اجتماعی ملکیت کے اُصول و قواعد

اجتماعی ملکیت
اجتماعی ملکیت سے مراد یہ ہے کہ "مملوکہ سے حق انتفاع صرف ایک فرد کو نہیں بلکہ تمام افراد اُمت کے لئے یہ حق انتفاع موجود ہے جس میں کوئی بھی ترجیح کا حق دار نہ ہے۔
جب کسی چیز سے امت کے اجتماعی مفادات وابستہ ہوں تو اسے کسی ایک فرد کی ملکیت میں نہیں دیا جا سکتا کہ بڑی بڑی نہریں، دریا، سڑکیں، پل اور آبادی کے اردگرد چراگاہیں اور بڑے بڑے پارک، فوجی ٹریننگ سنٹر وغیرہ ۔۔ امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
" الفرات ودجلة لجميع المسلمين فهم فيهما شركاء" (1)
"فرات اور دجلہ تمام مسلمانوں کے لیے ہیں اور سب ان میں برابر کے حصہ دار ہیں"
ہاں اگر اجتماعی مفاد ختم ہو جائے تو حاکم وقت اُمت کے مفاد میں جو مناسب ہو، تصرف کر سکتا ہے مثلا ایک شارعِ عام تھی پھر دوسری شارعِ عام کے وجود سے اس کا مفاد ختم ہو گیا اور اب لوگ اسے استعمال نہیں کر رہے تو حاکم وقت اسے نیلام کر سکتا ہے اور وہ اس طرح انفرادی ملکیت کی طرف بھی منتقل ہو سکتی ہے۔ (2)
اس ضمن میں محمد قدری رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے:
" الأراضي الأميرية التي يبيعها ولي الأمر بمسوغ بيعها ويملك رقبتها للمشترين متى تحققت المصلحة في بيعها تكون مملوكة رقبة ومنفعة لمشتريها" (3)
"وہ حکومتی زمینیں جنہیں حاکم وقت نیلام کر دے تو وہ خریداروں کی ملکیت بن جائے گی جب ان کے نیلام میں مصلحت ہے تو وہ اصل منفعت خریدار کی ہو گی"
اسی طرح مفادِ امت کے تحت اگر انفرادی ملکیت کو اجتماعی ملکیت میں لیا جانا ضروری ہو جائے تو فرد سے عوضا یا بلا عوض لی جا سکتی ہے۔ اور مفادِ عامہ کے لیے استعمال ہو گی کیونکہ اصول ہے:
" مصلحة الامة مقدم على مصلحة الفرد"
"ملی مفاد انفرادی مفاد پر مقدم ہے"
حکومت کا بجٹ و میزانیہ چونکہ صدقات و زکوٰۃ، ٹیکس (Tax) اور حکومتی ملکیت سے وصولی پر مبنی ہوتا ہے لہذا مندرجہ ذیل وسائل پیداوار حکومت کی ملکیت ہوں گے۔
(1) ارض الفيئ (فئی کی زمین)
وہ علاقہ جو بغیر جنگ کے صلح کے ساتھ مسلمانوں کے زیر سایہ آئے اور شرائط صلح میں یہ طے ہو کہ ان زمینوں کی ملکیت مسلمانوں کے زیر سایہ آئے اور شرائط صلح میں یہ طے ہو کہ ان زمینوں کی ملکیت مسلمانوں کی ہو گی۔ سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ نے فئی کی تعریف کچھ یوں کی ہے:
" انه عام لكل ما وقع من صلح بين الامام ولكفار فى اعناقهم وزرعهم وارضهم وفيما صلحوا عليه مما لم ياخذه المسلمون عنوة" (4)
"فئی ان تمام امور کو شامل ہے جو امام و کفار کے درمیان طے پائیں ۔۔ چاہے ان امور کا تعلق ان کی اپنی ذات سے ہو یا زراعت/زمین وغیرہ سے اور جس پر بھی صلح ہو بشرطیکہ مسلمانوں نے اُسے جنگ سے فتح نہ کیا ہو"
امام ابوعبید قاسم بن سلام رحمۃ اللہ علیہ نے فئی کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:
" هو ما اجتبى من اموال اهل الذمة مما صولحوا عليه من جزية رؤسهم التى حقنت دماؤهم وحرمت اموالهم ومنه خراج الارضين التى افتتحت عنوة اقرا الامام فى ايدى اهل الذمة على طرق يؤدونه ومنه وظيفة ارض الصلح التى منعها اهلها حتى صولحوا على خراج مسمي ومنه ما يؤخذ من اهل الحرب اذا دخلوا بلاد الاسلام للتجارات ۔۔۔ فكل هذا من الفيئ" (5)
"جو مال اہل الذمہ سے طریق صلح پر حاصل ہو خواہ وہ جزیہ ہو جس کی بدولت ان کی جان و مال کو تحفظ ملا اور اسی قبیل سے اس زمین سے حاصل شدہ خراج بھی ہے جو جنگ کے نتیجہ میں فتح ہو ہوئیں لیکن امام وقت نے اسے ایک مقررہ رقم کے عوض ان کے سپرد کر دیا اور اسی قبیل سے ارض صلح سے حاصل شدہ خراج بھی ہے جس پر ایک مقررہ رقم کے عوض صلح ہو اسی طرح جو بھی اہل حرب سے لیا جائے جب وہ بغرض تجارت دارُالسلام میں داخل ہوں ۔۔ یہ سب کی سب فئی کی اقسام و انواع ہیں"
ان مذکورہ تعریفوں سے یہ بات واضح ہوئی کہ ہر وہ زمین جو کفار سے حاصل ہو خواہ ان کی جلاوطنی کی صورت میں یا اس شرط پر صلح ہو کہ زمین کی ملکیت مسلمانوں کی ہو گی خواہ نتیجہ جنگ کے طور پر مسلمانوں کے زیرسایہ آئی لیکن حاکم وقت نے مجاہدین کے درمیان تقسیم کرنے کی بجائے مفادِ عامہ کے لیے روک رکھی۔ یہ تو سب کی سب حکومت کی ملکیت ہو گئی جیسا کہ خود آنحضرت نے فدک، وادی القریٰ اور خیبر کا نصف حکومت کے لیے رکھا۔ (6)
(2) وہ اراضی جو جہاد و قتال سے حاصل ہوں
ایسی اراضی کی ملکیت میں فقہ اسلامی میں دو آراء نظر آتی ہیں:
(ا) امام وقت کو اختیار ہے کہ امت مسلمہ کے مفاد میں جو اولیٰ و افضل ہے اُسے اختیار کرے،
اگر مناسب ہو تو غنیمت کی طرح خمس نکال کر باقی مال مجاہدین غانمين میں تقسیم کر دے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح خیبر کے موقع پر زمین اولا غانمين میں تقسیم کر دی بعد ازاں یہودِ خیبر سے منا صفت (پیداوار میں سے نصف نصف) کا معامدہ کر لیا، اسی وجہ سے جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہودِ خیبر کو جلاوطن کر دیا تو خیبر میں جن کا حصہ تھا، انہیں طلب کر کے ان کے سپرد کر دیا۔ (7)
اور اگر مناسب خیال کرے تو اجتماعی ملکیت قرار دے دے جیسا کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے ایک طویل بحث و مباحثہ اور ایک کمیٹی قائم کرنے کے بعد ارضِ سواد کو اجتماعی ملکیت قرار دیا (8)
(ب) دوسری رائے یہ ہے کہ زمین بھی بقیہ اموال کی طرح غنیمت ہے اور امام وقت کا فریضہ ہے کہ خمس 5/1 کے بعد باقی زمین مجاہدین و غانمین میں تقسیم کر دے۔ ہاں اگر بیتُ المال کو اس کی ضرورت ہو تو پھر ان مالکوں سے عوضا یا بلا عوض واپس لی جا سکتی ہے۔ اگر واپس لے لے تو اجتماعی ملکیت قرار پائے گی وگرنہ جس کو مل گئی اس کی انفرادی ملکیت ہے۔
جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے هوازن کے قیدیوں کے متعلق ارشاد فرمایا کہ جو بخوشی واپس کر دے وہ واپس کر دے اور جو بخوشی واپس نہ کرے وہ بھی یہ قیدی واپس کر دے اور اب جو پہلے قیدی حاصل ہوں گے ان سے اس شخص کو یہ بھی ادا کر دیا جائے گا (9)
حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے بھی متعدد روایات سے ثابت ہے کہ انہوں نے سواد (عراق) کا علاقہ غامین میں تقسیم کر دیا تھا جیسا کہ ابن مغرب کا قول ہے:
" ان عمر قسم السواد بين اهل الكوفة ما صاب كل رجل منهم ثلاثة فلاحين" (10)
"حضرت عمر نے سواد جگہ کو اہل کوفہ کے درمیان تقسیم کر دیا اور ہر شخص کے حصہ میں تین ہاری آئے"
اسی طرح فتح عراق کے لشکر میں بجيلة قبیلہ کی تعداد چوتھائی (4/1) تھی تو ان کو چوتھائی سواد دیا گیا اور یہ تین سال تک کاشتکاری کرتے رہے (11)
جریر بن عبداللہ کا بیان ہے کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے مجھے طلب کر کے میرے سواد کے حصہ کی زمین کی قیمت اسی سے اوپر دینار دیے (12)
اسی طرح ایک خاتون کو اس کے والد کے حصہ کا معاوضہ ادا کیا گیا (13)
امام ابن حزم نے ایک تفصیلی مناقشہ کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے سواد کو تقسیم کر دیا تھا بعد میں کسی نے اپنا حصہ بلا معاوضہ واپس کر دیا اور کسی نے قیمتا واپس کر دیا۔
" ان اصح ما جاء عن عمر فى ذلك انه لم يوقف حتى استطاب نفوس الغانمين وورثة من مات منهم وهذا الذى لا يجوز ان يظن بعمر غيره" (14)
"اصح ترین جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے وہ یہ ہے کہ آپ نے سواد اس وقت تک وقف قرار نہیں دیا تاآنکہ غانمین اور متوفین کے ورثہ نے دِلی طور پر قبول نہ کر لیا۔ اس کے علاوہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق کچھ نہیں سوچا جا سکتا۔"
امام نووی کی بھی یہی رائے ہے کہ
" الصحيح المنصوص ان عمر بن الخطاب فتح سواد عنوة وقسمة بين الغانمين ثم استطاب قلوبهم واسترده" (15)
"حضرت عمر بن الخطاب سے صحیح منقول یہی ہے کہ انہوں نے سواد (عراق) کو عنوتا فتح کیا اور غانمین میں تقسیم کر دیا بعد ازاں انہیں راضی کر کے واپس لے لیا"
مذکورہ بالا دلائل و مناقشہ سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ جب حضرت عمر بن الخطاب نے مختلف محکمے قائم کیے اور تنخواہ دار فوج تشکیل دی، ڈاک کا نظام متعارف کرایا تو ان جملہ مؤظفین کی تنخواہ اور دیگر اخراجات کے لئے بیت المال کے پیداواری وسائل میں اضافہ ناگزیر تھا، لہذا ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وقف کی اسکیم متعارف کرائی اور فرمایا کہ جو چاہے بخوشی اپنا حصہ وقف کر دے اور جو وقف نہ کرنا چاہے وہ قیمتا بیت المال کے سپرد کر دے کیونکہ اجتماعی مفاد انفرادی مفاد پر مقدم ہے تو یوں پورا سواد (عراق) کا علاقہ اجتماعی ملکیت قرار پایا۔ اور اس کی جملہ آمدن بیت المال میں جمع ہونا شروع ہو گئی۔
(3) انفرادی ملکیت کو اجتماعی مفاد کے لیے خریدنا
بیع و شراء ایک فرد سے دوسرے کی طرف منتقل ملکیت کا ایک بہت ہی معروف طریقہ کار ہے۔ تو اگر کبھی مصلحتِ عامہ کا تقاضا ہو تو افراد سے ان کی ملکیت حکومت وقت خرید سکتی ہے اور یوں یہ انفرادی ملکیت سے اجتماعی ملکیت کی طرف منتقل ہو جائے گی۔ فرد کو یہ حق نہیں کہ وہ بیع سے انکار کرے حسب قاعدہ کہ "اجتماعی مفاد انفرادی مفاد پر مقدم ہے"۔
اسی اصول کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب اہل الذمہ کو جزیرۃ العرب سے جلاوطن کرنے کا فیصلہ کیا تو اُن سے اُن کی مملوکہ اراضی خرید لیں اور اُنہیں اِن کی قیمت ادا کر دی۔ جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہودِ فدک کا حصہ ساٹھ ہزار درہم (60000) میں خریدا اور وادی القریٰ کے یہود سے ان کا حصہ نوے ہزار دینار (90000) میں خریدا (16) اور یہ علاقہ جات اجتماعی ملکیت قرار پائے۔ اور ایسے ہی اہل نجران سے ان کو جلا وطن کرتے ہوئے ان کے اموال خرید لیے۔ (17)
ایسے ہی حرم مکی و مدنی کی توسیع کی غرض سے قرب و جوار کے مکانات حضرت عمر رضی اللہ عنہ و عثمان رضی اللہ عنہ نے خرید کیے۔ (18) تو یوں حرمین کی جب بھی توسیع کی ضرورت سامنے آئی حکومتِ وقت نے قرب و جوار کے مکانات خریدے اور یہ علاقہ حرم کا حصہ قرار پایا اور انفرادی ملکیت سے اجتماعی ملکیت میں ضم ہو گئے جس پر آج تک پوری امت کا اجماع ہے۔
(4) حکومتِ وقت کی غیر آباد زمینوں کی آبادکاری سے ممانعت
اگر حکومت وقت غیر آباد علاقوں کی آباد کاری سے روک دے اور یہ حکم صادر کر دے کہ کوئی بھی فرد حکومتی اجازت کے بغیر کوئی غیر مملوکہ وغیر آباد زمین کو آباد نہیں کر سکتا تو حکومت وقت کو یہ حق حاصل ہے بلکہ دورِ حاضر کے لیے تو بہت ہی مناسب ہے تاکہ آبادکاری بذاتِ خود جنگ و قتال کا سبب نہ بن جائے جیسا کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں آبادکاری کے لیے حاکم وقت کی اجازت لازمی شرط ہے۔ (19) اور کئی ایک ممالک نے ایسی قراردادیں پارلیمنٹ سے پاس کرا رکھی ہیں کہ کوئی فرد حکومتِ وقت کی اجازت کے بغیر آباد کاری کا حق نہیں رکھتا۔ مصری قانون میں آرٹیکل 874 یوں ہے:
" الأراضي غير المزروعة التي لا مالك لها تكون ملكا للدولة ولا يجوز تملك هذه الأراضي أو وضع اليد عليها إلا بترخيص من الدولة" (20)
"ایسی غیرآباد زمینیں جن کا کوئی مالک نہیں ہے حکومت کی ملکیت ہیں اور کسی فرد کو اجازت نہیں کہ ان زمینوں کا مالک ہو یا ان پر قبضہ کرے تاوقتیکہ حکومت سے اجازت حاصل کر لے۔"
ایسے امور میں حکومتِ وقت کی خلاف ورزی صحیح نہیں بلکہ قانون کی پاسداری کرنی چاہئے۔
(5) وَقف
افرادِ امت اجتماعی مفاد میں اپنی مملوکہ وقف کر سکتے ہیں بلکہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ:
" لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ" (21)
"نیکی کے حصول کے لیے محبوب ترین مال خرچ کرنا ہو گا۔"
تو کئی ایک صحابہ نے اپنی محبوب ترین اراضی وقف کر دیں۔ اور خود ملکیت سے دست بردار ہو گئے۔ جیسا کہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے بيرحاء (باغ) کر دیا (22) بنو نجار نے مسجد نبوی کے لیے زمین وقف کر دی (23) اور حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اپنا خیبر کا حصہ وقف کر دیا۔ (24)
(6) لاوارث کی ملکیت
لاوارث کی جائیداد بھی اجتماعی ملکیت قرار پائے گی جیسا کہ تمام فقہاء اس پر متفق ہیں کہ اگر زوجین میں ایک فوت ہو جائے اور ان کا کوئی وارث نہ ہو اور ان کی آپس میں کوئی اور رشتہ داری بھی نہ ہو تو زندہ کو اس کا حصہ دے کر باقی بیتُ المال میں جمع ہو جائے گا (25)
عہدِ رسالت و دورِ صحابہ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کوئی شخص لاوارث فوت ہوا ہو۔ امام ابن تیمیہ کا قول ہے:
" ما كان يموت فى عهده ميت الا وله وارث معين لظهور الانساب فى الصحابة" (26)
"عہد رسالت میں ہر میت کا کوئی نہ کوئی وارث ضرور ہوتا تھا کیونکہ صحابہ کے دور میں اَنساب معروف تھے"
یہ مذکورہ چھ اصول قواعد ہیں جن سے اجتماعی ملکیت حاصل ہو سکتی ہے اور امت مسلمہ کے تمام افراد اس سے حق انتفاع رکھتے ہیں، ان کے جملہ فوائد تمام افراد کی مصالح میں خرچ ہوں گے۔
حوالہ جات
(1) کتاب الخراج از قاضی ابو یوسف، ص 97،98
(2) المدخل الی نظریۃ الالتزام لمصطفیٰ الزرقا، ص 266
(3) مرشد الحیوان لمعرفۃ احوال الانسان از محمد قدری، شق نمبر 7
(4) المنصف لعبدالرزاق الصنعانی، ص 310 ج 2
(5) کتاب الاموال از ابوعبید قاسم بن سلام ص 21
(6) الکامل فی التاریخ لابن الاثیر الجزری، ص 294 ج 2
(7) کتاب الخراج از یحییٰ بن آدم القرشی ص 39
صحیح مسلم، مسلم بن الحجاج القشیری ص 209 ج 10
فتوح البلدان، احمد بن یحییٰ البلاذری، ص 38،40
(8) کتاب الخراج ابویوسف ص 35
(9) تاریخ الامم والملوک محمد بن جریر الطبری ص 88 ج3
(10) المنصف، عبداللہ بن محمد ابن ابی شیبہ ص 339 ج 12
(11) کتاب الخراج ابو یوسف ص 35
(12) الام، الشافعی محمد بن ادریس ص 279 ج2
(13) کتاب الاموال ابوعبید قاسم بن سلام ص 63
المحلی بالاثار لابن حزم علی بن احمد ص 571 ج 7
(14) المحلی بالاثار لابن حزم علی بن احمد ص 561 ج 7
(15) روضۃ الطالبین للنووی، یحییٰ بن شرف الدین ص 275 ج 1
(16) السنن الکبری للبیہقی، ابوبکر احمد بن حسین ص 135 ج 6
(17) الکامل فی التاریخ للجزری ص 294 ج 2
(18) اخبار مکۃ للازرقی، محمد بن عبداللہ ص 68 ج2
(19) کتاب الخراج، ابویوسف ص 64
(20) المدخل فی التعریف بالفقہ الاسلامی
قواعد الملکیۃ والعقود فیہ ص 387
(21) القرآن الکریم 97/3
(22) الجامع الصحیح البخاری، محمد بن اسماعیل، ص 396 ج5
(23) ایضا
(24) ایضا
(25) مجموع الفتاویٰ لابن تیمیہ، احمد بن عبدالحلیم ص 276 ج 28
(26) مجموع الفتاویٰ لابن تیمیہ، احمد بن عبدالحلیم ص 277 ج 28