برصغیر پاک و ہند میں علمائے اہل حدیث کی تفسیری خدمات

برصغیر پاک و ہند میں خاندان ولی اللہی (حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی (م 1176ھ) نے قرآن و حدیث کی نشر و اشاعت میں گرانقدر خدمات انجام دیں۔ اور ان کی خدمات کا علمی شہرہ ہند اور بیرون ہند پہنچا۔ جیسا کہ ان کی تصانیف سے ان کی علمی خدمات اور ان کی سعی و کوشش کا اندازہ ہوتا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کے انتقال کے بعد ان کے چاروں صاجزادگان عالی مقام حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی (م 1239ھ)، مولانا شاہ عبدالقادر دہلوی (م 1243ھ)، مولانا شاہ رفیع الدین دہلوی (م 1249ھ) اور مولانا شاہ عبدالغنی دہلوی (م 1227ھ) نے اپنے والد بزرگوار کے مشن کو جاری رکھا۔
ان کے بعد حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کے پوتے اور مولانا شاہ عبدالغنی کے صاجزاہ مولانا شاہ اسماعیل شہید دہلوی (ش 1246ھ) نے تجدیدی و علمی کارناموں میں انقلاب عظیم برپا کر دیا۔ آپ کی کتاب "تقویۃ الایمان" نے لاکھوں بندگان الہٰ کو کتاب و سنت کا گرویدہ بنا دیا۔ اور اس کتاب کی مقبولیت کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ یہ کتاب اب تک لاکھوں کی تعداد میں زیور طبع سے آراستہ ہوئی۔
حضرت شاہ اسماعیل شہید کے بعد محی السنۃ مولانا سید نواب صدیق حسن خاں (م 1307ھ) کے قلم اور شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی (م 1320ھ) کی تدریس نے مسلمانان ہند کو بڑا فیض پہنچایا۔ علامہ سید سلیمان ندوی (م 1373ھ) تراجم علمائے حدیث ہند مؤلفہ ابویحییٰ امام خان نوشہروی (م 1386ھ) کے مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ
"بھوپال ایک زمانہ تک علمائے اہل حدیث کا مرکز رہا۔ قنوج، سہوان اور اعظم گڑھ کے بہت سے نامور اہل علم اس ادارہ میں کام کر رہے تھے۔ شیخ حسین یمنی (م 1327ھ) ان سب کے سرخیل تھے اور دہلی میں میاں نذیر حسین دہلوی کی مسند درس بچھی ہوئی تھی اور جوق در جوق طالبان حدیث مشرق و مغرب  سے ان کی درسگاہ کا رخ کر رہے تھے۔"
مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی کی درسگاہ سے ہزاروں علماء پیدا ہوئے۔ جنہوں نے ایک طرف تو پورے ہندوستان میں شرک و بدعت کا قلع قمع کرنے میں کوشش صرف کر دی۔ اور دوسری طرف دین اسلام کی اشاعت اور کتاب و سنت کی ترقی و ترویج میں ایسے شاندار علمی کارنامے سر انجام دئیے جو برصغیر کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
علمائے اہل حدیث نے تصنیف و تالیف کے سلسلہ میں جو شاندار کارنامے سر انجام دئیے، وہ تاریخ اہل حدیث کا ایک درخشندہ باب ہے۔ تفاسیر قرآن میں عربی، فارسی، اردو، پنجابی میں تفسیریں لکھیں۔ اس کے علاوہ شروح حدیث، فقہ، عقائد، تاریخ، ادب، لغت، تصوف، تردید تقلید اور ادیان باطلہ کی تردید میں بے شمار کتابیں لکھیں۔۔۔ مولانا محمد مستقیم سلفی بنارسی لکھتے ہیں:
"برصغیر پاک و ہند میں جماعت اہل حدیث کی علمی، سیاسی، اصلاحی، تبلیغی اور تصنیفی خدمات اس ملک کی تاریخ کا ہمیشہ ایک روشن باب رہا ہے۔ اس جماعت نے ایک طرف مسلمانوں کی اعتقادی و عملی گمراہیوں کو ختم کرنے کے لئے جہاں تبلیغ و تدریس کے ذریعہ اسلام کی سچی تعلیمات سے لوگوں کو روشناس کرایا۔ وہاں تصنیف کے ذریعہ برصغیر کی علمی تحریک میں جان ڈال دی"
تفاسیر قرآن مجید کے سلسلہ میں علمائے اہل حدیث نے جو علمی کدمات سر انجام دی ہیں۔ ان کا احاطہ کرنا بہت مشکل ہے۔ تاہم جہاں تک میری رسائی ہو سکی ہے، میں نے تفاسیر قرآن مجید کے سلسلہ میں جو کتابیں لکھی گئی ہیں، ان کی نشاندہی کر دی ہے۔
علم تفسیر
عربی زبان میں تفسیر کے لفظی معنی "کھولنا" کے ہیں۔ اور اصطلاح میں قرآن مجید کے وضاحت سے معانی بیان کرنے کو تفسیر کہتے ہیں۔۔۔قرآن مجید میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد ہے:
وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ ﴿٤٤﴾...النحل
"اور ہم نے قرآن آپ پر اُتارا تاکہ آپ لوگوں کے سامنے وضاحت سے بیان کریں جو ان کی طرف اتاری گئی ہیں"
اور دوسری جگہ قرآن مجید نے یوں وضاحت کی ہے:
 لَقَدْ مَنَّ اللَّـهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ ... ﴿١٦٤﴾ ...آل عمران
"بلاشبہ اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان کیا۔ جبکہ ان کے درمیان انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اللہ کی آیات تلاوت کرے اور انہیں پاک و صاف کرے اور انہیں اللہ کی کتاب اور دانائی کی کتابوں کی تعلیم دے"
علامہ زرکشی (م 794ھ) نے علم تفسیر کی مختصر تعریف درج ذیل الفاظ میں کی ہے:
(علم يعرف به فهم كتاب الله المنزل على نبيه محمد صلى الله عليه وسلم ، وبيان معانيه ،واستخراج أحكامه وحكمه) (3)
یعنی تفسیر وہ علم ہے، جس سے قرآن کریم کا فہم حاصل ہو اور اس کے معانی کی وضاحت اور اس کے احکام اور حکمتوں کا استنباط کیا جا سکے۔
علامہ محمود آلوسی (م 1270ھ) فرماتے ہیں:
(علم يبحث فيه عن كيفية النطق بألفاظ القرآن ومدلولاتها، وأحكامها الإفرادية والتركيبية، ومعانيها التى تحمل عليها حالة التركيب، وتتمات ) (4)
علم تفسیر وہ علم ہے جس میں الفاظ قرآن کی ادائیگی کے طریقے، ان کے مفہوم، ان کے انفرادی اور ترکیبی احکام اور ان کے معانی سے بحث کی جاتی ہے۔ ان الفاظ سے ترکیبی حالت سے مراد متعین کئے جاتے ہیں۔ نیز ان معانی کا تکملہ ناسخ و منسوخ، شان نزول اور مبہم کی توضیح کی شکل میں بیان کیا جاتا ہے۔
تفسیر کا آغاز سب سے پہلے عہد رسالت میں ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کے اول شارح و ترجمان تھے۔ جب بھی قرآن مجید نازل ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود اس کی تشریح و توضیح فرماتے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تفسیر قرآن کی جسارت نہ کرتے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے تشریف لے گئے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لئے اپنے علم کے اظہار اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کردہ معلومات کے لئے تشریح و توضیح کے سوا چارہ نہ تھا۔
تفسیر اور تاویل
تفسیر کے لئے ایک اور لفظ "تاویل" بھی بکثرت استعمال ہوتا ہے اور خود قرآن کریم نے اپنی تفسیر کے لئے یہ لفظ استعمال کیا ہے۔
وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا الله...﴿٧﴾ ...آل عمران
"حالانکہ اس کا صحیح مطلب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا"
اس کے بعد علمائے کرام میں یہ مسئلہ زیربحث رہا ہے کہ یہ دونوں الفاظ "تفسیر اور تاویل" ایک ہی ہیں یا ان میں کچھ فرق ہے۔ اس میں علمائے کرام کے اقوال مختلف ہیں اور ان سب اقوال کو یہاں نقل کرنا بہت مشکل ہے۔ تاہم چند اقوال یہ ہیں:
1۔ تفسیر ایک ایک لفظ کی انفرادی تشریح کا نام ہے اور تاویل جملے کی مجموعی تشریح کو کہتے ہیں۔
2۔ تفسیر اس آیت کی ہوتی ہے جس میں ایک سے زیادہ معانی کا احتمال نہ ہو، اور تاویل کا مطلب یہ ہے کہ آیت کی جو مختلف تشریحات ممکن نہیں ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کو دلیل کے ساتھ اختیار کرایا جائے۔
3۔ تفسیر الفاظ کے ظاہری معانی بیان کرنے کو کہتے ہیں اور تاویل اصل مراد کی توضیح کا نام ہے۔(5)
4۔ تفسیر، تعین کے ساتھ تشریح کو کہا جاتا ہے اور تاویل تردد کے ساتھ تشریح کرنے کو کہا جاتا ہے۔
5۔ تفسیر الفاظ کے مفہوم بیان کر دینے کا نام ہے اور تاویل اس مفہوم سے نکلنے والے سبق اور نتائج کی توضیح کا نام ہے۔
متقدمین نے تفسیر اور تاویل کو ہم معنی بھی استعمال کیا ہے۔ جبکہ متاخرین تاویل کو اس معنی میں استعمال کرتے ہیں: "راجح مفہوم کو چھوڑ کر مرجوح مفہوم اختیار کرنا" اس کے بالمقابل تفسیر سے کسی جملہ کا راجح مفہوم اور تشریح کرنا مقصود ہوتا ہے۔
تفسیر کے ماخذ
علمائے کرام نے تفسیر کے ماخذ حسب ذیل بیان کئے ہیں۔
(1)قرآن مجید (2) حدیث نبوی (3) اقوالِ صحابہ رضی اللہ عنہم (4) اقوالِ تابعین رحمۃ اللہ علیہم (5) لغت عرب (6) تدبر و استنباط (عقل سلیم)
قرآن مجید
علم تفسیر کا پہلا ماخذ قرآن مجید ہے، یعنی اس کی آیات بعض اوقات ایک دوسرے کی تفسیر کر دیتی ہیں کسی اگر کوئی آیت مبہم ہے تو دوسری جگہ اس کا ابہام کو رفع کر دیا جاتا ہے۔ اسی طرح کوئی آیت مختصر ہے تو دوسری جگہ مفصل ہے۔ مثلا سورۃ فاتحہ میں ارشاد ہے:
(اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿٦﴾ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ)
"ہمیں سیدھے رستے کی ہدایت کیجئے ان لوگوں کے راستے کی جن پر آپ نے انعام فرمایا"
ان آیات میں یہ بات واضح نہیں کی گئی کہ جن لوگوں پر انعام کیا گیا ہے۔ وہ کون لوگ ہیں لیکن دوسری جگہ اس کی توضیح و تشریح صاف الفاظ میں بیان کر دی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:
(وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَـٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّـهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ۚ وَحَسُنَ أُولَـٰئِكَ رَفِيقًا ﴿٦٩﴾) (6)
"جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتے ہیں۔ ان پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا یعنی انبیائے کرام، صدیقین، شہداء اور یہ نیک لوگ رفیق ہیں"
مفسرین کرام کا یہ قاعدہ ہے کہ جب وہ کسی آیت کی تفسیر کرتے ہیں تو سب سے پہلے اس کی تشریح و توضیح قرآن مجید سے تلاش کرتے ہیں۔
یہاں صرف ایک ہی آیت پر اکتفاء کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں بہت سی آیات ہیں جن کی تفسیر آیاتِ قرآن سے ہوئی ہے۔ تفسیر بالقرآن بالقرآن پر علمائے کرام نے بہت کتابیں لکھی ہیں۔ علامہ ابن جوزی (م 597ھ) نے اسی قسم کی ایک تفسیر لکھی تھی۔(7)
شیخ الاسلام مولانا ابوالوفا ثناءاللہ امرتسری (م 1367ھ) نے بھی اسی طرز پر بزبان عربی ایک تفسیر بنام "تفسیر القرآن بکلام الرحمٰن" رقم فرمائی۔
حدیثِ نبوی
قرآن مجید کی تفسیر کا دوسرا ماخذ حدیث نبوی ہے، قرآن مجید نے متعدد مقامات پر اس کی وضاحت کی ہے کہ آپ کا اس دنیا میں مبعوث فرمانے کا مقصد یہی تھا کہ آپ اپنے قول و فعل سے آیات قرآنی کی تفسیر فرمائیں:
وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ ... ﴿٤٤﴾...النحل
"اور ہم نے قرآن مجید آپ پر اس لئے نازل کیا ہے کہ آپ لوگوں کے سامنے وہ باتیں وضاحت سے بیان فرمائیں جو ان کی طرف نازل کی گئیں"
چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول و عمل دونوں سے یہ فریضہ بحسن و خوبی سر انجام دیا۔ آپ کی پوری زندگی قرآن کریم کی عملی تفسیر ہے۔ چنانچہ مفسرین کرام نے صحیح حدیث کو تفسیر کا دوسرا ماخذ قرار دیا ہے۔
اقوالِ صحابہ رضی اللہ عنہم
تفسیر کا تیسرا ماخذ اقوالِ صحابہ رضی اللہ عنہم ہے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قرآن کریم کی تعلیم براہ راست آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کی۔ قرآن کے نزول کے وقت وہ بہ نفس نفیس موجود تھے۔ اور انہوں نے قرآن مجید کے نزول کے وقت پورے ماحول اور پس منظر کا بذات خود مشاہدہ کیا تھا۔ اس لئے فطری طور پر قرآن کریم کی تفسیر میں ان حضرات کے اقوال کو مستند اور قابل اعتبار سمجھا جا سکتا ہے، اس لئے کہ جس آیات کی تفسیر قرآن و حدیث سے نہ ملئ تو اس کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا کسی آیت کی تفسیر پر اتفاق ہو گیا ہے، تو اس تفسیر کو معتبر سمجھا جائے گا کہ غالب امکان اس امر کا ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔
اقوالِ تابعین رحمۃ اللہ علیہم
تابعین سے مراد وہ حضرات ہیں جنہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے علم حاصل کیا۔ اس میں اختلاف ہے کہ آیا اقوال تابعین تفسیر ہیں حجت میں یا نہیں۔ لیکن جمہور علمائے کرام کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ اقوال تابعین تفسیر میں حجت ہیں ۔۔۔ مولانا سید احمد حسن دہلوی (م 1338ھ) لکھتے ہیں کہ:
"تفسیر کے باب میں مفسر تابعی جو کچھ کہتے ہیں وہ صحابہ رضی اللہ عنہم سے سن کر کہتے ہیں کیونکہ جس طرح صحابہ رضی اللہ عنہم کو یہ بات معلوم تھی کہ قرآن پاک کی تفسیر میں اپنی طرف سے عقلی طور پر کچھ کہنا دوزخ میں اپنا ٹھکانہ بنانا ہے۔ اس لئے یہ بات تابعین کرام کو بھی معلوم تھی، پھر تابعین کی نسبت بھی گمان جائز نہیں ہے کہ بغیر صحابہ رضی اللہ عنہم سے سننے کے وہ کسی آیت کا مطلب اپنی طرف سے عقلی طور پر بیان کریں گے"(9)
لغتِ عرب
تفسیر قرآن مجید کا پانچواں ماخذ لغت عرب ہے۔ اس لئے کہ قرآن مجید عربی زبان میں نازل ہوا۔ اس کی تفسیر قرآن کے سلسلے میں اس زبان پر مکمل عبور حاصل ہونا ضروری ہے۔ اس کے تفسیر قرآن کے سلسلہ میں اس زبان پر مکمل عبور حاصل کرنا ضروری ہے۔ قرآن مجید میں بہت سی آیات ایسی ہیں کہ ان کے پس منظر میں چونکہ شان نزول یا کوئی اور فقہی و کلامی مسئلہ نہیں ہو گا اس لئے اس کی تفسیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین رحمۃ اللہ علیہم کے اقوال منقول نہیں ہوتے۔ چنانچہ ان کی تفسیر کا ذریعہ صرف لغتِ عرب ہوتی ہے اور لغت ہی کی بنیاد پر اس کی تشریح کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر کسی آیات کی تفسیر میں کوئی اختلاف ہو تو مختلف آراء میں محاکمہ کے لئے علم لغت سے کام لیا جاتا ہے۔(10) لیکن احادیث نبوی اور اقوال صحابہ کے بالمقابل لغت عرب پر ہی سب انحصار کر لینا صریح جہالت ہے۔
تدبر و استنباط (عقلِ سلیم)
تفسیر کا آخری ماخذ تدبر و استنباط (عقلِ سلیم) ہے۔ قرآن کریم کے نکات و اسرار ایک ایسا ناپید کنار ہے جس کی کوئی حد نہیں۔ چنانچہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے عقل سلیم عطا فرمائی ہے، اسلامی علوم میں جتنا غوروفکر اور تدبر کرے گا۔ اتنے ہی نئے نئے اسرار و نکات سامنے آئیں گے۔ لیکن یہ اسرار و نکات اسی وقت قابل قبول ہوں گے جب کہ مذکورہ بالا پانچ ماخذ (قرآن مجید، حدیث نبوی، اقوالِ صحابہ رضی اللہ عنہم، اقوالِ تابعین رحمۃ اللہ علیہم اور لغتِ عرب) سے متصادم نہ ہوں۔ اگر یہ اسرار و نکات ان پانچ ماخذ سے متصادم ہیں تو پھر ان کی دین اسلام میں کوئی قدر و قیمت اور وقعت نہیں ہے۔
طبقاتِ مفسرین
علمائے کرام نے مفسرین کے طبقات قائم کئے ہیں:
"علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ (م 911ھ) نے اپنے عہد تک مفسرین کے 8 طبقات قائم کئے ہیں(11) اس کے بعد محی السنۃ امیر الملک حضرت مولانا سید نواب صدیق حسن خان قبوجی رئیس بھوپال (م 1307ھ) نے اپنے عہد تک 13 طبقات قائم کئے ہیں"(12)
مولانا عبدالحق حقانی (م 1335ھ) نے اپنے عہد تک مفسرین کے 9 طبقات قائم کئے ہیں اور نویں طبقہ کو نویں صدی ہجری سے لے کر 14 ویں صدی ہجری تک وسعت دی ہے۔(13)
علامہ جلال الدین سیوطی، مولانا سید نواب صدیق حسن خان اور مولانا عبدالحق حقانی نے اپنی اپنی کتابوں میں جن مفسرین کرام نے فہرست دی ہے۔ ان کا مکمل تذکرہ بہت مشکل ہے۔ چند مشہور مفسرین کرام کا تذکرہ ذیل میں کیا جاتا ہے۔ جس میں آخری چند طبقات بالخصوص برصغیر کے مفسرین پر مشتمل ہیں۔
طبقہ اول
اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں تمام اصحاب مفسر قرآن تھے لیکن ان میں سب سے زیادہ مشہور حسب ذیل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں:
(1)حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ (م 13ھ) ۔۔۔ (2) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ (م 24ھ) ۔۔۔ (3) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ (م35ھ) ۔۔۔ (4) حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ (م 40ھ) ۔۔۔ (5) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ (م 34ھ) ۔۔۔ (6) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ (78ھ) ۔۔۔ (7) حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ (م 35ھ) ۔۔۔ (8) حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ (م 45ھ) ۔۔۔ (9) حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ (م 44ھ) ۔۔۔ (10) حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ(م 73ھ) ۔۔۔ (11) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا (م 58ھ) ۔۔۔ (12) حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا (م 93ھ)
طبقہ دوم
(1)حضرت ابوالعالیہ رحمۃ اللہ علیہ (م 93ھ) ۔۔۔ (2) حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ (م 103ھ)
طبقہ سوم
(1)امام ابن جریج (م 150ھ) ۔۔۔ (2) امام وکیع بن الجراج (م 197ھ) ۔۔۔ (3) امام سفیان بن عیینہ (م 198ھ) ۔۔۔ (4) امام اسحاق بن راہویہ (م 228ھ) ۔۔۔ (5) امام محمد بن اسماعیل البخاری (م 256ھ) ۔۔۔ (6) امام ابومحمد بن عبداللہ بن مسلم دینوری المعروف ابن قتیبہ (م 276ھ)
طبقہ چہارم
(1)امام ابوجعفر ابن جریر طبری (م 301ھ) ۔۔۔ (2) امام عبدالرحمٰن بن ابی حاتم (م 305ھ) ۔۔۔ (3) امام ابوبکر جصاص (م 371ھ) ۔۔۔ (4) امام ابوعبداللہ محمد بن عبداللہ الحاکم (م 405ھ)
طبقہ پنجم
(1)امام ابو عبداالرحمٰن محمد بن حسین سلمی نیشاپوری (م 412ھ) ۔۔۔ (2) امام ابواسحاق احمد ثعلبی (م 427ھ) ۔۔۔ (3) امام ابوالقاسم عبدالکریم قشیری (م 465ھ) ۔۔۔ (4) امام ابوالحسن احمد واحدی نیشاپوری (م 468ھ)
طبقہ ششم
(1)امام ابوالقاسم حسین راغب اصفہانی (م 513ھ) ۔۔۔ (2) امام ابو محمد حسین بن محمود بغوی (م 516ھ) ۔۔۔ (3) امام ابوالقاسم محمد بن عمر زمخشری (م 538ھ) ۔۔۔ (4) امام عبدالرحمٰن بن علی جوزی (م 597ھ)
طبقہ ہفتم
(1)امام فخر الدین رازی (م 606ھ) ۔۔۔ (2) امام ابوعبداللہ محمد بن احمد الانصاری القرطبی (م 674ھ) ۔۔۔ (3) امام قاضی ناصرالدین بیضاوی (م 685ھ)
طبقہ ہشتم
(1)امام ابوالبرکات عبداللہ بن احمد نسفی (م 710) ۔۔۔ (2) امام شیخ علاؤ الدین خازن (م 725ھ) ۔۔۔ (3) امام ابن القیم الجوزی (م 571ھ) ۔۔۔ (4) امام ابوالفداء عماد الدین بن اسماعیل بن عمر بن کثیر دمشقی (م 774ھ) ۔۔۔ (5) امام بدرالدین زرکشی (م 794) ۔۔۔ (6) امام سراج الدین عمر بلقینی (م 805ھ)
طبقہ نہم
(1)امام علی بن احمد مہائمی (م 835ھ) ۔۔۔ (2) امام ولی الدین عراقی (م 821ھ) ۔۔۔ (3) امام الدین محلی (835ھ) ۔۔۔ (4) امام جلال الدین سیوطی (م 911ھ)
طبقہ دہم
(1)شاہ ولی اللہ دہلوی (م 1176ھ) ۔۔۔ (2) قاضی ثناء اللہ پانی پتی (م 1225ھ) ۔۔۔ (3) مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی (م 1239ھ) ۔۔۔ (4) امام شوکانی (م1250ھ) ۔۔۔ (5) علامہ محمود آلوسی (م 1270ھ) ۔۔۔ (6) مولانا سید نواب صدیق حسن خاں (م 1307ھ)
طبقہ یازدہم
الف: (1) مولانا اشرف علی تھانوی (م 1362ھ) ۔۔۔ (2) شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری (م 1368ھ) ۔۔۔ (3) مولانا شبیر احمد عثمانی (م 1369ھ) ۔۔۔ (4) مولانا حافظ محمد ابراہیم میر سیالکوٹی (م 1375ھ) ۔۔۔ (5) مولانا ابوالکلام آزاد (م 1377ھ) ۔۔۔ (6) مولانا احمد علی لاہور (م 1381ھ) ۔۔۔ (7) مولانا خواجہ عبدالحی فاروقی (م 1385ھ) ۔۔۔ (8) مولانا عبدالستار محدث دہلوی (م 1386ھ) ۔۔۔ (9) مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی (م 1396ھ) ۔۔۔ (10) مولانا عبدالماجد دریا آبادی (م 1399ھ) ۔۔۔ (11) مولانا سید ابوالاعلی مودودی (م 1399ھ) ۔۔۔ (12) مولانا محمد حنیف ندوی (م 1408ھ)
ب: (1) مولانا امین احسن اصلاحی (2) مولانا محمد عبدہ الفلاح (3) حافظ صلاح الدین یوسف (4) مولاناصفی الرحمٰن مبارکپوری (5) مولانا عزیز زبیدی (6) مولانا محمد بن محمد اسماعیل سلفی
تراجمِ قرآن مجید
قرآن مجید کے ترجمہ کی طرف علمائے اہل حدیث نے خاص توجہ دی۔ چنانچہ فارسی، اردو اور پنجابی میں بامحاورہ اور تحت اللفظ ترجمے کئے گئے۔
حکیم الامت حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی نے بزبان فارسی قرآن مجید کا ترجمہ بنام فتح الرحمٰن کیا اور اس کے بعد ان کے دو صاجزادگان مولانا شاہ عبدالقادر دہلوی (م 1243ھ) نے اردو زبان با محاورہ ترجمہ کیا۔ اور اس پر مختصر حواشی بنام موضح القرآن رقم فرمائے۔ اس ترجمہ کے بعد مولانا شاہ رفیع الدین دہلوی (م 1249ھ) قرآن مجید کا تحت اللفظ ترجمہ کیا۔
ان تراجم کے بعد جن علمائے اہل حدیث نے قرآن مجید کے بامحاورہ اردو زبان میں تراجم کئے، ان کی تفصیل درج ذیل  ہے:
مولانا حافظ نذیر احمد خان (م 1335ھ) ۔۔۔ مولانا وحید الزمان حیدرآبادی (م 1338ھ) ۔۔۔ مولانا عبدالوھاب (م 1351ھ) ۔۔۔ مولانا ابوالوفا ثناء اللہ امرتسری (م 1367ھ) اور مولانا محمد بن ابراہیم جوناگڑھی (م 1941ھ)
حواشی قرآن مجید
علمائے اہل حدیث نے قرآان مجید کے مختصر اور طویل حواشی سلفی اور فقہی انداز سے بھی کئے۔ یہ حواشی عربی زبان میں بھی کئے گئے اور اردو زبان میں بھی رقم فرمائے۔ ان حواشی کی تفصیل درج ذیل ہے:
مولانا محمد بن عبداللہ غزنوی (م 1293ھ) نے تفسیر جامع البیان کا بزبان عربی حاشیہ لکھا۔
مولانا احمد حسن دہلوی (م 1338ھ) نے احسن الفوائد کے نام سے قرآن مجید کا حاشیہ سلفی انداز میں رقم فرمایا اور اس تین تراجم (ترجمہ فتح الرحمٰن از شاہ ولی اللہ دہلوی (فارسی) ترجمہ تحت اللفظ از مولانا شاہ رفیع الدین دہلوی اور ترجمہ بامحاورہ ااردو از مولانا شاہ عبدالقادر دہلوی نقل کئے۔
مولانا حمید اللہ سرواہ والے (م 1330ھ) نے حاشیہ قرآن مجید لکھا۔ اس قرآن مجید میں ترجمہ مولانا شاہ عبدالقادر دہلوی کا ہے اور حواشی احادیث و آثار سے مستفاد ہیں۔
مولانا محمد عبدہ الفلاح نے قرآن مجید کے حواشی سلفی انداز میں مرتب فرمائے۔ اس قرآن مجید میں دو ترجمے نقل کئے گئے ہیں۔ ایک ترجمہ مولانا شاہ عبدالقادر دہلوی کا ہے اور دوسرا ترجمہ مولانا وحید الزمان حیدرآبادی کا ہے۔ یہ ترجمہ اشرف الحواشی نام سے طبع ہوا۔
مولانا حافظ صلاح الدین یوسف صاحب نے قرآن مجید کے لئے حواشی بنام احسن البیان لکھے ہیں اور اس پر نظرثانی مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری نے کی ہے یہ حاشیہ سلفی انداز سے لکھا گیا ہے جسے مکتبہ دارالسلام لاہور نے شائع کیا ہے۔
علمائے اہل حدیث کی تفسیری خدمات
علمائے اہل حدیث نے تفاسیر قرآن مجید کے سلسلہ میں جو علمی خدمات انجام دی ہیں۔ ان کی تفصیل درج ذیل ہیں۔ علمائے اہل حدیث نے عربی، فارسی، اردو اور پنجابی زبان میں قرآن مجید کی تفاسیر لکھی ہیں۔
مولانا سید نواب صدیق حسن خاں (م 1307ھ)
محی السنۃ امیر الملک مولانا سید نواب صدیق حسن خان قنوجی کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں، آپ مولانا اولاد حسن خاں قبوجی (م 1253ھ) کے دوسرے صاجزادے تھے۔ آپ کے بڑے بھائی مولانا احمد حسن عرشی (م 1277ھ) تھے۔ مولانا سید نواب صدیق حسن خاں 10 مادی الاولی 1248ھ اپنے ننھیال بانس بریلی میں پیدا ہوئے۔ صدر الافاضل مفتی صدر الدین دہلوی، مولانا شیخ حسین بن محسن انصاری الیمانی (م 1327ھ) سے جملہ علوم اسلامیہ دینیہ میں تعلیم حاصل کی اور 21 سال میں جملہ علوم متداولہ سے فراغت پائی۔
تعلیم سے فراغت کے بعد کچھ عرصہ بسلسلہ معاش بھوپال اور ٹونک میں گزارے۔ آخر آپ نے بھوپال کو اپنا مسکن بنایا۔ والیہ ریاست نواب شاہ جہاں بیگم صاحبہ سے آپ کا نکاح ہوا۔ تو بھوپال علم و فن کا مرکز بنا۔ حضرت نواب صاحب نے جید علمائے کرام کو بھوپال میں جمع کیا۔ جنہوں نے کتاب و سنت کی قابل قدر علمی خدمات سر انجام دیں۔ مولانا قاضی محمد بشیر الدین قنوجی (1273ھ) مولانا قاضی محمد مچھلی شہری (م 1330ھ) مولانا سلامت اللہ جے راج پوری (م 1322ھ) مولانا محمد بشیر سہسوانی (م 1326ھ) اور علامہ شیخ حسین بن محسن انصاری (م 1327ھ) بھوپال میں اقامت گزین تھے۔
علامہ سید سلیمان ندوی (م 1373ھ) لکھتے ہیں:
"بھوپال ایک زمانہ تک علماء حدیث کا مرکز رہا۔ قنوج، سہوان اور اعظم گڑھ کے بہت سے نامور اہل علم اس ادارہ میں کام کر رہے تھے۔ شیخ حسن عرب یمنی ان سب کے سرخیل تھے۔"(14)
مولانا سید نواب صدیق حسن خاں نے جب ریاست کا انتظام سنبھالا، تو بھوپال میں متعدد دینی مدارس قائم کئے۔ مولانا سلامت اللہ جے راج پوری ان مدارس کے انچارج تھے۔ نواب صاحب مرحوم نے تصنیف و تالیف کی طرف توجہ کی۔ آپ نے تفسیر، اصول تفسیر، شرح حدیث، عقائد، فقہ، تردید تقلید، سیاست، تاریخ و سیر، مناقب، علوم و ادب، اخلاق، تردید شیعیت اوت تصوف پر 222 کتابیں بزبان عربی، فارسی اور اردو لکھیں۔
مولانا سید نواب صدیق حسن خاں نے 29 جمادی الاخری 1307ھ / 17 فروری 1907ء بھوپال میں انتقال کیا۔
تفسیری خدمات
1۔ فتح البیان فی مقاصد القرآن (عربی) طبع بھوپال 4 جلد، طبع مصر 10 جلد، 1300ھ
اس تفسیر میں الفاظ قرآن کی لغوی تشریح اور صرفی و نحوی تحقیق کی گئی ہے اور اس کے علاوہ اعجاز القرآن، اردو فصاحت و بلاغت کے ہر پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے۔
2۔ نیل المرام من تفسیر آیات الاحکام (عربی) طبع لکھنؤ 1292ھ
اس کتاب میں قرآن مجید کی 236 آیات احکام کی تفسیر فقہی انداز میں کی گئی ہے۔
3۔ افادۃ الشیوخ بقدر الناسخ والمنسوخ (فارسی) طبع کان پور 1288ھ
اس کتاب میں نسخ کے معنی و احکام اور بعض آیات کے نسخ سے متعلق علمائے کرام کے اختلاف کا ذکر کیا ہے۔
4۔ تذکیر الکل بتفسیر  الفاتحہ و اربع قل (اردو) طبع و سن اشاعت ندار
اس کتاب میں سورہ فاتحہ، سورہ کافرون، سورہ اخلاص اور سورہ فلق و ناس کی تفسیر لکھی ہے۔
5۔ الاکسیر فی صول التفسیر (فارسی) طبع کان پور 1291ھ
یہ کتاب ایک مقدمہ در مقصد ایک اور ایک خاتمہ پر مشتمل ہے۔ مقدمہ میں تفسیر کے لغوی و شرعی معنی کی تحقیق ہے۔ مقصد اول میں علم تفسیر کے اصول کا بیان ہے۔ اور مقصد دوم میں 1300 تفاسیر اور ان کے مؤلفین کا ذکر ہے۔
6۔ ترجمان القرآن بلطائف البیان (اردو) ، 15 جلد طبع دہلی و آگرہ 1306ھ تا 1314ھ
یہ تفسیر 15 جلدوں میں ہے۔ اس میں پہلی 6 جلدیں از سورہ فاتحہ تا سورہ کہف اور سورہ ملک تا سورہ والناس ایک جلد (کل 7 جلد) حضرت نواب صاحب مرحوم و مغفور نے لکھیں۔ نواب صاحب مرحوم نے یہ تفسیر 1302ھ میں لکھنا شروع کی۔ اور 1306ھ تک آپ نے 7 جلدیں مکمل کیں کہ داعی اجل کو لبیک کہا۔ بقیہ 8 جلدیں مولانا ذوالفقار احمد بھوپالی نے لکھیں۔ مولانا ذوالفقار احمد حضرت محی السنہ کے شاگرد تھے اور مستقل طور پر ان کا قیام نواب صاحب کے ہاں تھا۔ یہاں تک کہ جب نواب صاحب نے رحلت فرمائی تو مولانا ذولافقار احمد اس وقت نواب صاحب کے پاس موجود تھے۔
مولانا ذوالفقار احمد نے حضرت نواب صاحب کے فرزند اصغر مولانا سید نواب علی حسن خاں (م 1356ھ) کے ارشاد پر ترجمان القرآن کی بقیہ جلدیں مکمل کیں۔ مولانا ذولافقار احمد مرحوم خود لکھتے ہیں:
"میں نے اللہ تعالیٰ پر توکل کر کے 23 صفر 1308ھ سے لکھنا شروع کیا اور 15 ذی قعدہ 1315ھ کو ترجمان القرآن کی 8 جلدیں مکمل کر لیں۔"(15)
مولانا ذوالفقار احمد نے اپنی تحریر کردہ ہر سورہ کی تفسیر کو ایک کتاب کی مثل تصور کر کے ہر سورہ کا نام جدا جدا لکھا ہے۔
جلد ہفتم
(1)الدرالمنظم فی تفسیر سورۃ مریم (2) ابتسام الزہر الریاحا فی تفسیر سورہ طہٰ (3) نزہۃ الاصفیاء فی تفسیر سورۃ الانبیاء
جلد ہشتم
(4)الحج والشح فی تفسیر سورۃ الحج (5) فلاح المقنین فی تفسیر سورۃ المؤمنین
جلد نہم
(6) کشف السقود عن وجہ تفسیر سورۃ النور (7) رحمۃ الرحمٰن فی تفسیر سورۃ الفرقان (8) اتحاف النبلاء فی تفسیر سورۃ الشعراء
جلد دہم
(9) جمع الثمل فی تفسیر سورۃ النمل (10) احسن القصص فی تفسیر سورۃ القصص (11) نزول الرحموت فی تفسیر سورۃ العنکبوت (12) الجوہر المنظوم فی تفسیر سورۃ الروم
جلد یازدہم
(13) مواہب الرحمٰن فی تفسیر سورۃ لقمان (14) اقتحام النجلۃ لتفسیر سورہ الم تنزیل السجدہ (15) ہدیہ اولی الالباب فی تفسیر سورۃ الاحزاب (16) نسین الصبا فی تفسیر سورۃ سبا (17) قرۃ الناظر فی تفسیر سورۃ فاطر
جلد دو ازدہم
(18) انتباہ الاولین فی تفسیر سورٰ یٰسین (19) الکلمات التامات فی تفسیر سورۃ صافات (20) نفع العباد فی تفسیر سورہ ص (21) نظم الدرد فی تفسیر سورۃ الزمر (22) نزہۃ الخاطر فی تفسیر سورۃ غافر (مومن)
جلد سیزدہم
(23) انجاد النجدہ فی تفسیر السجدہ (24) حسن الارتشاف فی تفسیر سورۃ حم عسق (شوریٰ) (25) الروج الالف فی تفسیر سورۃ زخرف (26) منتحۃ المنان فی تفسیر سورۃ الدخان (27) منتحہ الغاشیہ فی تفسیر سورۃ الجاثیہ (28) حسن الایقاف فی تفسیر سورۃ الاحقاف (29) القول المسدد فی تفسیر سورۃ محمد (30) فصح الصفح فی تفسیر سورۃ الفتح (31) اقرب القربات فی تفسیر الحجرات
جلد چہاردہم
(32) الاستطاف فی تفسیر سورۃ قاف (33) الباقیات الجاریات فی تفسیر سورۃ والذاریات (34) اشقہ النہور فی تفسیر سورۃ والطور (35) البدر المنعم فی تفسیر سورۃ النجم (36) الزمر فی تفسیر سورۃ القمر (37) الروح والریحان فی تفسیر سورۃ الرحمٰن (38) الانوار الساطعہ فی تفسیر سورہ الواقعہ (39) القول السدید فی تفسیر سورہ الحدید (40) حسن المقاولہ فی تفسیر سورۃ المجادلہ (41) نشر النشر فی تفسیر سورہ الحشر (42) المنقۃ الموتمنۃ فی تفسیر سورۃ الممتحنہ (43) صف الرف فی تفسیر سورہ الصف (44) نور المعو فی تفسیر سورۃ الجمعہ (45) تنیہ المومنین فی تفسیر سورۃ المنافقین (46) حسن التراغن فی تفسیر سورۃ التغابن (47) رفع الطلاق فی تفسیر سورہ الطلاق (48) الدر النظیم فی تفسیر سورۃ التحریم(16)
مولانا محمد صاحب (ساکن کھڈیاں) نے بھی ترجمان القرآن کا تکملہ حضرت نواب صاحب مرحوم کے طریقہ پر لکھنا شروع کیا تھا۔ جس کی غالبا تین جلدیں مطبع محمدی لاہور سے شائع ہوئی تھیں۔ یہ پتہ نہیں چل سکا کہ مولانا محمد مرحوم نے یہ تفسیر مکمل کی تھی یا نہیں۔
تفسیر ترجمان القرآن میں حضرت نواب صاحب نے آیات کا ترجمہ اور وائد موضح القرآن از مولانا شاہ عبدالقادر دہلوی سے لئے ہیں اور بقیہ مطالب تفسیر ابن کثیر، تفسیر فتح القدیر اور تفسیر فتح البیان سے اخذ کئے ہیں۔ تفسیر میں قرآن مجید، احادیث نبی اور اقوال صحابہ و تابعین اور لغات عرب سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔(17)
مولانا محمد ابراہیم آروی (م 1319ھ)
مولانا محمد ابراہیم آروی کا شمار ممتاز علماء اہل حدیث میں ہوتا ہے۔ آپ شیخ الکل مولانا سید نذیر حسین محدث دہلوی (م 1320ھ) کے ممتاز تلامذہ میں سے تھے۔ عارف باللہ مولانا عبداللہ غزنوی (م 1298ھ) سے بھی اکتساب فیض کیا تھا۔ آپ کا شمار برصغیر کے مشہور واعظین میں ہوتا تھا۔ آپ کی تقریر بڑی موثر تھی۔ آپ کا سب سے بڑا علمی کارنامہ "مدرسہ احمدیہ" آرہ کا قیام تھا۔یہ مدرسہ ہر لحاظ سے منفرد حیثیت کا حامل ہے۔ اس مدرسہ میں انگریزی تعلیم اور جہاد کی ابتدائی تیاریوں کی طرف بھی توجہ دی گئی تھی۔ یہ مدرسہ بقول مولوی ابویحییٰ امام خان نوشہروی (م 1966ء) اہل حدیث بہار کی یونیورسٹی تھی۔ جس میں تمام حصص ملک کے طلباء حاضر رہے۔(18) سید سلیمان ندوی (م 1373ھ) فرماتے ہیں مولانا محمد ابراہیم آروی نے سب سے پہلے عربی تعلیم اور عربی مدارس میں اصلاح کا خیال قائم کیا اور مدرسہ احمدیہ کی بنیاد ڈالی۔(19)
مولانا محمد ابراہیم آروی صوفی، واعظ، مدرس، ماہر تعلیم، منتظم اور مجاہد ہونے کے علاوہ بہت اچھے مصنف بھی تھے اور ان کو تفسیر، حدیث اور فقہ پر مکمل دسترس حاصل تھی اور اس کے علاوہ علم اعراب، علم صرف و نحو، اور عربی ادب اور فارسی میں بھی مکمل دستگاہ رکھتے تھے۔
مولانا محمد ابراہیم آروی نے 6 ذی الحجہ 1319ھ بحالتِ احرام مکہ مکرمہ میں انتقال کیا اور جنت المعلی میں دفن ہوئے۔(20)
تفسیری خدمات
1۔ تفسیر خلیلی (اردو) 4 جلد، طبع بانکی پور پٹنہ 1309ھ
اس کتاب میں سورہ فاتحہ پارہ اول و دوم اور پارہ 29،30 کی تفسیر ہے۔
2۔ ترجمہ اردو تفسیر ابن کثیر، یہ تفسیر طبع نہیں ہو سکی۔
مولانا قاضی محمد سلیمان منصور پوری (م 1930ء)
مولانا قاضی محمد سلیمان منصور پوری (م 1930ء) جماعت اہل حدیث کے ممتاز عالم دین تھے۔ وہ علم و عمل کا ایک عجب امتزاج اور دین و دنیا کی جامعیت کا نادر موقع تھے۔ ریاست پٹیالہ میں سیشن جج تھے۔ ان کی ساری زندگی اسلامی طرز پر گزری۔ عمائدین ریاست بھی ان کا احترام کرتے تھے۔
قاضی محمد سلیمان منصور پوری کو جملہ علوم اسلامیہ و دینیہ میں تبحر حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ ادیان باطلہ پر بھی مکمل دسترس حاصل تھی۔ قادیانیت اور عیسائیت کی تردید میں آپ نے جو کتابیں لکھیں۔ آج تک عیسائی و قادیانی مصنفین ان کا جواب نہیں دے سکے۔ آپ کا سب سے بڑا علمی کارنامہ آپ کی کتاب "رحمۃ للعالمین" ہے۔ جو سیرت نبوی پر ایک بہترین اور لاجواب کتاب ہے۔ برصغیر کے ممتاز اہل قلم نے اس کتاب کی تعریف کی ہے۔ مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا مودودی اور مولانا ابوالحسن علی ندوی نے اس کتاب کی بہت تعریف و توصیف کی ہے۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی نے رحمۃ للعالمین کو اپنی پسندیدہ کتابوں میں شمار کیا ہے۔
قاضی صاحب نے 1930ء میں حج بیت اللہ سے واپسی پر بحری جہاز میں انتقال کیا۔ تفسیر میں سورہ یوسف کی تفسیر بنام الجمال والکمال لکھی۔ جو پہلی بار پٹیالہ سے شایع ہوئی۔ اور اس کے بعد متعدد بار لاہور سے شائع ہو چکی ہے۔ اس تفسیر میں قاضی صاحب نے عربی الفاظ کی تشریح اور حضرت یوسف علیہ السلام کے عہد کا جغرافیائی اور سیاسی پس منظر بیان کیا ہے۔
مولانا سید احمد حسن دہلوی (م 1338ھ)
مولانا سید احمد حسن دہلوی کا شمار مشہور علمائے اہل حدیث میں ہوتا ہے۔ آپ ایک اعلیٰ پایہ کے مفسر اور محدث تھے۔ 1258ھ میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ حضرت شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی (م 1320ھ) کے ارشد تلامذہ میں سے تھے۔ میاں صاحب سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد ان ہی کے مدرسہ میں تدریس اور فتویٰ نویسی آپ کے سپرد ہوئی۔ آپ کی شادی مولانا حافظ نذیر احمد خاں (مترجم قرآن مجید) کی صاجزادی سے ہوئی اور انہوں نے آپ کو حیدرآباد دکن میں ڈپٹی کلکٹر کے عہدہ پر تعینات کرایا اور آپ کا مشاہرہ 8 سو روپے ماہوار مقرر ہوا۔ اتنے اونچے عہدہ پر فائز ہونے کے بعد آپ دینی و علمی خدمات میں مصروف رہے۔
مولانا احمد حسن نے 7 جمادی الاولی 1338ھ / 9 مارچ 1920ء کو انتقال کیا۔
تفسیری خدمات
1۔ تفسیر آیات الاحکام من کلام رب الانام (اردو) طبع دہلی 1921ء
اس کتاب میں سورہ بقرہ کی آیات الاحکام کی تفسیر ہے۔
2۔ تفسیر احسن التفاسیر (اردو) 70 جلد اس تفسیر میں مولانا شاہ عبدالقادر دہلوی کے ترجمہ کے بعد احادیث و آثار کا ذکر کیا اور اس میں تفسیر ابن کثیر، تفسیر ابن جریر اور تفسیر فتح البیان سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔ یہ تفسیر پہلی بار دہلی سے شائع ہوئی۔ 1379ھ میں مولانا محمد عطاء اللہ حنیف (م 1987ء) نے اس تفسیر کو اپنے اشاعتی ادارہ المکتبہ السلفیہ لاہور سے شائع کیا۔ اس تفسیر کی چند خصوصیات یہ ہیں:
1۔ یہ تفسیر مسلمہ سلفی تفاسیر کا مرقع ہے۔
2۔ آیات کے شان نزول کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
3۔ عقائد، عبادات، اور روز مرہ کے معاملات زندگی میں قرآں مجید کے احکام و مسائل کی تفصیل، احادیث و آثار کی روشنی میں کی گئی ہے۔ اس لحاظ سے گویا اس تفسیر کو احکام القرآن کی حیثیت بھی حاصل ہے۔
4۔ تفسیر کے شرع میں ایک جامع، علمی و تحقیقی مقدمہ ہے۔ جو اصول تفسیر کے نفیس مباحث پر مشتمل ہے۔
اشاعتِ ثانی میں مولانا محمد عطاء اللہ حنیف نے درج ذیل اضافے کئے ہیں:
1۔ شانِ نزول اور آیات کی تفسیر میں فاضل مؤلف جس قدر مرفوع احادیث لائے ہیں، ان کی تخریج (مع رقم صفحات) کر دی گئی ہے جس کی وجہ سے اس کی اسفادی حیثیت پہلے سے بہت بلند ہو گئی ہے۔
2۔ تخریج کے علاوہ بعض خاص مواقع پر مفید علمی حواشی کا اضافہ بھی کیا گیا ہے۔ جو گو مختصر ہیں لیکن بہت جامع ہیں۔
3۔ طباعت کا سابقہ انداز بدل کر قرآن مجید کا ترجمہ بین السطور اور اس کے ساتھ ساتھ آیات کے نمبر دئیے ہیں۔ نیچے تفسیر کر دی گئی ہے۔
مولانا ابوالوفا ثناء اللہ امرتسری (م 1367ھ)
شیخ الاسلام مولانا ابوالوفا ثناء اللہ امرتسری مستغنی عن التعارف ہیں۔ آپ بیک وقت ایک کامیاب عالم، عظیم خطیب، بلند مرتبہ نقاد صحافی اور بہت عمدہ مفسر اور مصنف تھے۔ فن مناظرہ کے امام تھے اور فن مناظرہ میں برصغیر کے ممتاز اور جید علمائے کرام نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ مناظرہ میں مولانا ثناء اللہ امرتسری کا کوئی عالم ہم پلہ نہیں ہے۔(21)
علامہ سید رشید مصری (م 1354ھ) نے اپنے مجلہ المنار قاہرہ (مصر) میں لکھا کہ "مولانا ثناء اللہ اسلام اور مسلمانوں کے وکیل ہیں۔ اور ان کے زہد و تقویٰ کو دیکھ کر آدمی کہہ سکتا ہے کہ وہ عام آدمی نہیں ہیں۔ بلکہ اجل الہیٰ ہیں۔"(22)
برصغیر میں جب بھی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کسی قسم کی تحریری یا تقریری سازش ہوتی تو اس سازش کو بے نقاب کرنے کے لئے سب سے پہلے جو ہستی میدان مین آئی تھی، وہ آپ ہی کی ہوتی۔ آریہ سماجیوں اور عیسائیوں نے جب بھی اسلام اور پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ہرزہ سرائی کی تو آپ سب سے پہلے اس کا منہ توڑ جواب دینے کے لئے میدان میں آتے۔ اس کا ثبوت آپ کی تصنیفات اسلام اور مسیحیت، جوابات نصاریٰ، تحریفات بائبل، حق پرکاش، ترک اسلام، کتاب الرحمٰن اور مقدس رسول سے مل سکتا ہے۔
قادیانی گروہ کے خلاف آپ نے جو قابل قدر خدمات سر انجام دی ہیں۔ وہ تاریخ تحفظ ختم نبوت کا انتہائی درخشاں اور سنہری باب ہے۔
مولانا ثناء اللہ امرتسری نے 15 مارچ 1948 / 1367ھ کو سرگردھا میں انتقال کیا۔
تفسیری خدمات
تفسیر قرآن کے سلسلہ میں آپ نے جو علمی خدمات سر انجام دیں۔ ان کی تفصیل یوں ہے:
1۔ تفسیر ثنائی (اردو) 8 جلد
2۔ برہان التفاسیر برائے اصلاح سلطان التفاسیر (اردو)
3۔ مقدمہ تفسیر آیات متشابہات (اردو)
4۔ تفسیر بالرائے (اردو)
5۔ بطش قدیر بر قادیانی تفسیر کبیر (اردو)
6۔ تفسیر سورہ یوسف اور تحریف بائیبل (اردو)
7۔ تفسیر القرآن بکلام الرحمٰن (عربی)
8۔ بیان الفرقان علی علم البیان (عربی)
تفسیر ثنائی (اردو) 8 جلد
یہ تفسیر خاص اہمیت کی حامل ہے۔ اس کا ترجمہ بامحاورہ اور عام فہم ہے۔ الفاظ قرآن کی تشریح بہت عمدہ کی گئی ہے۔ اور آیات قرآن کے باہمی ربط پر بھی توجہ کی گئی ہے۔ مخالفین اسلام کے اعتراضات کا مدلل جواب دیا گیا ہے۔ شروع میں ایک جامعہ مقدمہ ہے۔ جس میں صاحب قرآن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ثبوت مختلف مذاہب کی کتابوں سے دیا گیا ہے۔
برہان التفاسیر برائے اصلاح سلطان التفاسیر (اردو)
یہ تفسیر کتابی صورت میں شائع نہیں ہو سکی۔ اہل حدیث امرتسر میں 80 قسطوں میں (17 مئی 1932ء تا 17 می 1935ء) شائع ہوئی۔ یہ تفسیر پادری سلطان محمد کی تفسیر سلطان التفاسیر کے جواب میں ہے۔ یہ پہلے پارہ کی تفسیر ہے۔ مولانا امرتسری مرحوم نے اس تفسیر میں یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ ہر رکوع کی تفسیر قرآن و حدیث سے کرتے اور اس کے بعد دوسرے اصحاب تفسیر خصوصا عیسائی، منکرین حدیث اور قادیانی حضرات کی تفاسیر پر نقد و تبصرہ فرماتے ہیں۔
مقدمہ تفسیر آیات متشابہات (اردو)
اس کتاب میں صفات باری تعالیٰ اور حروف مقطعات کے معنی و مطالب، اقوال سلف اور لغت عرب کی مدد سے واضح کئے ہیں اور آیات متشابہات کی بھی توضیح کی ہے۔ یہ کتاب مولانا امرتسری کے تفسیر ثنائی (اردو) اور تفسیر القرآن بکلام الرحمٰن (عربی) کا مقدمہ ہے۔
تفسیر بالرائے (اردو) طبع امرتسر 1358ھ
یہ تفسیر سورۃ فاتحہ اور سورہ بقرہ کی تفسیر ہے۔ اور اس میں تفسیر میں مرزا غلام احمد قادیانی کی تفسیر "خزینۃ العرفان" مولوی مقبول احمد شیعی کے ترجمہ قرآن معہ حواشی، مولوی احمد الدین امرتسری نیچری کی تفسیر "بیان للناس" مرزا محمود قادیانی کے تفسیری نوٹ، شیخ بہاء اللہ ایرانی کی چند آیات کا ترجمہ، خواجہ حسن نظامی دہلوی کی تحریفات، ترجمہ قرآن مولوی احمد رضا بریلوی معہ حواشی مولوی نعیم الدین مراد آباد کے چند مقامات کو بطور نمونہ دکھا کر اصلاح کی گئی ہے۔
بطش قدیر بر قادیانی تفسیر کبیر طبع امرتسر 1941ء
یہ کتاب مرزا محمود قادیانی کی تفسیر کبیر (سورہ یونس تا سورہ کہف) کے جواب میں ہے۔ قادیانی مصنف نے اپنی کتاب میں جو غلطیاں کی ہیں، مولانا امرتسری نے ان کی نشاندہی کی ہے۔
تفسیر سورہ یوسف اور تحریف بائبل، طبع امرتسر 1944ء
یہ کتاب سورہ یوسف کی تفسیر ہے اور ساتھ ہی بائبل کے بیان متعلقہ حضرت یوسف علیہ السلام سے اس کا تقابل کیا گیا ہے اور تحریف بائبل کا ثبوت بھی پیش کیا گیا ہے۔
تفسیر القرآن بکلام الرحمٰن (عربی) و طبع امرتسر 1320ھ
اس تفسیر میں آپ نے ہر آیت کی تفسیر آیات قرآن سے کی ہے اور یات کے شان نزول گرنے میں انہیں واقعات کو بیان کیا گیا ہے جو صحیح سندوں سے مروی ہیں اور مخالفین اسلام کے اعتراضات کے جوابات بھی دئیے گئے ہیں اور اس کے علاوہ مولانا مرحوم نے آیات صفات وغیرہ میں سلفی عقائد کی بجائے تاویل کی راہ اختیار کی ہے۔
اس تفسیر کی بعض علمائے اسلام نے بہت تعریف و توصیف کی ہے۔ مولانا سید سلیمان ندوی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ "تفسیر القرآن بکلام الرحمٰن" اس قابل ہے کہ اس کو نصاب درس میں شامل کیا جائے۔(23)
بیان الفرقان علی علم البیان (عربی) طبع امرتسر 1353ھ
یہ تفسیر سورہ فاتحہ اور سورہ بقرہ پر مشتمل ہے۔ اس کے شروع سے علم معانی، بیان اور بیع کے 172 قواعد کا ذکر ہے۔ حواشی میں اس کی مثالین قرآن مجید سے پیش کی گئی ہیں۔ اس تفسیر میں قرآن مجید کی عظمت، فصاحت، بلاغت اور سحر بیانی کو اجاگر کیا گیا ہے۔
مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی (م 1375ھ)
مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی کی ذات محتاج تعارف نہیں۔ آپ جماعت اہل حدیث کے گل سرسید ، جید عالم دین، شعلہ نوا خطیب، مفسر قرآن، مشہور مناظر، علم و فضل اور زہد و ورع کے پیکر، نہایت ذہین و فطین، جامع معقول و منقول اور منبع علم و فضیلت تھے۔ قادر الکلام اور فصیح اللسان تھے۔ علم قدیم اور علم جدیدہ سے مکمل واقفیت تھی۔ 1874ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد دینی تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے۔ علوم دینیہ کی تعلیم مولانا غلام حسن سیالکوٹی، مولانا حافظ عبدالمنان محدث وزیر آبادی اور شیخ الکل حضرت مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی سے حاصل کی۔ تفسیر قرآن سے آپ کو خاص شغف تھا۔
مولانا محمد ابراہیم نے 12 جنوری 1956ء کو سیالکوٹ میں انتقال کیا۔
تفسیری خدمات
مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی نے جو تفسیری خدمات انجام دیں۔ اس کی تفصیل درج ذیل ہے۔
1۔ تفسیر واضح البیان: یہ سورہ فاتحہ کی ضخیم تفسیر ہے اور 488 بڑے صفحات پر محیط ہے۔ اتنی بڑی جامع و علمی اور تحقیق تفسیر اس سے پہلے نہیں لکھی گئی۔
2۔ ریاض الحسنات، اس کتاب میں سورہ سجدہ، یٰسین، ملک، نوح اور مزمل کی تفسیر ہے۔
3۔ تفسیر سورہ کہف
4۔ تفسیر تبصر الرحمن پارہ اول، دوم، سوم
5۔ احسن الخطاب فی تفسیر فاتحہ الکتاب (سورہ فاتحہ کی مختصر تفسیر)
6۔ تفسیر سورہ ثلاثہ (مشتمل بر راس البیان فی تفسیر سورہ الرحمن، انوار الساطعہ فی تفسیر سورۃ الواقعہ، نجم الہدیٰ فی تفسیر سورۃ النجم)
7۔ الدرالنظیم فی تفسیر بعض سورہ القرآن العظٰم: اس کتاب میں 13 سورتوں کی تفسیر ہے۔ یعنی سورۃ السجدہ، یٰسین، ملک، نوح، مزمل، حجرات، ق، بلد، بینہ، عصر، فیل، قریش اور کوثر۔
8۔ شہادۃ القرآن (2 جلد) : یہ کتاب صرف آیات قرآنی "(إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ)" کی تفسیر ہے۔ جو مسئلہ حیات عیسیٰ علیہ السلام پر ایسی گواہی ہے کہ حضرت مسیح موعود کو مردہ بتانے والے بھی "(ذَٰلِكَ يُحْيِي اللَّـهُ الْمَوْتَىٰ وَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ﴿٧٣﴾)" پکار اٹھے۔"(24)
مولانا وحید الزمان حیدرآبادی (م 1338ھ)
آپ جماعت اہل حدیث کے مشہور عالم تھے۔ آپ کا سب سے بڑا کارنامہ صحاح ستہ بشمول موطا امام مالک کا اردو ترجمہ ہے۔ مولانا وحید الزمان جملہ علوم اسلامیہ و دینیہ کے متجر عالم تھے۔ تمام علوم اسلامیہ پر ان کی نظر وسیع تھی۔ مولانا وحید الزمان 1267ھ / 1850ء میں کان پور میں پیدا ہوئے۔
مولانا وحید الزمان نے جن اساتذہ کرام سے علوم متداولہ کی تعلیم حاصل کی۔ ان کے نام یہ ہیں۔
مولانا مفتی محمد عنائت احمد کاکوروی (1279ھ)، مولانا محمد سلامت اللہ کانپوری (م 1281ھ) مولانا محمد بشیر الدین قنوجی (م 1263ھ) مولانا عبدالحی فرنگی محلی (1304ھ) مولانا لطف اللہ علی گڑھی (م 1334ھ) مولانا عبدالحق بن فضل اللہ بنارسی (1286ھ) مولانا عبدالعزیز محدث لکھنوی (م 1277ھ)، شیخ الکل مولانا سید نذیر حسین محدث دہلوی (م 1320ھ) اور علامہ شیخ حسین بن محسن انصاری الیمانی (م 1327)
مولانا وحید الزمان نے 25 شعبان 1338ھ / 15 مئی 1920ء کو حیدرآباد دکن میں انتقال کیا۔(25)
تفسیر قرآن میں تفسیر وحیدی جس کا پورا نام "موضحۃ الفرقان معہ تفسیر وحیدی" ہے لکھی۔ شروع میں مضامین قرآن کی ایک فہرست ہے جو 8 صفحات میں ہے۔ فہرست میں پہلے عنوان لکھا گیا ہے۔ پھر اس کے متعلق مضمون کے مطابق قرآن مجید کی سورہ، رکوع اور آیت کا نمبر دیا گیا ہے۔ اس طرح قرآن مجید کی 114 سورتوں کی نمبروار فہرست ہے۔ جس کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ فلاں مضمون کن کن سورتوں اور کن کن آیتوں میں آیا ہے۔
یہ تفسیر پہلی مرتبہ 1323ھ میں مطبع القرآن والسنہ امرتسر باہتمام مولانا عبدالغفور غزنوی شائع ہوئی تھی۔
مولانا وحید الزمان کی دوسری کتاب "تبویب یضبط مضامین الفرقان" ہے۔ اس کتاب کے صفحات کے 2 کالم ہیں۔ ایک میں آیات دوسرے میں ترجمہ اور نیچے تفسیر وحیدی کے مختصر مگر جامع حواشی، یہ کتاب پہلی بار 704 صفحات پر مشتمل مطیع احمدی لاہور نے شائع کی تھی۔ (سن اشاعت ندارد)
مولانا ابوالکلام آزاد (1958ء)
مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت محتاج تعارف نہیں۔ آپ ایک بلند مرتبہ عالم، مفکر، مدبر، اور سیاستدان تھے۔ فلسفیانہ فکر، مجتہدانہ دماغ اور مجاہدانہ جوش عمل کے مالک تھے۔ علم و فن کے امام و مجتہد تھے۔ اور دانائے راز کے عظیم مفکر، میدان سیاست کے مدبر اور سحر طرز ادیب بھی تھے۔
جادو بیان خطیب، ذہانت و ذکاوت، فہم و فراست اور فکر و تدبر کی گہرائی میں ان کا کوئی حریف نہ تھا۔ وہ حق و صداقت کی آواز اور عزم و استقلال کے پہاڑ تھے۔ برصغیر کی تحریک آزادی میں ان کی خدمات ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ساری عمر کانگرس سے وابستہ رہے اور کانگرس کے صدر بھی رہے اور تقسیم کے بعد وزیر تعلیمات ہند بھی رہے۔
مولانا ابوالکلام آزاد 17 اگست 1878ء کو مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ 1899ء میں کلکتہ سے ماہانہ "نیرنگ" جاری کیا۔ 22 جنوری 1901ء کو ہفت روزہ المصباح جاری کیا ساتھ ہی رسالہ "محمدیہ" کانپور کی ادارت بھی سنبھالی۔ 1902ء میں ہفت روزہ احسن الاخبار کلکتہ کی ادارت آپ کے سپرد ہوئی۔ 1903ء میں اور ایک ماہنامہ کے مدیر معاون مقرر ہوئے۔ اور 1903 کو ماہنامہ لسان الصدق جاری کیا۔ جو مئی 1905ء تک شائع ہوتا رہا۔ 1905ء میں سہ روزہ اخبار "وکیل" امرتسر کی مجلس ادارت میں شامل ہوئے اور 6 ماہ بعد اکتوبر 1905ء میں ماہنامہ "الندوہ" لکھنؤ کے نائب مدیر مقرر ہوئے۔
مارچ 1906ء میں الندوہ لکھنؤ سے علیحدگی اختیار کی۔ اور اپریل 1906ء میں دوبارہ سہ روزہ اخبار "وکیل" امرتسر کی ادارت سنبھالی۔ نومبر 1906ء میں اخبار وکیل سے علیحدگی اختیار کر کے کلکتہ چلے گئے۔ جنوری 1907ء میں ہفت روزہ دار السلطنت کلکتہ کے مدیر مقرر ہوئے اور اگست 1907ء میں تیسری بار اخبار وکیل امرتسر کے مدیر مقرر ہوئے اور اگست 1908ء اخبار وکیل امرتسر سے کلیتا علیحدگی اختیار کر لی۔
13 جولائی 1913ء کو کلکتہ سے ہفت روزہ "الہلال" جاری کیا۔ جو 18 نومبر 1914ء کو مبلغ دس ہزار کی ضمانت جمع کرنے کی وجہ سے بند ہو گیا۔ 12 نومبر 1915 کو آپ نے ہفت روزہ "البلاغ" جاری کیا جو اپریل 1916ء میں آپ کے صوبہ بدر ہونے کی وجہ سے بند ہو گیا۔ 23 ستمبر 1921ء کو ہفت روزہ "پیغام" آپ کی نگرانی میں جاری ہوا۔ 10 جون 1927ء کو دوبارہ "الہلال" جاری کیا۔ ستمبر 1931ء میں ترجمان القرآن کی پہلی جلد شائع کی۔ اپریل 1936ء میں ترجمان القرآن کی دوسری جلد شائع کی۔ 1940ء تا 1946ء آل انڈیا کانگرس کے صدر رہے۔ 26 جون 1945ء شملہ کانفرنس میں شرکت کی۔ اور 1946ء میں آپ کی کتاب غبار خاطر شائع کی۔ 15 جنوری 1947ء کو عبوری حکومت کے وزیر تعلیم مقرر ہوئے۔ 28 مئی 1953ء ہندوستان کے قائم مقما وزیراعظم مقرر ہوئے۔
22 فروری 1958ء کو دہلی میں انتقال کیا اور جامع مسجد کے قریب اردو پاک میں دفن ہوئے۔(26)
تفسیری خدمات
تفسیر ترجمان القرآن جلد اول 1931ء میں شائع ہوئی اور جلد دوم 1936ء میں شائع ہوئی۔ یہ تفسیر سورۃ المومنون تک ہے۔ اس تفسیر کے بارے میں امام خاں نوشہروی لکھتے ہیں:
"یہ تفسیر ہماری جماعت کے مشہور از قاف تابہ قاف مطلع انوار الہلال منبع البلاغ المبین، ناشر حدیث ختم المرسلین صاحب القلم والبیان السید احمد ابوالکلام آزاد کی تصنیف ہے۔ جس نے تعلیم یافتہ طبقہ کے اذکار میں ایک سرے سے تبدیلی پیدا کر دی ہے۔"(27)
جلد اول کے شروع میں ایک دیباچہ اور مقدمہ ہے جس میں ترجمہ و تفسیر کی اہمیت اور نزول وحی پر بہترین بحث ہے۔ کتاب اللہ کی تفہیم کے لئے یہ تفسیر بہت عمدہ ہے۔ اس سے مجتہدانہ غوروفکر کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ تفسیر میں ادبی زبان استعمال کی گئی ہے۔
دیگر تفسیری خدمات
تصورات قرآن، تفسیر سورہ فاتحہ کی تلخیص، تفسیر سورہ واقعہ، مقدمہ تفسیر، امثال القرآن، تفسیر البیان، ام الکتاب (تفسیر سورہ فاتحہ) القول المتین فی تفسیر سورہ والتین، باقیات ترجمان القرآن۔ دس جلدوں میں مولانا غلام رسول مہر نے سورہ والنور سے لے کر سورہ اخلاص تک جو آیات مولانا آزاد کی مختلف کتابوں میں درج کی تھیں اور اپنی تحریروں میں ان کی تشریح و توضیح کی ہے، جمع کر دی ہیں۔ جس کے شروع میں مہر صاحب نے ایک جامع و تحقیقی و علمی مقدمہ رقم فرمایا ہے جو 78 سفحات پر مشتمل ہے۔
مولانا ابوالکلام آزاد کا علمی مرتبہ و مقام کیا تھا اور تحریر و تقریر میں ان کی حیثیت کیا تھی۔ مولانا ظفر علی خاں فرماتے ہیں:
جہاں اجتہاد میں سلف کی راہ گم ہو گئی
ہے تجھ کو اس میں جستجو تو پوچھ ابوالکلام سے
اور مولانا حسرت موہانی فرماتے ہیں:
جب سے دیکھی ابوالکلام کی نثر
نظم حسرت میں کچھ مزا نہ رہا
مولانا محمد جوناگڑھی (م 1941ء)
مولانا محمد بن ابراہیم میمن جوناگڑھی جماعت اہل حدیث کے ممتاز عالم، خطیب اور جادو بیان مقرر تھے۔ جملہ علوم اسلامیہ کے متجر تھے اور علوم اسلامیہ پر ان کی نظر بہت وسیع تھی۔ فقہ حنفی پر ان کو مکمل دسترس حاصل تھی۔ مولانا عبدالوہاب دہلوی (1351ھ) اور مولانا محمد اسحاق منطقی جیسے فاضل اساتذہ سے تعلیم حاصل کی تھی۔ آپ صاحب تصانیف کثیرہ تھے۔ جن کی تعداد ایک سو کے قریب ہے۔ آپ کا سب سے بڑا علمی کارنامہ حافظ ابن القیم کی تصنیف اعلام الموقعین کا اردو ترجمہ بنام دین محمدی ہے۔
اس کے علاوہ تفسیر ابن کثیر کا اردو ترجمہ بنام تفسیر محمدی ہے۔ جو 3 پاروں میں دہلی سے شائع ہوئی۔ دوسری بار 1975ء میں ابن کثیر اکیڈیمی لاہور نے شائع کی۔ 1992ء میں اہل حدیث ٹرسٹ کراچی نے طبع دہلی کا فوٹو سٹیٹ شائع کیا۔ اسی طرح 1994ء میں مکبہ قدوسیہ لاہور نے تفسیر ابن کثیر کا یہ ترجمہ بڑی آب و تاب سے جدید کمپوزنگ میں شائع کیا ہے۔ جس میں دیگر امور کے ساتھ ساتھ جدید اردو زبان کا اہتمام خاص کیا گیا ہے۔
مولانا محمد جوناگڑھی نے 1941ء میں جوناگڑھ میں انتقال کیا۔
مولانا عبدالستار صدری دہلوی (م 1386ھ)
مولانا عبدالستار دہلوی (م 1386ھ) مولانا عبدالوہاب دہلوی (م 1351ھ) کے بڑے صاجزادے تھے۔ آپ نے جملہ علوم اسلامیہ و دینیہ کی تعلیم اپنے والد مولانا عبدالوہاب دہلوی سے حاصل کی۔ بڑے صاحب علم اور حلیم الطبع تھے۔ 23 سال کی عمر میں علوم متداولہ سے فراغت حاصل کی۔ آپ کی ساری زندگی قرآن و حدیث کی تدریس میں صرف ہوئی۔ 1961ء / 1385ھ کو کراچی میں انتقال کیا۔
تفسیری خدمات
تفسیری خدمات کے سلسلے میں قرآن مجید کا حاشیہ بنام فوائد ستاریہ کے نام سے لکھا۔ جو مطبوع ہے۔ اس کے علاوہ تفسیر سورہ فاتحہ ان کی بہترین تصنیف ہے۔ اس کتاب میں آپ نے بہت عمدہ تفسیری نکات بیان کئےہیں۔ اس کے علاوہ 16 سورتوں کی علیحدہ تفسیر لکھی ہے۔ سوری یٰسین اور سورہ یوسف کی بھی تفسیر لکھی ہے جبکہ سورہ والضحیٰ کی تفسیر منظوم پنجابی زبان میں بنام "اکرام محمدی" لکھی ہے۔
مولانا حافظ عبداللہ محدث روپڑی (م 1384ھ)
مولانا حافظ عبداللہ محدث روپڑی کا شمار مشہور علمائے حدیث میں ہوتا ہے۔ مولانا عبدالجبار غزنوی (م 1331ھ) کے شاگرد رشید تھے۔ جملہ علوم اسلامیہ کے متجر عالم تھے۔ تمام علوم دینیہ و اسلامیہ پر ان کی نظر وسیع تھی۔ علم کا سمندر تھے۔ اور اجتہاد و استنباط کا ایسا ملکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا کیا تھا کہ دقیق اور مشکل مسئلہ آسانی سے حل فرما دیتے تھے۔ مسائل کے علل پر عمیق نظر رکھتے تھے۔ فتویٰ نویسی میں آپ کو کمال حاصل تھا۔ آپ کے فتاویٰ بنام فتاویٰ اہل ھدیث 3 جلدوں میں شائع ہو چکے ہیں۔
تفسیر قرآن کے سلسلہ میں تفسیر کا سلسلہ تنظیم اہل حدیث روپڑ میں شروع کیا تھا۔ جو چند رکوعوں سے آگے نہ بڑھ سکا۔ تاہم اصول تفسیر پر "درایتِ تفسیری" کے نام سے ایک عمدہ اور مدلل کتاب لکھی جو اپنے موضوع کے اعتبار سے جامع اور لاجواب کتاب ہے۔
مولانا عبدالمجید خادم سوہدروی (م 1959ھ)
مولانا عبدالمجید خادم سوہدروی کا شمار برصغیر پاک و ہند کے ممتاز علمائے اہل حدیث میں ہوتا ہے۔ آپ مولانا عبدالمجید سوہدروی (م 1230ھ) شاگرد رشید مولانا شمس الحق آبادی (م 1239ھ) صاحب عون المعبود فی شرح سنن ابی داؤد کے صاجزادے، عارف باللہ، مولانا غلام نبی الربانی (م 1348ھ) مرید خاص عارف باللہ مولانا عبداللہ غزنوی (م 1298ھ) کے پوتے، استاد پنجاب شیخ الحدیث مولانا حافظ عبدالمنان محدث وزیر آبادی (م 1334ھ) کے نواسے، اور مولانا احمد علی لاہوری (م 1381ھ) کے داماد تھے۔ ہفت روزہ جریدہ "اہلحدیث" سوہدرہ اور ماہنامہ "مسلمان" سوہدرہ کے ایڈیٹر رہے۔ صاحب علم و فضل ہونے کے ساتھ ساتھ حاذق طبیب بھی تھے۔ 6 نومبر 1959ء کو انتقال کیا۔
تفسیری خدمات میں سورہ فاتحہ کی تفسیر لکھی۔ جو عجیب و غریب نکات پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ تفسیر المنار از علامہ رشید رضا مصری کی بعض چھوٹی سورتوں کی اردو میں تلخیص کی۔ جو خلاصہ تفسیر المنار کے نام سے شائع کی۔
مولانا رحیم بخش دہلوی (م 1314ھ)
مولانا ابو محمد رحیم دہلوی (1314ھ) مشہور اہل حدیث عالم تھے۔ ان کی دو مشہور کتابیں حیات ولی اور ھیات عزیزی ہیں۔ حیات ولی حکیم الامت شاہ ولی اللہ دہلوی (م 1176ھ) کی سوانح حیات اور ان کے علمی کارناموں پر مشتمل ہے۔ اور حیات عزیزی حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی (م 1239ھ) کی سوانح حیات اور ان کے علمی کارناموں پر مشتمل ہے۔
تفسیر قرآن میں "تفسیر اعظم التفاسیر" لکھی۔ جو دہلی سے شائع ہوئی۔ حاشیہ پر تفسیر سواطع الالہام (علامہ فیضی) بھی ہے۔ مختصر اور محققانہ تفسیر ہے۔
مولانا احتشام الدین مراد آبادی (م 1313ھ)
مولانا احتشام الدین مراد آبادی (م 1313ھ) مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی (م 1320ھ) کے شاگرد تھے۔ بڑے جید اور محقق عالم تھے۔ ان کی مشہور کتاب "نصیحۃ الشیعۃ" ہے۔ جو علمی حلقوں میں بڑی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔
تفسیر قرآن کے سلسلہ میں "اکسیر اعظم" کے نام تفسیر لکھنی شروع کی تھی۔ جس کی پہلی جلد پارہ اول تا پنجم 1303ھ میں مطبع احتشامیہ مراد آباد سے شائع ہوئی۔
یہ تفسیر مکمل ہوئی یا نہیں، اس کا علم نہیں ہو سکا۔
مولانا خواجہ عبدالحی فاروقی (م 1385ھ)
مولانا خواجہ عبدالحی فاروقی جماعت اہل حدیث کے ممتاز عالم دین تھے۔ تمام علوم اسلامیہ پر ان کو دسترس حاصل تھی۔ برسوں جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں شیخ التفسیر رہے۔ ان کے درس قرآن کی پورے ملک میں دھوم تھی۔ قیام پاکستان کے بعد لاہور آ گئے اور لاہور میں بھی آپ کا درس قرآن جاری رہا۔ 1385ھ میں لاہور میں انتقال ہوا۔
تفسیری خدمات
مولانا خواجہ عبدالحی فاروقی کے تفسیری خدمات کے سلسلہ میں امام خاں نوشہروی لکھتے ہیں کہ:
"خواجہ صاحب نے مروجہ بے دینی کی اصلاح کے لئے تفسیر قرآن کی ایک خاص طرز نکالی کہ قرآن کریم کی تنظیم و تحریص علی الجہاد پر ابھارنے والی آیات کو مناسب و بر محل استدلال کے ساتھ گم کردہ راہوں کو صراط مستقیم دکھانے کی کوششیں فرمائیں۔"
خواجہ صاحب کی جو تفسیر شائع ہو چکی ہے۔ اس کی تفصیل درج ذیل ہے۔
1۔ الخلافۃ الکبریٰ (تفسیر سورہ بقرہ)
2۔ بیان (تفسیر سورہ آل عمران)
3۔ صراط مستقیم (تفسیر سورہ انفال و توبہ)
4۔ عبرت (تفسیر سورہ یوسف)
5۔ سبیل الرشاد (تفسیر سورہ حجرات)
6۔ برہان (تفسیر سورہ نور)
7۔ سبل السلام (تفسیر پارہ 28)
8۔ ذکریٰ (تفسیر پارہ نمبر 30)
9۔ بصائر: اس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کے بارے میں آیات کی تفسیر درج ہے۔
مولانا حافظ محمد لکھوی (م 1312ھ)
مولانا حافظ محمد لکھوی بن حافظ بارک اللہ لکھوی (م 1312ھ) جماعت اہل حدیث کے مشہور عالم و فاضل اور صاحب کرامات بزرگ تھے۔ شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی (م 1320ھ) کے شاگرد رشید تھے۔ ان کی تمام زندگی درس و تدریس میں بسر ہوئی۔
آپ نے پنجابی زبان میں قرآن مجید کی تفسیر بنام تفسیر محمدی لکھی۔ اس تفسیر میں آیات کا ترجمہ فارسی میں ہے اور تفسیر پنجابی نظم۔ یہ تفسیر معالم التنزیل کا ترجمہ ہے۔ اس تفسیر سے پنجاب کے مسلمانوں خصوصا مستورات کو بہت فائدہ پہنچا۔
مولانا محمد حنیف ندوی (1987ء)
مولانا محمد حنیف ندوی جماعت اہل حدیث کے مشہور عالم تھے۔ مولانا محمد اسماعیل سلفی کے شاگرد تھے اور ندوہ میں مولانا حفیظ اللہ سے استفادہ کیا تھا۔ بڑے متجر عالم تھے۔ تمام علوم اسلامیہ میں ان کو دسترس حاصل تھی۔ فلسفہ پر بہت عبور اور درس قرآن میں خاص ملکہ حاصل تھا۔ مولانا محمد حنیف کئی سال تک الاعتصام کے ایڈیٹر رہے۔ بعد میں ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور سے وابستہ ہو گئے۔ اور زندگی کے آخری دن تک ادارہ ثقافت اسلامیہ سے ان کا تعلق قائم رہا۔ جولائی 1987ء میں مولانا محمد حنیف ندوی نے لاہور میں انتقال کیا۔
تفسیری خدمات
قرآن مجید سے متعلق مولانا محمد حنیف ندوی کا علم بہت وسیع تھا۔ فراغت تعلیم کے بعد ہی لاہور مسجد مبارک (اسلامیہ کالج ریلوے روڈ) میں درس قرآن کا سلسلہ شروع کیا۔ ان کا درس قرآن کئی سال تک جاری رہا۔ انہی ایام میں آہ نے "تفسیر سراج البیان" لکھی جو 5 جلدوں میں ہے۔ اور شیخ سراج الدین تاجر کتب کشمیری بازار لاہور نے شائع کی۔
مضامین قرآن اور لغات القرآن پر علمائے اہل حدیث کی تحریری خدمات
مضامین قرآن پر مولانا عبیداللہ، صاحب تحفۃ الہند (م 1310ھ) نے "فہرس المضامین من کلام رب العالمین" لکھی۔، مولانا عبداللہ محدث مچھیراوی (م 1348ھ) نے "البیان فی تراجم القرآن" رقم فرمائی۔ جو 1346ھ میں شائع ہوئی۔ شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری (م 1367ھ) نے القرآن العظیم کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں آپ نے بدلائل یہ ثابت کیا کہ قرآن مجید الہامی کتاب ہے۔
مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی نے تعلیم القرآن، تائید القرآن اور اعجاز القرآن کے نام سے کتابیں لکھیں۔ یہ تینون کتابیں عیسائی مصنفین کے جواب میں ہیں۔ جو انہوں نے قرآن مجید پر اعتراضات کئے۔
مولانا محمد حنیف ندوی (م 1987ء) نے مطالعہ قرآن کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ جو اپنے موضوع کے اعتبار سے بہت عمدہ کتاب ہے۔
لغات القرآن پر سب سے پہلے مولانا بدیع الزمان حیدر آبادی (م 1304ھ) "فتح المنان فی ترجمہ لغات القرآن" لکھی۔ اس کے بعد مولانا شہید الدین احمد جعفری بنارسی (م 1337ھ) کی "عمدہ لغات قرآن" شائع ہوئی۔ اور اسی دور میں مولانا محمد علوی ہزاروی حیدرآبادی (م 1336ھ) جو علامہ شیخ بن محسن انصاری الیمانی (م 1327ھ) کے شاگرد تھے نے "عجائب البیان فی لغات القرآن معہ نجوم الفرقان" کے نام سے کتاب لکھی جو 1346ھ میں لکھنؤ سے شائع ہوئی۔
مولانا محمد حنیف ندوی نے بھی لغات القرآن کے نام سے کتاب لکھنی شروع کی تھی۔ جس کی غالبا 2 جلدیں ابھی ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور سے شائع ہوئیں تھیں۔ مولانا محمد حنیف ندوی دارفانی سے دارالبقا کو سدہارہے۔
جماعت اہل حدیث کے نامور صاحب علم مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمۃ اللہ علیہ (م 1995ء) نے بھی لغات القرآن پر ایک مایہ ناز کتاب تالیف کی ہے۔ لغات القرآن پر "مترادفات القرآن" کے نام سے ایک ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل یہ کتاب قرآن مجید میں ہم معنی و مترادف الفاظ کے مابین فرق پر بحث کرتی ہے۔ الحمدللہ یہ فخر اہل حدیث کو حاصل ہے کہ اس موضوع میں اس درجہ کی کوئی کتاب اردو کیا عربی زبان میں بھی نہیں ہے۔ اس کتاب کو مولانا کیلانی نے اپنے مکتبہ السلام (وسن پورہ لاہور) سے 1989ء میں شائع کیا۔
اسی طرح مولانا عبدالرحمٰن کیلانی نے قرآن مجید کی تفصیلی تفسیر بھی تالیف فرمائی۔ جو آپ وفات سے قبل مکمل کر چکے تھے۔ یہ تفسیر ان دنوں طباعت کے مراحل میں ہے۔
مولانا محمد سلیمان کیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی بھی علوم قرآن پر ایک کتاب بنام "مرآۃ القرآن" ہے۔ جس کو مکتبہ السلام (وسن پورہ لاہور) نے شائع کیا ہے۔
استدراک تفاسیر قرآن مجید
مولانا محمد مظہر علی سہسوانی (م 1312ھ) نے تفسیر مظہر البیان کے نام سے تفسیر لکھی جو سورہ فاتحہ اور سورہ بقرہ کی تفسیر پر مشتمل ہے۔
مولانا سید امیر علی ملیح آبادی (م 1337ھ) نے 30 جلدوں میں قرآن مجید کی تفسیر بنام مواہب الرحمٰن (اردو) لکھی۔ جس میں احادیث و اقوال سلف کی مدد لی گئی ہے۔ یہ تفسیر مطبع نو لکشور لکھنؤ سے 1902ء میں شائع ہوئی۔ مجموعی صفحات کی تعداد 8500 ہے۔
مولانا ابوالبرکات عبیداللہ حیدر آبادی (م 1337ھ) نے تفسیر قرآن کے سسلہ میں درج ذیل کتابیں تصنیف کیں۔
1۔ علم الامر من القرآن (اردو) صفحات 32 سن اشاعت 1297ھ
اس میں فعل امر کی وضاحت اور ان کی تشریح 21 آیات قرآنی س کی گئی ہے اور پھر ہر آیت کی تفسیر بھی لکھی ہے۔
2۔ علم النہی من القرآن (اردو) صفحات 46 سن اشاعت 1333ھ
اس میں فعل امر کی طرح آیات نہی لکھ کر ان کی تفسیر کی ہے۔
3۔ علم التمنی من القرآن (اردو) صفحات 32، سن اشاعت 1334ھ
اس کتاب میں علم تمنی سے متعلق آیات لکھ کر ان کی تفسیر لکھی ہے۔
4۔ علم الترجی من القرآن (اردو) صفحات 40، سن اشاعت 1335ھ
اس کتاب آیات ترجی کو اکٹھا کر کے ان کی تفسیر لکھی ہے۔
5۔ علم النداء من القرآن (اردو) صفحات 14 سن اشاعت 1335ھ
اس کتاب میں آیات ندیٰ کو اکٹھا کر کے ان کی تفسیر لکھی ہے۔
6۔ علم الدعاء من القرآن 0اردو) صفحات 170 سن اشاعت 1333ھ
اس کتاب میں آیات دعائیہ کو جمع کیا گیا ہے اور ہر آیت کی تفسیر لکھی ہے۔
7۔ علم الاستفہام من القرآن (اردو) صفحات 24 سن اشاعت 1297ھ
اس کتاب آیات استفہام کو یکجا کر کے ان کی تفسیر لکھی ہے۔
8۔ علوم وجوہ المخاطبات من القرآن (اردو) صفحات 52 سن اشاعت 1336ھ
اس کتاب میں اصول مخاطبات کی آیات کی تفسیر کی گئی ہے۔
مولانا محمد ابوالقاسم سیف بنارسی (م 1368ھ) نے "جمع القرآن والحدیث" کے نام سے ایک رسالہ لکھا۔ جو 64 صفحات پر محیط ہے اور ثنائی برقی پریس امرتسر سے 1344ھ میں شائع ہوا۔ اسی رسالہ میں ثابت کیا گیا ہے کہ قرآن مجید کی موجودہ ترتیب عہد نبوی ہی کی ترتیب ہے۔ اسی طرح احادیث نبویہ کی کتابت کا آغاز بھی زمانہ رسالت میں ہو چکا تھا۔
مولانا محی الدین احمد قصوری بی-اے (م 1975ء) نے تفسیر سورہ فاتحہ (المنار) از علامہ رشید رضا مصری (م 1351ھ) کا اردو میں ترجمہ کیا اور اس کے ساتھ امام ابن تیمیہ (م 728ھ) کی تفسیر سورہ نور کا بھی اردو میں ترجمہ کیا۔
مولانا محمد علی قصوری ایم-اے (م 1956ء) نے بھی قرآن مجید کی بعض سورتوں کی تفسیر لکھی جو چھپ چکی ہیں۔ اور میری نظر سے گزری ہیں۔ غالبا 1989ء میں مولانا محمد علی کے صاجزادہ مقیم حال کراچی نے ایک مجموعہ تفسیر شائع کیا ہے جو میرے کتب خانہ میں بھی موجود ہے۔
مولانا محمد یوسف جے راج پوری (م 1350ھ) نے بھی سورہ فاتحہ کی تفسیر لکھی۔ کتاب کا نام "تفسیر فاتحہ الکتاب" ہے اور مطبوع ہے۔
مولانا عبدالرحیم پشاوری مرحوم و مغفور نے تفسیر سورہ نور از امام ابن تیمیہ (م 728ھ) کا ترجمہ کیا نیز تفسیر آیات کریمہ از امام ابن تیمیہ اور تفسیر معوذتین از امام ابن القیم (م 751ھ) کے اردو میں ترجمے کئے اور یہ ترجمے پہلی بار 1931ء میں مکتبہ علمیہ حیدرآباد دکن نے شائع کئے۔ مولانا عبدالرحیم نے پارہ 30 کی بھی مکمل تفسیر لکھی ہے جو 1343ھ میں مکتبہ علمیہ حیدرآباد دکن نے شائع کی۔
مولانا محمد عطاء اللہ حنیف (م 1987ء) جماعت اہل حدیث کے ممتاز عالم دین اور محقق تھے۔ تمام علوم اسلامیہ پر ان کی نظر وسیع تھی۔ حدیث اور اسماء الرجال پر ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ ان کے علمی ہنر کا اندازہ ان کی کتاب شرح سنن نسائی اور حواشی از امام احمد بن حنبل، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابن تیمیہ سے ہوتا ہے۔
تفسیر قرآن اور متعلقات تفسیر قرآن یعنی اصول تفسیر پر مولانا عطاءاللہ حنیف نے حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی (م 1176ھ) کی مشہور تصنیف الفوز الکبیر کا بزبان عربی حاشیہ لکھا ہے اور اس کے علاوہ امام ابن تیمیہ کے رسالہ اصول تفسیر جس کا ترجمہ مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی نے کیا تھا، کے حواشی مولانا عطاءاللہ مرحوم نے لکھے ہیں۔
مولانا محمد عطاءاللہ حنیف کا تفسیر قرآن کے سلسلہ میں تیسرا بڑا علمی کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے تفسیر احسن التفاسیر از مولانا احمد حسن دہلوی (م 1338ھ) میں درج احادیث کی تخریج کی ہے جبکہ تفسیر کی تہذیب و تنقیح حافظ عبدالرحمٰن گولڑوی نے کی ہے۔
لغات القرآن کے نام سے ایک کتاب مولانا سعید الدین احمد بنارسی (م 1293ھ) نے لکھی۔
مولانا محمد داؤد راغب رحمانی (م 1977ء) نے تفسیر ابن کثیر کا اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ جو تا حال طبع نہیں ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ النحل: 44 ۔۔۔ 2۔ آل عمران: 164 ۔۔۔ 3۔ البرہان: ج1، ص 13 ۔۔۔ 4۔ تفسیر روح المعانی: ج1، ص 175 ۔۔۔ 5۔ علوم القرآن: ص 226 ۔۔۔ 6۔ النساء: 69 ۔۔۔ 7۔ الاتقان فی علوم القرآن: ج2 ص 175 ۔۔۔ 8۔ النحل: 44 ۔۔۔9۔ تفسیر احسن التفاسیر: ج1، ص 32 ۔۔۔ 10۔ معارف القرآن: ج1، ص 51 ۔۔۔ 11۔ الاتقان فی علوم القرآن ۔۔۔12۔ اکسیر فی اصول التفسیر ۔۔۔ 13۔ تفسیر حقانی: ج1 مقدمہ ۔۔۔ 14۔ تراجم علمائے حدیث ہند: ج1 ص 36 ۔۔۔ 15۔ ترجمان القرآن: ج14 تفسیر سورہ تحریم ص: 369، مطبوعہ بھوپال ۔۔۔ 16۔ تکملہ تفسیر سورۃ تحریم: ج14 ۔۔۔ 17۔ جماعت اہل حدیث کی تصنیفی خدمات: ص 8 ۔۔۔ 18۔ ہندوستان میں اہل حدیث کی علمی خدمات: 158 ۔۔۔ 19۔ تراجم حدیث ہند: ص 36 ۔۔۔ 20۔ الحیاۃ بعد المماۃ: ص 664 ۔۔۔ 21۔ تراجم علمائے حدیث ہند: ج1، ص 168 ۔۔۔22۔ معارف اعظم گڑھ، مئی 1948ء بحوالہ ہندوستان میں اہل حدیث کی علمی خدمات: ص 24 ۔۔۔ 23۔ معارف اعظم گڑھ: ج 24 نمبر 4 ص 31، بحوالہ ہندوستان میں اہل حدیث کی علمی خدمات: ص 24 ۔۔۔ 24۔ ہندوستان میں اہل حدیث کی علمی خدمات: ص 25 ۔۔۔ 25۔ حیات وحید الزمان: ص 83 ۔۔۔ 26۔ مولانا ابوالکلام آزاد از افضل حق قریشی ۔۔۔ 27۔ہندوستان میں اہل حدیث کی علمی خدمات: ص 25