تبلیغ دین میں نبی اکرم ﷺ کا طریقہ کار اور دور حاضر میں تبلیغ جین کی مساعی

تبلیغ دین میں نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے اسوہ کی اہمیت :۔
رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  انسا نو ں کے لیے زند گی گزارنے کا بہترین نمونہ ہیں ۔زندگی کے ہر وہ شے میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی عملی مثا ل اور نمونہ موجود ہے۔ اور مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اسی نمونہ کے مطا بق اپنا نظا م زندگی استوار کریں ۔اسی بات کو قرآن مجید نے ان الفا ظ کے ساتھ بیا ن کیا ہے۔
﴿لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّـهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّـهَ كَثِيرًا ﴿٢١﴾...الأحزاب
"بے شک تمھا رے لیے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی زندگی بہترین نمونہ ہے جو اللہ سے ملنے اور قیامت کے آنے کی امید کرتا ہواور اللہ کا ذکر کثرت سے کرتا ہو"
دین کی نشرو اشاعت اور دعوت دین کے فروغ کے حوالے سے حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کو قرآن مجید میں حکم دیا گیا :
﴿يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ... ٦٧﴾...المائدة
"اے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  جو چیز آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کی گئی ہے اسے دوسروں تک پہنچا ئیں اگر آپ نے ایسا نہیں کیا تو آپ نے فریضہ رسالت ادا نہیں کیا ۔
چنانچہ اس فریضہ کی ادائیگی  کے سلسلے میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک بہترین نمونہ اور طریقہ کا ر پیش فر ما یا : آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی دعوت کا بنیا دی منشور قرآن تھا اور اس کی عملی تصویر اپنا کر دار تھا آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کےفرا ئض نبوت کے حوالے سے قرآن مجید میں ارشاد فر ما یا گیا ۔
﴿ لَقَدْ مَنَّ اللَّـهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ...١٦٤﴾...آل عمران
"یقیناً اللہ نے مومنین پر احسان فر ما یا کہ ان میں ایک رسول انہی میں سے بھیجا جو ان پر قرآن کی آیات تلاوت کرتا ہے ان نفوس کا تزکیہ کرتا انہیں کتا ب کی تعلیم دیتا اور انہیں حکمت سکھاتا ہے"
چنانچہ ضروری تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  انسانی نفسیات کے بنیا دی اصولوں کو پیش نظر رکھیں۔مختلف اوقات اور کیفیات میں انسانی طرز عمل ملحوظ رکھیں ۔انسانوں کے انداز فکر اور بعض اسباب کے تحت اس میں پیدا ہو نے والی کجی اور کمزوری کا آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو علم ہو تا کہ دعوت دین پیش کرتے ہو ئے انسان کے بارے میں بنیا دی حقائق کو پیش نظر رکھا جا ئے۔
حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا پیغا م جس طرح اللہ تعا لیٰ کی جا نب سے وحی کی صورت میں نا زل ہوا تھا ۔اسی طرح اس کے فروغ و اشاعت کا طریق کا ر بھی اللہ تعا لیٰ ہی کی جا نب سے بتایا جا تا ہے چنانچہ اس سلسلے میں قرآن مجید کی بہت سی آیا ت سے اس بات کی تا ئید ہوتی ہے کہ طریق تبلیغ بھی الہامی تھا۔ مثلاً ابتدا ئی مرحلے میں فر ما یا ۔
﴿قُمْ فَأَنذِرْ ﴿٢﴾ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ ﴿٣﴾...المدثر 
"اٹھیے اور (لوگوں کو) ہدایت کیجئے اور اپنے رب کی بڑا ئی بیان کیجئے ۔"
اس سے اگلے مرحلہ پر فر ما یا :۔
﴿وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ ﴿٢١٤﴾وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ﴿٢١٥﴾ فَإِنْ عَصَوْكَ فَقُلْ إِنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تَعْمَلُونَ ﴿٢١٦﴾...الشعراء
"اور اپنے قریب کے رشتہ داروں کو (اللہ تعا لیٰ سے) ڈرائیں اورجو مومن آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی اتباع کرتے ہیں ان کے ساتھ متواضع رویہ اختیار کریں اور لوگ آپ کی نافر ما نی کریں تو آپ ان سے کہہ دیں کہ میں تمھا رے اعمال سے بری الذمہ ہوں"
تبلیغ دین کے بنیا دی اصول قرآن کی رو شنی میں:۔
سورۃ النحل میں فرمایا ۔
﴿ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ...١٢٥﴾...النحل
"آپ انہیں اپنے رب کی راہ کی طرف بلا ئیں حکمت عمدہ نصیحت اور احسن طریق سے بحث و تمحیص کے ذریعے "
اس آیت مبارکہ میں تبلیغ دین کے تین اصولوں کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔
(1)حکمت (2) وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ  یعنی عمدہ نصیحت (3)احسن طریق سے بحث مولانا شبیر احمد عثمانی حکمت کی تشریح کرتے ہو ئے لکھتے ہیں ۔کہ:۔
"نہایت پختہ اور اٹل مضا مین مضبوط دلا ئل و برا ہین کی روشنی میں حکیمانہ اندا ز سے پیش کئے جا ئیں جنہیں سن کر فہم و ادرا ک اور علمی ذوق رکھنے والا طبقہ گردن جھکا دے ۔اس استدلال کے سامنے دنیا کے فلسفے ماند پڑ جا ئیں اور کسی قسم کی علمی و دماغی ترقیاتی وحی الٰہی کے بیان کردہ حقائق کا ایک شوشہ تبد یل نہ کر سکیں "(17)مولانا مودودی  رحمۃ اللہ علیہ  اس لفظ کی تشریح یوں بیان کرتے ہیں ۔
"دانائی کے ساتھ مخا طب کی اذہنیت استعدادا اور حا لا ت کو سمجھ کر مو قع و محل کی مناسبت سے بات کی جا ئے ۔ہر قسم کے لو گوں کو ایک ہی لا ٹھی سے نہ ہانکا جا ئے جس شخص یا گرو سے سابقہ پیش آئے اس کے مرض کی تشخیص کی جا ئے پھر ایسے دلا ئل سے اس کا علا ج کیا جا ئے جو اس کے دل و دماغ کی گہرا ئیوں سے اس کے مرض کی جز نکال سکتے ہیں۔ نہایت سنجید ہ طریقے سے مخا طب کی ذہنیت کا لحا ظ رکھتے ہو ئے بات پیش کی جا ئے "(8)
وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ  یعنی عمدہ نصیحت کا مطلب ہے ۔نہا یت مو ثر اور رقت آمیز نصیحت سے نرم خوئی اور دلسوزی کے ساتھ بات پیش کی جا ئے ۔اخلا ص ہمدردی شفقت اور حسن اخلاق کے ساتھ خوبصورت اور معتدل انداز سے نصیحت ان لوگوں کے لیے زیادہ موثر ہوتی ہے جو زیادہ عالی دماغ اور ذکی و فہیم تو نہیں ہو تے مگر ان کے دل میں طلب حق کی چنگا ری مو جو د ہو تی ہے۔(9)
وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ  کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ مخاطب کو صرف دلا ئل ہی سے مطمئن نہ کیا جا ئے بلکہ اس کے جذبات کو بھی اپیل کیا جا ئے ۔برا ئیوں اور گمراہیوں  کا ابطال محض عقلی انداز سے ہی نہ کیا جا ئے بلکہ اس کے اندر اللہ نے برا ئی کے لیے جو فطری نفرت رکھی ہے۔ اسے بھی ابھا را جا ئے اور اس کے برے نتا ئج کا خوف دلا یا جا ئے ۔ہدایت اور اعمال صا لحہ کی محض تلقین ہی نہ کی جا ئے بلکہ ان کی حقانیت عقلاً بھی ثا بت کی جا ئے اور ان کی رغبت و شوق اس کے اندر سے بھی پیدا کی جا ئے نصیحت درسوزی کے ساتھ پیش کی جا ئے اپنی علمی بالا دستی اور دوسرے کی کم علمی کو نہ ابھا را جا ئے بلکہ خیر خواہا نہ اندا ز سے بات کی جا ئے ۔(10)
وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ  کا معنی یہ ہے کہ اول تو بحث و تمحیص سے گریز کیا جا ئے لیکن اس کی نو بت آہی جا ئے تو پھر نہا یت احسن و موزوں اندا ز سے اپنا جا ئے ۔یہ با ت ذہن میں رکھی جا ئے کہ با طل ہمیں ادھر ادھر کی بخشوں میں الجھا کر ہمیں ہمارے نصل العین سے ہٹا الجھا نا چا ہے گا تا کہ ہماری صلا حیتیں اور اوقات اسی طرف صرف ہوں ۔ مزید یہ کہ ایسی کچھا ؤکی فضا بن جا ئے کہ حق بات قبول کرنے کے احکا مات اور فضا موزوں نہ رہے لہٰذا اگر بحث  کرنی ہی پڑے تو شائستگی کے ساتھ کہ فضا مکد ر نہ ہو نے پا ئے بحث برا ئے بحث کی کیفیت پیدا نہ ہو۔ہٹ دھرمیکا مظا ہرہ نہ ہو۔حق شناسی اور انصاف کا دا من نہ چھوڑا جا ئے (11)
حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا طریق دعوت ان اصولوں کی عملی شکل تھا آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے مسلمانوں کے قلوب اور انداز فکر کو بدل ڈا لا ۔اقدار بدل گئیں ۔قلوب کی کا یا پلٹ ہو جا نے سے برا ئی سے فطرت اور نیکی سے محبت پیدا ہو گئی اور اسی نفرت کی بنا ء پر وہ دائمی طور پر چھوٹ گئی۔
تبلیغ دین میں حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا طرز تکلم :۔
ابلا غ دین میں نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیشہ نفسیات انسانی کے مسلمہ حقائق کو پیش نظر رکھا درحقیقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس سلسلے میں وہ اصول دئیے ہیں جو رہتی دنیا تک کے مبلغین کے لیے بہترین اور کا مل نمونہ ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے بارے میں ارشاد فر ما یا
وَإِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّماً"میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہو ں "
معلمانہ کردار ادا کرنے کے لیے نفسیات انسانی کے بنیا دی پہلوؤں کو جا نب ضروری تھا اللہ تعالیٰ نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو وہ تمام اصول سلکھا دیئے ۔آپ انسانی نفسیا ت کا تجزیہ کرنے کی صلا حیت سے ما لا مال تھے۔آپ کسی سے ملا قات فر ما تے تو چند ہی لمحوں میں اس کے مزاج فہم و شعور کی استعداد اور افتاد طبع کا انداز ہ فر ما لیتے اور پھر اسی تجزئیے کے مطا بق اس سے کلا م فر ما تے ۔قرآن مجید میں بھی انسانی مزاج اور نفسیا ت کے بارے میں بنیادی حقائق بیان کئے گئے ۔آپ کی نگا ہ حق سناس میں یہ اصول بھی ہر وقت رہتے تھے۔
قرآن مجید نے اگر اعلا ن کیا کہ تمام انسان علم میں ایک جیسے نہیں تو حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی تبلیغی پا لیسی اسی اصول پر مرتب فر ما ئی کہ ۔
كلموا الناس على قدر عقولهم"انسانوں سے ان کی عقلوں کے مطا بق بات کرو"
چنانچہ اسلوب تبلیغ میں ہم یہ اصول بچوں کے ساتھ بات کرتے ہو ئے اپنے جا ن نثا ر صحا بہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  سےکچھ ارشاد فر ما تے ہو ئے اور غیر مسلموں سے بحث فر ما تے ہو ئے دیکھ سکتے ہیں ۔ہر موقع و محل کی منا سبت سے مختلف انداز اختیار فر ما یا ۔حضوراکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا اپنا بیان مبا رک ہے۔
نحن معاشر الأنبياء أمرنا أن نكلم الناس على قدر عقولهم
"ہم گروہ انبیاء کرام علیہ السلام   کو حکم دیا گیا ہے کہ لو گوں کی ذہنی سطح کے مطا بق بات کیا کریں "
مسبع و مقفع الفاظی  زبان درا زی باچھیں کھول کر اور گلہ پھاڑ پھا ڑ کر تقریر کرنا باتوں کو خواہ مخواہ پھیلا نا بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کو نا پسند تھا آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک مو قع پر ارشاد فر ما یا
"إنَّ الله يُبْغِضُ البَلِيْغَ مِنَ الرِّجَالِ الَّذي يَتَخَلَّلُ بِلِسَانِه كما يَتَخَلَّلُ الأَبَاقرُ "
"اللہ کو وہ فصیح و بلیغ خطیب نا پسند ہے جو اپنی زبان سے یو ں چرتا ہے جس طرح گا ئے چرتی ہے(15)
اندا ز گفتگو دعوت دین میں بہت اہمیت رکھتا ہے حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے طریق تبلیغ میں اس اصول کو بھی بنیا دی حیثیت حاصل ہے۔ام معبد  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے کلا م و گفتگو کے انداز کے با رے میں فر ما تی ہیں ۔
حلو المنطق ،فصل لا نزر ولا هزر كأن منطقه خرزات نظم ينحدرن،
"آپ صلی اللہ علیہ وسلم  شیریں کلا م تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی ہر بات نہایت واضح ہو تی نہ قلیل الکلام تھے نہ فضول الکلام ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا کلا م معجزانہ انداز سے پروئے ہو ئے موتیوں کی مانند تھا جو لڑی میں پرو دئیے گئے ہوں ۔
نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے انداز تکلم کے بارے میں امام غزالی  رحمۃ اللہ علیہ  فر ما تے ہیں :"آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے کلام میں وقفہ ہو تا تھا کہ یا د کرنے والے کو الفا ظ یا د ہو جا تے "(17)
اس سلسلے میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  بیان فر ما تی ہیں ۔
"آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی گفتگو ایسی تھی کہ تم لوگوں کی طرح لگا تا ر جلدی جلدی نہیں ہو تی تھی ۔بلکہ ایک مضمون دوسرے سے جدا جدا ہو تا تھا ۔پا س بیٹھے ہو ئے اسے اچھی طرح ذہن نشین کر سکتے تھے (18)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے طرز تکلم کے بارے میں روایت ہے کہ آپ کی گفتگو آغاز سے اختتام تک منہ بھر کر ہو تی ۔جا مع الفا ظ سے گفتگو فر ما تے (19)الفا ظ کم اور پر معنی ہوتے۔آپ  کا کلام جدا جدا ہو تا یعنی ہر فقرہ دوسرے سے بالکل جدا اور واضح ہو تا (20)
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے کلام کو حسب ضرورت تین مرتبہ دھرا تے تا کہ سننے والے کو درست طور پر سمجھ آجا ئے ۔(21)
جاحظ اس سلسلے  میں لکھتے ہیں:
"نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی گفتگو میں ہمیشہ ایسا اسلوب اپنایاکہ لوگوں پر گراں نہ گزرے۔
"نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی  گفتگومیں ہمیشہ ایسا اسلوب اپنایا کہ لوگوں پر گراں نہ گزرے۔انداز میں تصنع اور بناوٹ نہ ہوتی۔بات پھیلانے کے وقت  پھیلاتے اور اختصار کے وقت مختصر فرماتے یعنی موقع ومحل کی مناسبت سے بات فرماتے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے  گلہ پھاڑ  پھاڑ کر باتیں کرنے والوں سے کنارہ کشی فرمائی۔انوکھے اور نامانوس الفاظ سے اجتناب فرماتے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام میں ہیبت کے ساتھ شیرینی وحلاوت اور حسن افہام کے ساتھ قلت کلمات یکجا دیکھائی دیتے ہیں۔لوگوں نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے علاوہ کسی اور کا کلام نہیں سنا جو اس قدرزیادہ منفعت بخش ،لفظی اعتبار سے اس قدر معتدل،توازن میں اس قدر کامل اور روش کے اعتبار سے اس قدر حسین وجمیل ،مقاصد کے اعتبار سے اس قدر محترم،اثر میں اس قدر  خوبصورت ادائیگی میں اس قدر آسان،اور معنی کو اس  قدر کھول کر بیان کرتا ہو۔"(22)
حضور اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم  کے طریق تبلیغ کے بارے میں مصطفیٰ صادق الرافعی لکھتے ہیں:۔
"آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے الفاظ میں اس قدر  بلندی  وعمدگی ہوتی تھی کہ اگر یہ الفاظ وعظ کے لئے استعمال ہوں تو یوں لگتاہے جیسے کسی زخمی جگر کی آہیں ہوں"(23)
گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے الفاظ میں بلندی وعمدگی کے ساتھ ساتھ دل سوزی اوردرد دل کا پہلو یکجا ہوتا تھا۔اگر تھوڑا ساغور کریں تو یہ  بات آسانی سے سمجھی جاسکتی ہے۔کہ ان د و متضاد خصوصیات کا یکجا ہونا مشکل ہوتاہے یا بلند خیالی ہوگی یا دل سوزی،لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے خطاب میں ان کاامتزاج موجود ہے۔
حضور اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم  کا کلام میں در حقیقت قرآن مجید کی اس آیت مبارک کی عملی تشریح دکھائی دیتی ہے:
(وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ) (24)
"میں بناوٹ کرنے والوں میں سے نہیں ہوں"
کلام کا آغاز واختتام کسی گفتگو میں بنیادی اہمیت رکھتاہے۔آغاز میں اگر سامعین متکلم کا موضوع سمجھ جائیں تو تفصیلات گفتگو تبھی قابل فہم ہوسکتے ہیں۔آغاز میں متکلم اپنی گفتگو کا مدعا ومضمون بیان کرتا ہے درمیان میں اس کے حوالے سے تفصیلات ودلائل بیان کیے جاتے ہیں اور آخر میں پھر خلاصہ کلام بیان کیا جاتا ہے۔اس پہلو سے بھی حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کا انداز خطاب نہایت معقول تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے خطبات کی روشنی میں مصطفیٰ صادق لکھتے ہیں:
"کلام کے آغاز واختتام میں انداز اس قدر واضح ہوتا تھا کہ مخاطب کو معنی اچھی طرح معلوم ہوجاتا"(25)
حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے مخاطبین کی ذہنی کیفیت کے مطابق انہیں قائل کرنے اوربات ذہن نشین کرنے کے لئے بے حد خوب صورت اور نہایت پر کشش طریقہ استدلال اپناتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبات میں جوش  وتموج بھی ہے۔اور ہیبت وجلال نبوت بھی۔آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں عرب کاہنوں کی مانند سجع وقافیہ کی بھول بھلیاں بھی نہیں اور خطبائے عرب کی بھاری بھرکم لفظی اور عبارت آرائی بھی نہیں۔یہاں ایک ایسا اسلوب بیان ہے جو سیل بے پناہ سے زیادہ زوردار،باد نسیم سے زیادہ سحر انگیز وپرلطف اور پھول کی پتی سے زیادہ نرمی ونزاکت کی کیفیت لئے ہوئے ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ جو بات قلب نبوت سےنکل رہی ہے وہ اخلاص وایمان کی حرارت لئے قلب مومن کی گہرائیوں میں اترتی جارہی ہے۔(26)
دوران خطاب حضور  اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  لوگوں کو اپنی طرف ہمہ تن گوش رکھتے ابن ماجہ میں روایت ہے:۔
"آپ صلی اللہ علیہ وسلم  لوگوں کواپنی طرف متوجہ رکھتے اور خطبہ کے دوران اپنا رخ انوردائیں بائیں جانب پھیرتے"(27)
ڈاکٹر شوقی ضیف اس سلسلے میں لکھتے ہیں:
"اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو ایسی فصاحت وبلاغ عطافرمائی تھی کہ آپ خطبہ کے دوران گویا لوگوں کے دلوں ک باگ ڈور کے مالک ہوتے اپنی گفتگو کے موقع ومحل کی مناسبت سے بہت سے الفاظ اور انداز بیان آپ کے پاس موجود ہوتے۔یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی ہوتی کہ جو اسلوب اور جیسے الفاظ آپ چاہیں،اختیار فرمالیں"(28)
سامعین کے بارے میں یہ بات ذہن نشین رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی مجلس میں گزرنے والے لمحات ان کی قیمتی متاع ہوتے تھے۔اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات توجہ سے سنتے ان کے ہمہ تن گوش ہونے کی کیفیت یہ ہوتی کہ پرندے ان کے سر پر بیٹھ جائیں لیکن انہیں کوئی پتہ نہ ہوتا۔
اس کے باوجود آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلوب تبلیغ میں ایسے طریقے اپناتے کہ لوگ ہمہ تن گوش رہیں(یہ دوسروں کی  تربیت کا ایک طریق بھی ہے کہ ہم آپ  کے اس انداز سے  طریق  تبلیغ سکھ سکیں)جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی اساسی بات ارشاد فرماتے،تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  سے سوال فرماتے:مثلاً
"أتدرون ماالمفلس فينا"(29)(کیا تمھیں معلوم ہے ہم میں سے مفلس کون ہے؟)(30)کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  فرماتے،کیا میں تمھیں کبیرہ گناہوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟ظاہر ہے صحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین  تو ایسی باتوں کے منتظر ہوا کرتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے اس  انداز سے ان کا شوق طلب مزید بڑھ جاتا۔
کس بات اور عمل کی اہمیت زیادہ سے زیادہ موثر طور پر صحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے ذہنوں میں بٹھانے کے لئے بعض اوقات یہ الفاظ استعمال فرماتے:"( والذي نفس بيده)(31)(اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے)یا"والذي نفس محمد بيده(32)(اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے)اس انداز تکلم سے صحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے اندر ایک مخصوص جذباتی کیفیت پیدا ہوجاتی۔
اہم اور اساسی تعلیمات صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین  کو ذہن نشین کروانے کے لئے یہ انداز اپناتے کے بات کو نکات میں تقسیم فرمادیتے مثلاً ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں۔(33) اور اس کے بعد اسلامی معاشرے کی پہچان کی حیثیت رکھنے والی تعلیمات کا ذکر فرمایا۔اسی طرح فرمایا:منافق کی تین علاما ت ہیں۔:"جب بات کرے تو جھوٹ بولے،جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے۔جب امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے"(34)
غیر مسلموں کے سامنے تبلیغ دین کی بنیاد:۔
دعوت کے مخاطب اگر عیسائی وغیرہ ہوتے تو قر آن مجید کی آیات مبارکہ کہ"تم اہل کتاب سےمجادلہ نہ کرو"کی عملی مثال پیش فرماتے اور اس وقت کسی اخلاقی مسئلے پر بحث  کرنے کی بجائے اقدارمشترک پر اکھٹا ہونے کی دعوت دیتے۔مثلا نجران سے عیسائی آیا تو انہیں دعوت دی گئی کہ :۔
﴿قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّـهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا ...٦٤﴾... آل عمران
"اے اہل کتاب آؤ ایک بات کی طرف جو برابر ہے ہمارے اور تمہارے درمیان کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں"
اسی آیت کی تشریح ہر قل کو لکھے گئے خط سے بھی ہوتی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسی آیت کا حوالہ دے کر اسے بھی اسلام اور عیسائیت کی مشترکہ تعلیمات ہی کی بنیاد پردعوت اسلام دی کہ عیسائیت اور اسلام کے بنادی عقائد میں بنیادی طور پر اختلاف نہیں۔اس لئے اسلام کوئی نئی چیز نہیں۔(36) یہی مضمون مقوقس عظیم قبط جریج بن مینا کے خط میں موجود ہے کسریٰ چونکہ مجوسی تھا اس لئے یہاں"اقدار مشترک" کا ذکر نہیں۔(38)
غرض آ پ کے خطوط جامع اور مختصر نویسی کا شاہکار دکائی دیتے ہیں۔ایک ایساشخص جسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی آمد اور آپ کے پیغام کے  بارے میں کچھ بھی پتہ نہ ہو ،وہ ان مختصر خطوط سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے تعارف بھی حاصل کرلیتاہے۔اور آپ کے خط کے مقصود ومطلوب کو سمجھ لیتاہے کہیں سے ہمیں معلوم نہیں ہوا کہ کسی مکتوب کے بارے میں کسی نے اس کے سمجھ نہ آنے اور اس کے اختصار میں ابہام کا اظہار کیا ہو بلکہ بعض خوش بختوں نے ان کی آواز پر لبیک کہا اور اسلام کے دائرہ میں داخل ہوگئے اور دوسرے بد قسمتوں نے انکار کردیا۔
خطوط نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم  میں تبلیغ دین کے بنیادی اصولوں کی کارفرمائی بھی واضح طور ر دکھائی دیتی ہے کہ کہیں بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  ذاتی ہیبت اور دبدبے کی بنات نہیں کرتے بلکہ دوسرے کی خیرخواہی کے جذبے کا ہی مظاہرہ ہوتا ہے کہ اس خیر خواہی کے تحت دعوت دی جارہی ہے۔ان چند سطری خطوط میں توحید بھی ہے،رسالت اورآخرت بھی اور اللہ کی زمین پر اللہ کے قانون کی بالا دستی قائم کرنے کا مقصد بھی بیان کردیا گیا ہے۔
اسی  طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اہم اور بنیادی تعلیمات کا ذکر فرماتے ہوئے کسی نہ کسی انداز سے اس فعل کی نسبت اپنی ذات کے ساتھ فرماتے۔صحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین  کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی ذات گرامی کے ساتھ تو جذباتی لگاؤ تھا۔اس کیفیت میں اس حکم پر عمل کرنا ان کی سب سے بڑی خواہش تھی۔مثلا ً نماز کی تلقین فرمائی تو یہ اندازاختیار فرمایا"قرة عيني الصلوة"(39) "یعنی نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے"یتیم بچیوں سے شفقت لوگوں کے دلوں میں ڈالنا مطلوب تھی تو فرمایا:"جس نے یتیم بچی کی پرورش کی،قیامت کے روز وہ میرے ساتھ اس طرح ہوگا جس طرح یہ دو انگلیاں"(39) گویا یہ اس قدر عظیم اجر والا کام ہے کہ ایسا کرنے والے کو قیامت کے روز میرا قرب حاصل ہوگا۔ظاہر ہے ایک مسلمان کے لئے اس سے بڑی سعادت اور کیا ہوسکتی ہے۔
موقع ومحل کی مناسبت سے استدلال:۔
موقع کی مناسبت سے بات کرکے مخاطب کر متاثر کرنا اور بات کو موثر طورپر ذہن نشین کروانا۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے طریق ابلاغ کا اہم اصول ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ایک روز عصر کی نماز کے بعد خطبہ ارشادفرمارہے تھے اتنے میں سورج غروب ہونے لگا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا موضوع گفتگو دنیا کی بے ثباتی تھا۔موقع کی مناسبت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنه لم يبق من دنياكم هذه فيما مضى إلا كما بقي من يومكم هذا فيما مضى منه
"دنیا کی گذشتہ عمر کے مقابلے میں اب اس کی عمر کا اتنا حصہ باقی رہ گیا جتنا آج کے دن کے گذشتہ وقت کے مقابلے میں اب غروب آفتاب کے وقت پر وقفہ رہ گیا ہے"
دنیا کی بے ثباتی اور قرب قیامت کے لئے یہ بہت عمدہ اور برمحل مثال تھی۔غزوہ حنین کے موقع پر قربانی اور انفاق کی ترغیب دے رہے تھے اس موقع پر انصار مدینہ کی قناعت پسندی کو بنیاد بنا کر سوال وجواب کے انداز میں اپنے خطبہ کو موثر بناد یا۔(41)
مکہ کےلوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی صداقت وامانت کے معترف تھے۔آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  ان کے سامنے اپنا پہلا خطاب ارشاد فرمایا تو  اسی پس منظر کو بنیاد بنا کر ان سے پوچھا:"( هل وجدتمو ا ني اوصادقا ام كاذبا)(24)(کیاتم نے مجھے سچا پایا یا جھوٹا؟) ان سب کا جواب ایک ہی تھا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے اس انداز نے کئی لوگوں کے دلوں میں اپنی بات کواتارد یا۔یہ خطبہ بڑا مختصر مگر دل میں اترجانے والا ہے۔اللہ تعالیٰ کی تسبیح وتمہید کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
"کوئی خبر لانے والا اپنے خاندان سے جھوٹ نہیں بولا کرتا۔اللہ کی قسم اگر میں دنیا کے تمام انسانوں سے جھوٹ بولتا بھی تو تم سے پھر بھی جھوٹ نہ بولتا۔اگر تمام دنیا سے دھوکہ کر بھی لیتا توتم سے کبھی دھوکا نہ کرتا"...(1/42)
اس خطبے نے گہرے اثرات مرتب کیے اور اس کے الفاظ اور مضمون کو آج بھی تحریر وبیان کا شاہکار سمجھا گیا ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   نہ تو  طویل تقریر فرماتے کہ لوگ اکتا جائیں اور نہ ہی موقع بے موقع تقریر فرماتے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اختصار سے بھی کام لیتے اور اس بات کو بھی ملحوظ رکھتے کہ سننے والا اس وقت سننے کی خواہش بھی رکھتا ہے یا نہیں؟
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کےبارے میں روایت ہے،وہ ہر جمعرات کو لوگوں کو وعظ ونصیحت فرمایا کرتے تھے۔ایک شخص نے ان سے کہا کہ آپ ہمیں روزانہ درس دیاکریں۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا میں ایسا اس لیے نہیں کرتا کہ تم لوگ اکتا جاؤ گے۔ میں اس سلسلے میں اسی طرح تمہارا خیال رکھتا ہوں جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  ہمارا خیال رکھا کرتے تھے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ہمارے اکتا جانے کا خیال فرماتے۔(43)
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے بارے میں بھی ایک روایت موجود ہے کہ انہوں نے عکرمہ سے کہا کہاکہ تم ہفتہ میں ایک مرتبہ درس دیا کرو۔اگر لوگ پسند کریں تو ہفتہ میں دو مرتبہ یا تین مرتبہ درس دو۔اس سے زائد لوگوں کو تنگ نہ کرو۔اس کے بعد ابن عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا:میں تمھیں نہ پاؤں اس حالت میں کہ تو کسی قسم یا جماعت کے پاس جائے اور وہ لوگ اپنی باتوں میں مشغول ہوں اور تو ان کی باتوں کو منقطع کرکے انھیں وعظ ونصیحت شروع کردے اور اس طرح تو ان کےلیے کرانی طبع کا باعث بنے۔ایسی حالت میں تجھے چاہیے کہ توخاموش رہے۔ البتہ اگر  وہ تجھ سے وعظ ونصیح کی خواہش کریں تو تو پھر ان کے سامنے حدیث بیان کر(اپنی بات بیان کر)اور اتنی ہی دیر ان سے بات کر جتنی دیر وہ بات سننے کی خواہش کریں۔ابن عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے الفاظ ہیں کہ"میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب  رضوان اللہ عنھم اجمعین  سے یہ معلوم کیا ہے کہ وہ ایسا ہی کیا کر  کرتے تھے۔"حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے ایک مرتبہ تقریر میں بڑے اختصار سے کام لیا لوگوں نے خواہش کی کہ آپ کچھ مزید ارشادفرمائیں۔انہوں نے جواب دیا:
أمر النبي صلى الله عليه وسلم بإطالة الصلاة وتقصير الخطبة،
"رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیں حکم دیا ہے کہ نماز کو طول دے کر پڑھو اور خطبات مختصر رکھاکرو"(45)
رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ اصولی راہنمائی فرمائی کہ"خير الامور اوسطها" یعنی بہترین کام وہ ہیں جن میں اعتدال   پایا جائے۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے جو خطبات صحت کے ساتھ ہم تک پہنچے ہیں،ان میں اختصار وجامعیت کا پہلو نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔یہی طریق فطری بھی ہے اور اسی میں انسان سہولت محسوس کرتے ہیں ورنہ لمبی چوڑی تقاریر،مقرر کی شعلہ بیانی تو ہوسکتی ہے۔ لیکن لوگوں کے لئے تنگی کا باعث ہے اور عملی طور پر اس کے اثرات بھی کم ہوتے ہیں۔تبلیغ دین کے نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم  اصولوں میں اخلاق حسنہ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ۔قرآن مجید میں اس سلسلے میں فرمایا:
﴿فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّـهِ لِنتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ ۖفَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ ... ١٥٩﴾...آل عمران
" اللہ تعالیٰ کی رحمت کے باعث آپ ان پر نرم دل ہیں اور اگر آپ بد زبان اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے، سو آپ ان سے درگزر کریں اور ان کے لئے استغفار کریں"
اس حوالے سے قرآن مجید نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے مومنوں کے بارے میں طرز عمل کے بارے بیان کیاہے:
﴿لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ ﴿١٢٨﴾...التوبة
"تمہارے پاس ایک ایسے پیغمبر تشریف لائے ہیں جو تمہاری جنس سے ہیں جن کو تمہاری مضرت کی بات نہایت گراں گزرتی ہے جو تمہاری منفعت کے بڑے خواہش مند رہتے ہیں ایمان والوں کے ساتھ بڑے ہی شفیق اور مہربان ہیں"
تبلیغ میں مخاطبوں کا لحاظ رکھنا:۔
تبلیغ دین میں آپ کے اخلاق حسنہ کا یہ عالم تھا کہ ہر شخص یہ سمجھتا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  سب سے زیادہ مجھ ہی پر مہربان ہیں۔آپ لوگوں کے جذبات واحساسات اور عزت نفس کا ہر لمحہ خیال فرماتے اپنے خدمت گاروں کو یہ محسوس کرواتے کہ آپ کے قلب انور میں ان کے لئے عزت وخلوص کے جذبات موجودہیں اس طرز عمل نے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پیروکاروں کو آپ کا جانثار اور گرویدہ بنادیا۔
حضرت انس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ میں دس برس تک حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت اقدس میں حاضر رہا۔حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھے کبھی اف تک نہیں کہا اور کبھی مجھے یوں نہیں فرمایا کہ تم نے کیوں کیا اور فلاں کام کیوں نہیں کیا؟(48)
تبلیغ میں اخلاق حسنہ کا مظاہرہ:۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اخلاق اور تبلیغ دین میں اس کے اثرات کا اندازہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے ایک واقعہ سے کیا جاسکتاہے کہ آپ کے در دولت پر ایک اجنبی شخص آیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے کھانا کھلادیا اور رات بسر کرنے کےلئے جگہ دی۔لیکن یہ شخص بدنیتی سے آیا تھا وہ شخص بستر پر غلاظت کرکے لوگوں کے بیدار ہونے سے قبل ہی بھاگ گیا لیکن اپنی تلوار وہیں چھوڑ گیا جب دور نکل گیا تو یاد آیا میں اپنی تلوار تو وہیں چھوڑ آیا ہوں وہ جلدی جلدی آیا کہ لوگوں کے بیدار ہونے سے قبل اپنی تلوار لے آؤں۔جب وہ واپس آیا تو دیکھا کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  خود ا پنے ہاتھوں سے بستر کی صفائی فرمارہے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کچھ بھی نہیں کہا۔صرف اس قدر فرمایا کہ بھئی تم اپنی تلوار یہیں بھول گئے تھے۔لے لو،اس حسن سلوک کو دیکھ کر وہ پکار اٹھا۔
"اشهد ان لا اله الاالله واشهد ان محمد عبده ورسوله"(49)
عفو ودرگزر:۔
عفو ودرگزر اور حلم وبردباری بھی تبلیغ دین میں محمد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ایک موثر طرز عمل تھا۔قرآن مجید کی متعددآیات میں اس بات کی طرف متوجہ کیا گیا کہ ایک دائمی حق کے لئے بہتریہ ہے کہ وہ عفو ودرگزر اور صبرو تحمل سے کام لے۔اس سے معاشرے کے اندر کھچاؤ اور تناؤ کا ماحول پیدا نہیں ہونے پائے  گا۔دعوت جس کے فروغ کے لئے ضروری ہے کہ فضا میں کھچاؤ نہ ہو بلکہ رواداری کا رجحان ہو۔اس سلسلے میں قرآن مجید میں ارشاد ہے:
﴿وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُم بِهِ ۖ وَلَئِن صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصَّابِرِينَ ﴿١٢٦﴾ وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ إِلَّا بِاللَّـهِ ۚ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُ فِي ضَيْقٍ مِّمَّا يَمْكُرُونَ ﴿١٢٧﴾ إِنَّ اللَّـهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوا وَّالَّذِينَ هُم مُّحْسِنُونَ ﴿١٢٨﴾...النحل
"اور اگر بدلہ لو بھی تو بالکل اتنا ہی جتنا صدمہ تمہیں پہنچایا گیا ہو اور اگر صبر کرلو تو بےشک صابروں کے لئے یہی بہتر ہے (126) آپ صبر کریں بغیر توفیق الٰہی کے آپ صبر کر ہی نہیں سکتے اور ان کے حال پر رنجیده نہ ہوں اور جو مکر وفریب یہ کرتے رہتے ہیں ان سے تنگ دل نہ ہوں"
حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس تحمل وبردباری اور عفوودرگزر کا مظاہرہ فتح مکہ کے موقع پر  فرمایا جس کے نتیجے میں جو در جوق لوگ اسلام میں داخل ہوئے۔اور اسی موقع کے حوالے سے سورۃ النصر نازل ہوئی کہ"آپ نے دیکھ لیا کہ لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہورہے ہیں"
ڈاکٹر حمید اللہ نے اسی واقعے کو بھی اسی عنوان کے تحت بیان کیا  ہے۔ کہ ایک شخص نے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  آرام فرمارہے ہیں اور تلوار درخت کے ساتھ لٹکی ہوئی ہے اس نے دست درازی کاموقع پایا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر تلوار تان کرکہنےلگا کہ مجھ سے آپ کو کون بچائے گا؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ:میرا للہ مجھے بچائے گا"یہ سن کر وہ کافر کانپنے لگا اور اس کے ہاتھ سے تلوار گرگئی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ اب تمھیں مجھ سے کون بچائے گا؟وہ کہنے لگا کوئی نہیں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے تلوار واپس کردی اور فرمایا"جامیں تجھے معاف کرتا ہوں۔وہ اس طرز عمل سے اس قدر خو ش ہوا کہ فوراً کلمہ شہادت  پڑھا اور کہنے لگا کہ اب میں اپنے قبیلے میں جا کر اسلام کی تبلیغ کروں گا۔(51)
اس  طرح کی لا تعداد مثالیں اسوہ محمدی سے مل سکتی ہیں۔ کہ عفو ودرگزر نے بڑے گہرے مثبت اثرات مرتب کیے۔
لیکن یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ اگر کوئی شخص کسی حق بات کی خلاف ورزی کرتاتو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو  غصہ آتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ کیفیت اس وقت تک موجود رہتی جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم  حق کو غالب نہ فرمالیتے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نہ تو  اپنے نفس کے لئے غضبناک ہوتے اور نہ ہی اپنے نفس کے حوالے سے کسی سے انتقام لیتے۔جب غصہ آتا تو منہ ادھر ادھر پھیر لیتے یا ا پنی کروٹ بدل لیتے۔(52)
حضرت عائشہ صدیقہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   فرماتی ہیں:
"رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے کبھی کسی کو نہ مارا۔۔۔جب کسی سے اذیت پہنچتی تو اس سے انتقام نہ لیتے۔لیکن اگر کوئی کسی حرام کام کا ارتکاب کرتا یا حرام کی ہوئی چیز کو استعمال کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اس کو سزا ضرور دیتے"(53)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے طریق تبلیغ کے اصول آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے اس فرمان میں نظر آتے ہیں:
"جس شخص میں تین باتیں نہ ہوں اس کا کوئی عمل اس کے کام نہ آئے گا:
1۔وہ  اپنے جذبات نفسانی کی باگ ڈھیلی نہ ہونے دے۔
2۔اگر کوئی نادان اس پر حملہ آور ہو تو وہ تحمل سے کام  لے اور خاموش رہے۔
3۔لوگوں کے ساتھ حسن سلوک سے زندگی گزارے"(54)
رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ایک انداز یہ تھا کہ جب کبھی کوئی خلاف شریعت کام دیکھتے خاص طور پر ایسے شخص سے جس سے اس قسم کے کام کی توقع نہیں ہوسکتی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  فوراً حاضرین سے مخاطب ہوتے اور ا س کے باجود کہ جس سے غلطی سرزد ہوئی ہوتی وہ سامنے موجود ہوتا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  صیغہ غائب میں تکلم فرماتے اور انداز گفتگو یہ ہوتا کہ"کچھ لوگوں کا یہ طرز عمل ہے"
یہ انداز گفتگو کسی کو غلطی کا احساس دلانے کے لئے اور اپنی ناراضگی محسوس کروانے کے لئے نہایت موثر ہوتاہے۔(55)
غیر مسلم حکمرانوں کو لکھے گئے خطوط کا سلوب:۔
حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے مختلف علاقوں کے بادشاہوں کو جو خطوط لکھے ان کا انداز واسلوب ایسا ہے کہ اس میں کسی کمزوری یا مرعوبیت کا شائبہ بھی دکھائی نہیں دیتا بلکہ الفاظ اور مضمون میں عزم واستقلال نظر آتا ہے۔اس اسلوب سے واضح ہوتا ہے کہ لکھنے والے کو اپنے مشن سے کس قدر  لگاؤ ہے  اور اسے اپنے برحق ہونے کا کس قدر اعتماد ہے۔اس اسلوب نے مخاطبین کو متاثر کیا۔نپے تلے الفاظ میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح وتحمید اور اس کی حاکمیت کوتسلیم کرنے کی دعوت دی گئی ہے ان بادشاہوں پر یہ بات واضح کی گئی ہے کہ قوم کی گمراہی یا ان کی ہدایت پر آجانے کا دارومدار ان پر ہے ۔اگر انہوں نے دعوت اسلام قبول نہ کی تو قوم کی گمراہی کا وبال بھی ان پر ہی  پڑے گا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت جامعیت کے ساتھ اس بات کی وضاحت کی ہے کہ ان کی دعوت کسی ذاتی غرض یا اقتدار کے لئے نہیں بلکہ اس دعوت کا مقصد اللہ کے بندوں کو انسانی تسلط سے آزاد کرکے اللہ کے دیئے نظام کے تابع کرنا ہے اور اس میں انہی کا فائدہ ہے ہر قل بادشاہ روم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے لکھا۔
إِنِّي أَدْعُوكَ إِلَى الْإِسْلاَمِ ، فَإِنْ أَسْلَمْتَ فَلَكَ مَا لِلْمُسْلِمِينَ ، وَعَلَيْكَ مَا عَلَيْهِمْ
"میں تجھے اسلام کی دعوت دیتا ہوں اگر تم نے اسلام قبول کر لیا تو تیرے حقوق وفرائض وہی ہوں گے جو اہل اسلام کے ہی  ہیں"
کسریٰ،بادشاہ ایران کو بھی اسی طرح کا خط لکھا:
"أسلم تسلم فإن أبيت فعليك إثم المجوس"
"اسلام قبول کرلے،سلامت  رہے گا،اگر تم نے روگردانی کی تو پھر سارے مجوس کاوبال تجھ پر پڑے گا"
خوف طوالت سے ان خطوط کے متون پیش کرنا ناممکن ہے ورنہ ہر خط میں واضح کیا گیا کہ یہ دعوت اللہ کے دین کے تابع ہونے کی ہے نہ کہ شخصی اقتدار کی۔
آپ کی دعوت وتبلیغ کی حکمت عملی باقاعدہ منظم منصوبے کے تحت ہوتی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان رستوں پر  آباد قبائل کو دین کی دعوت میں تاخیر نہیں کی،جو مکہ مکرمہ اور شام کے درمیان پڑتے ہیں۔اور ان رستوں سے گزر کر وہ شام کا وہ اہم سفرکیا کرتے تھے جس سفر پر اہل مکہ کے کم از کم آدھے سال کے گزران اوقات کا مدار تھا۔اس سفر کا ذکر قرآن مجید میں فرمایا:
﴿لِإِيلَافِ قُرَيْشٍ ﴿١﴾ إِيلَافِهِمْ رِحْلَةَ الشِّتَاءِ وَالصَّيْفِ ﴿٢﴾...قريش
اس حکمت عملی سے کم از کم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اہل مکہ کی معاشی ناکہ بندی کے لئے بالا دستی حاصل فرمالی اور اب اہل مکہ کی معاشی شہ رگ مسلمانوں کے ہاتھوں میں آگئی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بحرین،یمن اور عمان کے حکمرانوں کو خطوط لکھے۔یہ علاقے بہت زرخیز تھے۔دولت اور سیاسی اعتبار سے بھی ان کی اہمیت تھی۔انہی ریاستوں سے دیگر ریاستوں کو غلہ اور اسلحہ ملتا تھا۔ان کے مسلمان ہونے سے پورے علاقے کے سیاسی افق پر گہرے مثبت اثرات مرتب ہوئے۔(58)
نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی منظم دعوتی پالیسی کے بارے میں ڈاکٹر حمید اللہ لکھتے ہی کہ:
"آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے مصعب بن عمیر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو مدینہ طیبہ تبلیغ کے لئے بھیجا جو نہایت مخلص اور نفسیات انسانی کے بڑے ماہر تھے۔ ان میں لوگوں کو اپنی بات پر آمادہ کرنے کے غیر معمولی صلاحیتیں تھیں،چنانچہ انھیں بہت شاندار کامیابیاں حاصل ہوئیں۔(59)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی حکمت تبلیغ کے حوالے سے ڈاکٹر حمیداللہ لکھتے ہیں:
"حضور نے بیعت عقبہ ثانی کے موقع پر بارہ مختلف آدمیوں کو جو بارہ مختلف قبائل کے نمائندہ تھے اپنی طرف سے ان قبیلوں کے نقیب یا سردار مقرر فرمایا اور ان میں سے ایک کو نقیب نقباء مقرر فرمایا۔اس میں ایک طرف تو ہمیں نظر آتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی طبعیت مبارکہ میں تنظیم پسندی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  مسلمانوں کاایک مرکزی نظام پیدا کرنا چاہتے تھے۔دوسری  طرف رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  ان کو نامزد فرمارہے تھے جس کا معنی یہ ہے کہ وہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے ماتحت تھے اور جو کسی کو نامزد کرتا ہے،وہ اسے معزول بھی کرسکتا ہے۔"(60)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ دین کا فریضہ خود ذاتی طور پر سر انجام دیا اور اس میں رہتی دنیا تک کے لئے راہنما اصول دے دیئے جن کی حیثیت نہ صرف نظری اعتبار سے بلکہ یہ ایک عملی نمونہ ہیں۔اس کے ساتھ  دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کو اس فریضے میں شامل کیا۔مختلف لوگوں کومختلف علاقوں میں تبلیغ دین کےلیے بھیجا۔اس سلسلے میں صحابہ کرام  رضوان اللہ عنھم اجمعین  کا انتخاب بڑی احتیاط کے ساتھ فرماتے اور اس علاقے کے لوگوں کے مزاج اور صحابی کے علم اور اس کے ذاتی کردار اورعمل کی پختگی کے ساتھ ہر موقع ومحل کی مناسبت سے طریق کار وضع کرنے کی استعداد کو بھی ملحوظ رکھاجاتا تھا،چنانچہ اس سلسلے میں جتنے لوگوں کو بھی  اس کام پر مامور کیا گیا ،ان کے نتائج بہت ہی زیادہ قابل رشک رہے۔
بُرائی کا جواب اچھائی سے دینا:،۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کا اسلوب تبلیغ قرآن مجید کی دی ہوئی ہدایات کے عین مطابق تھا۔قرآن مجید ہمیں یہ اصول دیتا ہے:
﴿ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ ﴿٣٤﴾...فصلت
(61)
"(سخت کلامی کا) ایسے طریق سے جواب دو جو نہایت احسن ہو۔ایسا کرنے سے تم دیکھو گے کہ جس کے ساتھ تمہاری دشمنی تھی،گویا کہ وہ تمھارا گرم جوش دوست ہوگیا"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیشہ یہی طریق کار اختیار فرمایا کہ برائی کابدلہ برائی سے نہیں۔بلکہ احسان کی صورت میں دیا جائے چنانچہ قرآن مجید میں اللہ کے بتائے ہوئے نتائج کا سامنے آنا ایک واضح حقیقت تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے اس طرز عمل نے دشمنوں کو بھی آپکا گرویدہ بنادیا۔یہ اندازہ اپنانے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے۔ کہ فضا میں کھچاؤ پیدا نہیں ہوتا جو کہ دعوتی کام میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہے۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے:
"اتَّقِ الله حيثما كنتَ ، وأتْبِعِ السَّيِّئَةَ الحسَنَةَ تَمْحُهَا. وخالِقِ الناسَ بخلُق حسن"
"تم ہرحال میں اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔بُرائی کو نیکی سے مٹاؤ اور سب انسانوں سے حسن سلوک سے پیش آؤ"
ایک اور جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد  گرامی منقول ہے:
"بلا شبہ اللہ تعالیٰ برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا بلکہ برائی کو بھلائی سے ختم کرتا ہے۔بلا شبہ نجاست کو نجاست سے مٹا کر پاکیزگی حاصل نہیں کی جاسکتی"(64)
آپ کاارشاد گرامی ہے:
"لا تكونوا أمعة ، تقولون أن أحسن الناس أحسنا ، وإن ظلموا ظلمنا ، ولكن وطنوا أنفسكم إن أحسن الناس أن تحسنوا ، و إن أساءوا فلا تظلموا "
(65)"تم ا پنے عمل کو لوگوں کے عمل کے تابع نہ بناؤ اور یوں نہ کہو کہ اگر وہ ہم سے بھلائی کریں گے تو ہم بھی بھلائی کریں گے ۔اور اگر وہ ظلم کریں گے تو ہم بھی ظلم کریں بلکہ اس طریق کار پر کار بند ہوجاؤ کہ لوگ اگر بھلائی کریں اوراگر وہ برائی کریں تو تب بھی تم بھلائی کرو"
مبلغ باطل سے سازگاری پیدا نہ کرے:۔
حق اور باطل میں کشمکش ایک فطری امر ہے۔اگر اہل حق اپنے مشن میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کریں تو اللہ تعالیٰ نے اس بات کی خوشخبری دےدی ہے کہ غالب حق ہی آئےگا اور باطل مٹ جائے گا لیکن یہ بات اس  شرط کے ساتھ کردی گئی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنصُرُ‌وا اللَّـهَ يَنصُرْ‌كُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ (66)
"اے ایمان والو! اگر تم اللہ (کے دین) کی مدد کرو گے تو وه تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا"
وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (67)
"تم نہ سستی کرو اور غمگین ہو، تم ہی غالب رہو گے، اگر تم ایماندار ہو"
یعنی تم اگر اللہ کے دین کےلیے قربانی دو گے اور ایمان کے تقاضوں کو پورا کروگے تو پھر اللہ کی نصرت بھی شامل حال ہوجائے گی۔پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ خوشخبری سنائی کہ:
3۔وَإِنَّ جُندَنَا لَهُمُ الْغَالِبُونَ (68)
"اور ہمارا ہی لشکر غالب (اور برتر) رہے گا"
4۔أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّـهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (69)
"آگاه رہو بیشک اللہ کے گروه والے ہی کامیاب لوگ ہیں"
5۔جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا (70)
"حق آچکا اور ناحق نابود ہوگیا۔ یقیناً باطل تھا بھی نابود ہونے والا "
نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسی طرز عمل  پر عمل کیا اور اللہ تعالیٰ نے جن نتائج کا وعدہ فرمایاتھا ،وہ نتائج مرتب بھی ہوئے۔حق وباطل کی کشمکش میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے اسوہ حسنہ سے ہمیں یہ اصول بھی ملتا ہے کہ حق ،باطل کے ساتھ ساز گاری اور "کچھ لو،کچھ دو" کا معاملہ نہ کرے۔قرآن مجید نے باطل کے ساتھ ساز گاری سے بہت شدید الفاظ کے ساتھ منع کیا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ حق والے اگر اہل باطل کے ساتھ سودے بازی کرسکتے ہیں تو اس کا صاف مطلب ہے کہ وہ باطل سے مل کر رہنے کو تیار ہیں جبکہ حق،حق ہے اور باطل اس کے بالکل برعکس۔ان دونوں گروہوں کا شیروشکر ہوکر ایک جگہ بیٹھنا اسی طرح غیر فطری ہے جس طرح آگ اور پانی کا یکجا ہونا۔اس طرح حق اور باطل میں ساز گاری غیر فطری ہے۔
اسی طرح جب حق والے باطل کے ساتھ مل بیٹھنے کو تیار ہوجائیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ حق کے لئے قربانی دینے سے  گریزاں ہیں اور باطل والے حق والوں کی اس کمزوری کو فوراً بھانپ لیتے ہیں کہ حق پر ضرب لگانے کا یہ بہترین موقع ہے۔کہ حق والے باطل سے صلح کرنے کے بعد گوشہ عافیت میں  بیٹھے ہوتے ہیں چنانچہ باطل اس پر کاری ضرب لگانے میں دیر نہیں کرتا۔حق والوں کاباطل کے ساتھ مل بیٹھنا در حقیقت حق اور باطل کو ملا جلا کرایک ملغوبہ تیار کرنا ہوتاہے اس صورت میں حق کی اثر پزیری متاثر ہوتی ہے جوایک بڑا جرم ہے۔
چنانچہ قرآن مجید میں ایسی روش کی سختی سے ممانعت کردی گئی ہے۔(71) اس سلسلے میں ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے اسوہ حسنہء سے بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ اہل باطل نے کئی مواقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے سودے بازی کی جسارت کی لیکن انہیں ہر مرتبہ منہ کی کھانی پڑی۔کفار مکہ نے سر توڑ کوششیں کیں کہ"آپ ہمارے خداؤں کو برا نہ کہیں ،ہم آپ کے خدا کوبرا نہیں کہتے"(72)
کبھی باطل نبی کی جانب  سے پیش کش آئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ایک علاقے کے نبی بن جائیں اور مجھے دوسرا علاقہ دے دیں۔(73)
کبھی بہترین خاندان میں شادی،مکہ کی سرداری اور مال ودولت کے ڈھیروں کی پیش کش کی گئی۔کبھی آپ کے چچا ،ابوطالب کو درمیان میں لا کر سفارش کی گئی۔کہ آپ باطل سے ساز گاری پیدا کرلیں۔لیکن زبان نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم سے  جب جواب نہیں ملا وہ اولو الالعزمی کی سنہری مثال ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
"یہ لوگ اگر میرے ایک ہاتھ پور سورج اور دوسرے پر چاند رکھ دیں تو بھی میں اپنا مشن نہ چھوڑوں گا"(74)
تحمل وبردباری:۔
کفار کی ان کی  کوششوں کے سامنے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کا جو اسوہ ہمارے سامنے آتا ہے:وہ یہ ہے کہ ان کی نہایت جاحانہ پالیسی کے مقابلے میں اشعال کا مظاہرہ نہیں فرمایا بلکہ نہایت تحمل سے انہیں قرآن مجید سنایا۔اس سے ایک مبلغ کے لئے بھی یہ اصول واضح ہوتا ہے کہ:
"باطل سے دبنے،اس کی پیدا کردہ بے مقصد اشتعال انگیزیوں،پروپیگنڈہ،الزامات،اعتراضات اور اوچھے ہتھکنڈوں کی بحث میں  پڑ کر اپنا وقت اور اپنی صلاحیتیں ضائع کرنے کی بجائے،ان کےسامنے اپنا منشور یعنی قرآن کا پیغام پیش کیا جائے۔گویا کسی بھی صورت میں اپنے منشور اور نصب العین کو نگاہ سے دو نہ ہونے دیں"
تبلیغی ذمہ داریاں:۔
اس بات کو سورۃ الاحزاب کے آغاز میں یوں بیا ن کیا ہے۔
"يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللَّـهَ وَلَا تُطِعِ الْكَافِرِ‌ينَ وَالْمُنَافِقِينَ ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا ﴿١﴾ وَاتَّبِعْ مَا يُوحَىٰ إِلَيْكَ مِن رَّ‌بِّكَ"(75)
"اے نبی! اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا اور کافروں اور منافقوں کی باتوں میں نہ آجانا، اللہ تعالیٰ بڑے علم والا اور بڑی حکمت والا ہے (1) جو کچھ آپ کی جانب آپ کے رب کی طرف سے وحی کی جاتی ہے"
نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  پورے درد دل کے ساتھ کفار کے سامنے پیغام حق پیش کرتے لیکن دوسری جانب سے  ہمیشہ سرکشی،استہزاء،انکار اور بے مقصد بہانے سازیوں اسر کٹ حجتیوں کا اظہار کیا جاتا۔ اس صورت حال میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے قلب مبارک میں ایک مخصوص کیفیت  پیدا ہوتی۔
اس کیفیت کے بارے میں قرآن مجید میں یوں ذکر کیا گیا:
"وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّكَ يَضِيقُ صَدْرُ‌كَ بِمَا يَقُولُونَ"(76)
"ہمیں خوب علم ہے کہ ان کی باتوں سے آپ کا دل تنگ ہوتا ہے"
اس بات کو سورہ کہف میں یوں بیان کیا گیا :
فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلَىٰ آثَارِ‌هِمْ إِن لَّمْ يُؤْمِنُوا بِهَـٰذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا (77)
"پس اگر یہ لوگ اس بات پر ایمان نہ لائیں تو کیا آپ ان کے پیچھے اسی رنج میں اپنی جان ہلاک کر ڈالیں گے؟"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی یہ کیفیت کسی د نیوی خواہش کی عدم تکمیل یا حصول اقتدار میں کامیابی حاصل نہ ہوسکنے کی بنا پر نہ تھی بلکہ اس کے پیچھے بھی انسانوں کی خیر خواہی کا جذبہ کارفرماتھا کہ یہ لوگ جہنم کی طرف بھاگے جارہے ہیں۔دوسرے یہ آپ کے اپنے نصب العین اور مشن سے وابستگی کی واضح دلیل ہے کہ نصب العین سچائی پر مبنی ہو تو پھرداعی کے اعصاب پر ہر لمحہ اس نصب العین کا فروغ سوار رہے گا اور اس کی راہ میں رکاوٹیں داعی کو پریشان کرتی ہیں۔
ایسی صورت حال میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی وساطت سے یہ اصولی راہنمائی دی گئی ہے(اس کی عملی شکل نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے اسوہ حسنہ میں دکھائی دیتی ہے) کہ داعی پریشان نہ ہو،حق وباطل کی کشمکش میں یہ مرحلہ اور یہ کیفیات آتی ہی رہتی ہیں اور باطل والے استہزاء اور انکار کی راہ اختیار کرلیتے ہیں۔داعی کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے نصب العین کے حصول کے لئے یکسوئی سےچلتا رہے اس کیفیت میں اللہ تعالیٰ نےحضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کو یہ ہدایات ارشادفرمائیں۔
﴿وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّكَ يَضِيقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُولُونَ ﴿٩٧﴾ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ ﴿٩٨﴾ وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّىٰ يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ ﴿٩٩﴾...الحجر
"ہمیں خوب علم ہے کہ ان کی باتوں سے آپ کا دل تنگ ہوتا ہے (97) آپ اپنے پروردگار کی تسبیح اور حمد بیان کرتے رہیں اور سجده کرنے والوں میں شامل ہو جائیں (98) اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں یہاں تک کہ آپ کو موت آجائے"
صبر کی تلقین:۔
﴿وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ إِلَّا بِاللَّـهِ ۚ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُ فِي ضَيْقٍ مِّمَّا يَمْكُرُونَ ﴿١٢٧﴾ إِنَّ اللَّـهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوا وَّالَّذِينَ هُم مُّحْسِنُونَ ﴿١٢٨﴾...النحل
"آپ صبر کریں بغیر توفیق الٰہی کے آپ صبر کر ہی نہیں سکتے اور ان کے حال پر رنجیده نہ ہوں اور جو مکر وفریب یہ کرتے رہتے ہیں ان سے تنگ دل نہ ہوں (127) یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں اور نیک کاروں کے ساتھ ہے"
"فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ‌ وَأَعْرِ‌ضْ عَنِ الْمُشْرِ‌كِينَ"(80)
"پس آپ اس حکم کو جو آپ کو کیا جارہا ہے کھول کر سنا دیجئے! اور مشرکوں سے منہ پھیر لیجئے"
"خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ" (81)
"اے پیغمبر ( صلی اللہ علیہ وسلم ) در گزر کواپنا طریق بنا لیں۔اچھی بات کا حکم دیں اور جاہلوں سے الگ ہوجائیں"
اس موضوع کی اور بھی کئی ایک آیات کا حوالہ دیاجاسکتاہے جن میں دشمنوں کی سازشوں کے مقابلے میں طرز عمل کے بارے میں ہدایات دی گئی ہیں۔
کج بحثی سےگریز:۔
رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک سے کئی ایک مثالیں ملتی ہیں کہ کفار مسلمانوں کے ساتھ خوامخواہ الجھاؤ پیدا کرنے کی کوشش کرتے۔اس سے فضا بحث وتمحیص اور مجادلہ کی شکل اختیار کرجاتی اور یہی کفار کا مقصد بھی تھا کہ مسلمانوں کو ان کے دعوتی کام سے ہٹا کر اعتراضات اور پروپیگنڈہ کے جوابات میں الجھا   دیا جائے۔ایسی فضا میں مسلمانوں کو حکم دیا کہ:
وَ قُلْ لِعِبادي يَقُولُوا الَّتي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ الشَّيْطانَ يَنْزَغُ بَيْنَهُمْ إِنَّ الشَّيْطانَ كانَ لِلْإِنْسانِ عَدُوًّا مُبيناً(82)
"اے پیغمبر( صلی اللہ علیہ وسلم ) میرے  بندوں سے فرمادیجئے کہ(جب کافروں سے بحث کریں) تو وہ بات کہیں جو اچھی ہے کیونکہ شیطان(سخت کلامی کرواکے) لوگوں کو لڑاتا ہے۔بے شک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے"
گزشتہ سطور میں ہم نے حق کے مقابلے باطل کے طرز عمل کے حوالے سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کو جو انداز اپنانے کا حکم دیا گیا تھا،ان کا ذکر کیا ہےجس کا خلاصہ یہ ہے کہ:
ان کے غلط طرز عمل کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے آپ کو ہلاکت میں کیوں ڈالتے ہیں۔ان کی اس قدر فکر نہ کیجئے۔ان کی ایذا رسانیوں پر صبر کیجئے۔اللہ تعالیٰ کی تسبیح کریں اور اس کے آگے سجدہ ریز ہوں گویا اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق استوار رکھیں،اس سے مدد مانگیں۔اس سے داعی کی روحانی بالیدگی ہوگی اور اللہ تعالیٰ بھی اس پر رحمتیں نازل کرے گا اور مدد کر ے گا۔
اپنامشن یکسوئی سے جاری رکھیں۔نہ اسے پس پشت ڈالیں نہ اس سے رو گردانی کریں۔لوگوں کی باتوں کی زیادہ پرواہ نہ کریں۔
لوگوں کے ساتھ ان کے درشت رویہ کے باوجود عفوودرگزر کی پالیسی اپنائیں،بحث وتمحیص سے اجتناب کریں۔
تبلیغی حکمت عملی:۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی  پوری دعوتی حکمت عملی قرآن کی اس آیت مبارکہ کی عملی صورت تھی۔
(اُدْعُ اِلٰی سَبِيْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَة وَالْمَوْعِظَة الْحَسَنَة وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ)(83)
"بلائیں اپنے رب کی راہ کی جانب حکمت ،عمدہ نصیحت اور(اگر ضرورت پیش آئے تو) احسن طریق سے بحث کے ساتھ"
اس آیت کریمہ کے ساتھ سورۃ العنکبوت کی یہ آیت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے طرز عمل کا حصہ تھی:
(وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ)(84)
" اور اہل کتاب کے ساتھ جھگڑا نہ کرو مگر اچھے طریقے کے ساتھ"
یہ اس لئے بھی ہے کہ  اہل کتاب بھی ا پنا تعلق انبیاء سے جوڑتے  ہیں اور اسلام میں بھی انبیائے  سابقین کی عزت واحترام جزوایمان ہے ۔ان سے بحث کرتے ہوئے کہیں ان انبیاء علیہ السلام  کے بارے میں  کوئی نامناسب بات زبان سے نہ نکل جائے۔نیز یہ کہ ان کی کتابوں کے بارے میں یہی حکم ہے کہ" نہ اس کی تصدیق کرو نہ تکذیب" لہذا ان کا مسئلہ نہایت نازک ہے اس لئے تمام تر احتیاط کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان سے بحث کرو۔اگر وہ نہایت نا مناسب رویہ ا پناتے ہوئے ہٹ دھرمی پر اتر جائیں تو تب بھی تم احتیاط سے کام لو سختی کرسکتے ہو لیکن آداب کا خیال رکھتے ہوئے۔
دعوت دین کے حوالے سے حضور  اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی حکمت عملی کا ایک پہلو یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجرد  تبلیغ کا انداز نہیں اپنایا کہ جس کا تعلق باقی انسانی معاشرے سے بالکل ہی نہ ہو۔بلکہ آپ مبلغ بھی تھے اور لوگوں کے دنیوی امور  میں راہنما بھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  لوگوں کی فلاح وبہبود کے لئے سوچتے بھی تھے اور عملی طور پر فلاحی امور میں حصہ بھی لیتے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ان لوگوں کے دکھ درد میں ان کے برابر کے شریک تھے۔کسی کی معاشرتی ضرورت ہوتی تو اس کی تکمیل کی فکر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو دامن گیر ہوتی اور اس کے لئے جس طرح بھی ہوتا اہتمام فرماتے۔اگر کوئی بیمار ہوتاتو اس کی عیادت کو تشریف لے جاتے،جنازوں میں شرکت فرماتے،لوگوں کے معاشرتی مسائل میں انھیں مشورے دیتے۔اقتصادی مسائل میں لوگ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم  سے راہنمائی لیتے۔اس طرح اس طریق تبلیغ میں پوری انسانی زندگی کا احاطہ کردیاگیا تھا۔لیکن اسکے ساتھ ساتھ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی بھی ایک بھر پور زندگی گزار رہے تھے۔
قول وفعل میں یگانگت:۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ کا ایک نمایاں پہلو یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہاں قول وفعل مکمل مطابقت دکھائی دیتی ہے۔ایک مبلغ کی راہ میں ایک بھاری  پتھر یہی ہوتا ہے کہ اس کے قول و  فعل کے تضاد کو لوگ ابھارکر اس کی زبان بند کردیتے ہیں اور وہ لاجواب ہوجاتا ہے اس کے مقابلے میں حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کی دعوت کی بنیاد ہی قول وفعل کی مطابقت پر تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے پہلے ہی خطاب میں اپنی زندگی ان کے سامنے رکھی تھی کہ تم نے مجھے سچا پایا یا برعکس؟سب کا جواب ایک ہی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ہم میں سے سب سے زیادہ صادق اور امین ہیں۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ اگر میں تمھیں کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے سے تم پر ایک لشکر  حملہ آور ہواچاہتا ہے تو کیا تم مان جاؤ گے؟
سب نے یہی جواب دیا کہ آپ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔چنانچہ اس کی بنیاد پر دعوت توحید پیش کی۔اسی کو قرآن مجید نے یوں بیان کیاہے ۔
(فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرً‌ا مِّن قَبْلِهِ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ)(85)
"میں نے اپنی پہلی زندگی تمھارے میں گزاری کیا تمھیں عقل نہیں ہے؟"
یعنی تم یہ اندازہ نہیں کرسکتے کہ اگر میں اس سے قبل غلط بیانی کرنے والا نہیں تھا تو اب میں کس طرح ایک کتاب گھڑ کر اسے اللہ کی طرف منسوب کرسکتا ہوں؟
  عصر حاضر اور تبلیغ دین :۔
دور حاضر میں تبلیغ دین اتنا ہی اہم فریضہ ہے جتنا کسی پہلے دور میں تھا ۔کیونکہ اسلام ایک دائمی دین ہے اور اسے قیامت تک ذریعہ را ہنما ئیبنتا ہے ۔کتاب و سنت میں اس سلسلے میں اس قدر تا کیدی احکا م مو جو د ہیں کہ فریضہ دین کی اشاعت و تبلیغ کی ذمہ داری سے کو ئی شخص بری نہیں ہو سکتا ۔یہ افرا د کی ذمہ داری بھی ہے (86) اور اسلامی حکومتوں کا فرض بھی کہ وہ اشاعت دین اہتمام کریں ( 87)
دین اسلام انسان کی فطری ضرورت ہے کو ئی شخص لا علمی کم علمی تعصب یا کسی اور سبب سے دین اسلام سے را ہنما ئی حاصل نہ کر رہا ہو تو الگ بات ہے لیکن اگر ایک انسان سلام طبع کے ساتھ اپنے مسائل اور اسلام میں دئیے گئے اس مسئلے کے حل میں دو نوں کو ساتھ ساتھ رکھ کر غور کرے تو اسے معلوم ہو گا کہ اس کے مسئلے کا حقیقی حل اسلام ہی نے دیا ہے اس طرح اسلام انسا ن کی ایک فطری ضرورت ہے ۔
حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرا می بھی ہے کہ:
اللہ تعا لیٰ کا بھی یہ اعلا ن ہے کہ :
﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ...٣﴾...المائدة
"آج کے دن ہم نے تمھا رے لے تھا را دین کا مل کر دیا اور اپنی  نعمتیں تم پر پو ری کر دیں اور تمھا رے لیے اسلام کو دین کے طور پر پسند کیا "
ان تمام دلا ئل سے یہ بات واضح ہو تی ہے کہ تبلیغ دین کی اشاعت فروغ ایک لا زمی ضرورت ہے (اس سلسلے میں مقالے کے آغاز میں کچھ احادیث کا ذکر کیا گیا ہے )اس کے علاوہ احا دیث میں امر بالمعروف اور انہی المنکر کے ابواب سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس فرض کی ادئیگی کا اہتمام ضروری امر ہے اصل بات یہ ہے کہ ہم اس سلسلے میں عصری ضروریا ت و رجحا نات کے منا ظر میں کیا اہتمام کرتے ہیں ۔
عصر حاضر میں تبلیغ دین کے امکانات کے حوالے سے سب سے بنیا دی بات یہ ہے کہ: "صرف امر بالمعروف کی تشہیر سے مقصد پو را نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کے ساتھ انہی عن المنکر موجود نہ ہو "
یہ اسی طرح ہے کہ کس ی جگہ کو پا ک کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہا ں سے گندگی اور غلا ظت ہٹائی جا ئے ۔یہ بات خلا ف منطق ہے کہ ایک جگہ غلا ظت بھی پڑ ی رہے اور ہم کہیں کہ وہ جگہ پاک بھی ہو جا ئے۔قرآن مجید میں جہا ں کہیں بھی امر بالمعروف کا ذکر آیا ہے وہا ں نہی عن المنکر بھی ساتھ مو جو د ہے ۔
یہ بات ہمارے مشاہدے میں ہے کہ نہی عن المنکر اور فواحش کے انسداد کے بغیر امر بالمعروف محض وعظ و نصیحت کی حیثیت ہی سے باقی رہ جا تا ہے ۔
اس سلسلے میں حکومت کی جانب سے اس بات کا اہتمام ضروری ہے کہ وہ امر بالمعروف کے ساتھ ساتھ منکرات و فواحش کے انسداد کے لیے باقاعدہ ملکی سطح پر قانون سازی کرے اور ملکی مشنیری جس طرح دیگر قوانین پر عمل کرواتی ہے اسی طرح منکرات کے کم ارتکا ب کو یقینی بنا ئے۔
اس سلسلے میں ہو نے والی مساعی خاص طور پر حکومتی سطح سے کی جا نے والی کو شیشں بے اثر ہیں ۔نہ تو ان کو ششوں کے پیچھے کو ئی مقصد ہے نہ منصوبہ بندی اور طریق کا ر کا تعین ان کو ششوں میں خلوص کا بھی فقد ان ہو تا ہے  ۔
سر کا ری ذرائع ابلا غ کے ذر یعے سے کی جا نے والی کو ششوں میں ریڈیو کے دینی پرو گرام ٹیلی ویژن کے دینی پرو گرا م اخبارا ت و جرا ئد کے دینی مضا مین اور وقتاًفوقتاً دینی مقاصد کے لیے منعقد ہو نے والے دیگر تقریری پرو گرا م شامل ہیں اگر نا قدانہ نگا ہ سے ان پرو گراموں کا جا ئزہ لیں تو یہ بات بلا خوف تروید کہی جا تی ہے کہ یہ پروگرام بڑی حدتک روائتی شکل اختیا کر گئے ہیں شاید پانچ سے دس فیصد تک بھی یہ پرو گرا م سننے والے لو گ موجود نہ ہوں ۔بہت کم مقرر ین جذبہ عمل کے ساتھ ان پرو گرا موں میں شر کت کرتے ہو ں ۔اس لیے ان پرو گرا موں کو مزید مفید اور دلچسپ اور دینی اعتبار سے معلو مات افزابنانا ضروری ہے۔خالص نیکی کے حکم اور برا ئی کی ممانعت کے مقصد کے تحت پرو گرا م پیش کرنے ضروری ہیں۔
خاص طور پر اخبارا ت کے دینی صفحات بالکل سطحی نوعیت کے ہو تے ہیں اگر ان میں دین کی جا ندار انداز سے تصویرپیش کی جا ئے تو مفید چیز اپنے آپ دوسروں کو اپنی جانب متوجہ کر لیتی ہے تبلیغ دین کے جدید اسلوب اور تقاضوں کے بارے میں ابھی تک بہت کم آگا ہی حاصل ہے اور ان تقاضوں کو پس پشت ڈا لتے ہو ئے سارا تبلیغی کام سر انجا م دیا جا رہا ہے آج کا دور ایک مخصوص اندا ز فکر کا دور ہے۔اس اندا ز فکر کی مناسبت اور تقاضوں کے مطا بق اصول تبلیغ وضع کرنے ضروری ہیں تا کہ نقلی کے ساتھ ساتھ اصلی اعتبار سے بھی اسلام کی افادیت لوگوں کے ذہنوں میں جا گز یں کی جائے۔
آج کا ذہن یہ جا ننا چا ہتا ہے کہ اسلام ہمارے معاشرتی سیاسی فکریاور معاشی مسائل کا حل کس طرح پیش کرتا ہے؟اگر ہم اس سلسلے میں اسلا م کی تشریح و تو ضیح کھلی آنکھوں کے ساتھ پیش کر دیں تو جہا ں تبلیغ دین میں بہت سی رکا وٹیں کھڑی ہیں وہاں ایسا کرنے کی صورت میں ہماراکا م آسان بھی ہو جا تا ہے ۔
جدید ذہن میں یہ بات ڈال دی گئی ہے کہ اسلام یا مذہب اور ترقی ایک دوسرے سے متصادم ہیں حا لا نکہ یہ بات عیسائیت کے بارے میں کہی جا سکتی  ہے۔
اسلا م کے بارے میں ایسا نظریہ رکھنا خلا ف حقیقت ہے لہٰذا ابلا غ دین کے تقاضوں میں سے ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ اسے ایک ایسے دین کے طور پر متعارف کروایا جا ئے کہ سائنس ٹیکنالو جی اور ترقی اس کا لا زمی جزو نظر آئیں ۔لیکن اس سلسلے میں مر بو ط اور مو ثر جد و جہد کی ضرورت ہے ۔سر کا ری سطح سے اس سلسلے میں جو پرو گرا م پیش ہو رہے ہیں ان میں باہم ربط اور منصوبہ بندی اور مقصد کے تعین کی ضرورت ہے ۔محض کا روائی کے طور پر کی گئی کو ششوں کے ثمرا ت مرتب نہیں ہو تے ۔
مسا جد وغیرہ سے جو کہ تبلیغ و اشاعت دین کا سب سے بڑا مرکز ہیں اس سلسلے میں جو کا م ہو رہا ہے اس کی افادیت کا از سر نو جا ئز ہ لینے  کی ضرورت ہے یہ پہلو افسوسناک ہے کہ اگر چہ وہاں کا م ہو رہا ہے لیکن مسجد کا نظا م بھی چند مخصوص مو ضوعا ت میں محدود ہو کر رہ گیا ہے بقول پرو فیسر عبد الحمید صدیقی :مقرر ین ایک محدود  وقت میں لو گوں کے جذبات کو اس قدر تحریک دے دیتے ہیں کہ وہ تقریر کے دورا ن واہ واہ اور زندہ باد توکرتے ہیں اور مقرر کو داد بھی دیتے لیکن جو نہی یہ تقریر ختم ہو تی ہے ان کی یہ مذہبی جذبا تیت بھی ختم ہو جا تی ہے اور جب وہ مسجد سے باہر جا تے ہیں تو ان پر اس ساری تقریر کا کو ئی بھی اثر باقی نہیں ہو تا ۔کیونکہ مقرر نے تو اس کے محض جذبات کو ابھا را ہو تا ہے اس کے قلب و دماغ میں پیغام دین اور دین کا حقیقی مقصد ذہن نشین نہیں کرو ایا تھا ۔اس لیے یہ ساری تبلیغ بے اثر ہو گئی ۔
عصر حاضرمیں تبلیغ کے درست اثرا ت مرتب نہ ہو نے کا ایک بنیا دی سبب یہ ہے کہ ہم نے تبلیغ اسلام فلا ح عامہ اور انسانی زندگی کے دیگر مادی پہلوؤں کو ایک دوسرے سے جدا کر رکھا ہے ان دونوں کے تعلق کو جو ڑکر ہی تبلیغ مو ثر بنا ئی جا سکتی ہے عیسائی مبلغین کو یہی فو قیت حاصل ہے کہ وہ اپنی تبلیغ اپنے فلا حی اداروں کے ذریعے کر رہے ہیں ۔ ایک شخص بیمار ہوا سے دوائی کی ضرورت ہو۔ایک بھو کا ہو اسے کھا نے کو چا ہیے ایک شخص پریشان حا ل ہو اسے اس کی پر یشانی سے نکا لنے کی ضرورت ہو۔ اگر ہم اسے تبلیغ کریں گے تو ہمارا یہ طریقہ مو ثر نہیں ہو گا بلکہ ہمیں چا ہیے کہ ان کے عین مشکل وقت  میں اس کی مدد کر کے اس کے جذبات کو جیتنے کی کو شش کریں ۔یہ کا م عیسائی اور دیگر لو گ کر رہے ہیں جبکہ اس کے بالمقابل مسلمانوں کا طریق دعوت ان تمام فلا حی کاموں سے کٹا ہوا ہے۔
ہمارے ہاں ایک طبقہ کے نگا ہ میں افرا د سازی کے لیے "سیا ست " سے بالکلل قطع تعلق ہو نا ہی تبلیغ ہے اور دوسری جا نب تبلیغ پر سیا ست غا لب ہے ان دو نوں میں اعتدال کی را ہ ہی حقیقی دعوتی اندا ز ہو گا ۔
حوالہ جا ت :۔
1۔الا حزاب:22۔۔۔
2۔الما ئدہ :67۔
3۔آل عمرا ن:164۔
4۔المدثر:32۔
5۔الشعراء:214۔
6۔النحل:125۔
7۔عثمانی شبیر احمد ،مولانافوائد القرآن مجمع الملک فہد لطباعۃ مدینہ منورہ عرب ص صفحہ 580۔
9۔عثمانی شبیر احمد مو لا نا فوائد القر آن ،صفحہ 372۔
10۔مودودی مو لا نا تفہیم القرآن جلد دو م صفحہ 580۔
11۔ایضاً جلد دو م صفحہ 581۔
12۔مسلم امام الجا مع الصحیح  جلد اول صفحہ 12 باب العلم ۔
13۔بحوالہ ظہور احمد اظہر ڈا کٹر و فصاحت نبوی اسلا مک پبلی کیشز لا ہو ر صفحہ 173۔
14۔ایضاً صفحہ 82۔
15۔جا حظ البیا ن والتسین جلد اول صفحہ 94۔
16۔عیا ض قاضی الشفا ء جلد اول صفحہ 178۔
17۔غزالی امام احیا ء علوم الدین جلد دو م صفحہ 274۔
18۔ترمذی محمد بن عیسیٰ امام شمائل ترمذی صفحہ 209۔
19۔ایضاً صفحہ 210
20۔ایضاً سفحہ 211۔
21۔ترمذی شمائل ترمذی صفحہ 209۔
22۔جا نظ البیا ن وا لتسین جلد چہا رم صفحہ 33۔
23۔بحوالہ ظہور احمد اظہر ڈاکٹر فصاحت نبوی صفحہ 241۔
24۔ص:86۔
25۔بحوالہ ظہور احمد اظہر ڈا کٹرفصاحت نبوی صفحہ 241۔
26ایضاً صفحہ 282۔
27۔ابن ماجہ امام سنن ابن ما جہ جلد دوم صفحہ 247۔                                 
28بحوالہ ظہور احمد اظہر ڈا کٹرفصاحت نبوی صفحہ 238۔
29۔ترمذی سنن الترمذی حدیث نمبر 2418۔
30۔ترمذی محمد بن عیسیٰ امام سنن الترمذی دا ر الفکر بیرو ت جلد سوم صفحہ 208۔باب (فی الوالدین ) ۔
31۔مو سوعہ اطرا ف الحدیث النبوی الشریف الجزء التاسع صفحہ 368تا 389پر (ان الفاظپر مشتمل احا دیث مو جو د ہیں )
32ایضاً الجزء العا شر صفحہ 360تاا 368(گو یا احا دیث کی کثیر تعداد میں یہ الفا ظ مو جو د ہیں )
33۔ابو داؤد امام سنن ابی داؤد کتا ب الا دب جلد دوم صفحہ 201۔
34۔بخا ری امام الجا مع الصحیح کتا ب الا یمان باب علا ما ت المنا فق ۔
35آل عمرا ن :64۔
36۔بخا ری امام الجا مع الصحیح جلد اول صفحہ 5۔
37بحوالہ ظہور احمد اظہر ڈا کٹرفصاحت نبوی صفحہ316۔
38ایضاًصفحہ 320۔
39۔ترمذی شمائل ترمذیصفحہ 210۔
40۔باقلا نی اعجا ز القرآن صفحہ 113۔
41۔ایضا ً۔
42۔ابن الاثیر الکا مل التاریخ جلد دو م صفحہ 24۔
43۔ایضاً۔
44۔خطیب تبریزی مشکوۃ المصابیح دمشق جلد اول 72۔کتا ب العلم
45۔جا حظ البیا ن والتسین جلد اول صفحہ 303۔
46۔النساء :159۔
47۔التوبہ :128۔
48۔ترمذی شمائل ترمذی صفحہ 321۔              
49۔بحوالہ حمید اللہ ڈاکٹر خطبا ت بہاولپور صفحہ 411۔
50۔النحل:126۔
51۔بحوالہ حمید اللہ ڈاکٹر خطبا ت بہاولپور صفحہ 412۔
52۔ترمذی شمائل ترمذی صفحہ211،365۔
53۔ترمذی شمائل ترمذی صفحہ211،365۔
54۔ایضاً۔
55۔ترمذی امام سنن الترمذی (کتا ب الزکا ۃ ) ۔
56۔بخا ری امام الجا مع الصحیح جلد اول صفحہ 5۔
57۔باقلا نی اعجا ز القرآن صفحہ 113۔
58۔خالد علوی ،ڈاکٹر انسان کا مل ۔
59۔ بحوالہ حمید اللہ ڈاکٹر خطبا ت بہاولپور ادارہ تحقیقات اسلامی اسلام آباد 1992ء صفحہ 410۔
60۔ایضاً صفحہ 410۔
61۔حم السجدۃ 34۔
62۔ترمذی ابی عیسیٰ محمد عیسیٰ سنن ترمذی دارالفکر بیروت 410۔جلدسوم صفحہ 239۔
63۔(باب ماجاء فی معاشرہ النا س )
64۔احمد بن حنبل مسند ۔
65۔باب ما جا ء فی الال حسان ۔
66۔محمد : 7۔
67۔آل عمرا ن :139۔
68۔۔الصفت :173۔
69۔المجا ء 22۔
70۔بنی اسرا ئیل :81۔
71۔بنی اسرا ئیل 73۔تا 76۔حق غا لب آتا ہی اس وقت ہے حق اور باطل کی آپس میں کشمکش ہو اس کشمکش میں اللہ تعا لیٰ مو منوں کا امتھا ن لیتے ہیں کہ وہ اگر حق کو سب چیزوں پر ترجیح دیتے ہیں تو پھر وہ اس کے لیے ہر طرح کی قر بانی بھی دین گے اور جو جھوٹے دعوے کرنے والے ہیں وہ بھی کھل کر سامنے آجا ئیں۔جو قربانیاں دیتے ہیں جن کے درجا ت بھی بلند کر دئیے جا تے ہیں اور حق بھی غا لب آ جا تا ہے لیکن اگر حق والے کود تن آسانی پر اتر آئیں اور گو شہ عافیت میں بیٹھ جا ئیں تو اللہ بھی مدد نہیں فرماتے ۔
72۔ابن ہشا م السیر ۃ النبویہ جلد دوم صفحہ 35:حجرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے اسلام لا نے کے بعد کفار نے ابو الولید عتبہ بن ربیعہ کو مزاکرا ت کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس بھیجا اس نے آکر کہا اے محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  آپ کی شرا فت نسبی اور مرتبہ میں کسی کو کلام نہیں لیکن آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک امرعظیم پیش کیا ہے جس سے قوم میں تفریق پیدا ہو گئی ہے آپ ہمارے بتو ں کو برا کہتے ہیں ہمارے آباؤ جداد کو احمق اور نادان بتا تے ہیں میں اس بارے میں کچھ کہنا چا ہتا ہوں۔
ان باتوں میں سے کو ئی بات اگر آپ نے قبول کر لی تو فساد رک جا ئے گا پھر اس نے سرداری شادی علا ج معالجے کی پیش کش کی اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا :" مجھے نہ تو تمھا رے مال و دولت کی ضرورت ہے اور نہ تمھا ری بادشاہت و سرداری کی اور نہ میرے دماغ میں خلل ہے مجھے اللہ نے تمھا رے طرف رسول بنا کر بھیجا ہے اور ایک کتا ب مجھ پر اتاری ہے مجھے اللہ نے حکم دیا ہے کہ میں تمھیں برا ئی سے ڈرا ؤں اور بھلائی کی نصیحت کروں میرا کا م اللہ کا پیغا م پہنچا دینا ہے ۔اگر تم اسے قبول کرو گے تو یہ تمھا رے لیے دنیا و آخرت کی فلا ح کا ذریعہ ہے اور اگر انکا ر کرو گے تو میں صبر کروں گا اور اللہ کے حکم کا انتظا ر کروں گا اس کے اس کے بعد آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے سورہ حم السجدہ کی ابتدا ئی آیا ت تلا وت فر ما ئیں ۔۔
73۔ابن ہشام السیر ۃ النبویہ جلد دو م صفحہ 288۔
74۔ایک دفعہ قریش نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے چچا ابو طالب سے کہا کہ تمھا را بھتیجا ہمارے معبودوں کو برا کہتا ہے ہمارے دین میں عیب نکا لتا ہے ہمیں احمق و نادان کہتا ہے ہمارے آباؤا جداد کو گمرا ہ بتا تا ہے اب یا تو انہیں ان باتوں سے روکو یا ان کی حمایت ترک کردو ۔۔۔یہ کہہ کر کفار چلے گئے ۔جب کچھ دیر بعد جواب نہ ملا تو وہ دوبارہ آئے پھر حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  سے انہیں بات کرنا پڑی چچا کے سامنے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فر ما یا :"اے چچا !خدا کی قسم اگر یہ لو گ میرےدائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ میں چا ند بھی لا کر رکھ دیں اور کہیں کہ احکا م الٰہی  کی تبلیغ چھوڑ دوں تو یہ نہیں ہو سکتا یا تو خداکا دین غا لب ہو گا اور شرک و بت پرستی ختم ہو گی یا پھر میں نہ رہوں گا اور ہلا ک کر دیا جا ؤں گا یہ کہہ کر آپ آبد یدہ ہو گئے اور اٹھ کر چل دئیے ۔۔۔اسی گفتگوکا ابو طا لب پر گہرا اثر ہوا اور آپ کو بلا کر کہنے لگے اے پیارے بھتیجے تم جو چا ہو کہواور کرو میں تمھیں کبھی دشمنوں کے حوالے نہیں کروں گا ۔(ابن ہشام الیسر النبویہ جلد دوم صفحہ 54)
75۔الاحزاب 1۔
76۔الحجر:97۔
77الکھف۔2۔
78۔الحجر:97تا 99۔
79۔النحل 127۔127۔
80۔الحجر:94۔
81۔الاعراف :199۔
82۔بنی اسرا ئیل :52۔
83۔النحل125۔
84۔العنکبوت46۔
85۔یو نس 16۔
86آل عمرا ن :110۔104۔
87۔الحج :41۔
88۔المائدہ :3۔