عالم اسلام کو درپیش سنگین مسائل

قنوت نازلہ اور پرخلوص دعاؤں کی ضرورت


عالمِ اسلام ایک عرصے سے جس ابتلاء و آزمائش سے دوچار ہے، درد مند، حلقے اس پر سراپا اضطراب ہیں لیکن صورت حال کی پیچیدگی اور مسائل کی سنگینی کچھ اس نوعیت کی ہے کہ کوئی سرا ہاتھ نہیں آتا۔
یہ مسائل دو قسم کے ہیں۔ ایک عالمِ اسلام کے اندرونی اور باہمی مسائل و تعلقات۔دوسرے جارح استعماری طاقتوں کے پیداکردہ مسائل و مشکلات۔
اول الذکر میں ہر مسلمان ملک میں اندرون ملک اسلامی اور غیر اسلامی طاقتوں کی کش مکش اور ان کے درمیان محاذ آرائی اور کئی اسلامی ممالک کا آپس میں باہمی تصادم ہے۔
ثانی الذکر میں سرفہرست کشمیر کا مسئلہ ہے، جہاں کئی سالوں سے بھارتی فوجوں نے کشمیری مسلمانوں کا جینا حرام کر رکھا ہے اور ان پر طرح طرح سے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ دوسرا بیت المقدس کا مسئلہ ہے جو ایک عرصے سے اسرائیل کے غلبہ و تسلط میں ہے اور اسرائیل نے اسے اپنا دارالحکومت قرار دے رکھا ہے اور اس کی ڈھٹائی اور دیدہ دلیری کا یہ حال ہے کہ وہ جب چاہتا ہے کسی بھی عرب علاقے پر چڑھ دوڑتا ہے۔
تیسرا مسئلہ بوسنیا اور کسوو کے مسلمانوں کا ہے جن پر یوگو سلادیوں اور سربوں نے عرصہ حیات تنگ کیا ہوا ہے۔
چوتھا مسئلہ عراق کے مسلمانوں کا ہے جہاں مسلمان عوام صدام کی انانیت اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے عالم کفر کی طرف سے بہت سی ناروا پابندیوں کا شکار ہیں۔ بلکہ اب امریکہ کے کروز میزائلوں نے اس پر حملہ کر دیا ہے۔ اور تادم تحریر یہ حملے جاری ہیں۔
پھر خون مسلم کی ارزانی اور مسلم ملکوں کی یہ مشکلات صرف مذکورہ ملکوں تک محدود نہیں ہے۔ اس کا دائرہ بڑا وسیع ہے اور ہندوستان سے لے کر الجزائر، اری ٹیریا، فلپائن وغیرہ تک مسلمان یا مسلمان اقلیتیں ہندو یا عیسائی حکومتوں کے ظلم و ستم کی چکی میں بری طرح پس رہی ہیں۔
ایک طرف عالم اسلام اس سنگین صورت حال سے دوچار ہے اور دوسری طرف عالم اسلام کی بے حسی قابل ماتم ہے کہ اس سلسلے میں اسے جس طرح سرگرم عمل ہونا چاہئے اور اس کے لئے جس جذبہ ایمانی اور جوش جہاد اور عزم و تدبر کی ضرورت ہے وہ مفقود ہے۔ کانفرنسیں ہو رہی ہیں لیکن نشتند و گفتند و برخاستند کی مصداق اور دشمن ہیں کہ وہ اپنے دندان آز اور تیز کیے جا رہے ہیں، ان کا پنجہ استبداد پھیلتا جا رہا ہے اور ان کی گرفت مضبوط تر ہوتی جا رہی ہے۔
ان حالات میں عام لوگوں کے لیے صبر و شکیب کا دامن ہاتھ سے چھوٹا جاتا ہے، تاہم مایوس و دل شکستہ ہونے کی ضرورت نہیں۔
ناامید مشو کہ ناامیدی کفر است
اللہ کی نصرت و غیبی تائید پر بھروسہ رکھنا چاہئے اور اس نصرت الہیٰ کے حصول کے لئے رمضان کی مبارک ساعتوں میں خصوصی دعاؤں کا اہتمام کرنا چاہئے تاکہ عالم اسلام سے ادبار و نکبت کی یہ گھٹائیں دور ہوں اور ایمان و ہدایت کا سورج اپنی پوری رعنائیوں کے ساتھ ضوفشاں ہو۔
بہتر ہے کہ جہری نمازوں کے ساتھ بالخصوص فجر کی نماز میں حسب ذیل قنوت نازلہ پڑھ لی جائے۔
اللهم اغفرلنا و للمومنين و المومنات والمسلمين والمسلمات والف بين قلوبهم واصلح ذات بينهم وانصرهم على عدوك و عدوهم, اللهم العن الكفرة الذين يصدون عن سبيلك ويكذبون رسلك و يقاتلون اولياءك, اللهم خالف بين كلمتهم وزلزل اقدامهم وشتت شملهم و فرق جمعهم و خرق بنيانهم ودمر ديارهم و انزل بهم باسك الذى لا ترده عن القوم المجرمين، اللهم اخذهم اخذ عزيز مقتدر، اللهم اجعلها عليهم سنين كسنى يوسف و انزل بهم باسك الذى لا ترده عن القوم المجرمين، اللهم انا نجعلك فى نحورهم و نعوذبك من شرورهم، ربنا اغفرلنا ذنوبنا و اسرافنا فى امرنا و ثبت اقدامنا وانصرنا على القوم الكافرين، اللهم اجعل لنا من لدنك وليا واجعل لنا من لدنك نصيرا۔ آمین