کیا کوئی عاقلہ بالغہ مسلمان لڑکی اہل خاندان یا ولی کی رضامندی کے بغیر اپنا نکاح از خود کر سکتی ہے؟

اس سلسلہ میں علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے "فیض الباری علی صحیح البخاری" میں فقہی مذاہب کی جو تفصیل بیان کی ہے، اس کا خلاصہ درج ذیل ہے:
1۔ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد گرامی یہ ہے کہ عاقلہ بالغہ کنواری لڑکی ولی کی رضامندی اور اجازت کے بغیر نکاح نہیں کر سکتی بلکہ ولی کی اجازت اور رضا کی صورت میں بھی ایجاب و قبول کا اختیار لڑکی کو حاصل نہیں ہے بلکہ اس کی طرف سے یہ ذمہ داری ولی سر انجام دے گا۔
2۔ احناف میں سے حضرت امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ بھی یہ ہے کہ عاقلہ بالغہ لڑکی ولی کی رضا  کے بغیر نکاح نہیں کر سکتی البتہ ولی کی رضا اور اجازت کی صورت میں ایجاب و قبول وہ خود کر سکتی ہے۔
3۔ امام اعظم حضرت ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب یہ ہے کہ عاقلہ بالغہ لڑکی اپنا نکاح ولی کی اجازت کے بغیر بھی کر سکتی ہے البتہ اسے اس طرح اپنا نکاح کرنے کی صورت میں "کفو" کے تقاضوں کا لحاظ رکھنا ہو گا اور اگر اس نے ولی کی اجازت کے بغیر "غیر کفو" میں نکاح کر لیا تو ولی کو نہ صرف اعتراض کا حق ہے بلکہ وہ تنسیخ نکاح کے لئے عدالت سے رجوع کر سکتا ہے۔
# فقہ جعفریہ کے مطابق باکرہ کے لئے باپ یا دادا کی اجازت ہونا احتیاط واجب ہے (جامعۃ المنتظر، لاہور)
4۔ "کفو" کا مفہوم فقہائے کرام کے ارشادات کی روشنی میں یہ ہے کہ کسی لڑکی کا نکاح ایسی جگہ نہ ہو جہاں لڑکی کا ولی اور اہل خاندان اپنے لئے عار محسوس کریں۔ "کفو" کے اسباب فقہائے کرام رحمۃ اللہ علیہم نے اپنے اپنے عرف اور ذوق کے مطابق مختلف بیان کئے ہیں جن سب کا خلاصہ یہ ہے کہ لڑکی اور اس کا خاندان جس سوسائٹی میں رہتے ہیں وہاں کے عرف اور معاشرتی روایات کے مطابق جو بات بھی ان کے لئے باعث عار سمجھی جاتی ہو وہ "کفو" کے اسباب میں شامل ہو گی کیونکہ "کفو" کی علت سب فقہاء نے "دفع ضرر عار" بیان کی ہے اور عار کے اسباب ہر معاشرہ اور عرف میں مختلف ہوتے ہیں۔
5۔ اس تفصیل کی روشنی میں دیکھا جائے تو حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا موقف سب سے زیادہ قرین انصاف اور متوازن معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس میں لڑکی اور اس کے ولی دونوں کی رائے کا لحاظ رکھا گیا ہے اور اسی بنیاد پر علامہ سید محمد انور کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب یہ بیان کیا ہے کہ نکاح میں لڑکی اور اس کے ولی دونوں کی رضا کا اکٹھا ہونا ضروری ہے اور یہ بات انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہے اس لئے کہ نکاح صرف دو افراد کے باہمی تعلق کا نام نہیں بلکہ دو خاندانوں کے باہمی تعلقات، معاشرہ میں ان کی عزت و وقار، اولاد کی کفالت و تربیت اور ایک نئے شکیل پانے والے خاندان کے مستقبل کے معمالات اس نکاح سے وابستہ ہیں اور اصول یہ ہے کہ کسی فیصلہ سے جتنے لوگ بھی متاثر ہوتے ہوں فیصلہ کرتے وقت ان سب کے مفادات کا لحاظ رکھنا ضروری ہوتا ہے۔
6۔ ویسٹرن سولائزیشن نے اسی مقام پر دھوکہ کھایا ہے کہ مغربی دانشوروں نے فرد کی آزادی اور عورت کے حقوق کے پرفریب عنوان کے ساتھ نکاح کو دو افراد کا معاملہ قرار دے کر اس کے باقی لوازمات و نتائج کو نظر انداز کر دیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج مغربی معاشرہ خاندانی زندگی کے نظام اور رشتوں کے تقدس سے محروم ہو چکا ہے اور مگرب کا فیملی سسٹم انارکی کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے جس کا ذکر چوٹی کے مگربی دانشوروں کی زبانوں پر بھی انتہائی حسرت کے انداز میں ہونے لگا ہے۔
اس سلسلہ میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی خاتون اول مسز ہیلری کلنٹن کے دورہ پاکستان کے موقع پر شائع ہونے والی اس خبر کا حوالہ دینا ضروری خیال کرتے ہیں:
"امریکی خاتون اول مسز ہیلری کلنٹن اسلام آباد کالج فار گرلز کی اساتذہ اور طالبات کے ساتھ گھل مل گئیں اور ان سے ایک گھنتے سے زیادہ بے تکلفانہ گفتگو کی، ہیلری کلنتن نے طالبات سے ان کے مسائل دریافت کئے۔ طالبات نے دوستانہ انداز میں کلنٹن کی اہلیہ کو سب مسائل بتائے۔ فورتھ ائیر کی طالبہ نائیلہ خالد نے امریکی خاتون اول سے پوچھا کہ امریکہ طالبات کا بنیادی مسئلہ کیا ہے؟ اس پر امریکہ کی خاتون اول نے کھل کر گفتگو شروع کی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی طالبات کا مسئلہ تعلیم کی مناسب سہولیات کا فقدان ہے۔ تعلیمی اداروں میں فنڈز کی کمی کا مسئلہ ہے مگر امریکہ میں ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہاں بغیر شادی کئے طالبات اور لڑکیاں حاملہ بن جاتی ہیں۔ اس طرح بے چاری لڑکی ساری عمر بچے کو پالنے کی ذمہ داری نبھاتی ہے۔ ایک دوسری طالبہ وجیہہ جاوید نے کہا اس مسئلہ کا حل کیا ہے؟ اس پر ہیلری کلنٹن نے کہا کہ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ نوجوان لڑکے لڑکیوں کو خواہ وہ عیسائی ہوں یا مسلمان اپنے مذہب اور معاشرتی اقدار سے بغاوت نہیں کرنی چاہئے۔ مذہبی و سماجی روایات اور اصولوں کے مطابق شادی کے بندھن میں بندھنا چاہئے۔ اپنی اور اپنے والدین کی عزت و آبرو اور سکون کو غارت نہیں کرنا چاہئے۔ مسز ہیلری کلنٹن نے کہا کہ وہ اسلام اور عیسائیت کی شادی کے خلاف نہیں ہیں، انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مذہبی روایات کا احترام کرتے ہوئے شادی ہوتی ہے اس لئے یہاں لڑکیوں کے مسائل کم ہیں" (جنگ لاہور 28 مارچ 1995ء)
اس پسِ منظر میں ہماری استدعا یہ ہے کہ مسلمانوں کے خاندانی معاملات کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت اسلامی احکام و قوانین، معاشرتی روایات اور عدالتی نظائر کے ساتھ ساتھ مگربی معاشرہ میں "فیملی سسٹم" کی تباہی کے اسباب کو بھی سامنے رکھا جائے کیونکہ یہ کوئی دانش مندی کی بات نہیں ہو گی کہ مغرب جس دلدل سے واپسی کے راستے تلاش کر رہا ہے ہم آزادی اور حقوق کے نام نہاد مغربی فلسفہ کی پیروی میں قوم کو اسی دلدل کی طرف دھکیلنا شروع کر دین۔ امید ہے کہ آپ ان معروضات پر ضرور توجہ فرمائیں گے۔ (یکم مئی 1996ء