حافظ محمد ادریس صاحب نائیجیریا کی آزادی کے بعد فوجی انقلابات کے ضمن میں لکھتے ہیں:
’’صدر نوافور اوریزو نے بزدلی دکھائی اور خود ہی حکومت فوج کے حوالے کردی۔ فوجیوں نے سمجھا کہ سر ابوبکر (وزیرِ اعظم) اور سر احمدو بیلو (وزیرِاعلیٰ شمالی نائیجیریا)ان کے راستے کی رکاوٹ ہوں گے، چنانچہ لیفٹیننٹ یعقو بوگوون نے ایک اور فوجی بغاوت کردی اور وزیرِاعظ و وزیرِاعلیٰ کو شہید کردیا۔‘‘ (روزنامہ ’نئی بات‘:8 مئی 2015ء)
یہاں نائیجیریا میں 1966ءکے دو فوجی انقلابات کے واقعات گڈمڈ ہوگئے۔ دراصل جنوری 1966ء میں عیسائی جنرل ارونسی نے فوجی انقلاب برپا کرکے سر ابوبکر تفاوابلیوا اور سر احمدو بیلو کو شہید کردیا تھا۔ اس کے ردِّعمل میں دوسرا فوجی انقلاب یعقوبو گوون نے اگست 1966ءمیں برپا کیا جس میں جنرل ارونسی کو ہلاک کرکے خود حکومت سنبھال لی۔یعقوبو گوون مسلم گھرانے میں پیدا ہوئے تھے مگر مشنری ادارے میں تعلیم پاکر عیسائی ہوگئے تھے۔ حافظ صاحب نے اس زمانے میں نائیجیریا کے دو ریاستوں یا صوبوں، شمالی اور جنوبی نائیجیریا میں منقسم ہونے کا ذکر کیا ہے، حالانکہ ان دنوں یہ ملک شمالی نائیجیریا، مشرقی نائیجیریا اور مغربی نائیجیریا میں منقسم تھا۔ مشرقی نائیجیریا میں عیسائیوں کی اکثریت تھی اور وہاں کرنل اوجوکو نے بغاوت کرکے 1967ء میں’بیافرا‘ کے نام سے آزاد ریاست قائم کرلی تھی جسے تیل کے لالچ میں یورپی ممالک فرانس وغیرہ نے تسلیم کرلیا تھا اور پھر تین سال کی خانہ جنگی کے بعد 1970ء میں صدر یعقوبو گوون بیافرا کو فتح کرنے میں کامیاب ہوئے تھے جبکہ بیافرا کی بغاوت کچلنے میں سوویت روس نے اُن کی اسلحی امداد کی تھی۔ کرنل اوجوکو ملک سے فرار ہوگیا تھا۔
k رانا عامر جاوید نے روزنامہ ’ نئی بات‘ (8 مئی 2015ء) میں اکبر الٰہ آبادی کا ایک مشہور قطعہ نقل کیا
’’ذوالفقار علی بھٹو اکثر کہا کرتے تھے کہ میں تاریخ میں زندہ رہنا چاہتا ہوں۔ یہ بات وہی شخص کرسکتا ہے جس کو تاریخ کا ادراک ہو۔‘‘ (’نئی بات‘ 9 مئی 2015ء)آگے موصوف نے بھٹو کی شان میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے ہیں۔ حالانکہ عقلِ سلیم کی بات ہے کہ تاریخ میں تو چنگیز اور ہلاکو بھی زندہ ہیں۔ تاریخ میں محض زندہ رہنا کوئی بات نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ انسان نیک نامی کے ساتھ تاریخ میں زندہ رہے۔ ہوسِ اقتدار میں فوجی آمر جنرل یحییٰ خان سے گٹھ جوڑ کرکے مشرقی پاکستان کی منتخب قیادت کا راستہ روکنے کے لیے وہاں آرمی ایکشن کروانا اور بنگلہ دیش بنوا کر نصف پاکستان کو نیا پاکستان کا نام دینا اور یہاں سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن بیٹھنا سیاستدان بھٹو کے لیے شرمناک تھا۔ بھٹو بے شک تاریخ میں زندہ ہے مگر متحدہ پاکستان کو توڑ کر اپنا تختِ اقتدار جمانے والے سیاستدان کے طور پر۔ اگر اسے تاریخ کا ادراک ہوتا تو وہ قومی اسمبلی میں 81 ؍ارکان کی اقلیت کے ساتھ 160؍ارکان کی اکثریت والے شیخ مجیب کو اقتدار منتقل کرنے کی حمایت کرتا اور ڈھاکہ جانے والوں کی ٹانگیں توڑنے کی دھمکی دے کر ملک توڑنے والا کردار نہ بنتا۔ وہ قومی اسمبلی کے اجلاس ڈھاکہ کا بائیکاٹ نہ کرتا، اسمبلی کا اجلاس ہونے دیتا، صبر کے ساتھ اپوزیشن لیڈر بنتا اور پھر اگلے عام انتخابات میں اس کی جیت ہوسکتی تھی۔
’’سندھی عوام نے سب سے پہلے اپنی اسمبلی میں پاکستان کے حق میں قرارداد منظور کی اور غدّار قرارپائے۔‘‘ (روزنامہ ’ایکسپریس‘4مئی2015ء)درحقیقت 1937ء میں سندھ صوبائی مسلم لیگ نے اپنے اجلاس میں پاکستان کے حق میں قرارداد منظور کی تھی، نہ کہ سندھ کی صوبائی اسمبلی نے۔ پھر یہ سندھی عوام کے غدار قرار پانے کی بات تو سراسر جھوٹ ہے۔ وہ تو جی ایم سید کی قیادت میں ایک حقیر اقلیتی ٹولا تھا جس نے منحرف ہوکر قیام پاکستان سے پہلے ہی اس کی مخالفت شروع کردی تھی جبکہ سندھی عوام کی بھاری اکثریت نے 1945-46ء کے عام انتخابات میں اپنا ووٹ قیامِ پاکستان کے حق میں دیا تھا۔
’’شاہ سعود بن عبدالعزیز کے صاحبزادے شہزادہ فیصل نے نہایت اعلیٰ خدمات انجام دیں جنھیں دیکھتے ہوئے شہزادہ فیصل کو ولی عہد سلطنت مقرر کردیا گیا۔‘‘ (10تا 16مئی 2015ء)سعودی عرب پر اس مضمون میں آگے چل کر لکھا ہے:
’’1958ء میں مالی بحران کے آثار پیدا ہوئے تو شاہ سعود نے اپنے صاحبزادے ولی عہد شہزادہ فیصل کو وقتی طور پر حکومت کی ذمہ داریاں سونپ دیں۔‘‘درحقیقت شہزادہ فیصل بن عبدالعزیز شاہ سعود بن عبدالعزیز (1953-64ء) کے چھوٹے بھائی تھے نہ کہ بیٹے۔ بڑے بھائی شاہ سعود کے بعد 1964ء میں فیصل بادشاہ بنے۔ آغاز میں لکھا ہے:
’’ترکیہ کے خلیفہ شاہ حسین جو کہ حجاز پر بھی قابض تھے، عبدالعزیز اُنھیں شکست دے کر حجاز پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔‘‘دراصل حسین بن علی ہاشمی ترکیہ کے خلیفہ محمد خامس(1909-19ء) کے زیرِحکومت ’شریف مکہ‘تھے نہ کہ ترکی کے خلیفہ۔ شریفِ مکہ حسین ہاشمی نے اپنے بیٹوں فیصل، عبداللّٰہ اور زید کے ساتھ سلطنتِ عثمانیہ کے خلیفہ محمد پنجم کے خلاف بغاوت کی تھی اور انگریزوں کی مدد سے حجاز پر قبضہ کرکے بادشاہِ حجاز بن بیٹھا تھا جہاں سے شاہ عبدالعزیز نے (1924-26ء) میں اسے نکال باہر کیا۔
’’گلاسگو انٹرکلچرل آرٹس گروپ کے چیئرمین شیخ محمد اشرف نے 6 ستمبر 2013ءکو گلاسگو میں 30 اصحاب اور اصحابیات کو میرے اعزاز میں ظہرانے پر مدعو کیا۔‘‘ (نوائے وقت 10 مئی 2015ء)چوہان صاحب بہت سینئر صحافی ہیں مگر اُنھوں نے خیال نہیں کیا کہ ’اصحابیات‘ کسی طرح ’صاحبہ‘ کی جمع نہیں ہوسکتی۔ وہ ’صاحبہ‘ کی جمع آسانی سے ’صاحبات‘ لکھ سکتے تھے۔ ’صاحب‘ کی جمع ’اصحاب‘ ہے اور ’صحابی‘ کی جمع ’صحابہ‘ ہے، نیز ’صحابیہ‘ کی جمع ’صحابیات‘ہے لیکن چوہان صاحب نے ’صاحبات‘ کو نظرانداز کر کے ’اصحابیات‘ کی بے تکی اصطلاح گھڑلی۔
’’علامہ اقبال کو قرطبہ جانے کے لیے حکومتِ برطانیہ سے خصوصی اجازت لینی پڑی تھی۔ علامہ اقبال نے مسجدِ قرطبہ کے محراب میں جاکر جو نماز پڑھی وہ بھی اسپین کے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پڑھی تھی۔‘‘ (27؍مئی 2015ء)حقیقت یہ ہے کہ علامہ اقبال نے مسجدِ قرطبہ میں نماز باقاعدہ اجازت لے کر پڑھی تھی۔ جب ہسپانوی اہلکار نے علامہ صاحب کو مسجد قرطبہ میں نماز پڑھنے سے یہ کہہ کر روکا کہ یہ خلافِ قانون ہے تو اُنھوں نے کہا کہ اپنے بڑے پادری کو بلاؤ۔ جب پادری آیا تو علامہ نے اس سے کہا کہ ہمارے نبی کریمﷺ نے تو نجرانی عیسائیوں کو مسجدِ نبوی میں اپنی عبادت کرنے سے نہیں روکا تھا۔ اس پر پادری نے علامہ کو وہاں نماز پڑھنے کی اجازت دے دی۔ البتہ دارالسلام کے مینیجنگ ڈائریکٹر عبدالمالک مجاہد اپنے ’سنہرے سفرنامے‘ میں لکھتے ہیں کہ اُنھوں نے گارڈ کی نگرانی کے باوجود اس کے ادھر ادھر ہونے پر ایک ستون کے پیچھے دو نفل ادا کرلیے تھے۔
’’اے نادان! تجھے افرنگ سے غم گساری کی امید ہے۔ باز کا دل اس پرندے کے لیے نہیں کانپتا جو اُس کے پنجوں میں چیخ رہا ہو۔‘‘ویسے یہ ’فرنگ‘ کی اصطلاح فرانسیسی اصطلاح فرینک (Frankقدیم فرانسیسی قوم) یا فرینکوں کے ملک فرانس (France)سے مفرّس ہے۔قرونِ وسطیٰ میں فرینک قوم کا ملک ’فرانس‘ کہلانے لگا تھا۔ تیسری صلیبی جنگ (1189-92ء) سے شہرت پانے والا شاہ انگلستان رچرڈ لائن ہارٹ ایک فرانسیسی شاہی خانوادے ’آنجو‘ سے تعلق رکھتا تھا اور ایک عرصے تک فرانس کے علاقے نارمنڈی، بریٹانی، لوئر اور ایکویٹین بادشاہتِ انگلستان کا حصہ رہے۔ اور یہ انگلینڈ (انگلستان) بھی جرمنی کے علاقہ اینگلیا (Anglia) سے آکر جزیرہ برطانیہ میں آباد ہونے والے اینگلز (Engles) کی نسبت سے England کہلاتا ہے جس کے ساتھ سکاٹ لینڈ، ویلز اور شمالی آئرلینڈ کے اتحاد سے بادشاہتِ برطانیہ یا United Kingdom وجود میں آئی ہے جسے مختصراً یوکے (UK) کہا جاتا ہے جو کہ وسیع تر فرنگستان (یورپ) کا ایک حصہ ہے۔ یادرہے فرانس کا قدیم نام گال (Gual) ہے۔
’’ چنگیز خاں (تموچن) نے عراق پر حملہ کرکے سب کچھ تہس نہس کردیا۔ لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں مسلمانوں کو قتل کیا اور علمی کتب خانے جلا کر راکھ کا ڈھیر کردیے۔ 1258ء میں ہلاکو خان اور دیگر منگول اس خطے کے حکمران ٹھہرے۔‘‘ (7 تا 13 جون 2015ء)
قریشی صاحب نے تاریخ کے واقعات گڈمڈ کردیے۔ 1217ء میں چنگیز خاں وسطی ایشیا (ترکستان) کی خوارزم شاہی سلطنت پر حملہ آور ہوا تھا جس میں ترکستان، خراسان، ایران، اور افغانستان شامل تھے۔ چنگیز خاں ترکستان (وسطی ایشیا) اور افغانستان میں ماردھاڑ کرتا ہوا جلال الدین خوارزم شاہ کے تعاقب میں دریائے سندھ تک آیا تھا، وہ یہیں سے اپنے دارالحکومت قراقرم لوٹ گیا تھا اور اس کے بیٹوں اور جرنیلوں نے خراسان، ایران، آذربائیجان، جارجیا، روس، یوکرین اور پولینڈ تک کے ممالک فتح کرلیے تھے۔ چنگیز خاں 1227ء میں مرگیا اور اس کے پوتے ہلاکو خاں نے خراسان و ایران اور آذر بائیجان پر مشتمل ایل خانی سلطنت قائم کی اور ہلاکو خان ہی نے 1258ء میں عراق پر حملہ کرکے بغداد کی عباسی خلافت کا خاتمہ کیا اور خلیفہ مستعصم باللّٰہ کو دھوکے سے گرفتار کرکے شہید کردیا۔
t مدثر نذر قریشی مزید لکھتے ہیں: ’’1933ءمیں شاہ فیصل انتقال کرگئے۔‘‘
یہ دراصل عراق کے شاہ فیصل اوّل (شریف مکہ حسین ہاشمی کے بیٹے) تھے۔ ان کے بیٹے شاہ غازی (1933-39ء) اور پوتے شاہ فیصل ثانی (1939-58ء) جانشیں ہوئے۔ فیصل ثانی 1958ءکے فوجی انقلاب میں مارے گئے۔
u قریشی صاحب کے مطابق
’’صدر عبدالسلام عارف کی وفات کے بعد حسن البکر (مضمون میں ’البکر‘ کے بجائے ’الابکر‘ کمپوز ہوا) نئے صدر بن گئے۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ صدر عبدالسلام عارف 1966ء میں فضائی حادثے میں ہلاک ہوگئے تو اُن کے بھائی عبدالرحمٰن عارف صدرِ عراق بنے تھے جن کا تختہ احمد حسن البکر نے 1968ء میں الٹ دیا۔
v احمد شاہین مضمون ’ ایک سفر پریوں کی تلاش میں ‘ لکھتے ہیں:
’’چلاس صوبہ خیبر پختونخوا کے ڈسٹرکٹ کوہستان میں واقع ہے جس کے بعد گلگت بلتستان کی حدود شروع ہوجاتی ہیں۔‘‘ (’نئی بات‘ سنڈے میگزین:7 تا 13 ؍جون 2015ء)پاکستان میں نئی نسل کو وطنِ عزیز کا مکمل جغرافیہ نہ پڑھانے کا ایک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جامعہ پنجاب سے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان (احمد شاہین)کو خبر ہی نہیں (اور اخبار کا ادارتی عملہ بھی اس سے بے خبر ہے) کہ چلاس صوبہ گلگت و بلتستان میں واقع ہے کہ صوبہ خیبرپختونخوا میں۔ دراصل چلاس گلگت و بلتستان کے ضلع دیامر کا ضلعی ہیڈکوارٹر ہے اور ضلع دیامر سے متصل خیبرپختونخوا کا ضلع کوہستان کہلاتا ہے۔
’’برادرم ایاز امیر کہ موجی آدمی (ہیں)، چنانچہ روزانہ کی بنیاد پر (ان کے )نظریہ اور سیاست میں اتارچڑھاؤ لازم(ہے)، فرماتے ہیں کہ ’’اگر میں بھول نہیں رہا تو ضیاءالحق نے مولانا مودودی سے ریڈیو سے اسلامی تقاریر نشر کروائیں۔‘‘آپ (ایاز امیر) ایک عرصے سے بھولے بھٹکے ہوئے ہیں، تصحیح فرمالیں، سید مودودی 1979ء میں داغِ مفارقت دے گئے۔ ایازامیر سے چند دہائیوں کی چوک ہوئی، کہ مولانا مودودی ریڈیو پاکستان پر (1948ءمیں) اسلامی ریاست کے خدوخال پر لیکچر ضرور دیتے رہے تھے جو قائداعظم کی زندگی میں نشر ہوئے تھے۔‘‘
’’دریائے نیل کا ذکر قرآن پاک میں بھی کیا گیا ہے۔‘‘ (2جولائی 2015ء)دراصل قرآن میں ﴿فَاَلْقِیْہِ فِی الْیَمِّ﴾ کے الفاظ ہیں۔ شیرخوار موسیٰ کی والدہ کو حکم دیا گیا تھا کہ اپنے بچے کو یَمّ (دریا) میں ڈال دو۔ یہاں ’یمّ‘ سے مراد دریائے نیل ہے۔ لیکن غرقِ فرعون کے سلسلے میں جو کہا گیا: ﴿ وَ اِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ ﴾ (اے بنی اسرائیل! ہم نے تمہارے گزرنے کے لیے سمندر پھاڑ دیا) تو یہاں ’بحر‘ سے مراد بحیرۂ قلزم کی کھاڑی (موجودہ بحیرات مرّہ) ہے مگر بعض اہلِ قلم فرعون کے دریائے نیل میں غرق ہونے کی بات لکھ ڈالتے ہیں جو درست نہیں۔
’’1916ء میں یہودی عسکری دستے برطانوی جرنیل لارڈ ایلنبی کے لشکر میں شامل ہوگئے جس نے فلسطین پر حملہ کیا تھا۔ یہودیوں نے اتحادی فوجوں کے ساتھ مل کر شام اور لبنان کی جنگ میں بھی حصہ لیا جبکہ لارڈ ایلنبی نے 8 دسمبر 1917ء کو القدس (بیت المقدس) پر قبضہ کیا، پھر دمشق فتح کرکے سلطان صلاح الدین کی قبر پر گیا اور فخر کے ساتھ یہ نعرہ لگایا: ’’صلاح الدین! اُٹھو، ہم لوٹ آئے ہیں۔‘‘ (1لفرقان: 9جون 2014 ء)حقیقت یہ ہے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کی قبر پر صلیبی نعرہ مارنے والا لارڈ ایلنبی نہیں، فرانسیسی جنرل گورا (Gouraud) تھا جو جولائی 1920ء میں غدارِ ملت شریفِ مکہ حسین بن علی ہاشمی کے بیٹے فیصل کو دمشق (شام) کی ’بادشاہت‘ سے فارغ کرتے ہوئے یہاں وارد ہوا تھا اور اس نے مذکورہ جملہ کہہ کر اپنے صلیبی آبا (شاہِ فرانس فلپ اور شاہِ انگلستان رچرڈ) کی سلطان صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں تیسری صلیبی جنگ (1189-92ء) میں شکستِ فاش کا گویا مداوا کرنے کا اعلان کیا تھا۔