مسلمانوں کے لئے دورِ حاضر کے چند اہم مسائل
(سعودی عرب کے نائب مفتی اعظم کے جوابات)
مجلہ "الفرقان" جو جمعیت احیاء التراث الاسلامی، کویت سے ہر ماہ شائع ہوتا ہے، نے گذشتہ دنون سعودی عرب کے معروف عالم دین شیخ محمد صالح العثیمین حفظہ اللہ سے ایک خصوصی انٹرویو کیا اور ان سے چند اہم نوعیت کے سوالات کئے جنہیں ہم افادہ عام کے لئے اُردو میں پیش کر رہے ہیں۔
(1)الفرقان: کیا جہاد افضل ہے طلبِ علم؟
العثیمین: اس کا جواب مختلف لوگوں کے اعتبار سے مختلف ہے۔ سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ جہاد شرعی کا اصل مقصد اعلاء کلمۃ اللہ ہے۔ جب یہ حقیقت طے ہو چکی تو ہم لوگوں کے احوال کا جائزہ لے کر ان میں سے بعض کو تو جہاد کا حکم دیتے ہیں اور کچھ کو طلب علم کا، کیونکہ بہادر، جراءت مند، مضبوط جسم اور صاحبِ رائے کے لئے جہاد افضل ہے اور ادلہ شرعیہ سے استخراج مسائل کرنے والے اور صاحبِ عقل و دانش کے لئے طالبِ علم۔
یہ بات آپ کے علم ہونی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے طلب علم کو جہاد فی سبیل اللہ کے ہم پلہ قرار دیا ہے، چنانچہ فرمان الہیٰ ہے:
ترجمہ: "اور یہ مناسب نہیں کہ (ہر لڑائی میں) سب کے سب مسلمان نکل کھڑے ہوں، ایسا کیوں نہیں کرتے کہ ہر فرقے میں سے کچھ لوگ نکلیں تاکہ (جو لوگ نہیں نکلے اور مدینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہ گئے) وہ دین کی سمجھ حاصل کریں اور جب ان کی قوم کے لوگ (جہاد) سے لوٹ کر آئیں تو ان کو سنا دیں تاکہ وہ بچے رہیں" (التوبہ: 122)
(2) الفرقان: قانون ساز اسمبلیوں کی رکنیت کے متعلق کیا حکم ہے؟
العثیمین: میں قانون ساز اسمبلیوں کی رکنیت کو جائز سمجھتا ہوں۔ بشرطیکہ رکن اسمبلی اپنی رکنیت کے ذریعے (حکومت کے) کسی شر کو روکنے یا (پارلیمنٹ میں) خیر و بھلائی کی کسی بات کو پہنچانے کی امید رکھتا ہو، کیونکہ ایسی اسمبلیوں میں نیک لوگ جس قدر زیادہ ہوں گے اتنا ملک و قوم کو شر سے محفوظ اور آزمائش سے دور رکھنا ممکن ہو گا، اور رہی احترام آئین پر حلف برداری تو رکن اسمبلی کو چاہئے کہ وہ اس نیت سے حلف اٹھائے کہ وہ آئین کا احترام کرے گا بشرطیکہ وہ شریعت کے مخالف نہ ہو، اور "اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کے لئے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی"
رہا یہ کہ ان اسمبلیوں کو جاہل، فاسق، لادین اور ان جیسے دیگر لوگوں کے لئے چھوڑ دیا جائے تو یہ نہت بڑی غلطی ہے، اس سے کبھی مشکلات حل نہیں ہوں گی، اللہ کی قسم! ان اسمبلیوں کی رکنیت چھوڑنے میں اگر کوئی خیروبھلائی ہوتی تو ہم ضرور اس بات کا فتویٰ دیتے کہ ان سے دور رہنا ضروری ہے لیکن معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے، اور بعض اقات اللہ تعالیٰ کسی ایک انسان سے بہت کام لے لیتا ہے۔ بالخصوص اس وقت جب رکن اسمبلی معاملات کا ادراک رکھتا ہو، سمجھدار ہو، لوگوں کے حالات سے واقف اور دور اندیش ہو۔ قوت بیان کا مالک ہو اور فصاحت و بلاغت کے ساتھ اپنی دلیل منوا سکتا ہو تو ایوان میں موجود باقی تمام لوگ اس کا جواب دینے سے عاجز آ جاتے ہیں اور اس طرح بہت زیادہ خیر و بھلائی حاصل ہو سکتی ہے۔[1]
(3) الفرقان: کیا کافر پر لعنت کی جا سکتی ہے؟
العثیمین: کافر اگر زندہ ہو تو خاص کر کے اسے لعنت نہیں کی جا سکتی کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اس سے روکتے ہوئے فرمایا:
ترجمہ: "تجھے اس کام میں کوئی دخل نہیں (اللہ چاہے) تو ان کو توبہ کی توفیق دے یا (اگر چاہے) تو انہیں عذاب دے اس لئے کہ وہ ظالم ہیں" (آل عمران: 128)
اور اگر کافر کی موت بحالت کفر ہوئی ہو تو تب بھی اس پر لعنت بھیجنے میں کوئی خیروبھلائی نہیں ہے کیونکہ وہ تو بددعا کے بغیر ہی ملعون ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو مُردوں کو گالیاں دینے سے بھی منع فرمایا ہے:
ترجمہ: "مُردوں کو گالیاں مت دو کیونکہ وہ اپنے جائز انجام کو پہنچ چکے" (صحیح البخاری، کتاب الرقاق)
(4) الفرقان: ایک مسلمان کو اس وقت کیا کرنا چاہئے جب وہ کسی شخص کو ایسے ملک میں کھلم کھلا زنا کاری کرتے ہوئے دیکھ لے جہاں اگر زنا فریقین کی رضامندی سے ہو تو اسے جرم نہ سمجھا جائے اور شرعی حد بھی قائم نہ کی جائے؟
العثیمین: اسے نصیحت کرے کہ وہ اس بے حیائی سے توبہ کر لے کیونکہ اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرتا ہے، فرمانِ الہیٰ ہے:
ترجمہ: "اور جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور جس جان کو مارنا اللہ نے حرام کیا ہے اس کو حق کے سوا نہیں مارتے اور زنا نہیں کرتے، اور جو کوئی یہ کام کرے گا وہ اپنے کئے کا بدلہ پائے گا، اس کو قیامت کے دن دوگنا عذاب ہو گا اور وہ اس میں ہمیشہ ذلیل ہر کر رہے گا، سوائے اس شخص کے جس نے توبہ کر لی، ایمان لایا اور نیک عمل کرتا رہا تو اسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ نیکیوں سے بدل دے گا" (الفرقان: 28)
نصیحت کرنے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرانے کے بعد اگر وہ باز آ جائے تو یہ سب کے لئے باعث خیروبھلائی ہو گا اور اگر وہ باز نہیں آتا تو ناصح اپنا فریضہ ادا کر چکا اور اگر خود ناصح کو اندیشہ ہو کہ نصیحت کرنے کے بموجب اسے ہی گرفتار کر لیا جائے گا تو وہ نصیحت نہ کرے۔ (لیکن اس امر کو ہر دم برا جانے اور اس کو ختم کرنے کے لئے کوشاں رہے)
(5) الفرقان: کیا دین کے ساتھ استہزاء کرنے والے اور فاسق و فاجر رشتہ دار سے صلہ رحمی کرنا جائز ہے؟
العثیمین: دین کے ساتھ استہزاء کرنے والے رشتہ دار سے صلہ رحمی کرنا جائز نہیں بلکہ اسے چھوڑ دینا اور اس سے دوری اختیار کر لینا واجب ہے کیونکہ وہ مرتد اور واجب القتل ہے اور رہا فاسق و فاجر رشتہ دار تو اس کے متعلق غوروفکر کر لینا چاہئے۔ اگر صلہ رحمی کرنے سے اس کی ہدایت کی توقع ہو تو کر لینی چاہئے، ورنہ نہیں۔
(6) الفرقان: اس شخص کے متعلق کیا حکم ہے جو سودی معاملات اور معاہدے وغیرہ کمپیوٹر میں داخل (Feel) کرتا ہو؟ کیا وہ گناہگار ہو گا؟
العثیمین: ہاں، وہ گناہ گار ہو گا اور سود دینے اور سود کھانے والے کے برابر ہو گا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، سودی معاملات میں کسی کو وکیل بنانے والے، اس معاملے میں گواہ بننے والے اور اسی طرح سود لکھنے والے پر لعنت کی ہے اور فرمایا کہ یہ سب (گناہ میں) برابر ہیں۔
(7) الفرقان: اسلامی بنکوں میں جہاں کچھ سودی معاملات بھی چلتے ہوں، کام کرنے کا کیا حکم ہے؟
العثیمین: یہ انتہائی ضروری ہے کہ اسلامی بنک اپنا طرزِ عمل درست کریں اور مخالف شریعت معاملات میں ترمیم کریں، کیونکہ رزقِ حلال میں بہت زیادہ برکت ہے۔ رہا ان بنکوں میں کام کرنے والا تو اسے چاہئے کہ جب سودی معاملہ اس کے پاس پہنچے تو وہ (اسے کمپیوٹر میں داخل کرنے یا اس کا اندراج کرنے یا اس کا گواہ بننے سے) انکار کر دے۔
(8) الفرقان: ان انعامات کے متعلق کیا حکم ہے جنہیں خریداری کے ساتھ مشروط کر دیا جاتا ہے؟
العثیمین: اگر بیچنے والا اس بات کا اعلان کر دے کہ جس نے فلاں چیز اتنی مقدار میں کریدی، اس کے لئے فلاں انعام ہو گا اور پھر انعامات کا لالچ دے کر چیزوں کی قیمت میں اضافہ بھی نہ کرے اور ان چیزوں کو معمول کی قیمتوں میں فروخت کرے تو ایسی صورت میں اگر خریدار اعلان کردہ چیزوں میں سے کوئی ایک اپنی ضرورت کے مطابق خرید کر لے اور انعام کا مستحق بن جائے تو ایسا انعام وصول کرنے میں کوئی حرج نہیں، بشرطیکہ اگر وہ انعام کا مستحق نہیں ٹھہرتا تو اسے کوئی خسارہ بھی نہ ہو، اس لئے کہ مومن کا معاملہ یہ ہے کہ وہ یا تو غنیمت حاصل کرتا ہے یا خسارے سے محفوظ رہتا ہے اور اگر خریدار، خریداری ہی اس نیت سے کرے کہ وہ انعام پا لے تو ایسا کرنا اس کے لئے درست نہیں ہے۔
(9) الفرقان: عورت کا نماز میں اپنے ہاتھوں اور پیروں کو ننگا رکھنے کا کیا حکم ہے؟
العثیمین: بہت سارے علماء کے نزدیک عورت کو اپنے ہاتھ دستانوں یا چادر کے ایک پلو یا کسی اور کپڑے کے ساتھ ڈھانپنے چاہئیں، اور بعض علماء کے نزدیک عورت اپنے پیر بھی جرابوں یا کسی لمبی چادر سے ڈھانپے، لیکن وہ علماء جو چہرے اور ہاتھ پاؤں کا پردہ ضروری نہیں سمجھتے وہ بغیر دستوں اور جرابوں کے عورت کو نماز پڑھنے کی اجازت دیتے ہیں، اور رہا مرد تو اس کے لئے افضل یہی ہے کہ وہ اپنے چہرے اور ہاتھوں کو ننگا رکھے۔
(10) الفرقان: اور اس شخص کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے جو نیم برہنہ عورتوں میں سے کسی ایک کا نام لے کر اس پر لعنت بھیجے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کو دلیل بنائے کہ "تم بھی اس پر لعنت بھیجو کیونکہ وہ ملعون ہیں"
العثیمین: یہ درست نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان عورتوں کے وصف (نیم برہنہ لباس پہننے والیوں) کو عام کر کے ملعون کیا ہے، انہیں معین نہیں فرمایا۔ لہذا آپ بھی کسی عورت کا نام لئے (معین کئے) بغیر اس طرح کہہ سکتے ہیں: "نیم برہنہ لباس پہننے والی عورتوں پر اللہ کی لعنت ہو"
(11) الفرقان: ایسے صحت افزاء اداروں میں عورتوں کے جانے کا کیا حکم ہے جہاں مرد نہ جاتے ہوں، بے پردگی نہ ہوتی ہو اور عورتوں کو مفید ورزشیں کرائی جاتی ہوں؟
العثیمین: اگر صورت حال یہی ہو جو آپ نے ذکر کی ہے اور وہاں مردوزن کا اختلاط نہ ہوتا ہو تو عورت کے لئے ایسی حرکات میں کوئی حرج نہیں جو ممنوع نہ ہوں، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دوڑ کا مقابلہ کیا تھا اور دوڑ لگانا بھی ورزش کی ایک قسم ہے۔ لیکن ایک بات کا خیال رہنا چاہئے اور اس سے پرہیز کرنا ضروری ہے کہ عورتیں اگر ایسی ورزشیں کریں جس میں بے پردگی ہو اور ایسی حرکات ہوں جو خود عورتوں کے جذبات کو بھڑکائیں تو ایسی ورزش قطعا جائز نہ ہو گی۔
(12) الفرقان: مانع حمل دوائی یا غبارے وغیرہ کے استعمال کا کیا حکم ہے بالخصوص ان حالات میں جب کہ آدمی کو بچوں کی مناسب تربیت نہ کر سکنے کا خوف ہو؟
العثیمین: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے خلاف ہے کہ "تم زیادہ بچے جننے والی اور زیادہ محبت کرنے والی عورت سے شادی کرو کیونکہ میں تمہارے ذریعے فخر کر سکوں گا" اور ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ وہ برتھ کنٹرول کا ارادہ کرے اور اس کی موجودہ اولاد ایک ہی سال میں مر جائے، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ کم بچوں کی تربیت بھی نہ کر پائے، اس لئے وہ اپنے پروردگار کے ساتھ بدظنی کرنے کے بجائے حسن ظن رکھے اور غیر شرعی طریقوں سے پرہیز کرے، یہی اس کے لئے بہتر ہے۔
(13) الفرقان: ایک صاحبِ جائیداد کے پاس بیٹے بیٹیاں ہوں اور وہ اپنی بیٹیوں کے لئے بنک میں نقدی ورثہ محفوظ کر دینا چاہتا ہو تو کیا ایسا کرنا اس کے لئے جائز ہے؟
العثیمین: بعض علماء نے وارثوں میں سے کسی ایک کے لئے کچھ ترکہ خاص کرنے کی اجازت دی ہے بشرطیکہ وہ ترکہ وارث کے حصے سے زیادہ نہ ہو، سو اگر وہ اپنی بیٹیوں کے حصے کے بعد ان کے لئے نقدی مال بنک میں محفوظ کر دے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ تاہم یہ فقہاء کا موقف ہے جس پر میں مطمئن نہیں کیونکہ جو مال کسی ایک وارث کے لئے خاص کیا گیا ہو وہ اس کے مقررہ حصے سے زیادہ بھی ہو سکتا ہے اور کم بھی۔ اس لئے اگر وہ میراث کی تقسیم کو اللہ کے سپرد کر دے تو زیادہ اچھا ہو گا۔ عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے بیٹے کے لئے کوئی وصیت نہیں کی تھی اور ان سے پوچھا گیا تو جوابا فرمایا: "اگر میرا بچہ نیک ہے تو اللہ تعالیٰ نیکوں کا دوست ہوتا ہے اور اللہ کی سرپرستی میری سرپرستی سے بہتر ہے، اور اگر وہ نیک نہیں تو میں اس کی اس سلسلے میں مدد نہیں کرنا چاہتا کہ وہ برائی کرتا رہے۔"
(14) الفرقان: اس شخص کے متعلق کیا حکم ہے جو اپنے باپ سے ایسے مال کا وارث بنا جس میں ھرام کی ملاوٹ تھی؟
العثیمین: اگر یہ معلوم ہو کہ فلاں مال فلاں شخص سے بغیر حق کے لیا گیا ہے تو وہ اس آدمی کی طرف واپس لوٹانا ضروری ہو گا۔ اسی طرح اگر اس بات کا علم ہو جائے کہ زمین کا فلاں حصہ اس کے باپ نے فلاں آدمی سے چھین کر اس پر ناجائز قبضہ کر لیا تھا تو باپ کی وفات کے بعد یہ زمین اس کے وارثوں کے لئے حلال نہ ہو گی۔ رہی یہ بات کہ باپ کی کمائی حرام کی تھی، مثال کے طور پر یہ کہ وہ اپنی زندگی میں سود لیتا تھا جو کہ باہمی رضامندی سے لیا اور دیا جاتا ہے تو ایسی حالت میں گناہ گار باپ ہو گا نہ کہ اس کا وارث بیٹا۔
(15) الفرقان: واجب وصیت کون سی ہوتی ہے؟
العثیمین: یہ کہ وہ اپنے ان رشتہ داروں کے لئے وصیت کرے جو اس کے وارث نہ بنتے ہوں یا ایسے شخص کے حق میں وصیت کرے جس نے کسی کو قرضہ دیا ہو اور اس کی واپسی کی کوئی امید نہ ہو۔ فرمان الہیٰ ہے:
"تم پر یہ بات فرض کی گئی ہے کہ تم میں سے کوئی جب مرنے لگے اگر مال چھوڑ کر مرنے والا ہو تو ماں باپ اور عزیزوں کے لئے واجبی طور پر وصیت کرے، یہ ایک حق ہے پرہیز گاروں پر" (البقرہ: 180)
اس آیت سے وارث بننے والے عزیزوں کی تخصیص کر لی گئی ہے چنانچہ ان کے لئے وصیت نہیں کی جا سکتی۔
(16) الفرقان: قبرستان میں تعزیت کرنے کا کیا حکم ہے؟
العثیمین: یہ اگر اپنی جائز حد سے آگے نہ بڑھے تو جائز ہے کیونکہ لوگوں کے بقول یہ ان کے لئے اور میت کے ورثاء کے لئے بہ نسبت گھر میں تعزیت کے لئے بیٹھنے کے آسان ہے۔
(17) الفرقان: ایک دوست کے جیل میں جاتے وقت یا کسی معاملے مین تفتیش کے لئے اس کی پیشگی کے وقت میں نے ایک آدمی کو دوسروں سے یہ کہتے ہوئے سنا: " اپنے بھائی کے لئے ثابت قدمی کی دعا کرو کیونکہ اس سے ابھی سوال و جواب ہونے والا ہے" اس کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟
العثیمین: قرآن و سنت کے دلائل ٹھوس ہیں، ان میں سے کسی کو بطور دلیل تب پیش کیا جا سکتا ہے جب وہ صورت حال کے عین موافق ہوں، اور اگر اسے اس بات کے لئے دلیل بنایا جا رہا ہو جس سے وہ مطابقت نہ رکھتے ہوں تو یہ غلط ہے کیونکہ یہ اس کی معنوی تحریف کے مترادف ہے۔ ہاں بسورت مطابقت درست ہے، مثال کے طور پر (مال یا اولاد کی آزمائش کے موقع پر) اگر "(أَنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ)" کو پڑھا جائے تو اس میں کوئی حرج نہ ہو گا، لیکن اگر کسی قرآن آیت کو یا حدیثِ نبوی کو بطور مذاق یا ٹھٹھہ کے پیش کیا جائے تو یہ انتہائی خطرناک ہے۔
اور جو صورت آپ نے سوال میں ذکر کی ہے تو بہت بڑی غلطی ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تدفین کے موقع پر قبر کے پاس اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے کہی تھی۔ اگر کوئی شخص اس عظیم حدیث کو جو کہ اسے تدفین کے بعد والی حالت یاد دلاتی ہے کسی دوسرے معنی کے لئے بیان کرے تو یہ بڑی غلطی ہے، اور میری ایسے شخص کو نصیحت ہے کہ وہ توبہ کرے اور ایسی باتوں کو چھوڑ دے، تاہم یہ ارتداد نہیں خواہ کتنی بار ہو۔
(18) الفرقان: ایسی مرغی کا کیا حکم ہے جسے بجلی کے جھٹکے سے بے ہوش کر کے ذبح کر دیا گیا ہو اور ہمیں یہ معلوم نہ ہو سکے کہ وہ بے ہوشی کی حالت میں مردہ تھی یا زندہ؟
العثیمین: غالب گمان جب یہ ہو کہ وہ جھٹکے کے ساتھ مر جاتی ہے یا ہمیں اس کے مرنے کا شک ہو تو وہ حرام ہے اور اگر ہمیں یقین ہو کہ ہم نے اس کے مرنے سے پہلے اسے ذبح کیا ہے تو وہ حلال ہے۔ یہ حکم مرغی اور دوسرے جانوروں کے لئے یکساں ہے۔
(19) الفرقان: ایک شخص نے جہالت کی بنا پر طواف افاضہ چھوڑ دیا تو اس کا حج صحیح ہو گا یا گناہ گار ہو گا؟
العثیمین: میری رائے میں وہ گناہ گار تو نہیں البتہ اس کا حج نامکمل ہو گا، اس لئے اسے اپنے ملک سے مکہ دوبارہ آنا ضروری ہو گا۔ چونکہ میقات سے گذرتے ہوئے اس کا قصد حج کے بقیہ احکامات کو پورا کرنا ہے، اس لئے بہتر ہو گا کہ وہ عمرے کی نیت سے احرام باندھ لے، مکہ پہنچ کر طواف اور سعی کرے اور سر منڈوانے کے بعد طواف افاضہ کر لے۔
(20) الفرقان: آپ ہمیں کوئی پیغام دینا چاہیں یا نصیحت کریں؟
العثیمین: میں آپ کو اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں اور اس بات کی کہ جماعتوں اور فرقوں میں مت بٹیں۔ایک دوسرے کی غیبت نہ کریں، ایک دوسرے کو گمراہ مت کریں اور ایک امت بن جائیں، اخوانی، سلفی، اصلاحی اور تبلیغی ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کو گمراہ کہنا غلط ہے کیونکہ آپ سب ایک اُمت ہیں، لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ تفرقہ بندی کو جڑ سے اکھیڑ دیں، ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حالات درست فرمائے۔۔۔۔
[1] اسی موقف کو مشہور علماء کرام رحمۃ اللہ علیہم نے اختیار کیا ہے، ان میں سے چند ایک کے نام یہ ہیں: شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے شاگرد ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ، مفسر قرآن ابن سعدی رحمۃ اللہ علیہ، علامہ احمد شاکر رحمۃ اللہ علیہ، شیخ محمد امین الشنقیطی رحمۃ اللہ علیہ، شیخ ابن باز، شیخ عمر الاشقر، اور شیخ عبدالرحمٰن عبدالخالق