دینی مدارس ، مقاصد اور پس منظر ،خدمات

برصغیر پاک وہند میں ہمارےدینی مدا رس نہ صرف مسلمانوں کی پرا نی تہذیب کا تسلسل اور روایتی نظا م تعلیم کی یا دگا ر ہیں بلکہ انبیاء کرام علیہ السلام   کے مشن عظیم کی بقاءاور ان کے علمی ورثہ کے احیاء کی علا مت بھی ہیں ۔اگر چہ زمانہ کی دست مدد سے درس نظامی میں شامل عصری تقاضوں کی تکمیل کے خا طردنیوی علوم تو جاری نہ رہ سکے یا منطق و فلسفہ جیسے انسانی سوچ کے حا مل علوم دینی مدا رس میں اپنے اتقاء کو باقی نہ رکھ سکے تا ہم کیا دینی مدا رس کے یہ صرف دو پہلو ہی غنیمت نہیں کہ انبیاءکرا م  علیہ السلام  کے مشن کے حا مل افراد تیار ہو تے رہیں اور مسلمان اپنے ماضی سے بھی جزے رہیں اگر اب درس نطا می میں شامل قدیم دنیوی علوم کا خلا ء تسلیم بھی کر لیا جا ئے پھر بھی ایک شعبہ تمھیں دینی کے اعتبار سے ان کی اہمیت و افادیت سے انکا ر ممکن نہیں۔
محترم مقالہ نگا ر نے دینی مدارس کی اسی افادیت کے پیش نظر ان کے نصاب و نظا م میں کسی بنیا دی تبدیلی کی مخالفت کی ہے اور ان میں اہل اقتدار کی مدا خلت کو خطرناک قرار دیا ہے ۔ ہم آئندہ شمارہ ہمیں موصوف کا دوسرا مضمون بھی شا مل اشاعت کر رہے ہیں جو دینی مدا رس کے خلا ف بہت سے ایسے شبہات کا جواب ہو گا ۔(ان شاء اللہ )
سودیت یونین کے بکھرجا نے اور روس کے بحیثیت سپر طا قت زوال کے بعدامریکہ سپریم طا قت بن گیا ہے جس سے اس کی رغوبت میں اضا فہ اور پو ری دنیا کو اپنی  ماتحتی میں کرنے کا جذبہ مزید توانا ،بالخصوص عالم اسلام میں اپنےاثر و نفوذ اور اپنی تہذیب و تمدن کے پھیلا نے میں خوب سر گرم ہو گیا ہے۔ نیوورلڈ آرڈر(نیا عالمی نظا م)اس کے اسی جذبے کا مظہر اور عکاس ہے۔
امریکہ کے دانشور جا نتے اور سمجھتے ہیں کہ ان کی حیا باختہ  تہذیب کے مقابلے میں اسلامی تہذیب اپنے حیاء و عفت کے پاکیزہ تصورات کے اعتبار سے بدر جہا بہتر اور فائق ہے اس لیے یہ اسلامی تہذیب ہی اس کے نئے عالمی نظا م اور اس کی عالمی چودھراہٹ کی راہ  میں بڑی رکاوٹ ہے اسے ختم یا کمزور کئے بغیر وہ اپنا مقصد اور عالمی قیادت حاصل نہیں کر سکتا ۔چنانچہ اس نے اسلامی تہذیب و تمدن کو ختم کر نے کے لیے اپنی سر گرمیاں تیز کر دی ہیں یہ مذموم کو ششیں ویسے تو ایک عرصے سے جاری ہیں اور مختلف جہتوں اور محا ذوں سے یہ کا م ہو رہا ہے۔
بعض محا ذوں پر اس کی پیش قدمی نہایت کا میابی سے جاری ہے ۔مثلاً حقوق نسواں کے عنوان سے مسلمان عورتوں میں اپنے مذہب سے نفرت وبیگا نگی اور بے حیا ئی و بے پردگی کی اشاعت جس میں وہ بہت کا میاب ہے چنانچہ سعودی معاشرے کے علاوہ بیشتر اسلامی ملکوں کی مسلمان عورتوں کو اس نے اسلامی تعلیمات کے بالکل بر عکس پردے کی پابندی سے آزاد اور حیا و عفت کے اسلامی تصورات سے بے نیا ز کر دیا ہے۔
مخلوط تعلیم مخلوط سروس اور مخلوط معاشرت کا فتنہ اور مساات مردوزن کا مغربی نظریہ ایسا ہے جو ہر اسلامی ملک میں اسلام کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہے ۔گو یا اس محا ذ پر بھی مغرب کی سازشیں اپنا رنگ دکھا رہی ہیں ۔نرسری سے لے کر کا لج اور یونورسٹیوں کی سطح تک نصاب تعلیم میں لا رڈ میکا لے کی وہ روح کا ر فر ما ہے جو اس انگریزی نظا م تعلیم کا موجد تھا اور جس نے کہا تھا کہ " اس سے ایسا طبقہ پیدا ہو گا جو خون اور رنگ کے اعتبار سے ہندوستانی مگر خیالات اور تمدن میں انگر یز ہو گا ۔
یہ بات اس نے 1834ء میں کہی تھی جب  متحدہ ہندوستان انگریزوں کے زیر نگین تھا لیکن آزادی کے بعد بھی چونکہ یہی نصاب تعلیم بد ستور جاری ہے اس لیے خیالات اور تمدن میں انگریز بننے کا سلسلہ بھی جا ری ہے انگریزی زبان کے تسلط اور برتری سے بھی وہ اپنے مذکورہ مقاصد حاصل کر رہا ہے اور ہم نے اس کی زبان کو بھی سینے سے لگا رکھا ہے اور یوں اس کے استعماری عزائم اور اسلام دشمن بلکہ اسلام کش منصوبوں کو پا یہ تکمیل تک پہنچا نے میں اس کے دست و بازو بنے ہو ئے ہیں ۔
اقتصادو معیشت میں بھی ہم نے اس کی پیروی اختیار کر رکھی ہے اور سودی نطام کو جو لاکھوں کے لیے مرگ مفا جا ت کا حکم رکھتا ہے ہم نے اسے مکمل تحفظ دے رکھا ہے اور اسے ہر شعبے میں بری طرح مسلط کیا ہو ا ہے ۔جس کی وجہ سے اقتصادی نا ہمواری عروج پر ہے ۔امیر امیر تر اور غریب،غریب تر بنتا جا رہا ہے نو دولتیوں کا ایک ایسا طبقہ الگ معرض و جود میں آچکا ہے جو پوری طرح مغربیت کے سانچے میں ڈھل چکا ہے اس کا رہن سہن بو دو باش ،طور اطوار حتیٰ کہ لہجہ و زبان تک سب کچھ مغربی تہذیب کا والہ و شید اور پرستار ہے اور اس کے شب و روز کے معمولات مغربی معاشرے کے عین مطا بق ہیں۔
سیاست و نظم حکومت میں بھی ہم نے جمہوریت کو اپنا یا ہوا ہے جو مغرب ہی کا تحفہ ہے۔یہ پودا مغرب میں ہی پروان چڑھا وہاں کی آب و ہوا شاید اسے راس ہو۔ لیکن اسلامی ملکوں کے لیے جمہوریتاسلام سے محروم کرنے کی ایک بہت بڑی سازش ہے جس کے دام ہم رنگ زمین میں بیشتر اسلامی ملک پھنس چکے ہیں ۔کچھ تو اس کی "برکت "سے اسلامی اقدارو روایات سے بالکل بیگا نہ ہو چکے ہیں جیسے ترکی ہے ۔کچھ سخت جا ن ہیں تو وہاں اسلامی اقدار اور مغربی اقدار میں سخت کشمکش برپا ہے برسر اقتدار حکمران مغربی تہذیب و تمدن کو مسلط کرنے پر تلے ہو ئے ہیں جب کہ اسلامی تہذیب سے محبت کرنے والا ایک گروہ اس کے خلا ف مزاحمت کر رہا ہے تا ہم عوام کی بہت بڑی اکثریت ،بیشتر اسلامی ملکوں میں دینی جذبہ واحساس اور شعور سے محروم ہو نے کی وجہ سے (النَّاسُ عَلَى دِينِ مُلُوكِهِمْ)کے تحت مغرب کی حیا باختہ تہذیب ہی کو اپنا رہی ہے۔
ہماری صحافت بالخصوص روز نامے ،مغربی ملکوں کے روزناموں سے بھی زیادہ بے حیائی پھیلا نے میں مصروف ہیں۔ چند ٹکوں کی خا طر مسلمان عورت کو روزانہ عریاں اور نیم عریاں کر کے پیش کرتے ہیں ۔تا کہ عوام کی ہوس پرستی اور جنسی اشتہاء کی تسکین کر کے ان کی جیبوں سے پیسے بھی کھینچے جا ئیں اور انہیں دولت ایمان سے بھی محروم کردیں ۔ان غارت گرا ن دین و ایمان کو اس بات سے کو ئی غرض نہیں کہ ان مہ وشوں سمیں تنوں اور ہزنان تمکینو ہوش کی رنگیں اور شہوت انگیز تصویروں سے عوام کے اخلا ق و کردار کس بری طرح بگڑ رہے ہیں بے حیائی اور بے پردگی کو کس طرح فروغ مل رہا ہے اور فحاشی کا سیلا ب کس طرح ہر گھر کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے انہیں صرف اپنی کمائی سے غرض ہے اس کے علاوہ ہر چیز سے انھوں نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں ان مایوس کن ایمان شکن اور روح فرسا حالات میں صرف دینی تعلیم و تربیت کے وہ ادارے اور مراکزہی امید کی کرن ہیں جنہیں مدارس دینیہ اور مرا کز اسلامیہ کہا جا تا ہے جہاں محروم طبقات کے بچے یا دینی جذبات سے بہرہ لوگوں کے نو جوان دین کے علوم حاصل کر کے مسلمان عوام کی دینی رہنما ئی بھی کرتے ہیں اور ان کی دینی ضروریات کا سروسامان بھی ان کی وجہ سے ہی تمام مذکورہ شیطانی کوششوں کے باوجود اسلامی اقدار و روایات ایک طبقے کے اندر موجود ہیں معاشرے کے اندر اسلامی تشخص کسی نہ کسی انداز سے زندہ ہے اور اسلامی عبادات و شعائر کا احترا م لوگوں کے دلوں میں ہے اس لحاظ سے یہ دینی مدارس اپنی تمام تر کوتاہیوں محرومیوں اور کس مپرسی کے باوجود جیسے کچھ بھی ہیں اسلام کے قلعے اور اس کی پناہ گا ہیں ہیں دینی علوم کے سر چشمے ہیں جن سے طالبان دین کسب فیض کرتے اورتشنگان علم سیرا ب ہو تے ہیں اور دین کی وہ مشعلیں ہیں جن سے کفرو ضلا لت کی تاریکیوں میں ہدایت کی روشنی پھیل رہی ہے ۔اور اس کی کرنیں ایک عالم کو منور کر رہی ہیں ۔ان کی یہ خوبی ہی دشمن کی آنکھ میں کانٹا بن کر کھنک رہی ہے،اسلام دشمن استعماری طاقتیں جنہوں نے عالم اسلام کو مذکورہ حسین جالوں میں پھنسا رکھا ہے اور جواسے اسلام کی باقیات سے بالکل محروم کر دینا چاہتی ہیں ۔اب ان کا ہدف اسلا می تنظیمیں اور دینی مدرسے ہیں اسلامی جماعتوں کو بنیادپرست اور دہشت گرد قرار دلواکر انہیں ملکی سیاست سے باہر نکا لنا چاہتی ہیں تا کہ انتخا بات کے مرحلے میں بھی اسلام کا نام لینا جرم بن جا ئے ۔
مسلمان سر برا ہوں کی حا لیہ کا نفرنس سے جو کا سا بلا نکا میں ہوئی ،بے نظیر بھٹو اس قسم کی ایک قرار داد پاس کروانے میں کا میا ب بھی ہو گئی ہیں اور اس کے بعد اب یہ استعماری طا قتیں عالم اسلام میں بر سر اقتدار اپنی پھٹو حکومتوں کے ذریعے سے دینی مدرسوں کو بھی ان کے اصل کردار سے محروم کرنا چا ہتی ہیں چنانچہ مغرب کی آلہ کا ر حکومتیں  اپنے مغربی آقاؤں کو خوش کرنے کے لئے اب اس محا ذ پر سر گرم ہو گئی ہیں اور دینی مدارس کے خلا ف بیان بازی کے بعد فرقہ واریت کی آڑ میں ان میں مدا خلت کے لیے پرتول رہی ہیں تا کہ انہیں ان کے اس تا ریخی کردار سے محروم کر دیا جا ئے جو وہ ڈیڑھ دو صدی سے انجا م دے رہے ہیں اور یہاں سے بھی اسلام کے داعی و مبلغ مفسر و محدث اور مفتی و فقیہ پیدا ہو نے کی بجا ئے وہی مخلوق پیدا ہو جو کالج  اور یونورسٹیوں میں پیدا ہورہی ہے۔ جس نے معا شرے سے اس کا امن و سکون چھین لیا ۔جو میڈونا اور مائیکل جیکسن کی پرستار ہے اور اسلامی اقدار و روایات کے مقابلے میں مغربی اقدرا و روایات کی شید اور اس کی تہذیب پر فریضۃ ہے۔
روس دینیہ پس منظر اور مقاصد و خدمات :۔
یہ مدارس دینیہ عربیہ جن میں قرآن و حدیث اور ان سے متعلقہ علوم کی تعلیم دی جا تی ہے صدیوں سے اپنے ایک مخصوص نظا م و مقصد کے تحت آزادانہ  دین کی خدمت سر انجا م دے رہے ہیں ۔ ان مدارس دینیہ کے پس منظر غرض وغایت اور ان کی عظیم دینی خدمات سے ناواقف لوگ ان کے متعلق مختلف قسم کی باتیں بنا تے رہتے  ہیں۔کبھی ان مدا رس کو بے مصرف اور ان میں پڑھنے پڑھا نے والے طلبا و علماء کو "یاد گا ر زمانہ " کہا جا تا ہے کو ئی انہیں ملا ئے مکتب اور ابلہ مسجد قرار دیتا جو ان کی نظر میں زمانے کی ضروریات اور تقاضوں سے ناآشنائے محض ہیں اور کو ئی "اصلا ح "کے خوشنما عنوان سے اور "خیر خواہی" کے دل فریب پردے میں باز (شکر ے ) کے روایتی قصے کی طرح انہیں ان کی تمام خصوصیا ت سے محروم کر دینا چا ہتے ہیں ۔اب ایک مخصوص گروہ کو سامنے رکھتے ہو ئے جن کا کو ئی تعلق دینی مدارس سے نہیں ہے انہیں "دہشت گرد "بھی باور کرا یا جا رہا ہے ۔غرض یہ مدارس اور ان میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء "جتنے منہ اتنی باتیں"کے مصداق ہر کہ ومہ کی تنقید کا نشانہ اور ارباب دنیا کے طعن و تشنیع کا ہدف ہیں بلکہ اب بین الاقوامی استعمار کی خا ص "نگاہ کرم" بھی ان پر مبذول ہے۔
لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ مدا رس اپنے مخصوص پس منظر اور خدمات کے لھاظ سے اسلامی معاشرے کا ایک ایساا ہم حصہ ہے جس کی تا ریخ اور خدمات سنہرے الفا ظ میں لکھے جانے کے قابل ہیں ان میں پڑھنے پڑھانے والے نفوس قدسیہ نے ہر دور میں باوجود بے سرو سامانی کے دین اسلام کی حفاظت و صیا نت کا قابل قدر فریضہ انجا م  دیا ہے ۔ان مدارس کے قیام کا پس منظر یہی تھا کہ جب حکومتوں نے اسلام کی نشرواشاعت  میں دلچسپی لینا بند کر دی اور اسلامی تعلیم و تربیت میں مجرمانہ تغافل برتاتو علمائے اسلام نے ارباب حکومت اور اصحاب اختیار کی اس کوتا ہی کی تلا فی یوں کی کہ دینی تعلیم و تربیت کے ادارے قائم کئے جو عوام کے رضا کا رانہ عطیات اور صدقات و خیرا ت چلتے تھے ۔یہ دینی ادارے بالعموم سر کا ری سر پرستی سے محرورم ہی رہے ہیں اور اس میں ان تحفظ و بقا کا راز مضمر ہے۔ بالخصوص برطانوی ہند میں جب کہ انگریزوں نے لارڈ میکا لے کے نظر یہ تعلیم کے مطا بق انگریزی تعلیم کو رواج دیا اور مسلمان عوام  ملازمت اور دیگر منا صب و مراعات کے لا لچ میں کا لج اور یونیورسٹیوں کی طرف دیوانہ وار لپکے اور دینی تعلیم اور دینی اقدار سے بے اعتنائی و بیگا نگی برتنے لگے تو علماء اور اصحا ب دین نے اس دور میں متحد ہ ہندوستان کے قریہ قریہ اور گا ؤں گاؤں دینی مدارس کا جال پھیلا دیا ۔
انگریزوں نے اپنے مخصوص مقاصد کے لیے جس انگریزی نظا م تعلیم کو نافذ کیا تھا اس کے دو بڑے مقصد تھے،ایک دفتروں کے لیے کلرک اور بابو پیدا کرنا دوسرا مسلمان کو اس کے دین اور اس کے شعائر سے بیگا نہ کر دینا ۔بد قسمتی سے دور غلامی کا یہ مخصوص نظا م تعلیم اپنے مخصوص مقاصد سمیت تا حال قائم ہے اسی لیے دینی مدا رس کی ضرورت بھی محتا ج و ضا حت نہیں ۔بنا بریں علماء جب سے اب تک ان مدارس کے ذریعے سے دین کی نشرواشاعت  اور دینی اقدارو شعائر کی حفا ظت کا فریضہ نامساعد احوال اور انتہا ئی بے سرو سامانی کے باوجود سر انجا م دے رہے ہیں ۔
یہ انہی مدارس کا فیض ہے کہ ملک میں اللہ رسول کا چرچا ہے حق و باطل کا امتیاز قائم ہے دینی اقدار و شعائر کا احترا م و تصور عوام میں مو جود ہے اور عوام اسلام کے نام پر مر مٹنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں  ۔دینی مدارس کے اس پس منظر غرض و غایت اور خدمات سے واضح ہو جا تا ہے کہ ان کے قیام کا مقصد ڈاکٹر ،وکیل انجینئر صنعت کا ر کلرک و بابو پیدا کرنا نہیں بلکہ علوم دینیہ کے خادم دین اسلام کے مبلغ و داعی قرآن کے مفسر احادیث کے شارح اور دین متن کے علم بردار تیار   کرنا ہے ان کا نصاب تعلیم اسی انداز کا ہے جن کو پرکھ کر وارثان منبر و محرا ب ہی پیدا ہو تے ہیں کیونکہ ان کا مقصد ایسے ہی رجا ل کار پیدا کرنا ہے نہ کہ دیگر شعبہ ہا ئے زندگی میں کھپ جا نے والے افراد ۔اس لیے بنیا دی طور پر ان کے نصاب تعلیم میں تبدیلی یا ان کی آزادانہ حیثیت میں تغیر دونوں چیزیں ان کے مقصدو جود کی نفی کے مترادف ہیں ۔
نصابتعلیم میں بنیادی تبدیلی سے دینی مدارس سے فارغ ہو نے والے طلبا ء نہ دین کے رہی گے نہ دنیا کے۔ اگر کسی محدود سے نفا ذ کے ساتھ وہ دینوی شعبے میں رکھنے کے لا ئق ہو بھی گئے تو بہر حا ل یہ تو واضح ہے کہ دینی علوم اور مذہبی تبلیغ سے ان کا رابطہ ختم ہو جا ئے گا یا اگر رہے گا بھی تو اس انداز کا نہیں رہے گا جو اسلامی علوم کی نشرواشاعت اور اس کی تبلیغ کے لیے مطلوب ہے اس طرح ان مدارس سے دین کے وہ خدام تیار ہو نے بند ہو جا ئیں گے جن کے ذریعے سے (قال الله وقال الرسول)کی صدا ئیں بلند ہو رہی ہیں آئمہ و خطباء حفا ظ و قراء اور مدر سین و مؤلفین پیدا ہو رہے ہیں جن سے مختلف دینی شعبوں کی تمام ضروریات پوری ہو رہی ہیں ۔اگر نصاب تعلیم کی تبدیلی سے یہی نتیجہ نکلا اور یقیناًیہی نکلے گا تو ظاہر بات ہے کہ مدارس دینیہ کی مخصوص حیثیت ختم ہو جا ئے گی۔اور وہ بھی عام دنیوی ادا روں (اسکول ،کا لج یونیورسٹی وغیرہ ) کی طرح ہو جائیں گے حالا نکہ دنیوی تعلیم کے یہ ادارے پہلے ہی ہزاروں کی تعداد میں ہر چھوٹی بڑی جگہ پر موجود ہیں اور حکومت ان پر کروڑوں روپیہ خرچ کر رہی  ہے ۔بنا بریں دینی مدارس کے نصاب میں بنیا دی تبدیلی کے پیچھے خواہ کتنے ہی مخلصانہ جذبات اور خیر خواہا نہ محرکات کا ر فر ما ہوں ۔تا ہم یہ جذبات و محر کا ت بالغ نظری کی بجا ئے سطحیت کا شاخسانہ ہیں اور اس سے دینی تعلیم اور دینی ضروریات کا سارا نظا م تلپٹ ہو سکتا ہے اور مختلف عنوانات سے اس میں مداخلت کرنے والوں کا مقصد بھی یہی معلوم ہو تا ہے لاقدر ھا اللہ !
اسی طرح ان مدارس دینیہ کی آزاد انہ حیثیت ختم کر کے ان کو سر کا ری سر پرستی میں دے دینا سخت خطر ناک ہو گا ۔حکومتیں بدلتی رہتی ہیں بالخصوص آج کل جب کہ کسی حکومت کو قرار و اثبات نہیں اور نظر یا تی انتشار فکری بے راہ روی اور مغربیت عام ہے ہو سکتا ہے ایک حکومت مخلص ہوا ور وہ فی الوقع دینی مدارس کو اپنی سر پرستی میں لے کر دینی علوم کی زیادہ سے زیادہ نشرو اشاعت کرنا چا ہتی  لیکن اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ کل کلاں کو انتقال اقتدار کا مرحلہ آیا اور حکومت کسی دین دار آدمی کی بجا ئے کسی سیکولر ابن الوقت اور ملحد کے ہا تھ میں آگئی تو وہ ان مدارس کو اپنے مخصوص مقاصد کے لیے استعمال نہیں کرے گا یا ان کی دینی حیثیت کو تبدیل نہیں کرے گا ۔بنا بریں دینی اداروں کو سر کاری سر پر ستی سے بچا کر رکھنا بھی ان کی دینی افادیت و حیثیت کو بر قرار رکھنے کے لیے انتہا ئی ضروری ہے۔ سر کا ری سر پرستی کسی موقع پر ان کے لیے دست غیب کی بجا ئے دست اجل بھی ثا بت ہو سکتی ہے جس طرح ترکی میں مصطفیٰ کمال پاشا کے دور میں ہوا کہ دینی اداروں کا وجود بالکل ختم کر دیا گیا ۔
اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ اس محاذ پر حکومت کا سر گرم اور فکر مند ہو نا صحیح نہیں ۔ہم حکومت سے عرض کریں گے کہ وہ دینی مدارس کو ان کے حا ل پر چھوڑ دے ۔یہ ٹھیک ہے کہ دینی اداروں میں بہت سی چیز یں اصلا ح طلب ہیں اس سے انکا ر نہیں ۔ لیکن حکومت اس شعبے کو کم از کم اپنے اصلا حی اقدامات سے خارج کر دے ۔زندگی کے اور دیگر تمام شعبے سخت اصلا ح طلب ہیں حکومت اپنی توجہ تمام تر اس طرح مبذول  کرے ۔اگر دینی تعلیم کے اہتمام کا زیادہ ہی شوق ہے تو وہ اپنا یہ مقصد اسکولوں کا لجوں اور یونیورسٹیوں کے نصاب میں ضروری تبدیلی کر کے حاصل کر سکتی ہے اور حکومت کو یہ مقصد دنیوی تعلیم کے اداروں کی ہی اصلا ح کر کے اور ان کے ذریعے سے ہی حاصل کرنا چا ہیے کیونکہ دینی ادارے گو کتنے ہی اصلا ح طلب ہوں ۔تا ہم وہ ملک میں اخلا قی انار کی فکری بے راہ روی اور نظر یا تی انتشار نہیں پھیلا رہے ۔جب کہ اسکول اور کالج وغیرہ یہ کا م بڑی سر گرمی سے انجا م دے رہے ہیں اس لیے اصل ضرورت اسکول وکا لج  اور یونیورسٹیوں کے نصاب میں تبدیلی ان کے انتظا می معاملا ت میں دخل اندازی اور ان کی سر گرمیوں پر کڑی نظر رکھنے کی ہے نہ مدارس دینیہ کے نصاب یا نظم ونسق میں دخل اندازی کی۔
دوسری طرف مدارس دینیہ کےارباب و انتظا م اور مسند نشینان درس وافتاء سے بھی ہم عرض کریں گے کہ ان کی اصل پونچی اعتماد علی اللہ ہے اب تک توکلاعلی اللہ ہی تمام مدارس دینیہ اپناکام کرتے آئے ہیں اور انتہا ئی بے سروسامانی کے عالم میں بھی انھوں نے دینی علوم کی خدمت کا علم سرنگوں نہیں ہو نے دیا ہے اور کچھ نہ ہو نے کے باجود اپنے دائروں میں بہت کچھ کیا ہے۔اس موقعے پر جب کہ حکومت ان کی "امداد " اور سر پرستی " کے نعرے لگا رہی ہے بہت تدبر اور فراست سے کام لینے کی ضرورت ہے اور انہیں تمام پہلوؤں کا جا ئزہ لینے کے بعد ہی حکومت کی امدادوسر پرستی یا اس کی دخل اندازی کے قبول یا عدم قبول کا فیصلہ کرنا چا ہیے محض حکومت کی امدادو سرپرستی یا اس کی دخل اندازی کے قبول یا عدم قبول کا فیصلہ کرنا چاہیے محض حکومت کی گرا نٹ ہی(جس کی حلت بھی مشکوک ہے) ان کے لیے باعث کشش یا دینی مدارس سے فارغ ہو نے والے طلباء کے لیے سر کاری اداروں میں ملا زمت کی توقع ہی ان کا مرکز توجہ نہ ہو۔ بلکہ اصل چیز ان کی وہ تاریخی حیثیت ہے جس کی روسے وہ آزاد انہ طور پر دین و علم اور ملک و ملت کی خدمات  سر انجا م دیتے ہیں اور بحمد اللہ اب تک دے رہے ہیں کسی عجلانہ اقدام یا نافعانہ خواہش سے اگر وہ اپنے اس تاریخی کردار سے محروم ہو گئے تو یہ بہت بڑا المیہ ہو گا ۔(حافظ صلا ح الدین یو سف)