حج اکبر کیا ہے ؟

ہندوستان  وپاکستان سے آنے والے حجاج کرام کے پاس فریضہ حج کی ادائیگی اور زیارت مقامات مقدسہ کی رہنمائی کرنے والی کتب ہوتی ہیں۔ان میں سے بیشتر کتب میں مسنون طریقہ نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم  کو چھوڑ کرانتہائی ضعیف بلکہ کبھی کبھی موضوع روایات کوجمع کیا ہوا دیکھ کر انتہائی تعجب اور قلق ہوتاہے ،زیر نظر مضمون اسی سلسلہ کی ایک اصلاحی کوشش ہے۔
عام طور پرمشہور ہے کہ جس حج کا"یوم عرفہ" جمعہ کے دن پڑے،وہ حج"حج اکبر" کہلاتا ہے۔اور اس ایک"حج اکبر" کا ثواب ستر عام حج سے بڑھ کرہوتاہے۔لہذا اس حج میں شرکت کے بہت بڑی سعادت وخوش نصیبی تصور کیا جاتا ہے۔ماہ ذوالحجہ کے ہلال کی روئیت کے اعلان کے مطابق  اگر یوم عرفہ بروز جمعہ پڑتا ہے تو سعودی عرب میں مقیم تارکین وطن کی اکثریت اس میں شرکت کے لیے  کوشاں وبے قرار ہوجاتی ہے۔اسی طرح بیرون ملک سے تشریف لانے والے حجاج کی تعداد میں بھی خاصہ اضافہ ہوجاتاہے۔
وہ روایت جس میں"حج اکبر" کی مزعومہ فضیلت کا ذکر ہے،ان شاء اللہ آگے پیش کی جائے گی۔فی الحال اس بات کی تعین کرنا مقصود ہے کہ احادیث نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم  میں حج اکبر کس چیز کو کہا گیا ہے؟کس حج کا اجر مقام افضل وارفع بتا یا گیا ہے؟نیز وہ حج جس کا"یوم عرفہ" ہفتہ کے عام دنوں میں پڑے اور وہ حج جس کا"یوم عرفہ" جمعہ کے دن پڑے۔ان کے فضائل میں کیا اور کس درجہ فرق ہے؟
احادیث نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم  کے تقریباً ہر مشہور مجموعہ(مثلاً صحیح بخاری رحمۃ اللہ علیہ ،صحیح مسلم  رحمۃ اللہ علیہ ،جامع ترمذی رحمۃ اللہ علیہ ،سنن ابو داود رحمۃ اللہ علیہ ،اور مسند احمد  رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ) میں "حج اکبر" کا ذکر موجود ہے۔لیکن جہاں  جہاں بھی اس کا ذکر وارد ہواہے،وہاں اس سے مراد "یوم نحر" ہے  نہ کہ وہ جو عام طور پر مشہور اور زیر مطالعہ مضمون میں ہمارا ہدف تنقید ہے۔چنانچہ صحیح احادیث میں صریح طور پر مروی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: يوم الحج الأكبر يوم النحریعنی:حج اکبر کادن یوم نحر ہے:(1)
اب یہ سوال درپیش ہے کہ حدیث میں کس حج کا اجر ومقام افضل وارفع بتایا گیا ہے تو اس سلسلے میں اکثر کتب احادیث ہماری جس طرف رہنمائی کرتی ہیں۔اور وہ یہ ہے کہ"حج مبرور" کا اجر اور مقام ومرتبہ سب سے افضل وبرتر ہے۔مشہور شارحین حدیث  میں سے حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ ،علامہ نووی  رحمۃ اللہ علیہ ،علامہ عبدالرحمان مبارک پوری اور شیخ عطاءاللہ حنیف بھوجیانی رحہمہم اللہ :حج مبرور" کی شرح میں بیان کرتے ہیں:
"ابن خالویہ کا قول ہے کہ"حج مبرور" سے مراد"حج مقبول" ہے ۔یعنی وہ حج جس میں اثم کی قبیل سے کسی چیز کی ملاوٹ نہ ہو۔"
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ  نے اس رائے کو ترجیح دی ہے علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی اپنی تفسیر میں اسی کے ہم معنی اقوال نقل کئے ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ وہ حج جس کے تمام احکام موقع ومحل کے اعتبار سے بروقت اور احسن واکمل طریقہ پر ادا کئے جائیں،وہی حج مبرور ہے(2)
"حج مبرور" کے متعلق صحیح احادیث میں مروی ہے:
"الحج المبرور ليس له جزاء إلا الجنة "
یعنی حج مبرور کا اجر جنت کے سوا اور کچھ نہیں ہے" اس حدیث کی تخریج امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ (3) امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ (4) اور ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ (5) نے اپنی اپنی صحیح میں،امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی جامع(6) میں ،اما م نسائی رحمۃ اللہ علیہ ،(7) اور دارمی رحمۃ اللہ علیہ ،(8) نے اپنی اپنی سنن میں ،امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی موطا(19) میں،امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ (10) اور طیالسی(11) نے اپنی اپنی مسند میں ،طبرانی رحمۃ اللہ علیہ  نے معجم(12) میں ،عقیلی رحمۃ اللہ علیہ  نے الضعفاء الکبیر(13) میں،ابو نعیم رحمۃ اللہ علیہ  نے الحلیۃ الاولیاء(14) بغوی  رحمۃ اللہ علیہ  نے شر ح السنہ(15) میں اور طبری رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی تفسیر(16) میں کی ہے۔خطیب طبریزی رحمۃ اللہ علیہ  نے مشکوۃ المصابیح (17) میں ،علامہ عجلونی رحمۃ اللہ علیہ  نے کشف الخفاء (18) میں اور علامہ محمد ناصر الدین الالبانی حفظہ اللہ نے ارواء الغلیل (19) اور سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ (20) میں اس کو وار دکیا ہے۔
بعض دوسری روایات میں "حج مبرور" کو افضل الاعمال میں ایمان باللہ ورسولہ اورجہاد فی سبیل اللہ کے بعد تیسرا درجہ  دیا گیا ہے۔(21) پس معلوم ہوا کہ وہ "حج مبرور" ومقبول جس کا اجر سراپا جنت ہو اور ایمان وجہاد کے بعد جسے ا فضل الاعمال قرار دیا گیا ہو۔اس سے بڑھ کرکوئی دوسرا حج کیوں کر ممکن ہے۔اب اس سلسلہ کاتیسرا اور آخری معاملہ پیش نظر ہے یعنی وہ حج جس کا یوم عرفہ ہفتہ کے عام دنوں میں پڑے اور وہ حج جس کا یوم عرفہ جمعہ کے دن پڑے،ان کے فضائل وخصائص میں کیا اور کس درجہ فرق ہے؟اس فرق کو جاننے کے لئے پہلے یوم جمعہ کی فضیلت کا جاننا ضروری ہے۔
یہ طے شدہ امر ہے کہ ہفتہ کے تمام دنوں میں جمعہ کا دن نہایت افضل اور خیر وبرکت والا ہوتا ہے۔جیسا کہ اکثر کتب احادیث میں وار دہے:۔
"افضل الايام عند الله يوم الجمعة"
"اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنوں میں سب سے افضل جمعہ کا دن ہے"اسے بیہقی رحمۃ اللہ علیہ  نے "شعب الایمان" میں عن ابی ہریرۃ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  روایات کیا ہے۔علامہ سیوطی  رحمۃ اللہ علیہ  نے "الجامع الصغیر" میں اور علامہ اسماعیل عجلونی رحمۃ اللہ علیہ  نے "کشف الخفاء"(22) میں اس کو وارد کیا ہے۔علامہ مناوی  رحمۃ اللہ علیہ "فیض القدیر" میں فرماتے ہیں کہ"یہ حسن الاسنادہے" علامہ محمد ناصر الدین الالبانی حفظہ اللہ نے بھی اس حدیث کو"صحیح" قرار دیا ہے۔(23)
یوم الجمعہ کی فضیلت میں وارد ہونے والی بعض دوسری احادیث کے الفاظ اس طرح ہیں:
أفضل الأيام عند الله يوم الجمعة(24)
سيد الأيام عند الله يوم الجمعة (25)
وان من افضل ايامكم يو الجمعة (26)
خير يوم طلعت فيه الشمس يوم عرفة وافق يوم الجمعة (27)
ماتطلع الشمس بيوم ولا تغرب بافضل واعظم من يوم الجمعة (28) اور
"اليوم الموعود يوم القيامة والمشهود يوم عرفة والشاهد يوم الجمعة" وما طلعت الشمس ولا غربت يوم افضل منه فيه ساعة" وغیرہ
مندرجہ بالا احادیث سے یوم الجمعۃ کی  فضیلت تو ثابت ہوگئی لیکن اب یہ طے کرناہے کہ یوم الجمعہ اور یوم عرفہ میں کون سا دن زیادہ افضل ہے۔بعض لوگ یوم الجمعہ کی فضیلت میں وارد ہونے والی مذکورہ بالا احادیث کو دلیل بناتے ہوئے یوم عرفہ پر یوم الجمعہ کو فوقیت د یتے ہیں لیکن حافظ ابی عبداللہ محمد بن ابی بکر المعروف بابن القیم رحمۃ اللہ علیہ  الجوزیہ رحمۃ اللہ علیہ (م752ھ) نے اس سلسلہ میں نہایت عمدہ بات فرمائی ہے:
"سچ بات یہ ہے کہ یوم الجمعہ ہفتہ کے تمام دنوں میں افضل ہے اور یوم عرفہ ویوم النحر سال کے ایام میں افضل ہیں"(29)
پس اگر سال کا سب سے افضل دن(یوم عرفہ) اور ہفتہ کاسب سے افضل دن(یوم الجمعہ) ایک ہی دن جمع ہوجائیں تو اس امر میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا کہ وہ یوم عرفہ ہر دو افضل ایام کے فضائل باہم اکھٹا ہوجانے کے باعث دوسرے غیر جمعہ والے یوم عرفہ کی نسبت بدرجہا افضل وبابرکت ہوجاتا ہے۔
علامہ حافظ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ  نے یوم الجمعہ کے یوم عرفہ ہونے سے جو اضافی فضائل ومزایا ایک ہی دن میں جمع ہوجاتے ہیں،اس کی متعدد دد وجوہ بیان کی ہیں جس کا خلاصہ حسب ذیل ہے:
"1۔دو افضل دنوں کا باہم اجتماع
2۔یوم الجمعہ وہ دن ہے جس میں محقق طور پر مقبولیت واجابت کی ایک گھڑی  (30) ضرور ہوتی ہے،اوراکثر اقوال کے مطابق مقبولیت کی وہ مبارک ساعت عصر اور مغرب کے درمیان(31) ہوتی ہے۔دعاء کی مقبولیت کے اس وقفہ کے دوران اہل موقف(حجاج) چونکہ وادی عرفہ میں مصروف دعاء وتضرع ہوتے ہیں لہذا ان کے لئے اس گھڑی کو پانا عین ممکن ہوتاہے۔
3۔اس دن کی  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے وقوف عرفہ کے دن کے ساتھ موافقت ومماثلت ہونا۔
4۔یوم الجمعہ کو تمام کرہ ارض پر اللہ تعالیٰ کی مخلوق مساجد میں خطبہ اور نماز جمعہ کےلیے جمع ہوتی ہے۔اسی طرح دنیا کے گوشے گوشے سے آئے ہوئے ضیوف الرحمان وادی عرفہ میں یوم عرفہ کو جمع ہوتے ہیں۔یوم عرفہ،جمعہ کے دن ہونے سے مساجد اور موقف عرفہ میں مسلمانان عالم کا ایک ہی دن اورایک ہی ساتھ دعاء و تضرع میں مشغول ہونا جس طرح وجود میں آتا ہے،اس اجتماعیت کی مثال اس دن کے علاوہ اور کبھی نظر نہیں آتی۔
5۔یوم جمعہ تمام مسلمانوں کے عید اور خوشی کا دن ہوتاہے اسی  طرح یوم عرفہ اہل عرفہ کے  لئے عید کادن ہوتا ہے۔چنانچہ اہل عرفہ کے لیے یوم عرفہ کو روزہ رکھنا مکروہ بتایا گیا ہے۔شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ:
"یوم عرفہ اہل عرفہ کے لئے عید کادن ہے پس ان  کے لئے اس دن کا روزہ رکھنا غیر مستحب ہے۔اس کی دلیل سننن میں وارد وہ حدیث ہے جس میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاہے:
يوم عرفة ويوم النحر وأيام التشريق عيدنا أهل الإسلام وهى أيام أكل وشرب(32)

"یعنی"بے شک یوم عرفہ،یوم النحر اور ایام تشریق ہم اہل اسلام(حجاج) کی عید اور کھانے پینے کے دن ہیں"
بہرحال یہ تو بیشتر احادیث صحیحہ سے قطعی طور پر ثابت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  یوم عرفہ کو حالت صوم سے نہ تھے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بعض صحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے شکوک دور کرنے کے لئے دودھ کو طلب فرمایا اور اونٹ کے اوپر اسے نوش فرمایا تھا(33)مقصود یہ کہ اگر یوم الجمعہ اور یوم عرفہ دونوں ایک ہی دن  جمع ہوں تو اس سے دو عیدیں باہم جمع ہوجاتی ہیں۔
6۔یوم الجمعہ اور یوم عرفہ کا باہم اجتماع اس تاریخی دن سے موافقت رکھتا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کے لئے اپنے دین کو مکمل فرمایا ور ان پر اپنی نعمتوں کا اتمام فرمایاتھا۔چنانچہ صحیح بخاری میں طارق بن شہاب کی حدیث میں مروی ہے کہ حضرت عمر بن الخظاب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے ایک یہودی شخص کو آیت:
﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ... ٣﴾...المائدة
کے شام نزول سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ یہ آیت یوم عرفہ کو جمعہ کے دن نازل ہوئی تھی۔(35)
7۔جمعہ کا دن یوم الجمع الاکبر اور موقف الاعظم یعنی روز قیامت سے بھی موافقت رکھتاہے۔کیونکہ قیامت بروز جمعہ برپا ہوگی جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا ہے۔(36) اسی لئے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے جمعہ کے دن مبدا ومعاد اور جنت وجہنم کا ذکر کرنا مشروع فرمایا ہے،پس یہ دن اس امت کے لئے اس یوم الجمعہ کی یاد تازہ کرتاہے جب یوم الجمع الاکبر اور موقف اعظم ہوگا۔اسی طرح دنیا کے اس عظیم موقف یعنی عرفہ سے بھی اللہ تعالیٰ کے اس موقف اعظم کی تذکیر ویاد دہانی وہوتی ہے۔اگر دونوں تذکیر ویاد دھانی کے دن ایک ساتھ جمع ہوجائیں تو روزقیامت کی یاد دوگنا بڑھ جاتی ہے۔
8۔جمعہ کےدن تمام مسلمان اطاعت الٰہی اور اس کی رضاجوئی میں مصروف رہتے ہیں حتیٰ کہ اکثر فاسق وفاجر بھی یوم الجمعہ کی عظمت وشرف کا احترام کرتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے بھی اس دن کو تمام دنوں میں مبارک وبافضیلت منتخب فرمایا ہے چنانچہ اگر یہ وقوف عرفہ کے دن سے موافقت کرے تو اس کی شان اور اس کے فضائل کو بلاشبہ بڑھا دیتاہے۔
9۔ یہ دن جنت کے"یوم مزید" سے بھی موافقت ر کھتا ہے جب کہ تمام جنتی وادی فسیح میں جمع ہوکر اپنے رب سبحانہ وتعالیٰ کابچشم خود نظارہ کریں گے۔پس اگر جمعہ کا دن یوم عرفہ سے موافقت کرے تو یہ اس کے لئے مزید اختصاص اور فضل کی بات ہے۔
10۔عرفہ کے دن اللہ تبارک وتعالیٰ اہل موقف کی مغفرت پر فرشتوں کو گواہ بنا کرفرماتا ہے:
 ما اراد  هئولاء ؟ أشهدكم أنى قد غفرت لهم
اگر اس عرفہ کے دن جمعہ بھی جمع ہوجائے تو اہل عرفہ کو دو طرح کاقرب الٰہی حاصل ہوجاتا ہے:اول:قبولیت کی گھڑی میں تقرب اجاب،دوم:اہل عرفہ کے لئے خصوصی قربت(37)
اس بحث کے اختتام پر علامہ حافظ ابن قیم  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:"ان تمام وجوہ کی بناء پر میں یوم عرفہ کو دوسرے دنوں  کی بہ نسبت یوم الجمعہ کےساتھ جمع ہونے کو افضل قرار دیتا ہوں"(38)
علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی"فتح الباری" میں یوم الجمعہ کے فضائل بیان کرنے کے بعد ان تمام احادیث سے یوم عرفہ کو یوم الجمعہ ہونے کے باعث اضافی فضائل،امتیاز اور مزایا کا اثبات ان الفاظ میں فرمایا ہے:"وعلي كل منهما فثبتت المزبة بذلك والله اعلم"(39)
اب وہ حدیث پیش خدمت ہے جسے مزعومہ"حج اکبر" کی فضیلت کے طور پر عموماً بیان کیا جاتا ہے۔ساتھ ہی اس حدیث پر کبار علماء ومحدثین کی نقد وجرح بھی حاضر ہے تاکہ اس کا مقام ومرتبہ بیک نظر معلوم ہوجائے ۔حدیث اس طرح ہے:
أفضل الأيام يوم عرفة إذا وافق يوم الجمعة وهو أفضل من سبعين حجة في غير جمعة
"دنوں میں سب سے افضل عرفہ کادن ہے،اگر(یوم عرفہ) یوم الجمعہ کی موافقت کرے تو وہ جمعہ کے علاوہ پرے د الے ستر  حج سے(زیادہ ) افضل ہے۔"
علامہ حافظ جمال الدین  ابی محمد عبداللہ بن یوسف (الزیلعی  الحنفی) (م762ھ) فرماتے ہیں:
"اس حدیث کو رزین بن معاویہ نے"تجرید الصحاح" میں روایت کیا ہے"(40)
لیکن حق یہ ہے کہ محدثین کے نزدیک زیر بحث حدیث قطعی طور پر "باطل" اور" بے بنیاد" ہے چنانچہ محدث شہیر علامہ عبدالرحمان مبارک پوری  رحمۃ اللہ علیہ (م1353ھ)"حج اکبر" کے اس غلط تصور پر متنبہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
"عوام میں یہ بات شہرت پاگئی ہے کہ اگر یوم عرفہ  بروز جمعہ  پڑے تو وہ حج،حج اکبر" ہوتا ہے ،اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔رزین نے طلحہ بن عبیداللہ بن کرز(کریز) سے مرسلاً اس کی روایت کی ہے:
أفضل الأيام يوم عرفة إذا وافق يوم الجمعة وهو أفضل من سبعين حجة في غير جمعة
ایسا"جمع الفوائد"میں درج ہے۔
یہ حدیث مرسل ہے ،لیکن میں اس کی اسناد سے واقف نہیں ہوں"(41)
علامہ حافظ احمد بن علی بن حجر العسقلانی رحمۃ اللہ علیہ (م852ھ) نے اس روایت کو  تھوڑے مختلف الفاظ کے ساتھ اس طرح نقل فرمایا ہے:
خير يوم طلعت فيه الشمس يوم عرفة وافق يوم الجمعة وهو أفضل من سبعين حجة في غير ها(42)
اس روایت کے متعلق آں رحمۃ اللہ فرماتے ہیں:رزین نے اسے اپنی"جامع" میں مرفوعاً ذکر کیا ہے"پھر آگے چل کر اس حدیث کے احوال سے اپنی لاعلمی کا اظہار ان الفاظ میں فرماتے ہیں:
لا أعرف حاله لأنه لم يذكر صحابيه ولا من خرّجه بل أدرجه في حديث الموطأ هذا، وليست هذه الزيادة في شيء من الموطآت،(43)
علامہ ابو الحسنات عبدالحئی بن عبدالحلیم حنفی لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ (م1304ھ) علامہ شیخ نور الدین علی بن محمد بن سلطان الحنفی المعروف بالملا علی القاری رحمۃ اللہ علیہ (م1014ھ) سے نقل فرماتے ہیں کہ:
"آں رحمۃاللہ نے حدیث: أفضل الأيام يوم عرفة.......الخ(رواہ رزین) کے متعلق بیان کیا کہ بعض محدثین نے اس حدیث کی اسناد کےضعیف ہونے کو جوذکر کیا ہے تو اس تضعیف سے علی  تقدیر صحت مقصود پر کوئی زد نہیں پڑتی،کیونکہ ضعیف حدیث بھی فضائل اعمال میں معتبر ہوتی ہے"(44)
ملاعلی قاری  رحمۃ اللہ علیہ  کے اس قول کونقل کرنے کے بعد مولانا عبدالحئی لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی ان کی رائے سے اپنا اتفاق ظاہر کیا ہے۔اگرچہ ان حضرات کا "علی تقدیر صحت" لکھنا اورضعیف احادیث کا فضائل اعمال میں معتبر بنانا قابل گرفت امور ہیں لیکن پھر بھی اس عبارت سے کم از کم یہ ثابت تو ہوتاہے کہ"محدثین نے اس اس حدیث کی اسناد کے ضعیف ہونے کا ذکر کیا ہے"
اوپر بیان کیا جاچکا ہے کہ حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ  الجوزیہ نے یوم عرفہ کا دوسرے ایام کی بہ نسبت جمعہ کو ہونا دس وجوہ کی بنا پر افضل قرار دیا ہے۔لیکن ان تمام مزایا وفضائل بیان کرنے کے بعدآں رحمۃ اللہ انتہائی فیصلہ کن انداز میں فرماتے ہیں:
"اور جہاں تک عوام میں مشہور اس بات سے مستفاض ہوتا ہے کہ یہ یوم عرفہ (بروز جمعہ) بہتر(72) حج کے مساوی ہے تو یہ(قطعاً) باطل ہے۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔اور نہ ہی صحابہ @ وتابعین میں سے کسی سے(اس کی کوئی اصل ہے) واللہ اعلم(45)
محدث  عصر علامہ شیخ محمد ناصر الدین الالبانی حفظہ اللہ بھی فرماتے ہیں کہ"یہ باطل ہے اور اس کی کوئی اصل نہیں ہے"پھر علامہ زیلعی رحمۃ اللہ علیہ  کے قول کہ"اس کو رزین بن معاویہ نے تجرید الصحاح میں روایت کیا ہے"پر تنقید کرتے ہوئے تحریر  فرماتے ہیں:
"معلوم ہونا چاہیے کہ رزین کی اس کتاب میں اصول ستہ یعنی صحیحین مؤطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  سنن ابو داود رحمۃ اللہ علیہ ،سنن نسائی رحمۃ اللہ علیہ ،اور جامع الترمذی رحمۃ اللہ علیہ  سے ابن اثیر رحمۃ اللہ علیہ  کی مشہور کتاب "جامع الاصول من احادیث الرسول" کے انداز پر احادیث منتخب کرکے جمع کی گئی ہیں مگر ان دونوں کتابوں میں فرق یہ ہے کہ رزی کی کتاب"التجرید" میں ایسی احادیث کثیر  تعداد میں موجود ہیں جن کی ان اصول ستہ میں سے کوئی اصل نہیں ہے اور نہ ہی حدیث کی دوسری کسی معروف کتب میں سے،بلکہ علامہ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ  نے تو"زادالمعاد" میں اس کے بطلان کی صراحت بھی فرمائی ہے(پھر علامہ موصوف کا مذکورہ بالا قول نقل فرمایا ہے) علامہ منادی رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی "فیض القدیر" میں ان کی توقیر فرمائی ہے"(47)
پس  ثابت ہواکہ"حج اکبر" کا جو مفہوم عام طور پر شہرت پایا گیا ہے وہ احادیث صحیحہ ثابتہ کے قطعی خلاف ہے نیز اس کی فضیلت میں بیان کی جانے والی روایت کے ضعیف،بے بنیاد ،غیر اصل بلکہ"باطل" ہونے پر تمام محدثین کا اتفاق ہے۔واللہ اعلم بالصواب
وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمین والصلوة والسلام علی رسوله الکریم
1۔صحیح بخاری مع  فتح الباری ج6 ص279،صحیح مسلم کتاب الحج حدیث 435،سن ابو داود مع عون المعبود ج2 ص139،جامع الترمذی مع  تحفۃ الاحوذی ج2 ص 122۔وغیرہ
2۔فتح الباری لابن حجر ج3 س382،تحفۃ الاحوذی للمبارکفوری ج2ص 78،تعلیقات السلفیہ علی سنن النسائی وغیرہ۔
3۔صحیح بخاری مع فتح البخاری ج3 ص597۔
4۔صحیح مسلم کتاب الحج حدیث 437۔
5۔صحیح ابن حبان حدیث 967۔
6۔جامع ترمذی مع تحفۃ الاحوذی  ج2 ص 78۔
7۔سنن نسائی مع تعلیقات السلفیہ ج2ص 1،2۔
8۔سنن الدارمی کتاب الاطعمہ باب۔7۔
9۔موطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  کتاب الحج حدیث 65۔
10۔مسند احمد ج1 ص378،ج2 ص 246،258،وغیرہ۔
11۔مسندالطیالسی حدیث 1423،2425۔
12۔معجم الطبرانی ج3 ص 76۔
13۔ضعفاء الکبیر العقیلی ج1 ص141 ،وج4 ص411۔
14۔الحلیۃ الاولیاء لابو نعم ج4 ص110۔
15۔شرح السنۃ للبغوی ج2 ص112۔
16۔تفسیر الطبری ج4،3956۔
17۔مشکوۃ المصابیح مع تنقیح الرواۃ ج2 ص110۔
18۔کشف الخفاء للعجلونی ج1 ص420۔
19۔ارواء الغلیل للالبانی حدیث 769۔
20۔سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ للالبانی ج3 ص197۔
21۔صحیح بخاری مع فتح الباری ج3 ص381۔
22۔کشف الخفاء للعجلونی ج1 ص177۔
23۔صحیح الجامع الصغیر وزیادتہ للبانی ج1ص247،وسلسلۃ الاحادیث الصحیحہ للالبانی ج4 ص4۔
24۔معجم الکبیر للطبرانی بحوالہ مجمع الزوائد ومنبع الفوائد للہشیمی ج2 ص165 وج8 ص198وقال:ولکن اسنادھا ضعیفان۔
25۔معجم الکبیر للطبرانی بحوالہ مجمع الزوائد للہشیمی ج2 ص164 وقال؛وفیہ ابراہیم بن یزید الجوذی وھو ضعیف۔
26۔سنن ابو داود مع عون المعبود ج1 ص405۔
27۔فتح الباری ج8ص 271۔صحیح مسلم کتاب الجمعہ حدیث 17،18،سنن ابوداود مع عون المعبود ج1ص 404،جامع الترمذی مع تحفۃ الاحوذی ج1ص 354،355،سنن نسائی مع تعلیقات سلفیہ ج1س162،168،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز باب 64،  مسند احمد ج2ص272،ج4ص8 مسند الطیالسی حدیث 233۔وغیرہ۔
28۔مسنداحمد ج2 ص457 باسناد صحیح علی شرط مسلم،صحیح مسلم ج3 ص6،مستدرک علی الصحیحین للحاکم ج2ص544 وقال:صحیح علی شرط مسلم وقد اخرجاہ ،مجمع الزوائد للہشیمی ج2ص64 اوقال رجالہ رجال الصحیح۔
29۔زاد لمعاد لابن قیم ج1ص 20۔
30۔صحیح البخاری مع فتح الباری ج2 ص415،ج9 ص436، ج11 ص199،صحیح مسلم کتاب الجمعہ حدیث 3،14،سنن ابو داود مع عون المعبود ج1 ص405۔وغیرہ۔
31۔مسند احمد ج5 ص453،جامع الترمذی مع تحفۃ الاحوذی ج1ص 354،355،سن ابو داود مع عون المعبود ج1 ص406 فتح الباری ج2 ص 416۔وغیرہ
32۔سنن نسائی مع تعلیقات السلفیہ ج2 ص38
33۔صحیح بخاری مع فتح الباری ج3 ص510،512،ج4  ص236۔صحیح مسلم کتاب الصیام حدیث 110،112،سنن ابو داود عون المعبود ج2 ص 301 وغیرہ۔
34۔سورۃ المائدہ۔آیت۔3۔
35۔صحیح بخاری مع فتح الباری ج8 ص270،ج13 ص245۔
36۔صحیح مسلم کتاب الجمعہ حدیث 18،سنن ابوداود مع عون المعبود ج1 ص04،جامع الترمذی مع تحفۃ الاحوذی ج1 ص354،سنن نسائی مع  تعلیقات السلفیہ ج1 ص168وغیرہ
37۔زاد المعاد فی ھدی خیر العباد لابن القیم ج1 ص20،23(مختصراً) ۔
38۔زاد المعاد لابن قیم ج1 ص23۔
39۔فتح الباری  لابن حجر ج8 ص271۔
40۔حاشیہ ابن عابدین ج2 ص348۔
41۔تحفۃ الاحوذی شرح جامع الترمذی للمبارکفوری ج2 ص122۔
42۔فتح الباری شرح صحیح بخاری لابن حجر ج8 ص271۔
43۔ایضاً
44۔الا جوبتہ الفاضلہ للشیخ عبدالحئی الکھنوی ص37 وکذافی مقدمۃ صحیح الجامع الصغیر وزیادتہ للالبانی ج1 ص54۔
45۔زاد المعاد فی ھدی خیر العباد لابن قیم ج1 ص23۔
46۔فیض القدیر ج2 ص28۔
47۔سلسلۃ  الاحادیث الضعیفہ والموضوعۃ للا لبانی ج1 ص245۔