نسخ قرآن کا مسئلہ

نسخِ قرآن کا مسئلہ


"نسخ" کی لغوی تعریف
لغت میں "نسخ" کے دو معنی ہیں۔ ایک معنی ہیں "ازاله" یعنی زائل کر دینا، اسی سے یہ محاورہ مستعمل ہے: "نسخت الشمس الظل" یعنی سورج نے سایہ کو زائل کر دیا۔ دوسرے معنی میں نقل کرنا یا تحویل، جیسا کہ محاورہ ہے: "نسخت الكتاب" یعنی میں نے کتاب نقل کر لی گویا ناسخ یعنی نقل کرنے والے نے منسوخ کو یعنی جس سے اس نے نقل کی، ختم کر کے رکھ دیا یا اسے کوئی اور شکل دے دی۔ اسی طرح بولا جاتا ہے: "مناسخات في المواريث" یعنی وارث سے دوسرے کو مال منتقل کرنا اور "نسخت ما في الخلية من العسل والنحل الى اخرى"(1)
"نسخ" کی اصطلاحی تعریف
نسخ کی اصطلاحی تعریف کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ علامہ زین الدین عراقی و سخاوی رحمہما اللہ فرماتے ہیں:
"اصطلاحا هو رفع الشارع الحكم السابق من احكامه بحكم من احكامه "(2)
"اصطلاح میں اس کا مفہوم یہ ہو گا کہ شارع علیہ السلام نے پہلے کوئی حکم دیا، پھر بعد میں دوسرا حکم دے کر اس پہلے حکم کو ختم یا زائل کر دیا"
پھر اس کی مزید وضاحت فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:
"والمراد بارتفاع الحكم قطع تعلقه بالمكلفين والا فالحكم قديم لا يرتفع "(3)
یعنی "حکم کے رفع ہونے سے مراد مکلفین کا اس حکم سے تعلق کٹ جانا ہے ورنہ قدیم حکم رفع نہیں ہو گا"
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "نسخ هو بيان انتهاء الحكم"(4) یعنی "انتہاء حکم کے بیان کو نسخ کہتے ہیں" آں رحمہ اللہ نے ایک اور مقام پر نسخ کو "رفع الحکم"(5) سے تعبیر کیا ہے۔
آمدی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے:
"النسخ عبارة عن خطاب الشارع المانع من استمرار ما ثبت من حكم خطاب شرعى سبق" (الاحکام للآمدی ج3 ص 155)
یعنی "نسخ شارع کا وہ خطاب ہے جس کے ذریعہ سابقہ خطاب شرعی سے ثابت حکم کا استمرار ختم کر دیا جاتا ہے"
علامہ ابن حزم اندلسی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے:
"یہ کہنا کہ ایک حکم نے دوسرے حکم کو منسوخ کر دیا صحیح نہیں ہے بلکہ اس کی زیادہ صحیح تعبیر یہ ہو گی کہ ایک حکم کے بعد دوسرا حکم نازل ہوا"(6)
علامہ محمد بن حمزہ انصاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"نسخ ایک ایسی شرعی دلیل سے عبارت ہے جس سے سابقہ شرعی حکم کے عرصہ بعد دوسرا نیا اور آخری حکم ثابت ہوتا ہے"(7)
ابوبکر جصاص حنفی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے:
"نسخ کا مطلب حکم یا تلاوت کی مدت بیان کر دینا ہے"(8)
آں رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں:
"قرآن کی کسی آیت پر جب نسخ کا حکم لگایا جاتا ہے تو اس سے مراد آیت کا ازالہ نہیں ہوتا بلکہ مدعا یہ ہوتا ہے کہ آیت پر جو حکم لگا ہے یا لگا تھا وہ اس وقت کے زمانہ کے اعتبار سے تھا۔ حالات کے بدل جانے پر کسی طرح بھی وہ حکم مطلقا ممنوع نہیں ہوتا"(9)
علامہ تاج السبکی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے: انه رفع الحكم الشرعى الخطاب "
"آں رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں:
"انه اقرب الحدود "(10)
اور حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"نسخ سے مراد کسی تخصیص یا شرط کی بنا پر ظاہری معنی کو ترک کر دینا یا اسے اختیار کر لینا ہے"(11)
نسخ کی مزید لغوی و اصطلاحی تحقیق نیز دوسرے مباحث کے لئے الصحاح للجوھری،(12) القاموس المحیط للفیروز آبادی،(13)لسان العرب لابن منظور الافریقی(14)، مجمل اللغه،(15) مقیاس اللغه،(16) التبصرہ فی اصول الفقه للشیرازی،(17) المستصفی من علم الاصول للغزالی،(18) الفقہیہ والمتفقہ للبغدادی،(19) شرح اللمع للشیرازی(20)، ادب القاضی للحاوردی(21)، التمہید لابی الخطاب الحنبلی(22)، البرھان(23)، قواعد الأصول(24)، احکام الفصول للباجی(25)،الاحکام فی اصول الاحکام للآمدی(26)، الاحکام فی اصول الاحکام لابن حزم،(27) المسودۃ فی اصول الفقر (؟)(28) التقیید والایضاح للحافظ عراقی،(29) فتح المغیث للعراقی،(30)فتح المغیث للسخاوی، (31) علوم الحدیث،(32) فصول البدائع فی اصول الشرائع،(33) میزان الاصول،(34) تفسیر الکبیر للرازی،(35) مستھی الوصول والاصل،(36) الناسخ والمنسوخ لعبد القاھر للبغدادی،(37) الناسخ والمنسوخ لابن الجوزی، (38) الناسخ والمنسوخ لابی جعفر المخاس(39) الاعتبار فی الناسخ والمنسوخ من الاخبار للحازمی(40) الناسخ والمنسوخ لابن حزم، الناسخ والمنسوخ (؟) اور جامع الاصول لابن الاثیر(41) ، وغیرہ کی طرف مراجعت مفید ہو گی۔
نسخ کی حکمت
علامہ رشید رضا مصری فرماتے ہیں:
"جس طرح ایک معالج اپنے مریض کے نسخے میں حسب حالات تغیر و تبدل کرتا رہتا ہے، اسی طرح حاکم حقیقی بھی مصلحت اور اقتضاء وقت کے لحاظ سے اپنے احکام بدلتا رہتا ہے"(42)
علامہ ابن خلدون رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر لطف و کرم اور باعتبار مصالح شریعت میں تخفیف فرمانے کو نسخ کی حکمت قرار دیا ہے، چنانچہ علامہ عبدالرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ ناقال ہیں:
" قد ثبت فى شريعتنا جواز النسخ ووقوعة لطفا من الله بعباده وتخفيفا عنهم باعتبار مصالحهم التى تكفل لهم بها قال تعالى (مَا نَنسَخْ مِنْ ءَايَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَآ أَوْ مِثْلِهَآ ۗ ۔۔۔الخ) (43)
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر آنے والی نبوت اور ہر نازل ہونے والی کتاب نے سابقہ نبوت و کتاب کے بہت سے احکام کو منسوخ کر کے نئے احکام جاری کئے، اور بعض اوقات ایک ہی نبوت و شریعت میں کچھ عرصہ تک ایک حکم جاری رہا پھر اس کو بدل کر دوسرا حکم نافذ کر دیا گیا، چنانچہ "صحیح مسلم" وغیرہ میں ہے:
لم تكن نبوة قط إلا تناسخت (44)
"کبھی کوئی نبوت ایسی نہیں آئی جس نے احکام میں فسخ اور رد و بدل نہ کیا ہو"
علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس سنت الہیٰ سے نسخ کے وجود پر یوں استدلال فرمایا ہے:
ان وجود نسخ شرائع القديمة دليل وجوده في شريعة الاسلام (45)
"قدیم شریعتوں میں نسخ کا وجود شریعت اسلام میں بھی اس کے وجود پر دلالت کرتا ہے"
اس بارے میں مزید کچھ وضاحت ان شاءاللہ آگے پیش کی جائے گی۔
نسخ کی اقسام:
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے نسخ کی تقسیم اس طرح بیان کی ہے:
"والنسخ ثلاثة انواع احدها ما نسخت حكمه و تلاوته كعشر رضعات والثانى ما نسخت تلاوته دون حكمه كخمس رضعات وكالشيخ والشيخة اذا زنيا فارجموهما والثالث ما نسخ حكمه وبقيت تلاوته وهذا هو الاكثر ومنه قوله تعالى:﴿ وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لِّأَزْوَاجِهِم ... ٢٤٠﴾...البقرة (46)، (47)
یعنی "نسخ کی تین قسمیں ہیں۔ ایک تو وہ جس کا حکم اور تلاوت دونوں منسوخ ہیں جیسے رضاعت میں دس گھونٹ، دوسری قسم وہ کہ جس کی تلاوت منسوخ ہو لیکن حکم باقی ہو جیسے رضاعت میں پانچ گھونٹ اور اگر شادی شدہ مرد اور عورت زنا کا ارتکاب کریں تو انہیں سنگسار کیا جائے اور تیسری قسم یہ کہ جس کا حکم باقی نہ ہو لیکن اس کی تلاوت باقی ہو اور نسخ کی یہی قسم زیادہ ہے۔ مثلا اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ: وہ لوگ جو تم میں سے وفات پا کر بیویوں کو چھوڑ جاتے ہیں وہ اپنی بیویوں کے لئے وصیت کر جایا کریں"
پہلی قسم
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے نسخ کی پہلی قسم (یعنی حکم و تلاوت دونوں منسوخ ہونے) کے بارے میں یہ حدیث بطور مثال نقل کی ہے:
(عن عائشة : أنها قالت : كان فيما أنزل من القرآن عشر رضعات معلو مات يحرمن ، ثم نسخن بخمس معلو مات فتوفى رسول الله (صلی اللہ علیہ وسلم) وهن فيما يقرأ من القرآن.) (48)
"حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ قرآن میں تھا کہ اگر کوئی دس گھونٹ دودھ پی لے تو یہ حرمت میں داخل ہے پھر یہ حکم منسوخ ہو گیا اور پانچ گھونٹ پینا موجب حرمت ٹھہرا پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے اور یہ چیز قرآن میں تلاوت کی جاتی تھی۔۔۔ الخ"
دوسری قسم
نسخ کی دوسری قسم (یعنی تلاوت منسوخ لیکن حکم باقی) کے متعلق یہ مشہور حدیث بطور مثال پیش کی جا سکتی ہے:
"عن عبدالله ابن عباس ان عمر يعنى عمر ابن الخطاب خطب فقالإِنَّ اللَّهَ بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَقِّ ، وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ الْكِتَابَ ، فَكَانَ مِمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ آيَةُ الرَّجْمِ ، فَقَرَأْنَاهَا ، وَعَقَلْنَاهَا ، وَوَعَيْنَاهَا ، رَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَجَمْنَا بَعْدَهُ ، فَأَخْشَى إِنْ طَالَ بِالنَّاسِ زَمَانٌ أَنْ يَقُولَ قَائِلٌ : وَاللَّهِ مَا نَجِدُ آيَةَ الرَّجْمِ فِي كِتَابِ اللَّهِ ، فَيَضِلُّوا بِتَرْكِ فَرِيضَةٍ أَنْزَلَهَا اللَّهُ ۔۔الخ" (49)
یعنی "حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خطاب فرماتے ہوئے کہا کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا اور آپ پر کتاب نازل فرمائی تو جو کچھ اللہ نے آپ پر نازل کیا اس میں آیت رجم بھی ہے۔ ہم نے اس آیت کی تلاوت کی اور اس کو محفوظ کر لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود رجم فرمایا اور ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد رجم کیا لیکن مجھے خوف ہے کہ جب لوگوں پر زیادہ زمانہ گذر جائے گا تو کہنے والا یہ نہ کہے کہ کتاب اللہ میں ہمیں آیت رجم نہیں ملتی۔ اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ اس فریضہ کو ترک کر کے ضلالت و گمراہی میں جا پڑیں گے"
بعض منکرینِ نسخ نے ان احادیث کا انکار کیا ہے، چنانچہ علامہ زرکشی رحمۃ اللہ علیہ نے قاضی ابوبکر باقلانی کے حوالہ سے لکھا ہے:
"قاضی ابوبکر آیت رجم اور دیگر (منسوخ التلاوۃ) آیات کو قرآن کا حصہ تسلیم نہیں کرتے تھے۔ ان کا قول ہے کہ "(لا يجوز القطع على انزال قرآن ونسخه باخبار آحاد لا حجة فيها)" (یعنی اخبار آحاد کے ذریعہ انزال قرآن اور اس کے نسخ کو قطعی سمجھنا جائز نہیں ہے کہ اس میں کوئی دلیل نہیں ہوتی)" (50)
علامہ ابو عبداللہ بن ظفر صقلی رحمۃ اللہ علیہ (567ھ) نے بھی اپنی کتاب "الینبوع" میں بطریق آحاد مروی ہونے کے باعث آیت رجم کو جزو قرآن تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔(51)
لیکن ان کا جواب دیتے ہوئے علامہ ابن حزم اندلسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
(قد قال قوم فى آية الرجم انها لم تكن قرآنا و فى ايات الرضعات كذالك ونحن لانابى هذا ولا نقطع انها كانت قرانا متلوا فى الصلوات ولكنا نقول) (52)
یعنی "بعض لوگوں کا آیت رجم کے متعلق کہنا ہے کہ یہ قرآن کا جزو نہ تھی اور اسی طرح آیات رضعات بھی قرآن کا حصہ نہ تھیں، ہم نہ ان کا انکار کرتے ہیں اور نہ ہی ان کے جزو قرآن ہونے کی قطعیت کے قائل ہیں۔ اسی طرح پر کہ نمازوں میں ان آیات کی تلاوت بھی کی جاتی ہو لیکن (احادیث واردہ کی روشنی میں) ہم ایسا ہی کہتے ہیں"
بعض معتزلہ یا اعتزال سے متاثر فقہاء نے منسوخ التلاوۃ لیکن باقی الاحکام آیات کی اس تقسیم پر بھی اعتراضات کئے ہیں، چنانچہ ابواسحاق شیرازی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے:
(وقالت طائفة لا يجوز نسخ التلاوة مع بقاء الحكم لان الحكم تابع التلاوة فلا يجوز ان يرتفع الاصل ويبقى التابع) (53)
یعنی "ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ یہ جائز نہیں ہے کہ تلاوت تو منسوخ ہو لیکن حکم باقی ہو کیونکہ حکم تلاوت کے لئے تابع کی حیثیت رکھتا ہے، پس یہ جائز نہیں ہے کہ اصل تو رفع ہو جائے، لیکن تابع باقی رہ جائے"
اور صدر الشریعہ کا قول ہے:
(لان النص بحكمه والحكم بالنص فلا انفكات بينهما) (54)
یعنی "نص اپنے حکم کے ساتھ ہی نص ہے اور حکم نص کے ساتھ، لہذا ان دونوں میں تفریق ممکن نہیں ہے"
مصطفیٰ خفاجی بعض معتزلہ کے اس انکار کی دلیل نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
(بأن رفع التلاوة دون الحكم ورفع الحكم دون التلاوة ايقاع فى الجهالة لان الاصل فى بقاء التلاوة بقاء حكمها وفى رفعها رفع حكمها) (55)
یعنی "کیونکہ تلاوت کے منسوخ ہونے اور حکم کے باقی رہنے یا حکم کے رفع ہو جانے اور تلاوت کے باقی رہنے سے اللہ کا نسیان جہالت میں واقع ہونا لازم آتا ہے (فنعوذ بالله من ذلك) کیونکہ تلاوت کو محفوظ رکھنا دراصل حکم کو محفوظ رکھنا ہے اور اس کا نسخ اس کے حکم کا بھی نسخ ہے"
امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے ان تمام اعتراضات کے خوب تفصیلی جوابات رقم فرمائے ہیں لیکن بخوف طوالت ہم یہاں ان اعتراضات اور ان کے جوابات کو نقل کرنے سے گریز کرتے ہیں، مختصرا یہ سمجھ لیں کہ:
(إن هذا لهو الضلال البعيد والعناد الشديد والجهل والقحة الزائدة) (56)
یعنی "(جو لوگ نسخ قرآن کے بارے میں مختلف وسواس کا شکار ہیں) وہ انتہا درجہ گمراہی، شدید عناد، جہالت اور خرافات میں مبتلا ہیں"
کیونکہ اللہ عزوجل کے متعلق ہر ذی عقل اس حقیقت کا معترف ہے کہ "(لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ)" یعنی "اللہ عزوجل اپنے ہر فعل کے لئے غیر مسئول ہے"
علامہ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
(وما ههنا شيء أصلا إلا أن الله تعالى أراد أن يحرم علينا بعض ما خلق مدة ما، ثم أراد تعالى أن يبيحه وأراد أن يبيح لنا بعض ما خلق مدة ما، ثم أراد تعالى أن يحرمه علينا ولا علة لشيء من ذلك كما لا علة لبعثه محمدا عليه الصلاة والسلام في العصر الذي بعثه، دون أن يبعثه في العصر الذي كان قبله، وكما لا علة لكون الصلوات خمسا، دون أن تكون ثلاثا أو سبعا.) (57)
"یہاں ان تمام اعتراضات کے بارے میں اصل چیز یہ ہے کہ (یہ اللہ عزوجل کا ہی منشاء و مصلحت تھی) کہ اس نے جس چیز کو ہمارے لئے کچھ مدت تک حرام بنائے رکھا پھر اسے ہی مباح کر دیا اور اسی طرح اپنی پیدا کردہ بعض اشیاء کو ایک مدت تک ہمارے لئے مباح رکھا پھر اسے ہمارے لئے حرام کر دیا۔ ان چیزوں کی کوئی علت اور وجہ نہیں بیان کی جا سکتی ہے جس طرح کہ اس کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جس خاص زمانے میں مبعوث فرمائے گئے اس سے قبل کے زمانہ میں کیوں نہ مبعوث کئے گئے؟ یا اسی طرح اس کی بھی کوئی معقول وجہ نہیں بتائی جا سکتی ہے کہ نماز پانچ اوقات ہی کی کیوں فرض ہے؟ سات یا تین وقتوں کی کیوں نہیں ہے۔ وغیرہ"
تیسری قسم
نسخ کی تیسری قسم (یعنی تلاوت باقی اور حکم منسوخ) کے بارے میں چند مثالیں پیش خدمت ہیں:
1۔ آیت "(لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ ﴿٦)" (58) یعنی "تمہارے لئے تمہارا دین اور میرے لئے میرا دین ہے" ۔۔ لیکن سورۃ الکافرون کا یہ جزء منسوخ الحکم ہے، اگرچہ اس کی تلاوت باقی ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین عرب کو دعوت اسلام دینے کے لئے مبعوث کئے گئے تھے نہ کہ ان کے اپنے دین پر قائم رہنے پر اپنی رضامندی کے اظہار کے لئے۔ پس ایک خاص حالت میں جب کہ مشرکین غالب تھے اور انہوں نے نہ صرف دعوت الہیٰ کا انکار کیا بلکہ تمسخر بھی ارایا تو اللہ عزوجل کی جانب سے یہ کہا گیا کہ اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! "آپ ان کافروں سے صاف صاف فرما دیجئے کہ کافرو! میں نہ تمہارے معبودوں کی پرستش کرتا ہوں اور نہ تم میرے معبود کی پرستش کرتے ہو اور نہ میں تمہارے معبودوں کی پرستش کروں گا اور نہ تم میرے معبود کی پرستش کرو گے۔ پس تمہارے لئے تمہارا اور میرے لئے میرا دین ہے۔"
امام رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
(كلا فإنه عليه السلام ما بعث إلا للمنع من الكفر فكيف يأذن فيه ، ولكن المقصود منه أحد أمور : أحدها : أن المقصود منه التهديد ، كقوله اعملوا ما شئتم .) (59)
"ایسا مفہوم ہرگز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نہیں ہو سکتا۔ آپ کفر کی چھوٹ کیوں دے سکتے تھے  جب کہ آپ کو صرف اس سے روکنے کے لئے ہی مبعوث کیا گیا تھا۔ لیکن اس سے مقصد ان امور میں سے کوئی ہو سکتا ہے۔ پہلا یہ کہ یہ الفاظ تہدید کے طور پر استعمال ہوئے ہوں جیسے کہ "(اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ)" کے الفاظ میں فرمایا گیا ہے۔۔الخ"
2۔ دوسری مثال سورۃ البقرہ کی مندرجہ ذیل آیت ہے:
(وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لِّأَزْوَاجِهِم مَّتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ ۚ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِي مَا فَعَلْنَ فِي أَنفُسِهِنَّ مِن مَّعْرُوفٍ ۗ ) (60)
یعنی "اور جو لوگ تم میں سے وفات پاکر بیویوں کو چھوڑ جاتے ہیں، وہ اپنی بیویوں کے واسطے ایک سال تک منتفع ہونے کی وصیت کر جایا کریں اس طرح کہ وہ گھر سے نہ نکالی جائیں۔ ہاں اور وہ خود نکل جائیں تو تم پر اس بارے میں کہ جس کو وہ اپنے بارے میں معروف طریقہ پر کریں کوئی حرج نہیں ہے"
اس آیت میں مذکور بیوہ کی عدت (ایک سال) کو مندرجہ ذیل آیت نے منسوخ کر کے چار ماہ دس دن کر دیا ہے:
(وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ۖ) (61)
یعنی "اور جو لوگ تم میں سے وفات پا کر بیویاں چھوڑ جاتے ہیں وہ بیویاں اپنے آپ کو چار ماہ دس دن (نکاح کے بغیر) روکے رکھیں"
اور بیوی کی اس ایک سال مدت کفالت کے حکم کو ترکہ میں حصہ دار بنا کر مندرجہ ذیل آیت نے منسوخ کر دیا ہے۔"
(وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم ۚ مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۗ) (62)
نسخ قرآن پر تمام اہل شرائع کا اتفاق
متقدمین علماء ہوں یا متاخرین تمام وقوع نسخ کے قائل چلے آئے ہیں۔ باوجود تھوڑے بہت اختلاف کے۔ وقوع نسخ کا سوائے احناف و حنابلہ کی ایک جماعت کے کسی نے بھی انکار نہیں کیا ہے۔ ان منکرین کا کہنا یہ ہے کہ "(إذا انتفى الحكم فلا فائدة في التلاوة)" (63) یعنی "جب حکم کی نفی ہو گئی تو تلاوت کے باقی رکھنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے" ۔۔۔ لیکن اس کے برخلاف نسخ کے وجود و وقوع کے متعلق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین رحمۃ اللہ علیہم اور محدثین رحمۃ اللہ علیہم و مفسرین رحمۃ اللہ علیہم کے اس قدر آثار و اقوال موجود ہیں کہ ان کا یہاں نقل کرنا محال ہے۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر "روح المعانی میں درست فرمایا ہے کہ: "(واتفقت أهل الشرائع على جواز التنسيخ ووقوعه)" یعنی "تمام اہل شرایع کا نسخ کے جواز اور وقوع دونوں پر اتفاق ہے"
نسخ  قرآن کا انکار ایک جدید فتنہ ہے
ماجی قریب میں مفتی محمد عبدہ مصری (1905ھ)، سرسید احمد خاں (1898ء) تمنا عمادی پھلواروی، ڈاکٹر غلام جیلانی برق (صاحب دو اسلام)، جناب عمر احمد عثمانی ابن ظفر احمد تھانوی عثمانی (صاحب فقه القرآن) جناب رحمت اللہ طارق (صاحب تفسیر منسوخ القرآن) جناب غلام اللہ خاں اور جناب حبیب الرحمٰن صدیقی کاندھلوی (صاحب مذہبی داستانیں اور ان کی حقیقت) وغیرہم نے قرآن کے ہر قسم کے نسخ کا انکار کیا ہے حتیٰ کہ ان کے نزدیک قرآن کا قرآن سے نسخ بھی جائز نہیں ہے۔ یہاں ان تمام حضرات کے اقوال و اقتباسات نقل کرنا طول محض کا سبب ہو گا لہذا ذیل میں صرف ایک اقتباس بطور مثال پیش خدمت ہے:
جناب سرسید احمد خان فرماتے ہیں:
"ہم ان باتوں پر اعتقاد نہیں رکھتے اور یقین جانتے ہیں کہ جو کچھ خدا کی طرف سے اترا وہ بے کم و کاست موجودہ قرآن میں جو در حقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ حیات میں تحریر ہو چکا تھا موجودہ ہے اور کوئی حرف بھی اس سے خارج نہیں ہے اور نہ ہی قرآن مجید کی کوئی آیت منسوخ ہے"(64)
اور محمد عبدہ مصری کی رائے کے لئے "تفسیر المنار"(65) کی طرف مراجعت مفید ہو گی۔
لیکن ہمارے نزدیک ان حضرات کے دلائل (جو دراصل دینی دلائل سے زیادہ مغالطات و شبہات ہیں) اس قدر قوی نہیں ہیں کہ جس قدر اس بارے میں ان لوگوں کو اصرار ہے۔ چونکہ یہ ایک علیحدہ اور مستقل موضوع ہے، لہذا ہم یہاں اس بحث سے صرف نظر کرتے ہیں۔
ناسخ و منسوخ کے علم کی ضرورت و اہمیت
صحیح فہم قرآن کی سعادت سے بہرہ ور ہونے کے لئے ضروری ہے کہ کسی مسئلہ کے متعلق قرآن میں جس قدر احکام آئے ہیں ان سب کو یکجا کر کے پتہ لگایا جائے کہ کون سا حکم کس زمانہ کے لئے تھا اور کون سا کس زمانہ کے لئے ہے؟ اس کا مورد و محل کیا ہے؟ اور دوسرے کا کیا؟ قرآن کی کون سی آیت محکم ہے؟ اور کون سی نہیں؟ اسی طرح کون سی آیت ناسخ ہے؟ اور کون سی منسوخ؟ اس علم کی معرفت کی ضرورت و اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ خاص اس موضوع پر محدثین کرام نے مستقل تصانیف مرتب کی ہیں۔ صاحب "کشف الظنون" نے دس اور علامہ عبدالرحمٰن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ نے چودی ایسی تصانیف کا تذکرہ کیا ہے۔(66)
جو شخص احکام متنوعہ کے ان باہمی فرق کو نظر انداز کر کے ان میں خاص توازن، ترتیب و تناسب پیدا کرنے کی سعی پیہم نہیں کرتا، اس کو قدم قدم پر مشکلات پیش آتی ہیں، شاید اسی لئے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ "جو شخص بھی ناسخ و منسوخ کا علم نہیں رکھتا اس کا رجوع الی القرآن باعث ہلاکت ہے"(67)
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ انہی مشکلات کے پیش نظر عام مستشرقین قرآن میں تضاد بیانی اور سوئے ترتیب کا شکوہ کیا کرتے ہیں۔ (جاری ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ فتح المغیث للسخاوی ج4 ص 46، فتح المغیث للعرافی ص 330، تیسیر مصطلح الحدیث لدکتور محمود الطحان مترجمہ ص 61-62۔۔۔ 2۔فتح المغیث للعرافی ص 330، فتح الغیث للسخاوی ج4 ص 46 و کما فی تقریب النواوی مع تدریب ج2 ص 191، مقدمہ ابن الصلاح ص 239، التقیید والایضاح للعراقی ص 239، شرح نخبۃ الفکر، قواعد التحدیث للقاسمی ص 316، تحفۃ اہل الفکر ص 16، تیسیر مصطلح الحدیث للطحان مترجمہ 61-62۔۔۔3۔ فتح المغیث للعراقی ص 330، فتح المغیث للسخاوی ج4 ص 46-47۔۔۔4۔ فتح الباری لابن حجر ج5 ص 281۔۔۔5۔ نفس مصدر ج13 ص 486۔۔۔6۔ الاحکام فی اصول الاحکام لابن حزم ج4 ص 59۔۔۔7۔ فصول البدائع فی اصول الشرائع ج2 ص 9-10 (طبع استنبول 1289ھ) ۔۔۔ 8۔ احکام القرآن للجصاص ج1 ص 97 طبع قسطنطنیہ 1338ھ۔۔۔9۔ نفس مصدر ج1 تفسیر سورۃ البقرہ آیت 1-8۔۔10۔ کما فی فتح المغیث للسخاوی ج4 ص 45۔۔۔11۔ اعلام الموقعین لابن قیم ج1 ص 29۔۔۔12۔ ج1 ص 433۔۔۔13۔ ج1 ص 271۔۔۔14۔ ج3 ص 61۔۔۔15۔ ج4 ص 400۔۔۔16۔ ج3 ص 444-445۔۔۔17۔ ص 251۔۔۔18۔ ج1 ص 107۔۔۔19۔ ج1 ص 80۔۔۔20۔ ج1 ص 481۔۔۔ 21۔ ج1 ص 333۔۔۔22۔ ج3 ص 333۔۔۔23۔ ج2 ص 1293۔۔۔24۔ ص 114۔۔۔25۔ ج1 ص 389-390۔۔۔26۔ ج3 ص 146-156۔۔۔27۔ ج4 ص 59۔۔۔28۔ ص 195۔۔۔ 29۔ ص 339۔۔۔30۔ ص 330-332۔۔۔31۔ ج4 ص 4946۔۔۔32۔ ص 250-220۔۔۔33۔ ج2 ص 131۔۔۔34۔ ص697۔۔۔35۔ج1 ص 657-658۔۔۔36۔ ص 153-154۔۔۔37۔ ص 39-42۔۔۔38۔  ص 90۔۔۔39۔ ص 7-8۔۔۔40۔ ص 7-8۔۔۔41۔ ج1 ص 145۔۔۔42۔ تفسیر المنارج ج1 ص 416 طبع مصر 1373ھ۔۔۔43۔ کما فی مقدمہ تحفۃ الاحوذی ص 144۔۔۔44۔ صحیح المسلم کتاب الزہد باب نمبر 14، مسند احمد ج4 ص 174۔۔45۔ ارشاد الفحول للشوکانی ص 62۔۔۔46۔ البقرۃ۔ 240۔۔۔47۔ شرح صحیح المسلم للنووی ج4 ص 468 طبع اصح المطابع دہلی  1376ھ، افادۃ الشیوخ بمقدار الناسخ والمنسوخ ص 9 للنواب صدیق حسن خان مطبع نظامی کانپور 1304ھ، تحفۃ الاحوزی للمبارکفوری ج2 ص 199، عون المعبود للعظیم آبادی ج2 ص 182 ملخصا۔۔۔48۔ شرح صحیح المسلم للنووی ج1 ص 468-469، تحفۃ الاحوذی ج2 ص 199، موطا امام مالک ج2 ص 45، سنن النسائی ج2 ص 73، الناسخ والمنسوخ لابی جعفر النحاس ص 10۔۔۔ 49۔ سنن ابی داؤد مع عون المعبود ج4 ص 250-251، صحیح البخاری مع فتح الباری ج12 ص 144، صحیح المسلم باب رجم الثیب نمبر 1691، جامع الترمذی مع تحفۃ الاحوذی ج2 ص 322، الموطا ج2 ص 824، مسند احمد 1 ص 23، مصنف عبدالرزاق ج7 ص 315، مصنف ابن ابی شیبہ ج3 ص 832، الکفایۃ للخطیب ص 11، المغنی لابن قدامہ ج8 ص 150-158۔۔۔50۔ البرھان فی علوم القرآن للزرکشی ج2 ص 40 طبع عیسیٰ البابی۔۔۔51۔ نفس مصدر ج2 س 36۔۔۔52۔ الاحکام ج4 ص 29۔۔۔53۔ اللمع فی اصول الفقہ ص 38۔۔۔54۔ التوضیح ج2 ص 26۔۔۔55۔ صفوۃ الکلام فی اصول الاحکام ص 130۔۔۔56۔ الاحکام فی اصول الاحکام ج4 ص 32۔۔۔57۔ نفس مصدر ج4 ص 59۔۔۔58۔ الکافرون۔6۔۔۔59۔ تفسیر الکبیر للرازی ج30 ص 147۔۔۔60۔ البقرہ۔ 240۔۔۔61۔ البقرہ۔ 234۔۔۔62۔ النساء۔12۔۔۔63۔ ارشاد الفحول للشوکانی ص 189۔۔۔64۔ تفسیر القرآن از سرسید احمد خاں ج1 ص 176-221 طبع لاہور 1891ء۔۔۔65۔ تفسیر المنار ج1 ص 417 ج2 ص 136-138، طبع اول مصر۔۔۔66۔ تحفۃ الاحوذی للمبارکفوری ص 144-145۔۔۔67۔ الاعتبار للحازمی ص 3