آیات قرآنیہ کے نام اور ان کے بعض احکام

قرآن مجىد كى سورتوں کے ناموں كو اکثر لوگ جانتے ہیں مگر کچھ ایسی آیات بھی ہیں جن کے مفسرین نے نام رکھے ہیں اور وہ تفسیر کرتے ہوئے ان کے باقاعدہ نام لیتے ہیں۔ اور آىات كے نام ركھے بھى جاسكتے ہىں جىسا كہ بعض آیات کے نام نبی کریمﷺ اور صحابہ کرام ﷢ سے بھی ثابت ہیں۔عربى تفاسىر كے مطالعے كے دوران مىں ان آىات كا نام لىا جاتا ہے مگر ان كا علم نہ ہونے كى وجہ سے فہم مىں خلا رہ جاتا ہے۔ اسی ضرورت کے تحت وہ آیات پیش کی جاتی ہیں جن کے نام مفسرین کے ہاں متداول ہیں اور ساتھ ہی ان آیات کے سببِ نزول ،مختصر احکام اور نکات درج کیے جاتے ہیں۔ ان آیات کی ترتیب وہی رکھی گئی ہے جو قرآنِ مجید کی ہے۔
ابتدائی طور پر ایسی 13 آیات سامنے آئی ہیں، جو یہ ہیں:
1۔ آىۃ الخلع                                                  2۔ آیۃ الطلاق                     3۔ آیۃ الکرسی
4۔ آیۃ الربیٰ                                                  5۔ آیۃ المداینہ                    6۔ آیات المیراث
7۔ آیۃ الکلالۃ؍آىۃ الصىف                     8۔ آیۃ السیف                    9۔ آیۃ القتال
10۔ السبع المثانی                                                         11۔ آیۃ التطہىر                                12۔ آیۃ التخییر                               13۔ آیۃ الحجاب                               
1۔ آیۃ الخلع
سورۂ بقرہ كى آىت:229﴿ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيْمَا افْتَدَتْ بِهٖ ﴾’’ان دونوں پر اس بات مىں گناہ نہىں ہے كہ عورت (علىحدگى كے) بدلے مىں (حق مہر واپس) دے دے۔‘‘ آىت خلع كہلاتى ہے۔
خلع كىا ہے؟ زوجىن مىں نباہ نہ ہوسكے اور خاوند عورت كو علىحدہ كرنا چاہے تو ىہ عمل طلاق كہلاتا ہے اور بىوى علىحدہ ہونا چاہے تو وہ عدالت كے ذرىعےاپنا حق استعمال كركے خاوند سے علىحدہ ہوسكتى ہے۔ عورت مرد كى طرح خود ہى فىصلہ نہىں كرسكتى اور ساتھ ہى عورت نے خاوند سے جو حق مہر وغىرہ لىا ہوتا ہے وہ واپس كرنا پڑتا ہے۔ عورت كے اس حق كو شرىعت مىں ’خلع‘ كا نام دىا جاتا ہے۔ اس كى تفصىلات بھى ہىں جىسا كہ اسى شمارے میں اس حوالے تفصیلی مضمون موجود ہے۔
خلع دراصل عورت كے پاس اپنے ناپسندىدہ ىا حق نہ دىنے والے خاوند سے علىحدہ ہونے كا اىك شرعى جواز ہےجسے وہ ضرورت پڑنے پر استعمال كرسكتى ہے۔ مگر اسے عدالت كى طرف رجوع كرنا پڑے گا۔ اسے علىحدگى كا كلى اختىار نہىں دىا گىا۔ اس مىں بھى حكمت ہے كىونكہ عورت كى طبىعت مىں حوصلہ كم اور جذباتىت اور اثرپذىرى زىادہ ہے۔ ان دونوں صورتوں مىں آئے روز اسے ىہ اقدام كرنا پڑجاتا۔
2۔ آیۃ الطّلاق
سورۂ بقرہ كى آىت: 232﴿ وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْهُنَّ ﴾’’اور جب تم عورتوں كو طلاق دے دو، پھر وہ عدت مكمل كرلىں تو تم انھىں نہ روكو۔‘‘ ىہ آىۃ الطلاق كہلاتى ہے۔ اس آىت كے مفسرىن كے ہاں آىۃ الطلاق ہونے كا ثبوت ىہ ہے كہ سورۂ بقرہ كى آىت نمبر 233 جس مىں ماؤں كو اپنے بچوں كو دودھ پلانے كا ذكر ہے اس كے متعلق اكثر مفسرىن نے ىہ بات لكھى ہے كہ آىت 233 مىں ﴿ وَ الْوَالِدٰتُ ﴾سے بچوں كى وہ مائیں مراد ہىں جنھىں طلاق مل چكى ہو اور اس كا ثبوت ىہ ہے كہ اللّٰہ تعالىٰ نے ’آىۃ الطلاق‘ كے بعد اس كا ذكر فرماىا ہے۔
آىت: 232 كو آىۃ الطلاق شاىد اس لىے بھى كہا جاتا ہے كہ ىہ حتمى طلاق پر دلالت كرتى ہے، جبكہ ’الطلاق مرّتان‘ والى آىت: 229 مىں رجعى طلاق كا تذكرہ ہے۔
بہرحال آىۃ الطلاق كا مدعا ىہ ہے كہ اگر اىك ىا دو طلاقىں دىنے كے بعد عورت كى طلاقِ عدت گزر جائے تو ىہ جوڑا نئے نكاح اور حق مہر كے ساتھ دوبارہ جڑ سكتا ہے۔ اور اس آىت مىں ﴿فَلَا تَعْضُلُوْهُنَّ﴾’’تو تم انھىں نہ روكو۔‘‘ كے الفاظ مفسرىن اور فقہا كے ہاں محل اختلاف بنے ہوئے ہىں كہ ىہاں مخاطب كون ہے۔ عورت؍لڑكى كے ورثا ىا خاوند، بعض مفسرىن نے دونوں مراد لىے ہىں اور مفہوم ىہ مراد لىا ہے كہ عورت سابقہ خاوند سے نكاح جدىد كرنا چاہے ىا كسى اور مرد سے نكاح كرنا چاہے تو نہ اولىا روكىں اور نہ ہى سابقہ خاوند۔[1]
اور بعض نے خاوند مراد لىے ہىں۔ اس صورت مىں مفہوم ىہ ہوگا كہ جاہلىت مىں طلاق دىنے اور عدت گزر جانے كے بعد بھى سابقہ خاوند سابقہ بىوىوں كو روك ركھتے تھے كہ وہ اپنے پسندىدہ مرد سے نكاح نہ كرپائىں۔ مگر بدىہى طور پر جو مفہوم سمجھ آتا ہے وہ ىہى ہے كہ لڑكى كے اولىا كو روكا جارہا ہے كہ وہ سابقہ خاوند سے سمجھوتے پر عورتوں كو نہ روكىں۔ آىت كا سببِ نزول بھى اس كى تائىد كرتا ہے جو آگے آرہا ہے۔
دراصل مفسرىن اور فقہا كے فہم كا ىہ فرق اىك بہت ہى بڑے اور اہم فىصلے كا سبب ہے۔ وہ ىہ ہے كہ اس آىت سے لڑكى كے ولى كى حىثىت واضح ہوتى ہے، اس صورت مىں جب اس آىت كے مخاطب لڑكى كے اولىا ہوں۔ اگر ان كى حىثىت ہى نہىں تو پھر انھىں روكا ہى نہ جاتا اور لڑكى آزاد ہوتى۔ اور جو مفسرىن ىا فقہا اس آىت سے عمومى مخاطبىن ىا خاوند مراد لىتے ہىں تو دراصل وہ لڑكى كے ولى كى حىثىت ختم كرنا چاہتے ہىں۔ مگر حدىثِ مباركہ سے ان كى حىثىت كو تسلىم كىے بغىر چارہ نہىں ہے۔
سبب نزول: امام بخارى﷫ اس آىت كے تحت حدىث لائے ہىں كہ سىدنا معقل بن ىسار﷜ كى بہن كو ان كے خاوند نے طلاق دے دى اور اىك طلاق كے بعد اسى حال مىں ركھا حتى كہ عدت گزر گئى تو خاوند نے انھىں پىغام نكاح بھىج دىا مگر سىدنا معقل بن ىسار﷜ نے اس كا انكار كىا تو ىہ آىتِ مباركہ﴿فَلَا تَعْضُلُوْهُنَّ اَنْ يَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَهُنَّ ﴾ نازل ہو گئى۔ [2]
دوسرى رواىت مىں مزىد وضاحت كے ساتھ معقل﷜ كے ىہ الفاظ بھی منقول ہىں كہ
’’اے اللّٰہ كے رسول! مىں ابھى ان سے بىاہ دىتا ہوں۔‘‘[3]
3۔ آیۃ الکرسی
قرآنِ مجید کی اس آیت (سورۃ البقرۃ: 255)میں اللّٰہ تعالیٰ کی کرسی کا ذکر ہے، اس لیے اس آیت کو ’آیۃ الکرسی‘ کہتے ہیں۔ جہاں تک اللّٰہ تعالیٰ کی کرسی کا تعلق ہے تو اس کی وضاحت حدیثِ مبارکہ میں ایسے آئی ہے:
«مَا السَّمَوَاتُ السَّبْعُ فِي الْكُرْسِيِّ إِلَّا كَحَلْقَةٍ مُلْقَاةٍ فِيْ أَرْضٍ فُلَاةٍ، وَفَضْلُ الْعَرْشِ عَلَى الْكُرْسِيِّ كَفَضْلِ الْفُلَاةِ عَلَى تِلْكَ الْحَلْقَةِ»[4]
’’ سات آسمان اللّٰہ کی کرسی کے مقابلے میں ایسے ہیں جسے وسیع وعریض زمین میں ایک رِنگ (چھلا) پڑا ہو اور عرش کی فضیلت (بڑھائی) کرسی پر ایسے ہے جیسے وسیع وعریض زمین کو اس رنگ پر ہے۔‘‘
علامہ البانی﷫ نے لکھا ہے کہ ’’ کرسی کےبارے میں اس کے سوا کوئی بھی حدیث صحیح نہیں ہے اور تمام مخلوقات میں سے عرش الٰہی کے بعد سب سے بڑی مخلوق یہی کرسی ہے۔‘‘[5]
حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ ’’کرسی اللّٰہ تعالیٰ کے مبارک قدموں کے رکھنے کی جگہ ہے۔‘‘[6] مگر یہ حدیث مرفوعاً ثابت نہیں ، البتہ سیدنا ابن عباس﷜ سے صحیح سند سے یہ حقیقت ثابت ہے۔ لہٰذا یہ حکماً مرفوع ہی کے حکم میں ہے۔[7]
اس کا یہ نام حدیث سے ثابت ہے۔ ایک دن رسول اللّٰہﷺ نے سیدنا اُبی بن کعب ﷜ سے پوچھا: قرآن مجید کی سب سے عظمت والی آیت کون سی ہے؟ ابی ﷜ کہنے لگے: اللّٰہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷤نے پھر سوال کیا تو سیدنا اُبی عرض کرنے لگے: آیۃ الکرسی۔ آپﷺ نے فرمایا:«وَاللهِ لِیَهْنِكَ الْعِلْمُ أَبَا الْـمُنْذَرِ!» [8]
’’اللّٰہ کی قسم! ابومنذر! تمھیں علم مبارک ہو۔‘‘
آیۃ الکرسی کی فضیلت میں آپ علیہ السلام نےیہ بھی فرمایا:

«مَنْ قَرَأَ آیَةَ الکُرْسِیِّ فِي دُبُرِ کُلِّ صَلَاةٍ لَمْ یَحُلْ بَیْنَهُ وَبَیْنَ دُخُولِ الْجَنَّةِ إلَّا الموتُ»[9]
’’جو فرض نماز کے بعد آیۃ الکرسی پڑھتا ہے، اس کے اور جنت کے درمیان بس موت ہی حائل ہے۔‘‘
آیۃ الکرسی کو حفاظت کے طور پر بھی پڑھنے کی ترغیب نبوی ہے۔ [10] رات كے علاوه صبح كى وقت پڑھنے کا بھی حکم ہے۔ ارشادِ نبویﷺ ہے:«اِقْرَأْهَا كُلَّ صَبَاحٍ وَمَسَاءٍ»[11]
’’اسے ہر صبح اور ہر شام پڑھا کرو۔‘‘
4۔ آیات الربا
سود کی آیات (سورۃ البقرۃ آیت 275تا 281) سورۂ بقرہ مدنی دور کے آغاز میں نازل ہوئی تھی، اس لیے اس میں یہود کا تفصیلی ذکر ہے اور اُنھوں نے جو سودی کاروبار اور لین دین روا رکھے تھے، مسلم معاشرے کو اس سے بچانا مقصود تھا۔ حقیقی مسلم معاشرہ وہی ہوسکتا ہے جو سود کی تمام صورتوں اور دیگر محارم سےپاک ہو۔ سود سے متعلقہ آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ سود ایک ظلم ہے۔ اس کا مرتکب روزِقیامت بدحواس حالت میں اُٹھے گا۔ سود سے بظاہر مال بڑھتا ہے مگر اس میں برکت نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس اللّٰہ تعالیٰ صدقات کو بڑھاتا ہے۔ سود کا جو لین دین ہوچکا سو ہوچکا، اس سے توبہ کرکے آئندہ نہ کرنے کا عزم کیا جائے۔ اور اگر اب بھی کوئی نہ رکے تو وہ پھر اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے اعلانِ جنگ ہی سمجھے۔
5۔ آیۃ المداینہ
سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 282 آیۃ المُداینہ کہلاتی ہے، یعنی آپس میں لین دین کی آیت۔ یہ قرآنِ مجید کی طویل ترین آیت ہے اور سود کی آیات سے متصل اس کا ذکر ہے۔ یعنی مسلم معاشرے کو سود کی جملہ صورتوں سے بچ کر قرض کی صورتوں کو اختیار کرنا چاہیے۔ اور قرض کے لین دین کو لکھ لینا چاہیے اور اس پر گواہ بھی بنانے چاہئیں۔ جنھیں لکھنا آتا ہے، وہ انکار نہ کریں اور نہ ہی کسی قسم کی کمی بیشی کریں۔ چھوٹی یا بڑی رقم کا تبادلہ کرتے ہوئےلکھ لیا جائے۔ نبی کریمﷺ نےتو یہاں تک وعید بیان فرمائی ہے کہ ’’جس شخص کا کسی کے ذمّے مال ہو مگر وہ اس پر گواہ نہ بنائے، اس کی دعا قبول نہیں ہوتی۔‘‘[12] ہاں اگر آمنے سامنے لین دین ہورہا ہے جیسے دکانوں پر ایک دوسرےسے وقتی لین دین ہوتا ہے تو اس کو نہ بھی لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں۔
لیکن قرض کے معاملات کو اس لیے لکھنے اور گواہ بنانے کا حکم ہے کہ انسان بھول سکتا ہے اور بھولنے سے شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں اور آپس میں دوریاں اور پھر جھگڑے پیدا ہوتے ہیں۔ جبکہ ہمارا دین ہمیں اخوت و محبت کا درس دیتا ہے۔
6۔ آیات المیراث
سورۂ نسا٫ کی آیات 11تا12 آیاتِ میراث کہلاتی ہیں۔ میراث کا لفظ وراثت سے ہے۔ یعنی وہ آیات جن میں وراثت کے احکام بیان ہوئے ہیں۔ یہ قرآن مجید کی 2 آیات ہیں ، یعنی 11 اور 12 اور ایک آیۃ الکلالہ، جو آگے آرہی ہے، ان تین آیات میں احکامِ وراثت کو سمو دیا گیا ہے۔ احکام وراثت کا خلاصہ یہ ہے: جب کوئی بھی شخص اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے اس کا چھوڑا ہوا مال و جائیداد وراثت کہلاتی ہے۔ ایک دن کا بچہ ہی کیوں نہ ہو، اس کی بھی وراثت ہوتی ہے۔ وراثت ملنے میں بنیادی شرط یہ ہے کہ وراثت کےمستحق لوگ اس وقت زندہ ہوں جب وہ شخص فوت ہو جس کے وہ وارث بن رہے ہوں۔ بننے والے وارث اگر پہلے ہی فوت ہوجائیں تو وہ وارث نہیں ہوں گے اور نہ ان کی اولاد۔ وراثت کا تعلق تین وجوہات کی بنا پر ہوتا ہے:            1۔ نسب               2۔ ازدواجی تعلق              اور 3۔ وَلا٫
نسب اور میاں بیوی کی رشتہ داری تو واضح ہے مگر وَلَاء غلامی کی نسبت تھی جو اپنے مالک کی طرف ہوتی تھی، یعنی غلام فوت ہوا ہے تو اس کا مال اس کے مالک کو ملے گا۔ اسے نسبِ ولا کہتے ہیں۔
وراثت لینے والے بھی تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں:
1۔      اصحابُ الفروض: وراثت کے وہ حق دار جن کے حصّے شریعت میں مقرر ہیں جیسے خاوند، بیوی
2۔      عصبہ: وہ وارثان جو اصحاب الفروض سے بچ جانے والا مال یا جائیداد عصبہ ہونے کی حیثیت سے لیتے ہیں جیسے بیٹا۔
3۔      اولواالارحام: پہلی دونوں صورتوں میں سے کوئی نہ ہو تو پھر دیگر رشتہ داروں کی باری آتی ہے اور وہ اولواالارحام کہلاتے ہیں۔

اسی طرح وراثت تقسیم کرنے کی بھی ایک ترتیب مقرر ہے

1۔        سب سے پہلے وراثت میں سے کفن دفن کا انتظام کیا جائے ، اس صورت میں جب کسی اور طرف سے یہ انتظام نہ ہوسکے۔
2۔      فوت شدہ کا مکمل قرض اُتارا جائے گا۔
3۔      اگر میت نے ایک تہائی (3؍1) یا اس سے کم کی وصیت کی ہو تو اس کی وصیت کے مطابق مال تقسیم ہوگا۔ ایک تہائی سے زیادہ وصیت قبول نہ ہوگی۔
4۔      اب اس کی وراثت ورثا میں تقسیم ہوگی۔
آیۃ المیراث کا سببِ نزول یوں ہے کہ سیدنا جابر بن عبداللّٰہ ﷜کہتے ہیں کہ سعد بن ربیع ﷜ کی اہلیہ آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کرنے لگیں: اللّٰہ کے رسول! یہ دونوں سعد ﷜کی بیٹیاں ہیں۔ ان کے والد آپ کے ساتھ غزوہ اُحد میں شریک تھے اور وہ شہید ہوگئے تھے۔ ان دونوں کے چچا نے ان کے مال پر قبضہ کرلیا ہے اور ان دونوں کے لیے کچھ نہیں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح نہیں ہوسکے گا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپﷺ نے فرمایا: «یَقْضِي اللهُ فِي ذٰلِكَ» ’’اللّٰہ اس کے بارے میں فیصلہ فرمائے گا۔‘‘ تو پھر آیۃ المیراث نازل ہوگئی۔ آپﷺ نے سعد ﷜ کے بھائی کو بلوایا اور ان سے کہا: سعد ﷜ کی بیٹیوں کو دو تہائی (3؍2) اور ان کی والدہ کو آٹھواں حصہ (8؍1) دو اور باقی تم لے لو۔گویا آیۃ المیراث 3 ہجری میں غزوۂ احد کے بعد نازل ہوئی۔
7۔ آیۃ الکلالہ؍آیۃ الصیف
سورہ نسا٫ کی آخری آیت(آیت: 176) یعنی آیۃ الکلالہ کو آیۃ الصیف بھی کہتے ہیں۔ ’الصیف‘ گرمیوں کے موسم کو کہتے ہیں۔ یہ آیت گرمیوں کے ایک موسم میں اُتری تھی اس وجہ سے اس کا نام ہی آیۃ الصیف پڑ گیا ۔ سیدنا برا٫﷜ کہتے ہیں کہ سب سے آخر میں نازل ہونے والی آیت یہی ہے۔ [13]
’کلالہ ‘ کی تفسیر میں ائمہ و علماکے مختلف اقوال ہیں۔ اکثر ائمہ نے یہی بتایا ہے کہ ایسا فوت شدہ شخص جس کی نہ اولاد ہو اور نہ والد، وہ کلالہ کہلائے گا۔ اس آیت کا نام’آیۃ الصیف‘ زبانِ نبوت سے ثابت ہے۔ جیسا کہ سیدنا عمر﷜کہتے ہیں کہ میں نے کسی اور مسئلے میں آپﷺسے اتنے سوال نہیں کیے جتنے میں نے کلالہ کے بارے میں کیے حتی کہ آپ ﷤ نے اپنی انگلی مبارک میرے سینے پر ركھتے ہوئے فرمایا: «یَکْفِیكَ آیَةُ الصَّیْفِ الَّتِي فِي آخِرِ سُورَةِ النِّسَاء» [14]
’’تمھیں آیۃ الصیف ہی کافی ہے جو سورۂنسا٫ کے آخر میں ہے۔‘‘
آیۃ الصیف کے نزول کے بارے میں بھی سیدنا جابر ﷜ سے مروی ہے کہ
’’میں بیمار اور بے ہوشی کے عالم میں تھا، نبیﷺمیرے ہاں تشریف لائے۔ آپ نے وضو کیا اور مجھ پر پانی بہایا تو مجھے ہوش آئی۔ میں نے عرض کی کہ میں حالتِ کلالہ میں ہوں تو میری وراثت کیسے تقسیم ہوگی۔ تو اللّٰہ تعالیٰ نے آیۃ الفرائض (آیۃ الصیف) اُتاردی۔‘‘[15]
اس حدیث میں اگرچہ نام ’آیۃ الفرائض‘ کا لیا گیا ہے مگر مسئلے کا سیاق یعنی کلالہ کی حالت بتارہی ہے کہ اس سے مراد یہی آیتِ کلالہ ہی ہے۔ جیسا کہ امام ابن کثیر﷫نے کہا ہے: ’’ظاہر بات یہی ہے کہ سیدنا جابر ﷜ کی مذکورہ حدیث سورۂ نسا٫ کی آخری آیت کے سببِ نزول کے بارے میں ہے۔‘‘ [16]
8۔ آیۃ السیف
سورۂ توبہ کی آیت نمبر5﴿ فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُوْهُمْ وَ خُذُوْهُمْ وَ احْصُرُوْهُمْ وَ اقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ١ۚ فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَلُّوْا سَبِيْلَهُمْ١ؕ﴾ [17]
’’تو جب حرمت والے مہینے گزرجائیں تو ان مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو اور انھیں پکڑو اور اُنھیں گھیرو اور ان کے لیے ہرگھات کی جگہ بیٹھو۔ پھر اگر وہ توبہ کریں اور نماز قائم کریں تو اُن کا راستہ چھوڑدو۔‘‘
امام ابن کثیر ﷫ لکھتے ہیں: ’’اور یہی آیتِ کریمہ ہی’آیتُ السیف‘ ہے۔ ضحاک بن مزاحم ﷫ کہتے ہیں کہ اس آیت نے نبیﷺ کے اور مشرکین میں تمام معاہدوں کو منسوخ کردیا۔‘‘ گویا کہ عہدشکنی کرنے والے مشرکوں سے معاہدہ باقی نہ رہا اور ایسے مشرکوں کا فیصلہ اب تلوار کرے گی۔ ’السیف‘ تلوار کو کہتے ہیں اور آیۃ السیف کا مطلب ہے : تلوار والی آیت۔ یہ تلوار ہر غیرمسلم کے خلاف نہیں جیسا کہ مستشرقین باور کراتے ہیں بلکہ عہد شکنی کرنے والے مشرکوں کے خلاف اس کا استعمال جائز ٹھہرتا ہے۔
سورتِ برا٫ت سب سے آخر میں نازل ہوئی جیساکہ اس کی صراحت سیدنا برا٫ بن عازب ﷜ نے کی ہے۔[18] دراصل یہ سورت صلح حدیبیہ میں طے کیے گئے فیصلوں کی عہدشکنی کے جواب میں نازل ہوئی۔ امام ابن کثیر﷫ نے لکھا ہے کہ اس سورت کی ابتدائی آیات تبوک سے واپسی پر نازل ہوئیں جب سیدنا ابوبکر ﷜ کو امیر حج بناکر بھیجا گیا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ سورت 9ہجری میں نازل ہوئی۔ اور سیدنا برا٫ ﷜نے جو صراحت کی ہے کہ یہ سورت سب سے آخر میں نازل ہوئی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے بعد کوئی مکمل سورت نازل نہیں ہوئی،البتہ آیات نازل ہوتی رہیں۔
آیۃ السیف کا مضمون یہ ہے کہ مشرکین اگر عہدشکنی کریں تو پھر ان کے خلاف اقدام کیا جائے۔ حرمت والے مہینوں میں خود پیش قدمی سے بچا جائے مگر دشمن کی طرف سے شرارت ہو تو پھر ﴿اَلشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ ﴾ [19] ’’حرمت والا مہینہ حرمت والے مہینے کے بدلے ہے۔‘‘
9۔ آیۃ القتال
آیۃ القتال کے بارے میں اکثر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ جن جن آیات میں قتال کا ذکر ہے، وہ سب ہی آیات القتال ہیں۔ حتی کہ راقم نے عہدِحاضر کے مفسرین حافظ صلاح الدین یوسف ﷾ اور حافظ عبدالسلام بھٹوی ﷾ سے رابطہ کیا تو اُنھوں نے بھی یہی جواب دیا۔ بعض نے آیۃ السیف، جو گزر چکی ہے، کو بھی آیۃ القتال قرار دیا ہے۔ مگر جب ہم عربی تفاسیر میں کسی آیت کے بارے میں پڑھتے ہیں کہ فلاں حکم یا آیت کو ’آیۃ القتال‘ نے منسوخ کردیا ہے تو یہی راجح نظر آتا ہے کہ یہ کوئی خاص آیت ہے۔ اور راقم کی تحقیق، جس کی بنیاد قرائن وشواہد ہیں، کے مطابق سورۂ توبہ کی آیت: 29 ہی کو بعض مفسرین نے آیۃ القتال قراردیا ہے۔ وہ آیت یہ ہے:
﴿قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ لَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَ لَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ لَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَّدٍ وَّ هُمْ صٰغِرُوْنَ﴾[20]
’’ان لوگوں سے قتال کرو جو اللّٰہ پر اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور نہ اللّٰہ اور اس کے رسول کے حرام کردہ کو حرام سمجھتےہیں اور وہ دین حق اختیار نہیں کرتے ،ان میں سے جو کتاب دیے گئے یہاں تک کہ وہ ہاتھ سے جزیہ دیں اور وہ حقیر ہوں۔‘‘
اس میں یہودونصاریٰ سے جنگ کا حکم ہے اور ان کی ذلت کا اظہار ہے۔ امام ابن کثیر﷫نے لکھا ہے اسی آیت کے پیش نظر غزوۂ تبوک کی تیاری کی گئی۔
10۔ آیات السبع المثانی
سورۂ فاتحہ کا نام السبع المثانی بھی ہے۔ ویسے تو اس کا تعلق ہمارے موضوع سے نہیں ہے کیونکہ ہم آیات کے بارے میں بات کررہے ہیں۔ سورۂ فاتحہ کو اس لیے یہاں شامل کیا ہے کہ یہ السبع المثاني ’سات بار بار دہرائی جانے والی آیات‘سے بھی موسوم ہے۔ اور یہ نام سورۂ حجر میں ہے، اس لیے ترتیب کے لحاظ سے اسے یہاں ذکر کیا گیا ہے۔
سورۂ فاتحہ عہد مکی ہی میں نازل ہوچکی تھی۔ اس کی جامعیت کے پیش نظر اسے ہماری ہر نماز میں شامل کیا گیا۔ اس کی جامعیت یہ ہے کہ قرآن مجید میں جو بھی اہم مضامین بیان ہوئے ہیں، مثلاً: توحید، صفات، ہدایت، آخرت، انعام یافتگان اور سزایافتگان کا تذکرہ اور دیگر موضوعات۔ یہ سب کسی نہ کسی طرح اس سورت میں موجود ہیں۔
کسی بھی تکلیف میں سات مرتبہ اس کا دم کرنا مسنون ہے جیسا کہ صحیحین اور دیگر کتبِ احادیث کی روایت ہے کہ سیدنا ابوسعید خدری ﷜نے بچھو كے ڈسے ایک سردار کو سورۂ فاتحہ کا دم کیا تھا اور اس کے طرق میں سات مرتبہ کا ذکر بھی ہے۔[21]
11۔ آیۃ التطهىر
سورۂ احزاب كى آىت: 33 آىۃ التطہىر كہلاتى ہے۔ تطہىر كا مطلب ہے پاك صاف كرنا۔ اس آىت مباركہ مىں اس بارے مىں بات ہے اس وجہ سے ىہ آىت آىۃ التطہىر كے نام سے موسوم ہے۔ آىت ﴿وَ قَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ ﴾ سے شروع ہوتى ہے اور اس مىں ﴿ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًاۚ﴾ ’’سوائے اس كے نہىں اللّٰہ ارادہ كرتا ہے كہ اے اہل بىت! اللّٰہ تعالىٰ تم سے ناپاكى دور كردے اور تمھىں پورى طرح پاك صاف كردے۔‘‘
آىت كا سىاق و سباق ازواج مطہرات سے متعلق ہے مگر ﴿ عَنْكُمُ ﴾چونكہ مذكر مخاطب كے لىے آتا ہے اس لىے ىہ اہل سنت اور شىعہ مفسرىن كے ہاں محل نزاع بن گىا۔ حالانكہ اہل تشىع پىغمبرﷺ كے بعد جس پہلى ہستى كو اس كا مصداق ٹھہراتے ہىں، وہ بھى خاتون بلكہ جنتى خواتىن كى سردار سىدہ فاطمہ ہىں۔
ىہ اىك طوىل بحث ہے جو علىحدہ مضمون كى متقاضى ہے سرِدست ہم شىخ الاسلام ابن تىمىہ﷫ كى اىك عبارت كا ترجمہ پىش كرتے ہىں: ’’ىہ فضىلت و منقبت محض ازواج مطہرات كے لىے نہىں ہے بلكہ ىہ جملہ اہل بىت كو شامل ہے۔ اور سىدنا على، فاطمہ، حسن اور حسىن كو دوسرے اہل بىت كى نسبت خصوصىت حاصل ہے، اسى لىے نبى كرىمﷺ نے ان كے لىے خصوصى طور پر دعا فرمائى۔ اس كى مثال اسى طرح ہے جس طرح فرمانِ الٰہى ہے: ﴿ لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَى التَّقْوٰى مِنْ اَوَّلِ يَوْمٍ ﴾ ’’البتہ وہ مسجد جس كى بنىاد روزِاول ہى سے تقوے پر ركھى گئى ہے۔‘‘[22]اس كا نزول تو مسجد قبا سے متعلق ہے لىكن ىہ حكم اسے اور جو اس سے بھى زىادہ اس اعزاز كى مستحق ہے اسے بھى شامل ہے اور وہ مسجد نبوى ہے۔[23]
محب الدىن طبرى فرماتے ہىں: ىہ حدىث (حدىث كسا٫)ازواج مطہرات كو اہل بىت مىں شامل كرنے مىں ركاوٹ نہىں كىونكہ اگر كوئى شخص اپنے كچھ بچوں كى طرف اشارہ كركے كہے كہ ىہ مىرے بچے ہىں اس سے ىہ لازم نہىں آتا كہ ان كے علاوہ اس كے اور بچے نہ ہوں، نىز ىہ بھى ممكن ہے كہ اس حدىث سے اس وہم كا دفاع كرنا بھى مقصود ہو كہ آپﷺ كى صاحبزادى سىدہ فاطمہ اور ان كى اولاد آپﷺ كے اہل بىت مىں سے نہىں۔[24]
آىتِ تطہىر سے متعلقہ اور بھى كئى ابحاث ہىں مگر اپنے موضوع سے ہٹنے كا اور طوالت كا خدشہ ہے۔
12۔ آیۃ التخییر
سورۂ احزاب کی آیت نمبر 51’آیۃ التخییر‘ کہلاتی ہے۔ تخییر کا مطلب ہے: اختیار دینا۔ اس آیت میں رسول اکرمﷺ کو ان خواتین کے متعلق یہ اختیار دیا گیا کہ آپ اُنھیں عقد میں لے لیں یا اُن کا معاملہ مؤخر کردیں جو اپنے آپ کو نبیﷺکے لیے ہبہ کردیتی تھیں۔ آیتِ مبارکہ یہ ہے:
﴿تُرْجِيْ مَنْ تَشَآءُ مِنْهُنَّ وَ تُـْٔوِيْۤ اِلَيْكَ مَنْ تَشَآءُ١ؕ وَ مَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكَ١ؕ ﴾[25]
’’ان میں سے جسے آپ چاہیں مؤخر کردیں اور جسے چاہیں اپنے پاس جگہ دے دیں اور جنھیں آپ نے علیحدہ کردیا ہو، ان میں سے کسی کو طلب کریں تو بھی آپ پر کوئی گناہ نہیں۔‘‘
اس اختیار کے بارے میں ائمہ مفسرین میں اختلاف ہے کہ آیا ان سے وہ خواتین مراد ہیں جنھوں نے خود کو آپﷺ کے لیے ہبہ کردیا یا جو ازواجِ مطہرات ﷢ موجود تھیں، ان کی باری مقرر کرنے کے بارے میں اختیار دیا گیا تھا۔
امام ابن جریر طبری ﷫ نے دونوں طرف کے دلائل سامنے رکھ کر مذکورہ آیت سے دونوں قسم کے اختیار ہی مراد لیے ہیں۔ اور امام ابن کثیر ﷫ نے اسے ایک عمدہ موقف قرار دیا ہے۔ [26]
13۔ آیۃ الحجاب
سورۂ احزاب کی آیت نمبر 53 آیتِ حجاب کہلاتی ہے۔ اس کا آغاز ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُيُوْتَ النَّبِيِّ اِلَّاۤ اَنْ يُّؤْذَنَ لَكُمْ﴾ سے ہوتا ہے۔ اس میں ازواجِ مطہرات ﷢سے پردے کے پیچھے سے سوال کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ سورۂ احزاب کی آیت: 55 اور آیت: 59میں پردے کے مزید احکام نازل ہوئے۔ یادرہے کہ پردے کے حکم کا نزول سیدنا عمر﷜ کی خواہش پر ہوا تھا۔ انھوں نے اللّٰہ کے رسولﷺ سے عرض کیا: اے اللّٰہ کے رسول! آپ کی ازواجِ مطہرات کے پاس نیک اور برے ہر طرح کے لوگ آتے رہتے ہیں۔ آپ اُنھیں پردے کا حکم دیجیے، لہٰذا اللّٰہ تعالیٰ نے حکم حجاب نازل فرمادیا۔[27]
سیدنا انس ﷜کہتے ہیں کہ حجاب کا حکم نازل ہوا۔ اس کے بعد جب آپﷺ واپس تشریف لائے۔ اپنا قدم مبارک کاشانۂ نبوت کے اندر رکھا، دوسرا قدم ابھی باہر تھا تو آپ ﷤ نے میرے اور اپنے (گھر والوں کے) درمیان پردہ لٹکالیا۔[28] اس وقت سیدنا انس﷜ کی عمر 15 سال کے لگ بھگ تھی۔
پردے کا حکم کب نازل ہوا؟... سیدہ زینب بنت جحش ؓ کا نبیﷺ سے نکاح ذی قعدہ 5 ہجری میں ہوا۔ اور ولیمے کی تقریب کے دوران ہی حکم حجاب نازل ہوا۔ اس سے واضح ہوا کہ پردے کا حکم5 ہجری میں نازل ہوا۔ اس حکم کے نازل ہونے کے بعد پردے میں ایک واضح فرق آگیا۔ اس فرق کو آپ اُمّ المومنین عائشہ صدیقہ ؓ کے حسب ذیل واقعے سے جان سکتے ہیں۔ وہ واقعہ افک بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں: میں بیٹھی تھی کہ میری آنکھ لگ گئی۔ اتنے میں صفوان بن معطل ﷜ نے مجھے دیکھا اور پہچان لیا۔ انھوں نے مجھے (حکمِ) حجاب سے پہلے دیکھا ہوا تھا۔ اُنھوں نے مجھے دیکھ کر اناللّٰہ پڑھا تو مجھے جاگ آگئی تو میں نے فوراً اپنی چادر سے اپنا چہرہ ڈھانپا۔[29]
قارئین کرام! آپ نے پڑھا کہ مادرِ اُمّت عائشہ صدیقہ ؓ کہتی ہیں کہ انھوں نے مجھے حکم حجاب کے نزول سے پہلے دیکھا ہوا تھا اس لیے انھوں نے پہچان لیا۔ اور واقعہ افک غزوہ بنو مصطلق؍مریسیع سے واپسی پر پیش آیا تھا۔ اس لحاظ سے جن مؤرخین نے غزوہ بنو مصطلق؍ مریسیع کی تاریخ 6 ہجری بتائی ہے، وہ قرینِ قیاس معلوم ہوتی ہے۔ بہرحال حجاب کا حکم نازل ہونے کے بعد مسلم خواتین اپنے چہرے کو بھی ڈھانپنے لگیں۔ اور حجاب کا حکم نازل ہونے کا مطلب بھی یہی تھا بقیہ جسم تو پہلے ہی ڈھانپا جاتا تھا۔
یہ تھیں وہ 13 آیات جن کے باقاعدہ نام ہیں اور ان کے کچھ احکام اور سببِ نزول بھی ذکر ہوئے۔ اللّٰہ تعالیٰ دین کا صحیح فہم ونصب فرمائے۔ آمین!


[1]    المنتخب للجنة جامعة الأزهر،زیر آیت: 232

[2]    صحىح بخاری، حدىث: 4529

[3]    صحىح بخاری، حدىث: 5130

[4]    السلسلۃ الصحیحۃاز شیخ محمد ناصر الدین البانی: 109

[5]    السلسلۃ الصحیحۃ: 1؍109

[6]    السلسلۃ الصحیحۃ:6118

[7]    السلسلۃ الصحیحۃ: 13؍267

[8]    صحیح مسلم: 1921

[9]    السلسلۃ الصحیحۃ: 24:2

[10] صحیح بخاری: 2311

[11] السلسلۃ الصحیحہ:3162

[12] السلسلۃ الصحیحۃ: 1805

[13] صحیح بخاری: 4654

[14] مسند احمدبن حنبل: 1؍26

[15] مسند احمد: 3؍298

[16] تفسیر ابن کثیر، زیر آیت سورۃ النسا4٫ :11

[17] سورۃ التوبۃ 5:9

[18] صحیح بخاری، حدیث: 4654

[19] سورۃ البقرۃ 12:2

[20] سورۃ التوبۃ 29:9

[21] جامع ترمذی: حدیث 2063

[22] التوبۃ 108:9

[23] منہاج السنۃ النبوىۃ: 4؍48

[24] السمط الثمىن في مناقب أمهات المؤمنىن ازامام محب الدین طبری: ص 21

[25] سورۃ الاحزاب 51:33

[26] تفسیر ابن کثیر زیر آیت سورۃ الاحزاب:51

[27] صحیح بخاری: 4483

[28] صحیح بخاری:4793

[29] صحیح بخاری:4750