اشراق کی اختراع

سنت و حدیث کے الفا ظ بنیا دی طور پر کلام الٰہی (قرآن ) کے ساتھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عملی نمونہ (جسے مراد الٰہی کہہ سکتے ہیں ) کے لیے استعمال ہوتے ہیں ۔اگر چہ مختلف اہل فنون نے اپنے فن میں خاص پہلو کا لحاظرکھتے ہوئے سنت کے اہم پہلو بھی اجا گر کیے ہیں ۔اسی لیے سنت کی اصطلا ح بظا ہر مختلف معانی میں بعض اوقات استعمال ہو تی نظر آتی ہے۔ مثلاً احکام فقہ میں "مستحب "کے معنی میں اور وعظ و ارشادمیں بدعت کے بالمقابل لیکن چونکہ محدثین کا مطمح نظر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی تمام گو شوں کی روایت و روایت ہے اس لیے وہ احادیث کے ذریعہ سنت (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جملہ اقوال و افعا ل بشمول سکوت و احوال) کے متعلق بحیثیت واقعہ بحث کرتے ہیں اسی لیے وہ حدیث و سنت کے الفاظ ایک دوسرے پر بے دریغ استعمال کرتے ہیں ان کے مترادف ہو نے کے یہی معنی ہیں لہٰذا محدثین احادیث کی بہت سی کتابوں کو "سنن"سے نھی موسوم کرتے ہیں مثلاً سنن اربعہ سے مراد ترمذی ،نسائی ،ابو داؤد اور ابن ما جہ کی کتب احا دیث لیتے ہیں ۔اس طرح سنن کبریٰ بیہقی شرح السنۃ معرفۃ الاثار والسنن وغیرہامت کے اہل علم ان استعمالات میں کو ئی اجنبیت محسوس نہیں کرتے ۔برصغیر میں فرقہ وارانہ رحجا نات کے باوجود ان اصطلا حا ت کے مفاہیم معروف ہیں ۔
ماضی قریب میں متجددانہ رحجا نات کے زیر اثر بعض مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے کچھ لوگوں نے حدیث و سنت کو الگ کر کے اگر چہ ان کے مصداق مختلف متعین کرنے کی کو شش کی ہے جن میں مرزا غلا م احمد قادیانی نما یاں ہیں ۔
لا ہو ر کا حلقہ اشرا ق جو نام کے سلسلے میں عیسائیت کے فلسفہ اشتراکیت(جس میں شریعت کو فلسفہ بنانے کی کوشش کی گئی) اور رجحانات کے اعتبار سے"اخوان الصفا" کی باطنی تحریک سے متاثر ہے۔
اپنی نام نہاد شریعت اور اسلام کی تعبیر نو کے لئے سنت حدیث کو بڑی رکاوٹ محسوس کرتاہے۔چنانچہ چند سال قبل انھوں نے آج تک کے تمام فقہائے امت کو جا ہل قرار دے کر چودھویں صدی کا ایک نیا علم میرا ث کتا بچہکی صورت میں اور مجلہ اشرا ق میں بھی شا ئع کیا تھا اور اب پورا زور حدیث رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کے وحی الٰہی نہ ہو نے پر لگا رہے ہیں جس کے لیے ان کا طریق کا ر قرآن و حدیث کو آپس میں متعارض ثابت کرنے کا ہے ۔
چونکہ انکارحدیث کے فتنوں سے مسلمان بہت بیزار رہے ہیں اس لیے انھوں نے طریق یہ اختیار کیا ہے جس چیز کو لیتا ہوا سے سنت کہہ دیتے ہیں اور جسے کو ئی اہمیت نہ دینی ہو اسےحدیث کا نام دے دیتے ہیں ۔اس طرح فی الحا ل عبادات کے سلسلہ میں عام تعامل امت چھوڑنےکو دہ مصلحت کے منافی سمجھتے ہیں ۔البتہ معا ملا ت کے بارے میں اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جس سنت کو چھوڑ نا ہو وہ اسے جا ہلیت کا رواج قرار دینے سے نہیں چوکتے یاا سےقوم قریش کے ساتھ مخصوص (وقتی حکم) قرار دے دیتے ہیں ۔چنانچہ دیت کے تعین کے سلسلہ میں ان موقف اشراق میں چھپ چکا ہے اور مرتد کی سزا ئے موت ان کے نزدیک صرف قریش کے لیے تھی عا م آدمی کے لیے اب وہ سزا نہیں ہے۔ (اشراق :دسمبر1994ء)
عام امت سے الگ انحرا فات کے لیے جو اسلوب انھوں نے اختیار کیا ہے اس میں محاورہ عرب اور اہل فنون کی اصطلاحات کے من گھڑت مفاہیم طے کرنا بنیادی حیثیت رکھتاہے۔گمراہ فرقوں میں محاورہ عرب کانعرہ اعتزال تو بہت پرانا حربہ ہے۔تاہم اصطلاحات فنون کو نیا معنی دینا آج کے دین نا آشنائی کے دور میں کامیاب ہونے کے بڑے امکانات رکھتاہے بالخصوص جب دعویٰ بھی یہ کیاجائے کہ یہی محدثین کی اصطلاح ہے اور ان کا طریقہ کار بھی یہی تھا۔مثلا"تواتر"محدثین کے ہاں روایت کی ایک قسم ہے جسے یہ لوگ تعامل امت کے معنی میں غلط مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔اسی طرح"علت"نقد حدیث کا ایک محدثانہ طریقہ ہے لیکن یہ لوگ اس سے اپنے فلسفہ عقل یا فقہی رائے کی برتری کا مغالطہ دیتے ہیں۔حالانکہ اگر یہی درست ہوتا تو ائمہ محدثین سے کوئی ایک مثال ایسی پیش کردی جاتی،جس میں محدثین نے کسی ایک حدیث کو ہی صحیح قرار دے کر بعد میں عقل یا قرآن سے یا سنت متواترہ سے متعارض ہونے کی بناء پر ضعیف کہا ہو۔
واضح رہے کہ مسٹر جاوید احمد غامدی،حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت کے بارے میں قادیانی عقیدہ کے حامل ہیں اور ان کے جسم خاکی کے رفع آسمانی سے متعلق نصاریٰ کا سا عقیدہ رکھتے ہیں۔(ماہنامہ ،اشراق مارچ 1995ءص 45۔46)
بہرصورت سنت اورحدیث کی اصطلاحات میں زمین وآسمان کا فرق حلقہ اشراق کی اختراع ہے۔اگرچہ عوام کو ان اصطلاحات کے چکروں میں دھوکا دینا آسان ہے تاہم درج ذیل مضمون میں اہل علم کے لیے ضرور بعض عمدہ وضاحتیں آگئی ہیں۔(ح۔م)
جنوری 1994ء کے"محدث" میں حافظ عبدالمنان صاحب کے محاصرے پر مشتمل میری ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی جس کی ابتداء ہی میں محدثین کی اصطلاح حدیث وسنت کا مترادف ہونا بیان کرکے یہ وضاحت کردی گی تھی کہ جیسے محدثین کرام رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل اور تقریر وتائید کو حدیث کہتے ہیں ویسے ہی اس پر سنت کا اطلاق بھی کرتے ہیں جبکہ دیگر اسلاف امت کے نزدیک بھی ان دونوں الفاظ میں بنیادی طور پرکوئی فرق نہیں۔جس پر مئی 94ء کے"اشراق" نے تعاقب کیا ہے،چنانچہ حدیث وسنت میں زمین وآسمان کافرق ثابت کرنے کے لئے مقالہ نگار نے علماء کرام کی عبارتوں سے چھینا جھپٹی کی ہے ۔وہ لکھتے ہیں:
"حدیث وسنت کو لو گ عام طور پر ہم معنی سمجھتے ہیں،یہ خیال صحیح نہیں ہے،حدیث وسنت میں زمین وآسمان کا فرق،اور دین میں دونوں کا مقام ومرتبہ الگ الگ ہے"(اشراق:مئی94)
چنانچہ "سنت"کی تعریف مولانا امین احسن اصطلاحی سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"سنت ثابتہ سے ہماری [1] مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ عمل متواتر ہے جو صحابہ کے اجماع یا ان کے تواتر عملی کے ذریعے سے بحیثیت دین اس امت کو منتقل ہوا ہے"اور"حدیث"کی تفصیل یوں ذکر کرتے ہیں:
"حدیث ہمارے نزدیک رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل اورتقریر وتصویب کی وہ روایت ہے جوزیادہ تر اخبار احاد کے طریقے سے ہم کوملی ہے"(اشراق:مئی 94ء)
حالانکہ حدیث وسنت میں زمین وآسمان کافرق کرنے کی اختراع دور جدید کے ترقی پسند حضرات کی ہے۔ جو سنت کی ایسی تعریف کرتے ہیں جسے علماء سلف سے ثابت نہیں کیا جاسکتا۔اورنہ ہی ان کی تالیفات میں اسے دکھا یا جاسکتاہے ۔نام نہاد تدبر کا حدود اربعہ نہ جاننے کی وجہ سے ان حضرات نے سنت کی تعریف"اجماع" سے کردی ہے۔اور یوں ان دونوں کو آپس میں کڈ مڈ کرکے رکھ دیا ہے۔حالانکہ علماء امت کے نزدیک سنت اور اجماع ایک دوسرے سے جدا ہیں اور دونوں کا دائرہ کار بھی الگ الگ ہے۔سنت کاتعلق ہر اس چیز سے ہے جو رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم سے صادر ہوئی ہو۔جبکہ اجماع،ان مسائل سے تعلق رکھتا ہے جو صاحب سنت علیہ السلام کی وفات کے بعد پیش آئے ہوں اور ان کے بارے میں کتاب وسنت کی نصوص سے استدلال کیا گیا ہو یعنی سنت نبی معصوم کاطریقہ ہونے کی بناء پر وحی خفی کہلاتی ہے۔جبکہ اجماع افراد اُمت کے اجتہادات سے قائم ہوتاہے۔چنانچہ علماء اصول"اجماع" کی تعریف یوں کرتے ہیں:
فهو اتفاق المجتهدين من الأمة الإسلامية في عصر من العصور على حكم شرعي" بعد وفات النبي صلي الله عليه وسلم
(الوجیز فی الاصول الفقه ص222)
"یعنی نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی دور میں امت مسلمہ کے تمام مجتہدین کا کسی شرعی حکم پر متفق ہونا"اجماع" کہلاتا ہے۔
علماء سلف نے سنت کا مفہوم بیان کر تے ہوئے کبھی اسے اجماع کے ساتھ خلط ملط نہیں ہونے دیا یعنی سنت کی تعریف رسول کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال اور آپ کی کسی کام پر خاموشی (جسے وہ تقریر کہتے ہیں) کرکے اجماع سے الگ حیثیت دی ہے گویا انہوں نے حدیث وسنت دونوں کو مترادف قراردیا ہے۔اس کے متعلق علماء کی تصریحات عنقریب ذکی کی جائیں گی لیکن اس سے پہلے ضروری ہے کہ سنت کے اختراعی مفہوم کو عقل کی کسوٹی پر بھی رکھ کردیکھ لیا جائے کیونکہ عقل پرست طبقہ اسے زیادہ اہمیت دیتاہے۔
صحیح تدبر سے کام لیا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ سنت کا خانہ ساز مفہوم مغالطہ پر مبنی ہے بلکہ کسی معکوس ذہن کی پیداوار ہے،کیونکہ اسے صاحب سنت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو پیش نظر رکھ کر متعین نہیں کیا گیا جو سنت کا سرچشمہ ہیں بلکہ لوگوں کے تعامل سے مقید کردیا گیا ہے۔جس کا مطلب یہ ہواکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جس عمل کو امت کی عملی تائید میسر ہوجائے وہی سنت قرارپائے گا،لیکن جو عمل آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم سے صحت کے ساتھ ثابت تو ہو مگر اسے تعامل امت حاصل نہ ہو اسے سنت سے نکال باہر کیاجائے گا۔چاہیے تو یہ کہ تعامل امت کی پرواہ کیے بغیر صاحب سنت سے ایک عمل ثابت ہوجانے سے ہی وہ سنت کہلائے۔کیونکہ واجب الاتباع صرف اسوہ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔کسی امتی کا عمل نہیں۔لہذا سنت رسول کے ثبوت پر لوگوں کی طرف سے عملی تائید کا پہرہ بٹھا دینا دانش مندی کے خلاف ہے۔
مزید بریں اگر اس اختراعی مفہوم کو تسلیم کر لیا جائے جس میں لوگوں کے عمل کی تائید کو شرط بنادیا گیاہے۔تو اس میں بدعت بھی شامل ہوجائے گی۔مثلاً اہل بدعت کی جشن میلاد جیسی بہت سی بدعات ورسومات کا سنت ہونا لازم آئے گا۔حالانکہ ان بدعات کا دین متین سے کوئی تعلق نہیں۔کیونکہ یہ کسی معتبر طریقے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہیں۔لہذا ثبوت سنت کے لئے امت کے تعامل کی شرط عقلاً بھی تسلیم نہیں کی جاسکتی۔
علماء سلف کی تدبر کی داد دینی چاہیے جنھوں نے ایسےخطرات کے سد باب کے لئے لوگوں کی عملی تائید س قطع نظر سنت کو صرف رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل اور آپ کی طرف سے کسی کے عمل کی تصویب وتائید سے خاص کیا،گویا حدیث وسنت کو مترادف قرار دے کر انکار حدیث کے چور دروازے کو ہمیشہ کےلئے بند کردیا۔
حقیقت یہی ہے کہ حدیث وسنت میں بنیادی طور پر کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ علماء وسلف وخلف نے ان دونوں الفاظ کو مترادف قرار دیا ہے۔ان میں سے کسی نے بھی سنت کا خانہ ساز مفہوم ذکر نہیں کیا جسے تجد زدہ حضرات نے انکار حدیث سے متعلق اپنے بعض مقاصد کوبروئے کار لانے کے لئے جنم دیا ہے۔
اب ہم ائمہ حدیث علماء اصول اور اہل لغت کی تالیفات سے سنت کا وہی مفہوم پیش کرتے ہیں۔جو امت مسلمہ میں رائج رہاہے۔اور ائمہ کبار کی روشنی میں حدیث وسنت کی اصطلاح میں مطابقت کو ثابت کریں گے۔
سنت، ائمہ حدیث کے نزدیک:۔
علامہ عراقی حدیث کی طرح سنت کو صحیح،حسن اورضعیف تین اقسام میں تقسیم کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
وَأَهْلُ هَذَا الشَّأْنِ قَسَّمُوا السُّنَنْ.              إلى صَحِيْحٍ وَضَعِيْفٍ وَحَسَنْ.
یعنی اہل فن نے سنت کو صحیح ،حسن اور ضعیف تین قسموں میں تقسیم کیا ہے (الفیۃ الحدیث ص14)
اس کی شرح کرتے ہوئے علامہ سخاوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
"السنن المضافة إلى النبي صلى الله عليه وسلم قولًا وفعلًا وتقريرًا
یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب سنتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل اور تقریر (تینوں قسموں) کو شامل ہیں۔
شیخ مصطفیٰ سباعی نے حجیت حدیث کے موضوع پر اپنی تالیف کا نام ہی"السنۃ'رکھاہے اس میں وہ محدثین سے حدیث کے ہم معنی سنت کی تعریف نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
وهى فى اصطلاح المحدثين : ما أثر عن النبي صلى الله عليه وسلم من قول أو فعل أو تقرير أو صفة خَلقية أو خُلقية ،اوسيرة
(السنةومکانتھافی التشریع الاسلامی ص47)
یعنی محدثین کےنزدیک سنت اس قول ،فعل ،تقریر،سیرت اور حالت کوکہتے ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہو۔
خطیب فرماتے ہیں:
والسنة فى اصطلاح المحدثين : ما أثر عن النبي صلى الله عليه وسلم من قول أو فعل أو تقرير أو صفة خَلقية أو خُلقية ،اوسيرة........والسنة بهذا ا لمعني مرادفة للحديث النبوي (السنة قبل التدوین ص16)
"علماء حدیث کے نزدیک سنت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول،فعل،تقریر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیدائشی یا اخلاقی حالت کو کہتے ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق روایت کی گئی ہو، گویا اس اعتبار سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت آپ کی حدیث کے مترادف ہے۔"
جمال الدین قاسمی لکھتے ہیں:
والمراد بها في اصطلاح الشارع وأهل عصره ما دل عليه دليل من قوله صلي الله عليه وسلم أو فعله أو تقريرة ولهذا اجعلت السنة مقابلة للقرأن"
(قواعد التحدیث ص151)
سنت سے مراد حضرت شارع علیہ السلام اور ان کے زمانہ کے لوگوں کی اصطلاح میں وہ شے ہے جس کو رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کا قول،فعل،سکوت بتائے ۔یہی وجہ ہے کہ سنت قرآن کے مقابل رکھی گئی ہے۔
محمد محمد ابو زھوسنت کےمفہوم میں مزید جامعیت پیدا کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال اورتقریر وتصویب کے علاوہ سیرومغاذی کو بھی سنت میں شمار کرتے ہیں:
وعلماء الحديث يريدون بالسنة -على ما ذهب إليه جمهورهم- أقوال النبي صلى الله عليه وسلم وأفعاله وتقريراته، وصفاته الخلقية والخلقية وسيره، ومغازيه
(الحدیث والمحدثون ص10)
یعنی جمہور محدثین کے نزدیک سنت سے مراد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریرات وصفات اورآپ کے سیرومغاذی ہیں۔
دیکھئے ان تمام علماء نے محدثین کرام سے سنت کا وہی مفہوم نقل کیا ہے جو حدیث کے متراف ہے۔حلقہ اشراق کا اختراعی مفہوم ان میں سے کسی بھی منقول نہیں ہے ۔ترقی پسند حضرات کی طرح اگر ا ن میں زمین وآسمان کافرق ہوتا تو وہ سنت کے لفظ کورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال اور تقریرات نیز آپ کی سیرت اور مغاذی کے لئے کبھی استعمال نہ کرتے۔
سنت،علمائے اصول فقہ کے نزدیک:۔
علامہ آمدی سنت کی بحث کے تحت فرماتے ہیں:
ويدخل فى ذلك أقوال النبي عليه السلام وأفعاله وتقاريره
(الاحکام فی اصول الاحکام 127/1)
یعنی سنت میں نبی کریم علیہ السلام کے اقوال وافعال نیز تقریر ات سب داخل ہیں۔
شیخ الاسلام سبکی فرماتے ہیں:
"هى الشئي الصادر عن محمد المصطفي صل الله عليه وسلم لاعلى وجه الاعجاز"
(الابہاج فی شرح المنہاج ،263/2)
یعنی جو چیز بھی محمد  صلی اللہ علیہ وسلم سے صادر ہو لیکن قرآنی الفاظ کی طرح معجزہ نہ ہو،سنت کہلاتی ہے۔
شیخ عبدالکریم زید ان علماء اصول سے سنت کی تعریف ان الفاظ سے نقل کرتے ہیں:
"السنة ما صدر عن النبي صلى الله عليه وسلم غير القرأن من قول اوفعل اوتقرير"(الوجیز فی اصول الفقہ ص161)
یعنی سنت ہر وہ چیز ہے جو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قرآن کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کہناکرنا یاکسی چیز کی تائید کرنا ہو۔
شاکر حنبلی لکھتے ہیں:
السنة اصطاحا ما جاء منقولا عن رسول الله من قول ا وفعل او تقرير فان كانت قولا سميت سنة قولية وان كانت فعلا سقيت سنة فعلية وان كانت اقرار منه لامورأه وسكت عنه سميت سنة تقريرة"
(اصول الفقہ السلامی ص 237)
یعنی قول،فعل اور تصویب وتقریر جو بھی نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہو سب سنت ہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول اگر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہوتو اسے سنت قوی کہتے ہیں۔اگر فعل ہوتو سنت فعلی اور اگر کسی چیز کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکوت فرمایا ہوتو اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریری سنت کہا جاتاہے۔
عبدالوہاب خلاف کہتے ہیں:۔
"السنة فى الاصطلاح الشرعي هي ما صدر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم من قول اوفعل او تقرير"(علم الاصول الفقہ ص38)
یعنی شریعت اسلامیہ کی اصطلاح میں ہر وہ چیز سنت کہلاتی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صادر ہو،خواہ قول ہو یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل یا تقریر۔
والمراد بسنة شرعا ما صدر عن النبي صلى الله عليه وسلم من الادله لسرخية مما ليس بمتلو ولا هو معجز ولا داخل فلافى المعجز من اقوال النبى صلى الله عليه وسلم وافعاله وتقريراته"(اصول الفقہ وابن تیمیہ 237/1)
یعنی ادلہ شرعیہ میں سے سنت سے مراد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال ،افعال اور آپ کی تقریرات ہیں جو وحی غیر متلو اورغیر معجز ہیں۔
دیکھئے ان تمام علماء اصول سے سنت کی وہی تعریف منقول ہے جو حدیث کے مترادف ہے۔ ان میں سے بھی کسی نے سنت کاخانہ ساز مفہوم مراد نہیں لیا۔تجدد زدہ حضرات کے نزدیک مشکلات قرآن کےحل کرنے میں تمام تراعتمادعرب پر ہوتاہے گویا ان کے ہاں قرآن کریم کتاب ہدایت کی بجائے کوئی ادبی کتاب ہے،جو صاحب قرآن  صلی اللہ علیہ وسلم سے کہیں بڑھ کراپنی توضیح وبیان میں جاہلی ادب [2]کی محتاج ہے،اس لئے یہ لوگ بیان قرآن کے لئے لغت عربی کو غیر معمولی اہمیت دیتے ہیں جبکہ اسے حلقہ اشراق بھی اپنے مزعومہ"تواتر" سے ثابت نہیں کرسکتا بلکہ وہ خبر واحد کی بھی وہ قسم ہے جسے محدثین کے میعار پر بھی پورا نہیں اتارا جاسکتا ۔تاہم ارباب لغت بھی ایسے تدبر سے براءت کا اظہار کرتے ہیں جس سے حدیث وسنت کے درمیان زمین وآسمان کا فرق کیا جاتا ہو اور جمہور علماء امت کی طرح وہ بھی ان دونوں الفاظ کو مترادف ہی قرار دیتے ہیں۔
سنت،علماء لغت کے نزدیک:۔
علامہ ابن منظور فرماتے ہیں:
والأصل فيها الطريقة والسيرة وإذا أطلقت فى الشرع فإنما يراد بها ما أمر به النبى صلى الله عليه وسلم ونهى عنه وندب إليه قولاً وفعلاً مما لم ينطق به الكتاب العزيز ولهذا يقال فى أدلة الشرع الكتاب والسنة أي القرآن والحديث.
(لسان العرب:89/17)
"اس لفظ میں بنیادی شے انداز اور چلن ہے اور جب یہ لفظ شریعت میں استعمال ہوتو اس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ اوامرونواہی،آپ کے اقوال وافعال مراد ہوتے ہیں۔جن کےلئے قرآن ناطق نہ ہو،اسی لئے ادلہ شرعیہ میں کتاب وسنت کا لفظ علیحدہ استعمال ہوتا ہے گویا اس سے مراد قرآن اور حدیث ہوتے ہیں۔"
صاحب تاج لکھتے ہیں:
والسنة من النبى صلى الله عليه وسلم: إذا أطلقت في الشرع فإنما يراد بها (حكمه، وأمره، ونهيه) مما أمر به النبي صلى الله عليه وسلم، أو نهى عنه، أو ندب إليه قولاً وفعلاً، مما لم ينطق به الكتاب العزيز، ولهذا يقال: أدلة الشرع: الكتاب والسنة، أي القرآن والحديث.
(تاج العروس 244/9)
"السنة من النبى صلى الله عليه وسلم ما ينسب اليه من قول اوفعل او تقرير"
(المعجم الوسیط 160/1)
یعنی نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب قول وفعل اور تقریر کوسنت کہتے ہیں۔
دیکھئے دیگر علمائے شریعت کی طرح اہل لغت بھی حدیث وسنت میں کوئی فرق نہیں کرتے اورقرآن کریم کے بعد دوسرا درجہ حدیث وسنت کو دیتے ہیں،اس مفہوم کا ذکر اہل علم کی مصنفات میں بکثرت موجود ہے ،جس سے حدیث وسنت کو ہم معنی ظاہر کیا گیا ہے ،اور رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول ،فعل اور تقریر سب کو ان میں شامل سمجھاگیا ہے ،لیکن سنت کا اختراعی مفہوم ان میں سے کسی نے بھی نقل نہیں کیا۔
سنت،علماء فقہ واصول کے نزدیک:۔
حدیث وسنت کے ترادف کی بابت عام فقہاء کی آراء کو نقل کرکے ہم بات کوطول نہیں دیناچاہتے بلکہ ائمہ کبار سے یہ ثابت کرنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ وہ بھی حدیث وسنت کو ہم معنی سمجھتے ہیں البتہ فقہ واستنباط کے پہلو کے پیش نظر شرعی حیثیت کو بھی خصوصی طور پر اجاگر کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی کلام میں سنت کا لفظ کسی مسئلہ کی شرعی حیثیت یا اس کے مندوب ومرغوب ہونے کو نمایاں کرتاہے۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی رائے:۔
ابن رشد"ہدایۃ المجتہد" میں رکوع کو جاتے اور اس سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کے بارہ میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"ذهب الشافعى واحمد وابو عبيد وابو ثور وجمهور اهل الحديث واهل الظاهر الى الرفع عند تكبيرة الا حرام وعند الركوع وعند الرفع من الركوع وهو مروى عن مالك الا انه عند بعض اولئك فرض وعند مالك سنة"
(ہدایۃ المجتہد 133/1)
یعنی امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ،امام احمد،ابو عبید،ابوثور،جمہور اہلحدیث اوراہل ظاہر تکبیر تحریمہ اور رکوع کو جاتے اور اس سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کرتے ہیں۔امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے بھی یہی منقول ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ان میں سے بعض علمائ اسے فرض سمجھتے تھے جبکہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کےنزدیک یہ(رفع یدین) سنت ہے۔
دیکھئے رکوع کے لئے جھکتے اور اس سے اٹھتے وقت رفع یدین کرنے کو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے سنت کہا ہے۔حالانکہ بض الناس کااس میں ہمیشہ اختلاف رہا ہے۔جس سے معلوم ہوا کہ"سنت " کے مفہوم میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک قطعی ہونا یا اس پرامت کاتعامل شرط نہیں ہے ،ورنہ رکوع کی اختلافی رفع یدین کا اہل اشراق کے نزدیک تواتر عملی لازم آئے گا حالانکہ وہ اختلافی اعمال کوحدیث میں شامل کرتے ہیں جبکہ اسے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اختلاف پائے جانے کے باوجود سنت کہا ہے۔
اگرچہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے ایک روایت ترک رفع یدین کی بھی ہے جس ابن رشد نے اس طرح بیان کیاہے:
فمنهم من اقتصر به على الإحرام فقط ترجيحا لحديث عبد الله بن مسعود وحدث البراء بن عاذب وهو مذهب مالك لموا فقة العمل به"
(ہدایۃ المجتہد 134/1)
یعنی فقہاء میں سے بعض عبداللہ بن مسعود اور براء بن عاذب کی احادیث کی بناء پر رفع الیدین کو صرف تکبیر تحریمہ کے موقع پر موقوف رکھتے ہیں اور یہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب بھی ہے کیونکہ ان دنوں مدینہ والوں کا اسی پر عمل تھا۔"
تجدد ذدہ حضرات زمخشری کی طرح چونکہ فروع میں حنفی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اور اصول میں معتزلہ کی طرف پرواز کے لئے پر تول رہے ہیں،اسی لئے جمہور احناف کی طرح انہوں نے یہاں بھی ترک رفع یدین کو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک قرار دیا ،اور ہدایۃ المجتہد کی مذکورہ عبارت میں "العمل" کا ترجمہ"سنت" کرکے اپنی دیانتداری کابھانڈا بیچ چوراہے کے پھوڑدیا،حالانکہ"العمل" سے ابن رشد کی مراد عمل اہل مدینہ ہے جیسا کہ وہ خود لکھتے ہیں:
"وسبب في هذ الاختلاف كله اختلاف الأثار الوارد فى ذلك ومخالفة العمل بالمدينة لبعضها"(ہدایۃ المجتہد 133/1)
"یعنی رفع الیدین کے ہر رکعت میں تین بارایک بار کے اختلاف کا سبب اس بارے میں روایات کا اختلاف ہے کیونکہ اس وقت کے مدینہ والوں کاعمل بعض روایات(تین دفعہ رفع الیدین ) کےخلاف تھا۔
اہل اشراق نے اپنے مضمون میں دعویٰ تواحقاق حق کا کیا ہے،لیکن ابن رشد سے رفع یدین کے بارے میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک نقل کرتے وقت حق کا خون کیا ہے،اور ان کی اس روایت کوگول کردیا جس میں امام موصوف سے رفع یدین کا سنت ہونا ثابت ہے،اور"العمل" کاسنت سے ترجمہ کرکے ترک رفع یدین کو ان کا مسلک بنانے کی کوشش کی ہے،حالانکہ ترک رفع یدین امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی وہ رائے ہے جس سے انہوں نے رجو ع کرلیا تھا۔جیسا کہ امام خطابی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
قال الامام الخطابي:ذهب اكثر العلماء الى ان الأيدي ترفع عند الركوع وعند رفع الراس منه وهو قول ابي بكر الصديق وعلي بن ابي طالب وابن عمر وابي سعيد الخدري وابن عباس وانس وابن الزبير وبه قال الاوزاعى و مالك في اخر امره والشافعى واحمد واسحاق"
(معالم السنن193/1)
اکثر علماء نماز میں رفع یدین (تین مرتبہ) رکوع جاتے اوراٹھتے وقت کی طرف گئے ہیں چنانچہ ابو بکر صدیق، رضی اللہ تعالیٰ عنہ علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن عمر،ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ قول ہے امام اوزاعی،امام شافعی ،امام احمد اور اسحاق بن راہویہ بشمول امام مالک رحمۃ اللہ علیہ آخری رائے کے مطابق اسی کے قائل ہیں۔"
یعنی امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا آخری قول رکوع کوجاتے اور اس سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کرنے کاہے۔حافظ ابن حجر ابن عبدالبر سے امام مالک کامسلک ترک رفع یدین سے رجوع نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
(وقال ابن عبد البر : لم يرو أحد عن مالك ترك الرفع فيهما إلا ابن القاسم . والذي نأخذ به الرفع على حديث ابن عمر ، وهو الذي رواه ابن وهب وغيره عن مالك ، ولم يحك الترمذي عن مالك غيره ، ونقل الخطابي وتبعه القرطبى فى المفهم أنه آخر قولى مالك وأصحهما ، ولم أر للمالكية دليلا على تركه ولا متمسكا إلا بقول ابن القاسم.)
(فتح الباری :220/2)
"یعنی امام ابن عبد البر کا فیصلہ یہ ہے کہ امام مالک سے ترک رفع یدین کو نقل والاصرف ابن قاسم ہے۔ جبکہ ابن عبد البر عبد اللہ بن عمر کی حدیث مرفوع کی بنا ء پر رفع یدین (تین مرتبہ)ہی کو لیتے ہیں ۔ابن وھب وغیرہ نے امام مالک سے رکوع کی رفع یدین کرنا نقل کیا ہے۔ امام ترمذی نے اماممالک سے رفع یدین کرنے کا ہی مذہب بیان کیا ہے۔ امام خطا بی اورقرطبی مالکی نے کہا ہے کہ امام مالک کا آخری اور صحیح بلکہ اصح قول رکوع کی رفع یدین کرنے کا ہے مالکیہ کہ پاس ابن قاسم کے (شاذ ) قول کے سواکوئی دلیل نہیں ہے ۔"
چونکہ امام مالک نے ترک رفع یدین کے قول سے رجوع کر لیا تھا اور ان کا آخری قول رفع یدین کرنے کا ہے اس لیے امام ترمذی نے ان رفع ید ین کرنے کا مذہب نقل کر نے پر اکتفا کیا ہے۔ جا مع ترمذی میں ہے۔
"قال ابو عيسى حديث ابن عمر حديث حسن صحيح.....وبه يقول مالك ومعمر والا وزاعى وعبدالله بن المبارك والشافعى واحمد واسحق"
(جامع ترمذی مع عارضہ۔الاحوذی 57/2)
یعنی امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں عبد اللہ بن عمر کی (تین دفعہ رفع یدین کرنے کی)حدیث حسن صحیح ہے اسی کے امام مالک قائل ہیں اور معمر اوزاعی ابن مبا رک شافعی احمد اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے۔گو یا رکوع کی رفع یدین کرنا جمہورامت کے نزدیک سنت ہے چنانچہ متاخرین میں سے ابو عبد اللہ دمشقی اس بارہ میں اپنا فیصلہ دیتے ہو ئے لکھتے ہیں :
"حكم رفع اليدين فى تكبيرة الركوع و الرفع منه سنة عند مالك والشافعي واحمد" (رحمۃ الامۃ :ص38)
رکوع جا تے اور اس سے سر اٹھا تے وقت رفع یدین کرنا امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور احمد رحمۃ اللہ علیہ کی طرح امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بھی سنت ہے۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی را ئے:۔
امام شافعی حدیث و سنت کو مترادف بیان کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ثابت شدہ ہر بات کو شرعی حیثیت سے سنت قراردیتے ہیں:
الأصل قرآن وسنة ، فإن لم يكن فقياس عليهما ، وإذا اتصل الحديث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، وصح الاخذ منه ، فهو سنة
یعنی اصل دلیل تو قرآن و سنت ہی ہے لیکن اگر ان میں کسی مسئلہ کے متعلق کو ئی نص موجود نہ ہو تو پھر ان پر قیاس کے ذریعے حل تلا ش کیا جائے گا اور جب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے متصل حدیث مل جا ئے جس کا آپ سے اخذ کرنا صحت کے ساتھ ثا بت ہو تو ایسی حدیث ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کہلا تی ہے۔
اگر امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں حدیث و سنت میں زمین و آسمان کا فرق ہو تا تو وہ حدیث صحیح کو کبھی سنت نہ کہتے ان کے ہاں ان دونوں میں کو ئی بنیا دی فرق نہیں تھا اس لیے انھوں نے حدیث کو سنت سے تعبیر کیا ہے۔ بلکہ ان کے ہاں سنت ہو تی ہی وہ ہے جو رسول کریم  صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح حدیث کے ذریعےسے ملے لوگوں کی بھیڑ کے عمل کو دیکھ کر سنت کو متعین کرنا امام کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا ۔
یاد رہے کہ امام شافعی کی مذکورہ عبارت خطیب بغدادی کی کتاب "الکفایۃ" سے لی گئی ہے جسے امہات فن میں شا مل کیا گیا ہے جبکہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب "الام"میں اخبار و روایات ہی کو ثبوت سنت کی بنیاد بنا تے ہیں سائل نے جب ان سے پو چھا "(عربی)
یعنی "سنت رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کے حصول کے ذرائع کو ن کو ن سے ہیں ؟ "تو انھوں نے جواب میں اس کی تین صورتیں بیان کرتے ہو ئے فر ما یا :
"الاول خبر العامة عن العامة على وجه الثانى تواتر الاخبار الوجه الثالث اذا روي عن رسول الله صلي الله عليه وسلم الواحد من الصحابة الحكم حكم به فلم يخالفه غيره"(الام258/7)
یعنی عام لوگوں کا عا م لو گو ں سے خبر دیا (یہ ایک طریقہ ہے سنت کے ثا بت ہو نے کا ) دوسرا خبر متواتر اور تیسرا طریقہ یہ ہے کہ ایک صحا بی رسول کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی فیصلے کوروایت کرے اور کسی دوسرے صحابی نے اس کی مخا لفت نہ کی ہو۔دیکھئے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے سنت ثابتہ کے حصول کے لیے خبر و روایت کو ہی بنیا د بنا یا ہے ۔کسی کے عملی تو اتر پر انحصار نہیں کیا بلکہ تیسری صورت میں انھوں نے خبر واحد کو بھی سنت میں شمار کیا ہے اور وہ حدیث و سنت میں شرعی اعتبار سے کو ئی فرق نہیں کرتے اسی لیے حد یث رجم کو سنت کہتے ہیں اور اس کے ساتھ سورہ نور کی آیت کی تخصیص کے قائل ہیں چنانچہ وہ فرماتے ہیں ۔
قال الله تعالى﴿الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ... ٢﴾...النور فلما رجم رسول الله صلي الله عليه وسلم على ان المراد بجلدة المائة من الزناة الحران البكران (الرسالۃ ص67)
یعنی "اللہ تعالیٰ کا فر ما ن ہے کہ زنا کا ر مرد عورت کو کو ڑے مارے جا ئیں لیکن رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی شدہ کو کو ڑے نہیں لگا ئے بلکہ اسے سنگسار کیا ہے تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنت سے معلوم ہوا کہ سو کو ڑے مارنے کی سزا صرف آزاد کنوارے زنا کا روں کے لیے ہے۔اگر امام شا فعی رحمۃ اللہ علیہ کے ہا ں حدیث و سنت میں زمین و آسما ن کا فرق ہو تا ہو وہ کبھی حدیث رجم کو سنت سے تعبیر نہ کرتے ۔ان کے ہا ں یہ دو نوں الفا ظ مترادف ہیں اسی لیے انھوں نے حدیث رجم پر سنت کا اطلاق کیا ہے۔
اہل اشرا ق کی تدبر سے محرومی :۔
حدیث و سنت میں آسمان و زمین کا فرق ظا ہر کرنے کے لیے تجدزدہ حضرات نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی کتا ب "الرسامہ" سے ایک عبارت نقل کی ہے:
وتختلف الأحاديث فآخذ ببعضها استدلالاً بكتاب أو سنة أو إجماع أو قياس، وهذا لا يؤخذ به في الشهادات هكذا, ولا يوجد فيها بحال.
احا دیث مختلف ہو جا ئیں تو میں بعض احا دیث کو ( فقہی اصول ) کتا ب و سنت اور اجماع و قیاس سے استدالال کی بنا ء پر لیتا ہوں حالانکہ گو اہان میں اختلا ف ہو تو کسی صورت ایسی گو اہی قبول نہیں ہو گی۔
ان حضرات کی غلط فہمی کی نشاندہی کرنے سے پہلے واضح کر دیں کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عبارت حدیث و سنت میں فرق ثا بت کرنے کے لیے پیش نہیں کی بلکہ وہ اسے روایت و شہادت میں کئی طرح سے فرق بیان کرنے کے لیے لا ئے ہیں ۔ان کے ہاں ان دو نوں میں ایک فرق تو یہ ہے کہ ایک مرد یا عورت کی بیان کردہ حدیث تو مقبول ہو تی ہے لیکن ان میں سے کسی ایک کی تنہا گواہی قبول نہیں کیا جا تی ۔دوسرے یہ کہ لفظ "عن" سے روایت ہو نے والی حدیث قابل قبول ہے بشرطیکہ اس کا ر وای مدلس نہ ہو جبکہ شہادت میں روئت یا سماع کی صرا حت ناگزیر ہے اور ان میں تیسرا فرق ذکر کرتے ہو ئے امام مو صوف مذکورہ بالا عبارت کو لا ئے ہیں جس سے ان کی مراد یہ ہے کہ دویا اس سے زائد روایا ت میں اختلا ف ہو تو کتاب و سنت یا اجماع و قیاس سے استدلال کر کے ایک روایت کو دوسری پر ترجمیح دی جا سکتی ہے ۔لیکن گواہوں کی شہادت میں اختلا ف ہو جا ئے تو ایک کی گوا ہی کو دوسروں پر ترجیح دینے کا طریق کا ر اختیا ر نہیں کیا جا تا بلکہ
سرے سے گوا ہی رد کردی جا تی ہے اور امر واقع ثا بت ہی نہیں ہو سکتا ۔
مذکورہ عبارت میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے " سنت " کا لفظ استعمال ضرور کیا ہے جسے ان حضرات نے ساون کے اندھے کی طرح خود ساختہ مفہوم پر محمول کر لیا ہے حا لا نکہ عبارت سیاق و سباق سے معلوم ہو تا ہے کہ امام موصوف نے سنت کے لفظ "علماء اصول " کی اصطلا ح کے مطا بق استعمال کیا ہے کیونکہ اہل اصول کے ہا ں "سنت " سے رسول کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کا قول و فعل اور آپ کی تقریر تو مراد ہو تی ہی ہے (جیسا کہ اس کی تفصیل ذکر ہو چکی ہے) جیسا کہ آئمہ حدیث بھی اسے اسی معنی میں لیتے ہیں لیکن فرق یہ ہے کہ محدثین کرا م رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور تقریر کے بارے میں اس حیثیت سے بحث کرتے ہیں کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثا بت ہے یا نہیں جبکہ علماء اصول اسے کسی حکم شرعی پر استدلال کرنے کے اعتبار سے لیتے ہیں جیسا کہ شیخ مصطفیٰ سباعی لکھتے ہیں ۔
فعلماء الحديث: إنما بحثوا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم الإمام الهادي الذي أخبر الله عنه أنه أسوة لنا وقدوة، فنقلوا كل ما يتصل به من سيرة وخلق، وشمائل وأخبار، وأقوال وأفعال، سواء أثبت ذلك حكمًا شرعيًا أم لا.
وعلماء الأصول: إنما بحثوا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم المشرع الذي يضع القواعد للمجتهدين من بعده، ويبين للناس دستور الحياة، فعنوا بأقواله وأفعاله وتقريراته التي تثبت الأحكام وتقررها.
(السنہ ومکانتھا فی الشریح الاسلامی ص49)
محدثین امام ھا دی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہر قول و فعل اور اخلا ق و عادات کے شرعی حکم ہو نے سے قطع نظر صرف ثبوت واقعہ کی حیثیت سے بحث کرتے ہیں کیونکہ آپ ہمارے لیے نمونہ ہیں جبکہ علمائے اصول فقہ ان چیزوں سے بطور دستور حیات اور شرعی احکا م کے ثا بت کرنے کی بحث کرتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے شارح ہو نے کے نا طے بعد کے مجتہد ین کے لیے یہ قواعد و ضوابط طے کر دیئے ہیں ۔اسی نکتے کو بیان کرتے ہو ئے شیخ خطیب فر ما تے ہیں ۔
"السنة في اصطلاح علماء أصول الفقه : هى كل ما صدر عن النبي غير القرأن الكريم من قول أو فعل أو تقرير، مما يصلح ان يكون دليلا لحكم شرعى"(السنۃ قبل التدوین ص16)
سنت علما ئے اصول فقہ کے نزدیک قرآن کے علاوہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے جو قول و فعل اور تصویب و تا ئید صادر ہو مراد ہو تی ہے کیونکہ وہ شرعی مسائل کے لیے دلیل بنتی ہے۔
امام مو صوف نے " استد لالاً"لفظ لا کر اس طرف اشارہ بھی کر دیا ہے اس کے باجود اسے خانہ ساز مفہوم پر چسپاں کر لینا تدبر اور دیانتداری کے منا فی ہے نیز اگر امام شا فعی کےہاں سنت لفظ سے اخترا عی مفہوم مراد ہو تا جس میں اجماع کو شرط قرار دیا جا تا ہے تو وہ سنت کے لفظ کے بعد "اجماع " کو مستقل حیثیت سے ذکر نہ کرتے جبکہ امام شافعی تو فرد واحد کی بیان کردہ روایت کو بھی سنت ہی شمار کرتے ہیں جیسا کہ وہ جماعت متفقہ کی روایت کو بھی سنت کہتے ہیں چنانچہ وہ اجماع اور قیاس کی بحث میں سا ئل کے جواب میں لکھتے ہیں ۔
يحكم بالكتاب والسنة المجتمع عليها الذي لا اختلاف فيها فنقول لهذا حكمنا بالحق في الظاهر والباطن (1816) ويحكم بالسنة قد رويت من طريق الانفراد لا يجتمع الناس عليها فنقول حكمنا بالحق في الظاهر لانه قد يمكن الغلط فيمن روى الحديث(الرسالہ ص599)
یعنی کتاب و سنت کا وہ حصہ جس میں کسی کا اختلا ف نہ ہو اس کے بارے میں ہم یہ فیصلہ دیں گے کہ وہ ظاہر اوبالناحق ہے اور خبر واحد کے طریق سے مروی سنت سے جو فیصلہ کیا جا ئے جس پر تمام لوگ جمع نہیں ہیں تو یہ صرف ظا ہر کے لحا ظ سے حق ہو گا اس لیے کہ اس میں غلطی کا امکا ن ہے ۔
دیکھئے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے مجمع علیہ سنت کی طرح فرد واحد کی روایت کردہ حدیث کو بھی سنت کہا ہے جبکہ مجمع علیہ سنت سے ان کی مراد خبر متواتر ہے جسے ایک جماعت بلا اختلا ف نقل کرتی ہے اگر ان کے ہاں حدیث و سنت میں زمین و آسمان کا فرق ہو تا تو وہ خبر واحد کو خبر متواتر کی طرح سنت میں شمار نہ کرتے ۔چنانچہ معلوم ہوا کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بھی جمہور علماء کی طرح حدیث و سنت میں کسی فرق کے قائل نہیں تھے۔اور اس کے متعلق ان کی صریح نص اس سے قبل ہم پیش کر چکے ہیں ۔
حنا بلہ کی رائے
ابن نجا ر حنبلی مسلک کے بلند پا یہ علماء میں سے تھے جو مذہب حنبلی کے اصول و فروغ پر گہری نگاہ سنت کا مفہوم ان الفاظ سے ذکر کرتے ہیں ۔
أَنَّ السُّنَّةَ شَرْعًا وَاصْطِلاَحًا : قَوْلُ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَفِعْلُهُ وَإِقْرَارُهُ عَلَى الشَّيْءِ يُقَالُ أَوْ يُفْعَلُ , فَإِذَا سَمِعَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم إنْسَانًا يَقُولُ شَيْئًا , أَوْ رَآهُ يَفْعَلُ شَيْئًا . فَأَقَرَّهُ عَلَيْهِ , فَهُوَ مِنْ السُّنَّةِ قَطْعًا
یعنی شرعی اصطلا ح کے اعتبار سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور تقریر کو سنت کہا جا تا ہے ۔لہٰذا نبی کرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کسی شخص کو کو ئی بات کہتے سنایا کو ئی کا م کرتے دیکھا ہو اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس پر بر قرار رکھا ہو تو آپ کی یہ تصویب و تائید یقیناًسنت میں شامل ہے ۔
واضح رہے کہ اسلاف کے نزدیک حدیث و سنت مترادف ہیں ان میں بنیا دی طور پر کوئی فرق نہیں ہے لہٰذا ان کے ہا ں حدیث کی طرح سنت بھی دو اقسام پر مشتمل ہو گی ایک وہ سنت جو طریق انفرا دی سے مروی ہو جسے وہ خبر واحد کہتے ہیں ۔دوسری سننت متواتر ہ ہے جسے ایک جماعت روایت کرتی ہے اسے حدیث متواتر یا خبر متواتر کہتے ہیں اس کا مرتبہ اور مقام ثبوت واقعہ کے لحا ظ سے چو نکہ خبر واحد سے بلند ہو تا ہے اس لیے تعارض کے وقت اسے خبر واحد پر ترجیح ہو گی یعنی خبرواحد کو کتاب اللہ یا حدیث متواتر سے مطا بقت نہ ہو سکنے کی صورت ترک کر دیا جا ئے گا جیسا کہ قاضی ابو یعلی محمد بن حسین الفراء کہتے ہیں ۔
ان يُخَالِفُ نَصَّ كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى أَوْ نَصَّ سُنَّةِ مُتَوَاتِرَةٍ
(العدۃ فی اصول الفقہ 974/3)
ابن نجا ر حنبلی کی وضا حت کے مطا بق یہاں بھی سنت متواتر ہ سے مراد وہ حدیث ہی ہے جو متواتر ہو جیسے خبر واحد پر فوقیت حاصل ہے لہٰذا حنابلہ کے نزدیک بھی حدیث و سنت ہم معنی استعمال ہو تے ہیں ۔
     خطیب بغدادی کی را ئے :۔
خطیب بغدادی اپنی کتاب "الکفایۃ " میں "سنت "کا لفظ بکثرت لا تے ہیں اور بعض ابواب کے عنوان سے حدیث و سنت کے ہم معنی ہو نے کی طرف اشارہ بھی کر جا تے ہیں ۔مگر چو بکہ یہ ممکن تھا کو ئی شخص سنت کے الفا ظ کو خا نہ ساز مفہوم پر محمول کر کے خطیب بغدادی کے نام سے لوگوں کی گمرا ہی کا سبب بنے ۔اس کے سدباب کے لیے "الکفایۃ " کے الوداعی کلمات میں ہی امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے کا مل اتفا ق کرتے ہو ئے "سنت " کے مفہوم کی وضا حت کرتے ہو ئے لکھتے ہیں ۔
الاصل قرآن وسنة فان لم يكن فقياس عليهما وإذا اتصل الحديث عن رسول
الله صلى الله عليه وآله وسلم وصح الاخذ منه فهو سنة
(الکفایۃفی علم الروایہ ص613)
اصل دلیل قرآن و سنت ہے لیکن اگر کسی مسئلہ کے متعلق کو ئی نص موجود نہ ہو تو قرآن و سنتہ پر قیاس کر کے حل نکا لا جا ئے گا ۔واضح رہے کہ جب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے کو ئی متصل حدیث دستیاب ہو جس کا آپ  صلی اللہ علیہ وسلم سے اخذ کرنا صحت کے ساتھ ثابت ہو تو وہی حدیث آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہو تی ہے ۔
دیکھئے صاحب "الکفایۃ " امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی طرح حدیث کو ہی رسول کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت قرار دیا ہے اور ان دونوں میں فرق نہیں کیا بلکہ وہ اپنی کتاب کے آغا ز میں ثبوت سنت کا دارومدار عملی تواتر کی بجائے احا دیث کے طرق و اسانید پر رکھتے ہوئے فر ما تے ہیں ۔
لولا عناية أصحاب الحديث بضبط السنن وجمعها ، واستنباطها من معا دنها ، والنظر في طرقها ، لبطلت الشريعة ، وتعطلت أحكامها ، إذا كانت مستخرجه من الآثار المحفوظة ، ومستفاد من السنن المنقولة
"(الکفایۃ فی علم الروایۃ ص35)
یعنی اگر اہل حدیث سنتوں کو لکھنے اور ان کی جمع و تدوین کا اہتمام نہ کرتے اور انہیں اپنے ماخذ و مصادر سے اخذ نہ کرتے اور نہ ہی ان کی اسانید میں تدبر سے کا م لیتے تو شریعت اور اس کے احکا م ضائع ہو جا تے کیونکہ محفوظ آثا ر اور مروی سنتوں سے ہی تو احکا م شریعت حاصل کئے جا تے ہیں ۔
غور کیجئے ،خطیب بغدادی بھی حدیث و سنت کو ہم معنی سمجھتے ہیں اسی لیے حدیث کی طرح سنت کے ثبوت کے لیے اس کی سند میں غور و خوض کرنے کو بنیا د بنا تے ہیں اور اسے تمام اہل حدیث و سنت کا طریقہ قرار دیتے ہیں بلکہ انھوں نے اپنی کتاب کے تیسرے باب میں سنت گو خبر متواتر اور خبر آحاد (دو قسموں ) میں تقسیم کیا ہے اور وہاں انھوں نے اسی خبر متواتر کو سنت متواترہ کا نام دیا ہے اور خبر متواتر مرتبے میں خبر واحد سے اعلیٰ ہو تی ہے کیونکہ اس کا ثبوت قرآن کریم کی طرح معیاری ہو تا ہے چنانچہ وہ اپنی کتاب کے باب"الكلام في الاخبار وتقسيمها وينقسم قسمين خبر تواتر وخبره أحاد کے تحت لکھتے ہیں۔
وقديستدل أيضا على صحته بان يكون خبرا عن أمر اقتضاه نص القرآن أو السنة المتواترة أو اجتمعت الامة على تصديقه أو تلقته الكافة
بالقبول (الکفایۃ ص51)
حدیث کی صحت کے بارے میں یہ دلیل بھی ہو تی ہے کہ وہ ایسا امر ہو جس کا تقاضا قرآن سنت متواتر ہ اور اجماع امت کرتے ہوں ۔ گو یا سب اسے قبولیت کا درجہ دیتے ہیں ۔
خطیب کے نز دیک یہاں "سنت متواترہ "سے مراد "خبر متواتر " ہے جیسا کہ اس باب کے عنوان سے انھوں نے اس کی طرف اشارہ کر دیا ہے اور "السنۃ المتواترہ" کے بعد ان کی طرف سے
أو اجتمعت الامة على تصديقه أو تلقته الكافة
بالقبول "جملے کا اضافہ اس بات کی نشا ندہی کرتا ہے کہ خطیب کے نز دیک "السنۃ المتواترہ" کے مفہوم میں اجما ع یا تلقی بالقبول اور تعا مل امت کی شرط پیش نظر نہیں ہے (جیسا کہ اہل اشراق کا خیا ل ہے ) اور نہ وہ سنت متواترہ کے بعد اس جملے کا اضا فہ نہ کرتے ۔لہٰذا تجد زدہ حضرات کا باب کے عنوان سے نظر یں چرا کر خطیب کی اصطلا ح کو سیا ق و سباق سے کا ٹ دینا اور اخترا عی مفہوم پر محمول کر کے لوگوں کو اندھیرے میں رکھنے کی کو شش کرنا سرا سر بد نیتی پر مبنی ہے۔
یا د رہے کہ خبر متواتر کا تعلق امور حسیہ (جن کا مشاہد ہ کیا جا ئے ) سے ہو تا ہے اس لیے خطیب کبھی اس پر "السنہ المطلومہ "کا لفظ بھی استعمال کرتے ہیں یعنی جم غفیر کے ہا ں جانی پہچا نی ہو ئی سنت وہ لکھتے ہیں ؛۔
"ولا يقبل خبر الواحد في منافاة حكم العقل وحكم القرآن الثابت المحكم ، والسنة المعلومة "(الکفایۃ فی علم الروایۃ ص606)
یعنی خبر واحد عقل قرآن کریم اور سنت متواتر ہ کے منا فی ہو نے کے وقت مقبول نہ ہو گی ۔
یہاں خطیب کے نزدیک "سنت متواترہ کی طرح "السنہ المطلومہ " سے بھی خبر متواتر ہی مراد ہے جسے خبر واحد کے مقابلہ میں ترجیح دی جا تی ہے ۔اگر ان کے ہاں اس سے مراد وہ سنت ہو تی جس میں عمل کے متواترکو شرط بنا یا جا تا ہے (جیسا کہ اہل اشراق کا وہم ہے) تو وہ " والسنة المعلومة " کا لفظ لا تے ۔جس کا اشقاق عمل سے ہے لہٰذا اس کی بجا ئے السنۃ المطلومۃ " کا لفظ لا نا اس بات کی دلیل ہے کہ صاحب "الکفایۃ "کے نزدیک سنت کے مفہوم میں عملی تواتر کی شرط نہیں ہے۔
مولانا محمد اسماعیل السلفی کا اعلا ن :۔
منکرین حدیث کے نباض مولا نا محمد اسماعیل سلفی "سنت " کی وضاحت کرتے ہو ئے فر ما تے ہیں۔"شارع" کی زبان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل خاموشی اجتہاد نبوی سب سنت میں دا خل ہیں "(حجیت حدیث ص18)
وہ حدیث و سنت میں فرق کرنے والے فتنے کی سر کو بی کرتے ہو ئے مزید لکھتے ہیں
"ہمارے پیش نظر موضوع میں سنت اور حدیث مترادف ہیں " (ص19)
حدیث و سنت کے ہم معنی ہو نے پر ایسی تصریھا ت کے ہو تے ہو ئے بھی تجدو زدہ حضراتکا سنت کے خا نہ ساز مفہوم کے میدا ن میں مو لا نا سلفی رحمۃ اللہ علیہ کو کھینچ لا نا اور اس بارہ میں ان کے صریح مو قف کو نظر اندا ز کر کے غیر متعلقہ عبارت کو پیش کردینا بیمار ذہنیت کی دلیل ہے معلوم ہو تا کہ تدبر قرآن کی رٹ لگا نے والوں کا یہی وطیرہ قرآن کریم کے ساتھ بھی ہے اور ایسے فتنہ پروروں سے خبر دار کرنے کے لیے ارشاد باری تعا لیٰ ہے۔
﴿فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ ...٧﴾...آل عمران
"جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہو تی ہے وہ فتنہ پروری کے لیے مشتبہ باتوں کے پیچھے پڑتے ہیں ۔
مولانا امین اصلا حی کا مسلک :۔
ہو سکتا ہے کہ مولا نا اصلا حی سنت کی اخترا عی تعریف کی اصلا ح و مرمت میں اب کسی اور نتیجے تک پہنچگئے ہوں ۔لیکن ان کی سابقہ تحریروں سے معلوم ہو تا ہے کہ وہ بھی حدیث اور سنت کو مترا دف سمجھتے ہیں جیسا کہ وہ " مبادی تدبر قرآن" میں ایک مقام پر لکھتے ہیں ۔
"اصل چیز خود قرآن کے الفا ظ اور اس کی اپنی تو ضیحا ت ہیں اس کے بعد آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور تیسرا درجہ اقوال صحا بہ کا ہے "(ص164)
دیکھئے ان کے ہا ں قرآن کے بعد دوسرا درجہ سنت کو دیا گیا ہے اور اسی دوسرے درجے پر فائز" سنت"کو وہ حدیث سے تعبیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
"حدیث کا رتبہ بہت بلند ہے وہ امت کے لیے قرآن کے بعد دوسری چیز ہے اس میں خود حکمت قرآن کا بھی ایک بڑا ذخیرہ ہے پھر اگر حدیث میں حکمت نہ ہو گی تو کہا ں ہو گی؟"(ص111)
مولا نا امین احسن کے یہ الفا ظ ان کی مراد کے اظہا ر میں روز روشن کی طرح عیا ں ہیں اور وہ ببا نگ بتا رہے ہیں کہ حدیث و سنت مترا دف ہیں کیونکہ ان کے بقول دین میں قرآن کے بعد دوسرا درجہ حدیث و سنت کا ہے اور تیسرا مقام اقوال صحا بہ کو حا صل ہے۔
نیز ان کی نظر میں حدیث نبوی حکمت قرآن پر مشتمل چیز کا نا م ہے اور قرآن کریم میں (یعنی حدیث) کو کتاب اللہ کے بعد دوسرے درجے میں ذکر کیا گیا ہے جو کہ سنت کا درجہ ہے ۔ارشاد باری تعا لیٰ ہے۔
﴿وَأَنزَلَ اللَّـهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ ... ١١٣﴾...النساء
"لہٰذا ہماری را ئے میں مو لا نا اصلا حی صاحب کے نزدیک بھی حدیث و سنت ہم معنی ہیں اور ان کے ہاں ان میں بنیا دی طور پر کو ئی فرق نہیں ہے۔
اہل"اشرا ق "کی را ئے:۔
ہمیں یہ تسلیم ہے کہ اہل اشرا ق شدو مد سے حدیث و سنت میں فرق کے قائل ہیں لیکن مشہور ہے کہ حق اپنے آپ کو منواتا ہے ۔حدیث و سنت کا مترا دف ہو نا چو نکہ حق ہے اور یہ اسلا ف امت کا مسلک بھی ہے ۔اس لیے اشراقی حضرا ت بھی کسی حد تک انہیں مترادف ماننے پر مجبور ہو گئے ہیں جیسا کہ وہ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔"الفاظ کا ایک دوسرے کے مترا دف کے طور پر استعمالہو جا نا زبان کے قواعد کے مطا بق ہے سنت کا لفظ حدیث کے لیے اس لیے بول لیا جا تا ہے ۔کہ حدیث کا زیادہ تر حصہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مطہرہ کی روایت پر مشتمل ہے اس لیے سنت کا لفظ علی سبیل التظیب حدیث پر بھی بو ل لیا جا تا ہے ۔"(اشراق مئی 94ء)
حدیث کے لیے سنت کے لفظ کو استعمال کرنا تو جمہورعلماء کا مسلک ہے کیونکہ ان کے ہاں یہ دونوں الفاظ مترا دف ہیں لیکن اسے حدیث پر علی سبیل التظیب بو لنے کا دعویٰ غلط فہمی پر مبنی ہے کیونکہ ایک لفظ کو دوسرے کے لیے علی سبیل التظیب اس وقت بول سکتے ہیں جبکہ ان دونوں میں کو ئی قدر مشترک مو جو د ہو جیسا کہ اللہ تعا لیٰ کی طرف سے وحی کے نزول میں نبی اور رسول دونوں شریک ہیں اور آج تک کسی نے یہ نہیں کہا کہ ان میں زمین و آسمان کا فرق ہے لہٰذا ان میں سے ایک کو دوسرے کی جگہ استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن جن لوگوں کے نزدیک حدیث و سنت میں زمین و آسمان کا فرق ہے ان کے ہاں ان دونوں الفا ظ میں میں کو ئی قدر مشترک باقی نہیں رہتی ۔لہٰذاجس طرح ارض وسماء (زمین و آسمان) میں سے ایک لفظ کو دوسرے کی جگہ علی وجہ التظیب بولنا کسی صاحب عقل سے ثا بت نہیں ہے ۔ویسے ہی حدیث و سنت میں زمین و آسمان کا فرق کرنے والوں کی طرف سے ایک کو دوسرے پر علی سبیل التظیب بو لنے کا دعویٰ کرنا غلط ہے۔
پھر یہ بات بھی عجیب رہی کہ حدیث کا زیادہ ترحصہ چو نکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی روایت پر مشتمل ہے اس لیے سنت کا لفظ حدیث پر بال لیا جا تا ہے۔
اہل"اشراق "کے سر پر ایک اور مصیبت یہ سوار ہے کہ وہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر و تصویب کو بھی سنت نہیں مانتے ہیں چنانچہ اس بارے میں اپنی پریشانی کا یوں اظہار کرتے ہیں ۔
"تقریر پر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہوتا ہی نہیں اور بالعموم اسے سنت متواتر ہ کا سا تواتر بھی حا صل نہیں ہو تا جو اسے سنت کے درجے تک پہنچا سکے۔"
حقیقت یہ ہے کہ سنت قولی اور فعلی ہو یا سنت تقریری کسی کے لیے تواتر ضروری نہیں ہے ۔تواتر تو حدیث کے ثبوت کا ایک اعلیٰ درجہ ہے جسے سنت متواتر ہ بھی کہہ دیا جا تا ہے مذکورہ اشکال ان لوگوں کو پیش آسکتا ہے جنہوں نے سنت کے لفظ کو خود ساختہ مفہوم کا لبادہ اوڑھا نے کی کو شش کی ہے ۔جبکہ علماء امت نے تقریر کو بھی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل کہا ہے جیسا کہ شیخ الاسلام سبکی فرماتے ہیں ۔
وتطلق السنة على ما صدر عن النبي صلى الله عليه وسلم من الأقوال والأفعال التي ليست للإعجاز وهذا هو المراد هنا ويدخل في الأفعال التقرير لأنه كف عن الإنكار والكف فعل على المختار كما سبق(الابہاج263/2)
یعنی سنت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ قوال وافعال ہیں جو آپ سے صادر ہو ئے ہیں اور (قرآن کریم کی طرح ) معجزہ نہیں ہیں ۔ اور رسول اللہ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے افعا ل میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر بھی دا خل ہے اس لیے کہ تقریر انکا ر نہ کرنے کو کہتے ہیں اور کسی کا م پر انکا ر نہ کرنا آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے۔
یہ ہمارے اسلا ف کا مسلک ہے اہل اشرا ق کو بھی اس کا قائل ہو نا چاہیے تھا مگر اس کے برعکس و ہ لٹھ لے کر تقریرنبوی کے پیچھے پڑے ہو ئے ہیں اور اس کے سنت ہو نے کا انکار کرتے ہو ئے لکھتے ہیں ۔
ہمارے نزدیک آپ کی تقریر یا تصویب سے ایک چیز مشروع یقیناً ہو جا تی ہے لیکن اس کا سنت ہو نا ضروری نہیں ہے "اور اس پر ایک مثا ل پیش کرتے ہو ئے لکھتے ہیں ۔
"روایتوں سے معلوم ہو تا ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو کسی مسجد میں امامت کی ذمہ داری سونپی اور وہاں نماز پڑھا نے لگے کچھ عرصے بعد ان کے بارے میں یہ شکا یت آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی کہ وہ ہر نماز میں سورہ اخلا ص ضرور پڑھتے ہیں آپ نے فرما یا کہ ان کو بلا کر اس کی وجہ پوچھنی چا ہیے ۔جب وہ آئے توآپ نے ان سے اس کی وجہ پو چھی انھوں نے جواب میں عرض کی کہ مجھے سورہ اخلا ص میں تو حید کا بیان بہت پسند ہے اس لیے ایسا کرتا ہوں آپ نے فر ما یا تو نے اللہ کی وحدانیت کو پسند کیا تو اللہ نے تجھے پسند کیا "
(مشکوۃ کتا ب فضا ئل القرآن)۔۔۔(اشراق ص 22)
آگے بڑھنے سے پہلے اس حدیث کا جا ئزہ لینا منا سب ہے جسے ان حضرات نے مشکوۃ کے حوالے سے نقل کیا ہے چونکہ ان کے ہاں حدیث تیسرے درجے کی چیز ہے جس کی وہ خا ص اہمیت نہیں سمجھتے ۔لہٰذا انکا ر کی صورت نہ بن سکے تو اسے تو اسے تو ڑ مروڑ کر پیش کرنے میں کو ئی باک محسوس نہیں کرتے (اسی لیےتو حدیث وسنت میں فرق کر نے کی کو شش میں سر گرم ہیں انھوں نے مذکورہ حدیث کو بے احتیاطی سے ذکر کرنے کی وجہ سے متعدد غلطیوں کا ارتکا ب کیا ہے :جبکہ مشکوۃ میں اس حدیث کے الفا ظ اس طرح ہیں ۔
عن عائشة أن النبي بعث رجلا على سرية فكان يقرأ بأصحابه في صلاته فيختم بقل هو الله أحد فلما رجعوا ذكروا ذلك لرسول الله فقال سلوه لأي شيء يصنع ذلك فسألوه فقال لأنها صفة الرحمن عز و جل وأنا أحب أن أقرأ بها فقال النبي أخبروه أن الله عز و جل يحبه (مشکوۃ کتاب الفضائل قرآن ص185)
"یعنی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر روانہ کرتے وقت ان پر ایک آدمی کو امیر مقرر کر دیا ۔وہ انہیں نماز پڑھا تے وقت جب بھی کو ئی سورت تلاوت کرتے تو اس سورت سے فارغ ہو کر سورہ اخلا ص بھی پڑھتے یہ لشکر جب واپس آیا تو صحا بہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اس کا عمل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ذکر کیا آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا اس سے پوچھو کہ وہ ایسا کیوں کرتا ہے پوچھنے پر اس نے جواب دیا کہ سورہ اخلا ص اللہ تعا لیٰ کی صفات پر مشتمل ہے اس لیے میں اس کی تلا وت کو پسند کرتا ہوں اس پر آنحضرت نے فر ما یا اسے جا کر بتا دو کہ اللہ تعا لیٰ اس کے پڑھنے والے سے محبت کرتا ہے۔"
حدیث کے ان الفاظ کے پیش نظر اہل "اشراق " نے اسے ذکر کرتے وقت مندرجہ ذیل کو تا ہیوں کا ارتکا ب کیا ہے ۔
1۔"سریۃ "کا معنی مسجد سمجھ کر اس شخص کی امامت کو مسجد کی امامت بنا دیا حا لا نکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سفر جہاد میں امام اور امیر مقرر کیا تھا ۔
2۔وہ ہر نماز میں سورہ اخلا ص ہی نہیں پڑھتے تھے (جیسے ان حضرات نے سمجھا ہے) بلکہ وہ نماز میں قراءت سے فارغ ہو کر یہ سورت ملا تے تھے۔
3۔رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلا اس سے براہ راست گفتگو نہیں کی تھی بلکہ دوسروں کی وساطت سے سوال و جواب ہوا تھا ۔
بہرحا ل مذکورہ حدیث کو بے احتیا طی کے ساتھ ذکر کرنے کے بعد ان حضرات نے اس حدیث میں آحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر کو سنت مان لینے سے ہمیں دو خطرناک نتا ئج کی وارننگ دی ہے۔اور لکھا ہے۔
"یہ بھی ایک تقریر ہے اور اس میں ہر نماز میں سورہ اخلا ص پڑھنے کی تحسین کی گئی ہے چنانچہ اسے اگر سنت مان لیا جا ئے تو اس کے دو نہایت خطر نا ک نتا ئج نکلتے ہیں ۔ایک تو یہ کہ آج تک ہم نے جو نمازیں سورہ اخلا ص کے بغیر پڑھی ہیں ۔ وہ سب سنت کے خلا ف پڑھی ہیں اس لیے وہ ضا ئع ہو گئیں ۔کیونکہ سنت تو یہ ہے کہ ہر نماز میں سورہ اخلاص پڑھی جا ئے حتی کہ صحا بہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی نمازیں بھی معرض خطر میں پڑ جا ئیں گی کیونکہ ان کے بارے میں روایا ت میں آتا ہے کہ وہ فجر میں اتنی لمبی لمبی سورتیں پڑھتے تھے کہ نماز کے دورا ن ہی میں سورج طلوع ہو جا تا تھا ۔
اور دوسرا نتیجہ یہ نکلے گا کہ آئندہ کے لیے یہ لا زم ہو جا ئے گا کہ ہر نماز میں سورۃ اخلاص پڑھی جا ئے چنانچہ "لا صلوة الا بفاتحة الكتاب" کی طرح یہ بھی لا زم ہے کہ آج سے "لا صلوة الا بسورة الاخلاص "بھی اصول بنالیا جا ئے "
(اشرا ق مئی 94ء)
جو شخص حدیث نبوی کو صحیح سمجھنے کی صلا حیت نہ رکھتا ہوا ور وہ مختصر سی حدیث کا مفہوم بیان کرتے ہو ئے کئی ٹھوکریں کھا تا ہوا اسے ایسا طنزیہ انداز کلا م اختیا ر کرنا زیب نہیں دیتا رہے دو خطر نا ک نتا ئج جن کی آپ کی طرف سے تقریری سنت کے تسلیم کرنے والوں کو وارننگ دی گئی ہے تو یہ بھی آپ حضرات کی کم فہمی پر مبنی ہے اس لیے کہ کسی بھی سنت کے لیے (خواہ وہ تقریری ہو) یہ ضروری نہیں ہے کہ ہمیشہ اسے وجوب پر ہی محمول کیا جا ئے بلکہ کسی قرینہ کے پا ئے جا نے سے اس سے اباحت بھی مراد ہو سکتی ہے جیسا کہ قرآن کریم کے بعض احکا م اباحت پر محمول ہو تے ہیں مثا ل کے طور پر حج سے فرا غت کے بعد احرا م کھولنے والے کے لیے شکار کو مباح کرتے ہو ئے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
﴿وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا ...٢﴾...المائدة
یعنی جب تم احرا م کھول چکو تو شکار کرو۔اب اس کا یہ مطلب نہیں کہ شکار کرنا ضروری ہے اور نہ ہی احرام کے بعد شکار نہ کرنے والے کا حج معرض خطر میں پڑے گا ۔اور نہ ہی کو ئی عقلمند اس آیت کریمہ کے پیش نظر ۔لاحج إلَّا بِالِاصْطِيَادِاصول بنا نے بیٹھ جا ئے گا کیونکہ اس سے مقصود صرف یہ بیان کرنا ہے کہ جو شکار حالت احرا م میں ممنوع تھا اب احرا م کھولنے کے بعد حلال اور مبا ح ہے ۔اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے صحا بی کو نماز میں قراءت سے فرا غت کے بعد سورہ اخلا ص پڑھنے پر برقرار رکھنا آپ کی تقریری سنت ہے لیکن خود آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر سورت کے اختتام پر سورۃ اخلاص کی تلا وت نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ صحا بی کا یہ عمل اباحت پر محمول تھا وجوب کے لیے نہ تھا اس لیے سوراخلا ص کے بغیر پڑھی ہو ئی ہماری نمازیں نہ تو معرض خطر میں پڑیں گی اور نہ ہی ہمیں کسی کی کج فہمی کی وجہ سے" لا صلوة الا بسورة الاخلاص"اصول بنانے کی ضرورت پیش آئے گی ۔
مزید بریں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے صحا بہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو طلوع شمس اور غروب شمس جیسے اوقات میں نماز پڑھنے سے سختی کے ساتھ منع کیا تھا اور وہ ان اوقات میں نماز کی ادائیگی سے احتراز کرتے تھے لیکن پھر بھی اگر آپ کو اس بات پر اصرار ہے کہ صحا بہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین فجر کی نماز میں اتنی لمبی سورتیں پڑھنا شروع کر دیتے تھے کہ نماز کے دورا ن سورج طلوع ہو جا تا تھا اور آپ کے بقول اس طرح وہ مخا لفت رسول کے مرتکب ہوتے تھے تو صحا بہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین پر اس الزام ترا شی کا ثبوت پیش کرنا آپ کے ذمہ ہے۔
آخر میں ہم واضح کر دیں کہ حدیث و سنت میں فرق نہ ہو نے کو ہم اپنی طرف سے نہیں بلکہ اسلاف امت کی تصریحا ت سے ثا بت کیا ہے اور مقصود صرف یہ ہے کہ انتشارکی شکار اس امت کے حا ل پر رحم کیا جا ئے اور نت نئی اختراعات کے ذریعے سے فرقوں میں بٹی ہو ئی امت کو مزید پاٹنے سے گریز کیا جا ئے ہاں اگر اب بھی کسی کو سنت کے اس اختراعی مفہوم پر ہی اصرار ہے جس میں اجماع اور عملی تواتر کو شرط بنا دیا گیا ہے تو اسلا ف کی اصطلا حا ت کو خا نہ ساز مفہوم پر محمول کرنے کی بجا ئے ان سے سنت کی اخترا عی تعریف ثا بت کر دیں جو آپ کے لٹریچر میں کی جا تی ہے تو ہم فرا خدلی سے اس کا خیر مقدم کریں گے۔


[1] ۔"ہماری مراد" اور ہمارے نزدیک"کے الفاظ قابل غور ہیں۔جو اصطلاح پہلے سے متعین چلی آرہی ہواسی فن میں اس کے نئے معنی متعین نہیں کئے جاسکتے کیونکہ اس طرح مغالطہ پیدا ہوسکتاہے۔
[2] ۔جو شاید تواتر کی بجائے حدیث کے خبر واحد کے میعار پر بھی پورا نہ اُترے۔