قرآنی آیات اور ماثور دعاؤں سے بنے تعویذ اور اُن کا حکم

قرآنی آیات اور مسنون الفاظ سےدم کرنا جائز ہے اور دم میں پھونک مارنا بھی درست ، جیساکہ بعض احادیث سے پتہ چلتا ہے ۔تاہم تعویذ کو لٹکانا، پہننا فرامین نبویہؐ کی صراحت اور غیرمسنون ہونے کی بنا پر درست نہیں۔ غیرقرآنی تعویذ کی حرمت کے بارے میں تو واضح احادیث ہیں، جیسا کہ مسند احمد میں ہے کہ ’’جس نے تعویذ (تمیمہ) لٹکایا، اللّٰہ اس کی مراد پوری نہ کرے۔‘‘ اور ’’تعویذ لٹکانے والا شرکیہ عمل کا ارتکاب کرتا ہے ۔‘‘ (4؍154) وغیرہ۔البتہ قرآنی تعویذکے بارے میں علما میں اختلاف ہے۔ شیخ الحدیث حافظ ثناء اللّٰہ مدنی ﷾ فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ میں لکھتے ہیں’’قرآنی آیات اور مسنون دعاؤں پر مشتمل تعویذ لکھنا جائز تو ہے ، لیکن راجح اور محقق بات یہی ہے کہ تعویذوں سے مطلقاً پرہیز کیا جائے۔‘‘ مزید یہ کہ ’’بہتر ہے کہ تعویذ کی جملہ اقسام سے احتراز کیا جائے۔‘‘(ص 580،578)
ذیل میں قرآنی تعویذوں کی حرمت کے حوالے سے ایک اہم عربی تحریر کا ترجمہ ہدیۂقارئین ہے۔ ح م

قرآنی آیات اور ماثور دعاؤں سے مرتب تعویذ کے بارے میں علما کی ایک جماعت کی رائے ہے کہ یہ ممنوع تعویذ میں سے نہیں، بلکہ ایسے تعویذ لٹکانا (پہننا) جائز ہے، ان علما میں سعید بن مسیّب، عطا،ابوجعفر باقر اور امام مالک ﷭ ہیں، نیز امام احمد کی ایک روایت اور ابن عبدالبر، بیہقی اور قرطبی کا یہی قول ہے، امام ابن تیمیہ، ابن قیم اور ابن حجر﷭ کا ظاہری قول یہی معلوم ہوتا ہے۔
لیکن اکثر صحابہ کرام﷢ اور ان کے بعد کے اہل علم کا خیال ہے کہ قرآن کریم اور ماثور دعاؤں کے تعویذ بھی لٹکانا (پہننا) جائز نہیں، ان علماء میں حضرات ابن مسعود، ابن عباس، حذیفہ، عقبہ بن عامر اور ابن حکیم ﷢ ہیں، نیز ابراہیم نخعی، امام احمد کی ایک روایت، ابن العربی، شیخ عبدالرحمٰن بن حسن آل شیخ، شیخ سلیمان بن عبداللّٰہ بن محمد بن عبدالوہاب، شیخ عبدالرحمٰن بن سعدی، حافظ حکمی اور حامد الفقی﷭ ہیں، نیز دورِحاضر کے علما میں سے شیخ البانی اور شیخ عبدالعزیز ابن باز ﷭ ہیں۔[1]
قرآن و حدیث کے تعویذوں کو جائز کہنے والوں کی دلیلوں کا خلاصہ یہ ہے:
a     پہلی دلیل، اللّٰہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
﴿ وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحْمَةٌ ﴾        (سورۃ بنی اسرائیل: 82)
’’ہم اس قرآن کے سلسلہ تنزیل میں وہ کچھ نازل کررہے ہیں جو ماننے والوں کے لیے شفاء اور رحمت ہے۔ ‘‘
b     دوسری دلیل حضرت عائشہ ؓ کا یہ قول ہے:
"إن التّمیمة ما علّق قبل البلاء، لا بعده"[2]
’’ممنوع تعویذ وہ ہے جو بلا نازل ہونے کے پہلے لٹکایا جائے، نہ کہ بلاء نازل ہونے کے بعد۔‘‘
c     تیسری دلیل حضرت عبداللّٰہ بن عمرو﷜ کا یہ عمل ہے کہ وہ اپنے نابالغ بچوں کے گلے میں دعائے فزع لٹکادیتے تھے اور وہ یہ ہے:
بِسْمِِ الله أَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ الله التَّامَّاتِ مِنْ غَضَبِهِ وَعِقَابِهِ وَشَرِّ عِبَادِهِ وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّیَاطِیْنِ وَأَنْ یَحْضُرُوْنِ[3]
’’بسم اللّٰہ، میں پناہ چاہتا ہوں اللّٰہ کے کلامِ تام کی اس کے غضب اور عقاب سے، اور اس کے بندوں کے شر سے، اور شیطانوں کے وسوسوں سے، اور ان کے میرے پاس آنے سے۔ ‘‘
یہ ہیں قرآن و حدیث کے تعویذوں کو جائز کہنے والوں کی دلیلیں۔
رہے دوسرے قول کے قائلین جو قرآن اور حدیث کی دعاؤں کے تعویذ بھی لٹکانے سے منع کرتے ہیں۔ اُنھیں فریق اول کے ان دلائل میں کوئی حجت نظر نہیں آتی، کیونکہ
a       آیت مجمل ہے (یعنی اس میں طریقہ شفا و علاج نہیں بتایا گیا ہے) بلکہ قرآن سے علاج کرنے کا طریقہ رسول اللّٰہﷺ نے بیان فرمایا ہے، اور وہ ہے: اس کی تلاوت کرنا اور اس کے احکام پر عمل کرنا، نیز رسول اللّٰہﷺ سے قرآن کے تعویذ لٹکانے کے بارے میں کچھ بھی وارد نہیں، بلکہ صحابہ کرام سے بھی اس سلسلہ میں کچھ وارد نہیں ہے۔
b     نیز حضرت عائشہ ؓ کا قول بھی مجمل ہے، اس میں قرآن کے تعویذ کی صراحت نہیں ہے، بلکہ صرف اتنا ذکر ہے کہ ’’ممنوع تعویذ وہ ہے جو بلا نازل ہونے سے پہلے لٹکایا جائے، نہ کہ بلا نازل ہونے کے بعد‘‘ چونکہ ان کا قول بھی محتمل یعنی غیر صریح ہے، لہٰذا میں مناسب نہیں سمجھتا کہ صرف اس روایت کی بنا پر ان کی طرف قرآن کے تعویذ کا جواز منسوب کردیا جائے۔
c     رہا عبداللّٰہ بن عمرو ﷜ سے مروی ان کا عمل! تو وہ محمد بن اسحٰق کے عنعنہ اور ان کے مدلس ہونے کی وجہ سے صحیح نہیں ہے۔ [4]
شیخ محمد حامدالفقی سیدنا عبداللّٰہ بن عمرو ﷜ کی اس روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’یہ روایت اس سند سے ضعیف ہے، نیز اس مفہوم پر دلالت بھی نہیں کرتی، اس لیے کہ اس روایت میں ہے کہ ’’عبداللّٰہ بن عمرو اپنے بڑے بچوں کو یہ دعا یاد کراتے تھے اور چھوٹے بچوں کے لیے تختی پر لکھ کر ان کے گلے میں لٹکا دیتے تھے۔‘‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تختی ان کے گلے میں دعا یاد کرنے کے لیے لٹکاتے تھے، نہ کہ تعویذ کی حیثیت سے۔ کیونکہ تعویذ کاغذ پر لکھا جاتا ہے نہ کہ تختی پر، نیز بڑے بچوں کویاد کرانا بھی اسی کی دلیل ہے۔‘‘[5]
اگر حقیقتِ امر یہی ہے تو فریق اول کا قول کسی قوی حجت پر مبنی نہیں۔
رہے فریق ثانی، یعنی قرآن و حدیث کے تعویذوں کو بھی منع کرنے والے، تو ان کی طرف سے مندرجہ ذیل دلیلیں پیش کی جاسکتی ہیں:
a       پہلی دلیل یہ ہے کہ تعویذوں کے بارے میں وارد شدہ ممانعت کا حکم عام ہے، جیسا کہ حرمت کے بہت سے دلائل ہیں، اور شریعت میں اس عموم کی کوئی تخصیص وارد نہیں ہوئی، لہٰذا یہ حکم اپنے عموم پر باقی ہے۔
b     دوسری دلیل یہ ہے کہ اگر یہ عمل مشروع ہوتا تو نبی کریمﷺ نے اسے بیان فرمایا ہوتا، جیسا کہ رُقیہ یعنی دعا پڑھ کر پھونکنے کا حکم بیان فرمایا اور شرکیہ کلام نہ ہونے کی صورت میں اس کی اجازت دی ہے، چنانچہ فرمایا:
«اعْرِضُوا عَلَىَّ رُقَاكُمْ لاَ بَأْسَ بِالرُّقَى مَا لَمْ يَكُنْ فِيهِ شِرْكٌ »[6]
’’تم لوگ مجھے اپنے جھاڑ پھونک کے کلمات سناؤ، اگر اس میں شرک نہ ہو تو کوئی مضائقہ نہیں۔‘‘
لیکن اس طرح کی بات نبیﷺ نے تعویذوں کے بارے میں نہیں کہی (لہٰذا معلوم ہوا کہ کسی بھی طرح کا تعویذ جائز نہیں)
شرکیہ جھاڑ پھونک سے بچنے کے لیے اہل علم نے چند شرطیں لگائی ہیں، چنانچہ حافظ ابن حجر ﷫ لکھتے ہیں کہ تمام اہل علم کا اجماع ہے کہ تین شرطوں کے ساتھ جھاڑ پھونک جائز ہے، پہلی یہ کہ جو کچھ پڑھا جائے، وہ اللّٰہ کا کلام یا اس کے نام و صفات ہوں، دوسری یہ کہ عربی زبان میں ہو، تیسری یہ کہ یہ عقیدہ ہو کہ یہ بذاتِ خود فائدہ نہیں دے سکتے جب تک اللّٰہ کا حکم نہیں ہوگا۔ (فتح الباری :10؍195)
c     تیسری دلیل صحابہ کرام﷢ کے وہ فتوے ہیں جو تعویذ کی ممانعت کے سلسلے میں گزرچکے ہیں اور جن کی طرف اس کے برعکس قول منسوب ہے وہ (روایت اور درایت دونوں اعتبار سے) صحیح نہیں ہے، کیونکہ صحابہ کرام رسول اللّٰہ ﷺ کے طریقہ کو دوسروں کی بنسبت زیادہ جانتے تھے، اسی طرح اکثر تابعین عظام بھی، چنانچہ ابراہیم نخعی نے عام لفظوں میں ارشاد فرمایا:
’’وہ (یعنی صحابہ کرام اور تابعین عظام) ہر طرح کے تعویذ مکروہ جانتے تھے، خواہ قرآن سے ہوں یا غیر قرآن سے۔‘‘[7]
شیخ عبدالرحمٰن بن حسن فرماتے ہیں:
’’ابراہیم نخعی کی مراد عبداللّٰہ بن مسعود ﷜کے تلامذہ ہیں، مثلاً: علقمہ، اسود، ابووائل، حارث بن سوید، عبیدہ سلمانی، مسروق، ربیع بن خیثم اور سوید بن غفلہ وغیرہم، یہ بزرگان سادات تابعین میں سے ہیں، اور ابراہیم نخعی ان بزرگوں کے اقوال بیان کرنے کے لیے یہی طریقہ اختیار کرتے، جیسا کہ حافظ عراقی نے اس کی وضاحت کی ہے۔‘‘[8]
d     چوتھی دلیل یہ ہے کہ فساد کا سدِباب شرعی طور پر واجب ہے، تاکہ شرکیہ تعویذ قرآنی تعویذوں کے ساتھ اس درجہ خلط ملط نہ ہوجائیں کہ شبہ کی وجہ سے شرکیہ تعویذوں سے بھی روکنا مشکل ہوجائے، شیخ احمد بن علی حکمی فرماتے ہیں:
’’بلاشبہ ان قرآنی تعویذوں کی ممانعت ہی غلط اعتقاد کو روکنے کے لیے زیادہ مؤثر ہے، خاص کر دورِ حاضر میں، کیونکہ صحابہ اور تابعین نے جب اپنے صاف ستھرے اور مقدس زمانے میں اسے مکروہ سمجھا جبکہ ایمان اُن کے دلوں میں پہاڑ کی مانند قائم تھا، تو اس پر فتن زمانہ میں ان تعویذوں کو مکروہ قرار دینا زیادہ بہتر اور واجب ہے، اور کیوں نہ ہو جبکہ تعویذ کا کاروبار کرنے والے اس رخصت کے چور دروازے سے محرمات تک پہنچ چکے ہیں اور قرآنی تعویذوں کو ان محرمات کا بہانہ اور ذریعہ بنا رکھا ہے، چنانچہ وہ تعویذوں کے اندر ایک آیت یا چھوٹی سی سورت یا صرف ’بسم اللّٰہ‘ وغیرہ لکھ دیتے ہیں، پھر اس کے نیچے شیطانی طلسمات بناتے ہیں جسے صرف وہی لوگ جان سکتے ہیں جو اُن کی کتابوں سے واقف ہیں۔نیز اس کے ذریعہ وہ لوگوں کے دلوں کو توکل علیٰ اللّٰہ سے پھیر کر ان لکھے ہوئے طلسمات سے جوڑ دیتے ہیں، بلکہ اکثر تعویذ والے عوام الناس کو ہراساں کردیتے ہیں، حالانکہ انھیں کوئی بیماری نہیں ہوتی۔
مثلاً: وہ شخص جو تعویذوں کا کاروبار کرتا ہے، اگر اسے معلوم ہوجائے کہ فلاں شخص اس کا مرید ہے تو وہ اس شخص کا مال کھانے کے لیے حیلے تلاش کرتے ہوئے اس سے کہتا ہے کہ دیکھو تمہارے اہل و عیال یا مال یا خود تمہارے اوپر مصیبت آنے والی ہے، یا یہ کہتا ہے کہ تم پر جنوں کا سایہ ہے، اور اس کے سامنے شیطانی وسوسہ سے متعلق کچھ باتیں بیان کرکے اس کو یقین دلانے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ اس کے مسئلے کو پوری طرح سمجھ چکا ہے، اسے اس سے بہت زیادہ ہمدردی ہے اور وہ اس کا خیرخواہ ہے۔ جب اس سادہ لوح شخص کے دل میں خوف و ہراس پوری طرح بیٹھ جاتا ہے تو وہ اپنے پروردگار سے منہ موڑ کر دل و جان سے اس کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے، اور اللّٰہ تعالیٰ کو چھوڑ کر اس کی پناہ میں آجاتا ہے، اور اس پر اعتماد و بھروسہ کرنے لگتا ہے، اور اس مکار سے پوچھ بیٹھتا ہے کہ اس مصیبت سے نجات کا راستہ کیا ہے؟ گویا نفع اور نقصان کا وہی مالک ہے۔ اب اس لٹیرے کی اُمیدیں پوری ہوتی نظر آتی ہیں، اور اس کی لالچ بھری نگاہ اس مال پر پڑتی ہے جو وہ آدمی خرچ کرسکتا ہے، اس لیے وہ کہتا ہے کہ اگر تم مجھے اتنا مال دے دو تو میں تمہارے لیے اتنا لمباچوڑاتعویذ لکھ کر دیتا ہوں، پھر وہ اس تعویذ کی خصوصیات بتاتا ہے اور ان امراض کی نشاندہی کرتا ہے جن کے لیے وہ تعویذ مفید ہے۔
کیا آپ ان حرکتوں کو اس اعتقاد کے باوجود شرکِ اصغر شمار کریں گے؟ نہیں، بلکہ یہ غیراللّٰہ کی تعظیم ہے، غیراللّٰہ پر بھروسہ کرنا اور غیراللّٰہ کی پناہ لینا ہے، بیوقوفوں اور نااہلوں کے فعل کا سہارا لینا ہے، اور دین سے خارج ہوجانے کا باعث ہے۔ شیطان اس قسم کے حیلوں پر شیطان نما انسان کی مدد کے بغیر قابو پاسکتا ہے؟
﴿قُلْ مَنْ يَّكْلَؤُكُمْ بِالَّيْلِ وَ النَّهَارِ مِنَ الرَّحْمٰنِ١ؕ بَلْ هُمْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّهِمْ مُّعْرِضُوْنَ﴾[9]
’’اے محمد(ﷺ) ان سے کہو: کون ہے جو رات یا دن کو تمھیں رحمن سے بچا سکتا ہے؟ بات یہ ہے کہ یہ اپنے رب سے منہ موڑ رہے ہیں۔‘‘
پھر وہ اس میں اپنے شیطانی طلسمات کے ساتھ کچھ قرآنی آیتیں بھی لکھتا ہے، اور پہننے والا ناپاکی کی حالت میں بھی اسے پہنے رہتا ہے، چھوٹی بڑی ہر طرح کی نجاست ہوتی رہتی ہے اور قرآن اس کے ساتھ ہوتا ہے، کسی بھی چیز سے اسے محفوظ رکھنے کی کوشش نہیں کرتا۔ اللّٰہ کی قسم! کسی دشمن اسلام نے کتاب اللّٰہ کی ایسی بے حرمتی نہیں کی ہوگی جس طرح اسلام کے دعوے دار ملحد کررہے ہیں۔
اللّٰہ کی قسم! قرآن نازل ہوا تلاوت کرنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے، اس کے احکام کو بجا لانے اور اس کے منہیات سے اجتناب کرنے کے لیے، اس کی باتوں کی تصدیق کرنے اور اس کے حدود میں رہنے کے لیے، اس کی مثالوں سے عبرت پکڑنے اور اس کے قصوں سے نصیحت حاصل کرنے کے لیے اور اس پر ایمان لانے کے لیے، کیونکہ پورا قرآن ہمارے پروردگار کی طرف سے ہے، لیکن ان تعویذوالوں نے ان سارے مقاصد کو بے معنی کردیا اور قرآن شریف کو پس پشت ڈال دیا۔ صرف قرآن کی شکل کو محفوظ رکھا ہے تاکہ اسے کھانے کا ذریعہ اور کمانے کا وسیلہ بنائے رکھیں، ایسے وسائل کی مانند جن سے حرام تک تو رسائی ہوسکتی ہے ،حلال تک نہیں۔
اگر کوئی بادشاہ یا امیر اپنے ماتحت کو یہ پیغام بھیجے کہ ایسا کرو، ایسا نہ کرو، اپنے ماتحتوں کو فلاں کام کرنے کا حکم دو اور فلاں کام سے روکو، وہ اس پیغام کو وصول کرکے نہ اسے پڑھے، نہ اس کے اوامر ونواہی میں غوروفکر کرے، اور نہ ہی اپنے ماتحتوں تک یہ پیغام پہنچائے جن تک پہنچانے کا اس میں حکم ہے، بلکہ اس پیغام کو وصول کرکے اپنی گردن میں لٹکالے، یا بازو میں باندھ لے اور اس میں موجود فرمان کو خاطر میں نہ لائے، تو کیا بادشاہ یا حاکم اس حرکت پر اسے سزا نہیں دے گا؟ اس کی گرفت نہیں کرے گا؟ جب ایک بادشاہ کی حکم عدولی کا یہ خمیازہ ہوسکتا ہے تو آسمانوں اور زمین کے اس جباروقہار کے نازل کردہ پیغام عظیم کے ساتھ اس ناروا سلوک کا کیا نتیجہ ہوگا جس کی آسمانوں اور زمین میں اعلیٰ مثال ہے، جس کے لیے دنیا و آخرت میں ساری تعریفیں ہیں، اور جس کی طرف سارے معاملات لوٹائے جاتے ہیں۔ لہٰذا صرف اسی کی عبادت کرو اور اسی پر بھروسہ کرو، وہ ہمارے لیے کافی ہے، اس کے علاوہ کوئی عبادت کا حق دار نہیں، اسی پر ہم نے بھروسہ کیا، اور وہی عرش کا مالک ہے۔‘‘[10]
e     پانچویں دلیل یہ ہے کہ قرآن شریف کا تعویذ لٹکانا قرآنِ شریف کی بے حرمتی کا باعث ہے، مثلاً: بیت الخلا وغیرہ میں اس تعویذ کے ساتھ داخل ہونے میں قرآن کی توہین ہے۔
f     چھٹی دلیل یہ ہے کہ ان لوگوں کا قرآن اُٹھائے پھرنا جو نہ اس کا معنی سمجھتے ہیں نہ ہی اس کی عزت کرتے ہیں، وہ لوگ اللّٰہ تعالیٰ کے اس فرمان عام ﴿كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ اَسْفَارًا١ؕ ﴾ کے تحت آجاتے ہیں (جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی مثال ان گدھوں کی ہے جو شریعت کی کتاب اٹھائے ہوئے ہیں، نہ اسے سمجھتے ہیں، نہ ہی اس پر عمل کرتے ہیں) کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ اس قرآنی تعویذ میں کیا ہے، نہ ہی اس کی عزت و توقیر کرنا جانتے ہیں، چنانچہ بسا اوقات اس قرآنی تعویذ پر نجاست بھی پڑ جاتی ہے، خاص کر اس وقت جب پہننے والا پاگل یا چھوٹا بچہ ہوتا ہے۔
g     تعویذ پہننے کا فتویٰ یقینی طور پر سورمعوذات [11]وغیرہ کے ذریعہ دعا کی سنت ترک کرا سکتا ہے، چنانچہ جو شخص پورا پورا قرآن ہی لٹکالے گا، وہ گمان کرسکتا ہے کہ اب سورمعوذات اور آیۃ الکرسی[12] وغیرہ پڑھنے کی کیا ضرورت ہے، جب پورا قرآن اپنے گلے میں لٹکا ہوا ہے۔
h     قرآن کا تعویذ لٹکانے کا فتویٰ جائز و ناجائز دونوں پہلو رکھتا ہے، اور جو فتویٰ یا معاملہ ایسا ہو فساد سے تحفظ کی غرض سے اس سے اجتناب کرنا ہی بہتر ہے۔ (واللّٰہ اعلم)
(دارالاندلس کی شائع کردہ ’تعویذ اور عقیدہ توحید‘ نامی کتابچہ کا ایک باب : ص97 تا 114)


[1]    ان علما کے اقوال و فتاوے مندرجہ ذیل کتابوں میں دیکھے جاسکتے ہیں: مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الطب:7؍374ومابعد، سنن بیہقی :9؍516ومابعد ، مستدرک حاکم :4؍216ومابعد، تیسیر العزیز الحمید ص 168،174؛ سلسلہ احادیثِ صحیحہ 1؍585؛ القول السدید :ص 38؛ معارج القبول:1؍382؛ فتاویٰ شیخ ابن باز :820
[2]    سنن بیہقی :9؍351؛ مستدرک حاکم :4؍217
[3]    مسند احمد :2؍181؛ مستدرک حاکم:1؍548؛ جامع ترمذی : 3528؛ اور ترمذی نے حسن کہا ہے۔ سنن ابی داؤد: 3893
[4]    سلسلہ احادیث صحیحہ :1؍585؛ النہج السدید :ص 61 ؛ صحیح ابوداؤد :2؍737
[5]   حاشیہ فتح المجید :ص 132
[6]    مسلم مع نووی، کتاب السلام، باب لاباس بالرقی مالم یکن فیہ شرک : 14؍187
[7]   مصنف ابن ابی شیبہ: 7؍374
[8]    فتح المجید :ص 138
[9]    سورۃ الانبیاء: 42
[10] معارج القبول شرح سلم الوصول از حافظ احمد حکمی: 1 ؍ 382
[11]          سور معوذات سے مراد سورۃ قل هو الله أحد، قل أعوذ برب الفلق اور قل أعوذ برب الناس ہیں، یہ تینوں سورتیں تعوذ کے لیے بے حد مفید ہیں، لیکن اُنھیں لکھ کر لٹکانے سے نہیں، بلکہ اس کے پڑھنے سے ہر طرح کے رنج و غم اور آفت و بلا میں راحت ملتی ہے۔ چنانچہ نسائی شریف میں عبداللّٰہ بن مسعود ﷜ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ہم گھٹا ٹوپ اندھیرے میں گھر گئے، اور ہلکی ہلکی بارش بھی ہورہی تھی، ہم نماز کے لیے نبیﷺ کا انتظار کررہے تھے، آپ تشریف لائے اور نماز پڑھائی، نماز کے بعد آپ نے فرمایا: کہو، میں نے کہا: کیا کہوں؟ آپ نے فرمایا:’’قل هو الله أحد، قل أعوذ برب الفلق، قل أعوذ برب الناس صبح و شام تین تین مرتبہ کہو، تمھیں ہرچیز سے کفایت کرے گی ۔‘‘ (سنن نسائی:8؍ 250کتاب الاستعاذۃ)
      عقبہ بن عامر ﷜کہتے ہیں کہ میں رسول اللّٰہﷺکے ساتھ مقام حجفہ اور ابوا٫ کے درمیان چل رہا تھا کہ بہت تیز آندھی چلنے لگی، اور رات بے حد اندھیری تھی تو رسولﷺ قل أعوذ برب الفلق اور قل أعوذ برب الناس پڑھنے لگے، اور فرمایا: عقبہ! ان دونوں سورتوں کو پڑھا کرو، ان سا تعوذ کسی نے نہیں پڑھا۔ (سنن ابوداؤد : 1463)
حضرت عائشہ ؓ سے بخاری شریف میں روایت ہے کہ نبیﷺ کا معمول تھا کہ آپ ہر رات جب بستر پر آتے تو اپنی دونوں ہتھیلیوں پر قل هو الله أحد، قل أعوذ برب الفلق اور قل أعوذ برب الناس پڑھ کر پھونکتے، پھر اپنے جسم پر جہاں تک ہاتھ پہنچتا پھیرتے تھے، اسطرح تین مرتبہ کرتے۔ (صحیح بخاری :11؍107؛ صحیح مسلم :2192)
          حضرت عقبہ بن عامر﷜بیان کرتے ہیں کہ رسول اللّٰہﷺنے فرمایا: ’’ہرنماز کے بعد معوذات کی سورتیں پڑھا کرو۔‘‘ (سنن نسائی :3؍68؛ جامع ترمذی: 8؍215؛ سنن ابو داؤد: 2؍121،حدیث نمبر 1523)
          اس کے علاوہ بہت ساری حدیثیں سور معوذات کےدعا کے لیے مفید ہونے کے بارے میں میں وارد ہیں۔
[12]         آیت الکرسی: سورۃ البقرۃ کی آیت 255 کو آیت الکرسی کہا جاتا ہے ۔ سب سے عظیم الشان آیت یہی آیت الکرسی ہے۔
شیطان کے شر سے بچنے کے لیے یہ آیت اکسیر ہے، چنانچہ حضرت ابوہریرہ ﷜ کا بیان ہے کہ وہ صدقہ کے مال کی حفاظت پر مامور تھے کہ ایک دن چور چوری کرنے کے لیے تین رات مسلسل آیا اور ہر رات پکڑا گیا، تیسری رات اسے حضرت ابوہریرہ﷜ نے رسول اللّٰہﷺ کے پاس لے جانے کی دھمکی دی تو اس نے کہا کہ مجھے چھوڑ دو میں تمھیں چند کلمات بتادیتا ہوں جن سے اللّٰہ تمھیں فائدہ دے گا، چنانچہ اس نے پوری آیت الکرسی پڑھ کر بتائی، اور کہا کہ یہ آیت سوتے وقت پڑھ لیا کرو تو تمہاری نگرانی کے لیے ایک محافظ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہوجائے گا، اور صبح تک شیطان تمہارے قریب نہیں آسکتا۔ صبح ہوئی تو حضرت ابوہریرہ﷜ نے یہ ماجرا رسول اللّٰہ سے بیان کیا تو آپﷺ نے فرمایا: اس نے یہ سچ کہا، لیکن ہے وہ بڑا جھوٹا، وہ شیطان ہے۔ (صحیح بخاری : 2311)
تعوذ کے لیے اس کے علاوہ اور بہت سی آیتوں اور سورتوں کے پڑھنے کا حکم حدیث شریف میں موجود ہے، جن میں سے سورہ فاتحہ ہر مصیبت و بلا سے رہائی اور فلاح و کامرانی کا سرچشمہ ہے، جیسا کہ امام بیہقی نے’شعب الایمان‘ میں اور سعید بن منصور نے اپنی سنن میں ذکر کیا ہے کہ رسول اللّٰہﷺ نے فرمایا:«الفاتحة شفا من کل سقم» یعنی سورہ فاتحہ ہر بیماری کا علاج ہے۔ (فتح القدیر از امام شوکانی :1؍16)
چنانچہ صحیح بخاری وغیرہ میں مشہور واقعہ حضرت ابوسعید خدری ﷜ کا ہے کہ انھوں نے ایک گاؤں کے ایک رئیس کو جسے سانپ نے ڈس لیا تھا سورۂ فاتحہ پڑھ کر جھاڑا اور وہ شفایاب ہوگیا، نبیﷺ نے ان کے اس عمل کو صحیح قراردیا، اور اس کی اُجرت سے خود بھی کھایا۔ (صحیح بخاری : 2376؛ صحیح مسلم : 2201)
تعوذ کا یہی مسنون طریقہ ہے، اگر تعویذ لٹکانے کو جائز کردیا جائے تو یہ مسنون طریقۂ تعوذ بالکل چھوٹ جائے گا اور مسلمان قرآن سے بالکل بے تعلق و بے نیاز ہوجائیں گے۔(مترجم)