171)
یعنی "میت کو گھر والوں کے ماتم کی بناء پر عذاب اس وقت ہو گا جب نوحہ و ماتم خود اس کا طریق کار رہا ہو، کیونکہ قرآن کریم میں ارشاد الہیٰ ہے: اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔ اسی طرح ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: تم میں سے ہر ایک راعی اور نگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں باز پرس ہو گی۔ پس اگر اس کی زندگی میں نوحہ اس کا طرز عمل نہ تھا تو اس شکل میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول کے مطابق آیت وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ کا اس پر اطلاق ہو گا اور دوسری آیت میں ہے: اگر گناہوں سے بوجھل کوئی شخص اپنے گناہوں کا بوجھ اٹھانے کے لیے کسی دوسرے شخص کو بلائے گا تو اس کا بوجھ اٹھایا جائے گا"
جمہور اہل علم نے اسی توجیہ کو اختیار کیا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں اس قسم کے طرز عمل سے بیزاری کا اظہار نہیں کرتا تھا بلکہ خود اسے اختیار کرتا تھا یا مرتے وقت اس نے اپنے اہل خانہ کو سینہ کوبی اور نوحہ کی وصیت کی تھی تو وہ حدیث مذکورہ بالا کے مطابق عذاب کا مستحق ہو گا، چنانچہ عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں:
"اگر مرنے والا شخص ان کو اپنی زندگی میں نوحہ سے منع کرتا تھا لیکن پھر بھی لوگ اس کے مرنے کے بعد ایسا کریں تو اس پر اس کا عذاب (عقاب) نہ ہو گا" (172)
واضح رہے کہ دور جاہلیت میں اس قسم کی وصیت کا رواج عام تھا۔ محمد بن جریر الطبری وغیرہ بیان کرتے ہیں کہ:
"حدیث میں " يعذب" سے مراد یہ ہے کہ مردہ جب اپنے اہل خانہ کو روتے اور سینہ کوبی کرتے ہوئے سنتا ہے تو اس کو تکلیف ہوتی ہے اور وہ اس سے غمگین و ملول ہوتا ہے۔ یہ عالم برزخ کی کیفیت ہے، یوم قیامت کی نہیں ہے"
امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے اس رائے کو پسند کیا ہے چنانچہ فرماتے ہیں:
"اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ اللہ عزوجل زندوں کی آہ و بکا سے اس پر وقاب کرتا ہے۔ عذاب عقاب سے زیادہ عام لفظ ہے جیسا کہ السفر قطعة من العذاب (یعنی سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے) سے ظاہر ہے اور یہ عقاب اس کے گناہ پر نہیں بلکہ یہ تعذیب و تالم کی کیفیت ہے" (174)
اور امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے اس تعارض کو رفع کرنے کے لیے یہ نکتہ بیان کیا ہے کہ آیت وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ کا تعلق قیامت کے دن سے ہے جب کہ حدیث میں مذکور عذاب کا تعلق برزخی زندگی سے ہے جو ایک گونہ دنیاوی احوال کے مشابہ ہے"
(3) اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے: حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ (175) یعنی "تم پر مردار اور خون حرام قرار دیا گیا ہے" یہاں " الْمَيْتَةُ" ہر نوع کے مردار پر عام ہے لیکن بعض مرفوع و موقوف احادیث میں مردہ مچھلی اور ٹڈی نیز خون بہ شکل جگر و کلیجی کو استثاء حلال قرار دیا گیا ہے جو کہ بظاہر بخلاف قرآن ہے لیکن دراصل اس استثناء اور عموم قرآن میں کوئی تعارض نہیں ہے، جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے۔
(4) اللہ تعالیٰ قرآن میں ارشاد فرماتا ہے: تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ (176)
یعنی "یہ حضرات مرسلین ایسے ہیں کہ ہم نے ان میں سے بعضوں کو بعضوں پر فوقیت بخشی ہے" جب کہ "صحیح البخاری" کی ایک حدیث میں وارد ہوا ہے: " لاَ تُفَضِّلُوا بَيْنَ أَنْبِيَاءِ اللَّهِ" یعنی "اللہ تعالیٰ کے نبیوں میں ایک کو دوسرے پر فضیلت نہ دو' بظاہر یہ حدیث مذکورہ آیت کے خلاف ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ جس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نبیوں میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دینے سے منع فرمایا ہے وہ یہ تھا کہ ایک یہودی اور ایک مسلمان میں کسی بات پر جھگڑا ہو گیا۔ یہودی نے کہا: " والذي اصطفى محمدا على العالمين" غصہ نے جب بڑھ کر زد و کوب کی صورت اختیار کی تو اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: " لاَ تُفَضِّلُوا بَيْنَ أَنْبِيَاءِ اللَّهِ" آں صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا مطلب تھا کہ بحیثیت نفس رسالت تمام انبیاء برابر ہیں اور یہی لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِهِ (177) کا مفہوم بھی ہے۔ فضیلت دینے میں کسی ایک نبی کی کم ہے لیکن کوئی شخص محض اپنے قیاس سے یہ نہیں بتا سکتا کہ فلاں نبی کو فلاں نبی پر فضیلت حاصل ہے، بالخصوص اس طرح کہ فلاں فلاں بات میں یا ہر طرح اور ہر بات میں۔ چنانچہ جب یہ معلوم ہو گیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں کسی نبی کی کم قدری اور اس بارے میں قیاس آرائی کرنے سے منع فرمایا تھا، تو حدیث و قرآن کے مابین ظاہری تعارض رفع ہو گیا۔
اگر کوئی پھر بھی حدیث اور قرآن کے ان یا ان جیسے دوسرے تعارضات کو پیش کرے اور اس بارے میں کسی قسم کی تاویلات قبول کرنے پر تیار نہ ہو تو ہم جوابا اس کے سامنے قرآن کی آیات کے مابین تعارضات کو پیش کریں گے۔ جب قرآن کی آیات کے مابین تعارضات کو حل کرنے کے لیے تاویلات پیش کی جا سکتی ہیں تو آخر احادیث کے تعارض کو حل کرنے کے لیے تاویلات کا سہارا کیوں ممنوع ہے؟
منہال بن عمرو الاسدی نے سعید بن جبیر سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے حضرت ابن عباس سے کہا کہ:
"مجھے قرآن میں کچھ چیزیں ایسی نظر آتی ہیں جو میرے لیے ایک دوسرے کے خلاف ہیں مثلا فَلَا أَنسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَلَا يَتَسَاءَلُونَ (178) یعنی "پس ان میں جو باہمی رشتے ناتے تھے اس روز نہ رہیں گے اور نہ کوئی کسی کو پوچھے گا" جب کہ وَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ يَتَسَاءَلُونَ (179) یعنی "اور وہ ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر سوال جواب کرنے لگیں گے"اسی طرح وَلَا يَكْتُمُونَ اللَّـهَ حَدِيثًا (180) یعنی "اور اللہ تعالیٰ سے کسی بات کا اخفاء نہ کر سکیں گے" جب کہ ایک دوسری آیت میں ہے کہ وَاللَّـهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِينَ (181) یعنی "قسم اللہ کی اے ہمارے رب ہم شرک نہ تھے" (اس آیت میں مشرکین کے کتمان کا تذکرہ ہے) اور أَمِ السَّمَاءُ ۚ بَنَاهَا﴿٢٧﴾ رَفَعَ سَمْكَهَا فَسَوَّاهَا ﴿٢٨﴾ وَأَغْطَشَ لَيْلَهَا وَأَخْرَجَ ضُحَاهَا ﴿٢٩﴾ وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَٰلِكَ دَحَاهَا ﴿٣٠﴾ (182) یعنی "(بھلا تمہیں دوسری بات پیدا کرنا زیادہ سخت ہے) یا آسمان کا کہ جس کو اللہ نے بنایا، اس کی سقف کو بلند کیا اور اس کو درست بنایا اور اس کی رات کو تاریک بنایا اور اس کے دن کو ظاہر کیا اور اس کے بعد زمین کو بچھایا" اس آیت میں آسمان کو زمین سے قبل پیدا فرمانے کا ذکر ہے جب کہ قُلْ أَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِي خَلَقَ الْأَرْضَ فِي يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَندَادًا ۚذَٰلِكَ رَبُّ الْعَالَمِينَ ﴿٩﴾ وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِن فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِّلسَّائِلِينَ ﴿١٠﴾ ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ ﴿١١﴾ (183) یعنی "آپ فرمائیے کیا تم لوگ ایسے اللہ کا انکار کرتے ہو جس نے زمین کو دو روز میں پیدا کیا، اور تم اس کے شریک ٹھہراتے ہو، یہی سارے جہانوں کا رب ہے اور اس نے زمین میں اس کے اوپر پہاڑ بنا دئیے اور اس میں فائدہ کی چیزیں رکھ دیں اور اس میں اس کی گذائیں تجویز کر دیں چار دن میں پورے ہیں، پوچھنے والوں کے لیے۔ پھر آسمان کی طرف توجہ فرمائی اور وہ دھواں سا تھا سو اس سے اور زمین سے کہا کہ تم دونوں خوشی سے آؤ یا زبردستی سے دونون نے کہا ہم خوشی سے حاضر ہیں" اس آیت میں زمین کو آسمان سے قبل پیدا فرمانے کا تذکرہ ہے۔ بظاہر ان تینوں آیات میں ان کے ساتھ لکھی جانے والی آیات کے ساتھ تعارض ہے۔ لیکن ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان کی یہ توجیہ فرمائی ہے کہ فَلَا أَنسَابَ بَيْنَهُمْ  والی آیت نفخہ اولی کے بارے میں ہے جب کہ آیت وَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ دوسرے نفخ کے بعد کی کیفیت بیان کرتی ہے اور مشرکین قیامت کے ابتدائی مرحلہ میں وَاللَّـهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِينَ ہی کہیں گے۔ لیکن جب ان کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور ان کے اعضاء گواہی دینے لگیں گے تو اس حالت کے لیے وَلَا يَكْتُمُونَ اللَّـهَ حَدِيثًا بیان کیا گیا ہے۔اسی طرح دو دنوں میں زمین کو پیدا فرمایا پھر آسمان کو تخلیق فرمایا اور پھر آسمان پر مستوی ہوا پھر آخری دو دنوں میں زمین کو بچھایا اور اس کو بچھا کر اس میں سے پانی وغیرہ کو نکالا اور جبال و جمال اور جو کچھ ان کے مابین ہے ان سب کو انہی آخری دو دنوں میں پیدا فرمایا ۔۔۔ الخ" (184)
ان چند مثالوں سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ کوئی بھی صحیح السند حدیث قرآن کے خلاف نہیں ہو سکتی۔ اگر کہیں قرآن آیات اور حدیث کے درمیان بظاہر تعارض محسوس بھی ہوتا ہے تو معمولی غوروفکر سے اس کو رفع کیا جا سکتا ہے، بالکل اسی طرح کہ قرآنی آیات کے باہمی تعارض و اختلاف کو بہ آسانی دور کیا جا سکتا ہے۔
واضح رہے کہ اوپر بیان کی گئی تیسری اور چوتھی اقسام کی احادیث جناب خالد مسعود صاحب کی تقسیم کے اعتبار سے حدیث کی چوتھی اور پانچویں قسمیں ہیں جن کے متعلق آنجناب فرماتے ہیں کہ یہ "آخری دونوں قسمیں فرضی ہیں جن کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں کیونکہ ان سے قرآن کا جلی یا خفی نسخ لازم آتا ہے" یہاں ہم آں موصوف سے یہ پوچھیں گے کہ ان دونوں اقسام کی احادیث کے "فرضی" اور در حقیقت ان کے عدم وجود پر آں محترم کے مطلع ہونے کا ذریعہ کیا ہے؟ پھر آں جناب کے پاس ایسا کون سا پیمانہ ہے جس سے ناپ کر یقینی طور پر یہ علم ہو سکے کہ کتاب اللہ سے زائد احکام والی فلاں احادیث کا قرآن متحمل ہے اور فلاں کا نہیں؟ نیز یہ کہ جناب منجانب اللہ واضح طور پر اطاعت الہیٰ کے ساتھ مکمل اطاعت رسول کا حکم بھی دیا گیا ہے، خواہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ حکم کتاب اللہ میں صراحۃ مذکور ہو یا نہ ہو، تو ان احادیث کے متعلق اطاعت رسول سے انکار آخر کس بنیاد پر ہے؟ جب یہ بات بھی ہر خاص و عام کے علم میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے شارح و مبین تھے تو جس آیت کے جو معنی بھی آں صلی اللہ علیہ وسلم بیان فرمائیں اسے بلا رد و قدح اور بلا چوں و چرا قبول کر لینے میں یہ اعتراض کیسا کہ جو حکم قرآن سے زائد یا بظایر خلاف نظر آئے وہ فرضی ہے یا در حقیقت اس کا کوئی وجود ہی نہیں ہے؟ ایک مزید سوال یہ بھی ہے کہ جب ایک مومن سے دین و ایمان کا تقاضہ یہ ہے کہ جس چیز کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیں اسے لے لے اور جس چیز سے منع فرمائیں اس سے باز آ جائے اور جس معاملہ میں آپ کوئی فیصلہ فرما دیں اسے بخوشی قبول کرنے میں کسی قسم کا پس و پیش نہ کر لے تو پھر ان اضافی احکام پر مبنی یا بظاہر خلاف قرآن احادیث سے انکار کرنے کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے؟ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ آیا صحیح احادیث نبوی سے قرآن کا نسخ ہو سکتا ہے یا نہیں تو اس کا تفصیلی جواب ان شاءاللہ آگے مناسب مقام پر پیش کیا جائے گا۔
خلاصہ کلام یہ کہ بعض احادیث اپنے مضمون کے اعتبار سے بعض اوقات قرآن کے ظاہر مفہوم کے خلاف نظر آتی ہیں لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ صرف قرآن سے موافقت رکھنے والی احادیث کو ہی قبول کیا جائے اور باقی کو رد کر دیا جائے کیونکہ یہ خیال امت کے متفقہ تعامل، جسے قرآن نے سبیل المومنین بتایا ہے، سے یکسر انحراف ہو گا جس پر عذاب جہنم کی وعیدشدید بیان کی گئی ہے۔
اگر صرف قرآن سے موافقت رکھنے والی احادیث کو ہی قبول کیا تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس تکلف کی ضرورت ہی کیا ہے؟ کیونکہ جب قرآن میں ان احادیث کے ہم معنی احکام موجود ہیں تو پھر ان احادیث کو قبول کرنے یا نہ کرنے سے اصلا کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن اگر قرآن کی شرح بیان کرنے والی یا قرآن سے زائد حکم بیان کرنے والی یا بظاہر مخالف قرآن احادیث کو نظر انداز کر دیا جائے تو امت کے لیے قرآن کے صحیح مفہوم کو سمجھنا محال ہو کر رہ جائے گا، جو یقینا ایک بڑا دینی خسارہ ہو گا۔
علامہ ابن حزم اندلسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"اگر بظاہر (اس لیے کہ حقیقی تعارض تو ممکن نہیں) دو آیتیں یا دو صحیح حدیثیں یا ایک آیت اور ایک حدیث باہم متعارض معلوم ہوں تو دونوں پر عمل کرنا واجب ہے اس لیے کہ دونوں اطاعت کے اعتبار سے مساوی الدرجہ ہیں۔ لہذا جب تک ممکن ہو دوسری کی خاطر ایک کو نظر انداز کرنا روا نہیں ہے اور اس پر عمل کرنے کی صرف ایک ہی صورت ممکن ہے کہ قلیل المعانی آیت یا حدیث کو کثیر المعانی آیت و حدیث سے مستثنیٰ قرار دیا جائے گا۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو جو آیت یا حدیث کسی زائد حکم پر مشتمل ہو اس پر عمل کیا جائے۔ اس کی وجہ یہ کہ اس کا وجوب مبنی بر یقین ہے اور یقین کو ظن کی بنا پر ترک نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی وضاحت و صراحت کر دی ہے، لہذا اس میں کسی پیچیدگی کا احتمال نہیں ہے۔ قرآن کریم میں فرمایا: الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ (185) آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کر دیا نیز فرمایا تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ (186) اس میں ہر چیز کی وضاحت موجود ہے" (187)
حوالہ جات
(130) سورۃ المریم 41 (131) صحیح البخاری مع فتح الباری ج 6 ص 288 (132) کتاب پیدائش باب 12 (133) تفسیر الکبیر للرازی ج 6 ص 113 (134) نفس مصدر ج 7 ص 145 (135) رسالہ "تدبر" لاہور عدد 37 ص 34 مجریہ ماہ نومبر 1991ء (136) قصص القرآن للسیوھاروی ج1 ص 199، 208 طبع چہارم (137) حسن البیان لعبد العزیز رحیم آبادی ص 132، 134 (138) تفہیم القرآن لمودودی ج3 ص 167، رسائل و مسائل ج2 ص 35،38 (139) نفس مصدر ج3 ص 61، 62 (140) مذہبی داستانیں اور ان کی حقیقت للکاندھلوی ج2 ص 426 (141) ج6 ص 388 ج9 ص 126 (142) کتاب الفضائل باب 154 (143) مع تحفۃ الاحوذی ج4 ص 148 (144) مع عون المعبود ج2 ص 233 (145) ج2 ص 403 (146) لابن الاثیر ج4 ص 12،13 (147) المفردات لراغب الاصفہانی ص 102 (148) الہانیۃ لابن الاثیر ج4 ص 13 (149) صحیح المسلم ج2 ص 83 (150) مفتاح دارالسعادۃ و منشور العلم والارادۃ لابن قیم ج2 ص 39 (151) الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح للشیخ الاسلام ج 4، 288 ملخصا (152) کما فی تحفۃ الاحوذی للمبارکفوری ج3 ص 127 (153) ھدبہ مجیدیہ ترجمہ تحفۃ اثناء عشریہ لشاہ عبدالعزیز، مترجم عبدالمجید خاں، باب دوم ص 167 طبع میر محمد کراچی (154) معارف القرآن للمفتی محمد شفیع ج6 ص 185، 186 (155) نفس مصدر ج6 ص 187، 188 (156) جامع الترمذی مع تحفۃ الاحوذی ج3 ص 128، سنن ابی داؤد مع عون المعبود ج4 ص 433 (158) کما فی تحفۃ الاھوذی للمبارکفوری ج3 ص 127 (159) فتح الباری لابن حجر ج6 ص 392 (160) الفقہ الاسلام للشیخ حسن احمد ص 230 (161) فتح الباری ج2 ص 91 ج3 ص 96 ج5 ص 38، 199 ج 11 ص90، 486 (162) نفس مصدر ج2 ص 83، 196 ج4 ص 437 ج7، 311 (163) معارف القرآن للمفتی محمد شفیع ج6 ص 188 (164) الانعام 164، الاسراء 15، فاطر 18، الزمر 7 (165) صحیح البخاری مع فتح الباری ج3 ص 151 (166) صحیح مسلم مع شرح النووی ج6 ص 234 (167) صحیح البخاری مع فتح الباری ج3 ص 152 (168) سبل السلام ج2 ص 153 (169) التحریم 6 (170) فاطر 18 (171) صحیح البخاری مع فتح الباری ج3 ص 150 (172) کما فی عمدۃ القاری ج4 ص 79 (173) کما فی جواہر الادب للہاشمی ج2 ص 435 (174) مجموعۃ الرسائل المنیریہ ج2 ص 209 والتہذیب لابن قیم ج4 ص 290،293 (175) المائدۃ: 3 (176) البقرۃ: 253 (177) البقرۃ: 258 (178) المؤمنون: 101 (179) الصافات 27، 50، الطور: 25 (180) النساء: 42 (181) الانعام: 23 (182) النازعات 27،30 (183) فصلت: 9،11 (184) صحیح البخاری مع فتح الباری ج8 ص 555،556 ملخصا (185) المائدۃ: 3 (186) النحل: 89 (187) المحلی لابن حزم مترجم غلام احمد حریری ج1 ص 95،96